مسیحی دنیا میں مسیحیوں کی غیر ایمان والوں کے ساتھ شادی سے متعلق خدا کے کلام کی ہدایت سے حیران کن اور پریشان کُن عدم واقفیت پائی جاتی ہے۔ خدا کو پیار کرنے، اس سے ڈرنے اور اس کا اقرار کرنے والے بیشتر افراد خدا تعالیٰ کے مشورے کے خلاف اپنے ہی رجحانات کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ایسے اہم معاملہ میں جس کا تعلق ان دونوں کی موجودہ جہان اور آئندہ جہان میں شادمانی اور فلاح و بہبود سے ہے تو عقل اور فہم، انصاف و امتیاز اور خدا ترسی کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے اور بےہودہ جذبات، سرکش اور ضدی ارادہ کو پروان چڑھنے دیا جاتا ہے۔ CChU 170.1
دورسرے معاملہ میں ہوشیار اور سمجھدار آدمی اور عورتیں اس معاملہ میں مشورے سے اپنے کان بند کر لیتے ہیں وہ اپنے عزیزوں ، دوستوں اور خدا کے خادموں کی منت و سماجت سے بالکل منہ موڑ لیتے ہیں۔ کسی آگاہی یا احتیاط کا اظہار نا واجب دخل اندازی سمجھا جاتا ہے اور جو دوست اس سلسلہ میں پس و پیش کرنے میں وفادار ہے اسے دشمن سمجھا جاتا ہے اور جو دوست اس سلسلہ میں پس و پیش کرنے میں وفادار ہے اسے دشمن سمجھا جاتا ہے۔ شیطان اسی طرح پسند کرتا ہے وہ روح کے ارد گرد جال پھیلا دیتا ہے اور وہ شخص محبّت میں اندھا فریفتہ ہو جاتا ہے۔ شہوت پرستی کی گردن پر عقل کی طناب ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔ جب ناپاک جذبات تحلیل ہو جاتے ہیں اور جب مظلوم اپنی غلامانہ زندگی میں بیدار ہوتا ہے تو اس وقت چڑیاں کھیت چُگ چکی ہوتی ہیں۔ یہ تصوری تصویر نہیں بلکہ حقائق کا اعادہ ہے۔ خدا نے جس اتحاد کو منع فرمایا ہے وہ اس پر قبولیت ک مہر ثبات نہیں کرتا۔ CChU 170.2
خداوند نے قدیم اسرائیل کو اپنے قرب و جوار کی غیر اقوام سے شادی بیاہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔ ”تُو ان سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا نہ ان کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اور نہ اپنے بیٹوں کے لیے اُن کی بیٹیاں لینا“ اس کی وجہ بھی فرما دی ہے اور خدا کی حکمت نے ایسے اتحاد کے نتیجہ کو دیکھکر فرمایا۔ ”کیونکہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کر دیں گے تا کہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں۔ یُوں خداوند کا غضب تم پر بھڑکے گا اور وہ تجھ کو جلد ہلاک کر دے گا ...... کیونکہ تو خداوندا اپنے خدا کے لیے ایک مقدس قوم ہے۔ خداوند تیرے خدا نے تجھ کو روئے زمین کی اور سب قوموں میں سے چن لیا ہے تا کہ اُس کی خاص اُمّت ٹھہرے۔“ انجیل جلیل میں بے دینوں کے ساتھ مسیحیوں کی شادی کی بابت ایسی ہی ہدایت موجود ہیں۔ رسول پولسؔ کر نتھیوں کے پہلے خط میں رقمطراز ہے۔ ”جب تک کہ عورت کا شوہر جیتا ہے وہ اس کی پابند ہے پر جب اس کا شوہر مر جائے تو جس سے چاہے بیاہ کر سکتی ہے۔ مگر صرف خداوند میں۔“ پھر وہ کرنتھیوں ک دوسرے خط میں رقمطراز ہے۔ ”بے ایمانوں کے ساتھ ناہموار جُوئے میں نہ جُتو کیونکہ راستبازی اور بے دینی میں کیا میل جول؟ یا روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت؟ مسیح کو بلیعال کے ساتھ کیا موافقت؟ یا ایماندار کا بے ایمان سے کیا واسطہ؟ اور خدا کے مقدّس کو بتوں سے کیا مناسبت ہے؟ کیونکہ ہم زندہ خدا کا مقدس ہیں۔ چنانچہ خدا نے فرمایا ہے کہ میں ان میں بسوں گا اور ان میں چلوں پھروں گا اور مَیں ان کا خدا ہوں گا اور وہ مری اُمّت ہوں گے اس واسطے خداوند فرماتا ہے کہ ان میں سے نکل کر الگ رہو ا ور ناپاک چیز کو نہ چُھوؤ تو میں تم کو قبول کر لوں گا اور تمہارا باپ ہوں گا اور تم میرے بیٹے بیٹیاں ہوں گے۔ یہ خداوند قادرِ مطلق کا قول ہے۔“ خدا کی اُمّت کو ممنوعہ مقام پر جانے کی ہرگز جرأت نہ کرنا چاہیے۔ خدا تعالیٰ نے ایمانداروں اور بے ایمانوں کے درمیان شادی بیاہ کو منع فرمایا ہے۔ لیکن اکثر اوقات بے ایمان دل اپنی من مانی کرتا ہے اور شادیاں کی جاتی ہیں۔ جن کو خدا نے منظور نہیں فرمایا اِسی وجہ سے اس دنیا میں بہتیرے آدمی اور عورتیں بے اُمید اور بے خدا ہیں۔ ان کی اعلیٰ تمنائیں مردہ ہو چکی ہیں اور حالات کی زنجیر کے ذریعہ سے شیطان کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ شہوت پرستی اور جذبات سے مغلوب اشخاص اس زندگی میں تلخ اور کڑوی فصل کاٹیں گے اور اپنی روش سے وہ ابدی زندگی سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔ CChU 170.3
جو لوگ خدا کی سچائی کو ماننے کے مدعی بن کر بے ایمانوں کے ساتھ شادی بیاہ کر کہ خدا کی مرضی اور ارادہ کو پامال کرتے ہیں وہ خدا کی خوشنودی سے محروم ہو کر توبہ کے لیے تلخ تر عمل سر انجام دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ غیر ایمان والا اعلیٰ اخلاق کا مالک ہو لیکن یہ حقیقت کہ اس (مرد یا عورت) نے خدا کے مطالبات سے انحراف کیا ہے اور اتنی بڑی نجات سے غفلت کی ہے۔ ایک کافی بڑا جواز ہے کہ کیوں ایسی شادی سر انجام پائے۔ ممکن ہے کہ غیر ایمان والے کا کردار اس نوجوان کا سا ہو جس سے خداوند یسوعؔ مخاطب ہوا تھا۔ ”تجھ میں ایک بات کی کمی ہے۔“ اور یہی وہ اہم چیز تھی۔ CChU 171.1