الہٰامی نسخوں کا فرمان ہے “ہر وقت دعا کرتے رہنا اور ہمت نہ ہارنا چاہیے” لوقا 1:18۔ جب کبھی بنی نوع انسان کے پاس وقت ہو اور وہ دعا کی ضرورت بھی محسوس کرتے ہوں تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہمت جواب دے جاتی ہے اور ایسے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی ہمارے ہاتھ سے پھسل رہی ہے۔ اکثر وہ جو صحت مند ہیں وہ خُداوند کی عجیب و غریب رحمت کو بھول جاتے ہیں جو وہ ان پر آئے روز کرتا رہتا ہے۔ اور اگر وہ سالوں تک صحت مند رہتے ہیں تو وہ خُدا کی تعریف نہیں کرتے جس نے ان پر اپنا یہ کرم کیا ہے۔ لیکن جب بیمار پڑتے ہیں پھر وہ خُدا کی مدد کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ بے شک ان سب کو جو خلوص نیتی سے خُدا کی مدد کی کے طلب گار ہوتے ہیں رحیم و کریم خُداوند ان سے منہ نہیں موڑ لیتا۔ بیماری اور صحت دونوں میں وہ ہماری مدد اور پناہ ہے۔ “جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے، ویسے ہی خُداوند ان پر جو اس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔ کیونکہ وہ ہماری سرشت سے واقف ہے اسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں” زبور 14,13:104۔ “احمق اپنی خطاؤں کے سبب سے اور اپنی بدکاری کے باعث مصیبت میں پڑتے ہیں۔ ان کے جی کو ہر طرح کے کھانے سے نفرت ہو جاتی ہے۔ اور وہ موت کے پھاٹکوں کے نزدیک پہنچ جاتے ہیں” زبور 18-17:107۔ SKC 153.1
“تب وہ اپنی مصیبت میں خُداوند سے فریاد کرتے ہیں۔ اور وہ ان کو ان کے دکھوں سے رہائی بخشتا ہے۔ وہ اپنے کلام نازل فرما کر ان کو شفا دیتا ہے۔ اور ان کو ان کی ہلاکت سے رہائی بخشتا ہے” زبور 20-19:107۔ SKC 153.2
خُداوند آج بھی بیماروں کو اس طرح صحت بخشنے پر راضی ہے جیسے ان دنوں میں جب روح القدس نے زبور نویس کے ذریعے محولہ بالا کلام کیا تھا۔ یسوع مسیح آج بھی اسی طرح کا مہربان طبیب ہے جیسا وہ اس وقت تھا جب اس دھرتی پر رہ کر شفا دیتا تھا۔ اُس میں ہر بیماری سے شفا بخشنے کا مرہم اور ہر کمزوری کے لیے بحالی کی قوت موجود ہے۔ اس کے شاگرد آج بھی دکھیوں اور بیماروں کے لیے اسی طرح دعا کر سکتے ہیں جیسے رسولوں کی کلیسیا کے زمانے میں۔ یقیناً بیمار شفا پائیں گے “ایماندار کے دُعا سے بہت کچھ ہو سکتا” اور جو دُعا ایمان سے کی جائے گے اس سے مریض بچ جائے گا۔ ہمارے پاس روح القدس کی قدرت جو ایمان کی دلیل ہے۔ وہی ایمان خُدا کے وعدوں کا مطالبہ کرے گا۔ خُدا کا وعدہ ہے “وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو اچھے ہو جائیں گے” مرقس 18:16۔ یہ اسی طرح با اعتبار وعدہ ہے جیسے رسولوں کے زمانہ میں تھا۔ یہ خُدا کے بچوں کے خصوصی حق کو پیش کرتا ہے۔ SKC 153.3
یسوع مسیح کے خادم اس کے کام کا ایک ذریعہ ہیں۔ ان کے ذریعہ وہ اپنی شفا بخش قوت کو کام میں لانا چاہتا ہے۔ پس یہ ہمارا کام ہے کہ اپنے ایمان کے بازوؤں میں لے کر بیماروں اور دکھیوں کو خُدا کے سامنے پیش کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کو یہ تعلیم دیں کہ یسوع مسیح جو عظیم طبیب ہے اس پر ایمان لائیں۔ SKC 154.1
نجات دہندہ چاہتا ہے کہ ہم بیماروں، نا اُمیدوں اور دکھیوں کی ہمت بندھائیں کہ وہ یسوع مسیح کی طاقت کو تھام لیں۔ ایمان اور دُعا کےذریعے بیمار کا کمرہ عبادت گاہ بن جائے گا۔ اپنے کام اور کلام کی وجہ سے ڈاکٹرز اور نرسز بڑی صفائی سے کہہ سکیں گے “خُدا اس جگہ ہے” تا کہ بچائے نہ کہ برباد کرے۔ خداوند یسوع مسیح چاہتا ہے کہ ڈاکٹروں اور نرسوں کے دلوں میں اس کی عجیب و غریب محبت کی وجہ سے بیمار کے کمرے میں یسوع مسیح کی حضوری آشکارہ ہو۔ وہ لوگ جو بیمار کی تیمار داری کرتے ہیں اگر ان دلوں میں ہو کر یسوع مسیح بیمار کے کمرے میں پہنچے تو مریض یقیناً مائل ہو جائے گا کہ یسوع کی حضوری وہاں ہے۔ اور یہی قائیلیت روح اور بدن دونوں کی شفا کے لیے بہت کچھ کر سکتی ہے۔ خُدا دعاؤں کو سنتا ہے یسوع مسیح نے فرمایا “اگر میرے نام سے مجھ سے کچھ چاہو گے تو میں وہی کروں گا” یوحنا 14:14۔ وہ پھر کہتا ہے “اگر کوئی میری خدمت کرے تو باپ اس کی عزت کرے گا” یوحنا 26:12۔ اگر ہم اس کے کلام کے مطابق زنگی بسر کریں تو ہر ایک قیمتی وعدہ جو اس نے کیا ہے ہمارے لیے پورا کرے گا۔ بے شک ہم اس کے رحم کے حقدار نہیں، لیکن جب ہم خود کو اس کے تابع کر دیتے ہیں وہ ہمیں قبول کر لیتا ہے۔ وہ ان کے لیے اور ان کے وسیلہ سے اپنے سارے کام انجام دے گا جو اس کی پیروی کرتے ہیں۔ جب ہم اس کے کلام کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں تب ہی ہم اس کے وعدوں کی تکمیل کا مطالبہ کر سکتے ہیں زبونویس کہتا ہے “اگر میں بدی اپنے دل میں رکھتا تو خُداوند میری نہ سنتا” زبور 18:66۔ SKC 154.2
اگر ہم آدھے دل سے اس کی فرمانبرداری کریں گے تو اس کے وعدے ہمارے لیے نہیں۔ مریض کی صحت یابی کی دُعاؤں کے بارے میں کلام مقدس میں ہدایات موجود ہیں۔ مگر ایسی دُعائیں مانگنا بڑا سنجیدہ فعل ہے۔ اس لیے بے احتیاطی اور بے خبری سے ان دُعاؤں کو شروع نہ کریں۔ بعض دفعہ کئی دُعائیں جب ہم بیمار کی شفا کے لئے مانگتے ہیں ان دُعاؤں میں ایمان کی بجائے گمان اور قیاس زیادہ پایا جاتا ہے۔ SKC 155.1
بہت سے لوگ اپنی اشتہا اور غلط عادات کے سبب بیماری کو دعوت دیتے ہیں۔ وہ فطرت کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر نہیں کر سکتے اور نہ ہی پاکیزگی کے اُصولوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ بعض نے اپنے کھانے پینے اور پہننے میں بُری عادات کو اپنا کر صحت کے اُصولوں کے انحراف کیا ہے۔ حتیٰ کہ اپنے کام کے ذریعے بھی انہوں نے صحت کے اُصولوں کو توڑا ہے۔ یقیناً کسی نہ کسی قسم کی برائی ذہن اور بدن کی کمزوری کا سبب ہوتی ہے۔ کیا ایسے لوگ صحت کی برکات حاصل کر لیں گے؟ ان ہی میں بہتیرے ایسے ہوں گے جو بدستوس فطری اور روحانی ظابطے توڑتے رہیں گے اور پرانے راستوں کو ترک نہ کریں گے۔ SKC 155.2
بہتیرے ان میں ایسے ہوں گے جو بغیر پرواہ کئے خُدا کی فطرت اور روحانی شریعت کو باطل کرتے رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خُدا انہیں دُعا کے جواب میں شفا بخشتا ہے تو پھر وہ آزادانہ غیر صحت بخش خوراک روک ٹوک کھا سکتے ہیں ۔ اگر ایسے لوگوں کے لیے خُدا معجزہ کر کے صحت بخش دے تو حقیقت میں خُدا گناہ کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ SKC 155.3
جب تک ہم لوگوں کو یہ نہ سکھائیں کہ غیر صحت مندانہ عادات سے پہلو تہی کریں ان کو یہ سکھانا فضول ہو گا کہ اپنی کمزوریوں اور بیماریوں کے واسطے عظیم شفا بخشنے والے خُدا کی طرف دیکھیں۔ دُعا کے جواب میں اس سے برکات حاصل کرنے کے لیے انہیں بدی اور بُرائی کو ترک کر کے بھلائی کے کام کرنے ہوں گے۔ انہیں اپنے گردو پیش میں صفائی رکھنی ہو گی اور عادات زندگی کو درست کرنا ہو گا۔ انہیں خُدا کے فطری اور روحانی دونوں قوانین کے ہم آہنگ ہونا ہو گا۔ SKC 155.4