Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
عظیم کشمکش - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First

    پینتیسواں باب - ضمیر کی آزادی کو خطرہ

    گزرے سالوں کی نسبت پروٹسٹنٹس، اب رومن ازم کو بڑی اچھی نگاہوں سے دیکھنے لگے ہیں- جن ممالک میں کہتھولک ازم کی بالا دستی نہیں ہے وہاں پوپ کے حامی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے مصالحانہ راہ اختیار کر رہے ہیں- دوسری طرف اس تعلیم میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہو گئی ہے جو کبھی اصلاح شدہ چرچز کو پاپائی حکومت سے علحیدگی کا باعث بنی تھی- یہ رائے غالب آتی جا رہی ہے کہ جس طرح خیال کر لیا گیا تھا دراصل اس طرح تعلیم کے بارے ہمارا زیادہ اختلاف نہیں اور ہماری طرف سے تھوڑی سی رعایت روم کے ساتھ اچھی اتفاق رائے قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے- ایک وہ وقت تھا جب پروٹسٹنٹس نے ضمیر کی آزادی کو بڑی اہمیت دی، جو بہت مہنگی پڑی- انہوں نے اپنے بچوں کو سکھایا کہ پوپ پرستی سے نفرت کریں کیونکہ روم کے ساتھ مفاہمت خدا سے بیوفائی ہے- مگر اب کسقدر وسیع حلقے میں متفرق جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے-AK 542.1

    پوپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ چرچ کو بدنام کیا گیا ہے اور اسے پروٹسٹنٹ دنیا تسلیم کرتی ہے- بہتیرے یہ کہتے ہیں کہ چرچ کو آج صدیوں پہلے کے تاریک زمانہ کی بدعتوں اور بیہودگی کی بنا پر پرکھنا بے انصافی پر مبنی ہو گا- وہ اس وقت کے ہولناک مظالم کو جہالت اور وحشی پن کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انکے جذبات کو موجودہ تہذیب وتمدن نے تبدیل کر دیا ہے-AK 542.2

    کیا یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ یہ متکبر حکومت آٹھ سو سال تک لاخطاء ہونے کے دعوی کرتی رہی ہے؟ اس سے دست کش ہونے کی بجائے اس نے انیسویں صدی میں مزید ہٹ دھرمی سے اسکی تصدیق کی- جیسے کہ رومن دعوی کرتے ہیں کہ اسنے کبھی غلطی نہیں کی اور نہ ہی کبھی غلطی کا مرتکب ہو گا-AK 542.3

    John.L. von Mosheim, institute of ecclesiastical history, book 3, century 11, part 2, chapter 2, section 9, note 17.AK 542.4

    یہ کس طرح اپنے ان اصولوں سے دست بردار ہو سکتا ہے جو ماضی میں اس پر غالب رہے؟AK 542.5

    پوپی کلیسیا کبھی بھی لاخطاء ہونے کے دعوی سے دستبردار نہیں ہو سکتی- جنہوں نے ان کے عقیدے سے اتفاق نہ کیا چرچ نے انہیں اذیتیں دیں اور اس پر چرچ خود کو حق بجانب خیال کرتا ہے- اور کیا جب اسکو دوبارہ موقع فراہم کیا جائیگا یہ وہی عمل نہیں دہرائے گا؟ وہ پابندیاں جو سیکولر حکومت نے چرچ پر لگا رکھی ہیں انہیں دور کر کے دیکھیں اور روم کو اپنی ماضی کی پوزیشن پر بحال ہونے دیں تو آپ دیکھ لیں گے کہ اسکے مظالم کتنی تیزی کے ساتھ دوبارہ حرکت میں آ جائیں گے-AK 543.1

    ضمیر کی آزادی کے سلسلہ میں ایک معروف مصنف پوپ کی پیشوائی کے برتاؤ اور ان مصائب کا ذکر کرتا ہے جو اسکی پالیسی کی کامیابی کی وجہ سے یونائیٹڈ سٹیٹس کو خطرات ہیں- “بہتیرے ہیں جو رومن کیتھولک ازم کو یونائیٹڈ سٹیٹس میں کسی خطرے یا بگاڑ کا پیش خیمہ خیال نہیں کرتے- وہ رومن ازم کے کریکٹر میں کوئی ایسی خرابی نہیں دیکھتے جو انکے انسٹیٹیوشنز کے لئے باعث نقصان ہو یا انکی بڑھوتری میں منحوس فال ثابت ہو- تو پھر آیئے ذرا اپنی حکومت کے بنیادی اصولوں کا موازنہ کیتھولک چرچ کے اصولوں سے کریں-AK 543.2

    “یونائیٹڈ سٹیٹس کا منشور ضمیر کی آزادی کی اجازت دیتا ہے- اس سے زیادہ اور کوئی عزیزتر بنیادی چیز نہیں ہے- جبکہ پوپ پائیس (Pius) IX نے اپنے ایک خط میں جو 15 اگست، 1854 میں لکھا یوں کہا- “کہ یہ بعید القیاس اور غلط تعلیم جو ضمیر کے دفاع میں پیش کی جاتی ہے یہ ریاست میں بہت ہولناک اور اخلاق سوز وبا ہے- اسی پوپ نے 8 دسمبر 1864 کے ایک خط میں انہیں ملعون اور نفرت انگیز اشخاص قرار دیا جو ضمیر اور عبادت کی آزادی کے متلاشی ہیں-AK 543.3

    “یونائیٹڈ سٹیٹس میں روم کا لہجہ دل کی تبدیلی کی دلالت نہیں کرتا- یہ چرچ صرف اسی جگہ برداشت کا مظاہرہ کرے گا جہاں یہ مجبور ہو- بشپ او- کورنر (Connor.O) کا کہنا ہے کہ ضمیر کی آزادی صرف اس وقت تک گوارہ کی جائے گی جب تک کیتھولک دنیا کے ساتھ کوئی مخالفت کا پہلو نہیں نکلتا- سینٹ لوئیس کے آرچ بشپ نے ایک بار یہ کہا “کہ بدعت اور بے ایمانی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور مسیحی ممالک میں جیسے کہ اٹلی اور سپین جہاں تمام لوگ کیتھولک ہیں اور جہاں کیتھولک مذہب قانونی طور پر منانا ملکی قوانین میں شامل ہے تو انکی سزا بھی اسی طرح دی جانی ہے جیسے دوسرے جرائم کی دی جا سکتی ہے-AK 543.4

    “ہر ایک کارڈینل، آرچ بشپ اور کیتھولک چرچ کے بشپ کو پوپ کی وفاداری کا حلف اٹھانا پڑتا ہے- جس کے الفاظ یہ ہیں “اگر کوئی پوپ کے خلاف (جو ہمارا آقا ہے) بدعت پھیلائے یا بغاوت کرے یا اس کے جانشین کے خلاف کچھ کرے تو جہاں تک میرے بساط میں ہو گا اسے اذیت پہنچاؤں گا اور اسکی مخالفت کروں گا”- Josiah strong, our country, ch.5 parts 2-4 AK 543.5

    یہ سچ ہے کہ رومن کیتھولک حلقے میں کچھ حقیقی مسیحی بھی ہیں- اس چرچ میں ہزاروں ایسے ہیں جو اس روشنی کے مطابق خداوند کی خدمت کر رہے ہیں جو ان تک پہنچی ہے- اور چونکہ انہیں خدا کے کلام تک رسائی نہیں ہے اس لئے وہ سچائی کی پہچان نہیں کر سکتے- انہوں نے کبھی بھی بے جان رٹی رٹائی رسمی عبادت کا موازنہ روح اور جان سے کی گئی عبادت کے ساتھ نہیں کیا- خداوند خدا ایسی روحوں کو بڑی ہمدرد نگاہوں سے دیکھتا ہے- ایمان میں جس طرح انہوں نے تعلیم پائی ہے وہ غیر تسلی بخش اور مایوس کن ہے- وہ ان پر اپنی روشنی کی کرنیں نچھاور کرے گا جو اس گہری تاریکی میں سے گزر جائیں گی جو انہیں گھیرے ہوۓ ہیں- وہ ان پر اس صداقت کو ظاہر کرے گا جو مسیح یسوع میں پائی جاتی ہے اور بہت سے قادر مطلق خداوند کے لوگوں میں آ ملیں گے-AK 544.1

    مگر رومن ازم مسیح یسوع کی گوسپل کے ساتھ نہ ماضی کی تاریخ میں ہم آہنگ تھی اور نہ آج ہے- پروٹسٹنٹ چرچز گہری تاریکی میں ہیں، ورنہ وہ زمانوں کے نشانات کو پہچان لیتے- رومن چرچ اپنی تجاویز اور آپریشن کے طریقہ کار میں کافی آگے بڑھ چکا ہے وہ اپنا اثرورسوخ اور اپنی قوت کو بڑھانے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے تاکہ وہ دنیا پر اپنا تسلط قائم کر کے دوبارہ ایذا رسانی کا سلسلہ شروع کر سکے- اور جو کچھ پروٹسٹنٹ ازم نے کیا ہے اسے ملیا میٹ کر دے- کیھتولک ازم ہر طرف پاؤں جما رہی ہے- آپ دیکھ لیں کہ مسیحی ممالک میں اس کے چرچز اور چیپلز کی تعداد خاصی بڑھتی جا رہی ہے- امریکہ میں اسکے کالج اور سیمنریز کی ہر دلعزیزی پر غور کیجئے اور یہ بھی کہ کس قدر پروٹسٹنٹس انکی حمایت اور دستگیری کر رہے ہیں- انگلینڈ میں کیتھولک کی رسوم پرستی اور برگشتگی میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس پر بھی غور کیجئے- یہ تمام چیزیں ان کی پریشانی کا باعث بنیں گی جو انجیل کے پاکیزہ اصولوں کو انکے عوض قربان کریں گے-AK 544.2

    پروٹسٹنٹس نے پوپ پرستی کے ساتھ ساز باز اور دستگیری کی ہے- انہوں نے پوپ کے اقتدار کے حامیوں کیساتھ مصالحت کی ہے ایئر انہیں رعایت دی ہے جس پر پوپ کے حامی حیران اور سمجھنے سے قاصر ہیں- لوگ رومن ازم کے اصل کریکٹر سے آنکھیں بند کر رہے ہیں اور ان خطرات سے بھی جو اسکی بالا دستی سے پیش آ سکتے ہیں- لوگوں کو ضمیر اور مذہبی آزادی کے اس بہت بڑے دشمن کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے-AK 544.3

    بہت سے پروٹسٹنٹس کا خیال ہے کہ کیتھولک مذھب میں کوئی دلکشی نہیں ہے- اسکی عبادت بے لطف، بے معنی اور رسوم پرستی کا پلندہ ہے- یہ انکی غلط فہمی ہے- رومن ازم کی بنیاد دغا فریب پر ہے- یہ کوئی معمولی اور بے ڈھنگی نہیں ہے- رومن چرچ کی ریلیجیس سروس بہت موثر رسوم پر مبنی ہوتی ہے- اسکی پر تکلف اور شاندار اور سنجیدہ رسوم کی نمائش لوگوں کی آنکھوں کو مسرور، قوا کو گرویدہ اور ضمیر کی آواز کو خاموش کر دیتی ہیں- آراستہ پیراستہ چرچز، مرعوب کرنے والے جلوس، سنہری مذبحے، ہیروں سے مرصع مقبرہ، عمدہ پینٹنگز، نفیس سنگتراشی بہت بھلی لگتی ہے- موسیقی مسحورکن ہے جو کانوں کو بھٹی ہے- ڈیپ (Deep) ٹونڈ(Toned) آرگن کے سیر حاصل نوٹس جب بہت سی مترنم آوازوں کے ساتھ ملکر شاندار ڈومز (Domes) اور کیتھڈرل کی دیواروں میں سے گونج پیدا کرتے ہیں تو یہ سب ذہن ودماغ کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتے-AK 545.1

    یہ ظاہری طمطراق، شان وشوکتاور رسوم پرستی، جو گناہ کے مرض کی روح کی تمنا کا منہ چڑاتی ہے، یہ باطنی بگاڑ کا بڑا ثبوت ہے- مسیح کے مذھب کی منظوری کیلئے ایسی ظاہری دلکشی کی ضرورت نہیں- صلیب سے چمکنے والی روشنی میں حقیقی مسیحیت اس قدر پاکیزگی کے ساتھ نمودار ہوتی ہے کہ اس حقیقی قدر کی کوئی ڈیکوریشن ہمسری نہیں کر سکتی یہ پاکیزگی کی خوبصورتی ہے، فروتن اور پرسکوں روح جسکی خدا کی نظر میں بڑی قدر ہے-AK 545.2

    یہ آب وتاب کا سٹائل، ممتاز اور اعلی خیالات کی دلیل نہیں ہے- ہائی تخلیق کردہ آرٹ، ذوق نفیس کی شستگی، ان اذہان کی تخلیق ہوتی ہے جو جسمانی اور نفسانی ہوتے ہیں- وہ عموما ابلیس کے کارندے ہوتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کی روح کی ضروریات کی طرف سے غافل اور مستقبل کو نظروں سے اوجھل کر دیں- لوگوں کو ابدی زندگی اور بے پایاں مددگار سے دور بھگا دیں اور صرف اس دنیا کے لئے زندگی بسر کریں-AK 545.3

    بیرونی اور جسمانی مذہب غیر تبدیل شدہ دل کو موہ لیتا ہے- کیتھولک چرچ کی ورشپ کی شان وشوکت اور رسوم پرستی دلفریب اور سحر انگیز ہے جس سے بہتیرے دھوکا کھا جاتے ہیں اور وہ رومن چرچ کو بہشت کا دروازہ سمجھنے لگتے ہیں- وہ جنہوں نے اپنے قدم صداقت کی بنیاد پر مضبوطی سے جما رکھے ہیں اور جن کے دل خداوند کے روح سے ازسرنو تبدیل ہو چکے ہیں وہ اسکے اثرورسوخ کے خلاف شہادت ہیں-AK 545.4

    ہزاروں جنہیں مسیح یسوع کا تجرباتی علم نہیں ہے وہ اسے قبول کرلیں گے- اسی طرح کے مذہب کو تو عوام چاہتی ہے-AK 545.5

    چرچ کا یہ دعوی کہ اسے گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے- اس نے روم کے حامیوں کو گناہ کی آزادی دے رکھی ہے اور اعتراف کا دستور جس کے بغیر معافی نہیں مل سکتی یہ بھی بدی کا لائسنس دینے کے مترادف ہے- وہ جو دوسرے گنہگار شخص کے سامنے گھٹنے نشین ہوتا ہے اور اپنے دل کے پوشیدہ راز اور تصورات اسکے سامنے وا کرتا ہے وہ اپنی آدمیت کو ذلیل کرتا اور اپنی روح کے ہر نیک میلان کی قدر گھٹاتا ہے- اس پریسٹ کے سامنے اپنی زندگی کی غلط کاریاں ظاہر کی جاتی ہیں جو خود اکثر شراب خوری اور شہوت پرستی کا شکار ہوتا ہے- جو کچھ خطاکار اور فنا ہونے والا ہو اسکے کریکٹر کا معیار تنزلی کا شکار ہے اور وہ بھی نجس انسان ہے- دوسری گری ہوئی نسل انسانی کی طرح خدا کے بارے اسکا خیال بھی ناتمام ہے-AK 546.1

    پریسٹ یہاں خدا کے نمائندے کی حیثیت سے کھڑا ہوتا ہے- یہ ایک انسان کا دوسرے انسان کے سامنے ذلیل کرنے والا اعتراف ایسا خفیہ چشمہ ہے جس سے بہت زیادہ بدی پھوٹی ہے جس نے دنیا کو ناپاک کر دیا ہے اور یہ حتمی تباہی کے لئے موزوں ہیں- تاہم جو نفس پرست ہے اسکے لئے یہ دلپسند ہے کہ وہ خدا کی نسبت ایک فانی شخص کے سامنے اپنے دل کو کھولے- انسانی فطرت کے لئے گناہ ترک کرنے کی نسبت توبہ کرنا زیادہ پسندیدہ ہے- ٹاٹ اوڑھنا، بدن کو اذیت پہنچانا، یا خود کو زنجیروں میں جکڑنا، جسمانی خواہشوں اور رغبتوں کو قربان کرنے سے آسان ہے- مسیح یسوع کے جوۓ کے سامنے جھکنے کی نسبت نفسانی دل بھاری جوۓ کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے-AK 546.2

    مسیح یسوع کی پہلی آمد کے وقت کے یہودی چرچ میں اور رومن چرچ میں بہت بڑی مشابہت پائی جاتی ہے- یہودی خفیہ طور پر خداوند کی شریعت کے ہر اصول کو رد کرتے تھے- مگر ظاہری طور پر وہ اس کے ہر قانون پر سختی سے عمل پیرا تھے اور اسے روایات اور جبری لاگو کرنے سے ماننے والوں کے لئے بوجھل اور تکلیف دہ بنا رکھا تھا- جیسے یہودی شریعت کی تعظیم کرنے کا اقرار کرتے تھے، اسی طرح رومی اقرار کرتے ہیں کہ وہ صلیب کی بڑی عزت وتکریم کرتے ہیں- انہوں نے مسیح یسوع کے دکھوں کی علامت کو سرفراز کیا ہے مگر اپنی زندگی میں اسکا انکار کرتے ہیں جسکی یہ نمائندگی کرتی ہے-AK 546.3

    پوپ کے حامی چرچز پر، مزبحوں اور اپنے لباس پر صلیبیں لگاتے ہیں- ہر جگہ صلیب کا نشان دیکھا جاتا ہے- ہر جگہ اسکی ظاہری طور پر تعظیم کی جاتی ہے اور اسے سرفراز کیا جاتا ہے- مگر مسیح یسوع کی تعلیم کو بے معنی ماس (Mass) روایات، غلط تشریحات اور مذہبی تشدد اور بےجا خراج تلے دبا رکھا ہے- مسیح یسوع کا کلام جو ہٹ دھرم یہودیوں کے لئے تھا، رومن کیتھولک چرچ کی قیادت پر صادق آتا ہے- “وہ ایسے بھاری بوجھ جنکو اٹھانا مشکل ہے- باندھ کر لوگوں پر رکھتے تھے مگر آپ انکو اپنی انگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے تھے” متی -4:23 دیانتدار روحیں خدا کو ناراض کرنے پر اسکے غضب سے تھرتھراتی رہتی ہیں جب کہ چرچ کے ارباب اختیار شہوت پرستی اور عیش وطرب سے لطف اندوز ہوتے ہیں-AK 547.1

    بتوں کی اور ریلکس (Relicks) یعنی متبرک اشیا کی ورشپ، مقدسین سے مناجات اور پوپ کی سربلندی یہ سب شیطان کے حربے ہیں جو لوگوں کے اذہان کو خدا اور اسکے بیٹے کی طرف سے ہٹاتے ہیں- انکی مکمل تباہی کے لئے اسکی طرف سے انکی توجہ کو ہٹاتا ہے جو واحد انکی نجات کا باعث ہے- وہ انکی توجہ کسی بھی مقرون شے کی طرف مبذول کرائے گا جو اسکا متبادل سمجھا جائے جس نے یہ کہا- “بوجھ سے دبے ہوۓ لوگو سب میرے پاس آؤ- میں تم کو آرام دوں گا” متی -28:11AK 547.2

    ابلیس کی یہ مسلسل کوشش ہے کہ وہ خدا کی سیرت، گناہ کی فطرت اور جو عظیم کشمکش میں اصل ایشوز ہیں انکو غلط انداز میں پیش کرے- اسکے غلط استدلال الہی شریعت کو ماننے کے فرائض میں کمی کرنے اور انسانوں کو گناہ کرنے کا لائسنس دیتے ہیں- اس کے ساتھ ہی وہ انہیں خدا کے بارے غلط تاثر دیتا ہے تاکہ وہ اسے ڈر اور نفرت سے خدا مانیں نہ کہ محبت کی رو سے- وہ مظالم جو اسکے اپنے کریکٹر میں پائے جاتے ہیں انہیں وہ خدا کی طرف منسوب کرتا ہے- یہ مذہبی سسٹم کا ایک حصہ بن گیا ہے اور ورشپ کے اسلوب (طورواطوار) میں اسکا اظہار کیا جاتا ہے- یوں لوگوں کے ذہنوں کو تاریک کر دیا جاتا ہے اور شیطان انہیں خدا کے خلاف جنگ کرنے کیلئے اپنے قبضہ میں کر لیتا ہے- الہی اوصاف کو غلط رنگ دینے کی وجہ سے بت پرست قومیں ایمان رکھنے لگیں کہ دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے انسانی قربانی لازم ہے اور بت پرستی کی مختلف صورتوں میں ہولناک مظالم کا ارتکاب کیا جاتا-AK 547.3

    رومن کیتھولک چرچ بت پرستوں اور مسیحیوں کی طرز عبادت کو ملا کر، بت پرستوں کی طرح خدا کی سیرت کو توڑ موڑ کر پیش کرتے اور بت رپستوں سے کم بغاوت کا مظاہرہ نہیں کرتا- روم کی برتری کے زمانہ میں اذیت پہنچانے والے اوزار تھے جو انکی تعلیم کو منوانے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے اور جو انکے دعوؤں کو تسلیم نہیں کرتا تھا اسے پھانسی کی سزا دی جاتی تھی- اس چرچ نے اس قدر قتل عام کیا کہ جسکا صرف روز عدالت میں ہی جا کر پتہ چلے گا- چرچ کے ارباب اختیار نے شیطان کے زیر سرپرستی ایسی تعلیم پائی کہ اذیت دینے والے ایسے اوزار بنائے جس سے ستم رسیدہ زیادہ سے زیادہ اذیت میں مبتلا بھی رہے اور مرے بھی نہ- بعض کیسز (Cases)میں یہ منحوس شیطانی طریقہ کار اتنی بار دہرایا جاتا جو انسان کی برداشت سے باہر ہو جاتا اور انسان اپنے خالق حقیقی میں ابدی نیند سو جاتا-AK 547.4

    روم کے مخالفین کا ایسا ہی مقدر تھا-مگر جو اسکے بہی خواہ اور اطاعت گزار تھے ان پر بھی ڈسپلن کے لئے جبر، فاقوں مارنا اور سخت ریاضت کی پابندی تھی- بہشت میں جانے کے لئے تائب شخص فطرت کے قوانین توڑنے سے خدا کی شریعت کو بھی توڑتا تھا- انہیں تعلیم دی جاتی کہ وہ مسیح سے ناطہ توڑ لیں جس کے ذریعہ رب العزت نے انسان کو برکت دینے اور مسرت بخشنے کے لئے اس دھرتی پر قیام کے دوران قائم کیا- چرچ یارڈ کروڑوں ایسے ستم رسیدہ سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے فضول ہونے فطرتی میلانات کو دبا رکھا ہے محبت کا ہر خیال اور احساس جو انہیں اپنے بھائی بندوں کے ساتھ ہونا چاہیے تھا انہوں نے اسے کچل کر رکھ دیا ہے-جو کہ خداوند کی نظر میں مکروہ اور نازیبا ہے-AK 548.1

    اگر ہم شیطان کے فیصلہ کن ظلم کو سمجھنا چاہیں جو صدیوں پر محیط ہے جو نہ صرف ان پر جو خداوند سے ناواقف ہیں بلکہ تمام مسیحی حکومتوں پر، تو پھر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں اس کے لئے ہمیں رومن آزم کی تاریخ کو دیکھنا ہو گا- دھوکے کے اس بھر بڑے سسٹم کے ذریعہ بدی کا شہزادہ خدا کی بےحرمتی اور انسان پر بدبختی لانے کے مقاصد کو پورا کرتا ہے اور جب ہم یہ دیکھیں گے کہ وہ کیسے اپنا روپ بدلنے میں کامیاب ہوتا ہے اور چرچ کی قیادت کے ذریعہ اپنے مقصد کو پتا ہے تو ہم یہ بہتر انداز میں سمجھ پائیں گے کہ کیوں ابلیس کو بائبل سے نفرت ہے- اگر یہ کتاب پڑھی جائے تو خدا کی محبت اور رحم آشکارا ہو جائے گا- اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ خدا بنی نوع انسان پر اتنا بھاری بوجھ ڈالنے کا ہرگز خواہاں نہیں- وہ تو صرف شکستہ اور خستہ دل اور فروتن روح کا مطالبہ کرتا ہے-AK 548.2

    آسمان کے قابل بنانے کے لئے مردوں اور عورتوں کو خانقاہوں کے اندر بند رکھنے کا مسیح یسوع نے اپنی زندگی میں کوئی نمونہ پیش نہ کیا- اس نے کبھی یہ تعلیم نہ دی کہ محبت اور ہمدردی کو کچلا جائے- نجات دہندہ کا دل محبت سے امڈ آتا تھا- انسان کو انسان کے قریب تر ہونے سے اسکی اخلاقی رسائی میں کاملیت آتی ہے- اسکی محسوسات اجاگر ہوتی اور گناہ کے بارے اسکا قیاس شدید ہوتا ہے اور دکھیوں کے لئے اسکی ہمدردیاں بڑھتی جاتی ہیں- پوپ مسیح یسوع کا نائب ہونے کا دعوی کرتا ہے مگر اسکا کریکٹر، ہمارے نجات دہندہ کے کریکٹر کی کیسے ہمسری کر سکتا ہے؟ کیا مسیح یسوع نے کسی انسان کو پابند سلاسل کیا، یا کسی کو اسلئے پھانسی چڑھایا کہ وہ اسکی آسمانی بادشاہ ہونے کے ناطے میں اطاعت نہیں کرتا؟ کے اجو اسے قبول نہیں کرتے تھے اس نے انہیں موت کی سزا سنائی؟ جب سامریہ کے لوگوں نے اسے اپنے علاقے سے نکل جانے کے لئے کہا تو یوحنا رسول غضب سے آگ بگولہ ہو گیا اور مسیح یسوع سے پوچھا “اے خداوند کیا تو چاہتا ہے کہ ہم حکم دیں کہ آسمان سے آگ نازل ہو کر انہیں بھسم کر دے (جیسا ایلیاہ نے کیا)مگر اس نے پھر کر انہیں جھڑکا اور کہا تم نہیں جانتے کہ تم کیسی روح کے ہو- کیونکہ ابن آدم لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا ہے” لوقا -56-54:9مسیح یسوع نے اپنے اس نائب سے کتنی فرق روح کا مظاہرہ کیا؟AK 548.3

    رومن چرچ اب دنیا کو اپنا مہذب، شائستہ اور بے تعصب چہرہ دکھا رہا ہے اور ماضی کے ہولناک مظالم کو چھپانے کیلئے معذرت کر رہا ہے-اس نے اب خود کو مسیح کے لبادہ میں ملبوس کر لیا ہے- مگر اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی- پاپائی عہد حکومت کے تمام تو اصولات جس طرح ماضی میں تھے وہ آج بھی اسی طرح قائم ہیں- تاریک زمانے میں جو تعلیم اختیار کی گئی تھی وہی تعلیم آج ہے- کسی کو دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے- جس پاپائی نظام کو پروٹسٹنٹس بڑی عزت دینے کو تیار ہیں یہ وہی حکومت ہے جو ریفریمیشن کے زمانہ میں دنیا پر حکمران تھی- جب خدا کے لوگ اپنی جان کو جوکھوں میں ڈال کر اسکے مقابلہ میں کھڑے ہوۓ تھے تاکہ اسکی بدکاریوں کا بھانڈا پھوڑیں- اس میں ابھی تک وہ غرور اور گستاخانہ شیخی موجود ہے جس نے اسے بادشاہوں اور شہزادوں پر فوقیت دے رکھی تھی- اور جس نے خدا کے استحقاق کا دعوی کیا تھا- اسکی روح اب اس وقت کے مقابلہ میں کچھ کم ظالم اور جابر نہیں ہے جب اس نے انسانی آزادی کو ملیامیٹ کر دیا تھا اور حق تعالیٰ کے مقدسین کو موت کٹ گھات اتارا تھا-AK 549.1

    پاپائی نظام بالکل وہی ہے جس کا ذکر پیشگوئی میں آیا ہے کہ یہ آخیر زمانہ کی برگشتگی ہے- 2 تھسلنیکیوں4-3:2یہ اس چرچ کی پالیسی کا ایک حصہ ہے کہ وہ اپنی مطلب براری کے لئے ہر طرح کا روپ دھار لے مگر گرگٹ کی طرح مختلف صورتوں میں ایسا سانپ کا زہر چھپائے بیٹھی ہے جو لاتبدیل ہے “بدعتیوں کے ساتھ ایمان نہ رکھا جائے اور نہ ہی ان اشخاص کے ساتھ جن پر بدعت کا شک ہو” (Lenfant, volume1, page 516) اسکا کہنا ہے کہ کیا یہ حکومت جسکا ہزاروں سال کا ریکارڈ مقدسین کے خون سے رقم ہوا ہے کیا اسکو مسیح یسوع کی کلیسیا کا حصہ تسلیم کر لیا جائے گا؟AK 549.2

    پروٹسٹنٹ ممالک میں یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ اب کیتھولک ازم اور پروٹسٹنٹ ازم میں ماضی کی نسبت بہت کم بغاوت ہے- ہاں تبدیلی تو آئی ہے- مگر یہ تبدیلی پاپائی نظام میں نہیں آئی- بیشک موجودہ کیتھولک ازم اور پروٹسٹنٹ ازم میں بہت زیادہ مطابقت موجود ہے- کیونکہ ریفارمز کے وقتوں کی نسبت پروٹسٹنٹ ازم بہت زیادہ تنزلی کا شکار ہوئی ہے-AK 550.1

    جیسے کہ پروٹسٹنٹ چرچز دنے کی حمایت حاصل کرنے کے پیچھے پڑے ہوۓ ہیں، جھوٹی انسانی ہمدردی نے انکی آنکھیں اندھی کر دی ہیں- بجائے اسکے کہ وہ اس ایمان کا دفاع کریں جو ایک بار مقدسین کے حوالے کیا گیا تھا، وہ روم کے متعلق اپنی غیر ہمدردانہ رائے کے بارے معافی طلب کر رہے ہیں- اور اپنی ہٹدھرمی کیلئے معزرت خواہ ہیں-AK 550.2

    ایک بہت بڑی جماعت جو رومن ازم کی حمایت میں نہیں ہ ای وہ بھی اسکی حکومت اور اسکے اثرورسوخ سے بہت ہی کم خطرہ محسوس کرتی ہے- بہت سے یہ گمان کرتے ہیں کہ قرون وسطی میں جو شعوری اور اخلاقی تاریکی چھائی ہوئی تھی اس نے رومن ازم کے عقیدہ تشدد اور اوہام پرستی اور روایات کو پھیلنے میں مدد کی- مگر جدید زمانہ کی روشن خیالی اور تعلیم اور واقفیت عامہ کا ہر سو پھیلاؤ اور مذہب کے بارے میں بڑھتی ہوئی آزادی، ظلم اور تنگ نظری کو روکے گی- اور اس روشن خیال زمانہ میں ایسی فرسودہ چیزیں قائم رہ سکیں گے مضحکہ خیز ہے؟ یہ تو سچ ہے کہ اس نسل پر شعوری، اخلاقی اور مذہبی روشنی چمک رہی ہے- خدا کے پاک کلام کے کھلے صفحات میں آسمان سے روشنی دنیا پر چمکائی گئی ہے- مگر یہ بھی یاد رہے کہ جسقدر زیادہ روشنی بخشی جائے گی، انکی تاریکی جو برگشتہ ہو چکے ہیں اور جو اسے رد کرتے ہیں، اس روشنی سے کہیں زیادہ ہو گی-AK 550.3

    دعا سے بھرپور کلام مقدس کا مطالعہ پروٹسٹنٹس کو پاپائی نظام کے اصل کریکٹر سے آگاہ کرے گا اور وہ اس سے نفرت کر کے اسے ترک کر دیں گے- مگر بہتیرے اپنی حکمت میں خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ فروتنی سے خدا کی تلاش کرنے کی ضرورت کو بالکل محسوس نہیں کرتے تاکہ اسکے ذریعہ وہ سچائی تک رسائی کریں- گو انہیں اپنی روشن خیالی پر بڑا گھمنڈ ہے- مگر وہ کتاب مقدس اور خدا کے بارے بےعلم ہیں- ان کے پاس بدی کو دور کرنے کے لئے اپنے کچھ ذرائع موجود ہوں گے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ کونسا ذریعہ کم روحانی اور کم باعث ندامت ہے- انکی خواہش ہے کہ ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے جو خدا کو بھلانے میں ممد ثابت ہو، مگر بظاھر ایسے دکھائی دے جیسے اسکو یاد کرتے ہیں- اسطرح کے لوگوں کی ضرورت کو پاپائی نظام اچھی طرح رفع کرنا جانتا ہے- یہ پاپائی نظام بنی نوع انسان کی دو جماعتوں کیلئے تیار کیا گیا ہے- اس نے تقریبا ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے- ایک وہ جو اپنے استحقاق (Merits) کی بدولت بچائے جائیں گے اور دوسرے جو گنہگار ہونے کے باوجود بھی بچائے جائیں گے اسکی قوت کا یہی راز ہے-AK 550.4

    تاریکی کا عظیم روشن خیالی دن دکھایا گیا ہے کہ وہ پاپائی حکومت کی کامیابی کے حق میں ہے- ابھی اسکا مظاہرہ ہو گا کہ عظیم شعوری لائٹ یکساں اسکی کامیابی کے حق میں ہے- گزرے زمانوں میں جب لوگوں کے پاس خداوند کا پاک کلام اور صداقت کا علم نہیں تھا انکی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوتا تھا اسلئے ہزاروں اس جال کو جو انکے قدموں میں پڑا ہوتا تھا دیکھ نہیں سکتے تھے اور جال میں پھنس جاتے تھے- اس پشت میں بہت سے ایسے ہیں جنکی آنکھیں انسانی قیاس گمان سے خیرہ ہو گئیں ہیں- “اسے دغابازی سے سائنس” کا نام دے گیا ہے- انہیں جال نظر نہیں آتا اور وہ اسمیں یوں داخل ہوتے ہیں جیسے انکی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو- حق تعالیٰ نے شعوری قوا کو یوں بنایا ہے کہ انسان انہیں خدا کی طرف سے نعمت کے طور پر قبول کرے اور انہیں سچائی اور راستبازی کی حدمت کے لئے استعمال کرے- لیکن جب گھمنڈ اور نفس پروری ہو گی اور اسنان اپنی تھیوری کو خدا کے کلام پر سبقت دیں گے تو پھر روشن خیالی، جہالت سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو گی- اسی طرح موجودہ زمانے کی جھوٹی سائنس جو بائبل کے ایمان سے خالی ہو گی وہ بڑی کامیابی سے پاپائی حکومت کی اپنی دلپسند صورت میں قبول کرنے کی راہیں تیار کر دے گی- جیسے تاریک زمانہ میں علم وفضل کو روکنے سے اس کی سرفرازی کے لئے راہیں تیار کی تھیں-AK 551.1

    یہ تحریکیں جو اب یونائیٹڈ سٹیٹس میں انسٹیٹیوشنز کو حاصل کرنے کے لئے ترقی کر رہی ہیں اور سٹیٹ کی دستگیری کے لئے چرچ کا استعمال کر رہی ہیں، یوں پروٹسٹنٹس پوپ کی حکومت کے حامیوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں- وہ پاپائی نظام کیلئے دروازے کھول رہے ہیں تاکہ پروٹسٹنٹ امریکہ میں دوبارہ اقتدار اعلی حاصل کر سکے جو وہ قدیم میں کھو چکا ہے- اور اس موومنٹ کی بڑی خصوصیت سنڈے لا (Law) نافذ کرنا ہے جس کا بانی روم ہے جسے وہ اپنے اختیار کا نشان ہونے کا دعوی بھی کرتا ہے- یہ تو پاپائی حکومت کی روح ہے یعنی دنیا کے دستور کے ساتھ مطابقت رکھنا اور خدا کے احکام کی نسبت انسانی روایات کو زیادہ عزت بخشنا- اور یہ پروٹسٹنٹ چرچز میں سرایت کر رہی ہے اور انہیں سنڈے کی برتری دینے کی ترغیب دے رہی ہے جو پوپ کے حامیوں نے ان سے پہلے مطالبہ کیا تھا-AK 551.2

    اگر قاری سمجھنا چاہتا ہے آنے والے معرکہ میں کونسی ایجنسیاں استعمال کی جائیں گی، اسے اس ریکارڈ کا کھوج لگانا ہو گا جو روم نے اسی مقصد کے لئے ماضی میں استعمال کیا تھا اور اگر وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ پوپ کے حامی اور پروٹسٹنٹس اکٹھے ملکر ان کیساتھ کیا سلوک کریں گے جو انکے عقیدے کو رد کریں گے تو وہ اس روح کے مظاہرہ کو دیکھ لے جو روم نے سبت اور اسکا دفاع کرنے والوں کے خلاف استعمال کی تھی-AK 552.1

    شاہی احکام، جنرل کونسلز اور چرچ کے دستور جنکو سیکولر حکومت کی حمایت حاصل تھی یہ وہ اقدام تھے کہ بت پرستوں کے تہواروں نے کرسچن ورلڈ میں بڑی تعظیم کے ساتھ اپنی جگہ بنا لی-سنڈے ماننے اور نافظ کرنے کا پہلا حکم 321اے ڈی میں کانسٹینٹائین (Constantine) نے دیا- اس حکم کے ذریعہ ٹاؤن میں بسنے والے لوگوں کو کہا گیا کہ وہ “سورج” کی تعظیم کے لئے آرام مہیا کریں- مگر دیہاتوں میں بسنے والے لوگوں کو کہا گیا کہ وہ اپنے کھیتی باڑیکے کام کو جاری رکھیں یہ بت پرستوں کا آئین تھا، مگر یہ اس شہنشاہ نے نافذ کیا جس نے برائے نام مسیحیت کو قبول کر رکھا تھا-AK 552.2

    سرکاری اجازت نامہ الہی اختیار کا ناکافی متبادل تھا- یوزبیعس (Eusebius) بشپ جسے شہزادوں کی حمایت حاصل تھی اور جو کانسٹینٹائین کا خاص دوست تھا اس نے دعوی کیا کہ مسیح یسوع نے سبت کو اتوار میں تبدیل کر دیا تھا- اس نئی تعلیم کیلئے اس نے ایک بھی حوالہ کلام مقدس میں سے پیش نہ کیا- یوزبیعس خود انجانے میں اس بطلان کو تسلیم کرتا ہے اور تبدیل کرنے والے اصل مصنفین کی طرف اشارہ کرتا ہے- “تمام چیزیں” جو سبت کے دن کرنا فرض تھیں- خداوند کے دن میں منتقل کر دیں گئی”-AK 552.3

    Robert cox, Sabbath lows, and Sabbath duties, page538.AK 552.4

    مگر سنڈے کے حق میں دلائل بے بینیاد تھے تاہم اس نے عوام کو ابھرا کہ خداوند کے سبت کو پائمال کریں وہ سب جو دنیاوی عزت وناموس کے خواہاں تھے انہوں نے اس ہردلعزیز تہوار کو قبول کر لیا—AK 552.5

    جیسے جیسے پاپائی نظام مستحکم ہوتا گیا ویسے ویسے سنڈے کو سرفرازی دینے کا کام جاری رہا کچھ دیر کے لئے لوگ کھیتوں میں کام کرتے رہے جب وہہ چرچ نہیں جاتے تھے اور ساتواں دن ابھی تک سبت کے طور پر منایا جاتا رہا- مگر آہستہ آہستہ یہ تبدیلی موثر ہو گئی- وہ جو مقدس پیشے میں تھے انہیں منع کر دیا گیا کہ وہ سنڈے کے روذ کوئی بھی سول (Civil) متنازعہ فیصلہ نہ دیں- پھر بہت جلد تمام لوگوں کو، خواہ انکا کچھ بھی مقام کیوں نہ ہو، حکم دیا گیا کہ وہ عام کام کاج نہ کریں- اگر کوئی حکم عدولی کا مرتکب ہوتا تو آزاد شخص کو جرمانہ کیا جاتا جب کہ غلام کو کوڑے مارے جاتے- اسکے بعد یہ حکم جاری کیا گیا کہ اگر کوئی سرمایہ دار امیر شخص سنڈے کے روز کام کرے تو اسکی آدھی جاگیر ضبط کر لی جائے اور اگر وہ پھر بھی باز نہ آئے تو اسے غلام بنا لیا جائے اور جو ادنی طبقے سے تعلق رکھتے تھے انہیں دائمی جلاوطنی کی سزا کا حکم تھا-AK 553.1

    معجزات کے لئے بھی مطالبہ کیا جاتا تھا- یعنی فرضی معجزے بیان کرنا- دوسرے عجیب کاموں میں ایک یہ بھی رپورٹ آئی کہ ایک کاشتکار اتوار کے روز ہل چلانے والا تھا اور جب وہ لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ ہل کو صاف کر رہا تھا تو وہ لوہے کا ٹکڑا اسکے ہاتھ میں دھنس گیا اور دو سال تک وہ اسکے ہاتھ کے اندر ہی رہا جس سے اسے “سخت درد اور شرمندگی کا سامنا رہا”-AK 553.2

    Francis west, historical and practical discourage on the Lord’s Day, page 74.AK 553.3

    بعد میں پوپ نے یہ ہدایات جاری کیں کہ پیرش پریسٹ کو چاہیے کہ وہ سنڈے کی بیحرمتی کرنے والوں کو نصیحت کریں کہ وہ سنڈے کے روز چرچ جایا کریں اور دعا، نماز گزرانیں- ایسا نہ ہو کہ خود ان پر اور انکے پڑوسیوں پر کوئی بڑی مصیبت آ جائے- ایک کلیسیائی کونسل یہ دلیل سامنے لائی جسکا اطلاق پروٹسٹنٹس پر بھی ہوتا تھا کہ ایک شخص جب وہ سنڈے کے روز محنت مشقت کر رہا تھا تو اس پر آسمانی بجلی گری- چنانچہ اتوار ہی خداوند کا سبت ہے- کلیسیا کے اعلی عہدیداران نے کہا یہ ظاہر ہے کہ “اس دن کو نظر انداز کرنے پر حق تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے”- چنانچہ اپیل کی گئی کہ پرسٹس، شہنشاہ اور شہزادے اور سب وفادار لوگ “اپنی حتی الوسع کوشش کریں کہ اس دن کی حرمت بحال رہے اور آنے والے وقتوں میں اسکی مزید جانثاری سے تعظیم کی جائے”-AK 553.4

    |Thomas morer, Discourage in six dialogues on the name, notion and observation of the Lord’s day, page 271.AK 553.5

    کونسل کا فرمان ناکافی ثابت ہوا، پھر سیکولر اتھارٹی نے حکم نافذ کیا جس سے لوگوں کے دل خوف وہراس سے بھر گئے- کیونکہ لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ سنڈے کے روز کوئی کام کاج نہ کریں- ایک سنڈ (Synod)جو روم میں منعقد ہوئی، اس میں تمام فیصلوں کی دوبارہ تصدیق کی گئی اور انہیں کلیسیائی فرامین کا حصہ بنایا گیا اور تمام مسیحی ریاستوں میں اسکا نفاذ سول ارباب اختیار کے ذریعہ کیا گیا-AK 554.1

    (See Heylyn history of the Sabbath, pt, 2, ch.5 sec.7)AK 554.2

    اتوار کو ماننے کے حق میں کلام مقدس کی حمایت حاصل نہ تھی پھر بھی بغیر کسی ندامت کے سنڈے منایا جاتا رہا- لوگوں نے اپنے ٹیچرز سے سوال کیا کہ وہ اس دن کو مخصوص کریں جس کے بارے خود خداوند نے فرمایا ہے “ساتواں دن خداوند تیرے خدا کا سبت ہے” کیونکہ سنڈے کو سبت منانے کے لئے پاک نوشتوں کی کوئی حمایت حاصل نہیں تھی اس لئے کسی اور تدبیر کا سہارہ لینا پڑا-AK 554.3

    اتوار کا ایک بہت ہی جوشیلا وکالت کرنے والا شخص جس نے بارہویں صدی میں انگلینڈ کے چرچز کو وزٹ کیا اسے صداقت کے گواہوں کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا- لیکن جب وہ واپس لوٹا تو وہ جو کمی تھی وہ پوری ہو گئی اور پھر جو اس نے محنت کی وہ بڑی کامیابی سے ہمکنار ہوئی- کیونکہ وہ اپنے ساتھ کاغذ کا پلندہ لے کر آیا جس میں سنڈے کو ماننے کے لئے ضروری حکم تھا اور حکم عدولی کرنے والوں کو خوفناک دھمکی دی گئی تھی- یہ بیش قیمت دستاویز اسی طرح جعلی تھی جس طرح سنڈے جس کے یہ حق میں تھی- اس دستاویز کے بارے میں کہا گیا کہ یہ آسمان سے گرائی گئی ہے اور یروشلیم میں گلکتا کے مقام، سینٹ شمعون کے مذبحہ سے ملی ہے- مگر حقیقت یہ تھی کہ اس کا مبدا روم کے اسقف اعظم کا محل تھا- فراڈ اور چوری چرچ کی حکمرانی بڑھانے کے لئے ہر زمانہ میں پوپ نے جائز قرار دی ہے-AK 554.4

    کاغذوں کا یہ پلندہ (Roll) تین بجے بعد از دوپہر سے شروع کر کے سوموار طلوع آفتاب تک کام کرنے پر پابندی عائد کرتا تھا اور اس اختیار کو کئی معجزات کی حمایت اور تصدیق حاصل تھی- یہاں تک اطلاعات ملیں کہ وہ لوگ جو متعین کردہ اوقات میں کام کرتے تھے ان پر فالج کے حملے ہوۓ- آتے پیسنے والی مشن کا ایک مالک جب مکی پیسنے لگا تو آٹے کی بجائے خون نکلنا شروع ہو گیا اور اس مشین کے پہئے جام ہو گئے- ایک خاتون جس نے بریڈ (Bake) بیک کرنے کیلئے اون (Oven) میں رکھی اور جب نکالی تو کچا آٹا نکلا جبکہ اون بہت ہی گرم تھا- ایک اور خاتون نے تین بجے بروز ہفتہ بعد از دوپہر بریڈ بیک کرنے کیلئے آٹا تیار کیا تاکہ سوموار صبح بعد از طلوع آفتاب، پکانے کیلئے رکھا- اور جب سوموار کو اون میں رکھنے کیلئے لیا تو وہ پہلے ہی خدا کی قدرت سے پکی ہوئی بریڈ بن چکی تھی-AK 554.5

    ایک اور شخص جس نے ہفتہ کے روز نویں گھنٹے بریڈ بیک کی اور جب اسے اگلی صبح توڑا تو اس میں سے خون بہنا شروع ہو گیا- اس طرح کی بعید القیاس اور جھوٹی وہم پرستی نے سنڈے کی پاکیزگی کو قائم کرنے کی وکالت کی- AK 555.1

    See roges de hoveden, annals, vol,2. Pp.528-530. AK 555.2

    انگلینڈ کی طرح اسکاٹ لینڈ میں سنڈے کی تعظیم کو قائم رکھنے کیلئے قدیم سبت کا کچھ حصہ شامل کر لیا گیا- مگر وہ وقت جسے ہولی (Holy) مانا گیا اسمیں تغاوت تھا- اسکاٹ لینڈ کے شہنشاہ نے حکم جاری کیا کہ “ہفتہ کے روز بارہ بجے دوپہر سے مقدس وقت منا جائے” اور کوئی بھی شخص اس وقت سے لے کر سوموار کی صبح تک کس دنیاوی کام میں ملوث نہ ہو- Morer, pages 290-29,AK 555.3

    سنڈے کو بطور مقدس دن کے قائم کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود پوپ کے حامی خود سبت کے الہی اختیار کا اقرار کرتے ہیں اور یہ کہ انسانوں نے سنڈے کو سبت کی جگہ قائم کیا ہے- سولھویں صدی میں پوپ کی ایک کونسل نے اعلان کیا “تمام مسیحیوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ سبت کو خداوند نے مقرر کیا تھا- اسے نہ صرف یہودیوں نے بلکہ ان سبھوں نے جو خدا کی عبادت کرنے کا عندیہ دیتے ہیں- قبول کیا اور مقدس دن کے طور پر منایا تھا- مگر ہم مسیحیوں نے اسکے سبت کو “خداوند کے دن” میں تبدیل کر دیا ہے-AK 555.4

    Ibid,pages 281-282.AK 555.5

    وہ جو خداوند کی شریعت کے ساتھ دخل اندازی کر رہے تھے وہ اپنے اس خاص کام کو انجانے میں نہیں کر رہے تھے- وہ بڑی بیباکی سے خود کو خداوند سے برتر بنا رہے تھے-AK 555.6

    روم کی پالیسی سے جو اختلاف کرے اسے والڈن سس کی لمبی اور خونی ایذا رسانی میں دیکھا جا سکتا ہے- ان میں سے بعض سبت کے ماننے والے تھے اور دوسروں کو بھی چوتھے حکم کو ماننے کی پاداش میں اسی طرح اذیتیں پہنچائی گئیں- اس ضمن میں ایتھوپیا اور ایبے سینیا کے چرچز کی ہسٹری بڑی نمایاں ہے- تاریک زمانے کی آزردگی کے درمیان سنٹرل افریقہ کے مسیحی اوجھل ہو گئے تھے اور دنیا نے انہیں بھلا دیا تھا اور ک ای صدیوں تک انہوں نے اپنے ایمان کے مطابق آزادی کا لطف اٹھایا- بالاخر روم نے انکی موجودگی کا پتہ چلا لیا اور ایبے سینیا کے شہنشاہ کو فریب دے گیا کہ پوپ مسیح یسوع کا نائب ہے- اسکے بعد حکم جاری کیا گیا کہ سبت کو ماننے کی سخت ترین سزا دی جائے گی-AK 555.7

    (See Michael Yaddes, church history of eithiopia, pages 311-312)AK 556.1

    مگر پوپ کے ظلم کا جوا اسقدر تکلیف دہ ہو گیا کے ایبے سین کے عوام نے اسے اپنی گردنوں سے اتار پھینکنے کا تہیہ کر لیا- ہولناک جدوجہد کے بعد رومیوں کونکال باہر کیا اور قدیم ایمان کو بحال کیا گیا- چرچز نے آزادی حاصل کر کے خوشیاں منائیں وہ اس دھوکے سے سیکھے ہوۓ سبق کو کبھی نہ بھولے اور نہ ہی روم کی استبدادی حکومت کو- اپنی تنہائی پر وہ تسلی پذیر اور مطمئن تھے اور انہیں کچھ پرواہ نہیں تھی کہ انہیں باقی دوسری مسیحی ریاستیں جانتی ہیں یا نہیں-AK 556.2

    افریقہ کے چرچز اسی طرح سبت مناتے تھے جیسے پوپ کے حامی چرچز برگشتگی سے پہلے مناتے تھے- جب وہ ساتویں دن کو خداوند کے حکم کو ماں کر مناتے تھے تو وہ سنڈے کے دن چرچ کے دستور کے مطابق کم کاج سے باز رہتے تھے- جب روم کو سرفرازی حاصل ہو گئی تو اس نے خدا کے سبت کو پامال کر دیا اور اپنے سبت کو عظمت دی- مگر چرچ آف افریقہ، تقریبا ایک ہزار برس تک چھپے رہے اور روم کی برگشتگی میں حصے دار نہ بنے- لیکن جب وہ روم کے زیر تسلط آ گئے تو انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ حقیقی سبت کو ترک کر دیں اور جھوٹے سبت کو سرفراز کریں- مگر بہت جلد انہوں نے اپنی خود مختاری حاصل کر لی اور چوتھے حکم کی فرمانبرداری کرنے لگے- ماضی کے ریکارڈ، حقیقی سبت اور اسکے دفاع کرنے والوں کے خلاف روم کی دشمنی کو بڑی صفائی سے عیاں کرتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ اپنے پیدا کردہ اداروں کی عزت وتکریم بڑھانے کے لئے کون کون سے ذرائع استعمال کرتا تھا- کلام مقدس سکھاتا ہے کہ جب رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹس متحد ہو جائیں گے تو ان ہی مناظر کو دوبارہ دہرایا جائے گا-AK 556.3

    مکاشفہ تیرھویں باب کی پیشینگوئی کی حکومت جو اس حیوان کی نمائندگی کرتی ہے جس کے برہ کے سے دو سینگ تھے واضح کرتی ہے “زمین اور اسکے رہنے والوں سے” پوپ کی پرستش کے لئے کہے گی- جو حیوان کی نمائندگی کرتا ہے- برہ کے سے دو سینگوں والا حیوان زمین کے رہنے والوں کو یہ بھی کہے گا کہ اس حیوان کا بت بناؤ- علاوہ ازیں یہ سب “چھوٹے بڑے دولتمندوں اور غریبوں، آزادوں اور غلاموں کے دہنے ہاتھ یا ان کے ماتھے پر ایک ایک چھاپ“کرنے کا حکم کرتا ہے مکاشفہ -16-11:13 یہ دکھایا گیا ہے کہ یونائیٹڈ سٹیٹس کی حکومت دو سینگوں والے برے کی نمائندگی کرتی ہے اور یہ پیشینگوئی اس وقت پوری ہو گی جب یونائیٹڈ سٹیٹس سنڈے ماننے کے حکم کو نافذ کرے گا- جسکی وجہ سے روم کا دعوی ہے کہ اسکے اختیار اعلی کو تسلیم کر لیا گیا ہے- مگر پوپ کی حکومت کی اطاعت میں صرف امریکہ ہی نہیں ہو گا- جن ممالک میں روم کا اثرورسوخ ہے جنہوں نے ایک بار اسکی حاکمیت کو تسلیم کر لیا تھا وہ ابھی برباد نہیں ہوئیں اور پیشینگوئی اسکی حکومت کی بحالی کے بارے پہلے سے بتاتی ہے- “میں نے اس ک اے سروں میں سے ایک پر گویا زخم کاری لگا ہوا دیکھا مگر اسکا زخم کاری اچھا ہو گیا اور ساری دنیا تعجب کرتی ہوئی اس حیوان کے پیچھے پیچھے ہو لی” مکاشفہ -3:13AK 556.4

    زخم کاری پاپائی نظام کے زوال کی علامت ہے جو اسے 1798 میں پیش آیا- اس کے بعد نبی کہتا ہے کہ اسکا زخم کاری اچھا ہو گیا اور ساری دنیا اس پر حیران ہوئی- پولس رسول بیان کرتا ہے کہ “گناہ کا شخص” دوسری آمد تک جاری رہے گا 2 تھسلنیکیوں-8-3:2 وقت کے خاتمہ پر وہ اپنے کام کو دھوکے، مکر فب سے آگے بڑھائے گا- وہ مزید پوپ کی حامی حکومت کے بارے بتاتا ہے کہ “اور زمین کے وہ سب رہنے والے جن کے نام اس برہ کی کتاب میں لکھے نہیں گئے جو بنای عالم کے وقت سے ذبح ہوا ہے اس حیوان کی پرستش کریں گے” مکاشفہ -8:13AK 557.1

    دونوں قدیم اور جدید دنیا میں پوپ کی حکومت کے حامی سنڈے کے انسٹیٹیوٹ کو قائم کرنے کے لئے عقیدت حاصل کریں گے جو صرف رومن چرچ کے اختیار کی پیداوار ہے-AK 557.2

    انیسویں صدی کے وسط سے یونائیٹڈ سٹیٹس میں پیشینگوئی کے طالب علموں نے اس دنیا کو یہ گواہی پیش کی ہے وہ واقعات جو اب رونما ہو رہے ہیں ان میں دیکھا جا رہا ہے کہ اس پیشینگوئی کی جلد تکمیل ہو گی- پروٹسٹنٹ ٹیچرز کا بھی وہی دعوی ہے کہ سنڈے کومننا الہی اختیار کا مرہون منت ہے- ان کے پاس بھی اپنے دعوی کو ثابت کرنے کیلئے پاک کلام سے ثبوت نہیں جیسے کہ پوپ کے حامیوں کے پاس نہیں تھے اور انہوں نے جھوٹی کہانیاں اور من گھڑت معجزات کو خدا کے حکم کے طور پر پیش کیا- یہ دعوی کہ سنڈے (سبت) کو پامال کرنے والوں پر خدا کا غضب نازل ہوا- یہ ڈرامہ ایک بار پھر رچایا جائے گا- بلکہ پیشتر ہی اس طرح توجہ دینا شروع ہو گئی ہے اور سنڈے کو منانے کی تحریک بڑی تیزی سے حمایت حاصل کر رہی ہے-AK 557.3

    اپنی حیلہ سازی اور چالاکی میں رومن چرچ مافوق العادت ہے- وہ یہ جان سکتا ہے کہ آگے کیا ہو گا- وہ موقع کا منتظر رہتا ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ پروٹسٹنٹ چرچ جھوٹے سبت کو مان کر اسے بڑی عزت دے رہے ہیں اور وہ اسے ان ذرائع سے نافذ کر رہے ہیں جو ذرائع اس نے خود ماضی میں استعمال کئے تھے- وہ جو سچائی کی روشنی کو رد کرتے ہیں وہ اسکی مدد کی تلاش کریں گے جو خود ہی لاخطاء بنا بیٹھا ہے اور اسکے دیئے ہوۓ اتوار (سبت) کو سرفراز کریں گے- کتنی جلدی وہ پروٹسٹنٹس کی اس کام میں مدد حاصل کر لے گا؟ یہ قیاس کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے- پوپ کی قیادت کے علاوہ کون اسے بہتر طریقے سے سمجھتا ہے کہ انکے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے جو لوگ اپنے چرچ کے ساتھ بیوفا ہیں؟AK 558.1

    رومن کیتھولک چرچ دنیا بھر میں اپنی تمام شاخوں کے ذریعہ ایک وسیع پیمانے پر ارگنائزیشن قائم کرتا ہے جو پوپ کی حامی حکومت کے کنٹرول میں ہے اور اسکی دلچسپی کے لئے کام کرتی ہے ہر شہر میں اور دنیا بھر میں اسکے کروڑوں خبر رساں پائے جاتے ہیں جنھیں یہ ہدایت ہے کہ وہ سب متحد ہو کر پوپ کی وفا کا دم بھریں- خواہ انکی کوئی بھی قومیت اور حکومت کیوں نہ ہو وہ چرچ کے اختیار کو ہر ایک سے برتر سمجھتے ہیں- گو انہوں نے اپنی ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے مگر اس جھوٹ کے پیچھے روم کے ساتھ وفا کا عہد ہے اور دوسرے کسی بھی عہد کو جو چرچ کے ناموافق ہو اس سے وہ خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں-AK 558.2

    تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہ چرچ بڑی ہوشیاری اور ثابت قدمی سے قوموں کے معاملات میں داخل ہو جاتا ہے اور جب وہاں قدم جمع لیتا ہے تو اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے کام کرنا شروع کر دیتا ہے، خواہ اس مقصد کے لئے لوگ اور شہزادے تباہ بھی کیوں نہ ہو جائیں-AK 558.3

    1204 میں پوپ انوسنٹ سوئم نے پیٹر روم آف اراگان (Arragon) سے یہ مندرجہ ذیل خلاف معمول حلف لیا- “میں پیٹر، کنگ آف اراگونینز اقرار اور وعدۂ کرتا ہوں کہ میں لارڈ پوپ انوسنٹ اور اسکے جانشین اور رومن کیتھولک چرچ کا ہمیشہ وفادار رہوں گا اور بداخلاق بدنیتوں کو سخت سزائیں دوں گا”- AK 558.4

    John dowling, the history of Romanism. B.5.ch.6, sec.55,AK 558.5

    یہ رومن اسقف اعظم کی حکومت کے دعوؤں کے عین مطابق ہے- “یہ بالکل جائز ہے کہ وہ شہنشاہوں کو معزول کرے” اور “وہ ناراست حکمرانوں کی نافرمانی کرنے پر رعایا کو بری الذمہ قرار دے”-AK 558.6

    Mosheim, b.3. cant, 11,pt2, ch.2. sec,9,not.17.AK 558.7

    اور روم کی یہ بھی لاف زنی یاد رہے کہ وہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا- گریگری VII اور انوسنٹ III کے اصولات ابھی تک رومن کیتھولک چرچ کے اصولات ہیں اور اگر اسے اختیار حاصل ہو جائے تو یہ ان اصولوں سکو اسی شدومد کیساتھ عمل میں لائے گا جیسے گذری صدیوں میں لایا تھا- پروٹسٹنٹس کو اس بارے نہت ہی کم سمجھ ہے کہ وہ یہ کیا کر رہے ہیں- جب وہ سنڈے کی عظمت کو بڑھانے کے لئے روم کی مدد لینے کی تجویز پیش کرتے ہیں جب یہ اپنا مقصد حاصل کرنے پر تلے ہوۓ، تو روم اپنی بالا دستی کو دوبارہ حاصل کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے جو اس نے ماضی میں کھو دی تھی- یونائیٹڈ سٹیٹس میں ایک دفعہ یہ قانون قائم ہو لینے دیں کہ چرچ سٹیٹ کے اختیارات استعمال کر سکتا ہے اور سیکولر قوانین مذہبی رسوم کی پابندی نافذ کر سکتے ہیں- تو پوپ اپنی بالا دستی کے لئے ضرور ہاتھ پاؤں مارے گا- مختصر یہ کہ روم چرچ کے ارباب اختیار اور سٹیٹ لوگوں کے ضمیر کو اپنے قبضہ میں لینے کو ہے اور پھر اس ملک میں روم کی فتح یقینی ہے-AK 559.1

    قادر مطلق خداوند خدا کے پاک کلام نے آنے والے خطرے کی آگاہی دے رکھی ہے- اس وارننگ کو اگر نظر انداز کیا گیا تو پھر پروٹسٹنٹس دنیا جان جائے گی کہ روم کے ال عزائم کیا ہیں- مگر اسکے جال سے نکلنے کیلئے بہت دیر ہو چکی ہو گی- روم بڑی خاموشی سے قوت کو بڑھا رہا ہے- اسکی تعلیمات کا اثر قانون ساز اسمبلیوں، چرچز اور لوگوں کے دلوں میں پہنچ رہا ہے- روم سر بفلک بھاری بھر کم گوشہ نشینی بلڈنگز بنا رہا ہے جہاں قدیم کی ایذا رسانی دہرائی جا سکیں- چوری چھپے، بغیر کسی کو گمان ہوۓ اپنی مقصد براری کیلئے وہ اپنی افواج کو توانا بنا رہا ہے اور اس وقت کے انتظار میں ہے جب اسے حملہ کرنا ہے- است تو بس موقع چاہیے جو اسے پیشتر ہی حاصل ہو چکا ہے- ہم بہت جلد دیکھ اور محسوس کر لیں گے کہ روم کے کیا عزائم ہیں- جو کوئی بھی خدا کے پاک کلام پر ایمان لائے گا اور تابعداری کرے گا اسے ایذا رسانی کا سامنا ہو گا اور وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالے گا-AK 559.2

    *****