کرنیلیس، رومی سردار جو مالدار اور شریف زادہ تھا۔ وہ اعلیٰ مرتبہ پر فائز اور بااعتبار شخص تھا۔ بے شک وہ غیر قوم سے تعلق رکھتا تھا مگر تعلیم و تربیت اور یہودیوں کی صحبت سے اسے حقیقی خُدا کا علم ہو گیا۔ اس نے خُدا کی عبادت کرنا شروع کر دی۔ اور اپنے ایمان کے خلوص کو ظاہر کرنے کے لیے غریبوں سے ہمدردی کرتا اور ان کو سخاوت دیتا۔ “خیرات دیتا اور ہر وقت خُدا سے دُعا کرتا تھا” اعمال 2:10۔ SKC 143.1
کرنیلیس کو انجیل کی اُس خوشخبری کا علم نہ تھا جو یسوع مسیح کی زندگی اور موت سے ظاہر ہوئی تھی۔ خُدا نے براہ راست آسمان سے اسے پیغام بھیجا اور ایک اور پیغام کے ذریعے پطرس رسول کو کہا کہ جا اس سے ملاقات کر کے اسے ہدایت کر۔ کرنیلیس یہودی کلیسیا میں شامل نہیں ہوا تھا۔ یہودی استاد اسے غیر قوم اور ناپاک خیال کرتے تھے۔ مگر خُدا نے اس کے دل کے خلوص کو پڑھ لیا۔ اور اپنے تخت کے پاس سے پیامبر بھیجا کہ اس خادم سے ملے جو زمین پر رہتا ہے تا کہ اس رومی افسر کو انجیل کی خوشخبری کی تعلیم دے۔ SKC 143.2
لہٰذا خُداوند آج بھی تنگ دستوں اور دولتمندوں دونوں کی تلاش میں ہے۔ کرنیلیس کی طرح کے آج بھی بہت سے مرد ہیں جن کے بارے میں اس کو دلی تمنا ہے کہ کلیسیا میں شامل ہو جائیں۔ کیونکہ ان کی ہمدردیاں خُدا کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔ مگر وہ ناطہ جس کے ذریعے وہ دُنیا کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں بڑا مضبوط ہے۔ ناداروں اور غریبوں کے ساتھ ملنے کے لیے انہیں اخلاقی ہمت درکار ہو گی۔ ان روحوں کے لیے خاص کوشش کرنے کی ضرورت ہے جو اپنی ذمہ داریوں اور محبت کی وجہ سے بہت بڑے خطرے میں ہیں۔ SKC 143.3
غریب لوگ جن کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ان کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ تو کیوں نہ کچھ توجہ ان دولتمندوں کی طرف دی جائے جو بے توجہی کا شکار رہے ہیں؟ بعض حضرات امیر طبقہ کو مایوس اور نا اہل قرار دیتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ان سے کوئی امید نہیں۔ لہٰذا وہ ان کی آنکھوں کو کھولنے کے لئے بہت کم توجہ دیتے ہیں- دں یا کا وہ جاووحشمت جس نے ان کی آنکھیں خیرہ کر دیں اس کے بارے ان کو بہت کم بتایا جاتا ہے۔ ہزاروں صاحب ثروت بغیر آگاہی پائے اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور گنہگاروں کی قبروں میں جا پڑے۔ “زردوست روپیہ سے آسودہ نہ ہو گا اور دولت کا چاہنے والا اس کے بڑھنے سے سیر نہ ہو گا” واعظ 10:5۔ SKC 143.4
“اگر میں نے سونے پر بھروسہ کیا ہوا اور چوکھے سونے سے کہا میرا اعتماد تجھ پر ہے۔ تو یہ بھی ایسی بدی ہے جس کی سزا قاضی دیتے ہیں۔ کیونکہ یوں میں نے خُدا کا جو عالم بالا پر ہے انکار کیا ہوتا” ایوب 28,24:31۔ “ان میں سے کوئی کسی طرح اپنے بھائی کا فدیہ نہیں دے سکتا۔ نہ خُدا کو اس کا معاوضہ دے سکتا ہے۔ کیونکہ ان کی جان کا فدیہ گراں بہا ہے۔ وہ ابد تک ادا نہ ہو گا” زبور 8-7:49۔ SKC 144.1
دولت اور دنیاری عزت و تکریم جان کو تسلی پزیر نہیں کر سکتی۔ امیر طبقے میں ہزاروں ایسے ہیں جو ذاتِ الٰہی کی یقین دہانی کے خواہاں ہیں۔ وہ روحانی اُمید چاہتے ہیں۔ بہتیرے خواہش کرتے ہیں کہ ان کی بے مقصد زندگی سے یکسانیت کا خاتمہ ہو جائے۔ کتنے ہی ایسے حکمران ہیں جن کے دل میں کوئی انجانی خواہش ہے۔ ان میں سے بہت کم لوگ گرجہ گھر جاتے ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ ایسا کرنے سے انہیں کچھ فائدہ نہیں کیونکہ جو تعلیم وہ سنتے ہیں ان کے دلوں پر اثر نہیں کرتی۔ کیا ہم ان سے شخصی التماس نہ کریں؟ SKC 144.2
گنہگاروں اور محتاجوں کے درمیان ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کسی وقت بڑے مالدار ہوتے تھے۔ زنگی کی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ شراب نوشی اور دُنیا کی فحاشی کے شکار ہو گئے۔ دل کی بُری رغبتوں کو اپنا کر آزمائشوں میں گر گئے۔ یہ جو گر چکے ہیں مدد اور رحم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تو کیا ان کی طرف توجہ نہ دی جائے جو ابھی تک ذلت کے گہرے گڑھے میں نہیں اترے؟ SKC 144.3
بہت سے باعزت با اعتبار اور باوقار لوگ ایسی بری عادات کے رسیا ہو گئے ہیں۔ جو ان کے بدن اور روح کی بربادی کا باعث ہے۔ انجیل کی خوشخبری پھیلانے والے خادم، ریاستوں کے مالک، مصنف، دولتمند اور باصلاحیت لوگ، بڑی بڑی کاروباری ہستیاں ہولناک خطرے کا شکار ہیں۔ کیونکہ وہ ہر بات میں اپنے اوپر ضبط کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ان کی توجہ پرہیز گاری کی ضرورت کی طرف دلانا ضروری ہے اور انہیں بتانا چاہیے کہ اس سے خُدا کا مقصد بنی نوع انسان کی زندگیوں کے لیے کیا تھا؟ حقیقی پرہیز گاری کے اصول ان کے سامنے رکھنے چاہئیں۔ آپ کو اعلیٰ طبقہ میں بہت سے ایسے سمجھدار لوگ ملیں گے جو دل سے اقرار کر کے ان اصولوں کو اپنا لیں گے۔ SKC 144.4
ہمیں ان لوگوں کو بُری عادات کے نتائج سے آگاہ کرنا چاہیے اور بتکرار بتانا چاہیے کہ ان سے ہماری جسمانی، ذہنی اور اخلاقی قواء کمزور ہو جاتی ہیں۔ خُداوند نے بطور مختار کے جو ان کو توڑے دئیے ہیں اُن کی ذمہ داری اُن کو محسوس کرائیں۔ اُنہیں بتائیں کہ وہ پیسہ جو آپ اپنے نقصان کے لیے استعمال کر رہے ہیں اسے سے کتنے ہی بھلائی کے کام لیے جا سکتے ہیں۔ ان سے پکا اور مکمل عہد لیں کہ وہ پیسہ جو وہ تمباکو نوشی، شراب نوشی یا اور بری عادات کی تسکین کے لیے خرچ کرتے ہیں اسے غریب بیمار یا بچوں کی تربیت یا کسی اور بھلائی کے کام کے لیے وقف کر دیں۔ اس طرح کی اپیل کو بہت کم ہوں گے جو سننے سے انکار کریں گے۔ SKC 144.5
دولتمند ایک اور خطرے میں پڑے ہوئے ہیں اور یہاں بھی طبی مشنری اپنی خدمت پیش کر سکتے ہیں۔ دُنیا میں جو بہت ہی اقبالمند اور صاحبِ حیثیت ہیں۔ جن کے گھروں میں روپے پیسے کی ریل پیل ہے وہ عام برائیوں پر نظریں نہیں جماتے پھر بھی وہ دولت کی محبت میں برباد ہو جاتے ہیں۔ دولت کا یہ پیالہ لے کر چلنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ خالی نہیں بلکہ لبالب بھرا ہوا ہے اس کے ساتھ بمشکل توازن قائم رہتا ہے۔ دُکھ تکلیف مایوسی گھیر لیتی ہے یہ اقبال مندی ہی ہے جو روحانی زنگی کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔ SKC 145.1
جو لوگ دکھ مصائب میں مبتلا ہیں وہ اس جھاڑی کی علامت ہیں جو موسٰی نے بیابان میں دیکھی۔ اس کو آگ تو لگی ہوئی تھی مگر وہ بھسم نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ خُداوند کا فرشتہ اس جھاڑی کے اندر تھا۔ لہٰذا دکھ تکلیف و بد چلنی میں بھی اس کی تابناک حضوری ہمارے ساتھ ہوتی ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ وہی ہمیں تسلی دیتا ہے اور وہی ہمیں قائم و دائم رکھتا ہے۔ ہماری دُعاؤں کی زیادہ ضرورت ان کو ہے جو اقبالمند اور صاحبِ دولت ہے۔ SKC 145.2
ذلت اور شرم کی وادی میں جہاں لوگ خُدا پر بھروسہ رکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور جہاں وہ چاہتے ہیں کہ خُدا ان کے قدموں کی رہنمائی کرے وہاں وہ خطرے سے باہر ہیں۔ مگر وہ انسان جو ایسے کھڑے ہوتے ہیں جیسے اونچے لنگڑے اور جو اپنے مرتبے کی وجہ سے بڑے عقلمند خیال کیے جاتے ہیں وہی ہولناک خطرے کی زد میں ہیں۔ یقیناً وہ گر جائیں گے۔ SKC 145.3
کتاب مقدس امیر ہونے پر کسی کو لعن طعن نہیں کرتی بشرطیکہ اسے ایمانداری سے کمایا اور جمع کیا ہو۔ دولت نہیں، بلکہ پیسے سے محبت ہر طرح کی بدی کی جڑ ہے۔ یہ تو خُداوند ہے جو انسان کو طاقت دیتا ہے کہ وہ دولت کمائے اور اس کے ہاتھ میں جو خُدا کے اچھے مختار کی طرح عمل اور نیک استعمال کر کے دولت کماتا ہے وہ اس کے لیے اور دُنیا دونوں کے لیے برکت کا سبب ہے۔ مگر بہتیرے ایسے ہیں جو دولت کو اپنی ہی ذات پر خود غرضی سے صرف کرتے ہیں، وہ اس قدر بددماغ ہو جاتے ہیں کہ وہ نہ خُدا کی فکر کرتے ہیں اور نہ ضرورت مند بشر کی۔ وہ اپنی عزت و ناموس اور شہرت پر دولت صرف کر دیتے ہیں۔ وہ گھروں پر گھر بناتے جاتے ہیں۔ جگہ جگہ زمین خریدتے ہیں۔ عیش و عشرت کے سامان سے گھر بھر لیتے ہیں جب کہ اٗن کے آگے پیچھے لوگ ابتری اور جرائم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے سامنے لوگ بیمار پڑتے اور مرتے ہیں۔ وہ جو اپنی ساری دولت اپنے اوپر صرف کرتے ہیں وہ اپنے اند خُدا کی سیرت نہیں بلکہ ابلیس کی سیرت کی نشوونما کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو انجیل کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں ضرورت ہے کہ اپنی آنکھیں اس دنیا کی باطل چیزوں سے ہٹا کر آسمانی ابدی اور بیش قیمت چیزوں پر جمائیں۔ دوسروں کو دے کر جو خوشی حاصل ہوتی ہے اس سے انہیں آگاہ کریں۔ خُداوند ہمیں فرماتا ہے کہ اس جہان کے دولتمندوں کو بتائیں۔ “اس موجودہ جہان کے دولتمندوں کو حکم دے کہ مغرور نہ ہوں اور نا پائیدار دولت پر نہیں بلکہ خُدا پر امید رکھیں جو ہمیں لطف اٹھانے کے لیے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے۔ اور نیکی کریں اور اچھے کاموں میں دولت مند بنیں اور سخاوت پر تیار اور امداد پر مستعد ہوں اور آئندہ کے لیے اپنے واسطے ایک اچھی بنیاد قائم کر رکھیں تا کہ حقیقی زندگی پر قبضہ کریں” 1 تیمتھیس 19-17:6۔ SKC 145.4
ایسے دولتمند کا جو دنیا سے محبت رکھتا، اس کی پوجا کرتا اور عیش و عشرت کا دلدادہ ہو، اس کا یسوع مسیح کے پاس آجانا کوئی حادثاتی واقعہ نہیں۔ اکثر ایسے لوگوں تک بمشکل رسائی ہوتی ہے۔ جن مردوخواتین میں مشنری روح ہو اُنہیں ذاتی اور شخصی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ یہاں ایسے مشنریوں کی ضرورت ہے جو نہ ناکام ہوں اور نہ ہی بیدل۔ SKC 146.1
بعض مشنری ایسے اعلیٰ طبقوں کی خدمت کرنے کے لیے بہت موزوں ہوتے ہیں۔ انہیں خُدا سے حکمت مانگنی چاہیے تا کہ ایسے لوگوں تک رسائی ہو سکے۔ ایسے دولتمندوں سے عام سی واقفیت کافی نہ ہو گی بلکہ شخصی کوشش کے ساتھ زندہ ایمان کا ہونا لازم ہے تاکہ ان کو اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس ہو۔ پھر خادم کا زندہ ایمان ان کی مسیح یسوع کی صداقت تک رہنمائی کرے گا۔ SKC 146.2
بعض سوچتے ہیں کہ امید طبقے تک پہنچنے کے لیے اپنا بھی طرزِ زندگی ان کی طرح کا ہو۔ یعنی امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ اور دنیا کے رسم و رواج اپنائے جائیں۔ ان کی طرح کا ماحول پیدا کیا جائے اور مصنوعی فیشن اور ان کا سا کلچر اپنایا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ بہت ہی ضروری ہے۔ بھائیو یہ غلط ہے۔ دُنیاوی پالیسی اپنا کر امیروں تک رسائی خُداوند کا طریقہ نہیں ہے۔ ان تک پہنچنے کا موثر راستہ یسوع کی انجیل کی خوشخبری کو مسلسل پیش کرتے جانا ہے۔ پولس رسول کا اتھینے کے فلاسفروں سے ملنے کا تجربہ ہمارے لیے ایک سبق ہے۔ اگر پا بادشاہ کے دربار میں انجیل پیش کرنے میں پولس رسول نے دلیل کا جواب دلیل سے دیا۔ سائنس کا جواب سائنس سے اور فلاسفی کا فلاسفی سے۔ اس کے کلام کو سن کر بڑے سے بڑے حکمت والے حیران اور خاموش ہو گئے۔ وہ اس کے کلام کا مقابلہ نہ کر سکے۔ مگر اس کی یہ کوشش بہت ہی کم پھل لائی۔ بہت تھوڑے لوگوں نے بحث مباحثوں سے گریز کرنا شروع کر دیا۔ اور بڑی سادگی سے مردوزن کو مسیح کے قدموں میں لائے جو گنہگاروں کا شافی ہے۔ کرنتھیوں کو اپنے اس کام کے بارے میں لکھتے ہوئے جو اس نے ان میں رہ کر کیا تھا فرمایا SKC 146.3
“اے بھائیو! جب میں تمہارے پاس آیا اورتم میں خُدا کی بھید کی منادی کرنے لگا تو اعلیٰ درجے کی تقریر یا حکمت کے ساتھ نہیں آیا۔ کیونکہ میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ تمہارے درمیان یسوع مسیح بلکہ مصلوب کے سوا اور کچھ نہ جانو۔ میری تقریر اور میری مندی میں حکمت کو لبھانے والی باتیں نہ تھیں بلکہ وہ روح اور قدرت سے ثابت ہوتی تھی۔ تا کہ تمہارا ایمان انسان کی حکمت پر نہیں بلکہ خُدا کی قدرت پر موقوف ہو” 1 کرنتھیوں 5-1:2۔ SKC 147.1
پھر وہ رومیوں کی کلیسیا کو لکھتے ہوئے فرماتا ہے “کیونکہ میں انجیل سے شرماتا نہیں۔ اس لیے کہ وہ ہر ایک ایمان لانے والے کے واسطے پہلے یہودی پھیر یونانی کے واسطے نجات کے لیے خُدا کی قدرت ہے۔” رومیوں 16:1۔ SKC 147.2
وہ سب جو اعلیٰ طبقوں کے لیے کام کرتے ہیں، ایمانداری سے خود کو یہ جان کر آراستہ کریں کہ خُداوند کے فرشتے ان کے ہمراہ ہیں۔ ان کے دل و دماغ میں ہر وقت خُدا کا کلام ہونا چاہیے۔ تا کہ ابلیس کے ہر سوال کے جواب میں کہہ سکیں کہ لکھا ہے “یسوع مسیح کے نزدیک اپنے کلام کی قدرومنزلت سونے چاندی سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ SKC 147.3
خُداوند یسوع مسیح نے فرمایا کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزر جانا، دولتمند کا خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے سے آسان ہے۔ امیر طبقہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے بہت سی مایوسیوں کا سامنا کرنا ہو گا اور ایسے ایسے بھید آشکارہ ہوں گے جن سے دل ٹوٹ جائے۔ مگر خُداوند میں سب کچھ ہی ممکن ہے۔ وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور انسانوں کے ذریعے سے اس اعلیٰ طبقے کو ذہنوں پر جنہوں نے اپنی زندگیاں دولت کے لیے وقف کر لی ہیں کام کرے گا۔ SKC 147.4
حقیقی تبدیلی کے ذریعے معجزات ہوتے ہیں وہ معجزات جن کی آج کل شناخت ہوتی ہے۔ دُنیا کے عظیم لوگ خُداوند کے حیرت انگیز کاموں کی زد سے باہر نہیں ہیں۔ اگر وہ سب جو خُدا کے ساتھ ملکر کام کرتے ہیں اپنی اپنی ذمہ داری وفاداری اور دلیری سے نبھائیں تو خُداوند ضرور ان لوگوں کو تبدیل کر دے گا جو اعلیٰ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، جو ذہین و فطین اور با اثر ہیں۔ بیشک روح القدس کی قدرت سے بہتیرے الٰہی اصولوں کو قبول کر لیں گے۔ SKC 148.1
جب دولت مندوں پر واضح کر دیا جائے گا کہ خُداوند ان سے توقع کرتا ہے کہ وہ دُکھی انسانیت کو سکھ اور چین پہنچانے کا اس کا ایک وسیلہ بنیں تو کئی غریبوں کی مدد اور ہمدردی جتانے کے لیے اپنے وسائل استعمال میں لائیں گے۔ جب ان کی توجہ خود غرضی کی طرف سے دور ہٹادی جائے گی تو ان میں سے بہتیرے اپنے آپ کو یسوع مسیح کے تابع کر دیں گے۔ اور اپنے توڑے اور وسائل لیکر اس مشنری کے ساتھ ملکر خُدا کا کام کرنا شروع کردیں گے جنہوں نے ان کو تبدیل ہونے میں مدد دی۔ اپنے زمینی خزانے کو مناسب طریقے سے استعمال کرنے کی وجہ سے ان کا خزانہ آسمان پر جمع ہو جائے گا جس کو زوال نہیں اور جہاں نہ چور چراتے اور نہ نقب لگا سکتے ہیں اور نہ ہی اُسے کیڑا لگتا ہے۔ SKC 148.2
جب وہ مسیح میں تبدیل ہوجائیں گے وہ ان میں سے کافی لوگ اپنے ہی طبقے کے لوگوں کے لیے کام کرنا شروع کردیں گے۔ اور وہ یہ بھی محسوس کریں گے کہ خوشخبری کے کلام کی منادی کا فریضہ ان کے ذمہ ہے تاکہ اسے دنیا بھر میں پھیلائیں۔ وقت اور پیسہ خُدا کے لیے مخصوص کر دیا جائے گا ۔ توڑے اور اثرورسوخ میسح کے لیے روحیں جیتنے کے لیے قربان کردیا جائے گا۔ اس طرح کی خدمت کے نتائج سے ہم آخری روز ہی آگاہ ہو سکیں گے کہ ہمیں کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ اور یہ کہ کتنی روحوں کو جو شبہات، دنیاداری اور بے اطمینانی کے سبب رنجور تھیں عظیم خُداوند کے پاس لایا گیا جو بحالی اور تسلی دینے میں لا جواب ہے۔ اور جن کی یہ دلی تمنا ہے کہ جتنے بھی اس کے پاس آئیں وہ ان کو نجات عطا فرمائے، نجات دہندہ یسوع جی اُٹھا ہے۔ اور اسی کے پاس شفا کی قدرت ہے۔ SKC 148.3