کھانے پینے یا شادی بیاہ کرنے کرانے میں بذاتِ خود کوئی گناہ نہیں۔ حضرت نوحؔ کے زمانہ میں شادی بیاہ کرنا جائز تھا اور اب بھی جائز ہے بشرطیکہ جو جائز ہے۔ اس سے جائز سلوک کیا جائے اسے گناہ کی حد تک نہ بڑھایا جائے۔ لیکن حضرت نوحؔ کے زمانہ میں آدمیوں نے خدا کی مشورت کے بغیر شادیاں کیں اور خدا کی ہدایت اور مشورہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی کے تمام تعلقات محض بے ثباتی نوعیت کے ہیں اور جو کچھ ہم کرتے یا کہتے ہیں۔ اس سب پر اصلاح پذیر ہونا چاہیے۔ حضرت نوحؔ کے زمانہ میں اس چیز کے لیے جو بذات خود جائز تھی اور جس کو صحیح طور پر استعمال کرنا چاہیے تھے۔ بے لگام اور حد سے تجاوز محبّت اور عشق بڑھ گیا تھا۔ اس لیے خدا کے سامنے ایسی شادی ناجائز ٹھہری ۔ آج کل بھی بہترے ایسے لوگ ہیں جو شادی بیاہ کرنے اور صرف اِسی رشتہ کے دام میں گرفتار ہو کر خود کو تباہ و برباد کر رہے ہیں ۔ شادی کا رشتہ پاک ہے لیکن اس بُرے زمانہ میں اس میں بھی ہر طرح کی بدی اور بُرائی پائی جاتی ہے۔ اُسے غلط استعمال کیا جاتا ہے اور اب یہ ایک جُرم بن کر اس آخری زمانہ کے نشانات میں سے ایک نشان بن کر رہ گیا ہے بلکہ جیسے کہ قبل از طوفان شادیوں کا نظم و نسخ کیا جاتا تھا۔ اور شادیاں ایک جُرم اور مکرو فعل بن گیا تھا ویسے ہی آج بھی یہ ایک جُرم اور مکروہ فعل بن کر رہ گیا ہے۔ خدا اس وقت شادی کو قبول فرماتا ہے اور یہ رشتہ دونوں گروہوں کے لیے موجب خوشی اور خدا کی تمجید ہوتا ہے۔ جب اس رشتہ کی مقدّس نوعیت اور اس کے مطالبات صحیح طور پر مانے جاتے ہیں۔ CChU 189.3