“ہمارا خُداوند یسوع مسیح انسان کے لئے انتھک خدمت انجام دینے کے لئے آیا۔ اُس نے آپ “ہماری کمزوریاں لے لیں اور بیماریاں اُٹھا لیں” متی 17:8- وہ ہمارے گناہ اور بد بختی کے بوجھ کو دور کرنے کے لئے آیا۔ وہ انسان کو مکمل طور پر بحال کرنے آیا۔ وہ آیا تاکہ انسان صحت، آرام، اطمینان اورسیرت کی کاملیت حاصل کرے۔ انسانوں کے مختلف مسائل تھے۔ خواہ کسی کی کوئی بھی تکلیف کیوں نہ تھی، خُداوند مسیح نے کسی کو بھی نا اُمید واپس نہ لوٹایا۔ کسی کے حالات بھی آڑے نہ آئے۔ اُس سے شفا بخش ندیاں جاری ہوتیں تھیں- اسی لئےانسانوں کو اس نے روحانی ، جسمانی اور ذہنی شفا عطا فرمائی۔ SKC 8.1
نجات دہندہ کا کام کسی خاص وقت یا جگہ تک محدود نہ تھا۔ شفا پانے کے لئے اتنی بھیڑ اُس کے گرد جمع ہو جاتی تھی کہ فلسطین میں تو کوئی اتنی وسیع عمارت موجود بھی نہ تھی جس میں اتنی بڑی بھیڑ سما سکتی۔ گلیل کی پہاڑیاں، شاہرائیں، ہیکلیں اور ساحل سمندر یہ سب خُداوند یسوع مسیح کے ہسپتال تھے جہاں لوگ اپنے مریضوں کو شفا کے لئے لے کر آتے تھے- SKC 8.2
جس شہر، قصبے اور گاؤں میں سے وہ گزرتا بیماروں کے اُوپر ہاتھ رکھ کر اُن کو شفا بخشتا۔ جہاں کہیں اس کا پیغام قبول کرنے کے لئے دل تیار پاۓ جاتے وہ اُن کو آسمانی باپ کی محبت کا یقین دلا کر تسلی دیتا- جو لوگ اُس کے پاس آتے اُن کی خدمت میں وہ تمام دن مصروف رہتا اور شام کو اُن کی خدمت کرتا جو سارا دن اپنے خاندانوں کے لئے محنت مشقت کر کے تھک کر چور ہو جاتے۔ SKC 8.3
خُداوند یسوع مسیح نے بنی آدم کی نجات کی ذمہ داری کا بوجھ اُٹھا رکھا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جب تک نسل انسانی میں مناسب تبدیلی واقع نہ ہو گی وہ تباہ ہو جاۓ گی۔ یہ اُس کا بڑا بوجھ تھا جسے کسی نے بھی نہ سراہا- بچپن اور جوانی دونوں میں اس نے تنہا سب کچھ کیا۔ گو خدمت کے لئے آسمان کی ساری معموری اُس کے حضور رہتی تھی۔ ہر روز اُسے آزمائشوں اور مصائب کا سامنا ہوتا تھا- ہر روز اُسے بدی کا مقابلہ کرنا اورآزمائشوں اور مصائب کا سامنا ہوتا تھا- ہر روز اُسے بدی کا مقابلہ کرنا اور جن کو وہ برکت دینے اور بچانے آیا تھا اُن کے سامنے اپنی قدرت کی گواہی پیش کرنا ہوتی تھی۔ پھر بھی نہ تو وہ نا کام ہوا نہ مایوس- تمام باتوں میں اُس نے اپنی خواہشات کو اپنے مقصد کے تابع کیا۔ اُس نے خود کو خُدا کے تابع کرنے کی بدولت اپنی زندگی کو جلال دیا- جب اُس کی مقدسہ ماں نے اسے ربیوں کے اسکول میں بیٹھا دیکھا اور کہا کہ “بیٹا! تُو نے کیوں ہم سے ایسا کیا؟ ”تو اس نے فرمایا “تم مجھے کیوں ڈھونڈتے تھے؟ کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے؟” اور یہی اُس کا مقصد حیات تھا۔ لوقا 49-48:2 SKC 8.4
اُس کی پوری زندگی مسلسل جانثاری اور دوسروں کی بے لوث خدمت کرنے سے معمور تھی۔ اُس کا اس دنیا میں اپنا کوئی گھر بھی نہ تھا۔ جو مہربان اُسے دعوت دیتے وہیں ٹک جاتا- ہماری خاطر ایک مفلس کی زندگی بسر کرنے کے لئے ہمارے درمیان آکر رہا۔ اور وہ ساری عمر حاجت مندوں اور دُکھیوں کے درمیان چلتا پھرتا رہا- جن لوگوں کے درمیان کام اور جن کے لئے کام کیا نہ تو اُنہوں نے اُسے پہچانا اورنہ ہی کوئی عزت بخشی- پھر بھی اُس نے صبر اور خوشی خلقی کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ بدیں وجہ دُکھیوں نے اُسے اطمینان اور زندگی کا پیا مبر سمجھا- اس نے تمام مردوزن، جوانوں اور بچوں کی ضروریات کو جان کر یہ دعوت دی- “میرے پاس آؤ”- SKC 9.1
اپنی تمام خدمت کے دوران خُداوند یسوع مسیح نے منادی کرنے کی نسبت شفا دینے کے لئے زیادہ وقت وقف کیا۔ اُس کے معجزات اُس کے اس کلام پر دلالت کرتے تھے کہ میں ہلاک کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا ہوں۔ جہاں کہیں بھی وہ گیا اُس کے رحم کی خوشخبری کی دھوم مچ گئ۔ اور جس طرف سے وہ گزرا شفا دیتا گیا- جن کو شفا ملتی اُن کے گرد بھیڑ لگ جاتی تا کہ سنیں کہ خُدا نے ان کے لئے کیا کیا ہے؟ SKC 9.2
بہرے کانوں نے پہلی دفعہ اس کی (مسیح) آواز سنی۔ گونگی زبانوں نے سب سے پہلے اُس کا نام پکارا- اندھوں نے جب پہلی بار آنکھیں کھولیں تو مسیح یسوع کے مبارک چہرے کو دیکھا- پھر وہ اندھے، بہرے، گونگے خُداوند یسوع مسیح کو کیوں پیار نہ کرتے اور اس کی کیوں ثنانہ گاتے؟ خُداوند یسوع مسیح جن قصبوں اور شہروں میں سے گزرتا اُن میں زندگی اور زندگی کی خوشیاں نچھاور کرتا جاتا۔ SKC 9.3
“زبُولُون کا علاقہ اور نفتالی کا علاقہ دریا کی راہ یردن کے پار غیر قوموں کی گلیل۔ یعنی جو لوگ اندھیرے میں بیٹھے تھے اُنہوں نے بڑی روشنی دیکھی اور جوموت کے ملک اور سایہ میں بیٹھے تھے اُن پر روشنی چمکی”۔ متی 16,15:4 SKC 9.4
خداوند یسوع مسیح نے شفا دینے کے کام کے ذریعے بیماروں کے ذہن و دماغ اور روح میں الٰہی اصولوں کا بیج بویا اور یہی اُس کے کام کا مقصد تھا۔ اُس نے جسمانی اور دُنیاوی برکتوں کے زریعے سے اپنے جلال اور خوشخبری کو لوگوں کے دلوں تک پہنچایا۔ مسیح خُداوند یہودی قوم کے اساتذہ میں اعلٰی مقام حاصل کر سکتا تھا مگر اُس نے اعلٰی مقام حاصل کرنے کی نسبت غریبوں تک خوشخبری کو پہنچانے کے کام کو ترجیح دی۔ وہ جگہ جگہ گیا تاکہ وہ جو راہ کے کنارے پڑے ہوۓ ہیں خُدا کے کلام کی خوشخبری کو سنیں۔ اُس کی آواز ساحل سمندر، پہاڑوں کے دامن، شہروں کی گلیوں اور عبادت خانوں میں سنی گئ- اکثر اُس نے ہیکل کے دالان میں کلام کیا تا کہ غیرقومیں بھی اُس کے کلام سے مستنفید ہو سکیں۔ SKC 10.1
چونکہ خُداوند یسوع مسیح کی تعلیم فقہیوں فریسیوں کی تعلیم کے متضاد ھوتی تھی اس لئے لوگ اُس کی طرف متوجہ ہوتے- فریسیوں کی تعلیم روایات، مفروضات اور انسانی قیاس پر مبنی ہوتی تھی۔ جسے خُدا کے کلام کی حیثیت حاصل ہوتی تھی مگر مسیح یسوع کی تعلیم صرف خُدا کے کلام پر مبنی ہوتی تھی خداوند مسیح اکثر بحث کرنے والوں سے کہا کرتے تھے۔ SKC 10.2
“یہ لکھا ہے تو توریت یا خُدا کےکلام میں کیسے پڑھتا ہے؟” اور ان سوالات کی وجہ سے کسی عزیز دوست یا دشمن میں سیکھنے کی روح بیدار ہوتی تو خُداوند مسیح موقع سے فائدہ اُٹھا کر اُس کی توجہ خُدا کے کلام کی طرف مبذول کر دیتے۔ اُس نے بڑی وضاحت اور اختیار کے ساتھ خوشخبری کے کلام کو سنایا۔ اُس کے کلام نے قدیم آبائی بزرگوں کی تعلیم پر بڑی روشنی ڈالی۔ اُس کے سامعین نے اس طرح کا معنی خیز کلام پہلے کبھی نہ سنا تھا کیونکہ اس سے پہلے مسیح یسوع کی طرح کا کوئی مبشر آیا ہی نہ تھا۔ وہ مجسم ہو کرآیا اور ہماری صورت اختیار کی تاکہ جہاں ہم گنہگار انسان ہیں، وہ وہاں آکر ہم سے ملاقات کرے۔ SKC 10.3
تمام بنی نوع انسان کو خواہ وہ امیر ہے یا غریب ، آزاد ہے یا غلام خُداوند یسوع مسیح اُن سب کے لیے نجات کی خوشخبری لایا۔ عظیم طبیب کے طور پر اُس کی شہرت فلسطین میں دورونزدیک ہر جگہ پھیل گئی۔ جس راستے سے اُسے گزرنا ہوتا بیمار پہلے سے وہاں آموجود ہوتے تا کہ اُس سے شفا کی درخواست کر سکیں۔ بعض اُس کا کلام سننے آتے جب کہ بعض صرف یہ چاہتے کہ وہ اپنا ہاتھ اُن پر رکھ دے تو وہ شفا پا جائیں۔ یوں وہ جلال کا بادشاہ انسانی روپ میں شہر شہر، گاؤں گاؤں خوشخبری کی منادی سناتا اور بیماریوں کو شفا دیتا پھرا۔ اُس نے بڑی سالانہ قوی عید میں بھی شرکت کی۔ یوں اُس نے دُنیاوی رسم و رواج کو سامنے رکھ کر بھیڑ سے آسمانی بادشاہت اور اُس میں پائی جانے والی چیزوں کی منادی کی۔ سب کے لیے اُس نے حکمت کے خزانے کھولے۔ اُس نے بھیڑ کے ساتھ ایسی سادہ زبان میں کلام کیا کہ اُنہیں اُس کے کلام کے سمجھنے میں زرا بھی دقت پیش نہ آئی۔ جو دکھی اور غمزدہ تھے اُنہوں نے اُس کے کلام سے بڑا حوصلہ پایا- اور جو گناہ کے باعث ازیت پارہے تھے اُن کی روحوں کو شفا اور قوت بخشی۔ SKC 10.4
خُداوند مسیح نے لوگوں کے ساتھ میل ملاپ اور دوستی کی۔ یوں اُن تک رسائی کرنے میں اُسے آسانی ہو گئی۔ خُداوند یسوع نے اُن کو اس طریقے سے سچائی کا کلام سکھایا جیسے وہ کبھی بھلا نہ سکے۔ جب وہ اُنہیں کلام سناتا تو اُس کے سامعین خوب سمجھتے کہ اُسے ہماری خوشی اور دلچسپی مقصود ہے۔ اُس کی ہدایت براہِ راست ہوتی تھیں۔ اُس کی مثا لیں اتنی مناسب اور اُس کی ہمدردی اور خوش خلقی اتنی دل پزیر کہ اُس کے سامعین اُس کے گرویدہ ہوۓ بغیر نہ رہ سکتے۔ اُس کی سادگی اور خلوص جس سے وہ حاجتمندوں کے لیے کلام کرتا اُس کی بہت قدر ہوتی۔ SKC 11.1
اُس نے مصروف زندگی بسر کی۔ آئے روز اُسے شائد ایسے گھروں میں داخل ہونا پڑتا جہاں غربت اور دُکھوں نے چھاؤنی ڈال رکھی ہو۔ وہاں وہ مایوس حضرات کو اُمید دلاتا اور پریشان حال لوگوں کو تسلی کا پیغام دیتا۔ غمزدوں کو دلاسا اور کچلے ہوؤں کو بحال کرتا تھا۔ جہاں کہیں بھی وہ گیا برکت کا باعث بنا۔ جب وہ غریبوں کی خدمت کرتا تھا اُس نے امیروں تک پہنچنے کی بھی رسائی کی۔ اس نے دولتمندوں، مہذب فریسیوں، یہودی شریف زادوں اور رومی حاکموں کو دوست بنایا۔ اُن کی دعوتوں کو قبول کیا۔ ان کی عیدوں میں شرکت کی- اُن کی دلچسپیوں اور پیشوں سے واقفیت حاصل کی۔ تا کہ اُن کے دلوں تک پہنچ کرنا تمام ہونے والی خوشی اور دولت سے اُنہیں آگاہی دے۔ SKC 11.2
خُداوند یسوع مسیح اس دُنیا میں یہ ظاہر کرنے کے لیے آیا کہ خُداوند خُدا سے قوت حاصل کر کے انسان بے داغ زندگی بسر کر سکتا ہے۔ اُس نے بڑے صبر اور ہمدردی کی رُو سے ہر بشر کی ضروریات کو رفع کیا۔ لوگوں کے دلوں سے شک و شبہات اور بے اطمینانی کو دور کیا۔ اُن کے دلوں میں دشمنی کی جگہ محبت رکھی اور بے یقینی کی جگہ پورا پورا اعتماد۔ جن کو اُس نے رضامند پایا اُن کو فرمایا کہ “ میرے پیچھے ہولو” اور اُنہوں نے اُس کی پیروی کی۔ اُس نے اس جادو کو توڑا جو دنیا نے اُن پر کر رکھا تھا۔ اُس کی آواز سنتے ہی دلوں سے لالچ اور خود غرضی دور ہو جاتی اور لوگ فورا اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کے پیچھے ہو لیتے۔ SKC 11.3