ان آخری ایّام میں ناہنجار شیطان کا خاص کام نوجوانوں کے دل و دماغ پر قبضہ کرنا ان کی سوچ کو بگاڑنا اور ان کے جذبات کو بھڑکانا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ ناپاک عمل پر مائل کر سکتا ہے اور اسی طرح دماغ کے تمام اعلیٰ قوأ ذلیل ہو جائیں گے اوروہ اس کی مطلب برادری کے لیےاستعمال ہو سکیں گے۔ (سی۸ جی ۴۴۰ٌ CChU 151.3
میری روح ان نوجوانوں کے لیے ماتم کرتی ہے جو اِس بُرے زمانہ میں اپنے کردار کی تعمیر و ساخت کر رہے ہیں۔ میں ان کے والدین کے لیے بھی کپکپی میں ہوں۔ کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ والدین عموماً اس بات کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے بچّوں کو اس راہ کی تعلیم دیں جس پر ان کو جانا ہے ۔ دستور اور فیشن کو اپنایا جاتا ہے اور بچّے ان سے متاثر ہو کر بہت جلد بگڑ جاتے ہیں اور ان کے والدین ان کے خطرے سے غافل اور سن ہو کر سو جاتے ہیں۔ ان عادات سے نوجوان بہت کم بری الذمہ ہیں بعض اوقات اس خیال سے کہ وہ تجاوز نہ کریں ان کو جسمانی ورزش سے معذور رکھا جاتا ہے۔ والدین خود وہ بوجھ اٹھاتے ہیں جو ان کے بچّوں کو اٹھانا چاہیے تھا۔ CChU 152.1
ہاں کام کی زیادتی بُری چیز ہے لیکن کہالت کے نتیجہ سے دہشت کھانا چاہیے۔ کہالت بُری عادات کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں محنت و مشقت اس کا پانچواں حصّہ بھی نہ تھکاتی اور نہ ناتواں کرتی ہے۔ خود بربادی کی بُری عادات بہت نقصان کرتی ہیں۔ اگر آپ کے بچّے عام سادہ اور منظّم محنت سے بے دم ہو جاتے ہیں تو جان لیں کہ وہ اس سے نہیں بلکہ کسی اور چیز سے بے دم ہوتے ہیں۔ جو ان کے بدن کو کمزور کر کے ان کو تھکا دیتی ہے اپنے بچّوں کو جسمانی محنت کرنے دیں اِس سے ان کے اعصاب اور نسیں ورزش کریں گی۔ اس محنت سے تھکاوٹ اُن کو بُری عادات میں مبتلا ہونے کے رجحان رکھنے کو روک دے گی۔ (۲ ٹی ۳۴۸، ۳۴۹) CChU 152.2
ناپاک خیالات کی ترغیب دینے والی کتابیں پڑھنے اور گندی چیزوں کو دیکھنے سے گریز کریں بلکہ اپنے اخلاقی اور ذہنی قوأ کو بروئے کار لائیں۔ (۲ ٹی ۴۱۰) CChU 152.3
خدا یہ نہیں چاہتا ہے کہ آپ صرف اپنے خیال کو قابو میں رکھیں بلکہ اپنی جذبات اور التفات کو بھی تابع کریں ان امور کے نظم و ضبط پر آپ کی نجات کا انحصار ہے۔ شہوت اور اُلفت زبردست چیزیں ہیں اگر ان کا غلط استعمال کیا جائے، ان کو غلط مقاصد کے لیے بُروئے کار لایا جائے۔ اور غلط مقام پر استعمال کیا جائے تو ان سے آپ کی پوری بربادی ہو گی اور پھر آپ کو خدا اور اُمید کے بغیر تباہ شدہ انبار میں ملا دینے کے لیے زبردست وسائل ثابت ہوں گے۔ CChU 152.4
اگر آپ ناپاک تصورات میں دلچسپی لے کر اپنے دماغ کو ناپاک مضامین سے خوشی کرنے دیں تو آپ کسی حد تک خدا کے سامنے اتنے ہی قصور وار ہیں، جتنے کہ آپ فعل کرنے کے بعد ہوتے۔ آپ کو موقع نہیں ملا اس لیے آپ عمل کرنے سے رُک گئے۔ سات دن خواب دیکھنا اور ریت کے محل بنانا بُری بات ہے اور خطرناک عادات میں سے ہے۔ جب ایک دفعہ ایسی عادت بن گئی تو اس کا توڑنا اور خیالات کو پاک، مقدّس اور اعلیٰ مضامین کی طرف مبذول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دل و دماغ تسلط میں ہو اور روح باطل اور ناپاک خیالات سے مبرّہ ہو تو آپ کو اپنی آنکھوں، کانوں اور قوأ کا محافظ بننا پڑے گا صرف خدا کے فضل ہی کی طاقت اس مطلوبہ کام کی تکمیل کر سکتی ہے۔ (۲ ٹی ۵۶۱) CChU 153.1
حد سے زیادہ مطالعہ سے جب خون دماغ کی طرف بکثرت رجوع کرتا ہے تو مغمومیت اور زود رنجی کا جواز بن جاتا ہے۔ اس سے خود ضبطی کی قوت کمزور ہو جاتی ہے اور اکثر اوقات جوش و جذبہ اور متلون مزاجی کی لہر آ جاتی ہے اور ناپاکی کا دروازہ کُھل جاتا ہے۔ دنیا میں پھیلی ہوئی بدی کا جواز جسمانی قوأ کا غلط استعمال یا نا استعمال ہے ”غرور اور روٹی کی اسیری اور راحت کی کثرت“ آج بھی اس پشت کے خوفناک عدد ہیں جیسے کہ وہ سدوم و عموری کی تباہی و بربادی کے وقت تھے۔ (ایجوکیشن ۲۰۹) CChU 153.2
بہتیروں کی آنکھیں روشنی کے لیے بند ہو جائیں گی۔ کیونکہ وہ بد ترین شہوت پرستی اور لہو و لعب کے دلدادہ ہوتے ہیں، وہ گھبراہٹ میں ہوتے ہیں کہ دوسرے ان کے دلپسند گناہوں کو جن کو وہ ترک کرنا نہیں چاہتے دیکھ لیں گے۔ اگر چاہیں تو وہ سب دیکھ سکتے ہیں اگر وہ روشنی کی بجائے تاریکی کا انتخاب کریں تو بھی ان کی رو سیاہی کسی طرح بھی کم نہ ہو گی۔ (۲ ٹی ۳۵۲) CChU 153.3
ہرمسیحی شخص کا یہ مقولہ ہونا چاہیے کہ خدا کی توہین یا خدا کے احکام کی نافرمانی کرنے سے موت بہتر ہے۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم بحیثیت ایک اُمّت مصلح ہیں۔ اور خدا کے کلام کی بڑی سنجیدہ اور پاک کرنے والی سچائیوں پر عمل کرتے ہیں۔ ہمیں اس وقت کے لحاظ سے اپنے معیار کو اونچا کرنا چاہیے۔ کلیسیا میں گناہ اور گناہگاروں سے فوراً نمٹنا چاہیے تا کہ ان سے دوسرے متاثر نہ ہوں حق اور پاکیزگی کا مطالبہ ہے کہ ہم اپنی چھاؤنی میں سے عکنؔ کو باہر نکالنے کے لیے پوری پوری سعی کریں۔ ذمہ دارو عہدوں پر فائز احباب کو اپنے بھائی کے گناہ کو برداشت نہیں کرنا چاہیے اس کو بتا دیں کہ وہ گناہ کو ترک کر دے ورنہ کلیسیا سے باہر نکل جائے۔ (۵ ٹی ۱۴۷) CChU 153.4
نوجوانوں کے اصول ایسے مضبوط ہونے چاہئیں کہ شیطان کی جانب سے زبردست ترین آزمائش میں بھی ان کو اپنے اصول کی تابعداری سے منحرف نہ کر سکے۔ سموئیل ایک بچّہ تھا۔ لیکن نہایت بُرے ماحول میں گھرا ہوا تھا۔ اس نے ایسی چیزوں کو دیکھا اور سنا کہ جن سے ُاس کی روح غمزدہ ہوئی۔ عیلیؔ کے بیٹے جو پاک خدمت میں کام کرتے تھے۔ مگر شیطان کے ماتحت تھے ان آدمیوں نے اپنے سارے ماحول کو مسخ کر دیا تھا۔ روزانہ آدمی اور عورتیں گناہ اور قصور میں پھنس جاتے تھے مگر سموئیلؔ نبی بے داغ چلتا پھرتا تھا۔ اس کی سیرت کا لباس بے داغ تھا۔ جن گناہوں کے سبب بنی اسرائیل بُری چیزوں سے بھر گئے تھے۔ سموئیلؔ نے نہ ان میں دلچسپی لی اور نہ ان سے دوستی رکھی۔ سموئلؔ نبی خدا کو پیار کرتا تھا اس نے اپنی روح کو خد اکی اتنی گہری رفاقت میں رکھا کہ عیلی ؔ کے بیٹوں کے گناہوں کے متعلق خدا نے اسے بتانے کے لیے ایک فرشتہ کو بھیجا یہ گناہ بنی اسرائیل کو خراب کر رہے تھے۔ (۳ ٹی ۴۷۲۔ ۴۷۶) CChU 154.1