خدائے پاک کی نظر میں دلوں کےساتھ کھیلنے کا گناہ بہت عمیق اور عظیم ہے لیکن پھر بھی بعض نوجوان خواتین کی طرف نظریں لگا کر ان کی محبّت کو ابھار لیتے ہیں۔ اور پھر اپنی باتوں اور ان کے اثرات کو بُھول کر چھوڑ جاتے ہیں اور کِسی نئے چہرہ کو دیکھ کر پھر ویسی ہی محبّت اور پیار کے کلمات بول بول کر اس سے ویسی ہی محبّت کر کے اسے گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ اور یہ خاصیت شادی کے بعد بھی زندگی میں ظاہر ہوتی ہے۔ شادی بیاہ کا رشتہ بسا اوقات کسی تلون مزاج کو مضبوط نہیں کرتا اور نہ متذبذب شخص کو ثابت قدم اور با اصول بناتا ہے۔ ایسے لوگ ثابت قدمی کو ٹھکانے لگا دیتے ہیں اور ان کے ناپاک خیالات ناپاک اعمال کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ پس یہ نہایت ضروری ہے کہ نوجوان اپنے دماغ کی کمر اتنی مضبوطی سے باندھ کر اپنے کردار کی بڑی سختی سے حفاظت کریں کہ شیطان انہیں صراطِ مستقیم سے گمراہ نہ کر سکے۔ ایک نوجوان معاشرہ میں حظ اٹھاتے ہوئے ایک نوجوان خاتون کی دوستی کو حاصل کر لیتا ہے جس سے اس کے والدین واقف نہیں وہ نوجوان اس خاتون کی جانب اور اس کے والدین کی جانب شریفانہ مسیحی کردار کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ بلکہ چُھپ چُھپ کر بات چیت اور ملاقات میں اس پر اثر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایسا کرنے سے وہ اس دیانت داری اور شرافت کا مظاہرہ نہیں کرتا جو خدا کے ہر فرزند کی ملکیت ہوتی ہیں۔ اس دوستی کی تکمیل کے لیے وہ ایسا وطیرہ اختیار کرتے ہیں جو نہ واضح ہے اور نہ بائبل مقدس کے معیار کے مطابق ہے ۔ اور یُوں وہ اپنے کو پیار کرنے والوں اور اپنے وفادار محافظ بننے کی کوشش کرنے والوں سے بے وفائی اور فریب کاری کرتے ہیں۔ ان حالات میں شادی بیاہ خدا کے کلام کے مطابق نہیں ہوتی وہ شخص جو ایک بیٹی کو اس کے فرض سے گمراہ کرتا ہے اور خدا کی تجویز اور ا س مثبت حکم سے کہ وہ اپنے والدین کی تابعداری اور عزت کرے اپنے غلط رویہ سے اس کے نظریات میں ابہام پیدا کرتا ہے وہ ایسا شخص نہیں جو شادی کے فرائض میں سچا اور وفادار ثابت ہو گا۔ CChU 167.2
” تُو چوری نہ کرنا“ یہ الفاظ خداوند کی انگلی سے پتھر کی لوحوں پر لکھے گئے تھے۔ اس کے باوجود محبّت کی کیسے خفیہ چوری کی جاتی ہے اور اس حکم سے چشم پوشی کی جاتی ہے! مکرو فریب کاری کا عشق اور پیار جاری رکھا جاتا ہے۔ خفیہ بات چیت اور خط و کتابت جاری رہتی ہے۔ اور اُس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ اُس ناواقف شخص کو اس کے انجام کا علم نہیں ہوتا۔ محبّت کی حد اپنے والدین سے ہٹا لی جاتی ہے اور وہ محبّت اس شخص کو جو ایسا ناجائز طریقہ اختیار کرتا ہے اسے دے دی جاتی ہے۔ ایسا شخص اس محبت کے بالکل نا اہل اور ناقابل ہے۔ بائبل مقدس بد دیانتی کے شائبہ تک کو بُرا سمجھتی ہے۔ CChU 168.1
بیشتر مسیحی لوگ جن کی زندگیوں سے دیانت داری ظاہر ہوتی ہے اور وہ بظاہر دوسرے مضمون میں بڑے محتاط ہوتے ہیں۔ اس معاملہ میں بڑے خطرناک طور پر غلطیاں کرتے ہیں وہ ایک مقررہ اور مصمم مرضی کا مظاہرہ کرتے ہیں جسے کوئی دلیل نہیں توڑ سکتی وہ انسانی جذبات اور خواہشات سے اتنے مسحور ہو جاتے ہیں کہ ان کے دل میں بائبل مقدّس میں تحقیق کرنے اور خدا کی نزدیکی میں آنے کی خواہش ہی نہیں رہتی۔ CChU 168.2
جب دس احکام میں سے ایک حکم توڑا جاتا ہے تو پھر نشیبی کی راہ یقینی ہو جاتی ہے۔ جب ایک بار عورت کی عصمت اور پاکدامنی جاتی رہی تو بد ترین زنا کاری اور حرام کاری بھی بڑا گناہ نظر نہیں آتا۔ مقامِ افسوس ہے کہ بدی کے سلسلہ میں عورت کا کیسا بھیانک اثر آج دنیا میں نظر آتا ہے۔ ”اجنبی عورتوں“ کی فریفتگی اور پُھسلاہٹ کے ذریعہ سے ہزاروں قیدخانوں کی قید و بند میں گرفتار ہیں بہتیرے اپنی زندگیوں اور بہتیرے دوسروں کی زندگیوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔ الہامی کلام کے یہ الفاظ کیسے موزوں اور بجا ہیں۔ ”اس کا گھر پاتال کا راستہ ہے اور موت کی کوٹھڑیوں کو جاتا ہے۔“ شاہرہ ِزندگی کے ہر موڑ پر آگاہیاں نشان دہی کرتی ہیں لیکن اُس کے باوجود عقل و سمجھ کے مشورے کو نظر انداز کر کے اور خدا کی شریعت کے باوجود اور اس کے یقینی انتقام کے برعکس بھیڑ ہلاکت کی راہ کو پسند کر کے اُس پر گامزن ہے۔ اپنی جسمانی صحت اور دماغی قوأ کو مضبوط اور مستقیم اور اخلاق کو محفوظ رکھنے کے آرزومندوں کو ”جوانی کی خواہشوں سے بھاگنا“ چاہیے جو اشخاص بد کاری کو جو سر اٹھائے ہوئے ہے غیرت مندانہ اور مضبوط کوششوں سے روکتے ہیں ہمارے درمیان گستاخ اور سرکش انسان ایسے لوگوں کو بدنام کر کے ان پر طرح طرح کے الزام اور دشنام لگائیں گے لیکن خدا تعالیٰ ان کی عزت کرے گا اور اُن کو اجر دے گا۔ CChU 168.3