خداوند مسیح کے اس کلام کا جو اس نے اپنی مصلوبیت سے ایک رات پہلے بالا خانہ میں کیا تھا مطالعہ کریں۔ وہ اپنے مقدمہ کے قریب پہنچ رہا تھا اس نے اپنے شاگردوں کو جو بڑی آزمائش اور سختی میں سے گزرنے والے تھے تسلی دینا چاہا شاگرد ابھی تک مسیح یسوعؔ کے خدا کے ساتھ رشتہ کے متعلق اس کے کلام کو نہ سمجھتے تھے۔ اُن کے لیے ہنوز خداوند کی زیادہ تر تعلیمات محض دھندلکے تھیں۔ انہوں نے بہت سوال پوچھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کے مکاشفہ اور حال اور مستقبل کی باتوں میں کم فہم تھے۔ خداوند چاہتا تھا کہ وہ خدا کی بابت ایک واضح اور وسیع عرفان حاصل کریں۔ جب عید پنتکوست کے دن شاگردوں پر پاک رُوح کا نزول ہوا تو وہ مسیح یسوعؔ کی تمثیلوں میں پیش کردہ حقیقت کو سمجھ گئے جو تعلیمات پہلے ان کے لیے پراسرار اور بھید بنی ہوئی تھیں۔ اب بالکل واضح ہو گئیں۔ روح القدس کے نزول سے انہیں جو تفہیم حاصل ہوئی اس سے وہ اپنی خام خیالی پر شرمندہ ہو گئے۔ اب انہیں آسمانی عرفان کے حصول کے بعد اپنی قیاس آرائیاں اور تعبیریں حماقت نظر آئیں۔ پاک روح نے ان کی قیادت کی اور ان کی تاریک عقل پر روشنی چمک اُٹھی۔ CChU 102.5
لیکن ابھی تک شاگردوں پر یسوعؔ مسیح کے وعدے کی پوری تکمیل نہ ہوئی تھی انہیں خدا کا علم جتنا وہ برداشت کر سکتے تھے حاصل ہو چکا تھا مگر اس وعدہ کی مکمل تکمیل کہ مسیح یسوعؔ آسمانی باپ کی بابت انہیں مکمل مکاشفہ بخشے گا۔ ابھی تک نہیں ہوئی تھی اور آج بھی یہی حال ہے۔ خدا کی بابت ہمارا علم ادھورا اور نامکمل ہے۔ جب یہ کشمکش ختم ہو جاتی ہے۔ اور یسوعؔ مسیح جو انسان ہے۔ آسمانی باپ کے سامنے اپنے اُن وفادار انسانوں کا اقرار کرتا ہے۔ جنہوں نے اس گناہ بھری دنیا میں اس کی بابت سچی گواہی دی ہے تو وہ ان باتوں کو جو اس وقت بھید نظر آتی ہیں سمجھ جائیں گے۔ خداوند مسیح اپنے جلالی بدن کے ساتھ آسمانی بارگاہوں میں گیا ہے جو اسے قبول کرتے ہیں۔ وہ انہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشتا ہے تاکہ خدا انہیں اپنی فرزندیت میں قبول کرے۔ اور وہ تا ابد اس کے ساتھ رہیں جو اس دنیا میں وفادار ہیں۔ ”وہ آخر کار اس کا چہرہ دیکھیں گے اور اُس کا نام ان کے ماتھوں پر ہو گا۔“ (مکاشفہ ۴:۲۲) آسمان کی خوشی خدا کے دیدار کے سوا اور کیا ہے؟ گناہ گاروں کو جو مسیح یسوعؔ کے فضل سے بچائے گئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو سکتی ہے کہ وہ خدا کے چہرہ کو یہ جان کر دیکھیں گے کہ یہ ان کے آسمانی باپ کا چہرہ ہے۔ CChU 103.1