خدا نے آپ کو ایک سکونت گاہ عطا کی ہے کہ آپ اس کی حفاظت کریں اور خدا کی خدمت اور جلال کے لیے اس کو بہترین حالت میں رکھیں۔ تمہارا بدن تمہارا اپنا نہیں بلکہ رُوح القدس کا مقدس ہے .... کیا تم نہیں جانتے کہ تم خدا کا مقدس ہو اور خُدا کا روح تم میں بسا ہوا ہے۔ اگر کوئی خدا کے مقدس کو برباد کرے گا تو خدا اسی کو برباد کرے گا کیونکہ خدا کا مقدس پاک ہے اور وہ تم ہو۔“ (۲ٹی ۳۵۲، ۳۵۳) CChU 150.1
اِس بُرے زمانہ میں ہمارا نا ہنجار دشمن شیطان گرجنے والے شیر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔ میں اپنے الفاظ کو آگاہی دینے کے لیے بلندی کی ضرورت کا احساس کرتی ہوں ۔ ”جاگو اور دعا کرو تا کہ آزمائش میں نہ پڑو۔“ (مرقس ۳۸:۱۴) بہتیرے ذہن ترین توڑوں ک مالک ہیں مگر وہ ان کو شیطان کی خدمت میں استعمال کر رہے ہیں۔ میں ان لوگوں کو جو دنیا میں سے نکل آئے ہیں اور اس کے تاریک کاموں کو ترک کرنے کا اقرار کرتے ہیں۔ کیا آگاہی دے سکتی ہوں؟ یعنی ایسے لوگوں کو جن کو خدا نے اپنی شریعت کا آمین بنایا ہے لیکن انہوں نے بہانہ عذر کر کے انجیر کے درخت کی مانند اپنی بظاہر سر سبز ڈالیوں کو قادرِ مطلق کے سامنے بے حرمتی سے پیش کیا ہے اور خداوند کے جلال کے لیے پھل سے محروم ہیں۔ ان میں بیشتر ناپاک خیال کو پاک خیال کر ر ہے ہیں۔ ناپاک سوچ بچار اور ناپاک خواہشات ، ذلیل جذبات کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسے درخت کے پھل سے خداوند متنفر ہے۔ پاک اور مقدس فرشتے ایسے افراد کی روش کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں مگر شیطان خوشی مناتا ہے۔ کاش کہ انسان غور کرے کہ خدا کے احکام کی نافرمانی کا کیا انجام ہے! ہر حالت میں نافرمانی خدا کی توہین اور آدمی کے لیے لعنت ہے۔ ہمیں اس کو اسی طرح سمجھنا چاہیے خواہ وہ اپنے لباس میں کیسی ہی حسین و جمیل نظر آئے اور کوئی بھی نافرمانی کیوں نہ کرتا ہو۔ (۵ٹی ۱۴۶) CChU 150.2
پاک دل خدا کو دیکھیں گے۔ ہر ناپاک خیال روح کو ناپاک اخلاقی قوأ کو کمزور اور پاک روح کے اثر کو زائل کر دیتا ہے۔ یہ روحانی بصیرت کو دھندلا کر دیتا ہے۔ اور آدمی خدا کو نہیں دیکھ سکتا۔ خدا گناہ گار کو معاف کر سکتا اور کرتا ہے معافی تو مل جاتی ہے، مگر روح داغی ہو جا تی ہے۔ روحانی حقائق کو واضح طور پر پہچاننے والے شخص کو اپنی بول چال میں تمام ناپاکی کو دُور کر دینا چاہیے۔ (ڈی۔ اے ۳۰۲) CChU 151.1
بعض افراد گناہ آلودہ رجحانات کو تسلیم کرنے کے بعد بھی خُود کو یہ کہہ کر معذور ٹھہرائیں گے کہ وہ اپنے جذبات پر غلبہ نہیں پا سکتے۔ خداوند مسیح کے نام لیوا کے لیے یہ بڑا سنجیدہ اقرار ہے۔ ”جو کوئی خداوند کا نام لیتا ہے ناراستی سے باز رہے۔“ (۲۔بتمیتھیس ۱۹:۲) یہ کمزوری کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ حیوانی خواہشات کو بار بار استعمال کرنے سے وہ خواہشات اعلیٰ قوأ پر غالب آ گئی ہیں آدمی اور عورت میں اخلاقی جرأت کی کمی ہو گئی ہے۔ وہ روحانی موت مر رہے ہیں۔ کیونکہ اپنی طبعی خواہشات کی یہاں تک ناز برداری کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اپنی قوتِ نظامیہ کا فقدان ہو گیا ہے۔ ان کی ادنیٰ خواہشات نے عنان علمبرداری سنبھال لی ہے اور جس طاقت کو علمبردار ہونا چاہیے تھا وہ ناپاک جذبہ کی باندی بن کر رہ گئی ہے اور روح ذلیل ترین غلامی میں اسیر ہو کر رہ گئی ہے۔ عیش پرستی اور شہوت پرستی نے پاکیزگی کی خواہش کا گلا گھونٹ دیا ہے اور روحانی خوشحالی نے پژمُردگی کا دامن پکڑ لیا ہے۔ (۲ ٹی ۳۴۸) CChU 151.2