اس امر کا انکشاف روزِ قیامت کو ہو گا کہ خدا ہر شخص کو نام بنام جانتا تھا۔ زندگی کے ہر فعل و عمل کا ایک نادیدہ گواہ ہے.... ”جو سونے کے سات چراغدان میں پھرتا ہے وہ یہ فرماتا ہے کہ میں تیرے کاموں کو جانتا ہوں۔“ (مکاشفہ ۱:۲) اسے معلوم ہے کہ کن موقعوں کو خفیف سمجھا گیا ہے۔ اچھے گڈریے کی کوششیں گمراہوں کو غلط راستوں سے واپس لانے کے لیے کیسی انتھک رہی ہیں۔ تاکہ وہ امن اور سلامتی میں آ جائیں۔ خدا نے بار بار عیش پرستون کو بُلایا ہے۔ اس نے اپنے کلام کی روشنی ان کی راہوں پر بار بار چمکائی ہے تاکہ وہ خطرہ کو دیکھ کر بچ جائیں۔ مگر وہ ہنسی ٹھٹھا کرتے ہوئے کشادہ راستہ پر برابر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے لیے مہلت کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ خدا کی راہیں راست اور درست ہیں اور جب ان لوگوں کے خلاف جو تولے گئے مگر کم نکلے سزا کا اعلان ہوتا ہے تو ہر منہ بند ہو جائے گا۔ (۵ ٹی ۴۳۵) CChU 100.1
تمام کائنات میں عالمگیر کام کرنے اور سب چیزوں کو سنبھالنے والی طاقت کوئی وسیع اصول یا با عمل قوّت نہیں جیسے کہ بعض سائنسدان پیش کرتے ہیں بلکہ خدا ایک روح ہے اور شخصیت بھی اور اسی شبیہ پر انسان کو بھی بنایا گیا۔ CChU 100.2
کائنات میں خدا کی کاریگری بذاتِ خود خدا نہیں بلکہ کائنات سے خدا کی سیرت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے وسیلے ہم خدا کی محبت ، قدرت اور جلال کو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں فطرت کو خدا نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ انسان کی مصوّرانہ قوّت بڑی خوبصورت صنعت کاری دکھاتی ہے۔ ان چیزوں سے آنکھیں خوش ہوتی ہیں اور ان سے ہمیں ان کے بنانے والے کے متعلق معلومات حاصل ہوتی ہیں لیکن جو چیزیں بنائی گئی ہیں وہ آدمی نہیں۔ قابلِ عزّت کاریگری نہیں بلکہ کاریگر ہے گو فطرت خدا کے خیال کا اظہار ہے۔ مگر فطرت کی نہیں بلکہ فطرت کے خدا کی تعظیم کرنا چاہیے۔ CChU 100.3
انسان کی تخلیق میں واجب الوجود خدا نے اپنی ذاتی دلچسپی ظاہر کی۔ جب خدا نے آدم کو اپنی شبیہ پر بنایا تو وہ ہر لحاظ سے کامل تھا۔ مگر اس میں زندگی نہ تھی اور خود واجب الوجود خدا نے اس بے جان بت میں زندگی کا دم پُھونکا اور انسان زندہ ہو کر سانس لیتے ہوئے ایک عقل مند ہستی بن گیا۔ انسان کے تمام اعضاء کام کرنے لگ گئے۔ دل ، شریانیں، وریدیں، زبان، ہاتھ پاؤں حواس اور دماغ غرضیکہ سب کام کرنے لگ گئے اور سب ایک قانون کے تحت کر دیئے گئے۔ آدمی جیتی جان بن گیا ایک واجب الوجود خدا نے یسوعؔ مسیح کے وسیلہ سے آدمی کو پیدا کر کے اُسے عقل فہم و فراست اور سمجھ سے نوازا۔ CChU 101.1
جب ہم پوشیدگی میں بنائے جا رہیے تھے تو ہمارا مادہ خدا سے پوشیدہ نہ تھا۔ اس کی آنکھوں نے ہمارے بے ترتیب مادہ کو دیکھا وہ نا مکمل تھا اور اس کی کتاب میں ہمارے سارے اعضاء مرتب تھے۔ حالانکہ اس وقت کوئی بھی وجود میں نہ تھا۔ خدا نے چاہا کہ آدمی جو اس کی مخلوق کا شاہکار ہے تمام ادنیٰ مخلوقات پر اس کے خیالات اور اس کے جلال کا مظاہرہ کرے۔ مگر وہ اپنے آپ کو خدا کے برابر بلند سمجھنا شروع نہ کر دے۔ (۲ ٹی ۲۶۳۔۲۷۴) CChU 101.2