خدا تعالیٰ نے ایک واجب الوجود کی حیثیت سے اپنے آپ کو اپنے بیٹے یسوعؔ میں ظاہر کیا۔ یسوعؔ مسیح اپنے آسمانی باپ کے جلال کا پرتو اور اس کی ذات کا نقش تھا۔ (عبرانی ۳۰:۱) وہ اس دنیا میں انسانی شکل میں رہا وہ شخصی نجات دہندہ ہو کر اس دنیا میں آیا۔ وہ شخصی نجات دہندہ کے طور ہر صعود فرما گیا اور اسی حیثیت سے وہ آسمانی بارگاہ میں شفاعت کر رہا ہے وہی آدم زاد (مکاشفہ ۱۳:۱) خدا کے تخت کے سامنے ہمارے لیے خدمت سر انجام دے رہا ہے۔ CChU 101.3
خداوند مسیح جو دنیا کا نُور ہے اپنی الوہیت کی درخشانی کو انسانی جامہ میں چھپا کر اس دنیا میں آدمیوں کے درمیان رہنے کے لیے آیا تاکہ آدمی بھسم ہوئے بغیر اپنے خالق سے واقف ہو جائیں کِسی شخص نے کِسی وقت بھی مسیح یسوعؔ کے ظہور کے سوا خدا کو نہیں دیکھا۔ CChU 101.4
خداوند یسوعؔ نسلِ انسانی کو وہ کچھ سکھانے آیا جو خدا چاہتا تھا کہ وہ جانیں ہم خدا کی کاریگری کو عالمِ بالا پر، وسیع بحروں میں اور زمین پر دیکھتے ہیں تمام مخلوق خدا کی قدرت حکمت اور محبت کا انکشاف کرتی ہے۔ لیکن ہم ستاروں، آبشاروں اور بحروں سے خدا کی شخصیت کی بابت اتنا کچھ نہیں جان سکتے ہیں۔ جتنا کہ خداوند مسیح سے ظاہر ہوتا ہے۔ CChU 102.1
رب العالمین جانتا تھا کہ فطرت کی بجائے ایک اور واضح مکاشفہ کی ضرورت ہے تاکہ اس کی شخصیت اور سیرت دونوں کا اظہار ہو اُس نے اپنے بیٹے کو اس دنیا میں بھیجا تاکہ جہاں تک انسان برداشت کر سکے، ان دیکھے خدا کی سیرت اور اوصاف کو ظاہر کرے۔ CChU 102.2
اگر خدا چاہتا کہ اس کا اس طرح اظہار ہو کہ وہ کائنات میں سکونت رکھتا ہے یعنی وہ پھولوں ، درختوں اور گھاس کے تنکوں میں رہتا ہے تو یسوعؔ مسیح اس دنیا میں اپنے شاگردوں کو ضرور بتاتا۔ لیکن مسیح یسوعؔ کی تعلیم میں خدا کا س طرح بالکل ذکر نہیں کیا گیا۔ مسیح یسوعؔ اور آپ کے حوارین نے ایک واجب الوجود ہستی کی حقیقت کا بیان کیا ہے۔ CChU 102.3
خداوند مسیح نے خدا کی حیثیت سے وہ تمام کچھ گنہگار انسان پر ظاہر کر دیا جو وہ ہلاک ہوئے بغیر برداشت کر سکتا تھا وہ الٰہی معلم اور روشنی دہندہ ہے۔ اگر خدا کی یہ ضرورت محسوس ہوتی کہ انسان کو خداوند مسیح اور کلامِ مقدّس کے علاوہ بھی کچھ ضرورت ہے تو ضرور اُسے انسان پر آشکار فرماتا۔ CChU 102.4