فقیہی اور فریسی عید فسح پر یسوع سے ملنے کی توقع رکھتے تھے تاکہ اُسے اپنے جال میں پھنسائیں۔ مگر یسوع اُن کے ارادوں سے پیشتر ہی واقف تھا اسلئے وہ عید فسح میں شامل نہ ہوا۔ ZU 484.1
”پھر فریسی اور بعض فقیہ اُس کےپاس جمع ہوئے۔ وہ یروشیلم سے آئے تھے۔“ یوحنا 1:7۔۔۔۔۔ یسوع مسیح اُن کے پاس نہ گیا تو وہ اُس کے پاس چلے آئے۔ وقتی طور پر ایسے دکھائی دے رہا تھا کہ گلیل کا پورا علاقہ یسوع پر ایمان لے آیا ہے اور مذہبی حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ بارہ شاگردوں کے کام کی رپورٹ سے معلوم ہوتا تھا کہ یسوع کے مشن کو مزید وسعت اور تقویت ملی ہے۔ اسلئے یروشیلم میں شرع کے معلم اور مذہبی قیادت یسوع کے خلاف تعصب اور قہر سے بھر گئی۔ یسوع مسیح کی ابتدائی خدمت کے دوران اُنہوں نے کفر نحوم میں جاسوس روانہ کئے تھے جنہوں نے اُس پر سبت توڑنے کا الزام لگایا تھا مگر اُس کی خدمت دیکھ کر وہ اُلجھن کا شکار ہو گئے اس کے باوجود شرع کے معلم اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے تہیہ کئے بیٹھے تھے۔ اُنہوں نے ایک اور وفد بھیجا تا کہ یسوع کے خلاف کوئی الزام ڈھونڈ سکیں۔ پہلے کی طرح اب بھی اُس پر یہ الزام تھا کہ یہ روایات کو توڑتا اور خدا کی شریعت کی بے حُرمتی کرتا ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ تمام روایات کا مقصد یہ تھا کہ وہ خدا کی شریعت کی حفاظت کرِن۔ مگر اس کے برعکس خدا کی شریعت کی نسبت روایات کی زیادہ پاسداری کی جاتی تھی۔ اُنہیں خدا کی شریعت سے زیادہ پاک اور مقدس خیال کیا جاتا تھا۔ ZU 484.2
ان تمام روایات میں جسمانی طہارت پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ کھانا کھانے سےپہلے ایسی کسی روائت کو ٹالنا گناہ خیال کیا جاتا تھا ۔ ایسی طہارت سے متعلق بے شمار قوانین موجود تھے جن کو سیکھنے میں تقریباً تمام عمر درکار تھی۔ وہ جو ان قوانین کو مانتے اسن کی ساری عمر صفائی ستھرائی میں گزر جاتی۔ یوں وہ خدا کے احکام کی شریعت پر توجہ نہ دے سکتے۔ بہرحال ان مذہبی رہنماوں نے براہ راست یسوع کو ان روایات کو توڑنے کا نشانہ نہ بنایا۔ بلکہ اُس کے شاگردوں پر نکتہ چینی کی۔ اُنہوں نے کہا “تیرے شاگرد بزرگوں کی روایت کو کیوں ٹال دیتے ہیں کہ کھانا کھاتے وقت ہاتھ نہیں دھوتے۔ “متی 2:15۔۔۔۔ جب سچائی کا کلام کسی روح تک خاص قدرت کے ساتھ پہنچتا ہے تو ابلیس اپنے حواریوں کو اُبھارتا ہے کہ کسی معمولی بات پر جھگڑا کھڑا کر دیں۔ یوں وہ اصل مسلہ سے لوگوں کی توجہ ہٹا دیتا ہے۔ جب ابلیس ایسا کرتا ہے تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب خداوند خدا اپنے لوگوں کے لئے نہائت عجیب و غریب کام کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے اُن کو ایسی کشمکش میں شمولیت نہیں کرنی چاہیے جو اُن کی تباہی کا باعث ہو۔ ہمیں سب سے زیادہ یہ خیال ہونا چاہئے کیا میں خدا کے بیٹے پر بچانے والے ایمان کے ساتھ بھروسہ رکھتا ہوں؟ کیا میری زندگی الہی شریعت کے مشابہہ ہے؟ “جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے۔ لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھے گا” یوحنا 36:3۔۔۔ اگر ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں گے تو اس سے ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم اُسے جان گئے ہیں ۔ 1 یوحنا 3:2 ZU 485.1
مسیح یسوع نے نہ اپنے لئے اور نہ اپنے شاگردوں کے لئے کوئی عُذر داری پیش کی۔ اُس نے الزامات کا حوالہ دیئے بغیر انسانی روایات کی بات کو آگے بڑھایا۔ اُس نے اُن پر واضح کیا کہ جس کا تم دوسروں پر الزام لگاتے ہو خود وہی کچھ کرتے ہو۔ “تم اپنی روایت سے خدا کا حکم کیوں ٹالتے ہو؟ کیوں کہ خدا نے فرمایا ہے تو اپنے باپ کی اور اپنی ماں کی عزت کرنا اور جو باپ یا ماں کو بُرا کہے وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ مگر تم کہتے ہو کہ جو کوئی باپ یا ماں سے کہے کہ جس چیز کا تجھے مجھ سے فائدہ پہنچ سکتا تھا وہ خدا کی نظر ہو چکی۔ تو وہ اپنے باپ کی عزت نہ کرے۔” متی 4:15-6 ZU 486.1
یوں وہ پانچویں حکم کو ٹال رہے تھے۔ مگر بزرگوں کی روایت کے بارے وہ بڑے غیور تھے۔ وہ لوگوں کو سکھاتے تھے کہ والدین کی مدد کرنے سے ہیکل کی خدمت کرنا زیادہ ضروری ہے۔ اور جو چیز خدا کی نظر کر دی جاتی خواہ والدین کو اُ س کی کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہوتی وہ پوری چیز یا اُس کا جز بھی والدین کے لئے استعمال کرنا اُس نذر کی بے حرمتی کے برابر خیال کیا جاتا تھا۔ ایسے نافرمان بچے کو صرف یہ کہنا ہوتا تھا کہ “خدا کی نذر ” یعنی CORBAN اُس ملکیت کو وہ وہ ساری عمر اپنے پس رکھ کر اپنے لئے استعمال کر سکتا تھا مگر والدین خواہ کتنے ہی ضرورت مند کیوں نہ ہوں اُس میں سے ذرا بھر بھی استعمال کرنے کے روا دار نہ ہوتے تھے اور جب وہ بچہ وفات پا جاتا تو وہ چیز یا ملکیت ہیکل کی ہو جاتی اسی طرح وہ جیتے جی اور مر کر بھی آزاد ہوتا تھا کہ خدا کی آڑ لیکر والدین سے دھوکہ کرے اور بے گناہ رہے۔ خدا وند یسوع مسیح نے خدا کی ہدیے اور نذرانے دینے کے بارے میں نہ اپنے اعمال سے نہ گفتار سے کبھی بھی انسان کے اس فرض میں کمی کا اظہار نہ کیا۔ یہ تو خداوند یسوع مسیح ہی تھا جس نے ہدیوں کے بارے تمام احکام جاری کئے۔ جب وہ اس دُنیا میں تھا تو اُس نے اُس بیوہ کی بڑی تعریف کی جس نے اپنا سب کچھ ہیکل کے خزانہ میں ڈال دیا۔ مگر کاہن اور ربی خدا کے نام پر در پردہ اپنی عظمت کے خواہاں ہوتے تھے۔ وہ لوگوں کو دھوکا دیتے تھے۔ اور لوگوں کو بھاری بوجھ اُٹھانے پر مجبور کرتے تھے جو خداوند کی طرف سے عاءد نہ ہوئے تھے۔ حتٰی کہ مسیح خداوند کے شاگرد بھی پوری طرح ربیوں کے اختیار کے جوئے سے آزاد نہ تھے۔ اب ربیوں کی نیت سے پردہ اُٹھاتے ہوئے یسوع مسیح اُن سب کو انسانی روایات سے آزاد کرنے کا خواہاں تھا جو خدا کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ اسلئے یسوع نے اُنہیں جھڑک کر کہا “اے ریا کارو یسعیاہ نے تمہارے حق میں کیا خوب نبوت کی کہ “یہ اُمت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر ان کا دل مجھ سے دور ہے اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں۔ کیوں کہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں “متی 7:15-9 خداوند یسوع مسیح کا کلام فریسیوں کے پورے نظام پر ضرب کاری تھا کیونکہ وہ اپنے احکام کو شریعت کے احکام پر ترجیح دیتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں وہ خود کو خدا پر فوقیت دے رہے تھے۔ یروشیلم سے آنے والا طائفہ غصہ سے بھر گیا کیونکہ وہ یسوع پر یہ الزام ثابت نہ کر سکے کہ وہ شریعت کا توڑنے والا ہے۔ جو کچھ اُنہوں نے سُنا اور دیکھا وہ یہ کہ یسوع خدا کی شریعت کو ربیوں کی روایات پر ترجیح دیتا ہے۔ کیونکہ شریعت کی روح جو یسوع نے بتائی اُسکے مقابلہ میں روایات بے معنی ہو کر رہ گئیں۔ اس کے بعد بھیڑ کو اپنے شاگردوں کو یسوع مسیح نے مزید وضاحت کرتے ہوئے سمجھایا کہ ناپاکی باہر سے نہیں بلکہ انسان کے اندر سے نکلتی ہے۔ یعنی بُرائی کے کام اور خیالات جن کا تعلق روح سے ہے انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ یہی اُسے پاک یا نا پاک ٹھہراتے ہیں۔ شاگردوں نے جاسوسوں کے چہرے پر غصے کے آثر ملاحظہ کئے جب یسوع نے اُن کی جھوٹی تعلیم کے پرخچے اُڑا دیئے۔ کیوں کہ انہوں نے جاسوسوں کو بکواس کرتے سُنا۔ وہ یسوع کی تعلیم سے تسلی پذیر نہ تھے۔ اور بدلہ لینے پر تلے ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ یسوع کے پاس آکر کہنے لگے کہ “کیا تو نہیں جانتا کہ فریسیوں نے یہ بات سُن کر ٹھوکر کھائی “متی 12:15۔۔۔۔ شاگردوں کا خیال تھا کہ یسوع اُن کے پاس جا کر اب ایسا کلام کرے جس سے اُن کے دنوں سے غصہ اور بدلہ لینے کا خیال جاتا رہے۔۔۔۔ مگر یسوع نے فرمایا” جو پودہ میرے باپ نے نہیں لگایا جڑ سے اُکھاڑا جائے گا” متی 13:15۔۔۔ روایات جن کی یہ پاسداری کرتے ہیں دُنیاوی ہیں نہ کہ آسمانی۔ لوگوں میں اُن کا کیسا بھی اختیار کیوں نہ ہو وہ خدا کے امتحان میں پوری نہیں اُتر سکتیں۔ ہر ایک ایجاد جو انسان خدا کے احکام کے عوض پیش کرے گا اُس دن فضول ثابت ہو گی۔ جب “خدا وند ہر ایک فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بُری عدالت میں لائے گا۔ “واعظ 14:12 ZU 486.2
خدا کے احکام کے عوض میں انسانی روایات اور احکامات ابھی ختم نہیں ہوئے۔ حتٰی کہ مسیحیوں میں ایسی رسوم اور تہوار میں جو قدیم بزرگوں کی روایات سے کسی لحاظ سے بھی بہتر نہیں۔ اور یہ مذہبی رسوم اور تہوار انسان کی ایجاد ہیں اور اُنہوں نے خدا کی شریعت کو ہٹا کر اپنا مقام بنا رکھا ہے۔ جو انسان ان روایات سے چمٹے ہوئے ہیں اگر کوئی اُن کو سکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ آپ غلطی پر ہیں تو وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ آج جب ہم خدا کے احکام اور یسوع کے ایمان کی گواہی دیتے ہیں تو ہمیں بھی اُسی دُشمنی کا سامنا ہے جو یسوع کے دنوں میں تھی۔ خدا کی بقیہ کلیسیا کے بارے لکھا گیا ہے۔ ”اور اژدہا کو عورت پر غصہ آیا اور اُس کی باقی اولاد سے جو خدا کے حکموں پر عمل کرتی ہے اور یسوع کی گواہی پر قائم ہے“ مکاشفہ 17:12 ”مگر جو پودا میرے باپ نے نہیں لگایا وہ جڑ سے اُکھاڑا جائے گا“ جو کلیسیا کے برائے نام بزرگ مانے جاتے ہیں اُن کے اختیار کی جگہ ہمیں آسمانی باپ کے اختیار کی پیروی کرنا لازم ہے۔ بُزرگ داود کا کہنا ہے ”میں اپنے سب اُستادوں سے عقلمند ہوں کیونکہ تیری شہادتوں پر میرا دھیان رہتا ہے۔ میں عمر رسیدہ لوگوں سے زیادہ سمجھ رکھتا ہوں کیونکہ میں نے تیرے قوانین کو مانا ہے“ زبور۔ 99:119-100 آئیے ہم انسانی روایات، رسم و رواج کو پس پشت ڈال کر خدا کی شریعت کی پیروی کریں۔ ZU 488.1
”یہ بے فائدہ میری پر ستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔“ متی 9:15 ZU 489.1
*****