بعض اوقات یہ عزر پیش کیا جاتا ہے کہ یہ غیر ایمان شخص مذہب سے متاثر ہے۔ اور ایک ساتھی میں جتنی صفات ہونی چاہیے اس میں ایک کے سوا سب موجود ہیں۔ یعنی وہ مسیحی نہیں۔ گو ایماندار کی بہتر صوابدید غیر ایمان کے ساتھ زندگی بھر کے اتحاد کی ناپسندی کا اظہار کرے تو بھی دس میں سے نو حالات میں رجحانات غافل آ جاتے ہیں۔ مذبح کے پاس عہد کرتے ہی روحانی تنزل شروع ہو جاتا ہے۔ دینی جوش ٹھنڈا پڑا جاتا ہے اور یکے بعد دیگرے سالم حدود بندیاں توڑی جاتی ہیں اور آخر کار دونوں باہم شیطان کے سیاہ جھنڈے تلے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کی عروسیت میں بھی ضمیر ، ایمان اور حق کے خلاف دنیاوی رُوح غالبؔ آ جاتی ہے۔ نئے خاندان میں دعائیہ وقت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ دُلہے دلہن نے ایک دوسرے کو تو چن لیا ہے لیکن خداوند یسوعؔ کو برخاست کر دیا ہے۔ شاید شروع شروع میں غیر ایمان والا نئے رشتہ میں کوئی مخالفت نہ کرے۔ لیکن جب بائبل مقدس کی سچائی توجہ اور غور کے لیے پیش کی جاتی ہے تو فوراً یہ احساس عود کر آتے ہیں۔ ”تم نے یہ جان کر کہ جو کچھ میں ہوں مجھ سے شادی کی ہے میں نہیں چاہتا کہ مجھے پریشان کیا جائے۔ اب یہ جان لینا چاہیے کہ آئندہ کو اپنے نظریہ سے متعلق مجھ سے بات چیت نہ کی جائے۔“ اگر ایمان والا شخص اپنے دین سے متعلق کوئی خاص سرگرمی ظاہر کرے تو شاید اس سے اس شخص کی جانب جسے مسیحی ایمان میں کوئی دلچسپی نہیں بے مروتی معلوم ہو۔ CChU 172.1
ایمان والا شخص سوچتا ہے کہ اُسے اپنے نئے رشتہ میں اپنے ساتھی کے سوشل اور دنیاوی تفریحات کے کِسی نہ کِسی نظریہ میں ضرور متفق ہونا چاہیے۔ شروع شروع میں ایسے مشاغل میں شامل ہونے میں پس و پیش کی جاتی ہے لیکن جوں جوں سچائی میں دلچسپی کم ہوتی جاتی ہے تو ایمان کی جگہ شک و شبہات لیتے جاتے ہیں۔ کِسی شخص کو اس بات کا گمان تک نہ تھا کہ ایسا مضبوط اور با خبر ایماندار اور مسیح یسوعؔ کا پُر جوش عقیدت مند شخص ایسے شک اور تذبذب میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ یہ تبدیلی ا س نامعقول شادی بیاہ سے ہوتی ہے۔ دنیاوی اتحاد بڑا خطرناک ہے۔ شیطان اس بات سے بخوبی باخبر ہے کہ وہ گھنٹہ جو بیشتر نوجوان مردوں اور عورتوں کی مناکحت کا گواہ ہوتا ہے ان کے دینی تجربے اور سود مندی کی تواریخ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ وہ خداوند مسیح کے اعتبار سے ہلاک ہو گئے ہیں۔ شاید وہ کچھ دیر تک مسیحی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن ان کی تمام کوششیں ایک زبردست اثر کے برعکس ہوتی ہیں۔ کسی وقت ان کے ایمان اور اُمید کے متعلق اُن سے بات چیت کرنا شرف اور خوشی کا سبب ہوتا تھا۔ لیکن یہ جان کر کہ جس سے اس نے اپنی عاقبت منسلک کی ہے وہ ان امور میں دلچسپی نہیں لیتا۔ وہ ان مضامین سے متعلق ذکر رکنا بھی اچھا نہیں سمجھتے۔ پس انمول حقائق میں ان کا ایمان دل ہی دل میں مُردہ ہو گیا ہے اور شیطان اس کے چاروں طرف اپنی فطرت کے مطابق کفرو الحاد کا جال پھیلا دیتا ہے۔ CChU 172.2
”اگر دو ۲شخص باہم متفق نہ ہوں تو کیا اکٹھے چل سکیں گے؟“ اگر تم میں سے دو شخص ..... کسی بات کے لیے جسے وہ چاہتے ہوں اتفاق کریں تو وہ میرے باپ کی طرف سے جو آسمان پر ہے ان کے لیے ہو جائے گی۔“ لیکن یہ منظر کیسا عجیب ہے! جبکہ ان دو میں سے جو باہم اتنی قربت سے آپس میں متحد ہیں ایک عابد ہے اور دوسرا بے دین اور غافل ہے ایک ابدی زندگی کی راہ کا جویاں ہے اور دوسرا موت کے کشادہ راستہ پر گامزن ہے۔ CChU 173.1
بے شمار نے بے دینوں سے شادی بیاہ کر کے مسیح خداوند اور ابدی بادشاہی کو مصلوب کر دیا ہے۔ کیا خداوند مسیح کی محبّت اور رفاقت ان کے لیے اتنی حقیر اور بے قدر ہے کہ وہ فانی انسان کی رفاقت کو اس پر ترجیح دیتے ہیں؟ کیا آسمان کی قدر و قیمت اتنی کم ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کے عوض جس کو انمول نجات دہندہ سے کوئی پیار نہیں آسمان کی خوشیوں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ CChU 173.2