Go to full page →

چھبیسواں باب - اصلاح کا کام AK 436

یسعیاہ نبی کی پیشنگوئی میں فرمایا گیا ہے کہ آخری دنوں میں سبت کی تجدید (اصلاح) کا کام انجام پائے گا۔” خداوند فرماتا ہے کہ عدل کو قائم رکھو اور صداقت کو عمل میں لاؤ کیونکہ میری نجات نزدیک ہے اور میری صداقت ظاہر ہونے والی ہے۔ مبارک ہے وہ انسان جو اس پر عمل کرتا ہے اور وہ آومزیدحواس پر قائم رہتا ہے۔ جو سبت کو مانتا اور اسے ناپاک نہیں کرتا اور اپنا ہاتھ ہر طرح کع بدی سے باز رکھتا ہے۔ اور بیگانہ کی اولاد بھی جنہوں نے اپنے آپ کو خداوند سے پیوستہ کیا ہے کہ اس کی خدمت کریں اور خداوند کے نام کو عزیز رکھیں اور اس کے بندے ہوں۔ وہ سب جو سبت کو فظ کرکے اسے ناپاک نہ کریں اور میرے عہد پر قائم رہیں۔ میں ان کو بھی اپنے کوہ مقدس پر لاؤں گا اور اپنی عبادت گاہو ں میں ان کو شادمان کروں گااور ان کی سو ختنی قربانیاں اور ان کے ذبیحے میرے مذبح پر مقبول ہونگے کیونکہ میرا گھرسب لوگوں کی عبادت گاہ کہلائے گا۔ AK 436.1

اس کلام کا اطلاق مسیحی زمانہ پر ہوتا ہے جیسا کہ یہ سیاق و سماق سے ظاہر ہے۔ خداوند خدا جو اسرائیل کے پراگندہ لوگوں کو جمع کرنے والا ہے یوں فرماتا ہے کہ میں ان کے سوا جو اسی کے ہو کر جمع ہوئے ہیں اوروں کو بھی اس کے پاس جمع کروں گا۔ یہاں غیر قوموں کو انجیل کے ذریعہ جمع کرنے کی پیش بینی کی گئی ہے۔ تب ان پر جو سبت کی تعظیم کریں گے برکات کا وعدو کیا گیا ہے۔ یوں جوتھے حکم کی ذمہ داری مسیح کے مصلوب ہونے مردوں میں سے زندہ ہونے اور آسمان پر صعود فرمانے سے آگے بڑھ گئی اور اس مقام تک پہنچ گئی ہے جب مسیح یسوع کے خادم تمام قوموں کو خوشخبری کا پیغام سنائیں گے۔ AK 436.2

خداوند نبی یسعیاہ کے ذریعہ فرماتا ہے” شہادت نامہ بند کردو اور میرے شاگردوں کیلئے شریعت پر مہر کرو۔ خدا کی شریعت کی مہر چوتھے حکم میں پائی جاتی ہے۔ صرف اسی حکم میں شریعت دعنے ہولے کا نام اور خطاب پایا جاتا ہے۔ یہ حکم اسے زمین و آسمان کا خالق ظاہر کرتا ہے اور یہ کہ کوئی دوسرا نہیں صرف وہی پرستش کا لائق ہے۔ اس حکم کے علاوہ دیگر احکام میں کہیں نہیں بتایا گیا۔ کہ کس کے اختیار سے شریعت دی گئی۔جب پوپ کی حکومت نے سبت کو تبدیل کردیا تو شریعت میں سے اس کو نکال دیا گیا۔ مسیح کے شاگردوں کو یہ بلاہٹ دی گئی ہے کہ وہ چوتھے حکم کے سبت کو اس کی اصلی حالت پر بحال کریں جو کائنات کی تخلیق کی یاد اور خداوند کے اختیار کی مہر ہے۔ AK 436.3

شریعت اور شہادت جب کلام مقدس کی تعلیمات اور نظریات میں بکثرت اختلافات ہوں تو خدا کی شریعت جولا خطا ہے وہ کسوٹی ہے جس پر تمام آراء تعلیمات اور نظریات کو پرکھا جاسکتا ہے۔ نبی فرماتا ہے کہ شریعت اور شہادت پر نظر کرو۔ اگر وہ اس کلام کے مطابق نہ بولیں تو ان کے لیے صبح نہ ہوگی۔ AK 437.1

پھر حکم دیا گیا کہ گلا پھاڑ کر چلا۔ دریغ نہ کر۔نرسنگے کی مانند اپنی آواز بلند کر اور میرے لوگوں پر ان کے گناہوں کو ظاہر کر۔ یہ پکار بدکار دنیا کے بارے نہیں ہے بلکہ وہ جن کو خداوند اپنے لوگ کہتا ہے۔ ان کے گناہوں کیلئے ان کی ملامت ہونی چاہئے۔ وہ مزید فرماتا ہے۔ وہ روز بروز میرے طالب ہیں اور اس قوم کی مانند جس نے صداقت کے کام کئے اور اپنے خدا کے احکام کو ترک نہ کیا میری راہوں کو دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مجھ سے صداقت کے احکام طلب کرتے ہیں۔ وہ خدا کی نزدیکی چاہتے ہیں۔ یہاں ایک کلاس کو سامنے لایا گیا ہے جو خود کو راست باز گردانتے ہیں اور یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے انہیں خدا کی خدمت کرنے میں بڑی دلچسپی ہے مگر ان کے دلوں کو جانچنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا کے فرامین کہ توڑنے ہالے ہیں۔ چنانچہ یہی ان قوانین کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کو رد کردیا گیا۔ تیرے لوگ قدیم ویران مکانوں کی تعمیر کریں گے۔ تو رخنہ کا بند کرنے والا اور آبادی کیلئے راہ کا درست کرنے والا کہلائے گا۔ اگر تو سبت کے رہز اپنا پاؤں روک رکھے اور میرے مقدس دن میں اپنی خوشی کا طالب نہ ہو اور سبت کو راحت اور خداوند کا مقدس اور معظم کہے اور اس کی تعظیم کرے۔ اپنا کاروبار نہ کرے۔ اور اپنی خوشی اوربے فائدہ باتوں سے دست بردار رہے تب تو خداوند میں مسرور ہوگا اور میں تجھے دنیا کی بلندیوں پر لے چلوں گا اور میں تجھے تیرے باپ یعقوب کی میراث سے کھلاؤں گا۔ کیونکہ خداوند ہی کے منہ سے یہ ارشاد ہوا ہے۔ AK 437.2

اس پیشنگوئی کا اطلاق ہمارے زمانے پر بھی ہوتا ہے۔ خدا کی شریعت میں رخنہ اس وقت ڈالا گیا جب رومی اختیار سے سبت کو تبدیل کردیا گیا۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ خدا کے اس آئین کو بحال کیا AK 438.1

جائے۔ رخنہ کی مرمت ہونا لازم ہے اور کئی پشتوں کو بنیاد استوار کرنا ہوگی۔ خالق کے آرام اور برکت سے مقدس ٹھرائے جانے والے سبت کو آدم نے اپنی باگناہی کی حالت میں مقدس عدن میں منایا۔ آدم گناہ میں گر گیا مگر اس نے توبہ کی اور باغ عدن سے نکالے جانے کیبعد بھی وہ سبت مانتا رہا۔ تمام قدیم آبائی بزرگوں نے اسے منایا۔ راستباز بابل سے لیکر نوح تک اور پھر ابراہم سے لیکر یعقوب تک سبھوں نے سبت کو مقدس دن کے طور پر منایا۔ جب خدا کے چنیدہ لوگ مصر کی غلامی میں تھے تو بیشتر لوگ غالب بت پرستی کی وجہ سے خدا کی شریعت کے بارے بھول گئے۔ لیکن جب بنی اسرائیل کو خداوند نے رہائی بخشی تو خداوند نے اس بڑی بھیڑ کے سامنے اپنی شریعت کا اعلان کیا تاکہ وہ اس کی مرضی کو جانیں اس سے ڈریں اور اس کے تابع فرمان رہیں۔ AK 438.2

اس دن سے لیکر آج تک خداوند کی شریعت کا ادراک (علم) اس دھرتی پر محفوظ رہا ہے۔ چوتھے حکم کا سبت مانا جاتا رہا ہے۔ گو” گناہ کا شخص خدا کے مقدس دن کو پامال کرنے میں کامیاب ہوگیا۔تاہم اس کے اختیار اعلےٰ کے زمانہ میں بھی کچھ وفادار روحیں رہی ہیں جنہوں نے سبت کی پاکیزگی کو قائم رکھا۔ لعنت ملامت اور ایذارسانی کے دوران خدا کی دائمی شریعت کع گواہی مسلسل جاری رہی ہے اور تخلیق سبت کے جو مقدس فرائض تھے ان کو بھی نبھایا جاتا رہا ہے۔ AK 438.3

یہ سچائیاں جن کا ذکر مکاشفہ چودھویں باب میں آیا ہے۔ ان کا تعلق ابدی خوشخبری سے ہے۔ اور آمد ثانی پر یہی مسیح یسوع کی کلیسیا کی پہچان ہوں گی۔ تہرے پیغام کے نتیجہ میں یہ اعلان کیا گیا مقدسوں یعنی خدا کے حکموں پر عمل کرنے والوں اہر یسوع پر ایمان رکھنے والوں کے صبر کا یہی موقع ہے۔ اور مسیح یسوع کی آمد ثانی سے پہلے یہ آخری پیغام ہوگا۔ اس پیغام کے فوراً بعد نبی نے دیکھا کہ آدم اپنے جلال میں اس زمین کی فصل کاٹنے کیلئے آرہا ہے۔ AK 438.4

وہ سب جنہوں نے ہیکل کے بارے اور خدا کی شریعت کے دوام کے بارے جان لیا وہ بڑی خوشی سے بھر گئے کہ سچائی کا نظام ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جس نے ان کی سوچ کو روشن کیا ان کی تمنا ہوئی کو وہ قیمتی روشنی جو ان تک پہنچائی گئی ہے تمام مسیحیوں تک پہنچائیں۔ اور ان کا ایمان تھا کہ وہ بخوشی قبول کر لیا جائے۔ مگر وہ سچائیاں جو دنیا نے ان کے عوض رکھی ہیں ان کی وجہ سے جو مسیح یسوع کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے تھے انہوں نے انہی سچائیوں کو خوش آمدید نہ کہا۔ چوتھے حکم کی فرمانبرداری قربانی مانگتی ہے جس کی وجہ سے اکژیت پیچھے ہٹ گئی۔ AK 438.5

جب سبت کے مطالبات پیش کئے گئے تو بتہیرے تھے جنہوں جے دینوی نقطہ نگاہ سے بحث کرتے ہوئے کہا ہم نے ہمیشہ اتوار کے دن کو منایا ہے۔ ہمارے ماں باپ نے بھی اتوار منایاہے اور بہت سے متقی پرہیز گار اور پارسا لوگ اسے مناتے تھے اور بخوشی خداوندمیں سو گئے ہیں۔اگر وہ راستے پر تھے تو ہم بھی راستے پر ہیں۔اس نئے سبت کو منانا ہمیں دنیا کی مطابقت سے دور دھکیل دے گا اور ہمارا ان پر کوئی اثرورسوخ نہ ہوگا۔یہ تھوڑے سے لوگ جو ساتویں دن سبت کو مانتے ہیں اتنی بڑ ی دنیا کے مقابلہ میں کیا انجام دے لیں گے جو سنڈے کومانتی ہیں؟یہ باکل سی طرح کی بحث ہے جسے مسیح یسوع کوردکرنے پر یہودی خودکو حق بجانب قرار دینے کی کوشش کرتے تھے۔ان کے والدین خدا کے سامنے قربانیاں گزارننے سے منظور نظر ٹھہرے تھے اور کیوں ان کے بچے ان کے نقش قدم پر چل کر نجات حاصل نہیں کرسکتے؟اسی طرح لوتھر کے زمانہ میں پوپ کے حامی یہی کہتے تھے کہ سچے مسیحی کیتھولک فیتھ میں ابدی نیند سو گئے ہیں۔اس لئے وہ مذہب نجات کیلئے کافی تھا۔اس طرح کے دلائل ہر طرح کی ترقی مذہبی فیتھ اور عمل کے آگے سچ مچ بڑی رکاوٹ ہیں۔ AK 439.1

بہتیرے یہ کہتے ہیں کہ سنڈے ماننا ایک مسلمہ تعلیم ہے اور صدیوں سے دنیا بھر میں اسے منانے کارواج رہا ہے۔اس دلیل کے خلاف دکھایا جاچکا ہے کہ سبت کامنایا جانا اروار سے کہیں قدیمی ہے اور یہ دنیا بھرمنایا جاتارہا ہے۔اور یہ اتنا قدیمی ہے جتنی ہماری دنیا اور اسے پاک فرشتوں اورخداوند کی منظوری حاصل ہے۔جب زمین کی بنیاد ڈالی گئی جب صبح کے ستارے مل کرگاتے تھے اور خدا کے سب بیٹے خوشی سے للکارتے تھے۔اس وقت سبت کی بنیاد رکھی گئی ایوب 7-6:38۔کیا یہ ہم سے عزت وتکریم الایام نے قائم کیا ہے اور اس کے ابدی کلام کے حکم سے معرض دجود میں آیاہے۔ AK 439.2

جب سبت کی اصلاح کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی تو ہر دلعزیز پاسبانوں نے خدا کے کلام سے انحراف کردیا۔اور ایسی ایسی کلام کی تفسیریں پیش کیں جو لوگوں کی بہت بھاتی تھیں۔اور جنہوں نے خودکلام مقدس کی تحقیق نہیں کی تھیں وہ ان تفسیروں پر مطمئن ہوگئے کیو نکہ وہ انکی عین خواہشات کے مطابق تھیں۔بحث و تمحیص،غلط استدال،فادروں کی روایات اور کلیسیا کے اختیارات کے ذریعہ بہتیروں نے صداقت کو دور پھینکنے کی کوشش کی۔مگرکو حضرات اس کے حامی تھے وہ کتاب مقدس کی طرف را غب ہوئے تاکہ چوتھے حکم کے جائز ہونے کادفاع کریں۔فروتن لوگ صرف کلام کی سچائی سے مسلح ہوئے اور انہوں ے عالموں،فاضلوں کے حملوں کا بھرپور جواب دیا جس پر وہ حیران اور خشمگین ہوئے۔اورا نہیں معلوم ہوگیا کہ ان کے غلط دلائل،ان سادہ،راست قدم مردوں کے مقابلہ میں نے جان ہیں جو کلام مقدس کو اچھی طرح جانتے ہیں جب ان کے حق میں بائبل کی شہادت موجود نہ تھی توان میں سے بہتیرے اپنے دلائل پر بڑی ڈھٹائی سے قائم رہے اور بھول گئے کہ یہی دلائل مسیح یسوع اور اس کے شاگردوں کے خلاف استعمال کئے گئے تھے’’کیوں ہمارے عظیم لوگون نے سبت کے سوال کو نہ سمجھا؟ اور جو کچھ تم کرتے ہو اس پر بہت ہی کم لوگ ایمان رکھتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ صرف تم ہی راستی پر ہواور دنیا کے تمام پڑھے لکھے لوگ غلطی پر ہیں‘‘۔ AK 439.3

ایسے دلائل کا جواب دینے کیلئے ضروری ہے کہ کلامِ مقدس کی تعلیمات پیش کی جائیں اور اس تاریخ کو سامنے لایا جائے جس طرح خداوند اپنے لوگوں کے ساتھ زمانہ قدیم برتاؤ کرتا رہا ہے۔خداوندخداان کے ذریعہ کام کرتا ہے جواس کی آواز سننے اور وفا کرتے ہیں۔ اور ان کے ذریعہ جواس کی سنیں گے اگر ضرورت ہوتوتلخ سچائی بیان کریں گے۔وہ جو مرغوب گناہوں کے خلاف مامت کرنے سے خوف نہ کھائیں۔خداوند اکثربہت پڑھے لکھے اور ہائی پوزیشن کے لوگوں کو نہیں لیتا کہ وہ اصلاح تحریک میں رہنمائی کریں؟اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی عقیدے نظریے اور علم الٰہیات میں ایمان رکھتے ہیں اور وہ خداسے سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ AK 440.1

صرف وہی جن کا ذاتی تعلق حکمت کے چشمہ سے ہے وہی نوشتوں کو سمجھنے یا ان کی تشریح کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان کوصداقت کی مناوی کرنے کیلئے بلاہٹ دی جاتی ہے جن کی سکول کی تعلیم بہت معمولی ہوتی ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ ان پڑھ ہیں۔بلکہ اس لئے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اور انہیں خدا سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔اور ان کی انکساری اور تابعداری انہیں عظیم بنا دیتی ہے۔صداقت کا علم ان کے سپرد کرنے سے وہ انہیں عزت عطا فرماتا ہے جس کے مقابلہ میں دنیاوی عزت وحشمت نا چیز ہے۔ AK 440.2

ایڈوینٹسٹس کی اکثریت نے ہیکل اور خدا کی شریعت کے بارے میں صداقت کو در کردیا بلکہ بہتیرے ایڈوینٹسٹ موومنٹ سے بھی منحرف ہوگئے اور پیشینگوئی کے ایسے غلط اور متضاد نظریات اپنائے جن کا اطلاق اس دنیا پر ہوتا تھا۔ بعض بار ابر مسیح کی آمدثانی کا حتمی وقت مقرر کرنے کی غلطی کرنے لگے۔جبکہ وہ نور جو ہیکل کے مضمون پر اب چمک رہا ہے انہیں بتا سکتا تھا کہ کوئی بھی نبوتی وقت مسیح کی دوسری کی آمد ثانی کا وقت مقرر کرتے رہے۔یوں وہ اکثر مایوسی کاشکار ہوئے۔ AK 440.3

جب تھسلنیکیوں کی کلیسیا نے مسیح یسوع کی آمدثانی کے بارے غیر نظریات قبول کرلئے توپولس رسول نے انہیں مشورہ دیا کہ اپنی امیدوں اور رتوقعات کو بڑی احتیاط کے ساتھ خداوند کے پاک کلام کی روشنی میں پررکھیں۔اس نے ان کی توجہ پیشنگوئیوں کی طرف مبزول کرئی کہ اس کے آنے سے پہلے کے اکیا واقعات نمودار ہوئے ہوں گے اور اس نے انہیں دکھایا کہ آپ کے زمانہ کہ آپ کے زمانہ میں مسیح میں مسیح یسوع کی آمد کی کوئی تقوع نہیں۔کسی طرح کسی کے فریب میں نہ آنا “یہ اس کی طرف سے انہیں آگاہی تھی۔کیا انہیں ان کی خواہشات کا اظہار کرنا چاہیے جن کی پا ک نوشتوں نے اجازت نہیں دی۔ نا کا یہ عمل غلط راہ کی طرف لے جائے گا۔ان کی مایوسی بے ایمانوٓں کی تضحیک کا نشانہ بنے گی۔ اور وہ بیدل ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں اور اپنے اس ایمان پر شک کر سکتے ہیں جو انکی نجات کیلئے ازحد ضروری ہے- پولس رسول کی نصیحت جو اس نے تھسلنیکیوں کی کلیسیا کو کی وہ ان سب کیلئے نہایت ہی اہم اسباق رکھتی ہے جو اخیر زمانہ میں رہ رہے ہیں- AK 441.1

بعض ایڈوینٹسٹس کا خیال ہے کہ جب تک وہ اپنا ایمان مسیح یسوع کی آمد ثانی کے حتمی وقت پر نہیں رکھتے اس وقت تک وہ جوش و جذبہ اور بدل و جان تیاری کیکام کو نہیں کر سکتے۔لیکن جب ان کی امیدیں بار بار بربا د ہونے کے لیے اکسائی جاتی ہین تو ان کے ایمان کو اس سے بڑا دھچکالگتا ہے یہاں تک کہ ان کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے کہ وہ پیشنگوئیوں کی عظیم صداقتوں سے متاثر ہوں- AK 441.2

عدالت کے قطعی وقت کی منادی کرنا جو پہلے پیغام میں دیا گیا وہ خدا کے حکم سے تھا- اس پیغام کی بنیاد کا تخمینہ نبوتی اوقات پر تھا- وہ اسے 2300 اختتامیہ دنوں کے 1844 کے موسم خزاں کے قریب لے آتا تھا- اس پر کوئی اعتراض نہ تھا- مگر نبوتی اوقات شروع اور ختم ہونے کی نئی تاریخ مقرر کرنے کی بار بار کوشش، اور غیر معقول دلائل دے کر اس پر اڑے رہنے سے نہ صرف موجودہ سچائی سے لوگوں کو دور کر دیا گیا بلکہ جو پیشینگوئیوں کی وضاحتوں کی کوشش کی گئی تھی ان پر بھی پانی پھیر دیا- جتنا زیادہ سے زیادہ اور بار بار آمد ثانی کیلئے قطعی وقت مقرر کیا گیا، اور جتنی زیادہ اور دور ونزدیک اسکی تشہیر کی گئی اتنی ہی زیادہ یہ ابلیس کے مقاصد کو تقویت دینے کا سبب بنی- جب وقت گزر گیا تو ابلیس کے ٹھٹھوں میں ہیجان پیدا ہو گیا اور اس نے ان پر ملامت کی جو اسکی وکالت کر رہے تھے- یوں 1843 اور 1844 کی ایڈونٹ تحریک کی سرزنش ہوئی- جو اس غلطی پر اڑے رہیں گے وہ بالاخر مسیح کی آمد ثانی کی حتمی تاریخ مستقبل میں بہت دور مقرر کر دیں گے، اور خود ایک جھوٹی سیکورٹی اپنا لیں گے اور بہتیرے دھوکہ کھا جائیں گے- AK 441.3

ایڈ وینٹسٹ جماعت کے لیے قدیم اسرائیل کی تاریخ کی بہت اعلی مثال ہے ۔خدا وند نے اپنے لوگون کی ایڈونٹ تحریک میں رہنمائی کی۔اسی طرح جس طرح خدا نے بنی اسرائیل کی مصر میں کی۔بہت بہت زیادہ مایوسی کی وجہ سے ان کے ایمان کی اس طرح جانچ ہوئی جیسے بحرقلزم پر عبرانیوں کے ایما ن کی ہوئی ۔اگر انہوں نے بھی اس رہنما ہاتھ کا اعتبار کیا ہوتا جو ان کے ماضی کے تجربہ میں ان کے ساتھ رہا ،تو وہ ضرور خدا وند کی نجات کو دیکھتے اگر وہ سب لوگ جنہوں نے متحدہ طور پر 1844میں خدمت کی تھی تیسرے فرشتے کے پیغام کو قبول کر کے روح القدس کی قوت مین اس کی مناد ی کرتے ہوئے تو خدا وند ان کی کوششوں کو برا سر بلند کرتا۔دنیا بھر میں روشنی کی طغیانی آ جاتی۔کئی سال پہلے دنیا کو آگاہ کر دیا جاتا کہ کاتمے کا وقت مکمل ہو جاتا اور مسیح یسوع اپنے لوگو ں کی مخلصی کے لیے آ جاتا۔ AK 442.1

یہ خدا کی مرضی نہیں تھی کہ بنی اسرائیل چالیس سال تک بیان میں بھٹکتے پھرتے۔وہ تو انہیں براہ راست کنعان پر پہنچا کر آباد کرنا چاہتا تھا۔مگر وہ بے ایمانی کے سبب سے داخل نہ ہو سکے۔اسی طرح خدا وند کا یہ منشا نہ تھا مسیح یسوع کے آنے میں اتنی دیری ہو اور اس کے لوگ اس پر دکھی اور گنا ہ بھری دنیا میں سالوں تک قیام کریں،مگر بے ایمانی نے انہیں الگ کر دیا اور جیسے کہ انہوں نے اس کام کو کرنے اسے انکار کر دیاجو انہیں سونپا گیا تھا۔تو اور پیدا ہو گئے جو اس پیغام کی منادی کرتے اب بھی جیسے پہلے وقتوں کی طرح صداقت کی تشہیر جو گناہ اور خطا کی مزحمت کرتی ہے وہ مخالفت کو بھڑکاتی ہے کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آتا ایسا نہ ہو کہ اس کے کوموں پر ملامت کی جائے” یوحنا20:3 AK 442.2

جب انسان نے دیکھا کہ وہ پاک نوشتوں کے ذریعہ سے اپنی پوزیشن قائم نہیں رکھ سکتے تو پھر بیشتر نے تہیے کر لیا خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ اس کو قائم رکھیں گے۔ایک بری نیت کے ساتھ ان کے کردار پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا جو سچائی کے لیے دفاع کے لئے کھڑے ہوئے۔ایلیاہ کو کہا گیا کہ تو بنی اسرائیل کو ستانے والا ہے۔ یرمیا ہ کو غدار کہا گیا پولیس کو کہا گیا کہ وہ ہیکل کو نا پاک کرنے والے ہیں اس دن سے لے کر آج تک وہ خدا کی صداقت سے وفا دار ہیں انہیں بدستی تفرقہ ڈالنے والا کہا جاتا رہا ہے۔ AK 443.1

اس کے تناظر میں سچائی کے پیغامبر کا کیا فرض ہے؟کیا وہ یہ نتیجہ اخذ کر لے کہ صداقت پیش نہیں کرنی چاہیے۔کیونکہ اس کا ثر صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگ مزاحمت کرتے اور اس کے دعوؤں کو جھٹلانے کے لیے اتھ کھڑے ہوئے ہیں اس کے سامنے یہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ خدا وند کی شہادت کو روک رکھے۔مقدسین اور شہیدوں کے ایمان کا اعتراف آنے والی پشتوں کے فائدے کے لیے ریکارڈ کیا گیا ۔ان کی تقدیس اور ایمانداری ان کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے جن کو خدا وند کی گواہی دینے کے لیے بلاہٹ دی گئی ہے۔ AK 443.2

قدیم زمانہ میں خدا وند نے انہیں فرمایا جو اس کے نام سے کلام کرتے ہین ‘لیکن بنی اسرائیل تیری بات نہیں سنین گے کیونکہ وہ میری سننا چاہتے ہین ‘’حزقی ایل7:3۔ پس تو میری باتیں ان سے کہنا خواہ وہ سنیں یا پھر نہ سنیں کیونکہ وہ نہایت باغی ہیں’’حزقی ایل7:2 اس وقت خدا کے خادم کے لیے علم ہے’’گلا پھاڑ کر چلا۔دریغ نہ کر۔نرسنگے کی مانند اپنی آواز بلند کر اور میرے لوگوں پر ان کی خطا اور ان کے گناہوں کو ظاہر کر۔ یسعیاہ1:58۔ AK 443.3

جیسے کہ اس کے مواقع میں توسیع ہوئی ہے کہ ہر ایک جس نے بنی اسرائیل کے نبی کی طرح صداقت حاصل کی ہے اسی سنجیدہ اورہولناک ذمہ داریوں کے تحت ہے۔جن جن کو خدا کا کلا م ملا انہیں یہ سندیسہ بھی پہنچا یا گیا ہے کہ ‘’’سنو اے آدمزاد!اس لیے کہ میں نے تجھے بنی اسرائیل کا نگہبان مقرر کیا ہے میرے منہ کا کلام سن رکھ اور میری طرف سے ان کو ہوشیا ر کر۔لیکن اگر تو اس شریر کو جتلائے کہ وہ اپنی روش سے باز آئے وہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو اپنی بد کرداری میں مرے گا لیکن اپنی جان بچالی۔’’’’حزقی ایل9-7:33 AK 444.1

صداقت کو قبول کرنے اور اس کی تشہیر کرنے والوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ اور لعنت ملامت ہے ۔یہی صداقت کے خلاف ایل دلیل ہے اور اس کی وکالت کرنے والے کبھی بھی اس کا دفاع نہین کر سکتے۔ مگر مسیح کی مخلصی شاگردوں کو اس سے باز نہیں رکھ سکی۔اس وقت کی انتطار میں نہیں رہتے جب تک سچائی ہر دل عزیز نہ ہو جائے۔اپنی اقلیت کے زیرِ سایہ وہ بری خوشی سے صلیب کا چناؤ کرتے ہیں اور وہ پولیس رسول کے ہم زبان ہو کر کہتے ہیں AK 444.2

” کیونکہ ہماری دم بھرکی ہلکی سی مصیبت ہمارے لیے از حد بھاری اور ابدی جلال پیدا کر تی ہے“ 2 کرنتھیوں 17:4۔ اور مسیح کے لیے لعن طعن اتھانے کو مصر کے خزانوں سے بڑی دولت جانا۔ عبرانیوں26:11۔ AK 444.3

ان کا خواہ کچھ بھی پیشہ کیوں نہ ہو ، یہ وہ جو دل سے دنیا کی خدمت کرنے والے ہیں اور وہ مذہبی چیزوں کے معاملہ میں اصولوں کی بجائے پالیسی کے مطابق عمال پیرا ہوں گے۔ ہمیں راستی کا اس لیے چناؤ کرنا ہے کیونکہ یہ راہ راست ہے اور نتائج کو خدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔خدا وند کا ارشاد ہے کہ ”اے صداقت شناسو“;میری سنو! اے لوگو جن کے دل میں میری شریعت! انسان کی ملامت سے نہ ڈرو اور ان کی طعنہ زنی سے ہراساں نہ ہو۔کیونکہ کیڑا ان کو کپڑے کی مانند کھائیگا اور کرم ان کو پشیمنہ کی طرح کھا جائے گا۔لیکن میری صداقت ابد تک رہے گی اور میری نجات پشت در پشت۔ یسعیاہ-8-7:51 AK 444.4

*****