میدانی مخملی گھاس کے اُوپر شام کے وقت شفق کی جولانی میں لوگوں نے وہ کھانا کھایا جو یسوع نے اُن کے لئے بہم پہنچایا تھا۔ اُس دن جو کلام اُنہوں نے سنا ایسا تھا جیسے خدا کی آواز ہو۔ اور جو شفا کی قدرت اس دن دیکھی گئی وہ صرف ذات الہی کا حصہ تھی۔ مگر روٹیوں کے معجزے سے ہر کوئی متاثر ہوا۔ کیونکہ اس سے ہر کس و ناکس مسفید ہوا۔ موسی کے زمانہ میں خداوند خدا نے بیابان میں بنی اسرائیل کو من کھلایا۔ کون تھا جس نے اُنہیں سیر کیا؟ یہ وہی تھا جس کے بارے جناب موسٰی نے پہلے سے پیشنگوئی کر رکھی تھی۔ کوئی انسان جو کی پانچ روٹیوں اور چند چھوٹی مچھلیوں سے ہزاروں بھوکے لوگوں کا پیٹ نہیں بھر سکتا مگر یسوع کی اس قدرت کو دیکھ کر لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے جو نبی دُنیا میں آنے والا تھا فی الحقیقت یہی ہے یوحنا 14:6 ZU 457.1
سارا دن اُن کی اس قائلیت کو تقویت ملتی رہی۔ اُنہیں یقین ہو چکا تھا کہ جو آنے والا تھا آج اُن کے درمیان موجود ہے۔ لوگوں کی اُمید بدرجہ اُتم پہنچ گئی۔ وہ دعوے سے کہہ سکتے تھے کہ وہ یہی ہے جو یہودیہ کو بہشت بناسکتا ہے، جس میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہتی ہوں۔ وہ ہر ایک خواہش کی تکمیل کر سکتا ہے۔ وہ نفرت انگیز رومیوں کی قوت کو پاش پاش کر سکتا ہے۔ وہ یہودیہ اور یروشیلم کی غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکتا ہے ۔ وہ جنگ میں زخمی ہونے والے سپاہیوں کو چنگا بھلا کر سکتا ہے۔ اُس میں قدرت ہے کہ ساری کی ساری فوج کو کھانا مہیا کر سکے۔ وہ قومو ں کو فتح کر سکتا ہے۔ اور بنی اسرائیل کو بادشاہی عطا کر سکتا ہے جس کے ہم مدتوں سے منتظر تھے۔ ZU 457.2
اس جوش و جذبہ میں معمور بھیڑ یسوع کو اُسی وقت بادشاہ بنانے پر تُل گئی۔ اُنہوں نے دیکھا کہ یسوع مسیح بذات خود یہ عزت و تکریم حاصل کرنے کے لئے تھوڑی بہت بھی تگ و دو نہیں کر رہا۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ اُسے تخت و تاج کی کوئی ہوس نہیں۔ وہ حیران تھے کہ اس معاملہ میں وہ فقیہ فریسی اور حاکموں سے کسقدر مختلف ہے۔ بلکہ اُنہیں ڈر تھا کہ یہ کبھی بھی داود کے تخت کا دعویدار نہ ہو گا۔ چنانچہ صلاح و مشورہ کے بعد اُنھوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم اسے پکڑ کر زبردستی بنی اسرائیل کا بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ شاگرد بھی بھیڑ کے ساتھ یہ اعلان کرنے کے لئے متحد ہو گئے کہ یسوع ناصری ہی داود کے تخت کا جائز حقدار ہے۔ تمام لوگ اُسکے حضور سجدہ بجا لائیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ سرداروں کاہنوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھی آ کر اُس کی تعظیم کریں جو خدا کے اختیار کے ساتھ مُلبس ہر کر آیا ہے۔ ZU 458.1
بھیڑ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بڑی مشتاق تھی۔ مگر یسوع مسیح کو بخوبی علم تھا کہ اس تحریک کے کیا نتائج ہونگے؟ یہ سادہ لوگ اس بات سے با لکل بے خبر تھے۔ کیوں کہ اس وقت سردار اور فقیہ فریسی اور کاہن اس کی جان لینے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ ان کے اس فعل سے دہشت گردی اور بغاوت سر اٹھائے گئی اور اس کی روحانی بادشاہت کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں اٹھ کھڑی ہوں گی۔ یسوع نے وقت ضائع کئے اس تحریک کو روکا۔ اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ کشتی میں بیٹھ کر فوراً کفر نحوم کو چلے جائیں۔ ”اور فی الفور اس نے اپنے شاگردوں کو مجبور کیا کہ کشتی میں بیٹھ کر اس سے پہلے چلے جائیں جب تک وہ لوگوں کو رُخصت کرے“ یوحنا 45:6 ZU 458.2
شاگرد اس تحریک کی انتظار کافی عرصہ سے کر رہے تھے کہ اسے تاج پہنائیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کی یہ تحریک اور اُن کا یہ جوش و خروش رائیگاں جائے۔ وہ بھیڑ جو عید فسح منانے کو آئی ہوئی تھی ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ نئے پیغمبر کو دیکھیں۔ شاگردوں نے یہ سنہری موقع جانا کہ اپنے ہر دلعزیز استاد کو بنی اسرائیل کے تخت پر بٹھائیں۔ اس خوشی کے موقع پر وہ یسوع کو ویران جگہ چھوڑ کر کہیں اور نہیں جانا چاہیئے تھے۔ اُنہوں نے احتجاج کیا کہ ہم تجھے اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ ZU 459.1
مگر یسوع نے اُنہیں سختی سے حکم دیا۔ اس سے پہلے اُس نے کبھی بھی شاگردوں کو اتنی سختی سے کوئی حکم نہ دیا تھا۔ اس سے پہلے اُس نے کبھی بھی شاگردوں کو اتنی سختی سے کوئی حکم نہ دیا تھا۔ اب شاگردوں کو بخوبی علم ہر گیا کہ اس بارے اُن کی مزید ہٹ دھرمی بے سود ہو گی۔ پس وہ خاموشی کے ساتھ سمندر کی جانب چل دیئے۔ اس کے بعد یسوع نے بھیڑ کو حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی راہ لیں۔ بلکہ اس انداز میں فرمایا کہ اُن میں حکم عدولی کی تاب نہ رہی۔ حمدو ستائش کے جو وہ نعرے لگارہے تھے اُن کے لبوں میں دب کر رہ گئے۔ اور یسوع کو زبردستی پکڑ کر بادشاہ بنانے والوں کے قدم وہیں کے وہیں رُک گئے۔ اور وہ چہرے جو تھوڑی دیر پہلے انجانی خوشی سے تمتمارہے تھے مرجھا گئے۔ بیشک اپس بھیڑ میں پختہ عزم و ارادے کے لوگ بھی موجود تھے مگر مسیح یسوع کے چند تحکمانہ کلمات اُن کے منصوبہ کو ملیا میٹ کرنے کے لئے بے حد کار گر ثابت ہوئے۔ اُنہوں نے یسوع میں وہ قدرت اور اختیار دیکھا جو کسی انسان میں یہیں ہو سکتا۔ اسلئے وہ اُس کے تابع ہو گئے۔ ZU 459.2
جب یسوع تنہا رہ گیا تو وہ پہاڑ پر جا کر دُعا کرنے لگا۔ گھنٹوں تک وہ خداوند خدا سے التجا کرتا رہا اپنے لئے نہیں بلکہ لوگوں کے لئے۔ اُس کی دُعا یہ تھی کہ اے باپ ان پر میری بادشاہی کی حقیقی نوعیت آشکارہ کرتا کہ ابلیس اُن کی بصیرت کو دھندلا نہ دے۔ خداوند یسوع مسیح جانتا تھا کہ اُس کی خدمت اس دھرتی پر قریب قریب ختم ہو چکہ ہے نیز اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ بہت کم لوگ اُسے بطور نجات دہندہ قبول کر یں گے۔ اس کشمکش کی گھڑی میں اُس نے اپنے شاگردوں کے لئے بھی دُعا مانگی کیونکہ اُن پر بڑی آزمائش آنے کو تھی۔ فریب خوردہ اُمیدوں کے مٹ جانے پر شاگردوں کو دلی صدمہ اور ہزیمت کا سامنا تھا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اُسے داود کے تخت پر براجماں دیکھنے کے برعکس اُنہوں نے یسوع کی مصلوبیت کا گواہ بننا تھا۔ اور دیکھا جائے تو حقیقت میں یہی اُس کی تاج پوشی تھی۔ شاگرد اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ اسی لئے اُن پر زبردست آزمائش غالب آئی جسے وہ پہچان نہ سکے۔ اگر روح القدس اُن کے ایمان کو مضبوط اور اُن کی بصیرت کو روشن نہ کرتا تو شاگردوں کے ناکام ہو جانے کا خطرہ تھا۔ سب سے زیادہ یسوع کو اس بات پر دُکھ تھا کہ اسکے اپنے شاگرد روحانی اور آسمانی بادشاہت کو دُنیاوی طریق سے لے رہے ہیں۔ اُن کی وجہ سے اُسکا دل بڑا دُکھی تھا۔ اس لئے اُس نے اُن کے حق میں باپ سے رو رو کر دُعا مانگی۔ ZU 460.1
یسوع کے کہنے پر شاگرد فوراً خشکی سے سمندر کی جانب روانہ نہ ہوئے۔ تھوڑی دیر تک یہ سمجھتے ہوئے اُس کا وہیں انتظار کیا کہ وہ جلد ہم سے آ ملے گا۔ لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ اندھیرا ہوا چاہتا ہے اور وہ نہیں آیا تو کشتی میں داخل ہوئے اور کفر نحوم کی طرف چل دیئے۔ وہ یسوع سے بادل نخواستہ جُدا ہوئے۔ وہ بڑبڑا رہے تھے کہ اُس نے اُنہیں بادشاہ بنانے کی اجازت نہیں دی۔ اُس کا حکم ماننے پر بھی وہ خود کو لعنت ملامت کر رہے تھے۔ بلکہ آپس میں بحث کرتے جاتے تھے کہ اگر ہم ثابت قدمی کا ثبوت دیتے تو اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہو جاتے۔ کم اعتقادی اُن کے دل و دماغ پر چھا رہی تھی۔ جاہ و چشم کی محبت نے اُنہیں اندحا کر رکھا تھا شاگرد جانتے تھے کہ فریسی یسوع سے نفرت کرتے ہیں۔ اسلئے وہ چاہتے تھے کہ وہ یسوع کو بادشاہ بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں تاکہ فریسی بھی اُس کے جلال کو دیکھیں۔ کیا یسوع کبھی بھی بادشاہ کی طرح حکمرانی نہیں کرے گا؟ کیوں نہ اُس نے اُس سیرت اور قدرت کو ظاہر کیا جسکا وہ مالک تھا تاکہ اُن کا درد کم ہوتا؟ کیوں اُس نے یوحنا کو تشدد کی موت مرنے دیا؟ شاگرد اس طرح کی قیاس آرائیاں کرتے رہے جب تک روحانی تاریکی اُن پر چھا نہ گئی۔ وہ خود سے سوال کرتے تھے کہ آیا یسوع دھوکے باز اور مکار ہے جیسے فریسی بھی خیال کرتے ہیں؟ ZU 460.2
اُس دن شاگردوں نے خداوند مسیح سے عجیب و غریب کام دیکھے تھے۔ بلکہ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے آج آسمان زمین پر اُتر آیا ہو۔ اُس شاندار دن کی یاد سے اُن کا ایمان اور اُمید بڑھ گئی۔ اگر وہ اپنے دل میں ان تمام عجائب کا ذکر کرتے رہتے تو اس آزمائش میں نہ گرتے۔ مگر مایوسی اُن کے تمام خیالات پر چھا چکی تھی۔ یسوع مسیح کے اس کلام “بچے ہوئے ٹکڑے جمع کر لو۔ کچھ بھی ضائع نہ کرو” کی طرف اُنہوں نے کوئی دھیان نہ دیا یہ لمحات شاگردوں کے لئے بڑی برکت کا باعث تھے مگر بدقسمتی سے وہ اُن کو بھول گئے۔ وہ طوفانی پانی کے اندر تھے۔ اُن کے خیالات متلاطم خیز اور غیر مناسب تھے۔ اُن خیالات سے بچانے کے لئے خداوند خدا نے اُن کے ذہن اور روح میں کوئی اور چیز بھر دی۔ جب انسان اپنے لئے مصیبت اور بوجھ پیدا کر لیتا ہے تو خداوند اکثر اُسے ایسا کرنے دیتا ہے۔ خطرہ بڑی تیزی سے اُن کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ZU 461.1
ایک بڑا ہولناک سمندری طوفان اُن پر آگیا اور وہ اُس کے لئے تیار نہ تھے۔ جو پُر امن دن اُنہوں نے گذارہ تھا یہ سب کچھ اُس کے برعکس تھا۔ اور جب بپھرتی ہوئی لہر اُن کی کشتی سے ٹکرائی تو وہ بد حواس ہو گئے۔ ہر ایک کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے ہر ممکنہ تدبیر عمل میں لانے لگا۔ اب وہ بیت صیدا سے تھوڑی ہی دُور تھے جہاں وہ یسوع سے ملنے کے متوقع تھے۔ عام حالات میں یہ سفر صرف چند ہی گھنٹوں کا تھا۔ مگر خراب موسم کی وجہ سے وہ منزل مقصود سے پرے ہی پرے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ رات کا چوتھا پہر آ گیا اور وہ ابھی تک چپو چلا رہے تھے۔ آخر یہ تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ سمندری طوفان اور ظلمت نے اُنہیں اُن کی بے بسی کا سبق سکھایا۔ اب ہر ایک اپنے دل میں دعا مانگ رہا تھا کاش اس وقت ہمارا آقا ہمارے ساتھ ہوتا۔ ZU 462.1
خداوند یسوع مسیح اُنہیں بھُلا نہیں بیٹھا تھا۔ اس نے کنارے پر سے ہی تاڑ لیا تھا کہ وہ کس طرح تلاطم سے دو چار ہیں۔ ایک لمحہ کے لئے بھی اُس نے اُنہیں اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں کیا تھا۔ اُس کی نظریں طوفان سے ٹکراتی ہوئی کشتی پر لگی تھیں۔ کشتی کے سوار اُس کی نظر میں بڑے عزیز تھے۔ کیونکہ وہ دُنیا کا نور تھے۔ جیسے ماں اپنی محبت میں بچے کی نگرانی کرتی ہے اُسی محبت سے یسوع اپنے شاگردوں کا دھیان رکھ رہا تھا۔ جب اُنہوں نے اپنے دل یسوع کے سپردیئے اُن کی دُنیاوی خواہشات ٹھنڈی پڑ گئیں اور اُنہوں نے یسوع کو مدد کے لئے پکارا، تو اُن کی مدد بہم پہنچائی گئی۔ ZU 462.2
جس لمحے وہ متفکر تھے کہ ہم برباد ہوئے اُسی وقت روشنی کی کرن میں اُنہوں نے پانی پر ایک پُر اسرار سایہ اپنی طرف آتے دیکھا۔ مگر اُنہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ یسوع ہے۔ جو اُن کی مدد کے لئے آیا۔ اُنہوں نے سوچا کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ چنانچہ وہ سب گبھراہٹ سے سراسیمہ ہو گئے۔ وہ ہاتھ جو پتواروں کو بڑی مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے خوف سے ڈھیلے پڑ گئے۔ اور کشتی لہروں کے تابع ہو کر ہچکولے کھانے لگی۔ کشتی میں سوار سب کی آنکھیں اب اُس کی طرف لگی ہوئی تھی جو متلاطم سمندر کے پانی پر چل کر اُن کی طرف آرہا تھا۔ اُنہوں نے سوچا کہ یہ بھوت ہے جو ان کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا وہ خوف سے چیخنے لگے۔ یسوع پانی پر چلتا ہوا اُن کے قریب پہنچا اور پھر اپس کے ڈھنگ سے ایسے معلوم ہوتا تھا۔ جیسے اُن کے پاس سے گذرجانا چاہتا ہو۔ مگر اُنہوں نے اُسے پہچان لیا۔ اور مدد کے لئے چلائے۔ آقا پیچھے مڑا۔ اُس کی آواز سے اُن کا خوف جاتا رہا۔ یسوع نے اُنہیں کہا ”خاطر جمع رکھو میں ہوں ڈرو مت“ متی 27:14 ZU 463.1
ایسے معلوم ہوتا ہے کہ پطرس کو ابھی بھی یقین آیا تھا کہ یہ یسوع ہے۔ اسلئے کہنے لگا اے خداوند اگر تو ہے تو مجھے حکم دے کہ پانی پر چل کر تیرے پاس آوں۔ اُس نے کہا آ۔ پطرس کشتی سے اُتر کر یسوع کے پاس جانے کے لئے پانی پر چلنے لگا۔ پھر اپنے آپ میں مطمئن ہو کر اپنے ساتھیوں کی طرف پلٹ کر دیکھنے لگا۔ یوں اُس کی آنکھیں یسوع سے ہٹ گئیں۔ سمندر میں ابھی تک طوفانی لہروں کا خطرہ تھا جو پطرس اور یسوع مسیح کے درمیان حائل ہو گئیں اور پطرس ڈر گیا۔ یسوع تھوڑی دیر کے لئے اُس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ چنانچہ اُس کا ایمان جاتا رہا اور وہ ڈوبنے لگا۔ لیکن جب خونی لہروں سے پطرس پانی کی سطح پر آیا اور اُس کی نظریں یسوع سے دو چار ہوئیں تو اس سے پہلے کہ وہ پھر پانی کے نیچے چلا جاتا۔۔۔۔یسوع سے چلا کر کہنے لگا مجھے بچا۔ یسوع نے فوراً ہاتھ بڑھا کر اُسے پکڑ لیا اور اُس سے کہا اے کم اعتقاد تو نے کیوں شک کیا؟۔۔۔ یسوع کے ساتھ چلتے چلتے آقا نے پطرس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور دونوں کشتی میں سوار ہو گئے ازان بعد پطرس بالکل خاموش تھا۔ اُس نے اب خود کو پوری طرح یسوع کے تابع کر رکھا تھا اُس کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ اپنے ساتھیوں کے سامنے فخر کر سکے کیوں کہ فخرو غرور کے سبب ہی وہ تقریباً مر چکا تھا۔ کیوں کہ جونہی اُس نے یسوع سے اپنی نظریں ہٹائیں تھیں وہ طوفانی لہروں میں گم ہو گیا تھا۔ ZU 463.2
جب ہم پر مصیبت آتی ہے ہم بھی اکثر پطرس کی طرح عمل کرتے ہیں۔ نجات دہندہ کی طرف تکنے کی بجائے لہروں کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ہمارے پاوں لڑکھڑا جاتے ہیں۔ اور تندو تیز پانی کی لہریں ہمارے اوپر سے گذر جاتی ہیں۔ یسوع مسیح نے پطرس کو تباہ ہونے کے لئے نہیں بلایا تھا۔ نہ وہ ہمیں بلا کر بعد میں بھول جاتا ہے۔ بلکہ وہ تو کہتا ہے۔ خوف نہ کر کیوں کہ میں نے تیرا کفارہ دیا ہے۔ میں نے تجھے تیرا نام لیکر بلایا ہے۔ تو میرا ہے۔ جب تو سیلاب میں سے گذرے گا تو میں تیرے ساتھ ہوں گا اور جب تو ندیوں کو عبور کرے گا تووہ تجھے نہ ڈبو ئیں گی۔ جب تو آگ پر چلے گا تو تجھے آنچ نہ لگے گی اور شعلہ تجھے نہ جلائے گا۔ کیوں کہ میں خداوند تیرا خدا اسرائیل کا قدوس تیرا نجات دینے والا ہوں۔ یسعیاہ 1:43-3 خداوند یسوع مسیح اپنے تمام شاگردوں سے سبھاو سے اچھی طرح واقف تھا۔ اُس کو معلوم تھا کہ اُن کے ایمان کی کتنی ناگوار آزمائش ہوئی ہے۔ سمندر کے طوفانی واقعہ سے مسیح خداوند پطرس پر اُس کی کمزوری واضح کر نا چاہتا تھا۔ اور اُس کو مزید یہ بتانا چاہتا تھا کہ خدا میں بھروسہ رکھنے میں ہی اُس کی بھلائی ہے۔ آزمائشوں کے طوفان میں وہ اُسی صورت میں بحفاظت چل سکتا ہے اگر وہ مکمل توکل یسوع پر کرے۔ یہی پطرس کی سب سے بڑی کمزوری تھی کہ وہ سمجھتا تھا کہ میں خود یہ یا وہ کام خدا پر انحصار کئے بغیر بھی کر سکتا ہوں۔ لیکن پانی پر چلنے اور طوفان کے تجربہ سے اُسے معلوم ہو گیا کہ وہ نجات دہندہ کے بغیر کوڑی کا بھی نہیں۔ جو سبق خداوند مسیح پطرس کو سمندر کے طوفان سے سیکھانا چاہتا تھا اگر وہ سیکھ لیتا تو وہ اُس بڑی آزمائش میں ناکام نہ ہوتا جو بعد میں اُس پر آئی۔ ZU 464.1
آئے روز خداوند اپنے بچوں کو ہدایت دیتا رہتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی کے حالات کی بدولت وہ اُنہیں بڑی بڑی آنے والی آزمائشوں کے لئے تیار کر رہا ہے۔ روز مرہ کی آزمائش ہی زندگی کے بڑے بڑے انحطاط کے لئے کامیابی یا ناکامی بخشتی ہیں۔ جو خداوند پر بھروسہ کرنا بھول جائیں گے اُن کو آزمائشیں دبا لیں گی۔ شاید اب ہم گمان کریں کہ ہمارے قدم محفوظ ہیں اور ہمیں جنبش نہ ہو گی۔ ہم شاید پُر اعتماد ہو کر کہہ سکیں کہ میں جانتا ہوں جس میں میرا ایمان ہے کوئی چیز بھی خدا اور اُس کے کلام سے میرا ایمان ڈگمگا نہیں سکتی۔ مگر ابلیس اس تاک میں ہے کہ ہماری آنکھیں ہمارے اُن نقائص کی طرف سے بند کر دے جو ہم میں پائے جاتے ہیں۔ وہ ہماری وراثتی کمزوریوں کا بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ صرف اپنی کمزوریوں کو مانتے اور یسوع پر تکتے ہوئے ہم آزمائشوں سے بچ سکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب یسوع نے کشتی میں قدم رکھا طوفان موقوف ہو گیا۔ “اور جو کشتی پر تھے اُنہوں نے سجدہ کر کے کہا یقیناً تو خدا کا بیٹا ہے” متی 32:14-33 ZU 465.1
****