Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    ۱ باب
    خُدا کی پہچان

    خُدا وند خُدا بہت سے طریقوں سے اپنے کو ہم پر ظاہر کرنا۔ اَور ہمیں اپنے ساتھ اتحاد اور میل ملاپ میں لانا چاہتا ہے۔ قدرت کاملہ ہر آم بلا ناغہ ہمارے حواس خمسہ سے اِس کا پرچار کیا کرتی ہے۔ کُھلا ہُوا دِل خُدا کے جلال اَور مُحبّت سے جو اُس کی دستکاریوں سے نمایاں ہے۔ مُوثر ہوگا۔ سُننے والا کان خُدا کے کلامم کو فِطرت کے ذریعہ سے سُن سکتا اَور سمجھ سکتا ہے۔ خُدا کے ہر ے بھرے کھیت لہلہاتے اور سر سبز چراگاہیں، درخت، رنگ برنگے پھُول دیتے ۔ گھٹائیں، بارش، بہتے ہُوئے چشمے، جگمگاتے ہُوئے تارے یہ سب کے سب انسان کے دل سے کلام کرتے ہَیں۔ اَور کہتے ہیں کہ اَے بشر اُس کی طرف رجوع کر جِس نے تجھے خلق کیا ہے۔ TK 107.1

    ہمارے شفیع نے اپنی نفیس تعلیم کو اشیائے قدرت کے لباس سے آراستہ کر کے ہمارے رُوبرُو پیش کِیا ہے۔ اُس نے درختوں، چرندوںو پرندوں رنگ رنگ کے پھولوں پتوں، پہاڑوں، جھیلوں، خوشگوار مناظر آسمان اَور امور زندگی کے متواتر تعلقات و واقعات سب ہی کو تو اپنے کلام برحق کے سِلسِلہ میں شامِل کر لِیا ہے۔ تا کہ اِنسان کی اِس مُتفکر اور دُکھ بھری زندگی میں بھی اُس کی ہدایت وا تعلیم دماغ میں ہر وقت تازہ رہے۔ TK 107.2

    خُداچاہتا ہے کہ اُس کے فرزنداُس کے کاموں کی قدر کریں۔ اَور اِس تمام سادہ و خاموش پرسکون خوبصورتی سے محظُوط ہو جس سے اُس نے اِس عالم کو جو دنیوی مسکن ہے زینت بخشی ہے۔ وہ حُسن سے مسرور ہوتا ہے۔ مگر اس تمام بیرونی خُوبصُورتی سے زیادہ لوگو ں کی خوش اطواری کو پسند کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم میں پاکیزگی اَور سادگی ظہُور پذیر ہو۔ اَور پُھولوں کی طرح خوبیاں اَور خوشبوٴئیں ہم میں سے نکلیں۔ TK 108.1

    اگر ہم خُدا کی دستکاریوں سے دریافت کریں تو وہ ہمیں کُلّ اَور فرمانبرداری کی بیش بہا تعلیم دین گی۔ ستاروں اَور سیّاروں سے جو اپنے اپنے دَور اور قیام اور برکت میں زمانہ دراز سے مصرُوف ہَیں۔ چھوٹے چھوٹے ذرّات تک اپنے خالق کی مرضی کے مطابق اپنی روش کو قائم رکھتے ہیں۔ اَور خُدا کی ہر چیز کی فکر کرتا اَور اُسے سنبھالے رہتا ہے۔ جملہ کائنات خلاّقِ عالم کی مرضی بجا لاتی ہے۔ اُس کا حسن انتظام ہر ایک خلقت کی نگہداشت کرتا ہے۔ جو بے انتہا اَور بے شمار عالموں﴿یعنی دنیاوٴں﴾ کا انتظام کرتا ہے۔ پھر بھی ایک چھوٹی سے چھوٹی چڑیا جو اِدھر اُدھر نڈر گاتی پھِرتی ہَے کی بھی جُملہ ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ جب اِنسان اپنی روزانہ محنت و مشقّت میں مشغول ہوتا ہے۔ یا عبادت میں مصروف ہوتا ہے۔ یا جب وہ رات کو سونے لیٹتا یا صُبح کو جاگتا ہے۔ یا جب امیر لوگ اپنے عالیشان محلات میں دعوتیں کھاتے ہیں۔ یا جب غریب لوگ اپنے جھونپٹروں میں بُھوکے پیاسے اپنے بچّوں کے کلیجے سے لگا کر پڑ رہتے ہَیں۔ آسمان کے خُدا کی نگاہَیں بڑی مُحبّت سے سب پر پڑتی ہیں کوئی کیا آنسو نہیں جو خُدا کو معلوم نہ ہو۔ اَور نہ کوئی اَیسی مسکراہٹ ہے جِسے خُدا بٕغور نہ دیکھتاہو۔ TK 108.2

    اگر انسان اُس پر پوُرا یقین رکھتے تو تمام تکالِیف دُور ہو جائیں۔ اَور اِنسان کی زندگی نا اُمیدی اَور مایُوسی سے جَیسی کہ اب ہے، پاک ہو جائے۔ اَور ہر ایک ادنٰی و اعلیٰ شے خُدا ہی کے سُپرد کردی جائے۔ جو فِکروں کی کثرت سے نہ تو پریشان اور نہ اُ کے ادبار سے خوف ذدہ ہوتا ہے۔ اِس تدبیر سے رُوح کو وہ اطمینان اَور سیر ی حاصل ہوگی جِس سے لوگ مدتوں نا آشنا ء رہے ہیں۔ TK 109.1

    اس عالم فانی کی چیزیں جب کہ انسان کے لئے اَیسی دِلکش ہَیں تو بھلا اُس جہاں آئندہ کے مناظر کی دِلفریبی کا کیا حال ہوگا۔ جہاں کہ گناہ اَور مَوت کا گُذر تک نہیں۔ اَور جہاں خُدا کی خلقت لعنت کے سایہ سے محفوظ ہوگی۔ ذرا اُ س دنیا کے نجات یافتہ لوگوں کی سکُونت گاہ پر نظر ڈال کر خیال دَوڑائیں۔ اَور یہ یاد کریں کہ وہاں کی شان و شوکت عظمت و جلال آپ کے تصورات سے کہیں زیادہ ہوگا۔ اُس کی قُدرت کاملہ کی یہ نادر بخشش ہو روزانہ ہماری آنکھیں دیکھا کرتی ہَیں۔ یہ اُس آنے والے جہاں کی خوبیوں کے مقابل میں کُچھ بھی نہیں کیونکہ پا ک کلام میں لِکھا ہے کہ جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سُنیں نہ آدمی کے دِل میں آئیں۔ وہ سب خُدا نے اپنے مُحبّت رکھنے والوں کے لئے تیار کر دیں۔١۔کرنتھیوں ۲:۹TK 109.2

    شاعر اَور عالم طبیعات دوںو کے دونوں خُدا کی قُدرت کاملہ کی بابت بہت کچھ کہتے ہَیں، مگر مسِیحی شخص ہی اُن سے کہیں بڑھ چڑھ کر ان چیزوں سے لُطف اَور خط اُٹھاتا ہے۔ کیونکہ وہ خدا کی دستکاریوں کو دیکھ دیکھ کر پھُول پتےّ اَور درختوں میں خُدا کی عجیب و غریب مُحبّت کا پتہ لگاتا ہے۔ کوئی شخص پہاڑ وادی ، دریا اور بحر کے مطالب اَور مقاصد کی کامل طور پر قدرومنزلت نہیں کر سکتا ہے۔ تاوقتیکہ وہ اُن چیزوں پر یہ خیال کر کے نظر نہ ڈالے کہ خُدا نے اِن سب کے خلق کر نےمیں انسان کے فوائد اور بہتری کو مدّنظر رکھاّ ہے۔ TK 110.1

    خُدا اِنسان سے اپنے کام کے ذریعہ سے اُس کے دل پر اثر ڈال کر اپنے پاک روح کے وسیلہ سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اگر ہمارے دِل کے دروازے کُھلے ہَیں اور قوّت امتیاز ہم میں مَوجُود ہے۔ توجو جو واقعات، تعلقات اَور تبدیلیاں روز مّرہ ہمارے گردوپَیش ہُوا کرتی ہَیں۔ اُن سے ہمیں نہایت اعلٰی اسباق حاصل ہو ں گے۔ مُصنّف زبُور خُدا کی قدرت کا بیان کرتے ہُوئے یُو ں لِکھتا ہَے کہ زمین خُدا کی شفقت سے معمُور ہے﴿زبور۳۳:۵﴾دانا اِن باتوں پر توّجّہ کرے گا۔ اَور وہ خُدا کی شفقت پر غور کریں گے۔ زبور ١۰۷:۴۳TK 110.2

    خُدا اپنے کلام کے ذریعے سے ہم سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اَور اُس میں اُس کی صفات نہایت صفائی سے بیان کی گئی ہیں اَور اِس میں اُس کے بنی آدم سے تعلقات اَور نجات کے کار عظیم کا بھی بیان ہُوا ہے۔ زمانہ گُذشتہ کے بزرگ، رسُول، انبیاء اَور دیگر مقدسّوں کی تواریخ بھی درج ہے۔ وہ سب کے سب ہم طبیعت انسان تھے۔ یعقوب۵:١۷۔ اِس میں ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ وہ کِسی طرح ہماری مثل ناکامیابیوں میں جدوجہد کرتے تھے۔ اَور اسی لِئے آخرکار خُاا کے فضل سے کامیاب ہُوئے۔ اُن سب واقعات کو پڑھ کر ہمیں ہمّت اَور دلیری ہوتی ہے۔ کہ ہم بھی راستباری کی پیروی میں قاصر نہ رہیں۔ جب ہم اُن مبارک تجربوں کا جن کا کہ خُدا نے اُن کو موقع دیا۔ اَور وہ نور، مُحبّت، برکات جب کو پا کر وہ مسرور ہُوئے۔ اُن سب کا بیان پڑھتے ہیں۔ اَور اُن فعال پر نظر ڈالتے ہَیں۔ جو اُنہوں نے فضلِ الہٰی کے وسیلہ سے کئے تھے۔ اَور جِس رُوح نے اُن کی ضمیروں کو منّور کِیا تھا تو وہ ہمارے قُلوب میں بھی ایک پاک جوش پیدا کرتی ہے۔ اَور ہمارے دلوں میں یہ حوصلہ پَیداہوتا ہے کہ کیوں نہ ہم بھی اُن ہی کے سے اطوار و خصائل اختیار کریں۔ تا کہ ہر وقت خدا کے ساتھ ساتھ رہیں۔ TK 111.1

    خُداوند مسِیح نے پر انے عہد نامہ کی بابت یُوں فرمایا ہے کہ یہ وہ ہیں جو میری گواہی دیتے ہَیں۔ یُوحنّا ۵:۳۹۔ تو نئے عہد نامہ کی بابت اُس کا یہ قول بہت زیادہ صحیح ہوگا۔ یعنی یہ دونوں نجات دہندہ کی بابت گواہی دیتے ہَیں جِس پر کہ ہماری تمام ابدی اُمیدوں کا دارومدار ہے۔ ابتدائی کتاب پَیدائش سے لے کر تما کتابِ مُقدّس مسِیح کے تذکرہ سے پُر ہے۔ پَیدائش کے سب سے پہلے بیان سے کہ کوئی چیز بھی بغیر اُس کے پَیدا نہیں ہُوئی۔ یوحنّا ١:۳ کتابِ مُقدّس کے آخری وعدہ تک دیکھو مَیں جلد آنے والا ہوں۔ مکاشفہ ۲۲:١۲ ہم اُس کے کاموں کا بیان پڑھتے ہَیں۔ اَور اُس کی آواز پر کان لگاتے ہَیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی واقفیت شفیع سے ہو جائے۔ تو پاک نوشتے کی متواتر تلاوت کِیا کریں۔ TK 111.2

    خُدائے پاک کے کلام سے اپنے دِلوں کو بھریں۔ کیونکہ وہ مثل آب حِیات کے آپ کی پیاس کو رفع کردے گا۔ اَور یہی کلام پاک آسمان کی زندگی بخش روٹی ہے۔ مسِیح نے فرمایا ہے کہ جب تک تُم ابن آدم کا گوشت نہ کھاوٴ۔ اَور اُس کا خُون نا پیوٴ۔ تُم میں زندگی نہیں۔ اِس جملہ کہ تشتریح اُس نے خُود ہی یہ کہہ کر کردی تھی کہ جو باتیں مَیں نے تُم سے کہیں وہ رُوح اَور زندگی ہَیں۔ یُوحنّا٦:۵۳،٦۳ یہ تو عیاں ہے کہ ہمارے کھانے پینے کی بدولت ہمارا جِسم پرورش پاتا ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے۔ کہ جَیسے نظامِ جسمانی لازمی ہے، ویسے ہی نظام رُوحانی بھی ضُروری ہے۔ اسی لئے جب رُوحانی باتوں پر غوروخوض کیا جاتا ہے۔ تو قوّت روحانی کو مزید قُوّت حاصل ہوتی ہے۔ TK 112.1

    نجات کا مضمُون وہ شے ہے۔ جس کو آسمانی فرشتے دیکھنے کی خواہش رکھتے ہَیں۔ اَور نجات یافتہ لوگوں کا یہ ابدالا باد کے زمانے میں علم اَور حکمت اَور گیت ہوگا۔ اب کیا آپ کے خیال میں یہ مسئلہ اِس وقت قابل غَور نہیں۔ مسِیح کی ناممکن البیان مُحبت و رحم اَور ہمارے لئے اپنی جان قربان کرنا۔ وہ امُور ہیں جِن پر ہمیں نہایت سنجیدگی سے دھیان رکھنا چاہیے۔ ہمیں لازم ہے کہ ہم اپنے پیارے شفیع اَور عزیز وکیل کے اطوارو خصائل کی طرف زیادہ رجُوع ہوں۔ اَور اسِی کے ساتھ ساتھ اس کی خدمت پر بھی غَور کرنا چاہیے۔ جو اپنی اُمّت کو خطاکاری اَور گناہگاری سے بچانے آیا۔ جب ہم آسمانی مسائل پر یُوں غوروفکر کریں گے۔ تو ہمارا ایمان اَور مُحبّت مضبُوط ہو جائیں گے۔ اَور ہماری دُعائیں بہت ہی قابلِ قبُول ہوں گی۔ کیوں کہ اُن میں بکثرت ایمان و مُحبّت آمیختہ ہوں گے۔ اَور اُن میں جوش و سرگرمی دانش و ہوش پائے جائیں گے۔ اَور مسِیح پر مسلسل توکّل اَور آسرارکھا جائے گا اور انتہا تک اُن کو جو اُسکے پاس آتے ہیں۔ اُس کی بچانے والی قُدرت میں ایک زندہ بحربہ ہوگا۔ TK 113.1

    جب ہم اپنے شافع کی کاملیّت پر غور کریں گے۔ تو ہم اُس کی سی پاکیزگی اختیار کرنے کی کوشش کریں گے۔ تا کہ ہم اُس پرانی طبیعت کو بدل کر اُس کی سی پاکیزہ صُور ت میں تبدیل ہو جائیں۔ ہماری رُوح ہر آن اُس کی مشابہت اِختیار کرنے کے لئے جِس کے ہم پرستار ہیں۔ بے چین اَور بھُوکی اَور پیاسی رہے گی۔ جِتنا زیادہ ہم مسِیح کی طرف متوجہ ہوں گے۔ اُتنا ہی زیادہ ہم مسِیح کی بابت لوگوں کو بتا سکیں گے۔ اَور دنیا بھر میں اُس کو ظاہر کریں گے۔ TK 113.2

    کتابِ مقدّس صرف عالموں ہی کے لئے نہیں لکھی گئی۔ بلکہ برعکس اس کے وہ عام لوگوں کے لئے بھی تحریر ہُوئی۔ جو حقِیقت اَور صداقت نجات کے لئے ضُروری تھیں۔ وہ روزِ روشن کی طرح اُس میں عیاں کردی گئیں ہیں۔ تا کہ کوئی نہ بھٹکے اَور نہ غلطی کرے سوائے اُن لوگوں کے جو اپنی خودنمائی سے خدُا کے احکام کو برطرف کر کے اپنی مرضی پر چلنا چاہتے ہیں۔ TK 114.1

    ہمیں لازم ہے کہ خود نوشتے کی تلاوت کیا کریں۔ اَور کِسی دُوسرے سے اس کے دریافت کرنے کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھے نہ بیٹھے رہَیں۔ کہ کلام پاک میں کیا لِکھاہے۔ اگر ہم اُس غوروفکر کے کام کو جو ہمیں کرنا چاہئے۔ خود نہ کریں۔ بلکہ اَوروں کو سونپ دیں۔ توہماری ذاتی قوتیں اور لیاقتیں بے کار ہوں جائیں گی۔ دماغ کی اعلٰی قوّتیں اگر اُن سے کام نہ لِیا جإئے گا ۔ تو بیکار ہوجائیں گی۔ اَور کلام خُدا کے حقیقی مطالب کے سمجھنے کی قابلیّت اُن سے زائل ہو جائے گی۔ لیکن اگر اُن سے کام لے کر کتاب مُقّدس کے مظامین پر غور و فکر کر کے ان کی کماحقہ چھان بِین کرتے رہَیں گے۔ تو آپ کی دماغی قوتیں روز بروز ترّقی کرتی جائیں گی۔ لازم ہے کہ ہم ہمیشہ توشتوں کا نوشتوں سے اَور روحانی باتوں کا روحانی باتوں سے مقابلہ کیا کریں۔ TK 114.2

    دماغی اَور رُوحانی دونوں طرح کی قوّتوں کو ترقّی دینے کا۔ اِس سے بڑھ کر اَور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ کہ برابر کلام پاک کی تلاوت کی جائے۔ بُلندی و سرفرازی خیالات کے لئے اُس سے بڑھ کر اَور کوئی کتاب دُنیا میں نہیں ہے۔ یہ کتاب لیاقت اور قابلیّت کو قوّت بخشتی ہَے۔ اُسکی برحق باتیں بڑی وسعت کے ساتھ سرفرازی بخش ثابت ہوتی ہَیں۔ اگر اِنسان کلام اﷲ﴿یعنی بائبل﴾ کو جَیسا چاہئے وَیسا ہی پڑھے۔ تو پاکیزہ چال چلن اَور منّور دماغ بن جائے گا۔ اَور اِسکے مقاصد و مطالب میںوہ استقلال پیدا ہوگا۔ جو آج کل کم نظر آتا ہے۔ TK 114.3

    کتاب مقّدس کو سرسری طور پر پڑھنے سے محض معمولی فائدہ پہنچتا ہے ممکن ہے کہ کوئی شخص کتاب مُقّدس کو آخر تی پڑھ جائے۔ اَور اُس کے حسن و مطالب رازوحقیقت سے پُورے طور سے واقف نہ ہو۔ تو ایسے پڑھنے سے کیا حاصل! چاہے تو یہ کہ جب آدمی اِس کلام کی تلاوت کرے تو بڑے غوروخوصّ سے اُس کے معنی و مطالب ذہن نشین کرتا جائے اَور ایک ایک مسئلہ کو فکر کر کے حل کر لے۔ تب آگے بڑھے اَور سا تھ ساتھ یہ بھی دیکھتا جائے۔ کہ آیا اِس مسئلہ سے تدبیر نجات کا کچھ لگاوٴ بھی ہے ۔ یا نہیں۔ اَور ہَے تو کہاں تک ہے۔ اِس طریقہ پر اگر کلام پاک کے چند ابواب روزمرّہ پڑھے جائیں ۔ توو ہ مُفید ہیں۔ کہ بلا سمجھے بُوجھے طوطے کی طرح بہت سے باب پڑھ لِئے۔ اَور اصل مقصد کُچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔ اپنی کتاب مقدّس ہمیشہ اپنے ساتھ رکھّا کریں۔ اَور جب فرصت ہُور کرے۔ تو تلاوت کیا کریں۔ اَور نوشتوں کو حِفط کریں۔ بلکہ چلتے ہُوئے بھی کِسی حصّہ کو پڑھ کر اُس پر غوروخوض کر کے اُسے ذہن نشین کر لینا چاہئے۔ تا وقتیکہ کلام خُدا کی بغور اور دُعا کے ساتھ تلاوت نہ کی جائے فہم و دانش حاصل نہیں ہو سکتی۔ بعض حِصّے تو کلام پاک کے اَیسے سادہ اَور صاف ہَیں۔ کہ اُن کے سمجھنے میں دِقت نہیں ہوتی۔ لیکن بعض اَیسے گہرے ہَیں کہ اُن کو سر سری طور پر پڑھنے سے دماغ اُن کے معانی و مطالب تک پہنچنے میں قاصر رہتا ہے۔ تاوقتیکہ وہ بغور نہ پڑھےجائیں۔ کلامِ پاک کے مضامین کو کلام پاک ہی سے مقابلہ کر کر کے دیکھا جائے۔ اَیسے مظامین کو سمجھنے کے لئے تحقیق اَور دُعا کی شدید ضرُرورت ہے۔ اَور اِس قسم کا مطاولہ مفید اَور سُود مند ہوگا۔ جِس طرح کان کن سطح زمین کے نیچے جا کر معدنیات سے بیش بہا چیزیں کھود کھاد کر باہر نِکال لاتے ہیں۔ اُسی طرح کلام میں بھی تلاش کرتا ہے۔ گویا کہ اُس چُھپے ہوئے خزانے کو برآمد کرتا ہے۔ ﴿یعنی کتاب اﷲکے رازوں کو﴾ اور یوں اُس بیش بہا صداقت کو جو لاپرواہوں کی نِگاہوں سے اوجھل ہے۔ حاصل کر لینا ہے۔ الہامی الفاظ دل میں تخت نشِین ہو کر چشمہٴ آب ِحیات کی طرح رواں رہتے ہیں۔ TK 115.1

    کتابِ مقدّس کی تلاوت دُعاکے بغیر ہرگز نہ کرنی چاہیے۔ اَور قبل اِس کے کہ کِتابِ مقدس کھولی جائے۔ خُدا سے رُوح القدّس کی مدد مانگیں۔ تا کہ قلب منوّر ہو۔ اَور یاد رکھیّں کہ ہر ایک طالب کو رُوح القدس ملیگا جب نتن ایل مسِیح کے پاس آیا۔ تو مسِیح نے کہا۔ کہدیکھو یہ فی الحقیقت اسرائیلی ہے۔ اِس میں مکر نہیں۔ نتن ایل نے اُس سے کہا تو مجھے کہاں سے جانتا ہے۔ یسُوع نے اُس کے جواب میں کہا۔ اِس سے پہلے کہ فلپس نے تُجھے بُلایا۔ جب تو انجیر کے درخت مے نیچے تھا مَیں نے تجھے دیکھا۔ یُوحنّا١:۴۸،۴۷۔ اگر ہم روشنی کی تلاش کریں تا کہ ہمیں سچائی معلُوم ہو۔ تو وہ ہمیں اُن خلوت خانوں میں بھی دیکھتا ہے جہاں ہم مصرُوف ہو تے ہَیں۔ جو حلِیم دل سے خُدا کی ہدایت کے خواہاں ہوتے ہَیں۔ تو فرشتگانِ عالم نورانی اُن کے ساتھ رہتے ہَیں۔ روحِ پاک نجات دہندہ کی بزرگی اَور جلال ظاہر کرتا ہے۔ روح پاک کا کام مسِیح کو بُلند کرنا۔ اَور اُس کی راستباری کی پاکیزگی۔ اَور نجات عظیم کو جو اُس کے وسیلہسے ہمیں نصیب ہوتی ہے۔ ظاہر کرنا ہے۔ مسِیح نے فرمایا ہے۔ وہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا۔ یُوحنّا١٦:١۴ صداقت کی رُوح ہی صداقت آلہی کا اُستاد ہے۔ خداوند کو بنی آدم کا اتنا زیادہ خیال ہے۔ کہ اُس نے اپنا بیٹا اُن کے عوض مرنے کو دے دیا۔ اَور آپنے رُوح کو اُس نے بنی نوع اِنسان کا اُستاد اَور رَہبر بنا دیا۔TK 116.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents