علم حاصل کرنے کے بارے، نوجوان چاہے جتنا علم حاصل کریں اور جتنی جلدی علم حاصل کر سکتے ہیں کریں- ان کے علم کا دائرہ اتنا وسیع ہونا چاہیے جتنی ان کی قوا برداشت کر سکتی ہیں- اور جوں جوں اور جو جو کچھ وہ سیکھتے ہیں چاہیے کہ دوسروں سکو اس سے فائدہ پہنچائیں- SKC 287.1
جب وہ حاصل کردہ علم دوسروں کے لئے استعمال کریں گے تو اس سے انکو اسی تعلیم کی افادیت اور قدر وقیمت کا اندازہ کرنے کا موقع ملے گا- تعلیم حاصل کرنے میں کافی عرصۂ صرف کرنا، اور اسے استعمال کر کے یہ معلوم نہ کرنا کہ اس کے کیا فوائد ہیں وقت کا زیاں ہے- گھر اور اسکول دونوں میں طالبعلم کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ مطالعہ کس طرح کرنا اور پھر دوسروں تک کیسے پہنچانا ہے؟ جب تک اسکی زندگی ہے خواہ وہ کسی بھی شعبے میں کام کرے وہ بیک وقت استاد اور طالبعلم ہے (اسے سکھانا اور سیکھنا ہے)- اس طرح وہ مسلسل ترقی کرتا چلا جائے گا- نیز خدا پر بھروسہ رکھتے ہوۓ اس سے چمٹا رہے گا جو لامحدود حکمت کا مالک ہے- کیونکہ خداوند ہی ان بھیدوں سکو آشکارہ کر سکتا ہے جو صدیوں سے پوشیدہ ہیں اور جو اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ انکی مشکلات کو حل کرتا ہے- SKC 287.2
خداوند کا پاک کلام باہمی میل جول یعنی دوسروں کے ساتھ رفاقت رکھنے پر زور دیتا ہے- اسکا اثر نوجوانوں کے ذہن ودماغ اور کردار پر کیسا ہو گا؟ جیسی وہ شبت اختیار کریں گے، جیسے اصول اپنائیں گے، جیسی خصوصیات کے حامل ہوں گے اسی پر ان کی ابدیت کا انحصار ہو گا- SKC 287.3
یہ ایک ہولناک حقیقت ہے جس سے والدین کے دل دہل جاتے ہیں کہ بہت سے اسکولوں اور کالجوں میں جہاں نوجوانوں کو ذہنی بالیدگی اور ضبط کے لئے بھیجا جاتا ہے وہاں وہ ایسی شبت سے مغلوب ہو جاتے ہیں جو ان کے کردار سکو بدنما بنا دیتی ہے- بد صحبت ذہن ودماغ کو زندگی کے حقیقی مقصد سے دور لے جاتی اور عادات واطوار کو مسخ کر دیتی ہے- غیر مذہبی صحبت، عیاشی اور بےدینی اور بدچلنی، نوجوان کی پاکیزگی چھین لیتی ہے- خدا پر انکا ایمان اٹھ جاتا ہے- اور خود انکاری کی روح جس کی مسیحی والدین نے بڑی محنت، لگن اور دعا کے ساتھ بچوں میں پیدا کیا تھا اس سے نوجوان محروم ہو جاتے ہیں- SKC 287.4
بعض جو یہ مقصد لے کر اسکول میں داخل ہوۓ تھے کہ پڑھ، لکھ کر کوئی بےلوث خدمات انجام دے گے وہ یہاں آ کر کوئی عام دنیاوی علم حاصل کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں- پھر ان کے دل میں امتیازی درجہ حاصل کرنے کی خواہش اجاگر ہوتی ہے یعنی جیسے بھی ہو وظیفہ حاصل کریں اور کوئی اعلی مرتبہ پا کر دنیا میں اپنا نام پیدا کریں اور جو مقصد لے کر اسکول میں آئے تھے وہ فوت ہو جاتا ہے- زندگی خود غرضی اور دنیاوی کاروبار کی شکار ہو جاتی ہے اور نوجوان اکثر ایسی عادات اپنا لیتے ہیں جو ان کی زندگی کو اس دنیا اور آنے والی دنیا دونوں کے لئے برباد کر دیتی ہے- SKC 288.1
عام طور پر مرد وزن جو وسیع خیال وگمان، قیاس وادراک، بےلوث مقاصد اور عالی آرزؤں کے مالک ہوتے ہیں- ان میں یہ خصوصیات ان کی ابتدائی زندگی کی صحبت سے پیدا ہو گئیں- SKC 288.2
خداوندتعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ اپنے بچوں کی صحبت پر کڑی نظر رکھیں- اجتماعی زندگی کے لئے بندوبست، مذہبی اور سماجی زندگی کے ضابطے اسی بات سکو ذہن میں رکھ کر واضح کئے گئے کہ بچوں سکو ان کے بچپن سے ہی صحبت کے نقصاندہ تاثر سے محفوظ رکھ سکیں- اور پھر یہ ضابطے جو خدا کی شریعت کے مطابق تھے ان چھوٹے چھوتقے بچوں کے ذہن نشین کرائے جاتے تھے- اور اس کی زندہ مثال نے بنی اسرائیل کے دلوں پر اس وقت گہرا اثر ڈالا جب مصر پر خداوندتعالیٰ نے مصریوں کے پہلوٹھوں کو مارا- ہر اسرائیلی کے گھر کے دروازے کی چوکھٹ پر خون لگایا گیا جو اس بات کی یقین دہانی تھی کہ جو کوئی اس گھر کے اندر ہے وہ محفوظ رہے گا- لہٰذا آج جو والدین خدا سے ڈرتے اور اسکو پیار کرتے ہیں ان سکو چاہیے کہ اپنے بچوں سکو اس عہد کے تابع رکھیں- یعنی ایسی صحبت میں جو خداوند کے نجات بخش خون کی بدولت پاک ہے- SKC 288.3
اپنے شاگردوں کے بارے خداوند مسیح نے فرمایا- SKC 288.4
“میں نے تیرا کلام انکو پہنچا دیا- اور جس طرح میں دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں” یوحنا -14:17 SKC 288.5
“اس جہاں کے ہمشکل نہ ہو- بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو” رومیوں -2:12 SKC 288.6
“بے ایمانوں کے ساتھ ناہموار جوۓ میں نہ جتوکیونکہ راستبازی اور بےدینی میں کیا میل جول؟ روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت؟ مسیح سکو بلیعال کے ساتھ کیا موافقت؟ یا ایماندار کا بے ایمآن کے ساتھ کیا واسطہ؟ اور خدا کے مقدس سکو بتوں سے کیا مناسبت؟ کیونکہ تم زندہ خدا کا مقدس ہو اور چنانچہ خداوند نے فرمایا کہ میں ان میں بسوں گا اور ان میں چلوں پھروں گا- اور میں انکا خدا ہوں گا اور وہ میری امت ہوں گے- اس واسطے خداوند فرماتا ہے کے ان سے نکل کر الگ رہو- اور ناپاک چیز کونہ چھوؤ تو میں تم کو قبول کر لوں گا- اور تمہارا باپ ہوں گا- اور تم مرے بیٹے اور بیٹیاں ہو گے- یہ خداوند قادر مطلق کا قول ہے” 2 کرنتھیوں -18:14:6 SKC 288.7
“تم اپنے بچوں سکو جمع کرو” “خدا کے احکام اور شریعت انکو بتاؤ” یو ایل -14:2 ، خروج -16:18 SKC 289.1
“اس طرح وہ مرے نام سکو بنی اسرائیل پر رکھیں اور میں انکو برکت بخشوں گا” گنتی -27:6 SKC 289.2
“اور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے تجھ سے در جائیں گی” استثناہ -10:28 SKC 289.3
“اور یعقوب کا بقیہ بہت سی امتوں کے اے ایسا ہو گا جیسے خداوند کی طرف سے اوس اور گھاس پر بارش جو نہ انسان کا انتظار کرتی ہے اور نہ بنی آدم کے لئے ٹھہرتی ہے” میکاہ -7:5 SKC 289.4
ہمارا شمار بنی اسرسل کے ساتھ ہوتا ہے- تعلیم وتربیت کے بارے جنتی ہدایات قدیم بنی اسرائیل کو ان کے بچوں کے لئے دی گئیں، اور وفادار رہنے سے برکات کے جتنے وعدے ان سے باندھے گئے تھے وہ ہمارے ہیں- اس لئے خداوند فرماتا ہے- SKC 289.5
“میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا- اور برکت دوں گا اور تیرا نام سرفراز کروں گا- سو تو باعث برکت ہو!” پیدائش -2:12 SKC 289.6
پہلے شاگردوں اور ان سب کے لئے جو اس کے کلام کی وجہ سے ایمان لائیں گے مسیح خداوند فرماتا ہے- SKC 289.7
“اور وہ جلال جو تو نے مجھے دیا ہے میں نے انھیں دیا ہے تاکہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں- میں ان میں اور تو مجھ میں تاکہ وہ کامل ہو کہ ایک ہو جائیں اور دنیا جانے کہ تو ہی نے مجھے بھیجا اور جس طرح کے تو نے مجھ سے محبت رکھی ان سے بھی محبت رکھی” یوحنا -23:22:17 SKC 289.8
نہایت ہی عجیب وغریب کلام جو تقریبا یقین سے باہر ہے- تمام دنیاؤں کا خالق انکو اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتا ہے جو خود کو اس کی خدمت کے لئے وقف کر دیتے ہیں- اس کی یہ بخشحش ہم سب پر بھی ہے- اس نے ہمیں آسمانی شان وشوکت اور روشنی عطا فرمائی ہے اور خداوند یسوع مسیح کے ساتھ اس نے ہمیں آسمانی خزانے دے دئیے ہیں- SKC 290.1
مگر اس زندگی میں بھی اس نے ہمیں بہت شاہانہ تحائف بخش دئیے ہیں- اس کی خواہش ہے کہ اس کے فضل کے تحت زندگی بسر کرتے ہوۓ ہم اس چیز کا لطف اٹھائیں جو ہمارے کو بلند وبرتر کرے- نیز اسے عالی ظرف بنا کر وسعت دے- خداوندتعالیٰ آسمانی قوت دے کر نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ وہ مسیح یسوع کے خون آلودہ جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر اسی طرح کام کریں جیسے اس نے کیا- نیز لوگوں کے قدم محفوظ راہ پر قائم اور بہتیروں کو زمانوں کی چٹان مسیح یسوع پر مستحکم کریں- SKC 290.2
جو کوئی بھی خداوند کی تعلیم کی تجویز کے زیر سایہ اور ہم آہنگ ہو کر کام کرنا چاہتا ہے اس کا بچانے والا فضل اس کے شامل حال ہو گا- اور اس کی مسلسل موجودگی اور بچانے والی قدرت اس سے علیحدہ نہ ہو گی- وہ ان میں سے ہر ایک سکو فرماتا ہے- “مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ- خوف نہ کھا اور بے دل نہ ہو- کیونکہ خداوند تیرا خدا تیرے ساتھ ہے”- “میں نہ تجھ سے دستبردار ہوں گا اور نہ تجھے چھوڑوں گا” یشوع -5,9:1 SKC 290.3
“لیکن جب آسمان سے بارش ہوتی اور برف پڑتی ہے اور پھر وہ وہاں واپس نہیں جاتی بلکہ زمین سکو سیراب کرتی ہے اور اسکی شادابی اور روئیدگی کا باعث ہوتی ہے تاکہ بونے والے سکو بیج اور کھانے والے سکو روٹی دے- اسی طرح جو میرا کلام میرے منہ سے نکلتا ہے ہو گا- وہ بینجم مرے پاس واپس نہ آئے گا بلکہ جو کچھ میری خواہش ہو گی وہ اسے پورا کرے گا اور اس کام میں جس کے لئے میں نے اسے بھیجا موثر ہو گا- کیونکہ تم خوشی سے نکلو گے اور سلامتی کے ساتھ روانہ کئے جاؤ گے- پہاڑ اور ٹیلے تمھارے سامنے نغمہ پرواز ہوں گے اور میدان کے سب درخت تال دیں گے- کانٹوں کی جگہ صنوبر نکلے گا اور جھاڑی کے بدلے آس کا درخت نکلے گا اور یہ خداوند کے لئے نام اور ابدی نشان ہو گا جو کبھی منقطع نہ ہو گا” یسعیاہ-13:10:55 SKC 290.4
دنیا بھر میں سماج، معاشرہ ابتری کا شکار ہو چکا ہے- مکمل طور پر اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے- نوجوانوں سکو دی ہوئی تعلیم معاشرے سکو مکمل طور پر بدل کر رکھ سکتی ہے- SKC 290.5
“تب وہ پرانے اجاڑ مکانوں کی تعمیر کریں گے اور قدیم ویرانیوں کوپھر بنا کریں گے اور ان اجڑے شہروں کی مرمت کریں گے جو پشت درپشت اجاڑ پڑے تھے- پس تم خداوند کے کاہن کہلاؤ گے- وہ تم سکو ہمارے خدا کے خادم کہیں گے- تم قوموں کا مال کھاؤ گے اور انکی شوکت پر فخر کرو گے- تمہاری خجالت کا اجر دوچند ملے گا- وہ اپنی رسوائی کے بدلے اپنے حصے سے خوش ہوں گے- پس وہ اپنے ملک میں دوچند کے مالک ہوں گے اور انکو ابدی شادمانی ہو گی، کیونکہ میں خداوند انصاف سکو عزیز رکھتا ہوں اور غارتگری اور ظلم سے نفرت کرتا ہوں- سو میں سچائی سے ان کے کاموں کا اجر دوں گا- اور ان کے ساتھ ابدی عہد باندھوں گا- ان کی نسل قوموں کے درمیان نامور ہو گی اور ان کی اولاد لوگوں کے درمیان- وہ سب جو ان کو دیکھیں گے اقرار کریں گے کہ یہ وہ نسل ہے جسے خداوند نے برکت بخشی ہے- کیونکہ جس طرح زمین اپنی نباتات کو پیدا کرتی ہے اور جس طرح باغ ان چیزوں کو جو اس میں بوئی گئی ہیں اگاتا ہے اس طرح خداوند خدا صداقت اور ستائش کو تمام قوموں کے سامنے ظہور میں لائے گا” یسعیاہ6-4:61 ،-11:8:61 SKC 291.1