جب کوئی مسیحی شخص ایسے تنگ حالات میں جن میں اس کے دینی اصول کی جانچ ہو لایا جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ اسے قابل تقلید مضبوطی اور استقلال کے ساتھ بڑی صفائی سے کہنا چاہیے۔ ”میں ایک حق شناس مسیحی ہوں میرا ایمان ہے کہ ہفتہ کا ساتواں دن بائبل مقدّس کا سبت ہے۔ ہمارا ایمان اور اصول ایسے ہیں کہ ان کا رجحان برعکس جانب ہے۔ ہم آپس میں خوش نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ اگر میں خدا کی مرضی کے متعلق کامل عرفان حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھوں تو میں دنیا کے برعکس زیادہ اور زیادہ ہوتا ہوا خداوند مسیح کی شبیہ پر ڈھلتا جاؤں گا۔ اگر آپ خداوند مسیح میں کوئی حُسن و جمال مسلسل دیکھتے نہیں رہیں گے اور آپ کو سچائی میں دلکشی نظر نہ آئے گی تو آپ دنیا کو پیار کریں گے جس کو میں پیار نہیں کر سکتا (کر سکتی) کیونکہ میں خدائی باتوں کو پیار کرتا (کرتی) ہوں جن کو آپ پیار نہیں کر سکتے آپ روحانی تنویر کے بغیر مجھ پر عائد خدا کے فرائض کو نہیں دیکھ سکیں گے اور نہ میرے خداوند کی جس کی میں عبادت کرتا (کرتی) ہوں فرائض کا احساس کر سکیں گے۔ اِس لیے آپ محسوس کریں گے کہ میں دینی فرائض کے سبب سے آپ سے غفلت برت رہا (رہی) ہوں آپ خوش نہیں ہوں گے اور خدا سے میری محبّت کے سبب سے آپ حسد کریں گے اور میں اپنے مذہبی عقائد میں تنہا ہوں گا (ہوں گی) جب آپ کی خیالات تبدیل ہو جائیں گے جب آپ کا دل خدا کے مطالبات کو قبول کرے گا اور آپ میرے نجات دہندہ کو پیار کرنے لگیں گے (لگیں گی) اس وقت ہمارے تعلقات میں تجدید ہو سکتی ہے۔ CChU 174.1
ایماندار شخص مسیح خداوند کے لیے ایسی قربانی بھی پیش کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے جس کو اس کا ضمیر تسلیم کرے۔ اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی نظر میں ابدی زیست کی بہت قدر و منزلت ہے اور وہ یہ محسوس کرتا ے کہ وہ اپنا زندگی بھر کا رشتہ ایسے شخص سے نہ کرے جو خداوند مسیح کی بجائے دنیا کو پیار کرتا ہے اور خداوند کی صلیب سے منحرف ہے ایسے شخص سے شادی کرنے کی نسبت کنوارہ رہنا بہتر ہے۔ CChU 174.2