Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۱
    انسان سے خدا کی محبت

    فطرت اور مکاشفہ دونوں کے دونوں خُدا کی بیحد محبت کے شاہد ہیں۔ ہمارا آسمانی باپ منبع حیات و دانش اور شادمانی ہے۔ قدرُت کی خُوشنما اور عجیب و غریب چیزوں کو غور سے دیکھیں۔ کہ خُدا نے کس خاص غرض و مطلب سے انہیں خَلق کیا ہے۔ اِس بات پر بھی غور کریں۔ کہ یہ چیزیں کس طرح نہ صرف بنی آدم ہی کی خوشی اور ضروریات کو رفع کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔ بلکہ تمام ذی رُوح کے آرام کے لئے خلق کی گئی ہیں۔ دُھوپ اور بارش جن سے زمین آسودہ اور تروتازہ ہوتی ہے۔ اور پہاڑ، سمندر، میدان سب کے سب اپنی زبانِ حال سے اُس خالِق کی بیحد محبت ہم سے بیان کرے ہیں۔ خُدا ہی کا دستِ قدرت تمام مخلوقات کی احتیاج برابر رفع کرتا ہے۔ حضرت داؤدؔ نے کیسے شیریں الفاظ میں بیان کیا ہے۔ سب کی آنکھیں تجھ پر لگی ہیں۔ تو اُن کو وقت پر اُن کی خوراک دیتا ہے۔ ستُو اپنی مٹھی کھولتا ہے۔ اور ہر ایک جاندار کی خواہش پُوری کرتا ۱۴۵:۱۵،۱۶ زبور ہے۔TK 6.1

    خُدا نے اِنسان کو بلکل پاک اور شادمان بنایا۔ اور خوبصورت زمین بھی اپنے ہاتھ سے خلق کی تھی۔ تو وہ ابتری، تباہی اور لعنت کے بدنُما داغوں سے مُبرا تھی۔ خُدا کی شریعت تو محبت کی شریعت ہے۔ جسکو نہ ماننے کی بدولت رنج اور مَوت اِس دنیا میں آ موجود ہوئے۔ پھر بھی اِس تکلیف و اذیت میں گُناہ کی بدولت پَیدا ہوتی ہے۔ خُداوند کریم کی محبت کا اِظہار ہوتا ہے۔ لِکھا ہے کہ اِنسان کی وجہ سے خُدا نے زمین پر لعنت بھیجی۔ گو اونٹ کٹارے اور کانٹے یعنی دُکھ و درد اِنسان کی زندگی کو محنتِ شاقہ کا مجموعہ اور غمگین اور افسردہ کردیتے ہیں۔ مگر یہی وہ چیزیں ہیں ۔ جو اِنسان کی بہتری کے لئے مُقرر کی گئی تھیں۔ کہ اِنسان کو اُس تباہی اور بربادی سے جو گُناہ کے سبب سے وجُود میں آئی تھی۔ بزرگی، سرفرازی اور سُرخروئی حاصل ہو۔ اگرچہ یہ دُنیا ویسی نہیں رہی۔ جیسی کہ خُدا نے اِسے بنایا تھا۔ تاہم رنج و غم سے یہ بلکل بھری ہوئی بھی نہیں ے۔ اگر تحقیق کی نظر سے دیکھیں۔ تو کائنات میں ہر طرف تشفی۔ تسلی۔ تسکین اور اُمید کے نشان نظر آئیںگے۔ اونٹ کٹاروں پر رنگ برنگ کے پھُول کھِلے ہُوئے ہیں۔ اور کانٹون پر گلاب کے پھُول مہک رے ہیں۔TK 7.1

    ہر ایک کھِلنے والی کلی اور لہلہاتی ہوئی گھاس پر گویا یہ لکھا ہُوا نظر جنپیاری پیاری چڑیاں خُدا محبت ہے۔ آتا ہے۔ کہ سے ہَوا میں گونج کے دلفریب راگ پیدا ہوجاتی ہے، اور ہلکے ہلکے رنگ کے پھُول جن کی خوشبو ہَوا کو معطر کر دیتی ہے۔ جنگل کے اوُنچے اوُنچے درخت جو سبز پتوں کا لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ اُن سب سے خُدا کی پدرانہ شفقت ٹپکتی یے۔ اور ظاہر ہوتا ہے کہ اُسے بنی آدم کی دلبستگی آرام دہی اور مُسرت کا کتنا خیال ہے۔ TK 7.2

    خُدا کے کلام سے اُس کی سیرت کا اظہار ہوتا ہے۔ اُس نے خود اپنے لامحدود رحم اور بے اِنتہا محبت کا بیان کیا ہے۔ جب حضرت موسیٰ ؔ نے خُدا سے دُعا کی کہ -مجھے اپنا جلال دِکھادے تو خُدا نے جواب دیا۔ میں اپنی ساری نیکی تیرے سامنے تجھ پر ظاہر کر دنگا۔ خروُج ۳۳: ۱۹، ۱۸ ۔ اور یہی اُس کا جلال ہے۔ خُدا موسٰے کے سامنے سے گزرا۔ اور فرمایا۔ خُداوند ، خُداوند خُدائے رحِیم اور مہربان، قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی۔ ہزاروں پر فضل کرنے والا۔ گُناہ اور تقصِیر اور خطا کا بخشنے والا۔ خرُوج ۳۴: ۶، ۷ غصہ کرنے میں دھیما اور نہایت مہربان ہے۔ یوناہ ۴: ۲۔ وہ شفقت کرنا پسند کرتا ہے۔ میکاہ ۷: ۱۸TK 8.1

    زمین اور آسمان پر بیحد اَیسی علامتیں اور نشانات نمایاں ہیں۔ جنہوں نے اِنسان کے دِلوں کو خُدا سے پیوست کردِیا ہے۔ قدرُت کی خوشنما چیزوں اور دنیا کے عزیز ترین اور عمیق ترین تعلقات کے ذریعہ سے خُدا نے اپنے آپ کو بنی آدم پر آشکارہ کرنے کی سعی کی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ سب چیزیں خُدا کی محبت کو کامِل طوَر سے ظاہر نہیں کرسکتیں۔ حالانکہ یہ سب ثبوت دینے کے لئے ہیں۔ لیکن سچائی اور نیکی کے دُشمن شیطان نے اِنسان کے دِلوں کو اندھا کردِیا ہے۔ تاکہ اِنسان خُدا سے ترساں و لرزاں رہے۔ اور اُس کو ایک ظالم اور معاف نہ کرنے والا خُدا سمجھے۔ شیطَان نے لوگوں کو بہکا کر یہ سمجھا دیا ہے ۔ کہ خُدا کی خاص صفت اور عادت سختی ہے۔ اِس لئے وہ نہایت ہی سخت گیر قاضی اور ظلم کا برتاؤ کرنے والا حاکم ہے۔ شیطَان نے لوگوں کے دِلوں پر خالق کو بڑی عداوت آمیز نظر سے اِنسان کی خطائیں اور قصور دیکھنے والا ثابت کرنیکی کوشش کی ہے کہ جو سزا کا حکم جاری کرنے کے لئے ہر آن آمادہ و تیار رہتا ہے۔ اِس دنیا میں خُداوند مسیح لوگوں کے ساتھ بودوباش کرنے اِسی مقصد سے آیا۔ تاکہ خُدا کی لامحدود محبت ظاہر کرکے یہ غلط خیال اُن کے دِلوں میں سے دوُر کردے۔TK 8.2

    ابنِ اللہ آسمان پر سے اِس لئے آیا۔ تاکہ باپ کو ہم پر ظاہر کرے۔ خُدا کو کِسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں یے۔ اُسی نے ظاہر کیا۔ یوحنا ۱: ۱۸۔ اور کوئی باپ کو نہیں جانتا سِوا بیٹے کے اور اُس کے جس پر بیٹا اُسے ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ متی ۱۱: ۲۷ ۔ ایک دفعہ مسیح کے رسُولوں میں سے ایک نے عرض کیا۔ کہ اے خُداوند! باپ کو ہمیں دِکھا۔ تو خُداوند مسیح نے فرمایا۔ کہ اے فلپس مَیں اتنی مُدت سے تمہارے ساتھ ہوں۔ کیا تو مُجھے نہیں جانتا؟ جِس نے مُجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔ تو کیونکر کہتا ہے۔ کہ باپ کو ہمیں دِکھا؟ یوحنا ۱۴: ۸، ۹۔ TK 9.1

    مسیح نے اپنی اس دُنیا کی خدمت کو بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا۔ خُداوند کا رُوح مجھ پر ہے۔ اِس لئے کہ اُس نے مُجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کے لئے مسح کیا اُس نے مُجھے بھیجا ہے۔ کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سناؤں۔ کچلے ہوؤں کو آزاد کروں۔ لوقا ۴: ۱۸۔ یہ اُس کا کام تھا۔ اور آپ ہر طرف بھلائی کرتا اور اُن سب کو جو ابلیس کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھاتے تھے۔ شفا دیتا پَھرا۔ اُسکے گردنواح میں گاؤں کے گاؤں تھے۔ جن میں ایک گھر بھی اَیسا نہ تھا۔ جہاں کوئی مریض ہو۔ کیونکہ اُن میں مسیح نے دَورہ کرکے سب مریضوں کو شفا بخش دی تھی۔ مسیح کے کام اور اُس کے معجزے اِس امر کے گواہ تھے۔ کہ وہ خُدا باپ کی طرف سے ضُرور مسح کیا گیا تھا۔ اُس کی زندگی کے ہر کام میں محبت، ترس اور رحم کی جھلک پائی جاتی تھی۔ بنی آدم سے ہمدردی سے اُس کا دِل معمُور تھا۔ نوع اِنسان کی حاجت روائی کی خواہش نے اُسے جِسم اِنسانی اِختیار کرنے پر مجبُور کیا۔ غریب لاچار، مجبُور اور بیکس لوگ بے کٹھکے اُس کے پاس آتے جاتے تھے۔ ننھے ننھے بچے تک اُس کی طرف کھچے چلے آتے تھے۔ وہ اُس کے پاس آ آ کر لپٹتے، کیھلتے اور اُس کے کے چہرے کو جِس سے محبت کے آثار نمایاں تھے۔ دیکھ دیکھ خوش ہوتے تھے۔TK 10.1

    مسِیح نے سچائی کے ایک لفظ پر بھی کبھی پردہ نہ ڈالا۔ بلکہ ہمیشہ محبت آمیز لہجہ میں وہ صداقت کا اِظہار کیا کرتا تھا۔ لوگوں کو تعلیم دیتے وقت وہ بڑی دانش اور مہربانی کے ساتھ محبت بھرے الفاظ کا اِستعمال کرتا تھا۔ اُس کا برتاؤ کبھی بُرا یا تلخ نہ تھا۔ وہ کبھی بیجا سخت کلامی کِسی سے نہیں کرتا تھا۔ اور نہ اُس نے کبھی کِسی دَل کو ناحق صدمہ پہنچایا۔TK 10.2

    اُس نے اِنسانی کمزوری کو بھی ملامت نہیں کیا۔ اُس نے ہمیشہ محبت بھرے الفاظ میں لوگوں کو حق بات بتائی۔ اُس نے مکاری، بےایمانی اور شرارت پر ہمیشہ ملامت کی۔اَیسے مَوقع پر ملامت کرتے ہُوئے اُس کی آنکھوں میں آنسو ڈُبڈبا آتے تھے۔ وہ شہر یروشلم پر جسے وہ چاہتا تھا۔ رویا۔ کیونکہ شہر والوں نے اپس کو قبول نہ کیا۔ اہِل شہر نے اُسے نجات دہندہ نہ مانا۔ لیکن اُس نے پھر بھی اُن کے کے ساتھ رحم و ترس کا برتاؤ کیا۔ اُس کی زندگی دوسرے کے لئے خاکساری اور خُودانکاری میں بَسر ہوتی تھی۔ ہر ایک شخص اُس کی نظر میں گرانقدر تھا۔ جبکہ وہ انہی جلال اور حشمت سے معمُور تھا۔ تو بھی خُدا کے خاندان کے ہر ایک شخص کے ساتھ بڑی دردمندی خلوص اور توجہ سے پیش آتا تھا۔ اُس نے سب آدمیوں میں گری ہوئی باتیں دیکھیں۔ جن کو بچانا اُس کا خاص کام تھا۔ TK 11.1

    مسِیح کی اَیسی سیرت اُس کی زندگی میں یوں ظاہر ہُوئی ہو۔ اور یہی سیرت خُدا کی بھی ہے۔ یہ الہیٰ ہمدردی کی ندیاں خُدا باپ کے دَل سے بہہ کر مسِحؔ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اور یُوں مسِیحؔ سے بنی آدم کو مِلتی ہیں۔ مسِیحؔ جو حلیم رحیم اور شفیع ہے۔ اُسی میں خُدا مجسم ہُؤا۔ اتمیتھیس ۳: ۱۶۔ TK 11.2

    مسِیحؔ کا اِس جہان میں آنا، رہنا سہنا اور مرنا صرف ہماری نجات کے لئے ہُؤا اور وہ ہمارے لئے مردِغمناک بنا۔ تاکہ ہم لازوال خوشی و شادمانی میں حصِہ پاسکیں۔ خُدا نے اپنے عزیز بیٹے کو جو فضل اور صداقت سے معمُور تھا۔ اِجازت دی۔ کہ ایسے عالم سے جِس کا جلال بیان سے باہر ہے۔ ایک اَیسی دُنیا میں آئے۔ جو گُناہ سے تباہ و خستہ اور مرجھائی ہُوئی ہے۔ اور مَوت اور لعنت کے سایہ میں تاریک ہورہی ہے۔ خُدا نے اُس کو اپنی محبت کی گود اور فرشتوں کی پُرجلال عبادتگاہ سے اس دنیا میں اِس لئے روانہ کیا۔ تاکہ وہ شرمندگی۔ ملامت، فروتنی بےعزتی اور موت برداشت کرے۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہُسئی۔ تاکہ اُس کے مار تھانے سے ہم شفا پائیں۔ یسعیاد ۵/۵۳ ۔ اب ذرا مسِیحؔ کو بیابان، باغِ گتسمنی اور صلیب پر دیکھیں۔ خُدا کے بیگناہ فرزند نے ہمارے گناہوں کا بار اپنے اُوپر اُتھایا۔ جو پروردگارِ عالم کے ساتھ ایک تھا۔ اُس نے اَیسی سخت جُدائی کو جو گناد، خُدا اور اِنسان کے درمیان پَیدا کردیتا ہے۔ محسوس کیا۔ اور اسی لئے نزع کی حالت میں اُس کے مُنہ سے جگر سوز اور درد انگیز آواز نِکلی۔ اے میرے خُدا ! اے میرے خُدا ! تُو نے مُجھے کیوں چھوڑ دِیا؟ متی ۲۷: ۴۶۔ گُناہ کے بوجھ اور اُس کی ہیبت انگیزی کی بدولت اُس کی رُوح کو خُدا تعالےٰ سے جُدائی ہُوئی۔ اِس سبب سے ابنِ اللہ کا دِل ٹکرے ٹکرے ہُؤا اور اُس کے مُنہ سے مزکورہ بالا فقرہ نِکلا۔TK 12.1

    یہ عظیم الشان قربانی اِس لئے نہیں کی گئی تھی۔ کہ خُدا کے دِل میں بنی آدم سے محبت پیدا کی جائے۔ اور نہ اِس لئے کہ وہ اِنسان کو بچانے کے لئے راضی ہو جائے۔ بلکہ بات یہ ہے۔ کہ خُدا نے دُنیا کو اَیسا پیار کیا۔ کہ اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا۔ یُوحنا ۳: ۱۶۔ خُدا ہم کو اِس عظیم الشان کفارہ کی وجہ سے پیار نہیں کرتا ہے۔ بلکہ حقیقت یُوں ہے۔ کہ وہ اِنسان کو اِتنا چاہتا ہے۔ کہ اُس نے اُس کے لئے یہ نادر اور عظیم الشان کفارہ مہیا کیا۔ مسیح ایک اَیسا وسِیلہ اور درمیانی تھا۔ جِس کے ذریعہ سے خُدا اپنی بے اِنتہا محبت کا اِظہار اِس دُنیا پر کرسکتا تھا۔ خُدا نے مسِیحؔ میں ہو کر اپنے ساتھ دنیا کا میل ملاپ کر لیا۔ اور اُن کی تقصیروں کو اُنکے ذمہ نہ لگایا۔ ۲ کرنتھیوں ۵: ۱۹۔ اپنے بیٹے کے ساتھ خُدا نے بھی دُکھ و تکلیف سہی۔ گستمنی میں جان کنی کے وقت، کلوری میں مَوت کے وقت محبت سے لبریز دِل (خُدا) نے ہماری مخلصی کی قیمت ادا کردی۔TK 13.1

    خُداوند یسُوع نے خود فرمایا۔ باپ مجھ سے اس لئے محبت رکھتا ہے۔ کہ میں اپنی جان دیتا ہوں۔ تاکہ میں اُسے پھر لے لوں۔ (یوحنا ۱۰: ۱۷) یعنی میرے باپ نے تُم سے اِس قدر محبت کی کہ مُجھ سے اور بھی زیادہ پیار کرنے لگا۔ کیونکہ میں نے اپنی جان تمہارے لئے نذر گزارنی ہے۔ تمہارا ضامن بننے اور تمہارا معاوضہادا کرنے اور اپنی جان دے دینے سے اور تمہاری ذمہ داری اُٹھانے سے میں باپ کا اور بھی عزیز ترین بن گیا۔ کیونکہ میری قربانی سے خُدا بھی مُنصف ٹھہر سکتا ہے۔ اور مسیح پر ایمان لانے والوں کو بھی راستباز ٹھہرانے والا بھی ٹھہر سکتا ہے۔ TK 13.2

    ہماری مخلصی کا کام خُدا کے بیٹے سِوَا اور کوئی کر بھی تو نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ خُدا کا اِظہار بخُوبی وُہی کر سکتا تھا۔ جو خُدا باپ کی گود میں تھا۔ خُدا کی بے حد محبت کی چوڑائی اور گہرائی سے وُہی اچھی طرح واقف تھا۔ اِس لئے صرف وہی اُس کو بخوبی ظاہر کر سکتا تھا۔ خُدا کو جو محبت گنہگار اِنسان سے ہے۔ اُس کا اِظہار سِوا مسِیحؔ کی بیش بہا قربانی کے اور کِسی شے سے ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ TK 14.1

    ۔ ۔ ۔ ۔ خُدا نے دُنیا سے اَیسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دِیا۔ صرف یہی نہیں۔ کہ وہ اِنسانوں میں آکر بودوباش اِختیار کرے۔ اور اُن کے گناہوں کا بوجھ خُود اُٹھا کر قربان ہوجائے۔ بلکہ خُدا نے اُسے خطاکار اِنسانوں کو مرحمت فرمادیا۔ اور مسِیحؔ کو اپنے تئیں اِنسانوں کی بھلائی اور ضروریات سے وابستہ کرنا تھا۔ مسِیحؔ نے جو خُدا کیساتھ تھا۔ نسلِ اِنسانی سے اَیسا گہرا تعلق پَیدا کیا۔ جو کبھی ٹُوُٹنے والا نہ تھا۔ اُسی باعث وہ اُنہیں بھائی کہنے سے نہیں شرماتا۔ عبرانیوں ۱۱/۲ مسِیحؔ ہماری قربانی، ہمارا درمیانی اور ہمارا بھائی ہے۔ جو خُدا کے تخت کے سامنے ہماری اِنسانی شکل میں مَوجُود ہے۔ وہ سدا اپنا تعلق اُس گروہ یعنی نسلِ اِنسانی سے قائم رکھے گا۔ جِسے اُس نے اپنے خوُن سے خریدا ہے۔ اور یہ سب اِس لئے ہُؤا۔ تاکہ اِنسان گناہ کی ذلت اور تباہی سے بلندوبالا کیا جائے۔ اور خُدا کی بے حد محبت کا اِظہار و مشاہدہ کرکے پاکیزگی کا لُطف حاصل کرے۔ TK 14.2

    ہماری نجات کے لئے جو قیمت ادا کی گئی ہے۔ یعنی اپنا اکلوتا بیٹا ہمارے گناہوں کو کفارہ میں ذبح ہونے کے لئے دے دینے سے خُدا نے لا اِنتہا قربانی ادا کی۔ اِس سے ہمارے دِلوں میں یہ خیال موجزن ہونا چاہیئے۔ کہ ہم خُداوند مسِیحؔ کے ذریعہ سے اِس سے کیا کچھ بن سکتے ہیں۔ جب رسُول یوحنا نے بے اِنتہا محبت پر غور کیا۔ تو دیکھا کہ خطاکار بنی آدم کیلئے خُدا کا بحرِ محبت کتنا وسیع ہے تو اُسے زبان کی لغت میں اَیسے لفظ نہ مِل سکے۔ جِن سے وہ خُدا کی اُس بیحد محبت کا بیان کر سکے۔ اِس لئے اُس نے دُنیا سے مخاطب ہو کر یوں کہا:؍TK 15.1

    دیکھو باپ نے ہم سے کَیسی محبت کی ہے۔ کہ ہم خُدا کے فرزند کہلائے۔ ۱ یوحنا ۳: ۱۔ اِس سے اِنسان کی وقعت اور مرتبہ کَیسا افضل ہے۔ نافرمانی کی بدولت بنی اِنسان شیَطان کے غُلام ہوگئے۔ لیکن مسِیحؔ کی قربانی اور کفارہ پر ایمان لانے کی وجہ سے نسلِ اِنسانی خُداوندِ عالم کی فرزند بن سکتی ہے۔ مسِیحؔ نے اِنسانی طبیعت اور جَسم قبول کر کے اِنسانیت کا درجہ بلند کردِیا۔ اور خطاکار اِنسان اَیسی جگہ پہنچ گئے جہاں مسِیحؔ سے تعلق اور رابطہ کے ذریعہ سے وہ اپنے نام یعنی خُدا کے فرزند کے مناسب طَور سے مستحق ہوجاتے ہیں۔ TK 15.2

    سچ تو یہ ہے کہ اَیسی محبت لامثال ہے۔ جو ہم سے آسمانی بادشاہ کے فرزند بننے کا وعدہ کرتی ہے۔ کیسا قیمتی وعدہ ! یہ ایک بڑے غَوروفکر کا مضمون ہے۔ کہ خُدا کی لامحدود محبت ایک اِیسی دنیا کے لئے ظاہر ہُوئی۔ جس نے اُس سے بلکل محبت نہ کی۔ اَیسا خیال انسان کی رُوح پر زبردست اثر رکھتا ہے۔ اور دِل و دماغ کو خُدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے۔ صلیب کی روشنی میں جتنا زیادہ ہم الہیٰ خصائل پر نگاہ کرتے ہیں۔ اُتنا ہی زیادہ ہم خُدا باپ کے رحم، ترس اور معافی کو داد اور انصاف میں مِلا ہُؤا پاتے ہیں۔ اور زیادہ صفائی کے ساتھ اُس کی محبت کے جو لامحدود ہے۔ بے شمار اثبات دیکھ سکتے ہیں۔ اور یہ معلُوم کر سکتے ہیں۔ کہ ماں باپ کی محبت جو گمراہ بچہ کے لئے ہوتی ہے۔ اِس کا نظیر نہیں رکھتی۔ TK 15.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents