Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
چرچ کے لئے مشورے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    مسزایلن جی ہوائٹؔ صاحبہ واقف کاروں کی نظر میں

    مسز ہوائٹؔ صاحبہ کی غیر معمولی زندگی کو معلوم کر کے کہ وہ خدا کی خادمہ تھیں ، بعض لوگوں نے یہ سوال پوچھا ہے کہ وہ کس قسم کی خاتون تھیں؟ کیا وہ ان ہی مشکلات سے دوچار تھیں جو ہمیں روز مرّہ کی زندگی میں پیش آتی ہیں ؟ کیا وہ غریب تھیں یا کہ امیر، کیا وہ کبھی مسکراتی بھی تھیں ؟ CChU 18.1

    مسز ہوائٹؔ صاحبہ صاحبِ فکر ماں تھیں ، وہ سمجھدار اور محتاط بیوی تھیں ۔ وہ خوش طبع اور مہمان نواز تھیں اور اکثر ہم ایمان لوگوں کی مہمان نوازی کیا کرتی تھیں ۔ وہ ایک مددگار پڑوسن تھیں ۔ وہ خوش مزاج ، خوش اطوار ، شیریں گفتار اور حلیم و فروتن خاتون تھیں ۔ ان کی زندگی میں رنجیدہ ، افسردہ اور مغموم مذہب کو دخل نہ تھا ۔ ان کے سامنے ہر ایک بے تکلفی محسوس کرتا تھا۔ مسز ہوائٹؔ صاحبہ کے ساتھ واقفیت پیدا کرنے کا بہترین وقت شاید ۱۸۵۹ ء کا تھا۔ کیونکہ اس سال انھوں نے اپنا روزنامچہ لکھنا شروع کیا ۔ CChU 18.2

    ایلڈر ہوائٹ اور ان کا خاندان بیٹل کریک شہر کے باہر سکونت پذیر تھا، ان کی رہائش گاہ چھوٹے سے بنگلے میں تھی ، جس کے چاروں طرف باغبانی کیلئے کافی زمین تھی۔ اس میں چند پھلدار درخت ، ایک گائے اور کچھ مرغیاں تھیں اور لڑکوں کے کھیلنے اور کام کرنے کیلئے کافی جگہ تھی ۔ اس وقت مسز ہوائٹؔ صاحبہ کی عمر ۳۱ سال کی تھی اور ایلڈر ہوائٹ ۳۶ برس کے تھے ۔ ان کے خاندان میں اس وقت تین لڑکے تھے اور ان کی عمریں ۴، ۹، اور ۱۲ سال کی تھیں ۔ CChU 18.3

    ان کے گھر میں ایک نیک مسیحی نوجوان لڑکی تھی جو گھر کے کام میں مدد دینے کیلئے رکھی گئی تھی۔ کیونکہ مسز ہوائٹؔ صاحبہ اکثر گھر سے باہر رہتی تھیں اور اپنے تصانیف اور تقاریر میں مشغول رہتی تھیں ۔ تاہم وہ گھر کر فرائض یعنی کھانا پکانا ، کپڑے دھونا ، صفائی رکھنا اور کپڑے سینا بخوبی انجام دیتی تھیں ۔ بعض دفعہ وہ چھاپہ خانہ میں چلی جاتیں اور کسی خاموش کمرے میں بیٹھ کر لکھتی رہتیں ،۔ بعض دنوں وہ باغ میں پھول اور سبزیاں بوتیں اور کئی دفعہ پڑوسیوں کے ساتھ بیجوں اور سبزیات کا تبادلہ کرتیں ۔ ان کی ہمیشہ یہی خواہش ہوتی تھی کہ وہ اپنے گھر کو جہاں تک ممکن ہو خوشنما بنائیں تاکہ بچے اپنے گھر کو ہر طرح سے رہنے کیلئے خوشگوار پائیں ۔ مسز ہوائٹؔ صاحبہ خرید وفروخت کے معاملہ میں نہایت محتاظ تھیں اور ایڈونٹسٹ پڑوسی ان کے ساتھ بازار جا کر بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ انھیں ہر چیز کی قدر و قیمت کا علم ہوتا تھا، ان کی والدہ نہایت ہوشیار اور عقلمند خاتون تھیں اور انھوں نے اپنے بیٹیوں کو کئی مفید اور کار آمد اسباق سکھائے تھے ۔ اور اس بات کو بخوبی جانتی تھیں کہ گھٹیا قسم کی چیزیں دیرپا نہ ہونے کی وجہ سے مضبوط اور اعلیٰ اشیاء کے مقابلہ میں مہنگی پڑتی ہیں ۔ CChU 18.4

    ان کے گھر میں بچوں کیلئے سبت کا دن بہت ہی خوشی کا دن ہوتا تھا۔ تمام خاندان سبت کی عبادتوں میں شریک ہوتا اور اگر ایلڈر ہوائٹ اور مسز ہوائٹؔ صاحبہ کو کسی سبت پر وعظ پیش کرنے سے فرصت ہوتی تو تمام خاندان عبادت کے وقت ایک ہی جگہ مل کر بیٹھتے ۔ سبت کے دن کھانے کیلئے کوئی ایسی دل پسند خوراک ہوتی جو دوسرے دنو ں میں استعمال نہیں ہوتی تھی۔ اگر دن خوشگوار ہوتا تو مسز ہوائٹؔ صاحبہ اپنے بچوں کے ساتھ کسی کھلی فضا یا دریا کے کنارے سیر و تفریح کیلئے چلی جاتیں ۔ اور وہاں وہ سب مل کر خدا کی قدرت کی خوبصورتی کا مشاہدہ کرتے ۔ اگر سردی یا بارش کا موسم ہوتا تو وہ بچوں کو آگ کے پاس جمع کر لیتیں ۔ بعض دفعہ ان ہی کہانیوں کو کتاب کی صورت میں چھاپہ جاتا تا کہ دوسرے والدین بھی انھیں اپنے بچوں کے سامنے پڑھ سکیں ۔ CChU 19.1

    اس وقت مسز ہوائٹؔ صاحبہ کی صحت زیادہ اچھی نہ تھی اور دن کے وقت جسمانی نقاہت کے سبب سے اکثر ان پر غشی طاری ہوجاتی ۔ لیکن یہ کمزوری کسی طرح بھی ان کے گھریلو اور مذہبی فرائض میں مداخلت نہیں کرتی تھی۔ چند سال بعد ۱۸۶۳ ء انھیں رویا میں صحت اور بیماریوں کی تیمارداری کے متعلق ہدایات ملیں ۔ انھیں رویا میں مناسب اور موذوں پوشاک ، مقوی اور صحت بخش غذا ، ورزش اور آرام اور خدا پر بھروسہ رکھنے کی اہمیت دکھائی گئی جو تندرست و توانا جسم کیلئے نہایت ضروری ہے۔ CChU 19.2

    خدا نے جو روشنی ، خوراک اور گوشت کے نقصانات کے متعلق انھیں بخشی وہ مسز ہوائٹؔ صاحبہ کے خیالات کے بالکل برعکس تھی ۔ ان کا ذاتی خیال تھا کہ صحت اور توانائی کیلئے گوشت کا استعمال نہایت ضروری ہے۔ اس رویا کی روشنی میں انھوں نے اپنی مددگار لڑکی کو ہدایت کی کہ اب سے ہمارے دسترخوان پر صرف متوازن اور سادہ کھانے چنے جائیں ، جن میں اناج ، سبزی ، گری دار میوے، دودھ، ملائی اور انڈےCChU 19.3

    شامل ہوں۔ چنانچہ اُن کے گھر میں پھلو ں کا کثرت سے استعمال ہونے لگا۔CChU 20.1

    جب خاندان دسترخوان کے گرد جمع ہوا تو انہوں نے مقّوی اور متوازن غذا تو کافی مقدار میں دیکھی مگر گوشت نہ پایا۔ مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ گوشت کی بہت بھوکی تھیں اور دوسرے کھانوں کی پرواہ نہیں کرتی تھیں ۔ چنانچہ وہ یہ خیال کر کے دستر خوان سے اٹھ کر چلی گیئں کہ جب تک مجھے سادہ خوراک کا شوق پیدا نہ ہو کھانا کھانے کیلئے دسترخوان پر نہیں آؤں گی۔ کھانے کے دوسرے وقت بھی یہی واقعہ پیش آیا لیکن انہیں سادہ خوراک بالکل پسند نہ آئی ۔ تیسرے روز پھر وہ کھانے کیلئے جمع ہوئے۔ وہاں سادہ خوراک موجود تھی جو خدا نے انھیں بہتر صحت و توانائی اور نشو و نما کیلئے رویا میں دکھائی تھی ، لیکن وہ گوشت کی بھوکی تھیں جس کی انھیں عادت پڑ چکی تھی ۔ تا ہم اب انھیں اس حقیقت کا علم ہو چکا تھاکہ گوشت مفید خوراک نہیں ۔ وہ خود بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر یوں کہا کہ ”جب تک تم سادہ خوراک کھانا پسند نہ کرو تمہیں بھوکا رہنا پڑے گا“۔ CChU 20.2

    زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مسز ہوائٹ صاحبہ سادہ خوراک کو پسند کرنے لگیں اور خوراک میں تبدیلی کے سبب سے ان کی صحت بہت جلد بہتر ہو گئی، اور وہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں نسبتاً زیادہ صحت مند رہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسز ہوائٹ صاحبہ کو بھی ہماری طرح مشکلات سے مقابلہ کرنا پڑا۔ انھیں ہم سب کی طرح اپنی اشتہا پر غلبہ پانا پڑا۔ اصلاحِ صحت مسز ہوائٹ صاحبہ کے خاندان کیلئے اسی طرح برکت کا باعث ثابت ہوئی جس طرح کے ہزاروں سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ خاندانوں کیلئے ہوئی ہے۔ CChU 20.3

    اصلاحِ صحت کی رویا حاصل کرنے کیلئے اور اپنے گھر میں بیماروں کے سادہ علاج و معالجہ کو اپنانے کے بعد ایلڈر ہوائٹ اور مسز ہوائٹ صاحبہ کو بیماری کے وقت پڑوسی علاج کیلئے بلانے لگے اور خداوند نے ان کی کوشش اور محنت پر بڑی برکت بخشی ۔ بعض دفعہ لوگ بیماروں کو ان کے گھر لے آتے تھے اور یہ خاندان ان کی صحت یابی تک اُن کی تیمارداری کرتا رہتا۔ CChU 20.4

    مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ فراغت اور سیر و تفریح کے اوقات کو بہت پسند کرتی تھیں، خواہ وہ پہاڑوں میں ہو ، کسی جھیل پر ہو یا سمندر پر ہو۔ درمیانی عمر میں وہ امریکہ کے مغربی حصہ میں ہمارے پیسیفک پریس کے قریب رہتی تھیں ۔ پریس کے عملہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک دن سیر و تفریح اور فراغت میں صرف کیا جائے جس میں مسز ہوائٹ صاحبہ کو مع خاندان اور مدد گاروں کے اس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی جسے انہوں نے با خوشی قبول کر لیا۔ اُس وقت ایلڈرجمیس ہوایٹ کلیسیائی کام کے سلسلہ میں امریکہ کے مشرقی حصہ میں گئے ہوئے تھے ۔ اس تجربہ کا ذکر اس خط میں پایا جاتا ہے جو مسز ہوائٹ صاحبہ نے انھیں وہاں لکھا تھا۔ CChU 20.5

    سمندر کے کنارے صحت بخش خوراک کا لطف اٹھانے کے بعد تمام لوگ سان فرانسسکو کی خلیج پر کشتی میں سیر کرنے کیلئے گئے ۔ کشتی کا ملاح کلیسیاء کا وفادار رکن تھا۔ اور سہ پہر کا سہانا وقت تھا کہ کسی نے کھلے سمندر میں جانے کا خیال پیش کیا۔ اس تجربہ کا ذکر کرتے ہوئے مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ لکھتی ہیں:CChU 21.1

    ”لہریں ہوا سے باتیں کرتی تھیں اور ہم لہروں پر ہچکولے کھاتے ہوئے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ میرے احساسات بہت بلند ہو رہے تھے۔ لیکن میں ان کا اظہار الفاظ میں نہیں کر سکتی۔ یہ منظر نہایت دلکش تھا ۔ کبھی لہروں کی ٹھنڈی پھوار ہم پر پڑتی ۔ “گولڈن گیٹ” کے باہر تیز ہوا چل رہی تھی اور میں نے اپنی تمام زندگی میں کبھی ایسا سہانا سماں نہیں دیکھا تھا“۔ CChU 21.2

    پھر انہوں نے جہاز کے کپتان کی دور رس نگاہوں اور اُس کے حکم کی تعمیل کیلئے تمام عملہ کی مستعدی کا مشاہدہ کیا اور اُس کے متعلق غور کرنے لگیں۔ CChU 21.3

    ”خدا ہواؤں کو تھامے ہوے ہے ۔ وہ پانیوں پر حکم ران ہے۔ ہم بحر الکاہل کے وسیع عمیق پانیوں پر ذرہ کی طرح ہیں تو بھی خدا کے فرشتے اس چھوٹی سی کشتی کی حفاظت کیلئے بھیجے گئے ہیں اور وہ لہروں پر دوڑتی ہوئی جا رہی ہے۔ آہ ! خدا کے کام کتنے عجیب ہیں! وہ سمجھ سے بالا تر ہیں ۔ ایک ہی نظر میں وہ بلند ترین آسمان اور ہمیں سمندر کے وسط میں دیکھ لیتا ہے“۔CChU 21.4

    مسز ہوائٹ صاحبہ نے اوائل عمری ہی سے خوش مزاجی اختیار کر لی تھی ایک دفعہ انھوں نے پوچھا” کیا تم نے مجھے کبھی غم زدہ ، مایوس اور بڑبڑاتے ہوے دیکھا ہے؟ میرا ایمان مجھے ایسی باتوں کی اجازت نہیں دیتا۔ مسیحی سیرت اور مسیحی خدمت کے حقیقی مقاصد کے غلط نظریہ سے انسان اس قسم کے نتائج سے متاثر ہوتا ہے....پورے دل اور خوشی سے یسوعؔ مسیح کی خدمت کرنے ہی سے مسرّت بخش مذہب کا مزا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جو مسیح خدا وند کی پوری تقلید کرتے ہیں وہ مغموم نہیں ہوتے“۔ CChU 21.5

    پھر انھوں نے ایک اور مرتبہ یو ں لکھا :” بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خندہ روئی مسیحی سیرت کو زیب نہیں دیتی لیکن یہ سراسر غلط فہمی ہے۔ آسمان خوشی سے بھرا ہوا ہے“ اور انھوں نے معلوم کیا کہ اگر تم مسکراؤ گے تو لوگ تمہاری طرف دیکھ کر مسکرائیں گے ۔ اگر تم مہربانی کے الفاظ کہو گے تو لوگ تم سے مہربانی سے پیش آئیں گے۔ CChU 21.6

    تاہم مسز ہوائٹ صاحبہ کی زندگی میں ایسے دور بھی آئے جب انھیں بے حد مصیبت اٹھانا پڑی ۔ اس قسم کا حادثہ اس وقت پیش آیا ۔ جب وہ خدا کی خدمت کرنے کیلئے آسٹریلیا پہنچی ہی تھیں ۔ وہ تقریباً سال بھر بہت بیمار رہیں اور اس عرصہ میں نا قابلِ بیان تکلیف اُٹھائی ۔ انھیں بیشتر وقت بستر پر رہنا پڑا اور رات کے وقت بمشکل چند گھنٹے نیند آتی ۔ اس تجربہ کے متعلق انھوں نے ایک عزیز کو خط میں یوں لکھا:CChU 22.1

    ”جب میں نے اپنے آپ کو بے بسی کی حالت میں پایا تو میں نے بڑا افسوس کیا کہ میں نے سمندر پار کیا اور کیوں امریکہ میں ہی نہ رہی؟ میں کیوں اتنا روپیہ خرچ کر کے اس ملک میں آئی ؟ کئی بار میں نے لحاف میں اپنا منہ چھپا کر زار زار رونا چاہا لیکن زیادہ دیر تک میری یہ کیفیت نہ رہی ۔ میں نے اپنے دل سے سوال کیا کہ ”ایلن ! تم کیوں اتنی پریشان ہو؟ کیا تم امریکہ سے آسٹریلیا اس لئے نہیں آئی ہو کہ تم نے اسے اپنا فرض سمجھ کر جنرل کانفرنس کی مرضی کا احترام کیا تھا؟ کیا تمہاری ہمیشہ یہ عادت نہیں رہی ہے“؟ CChU 22.2

    اور میں نے اپنے دل سے کہا ” ہاں ٹھیک ہے“۔” تو پھر تم کیوں اس قدر مایوس ہو اور اپنے آپ کو بے سہارا سمجھتی ہو؟ کیا یہ شیطان کی چال نہیں ؟“ میں نے جواب دیا کہ ” مجھے یقین ہے کہ یہ شیطان کی چال ہے “۔CChU 22.3

    میں نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھ لئے اور اپنے دل سے کہا ” بس کافی ہے“۔ اب میں تاریک پہلو کو نہیں دیکھوں گی۔ خواہ میں مروں یا زندہ رہوں میں اپنی جان کو اس کے حوالہ کرتی ہوں جس نے میرے لئے اپنی جان دے دی ہے“۔ CChU 22.4

    ” پھر میں نے یقین کیا کہ خدا تمام باتیں بھلائی کیلئے کرتا ہے اور بے بسی کے آٹھ مہینوں میں میرے دل میں کبھی نہ شک پیدا ہوا اور نہ مایوسی ہوئی۔ اب میں اس تجربہ کو خدا کی اعلیٰ تجویز کا ایک حصہ سمجھتی ہوں ۔ جن میں اس ملک کے لوگوں کی اور میرے ان بھائیوں کی جو امریکہ میں ہیں اور میرے اپنے لئے بہتری و بہبودی پائی جاتی ہے۔ میں اس بات کی تشریح نہیں کر سکتی کہ کس طرح اور کیوں لیکن میرا اس پر پورا پورا ایمان ہے۔ میں اپنی تکلیف میں خوش ہوں۔ میں اپنے آسمانی باپ پر بھروسہ رکھتی ہوں۔ میں اُس کی محبت پر کبھی شک نہیں کروں گی “۔ CChU 22.5

    اپنی عمر کے آخری پندرہ سال میں جب مسز ہوائٹ صاحبہ کیلیفورنیا میں اپنے گھر میں رہتی تھیں تو وہ ضعیف ہوتی جارہی تھیں لیکن وہ اپنے چھوٹے فارم اور ان لوگوں کے خاندانوں اور بچوں کی فلاح و بہبود میں خاص دلچسپی لیتی تھیں جو اُن کے کام میں مدد دیتے تھے ۔ وہ زرا جلدی سو جایا کرتی تھیں اور ہم کثر ان کو آدھی رات کے بعد اٹھ کر لکھتے ہوئے دیکھتے تھے ۔ اگر دن اچھا ہوتا اور انھیں کام سے فرست ہوتی تو گاڑی میں بیٹھ کر سیر کیلئے جاتیں ، اور اگر راہ چلتے ہوئے کسی عورت کو باغ میں کام کرتے یا گھر کے برامدہ میں دیکھتیں تو رک کر اس سے باتیں کرنے لگ جاتیں ، بعض دفعہ وہ کسی جگہ کھانے اور کپڑے کی ضرورت دیکھتیں تو واپس اپنے گھر جا کر یہ چیزیں لا کر ضرورت مندوں کو دیتیں ۔ جس وادی میں وہ سکونت پذیر تھیں اس کے باشندے ان کی وفات کے برسوں بعد تک یا د کرتے رہے کہ ایک ضعیف العمر خاتون مسیح خداوند کے بارے میں ہمیشہ محبت اور پیار سے بولا کرتی تھیں ۔ CChU 23.1

    جب انھوں نے وفات پائی تو ان کے گھر میں ضروریات زندگی اور عام گزارا کے سامان سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ انھوں نے کسی کو اپنی تقلید کی ہدایت نہیں کی کیونکہ وہ خود ہماری طرح سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ ہوتے ہوے اپنے خداوند کی خوبیوں پر انحصار رکھتی تھیں۔ جو مردوں میں سے جی اٹھا ہےاور اس کام کو وفاداری سے سر انجام دینے کی ہمیشہ کوشش کرتی تھیں جو خدا نے انھیں سپرد کیا تھا۔ یوں وہ دلی اطمینان اور مسیحی تجربہ میں خوشی خوشی اپنی زندگی کے سفر کے خاتمہ پر پہنچ گیئں ۔ CChU 23.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents