خاوند اور باپ خاندان کا سربراہ ہوتا ہے- بیوی محبت اور غمخواری کے لئے اسکی طرف دیکھتی ہے اور بچے کی تربیت کے سلسلہ میں اسکی مدد طلب کرتی ہے اور یہ درست ہے- بچے تو دونوں کے ہیں اور وہ انکی بھلائی میں برابر دلچسپی رکھتا ہے- بچے باپ کی طرف مدد اور رہنمائی کے لئے دیکھتے ہیں- باپ کو زندگی کے راست نظریے سے واقفیت ہونا لازم ہے- اور یہ کہ اسکے خاندان کو کون کون سے روحانی اور اخلاقی تاثر اور کس قسم کے ماحول نے گھیر رکھا ہے- اور سب سے افضل یہ کہ باپ خدا کے خوف اور محبت کے تابع ہوتا کہ جب وہ خداوند کا کلام سنائے تو چھوٹے بچوں کے قدم صراط مستقیم پر چلا سکے- SKC 278.1
باپ گھر کے لئے قانون بناتا ہے اس لئے اسے ابرہام کی طرح اپنے گھر میں خداوند کی شریعت نافذ کرنی چاہیے- خداوند نے ابرہام کے بارے یوں فرمایا- ” lیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں اور گھرانے کو جو اسکے پیچھے رہ جائیں گے وصیت کرے گا کہ وہ خداوند کی راہ میں قائم رہ کر عدل اور انصاف کریں” پیدائش -19:18 SKC 278.2
خداوند جانتا تھا کہ ابرہام نہ صرف اپنے بچوں سکو نیک مشورہ ہی دے گا بلکہ وہ اس شریعت سکو سربلند کرے گا جو سچی اور راست ہے- ہماری رہنمائی کے لئے خداوند نے اصول اور ضابطے دے رکھے ہیں- بچوں سکو اس محفوظ راستے سے گمراہ نہیں ہونا چاہیے جس کی نشاندہی خداوند کریم نے اپنے پاک کلام میں کر رکھی ہے- کیونکہ ہماری چاروں طرف ایسی راہیں کھلی پڑی ہیں جو ہلاکت کو پہنچاتی ہیں- نرم دلی مگر بڑی استواری کے ساتھ ان کی بری خواہشات اور رغبتوں سے انکار کیا جائے- SKC 278.3
باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں ایمانداری، دیانتداری، نیکی، حلم، صبر وتحمل، دلیری اور لگن جیسی خوبیوں کو اپنانے پر زور دے- اور جس چیز کا مطلبہ وہ اپنے بچوں سے کرے خود بھی اس پر عمل پیرا ہو- محبت اور اختیار، غمخواری اور مہربانی سے بچوں سے برائی کو دور کرے- اپنے بچوں کو تفریح طبع کیلئے کچھ وقت دے- انکی کھیلوں اور کاموں میں شرکت کر کے ان سے اچھی طرح واقف ہو- انکا اعتماد جیتے- ان سے دوستی کرے- خاص کر اپنے لڑکوں کے ساتھ، یوں بھلائی کے لئے اسکا اثر اچھا پڑے گا- SKC 278.4
گھر سکو پرمسرت رکھنے کیلئے باپ سکو اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے- خود اسکی اپنی کتنی ہی الجھنیں اور کاروباری فکریں ہوں، ان کا گھر کے ماحول سے دور رکھے اور ہمیشہ گھر میں خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ داخل ہو- SKC 278.5
ایک لحاظ سے باپ گھر کا کاہن ہوتا ہے- جو صبح وشام گھر کی قربان گاہ پر چڑھاوا چڑھاتا ہے- مگر بیوی اور بچوں سکو دعا میں اس کے ساتھ شامل ہونا چاہیے اور خداوند کی شکرگزاری کے گیت گانے چاہییں- صبح سویرے اپنے کاروبار پر جانے سے پہلے باپ کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو اپنے گرد جمع کر کے خدا کے حضور جھکے اور بچوں کو خداوند کی نگرانی میں دے جو آسمان پر ہے- جب دن کے فرائض منصبی سے فارغ ہو جائے تو سارا خاندان جمع ہو کر شکرگزاری ادا کرے اور خداوند کی تعریف کے گیت گائے- جسکا مطلب یہ ہو گا کہ پورا خاندان خداوند کی حفاظت کا اقرار کرتا ہے- والدینو! آپکا کام خواہ کتنا ہی مشکل اور تھکا دینے والا کیوں نہ ہو اپنے خاندان کو خداوند کے مذبح پر لانے میں کبھی بھی ناکام نہ رہیں- اپنے گھر کے لئے مقدس فرشتوں کی سرپرستی کی دعا مانگیں- یاد رکھیے کہ آپکے عزیز ہر وقت آزمائش کے سامنے بے پردہ ہے- روزانہ کی ناراضگیاں بڑوں اور نوجوانوں دونوں کی راہیں روک دیتی ہیں- وہ جن کی خواہش ہے کہ وہ خوش، اطمینان اور پیار کی زندگی بسر کریں انکو خداوند سے دعا مانگنی چاہیے کیونکہ ہم اپنے آپ پر اسی صورت میں فتح پا سکتے ہیں جب ہمیں مسلسل خدا سے مدد پہنچتی رہے گی- SKC 279.1
گھر وہ جگہ ہو جہاں خوشی وشادمانی، شائستگی اور محبت کا ڈیرہ بسیرہ ہو- اور جہاں یہ برکتیں ہوں گی وہاں خوشی وخرمی اور اطمینان ہو گا- مصیبتیں حملہ آور ہو سکتی ہیں مگر یہ تو انسانیت کا نصیب ہے- دلوں میں صبر وتحمل، شکرگزاری اور محبت کو سورج کی طرح روشن ہونے دیں خواہ آپ کا سارا دن ابرآلود ہی رہا ہو- ایسے گھروں میں فرشتے سکونت پذیر ہوتے ہیں- SKC 279.2
میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کی خوشی کے جویاں رہنا چاہیے- اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اگر وہ شائستگی اور اپنے کسی فعل سے ایک دوسرے کو خوش کر سکتے ہیں تو نظر انداز نہ کریں- میاں بیوی سکو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے- اکٹھے بیٹھ کر اپنے فرائض پر غور وخوض کریں- دونوں مل جل کر اپنے بچوں سکو بہتری کے لئے سوچیں اور کام کریں- بچوں کی موجودگی میں ایک دوسرے کی تجاویز پر نکتہ چینی نہ کریں اور نہ ہی ایک دوسرے کی رائے اور فیصلے پر سوال اٹھائیں- بیوی سکو محتاط رہنا چاہیے کہیں وہ خاوند کے کام کو جو وہ بچوں کیلئے کر رہا ہے اسے مشکل نہ بنا دے- خاوند بیوی کی ہمت افزائی کرے اسے نیک مشورے دے جس سے اسے نیا حوصلہ، ہمت اور دلیری ملے- SKC 279.3
سرد مہری، بے اعتنائی یا کم گوئی ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ماں باپ یا بچوں کے درمیان حائل نہیں ہونی چاہیے- والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے سکو اچھی طرح سمجھیں اور جانیں- انکا ذوق ان کے فکر وفہم، ان کے مزاج رجحانات، ان کے احساس اور ان کے، جذبات سکو سمجھیں- اور جو کچھ انکے دل میں ہے اس سے آگاہی پائیں- SKC 280.1
والدینو! بچوں سکو باور کرائیں کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کو خوش دیکھنے کے لئے جو کچھ آپ کے بس میں ہے ضرور کریں گے- اگر آپ ایسا کریں تو جو ضروری پابندیاں آپ ان پر عائد کریں گے ان کے جوان ذہنوں پر بوجھ نہیں ہوں گی- پیار اور محبت اور شفقت کی روح سے بچوں سکو اپنے تابع کریں- یہ یاد رکھتے ہوۓ کہ “ خبردار ان چھوٹوں میں سے کسی سکو ناچیزنہ جاننا کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ آسمان پر ان کے فرشتے میرے آسمانی باپ کا منہ ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں” متی-10:18 SKC 280.2
اگر آپ چاہتے ہیں کہ فرشتے آپکے بچوں کیلئے وہ خدمت انجام دیں جو خدا نے ان کے سپرد کی ہے، تو آپ اپنا حصہ ادا کر کے ان کے ساتھ تعاون کریں- SKC 280.3
اگر پیار اور محبت اور حکمت کی رہنمائی میں بچوں کی پرورش ہوئی ہو گی تو بچے ادھر ادھر گھوم پھر کر خوشی اور غلط صحبت حاصل کرنے کے متمنی نہ ہوں گے- بدی انکو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے گی- گھر کی صحبت انکی سیرت سکو اس طرح بنائے گی کہ جب وہ گھر کی پناہ سکو چھوڑ کر دنیا میں اپنا مقام پیدا کریں گے تو وہ عادات اور اصولات جو انہوں نے اپنے گھر میں اپنا رکھے تھے، آزمائشوں کے خلاف زبردست دفاع ثابت ہوں گے- SKC 280.4
بچوں اور والدینوں دونوں کے لئے گھر میں بڑے اہم فرائض ہوتے ہیں- بچوں کو سکھانا چاہیے کہ آپ گھر میں برابر کے حصہ دار ہیں- آپکی خواہش اور کوشش کا احترام کیا جائے گا- انھیں محبت اور محافظت کی اشد ضرورت ہے- بچو! ان مہربانیوں کے عوض آپ بھی گھر کے بوجھ سکو برداشت کرنے میں حصہ لیں اور گھر میں جو ممکنہ خوشیاں لا سکتے ہیں ضرور لائیں- مگر بعد میں وہ اپنے والدین سکو مبارک کہتے ہیں جنہوں نے بڑی فکرمندی اور جانثاری سے ان کی اس وقت خبرگیری کی جب وہ نا تجربہ کار تھے- SKC 280.5