Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
چرچ کے لئے مشورے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    بے لوث زِندگی سے خدا کی نمائندگی

    خود غرضی ہی ایک ایسا گناہ ہے جس کو بہت پسند کیا جاتا ہے اور جو ہمیں خدا سے دُور کر کے کئی ایک روحانی بے اعتدالیوں کا سبب ہوتا ہے۔ آدمی صرف خود انکاری اور خود ایثاری ہی سے خدا کی قربت میں آ سکتا ہے۔ ہم بذاتِ خود کچھ نہیں کر سکتے لیکن خدا سے قوت پا کر ہم دوسروں سے بھلائی کرنے کے لیے زندہ رہ سکتے ہیں۔ اور اس طرح خود غرضی کا گناہ چُھوٹ سکتا ہے یہ ضروری نہیں کہ ہم غیر ممالک میں جانے ہی سے اپنی خواہش کا اظہار کریں۔ بلکہ بے لوث زندگی بسر کرنے والے اپنا سب کچھ خدا کو دے دیتے ہیں۔ ایسا ہم اپنے گھریلو دائرہ میں، کلیسیا میں، جن میں رہتے اور جن کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے درمیان بھی کر سکتے ہیں۔ تمام زندگی ہی میں ہمیں اپنی خودی سے انکار کرنا اور اسے ماتحت رکھنا ہے۔ رسول پولوسؔ نے کہا ”میں ہر روز مرتا ہوں“ روزانہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں ہمیں خودی کے اعتبار سے مرنا ہے۔ اِسی سے ہمیں فتح حاصل ہوتی ہے۔ دوسروں سے بھلائی کے خیال سے ہمیں اپنے آپ کو بھولنا چاہیے۔ بیشتر اپنے دلوں میں دوسروں کے لیے کوئی محبّت نہیں رکھتے۔ اپنے فرائض کو دیانت داری سے سر انجام دینے کے لیے وہ اپنی خودی کے طالب ہوتے ہیں۔CChU 108.2

    آسمان میں کوئی شخص نہ اپنا خیال کرے گا اور نہ اپنی خوشی کا طالب ہو گا لیکن سب خالص اور پاک محبّت کی راہ سے اپنے آس پاس آسمانی ہستیوں کی خوشی اور شادمانی کی جستجو کریں گے۔ اگر ہم نئی زمین پر نئے ماحول میں رہنے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں اس دنیا میں آسمانی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہیے۔ (۲ ٹی ۱۳۲، ۱۳۳)CChU 109.1

    مجھے دکھایا گیا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ اور مقابلہ کیا جاتا ہے۔ فانی انسان کو بطور نمونہ بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ ہمارے سامنے ایک یقینی اور لاخطا نمونہ موجود ہے۔ ہمیں اپنے کو نہ دنیا سے اور نہ آدمیوں کے نظریات سے اور نہ اس سے کہ ہم ایمان لانے سے پہلے کیا تھے ناپنا چاہیے۔ لیکن ہمارے ایمان اور دنیا میں ہمارے موجودہ مرتبہ کا اس امر سے مقابلہ کرنا چاہیے کہ اگر ہماری روحانی ترقی ایمان لانے کے بعد مسلسل بڑھتی رہتی تو پھر ہم کیا کچھ ہوتے! صرف یہی محفوظ موازنہ سلامتی سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے سوا ہر مقابلہ میں محض فریب اور ابلہی پن ہے۔ اگر خدا کی اُمت کی اخلاقی سیرت اور روحانی حالت ان برکات ، حقوق اور روشنی کے مطابق نہیں ہے جو اُسے حاصل ہے۔ اور جب وہ ترازو میں تولے جاتے ہیں تو فرشتوں کی رپورٹ کے مطابق کم نکلتے ہیں۔ (۱ٹی ۴۰۶)CChU 109.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents