Go to full page →

چوتھا باب - والڈنِسس AK 57

پوپ کی طویل حکومت کے دوران جب دنیا پر اندھیرا چھایا رہا تو بھی سچائی کی بتی پوری طرح سے نہ بجھی ۔ خُدا کے گواہ ہر زمانہ میں موجود ہوتے ہیں۔ جن کا ایمان مسیح یسوع میں قائم رہتا ہے جو خُدا اور انسان کا واحد درمیانی ہے۔ وہ با ئبل کو بطور ضا بطہ حیات سرفراز کرتے ہیں۔ اور جو حقیقی سبت کو مقدس جانتے ہیں۔ دنیا ان اشخاص کسی قدر مقروض ہے۔ آنے والی نسلیں اسے کبھی بھی سمجھ نہ پائیں گی۔ انہیں بد عتی کہا گیا، انکے مقاصد پر اعتراض کیا گیا ان کی کردار کشتی کی گئی ان کی تحریرات کو ضبط کر لیا گیا، ان کی غلط نما ئندگی کی گئی یا انہیں قتل کر دیا گیا ہاتھ پیر توڑ دیئے گئے اس کے باوجود ثابت قدم رہے۔ اور زمانہ بہ زمانہ پا کیز گی میں اپنے ایمان کو ایسے قائم رکھا جیسے مستقبل کی پشت کے لئے مقدس ورثہ ہو۔ AK 57.1

تاریک زمانوں کے دوران خُدا وند کے لوگوں کی تاریخ جورومی برتری کے بعد کے معرض وجود میں آئی وہ آسمان میں تو لکھی گئی ہے گو انسانی ریکاڈ میں ان کے لئے بہت ہی کم جگہ ہے۔ ان کی زندگی کے چید ہ چید ہ نقوش ملتے ہیں اور وہ بھی ایذا پہنچا نے والوں کے الزامات کی صورت میں۔ روم کی یہ پالیسی تھی کہ جو اس کے فرمان یا تعلیم سے اختلاف کرے اس کا سر قلم کر دیا جائے۔ ہر چیز خواہ وہ انسان ہو یا کوئی دستاویز جسے روم بدعتی خیال کرتا اسے ختم کر دیتا۔ مشکوک تاثرات یا پوپ کے اختیار یا مذہبی عقیدے کے بارے سوال کرنے والا میرا ہو یا غریب و بڑے مرتبہ کا ہو چھو ٹے کا اس کا صفحہ ہستی سے مٹا دینے کےلئے اپنے لئے باعث ندامت تھے ۔ پوپ کی کونسلز نے یہ حکم جاری کیا کہ وہ کتب اور تحریرات جو ایسا مواد رکھتی ہوں انہیں نظرِ آتش کر دیا جائے۔ پر نٹنگ کی ایجاد سے پہلے کتابوں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ اور ان کی ایسی حالت بھی نہیں تھی کہ انہیں محفوظ رکھا جا سکے۔ اس لئے روم کے مقاصد کی راہ میں حائل بہت ہی کم مسائل تھے۔ AK 57.2

رومی حکومت کی حدود میں جو کلیسیا تھی اسے ضمیر کی آزادی کا لطف اٹھانے نہ دیا گیا۔ بہت جلد پاپائی حکومت نے ان تمام پر ہاتھ بڑھایا اور ان سب کو تہہ وبالا کر دیا جنہوں نے پوپ کے اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ چنانچہ رفتہ رفتہ ایک کے بعد دوسری کلیسیا نے خود کو اپنے آپ پوپ کے تابع کر دیا۔ AK 58.1

گریٹ بریٹن(Britain) میں میسیحت نے بہت پہلے جڑ پکڑ لی تھی۔ پہلی صدیوں میں برطا نیہ کے باشندوں نے انجیل کو قبول کر لیا تھا اور وہ بھی اس وقت جب برطانیہ رومی بر گشتگی سے پاک تھا۔ بت پرست حکمرانوں کی ایذا رسانی جو کئی سمندر پار اتنی دور آپہنچی تو یہ روم کی طرف سے پہلا تحفہ تھا جو برطانیہ کے چرچ کو ملا۔ بہت سے مسیحیوں نے ایذا رسانی سے بے زار ہو کر انگلینڈ سے سکاٹ لینڈ میں جا پناہ لی۔ پھر صداقت کا پیغام آئر لینڈ بھی جا پہنچا اوران تمام ممالک نے اسے خوشی سے قبول کیا۔ AK 58.2

جب سیکسن (Saxon) (شمالی جرمنی) نے برطانیہ پر حملہ کیا تو وہاں بت پرستوں کا کنڑول ہو گیا۔ فاتحین نے غلاموں کی ہدایات کو حقیر جانا۔ چنانچہ وہاں سے مسیحی پہاڑوں اور جنگلی دلدلوں کی طرف پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے ۔ گو تھوڑی دیر تک نور چھپا رہا پھر مسلسل چمکنے لگا۔ سکاٹ لینڈ میں ایک صدی کے بعد یہ نور اس قدر چمکا کہ دورداز کے علاقوں تک جا پہنچا۔ آئر لینڈ سے مقدس کو لمبا اور اس کے معاو نین آئے جنہوں نے پرا گندہ ایمانداروں کو آیو نا کے تنہا جز یرہ پر اکٹھا کیا اور اسے مشنری سنٹر بنا یا۔ ان مبشر ین میں ایک مبشر سبت ماننے والا بھی تھا ۔ یوں یہ سچائی لوگوں کو متعارف کروائی گئی۔ آیو نا میں ایک سکول قائم کیا گیا جہاں سے مشنری باہر بھیجے گئے ۔ نہ صرف سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ میں بلکہ جرمنی، سو ئیز لینڈ اور اٹلی میں بھی بھیجے گئے۔ AK 58.3

مگر روم نے اپنی نظریں بر طانیہ پر جما رکھیں تھیں جسے وہ اپنے زیر سایہ لانے کا تہہ کر چکا تھا۔ چھٹی صدی میں اس کے مشزیوں نے بت پرست سیکسن کو تبدیل کر لیا۔ غیور، خود پسند و حشیوں نے انہیں بڑی خوشی سے قبول کر کے ہزاروں کو رومی ایمان میں شامل کر لیا۔ جیسے ہی ان کا کام بڑھا پوپ کی قیادت اور تبدیل شدہ لوگوں نے ملکر ان قدیم مسیحیوں کیساتھ دنگا فساد شروع کر دیا- ان دونوں فرقوں میں زمین آسمان کا فساد دیکھنے کو ملا- بعد از ذکر مسیحیوں میں سادگی فروتنی اور کلام مقدس کے مطابق رویہ اور برتاوتھا۔ ان کا عقیدہ اور طرزِ عمل قابلِ تحسین تھا جب کہ دوسرے فرقے میں اوہام پرستی ظاہری شان و شوکت اورپوپ پرستی کی سی بد دماغی اور گستاخی دیکھنے کو ملی ۔ روم کے ایلچی کا مطالبہ تھا کہ مسیحی کلیسیائیں پوپ اعظم کی برتری کو تسلیم کر لیں۔ برطانیہ کے باشندوں نے بڑی فروتنی سے جواب میں کہا ہم سب آدمیوں کو پیار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر پوپ کو کلیسیا میں کسی پر بھی برتری حاصل نہیں۔ اور ہم صرف اس کی اتنی ہی عزت افزائی کریں گے جتنی ایک مسیح کے پیروکار کا حق ہے۔ متعد بار یہ کوشش کی گئی کہ وہ اپنی وفاداری روم کے تابع کر دیں۔ مگر یہ حلیم مسیحی اس کے ایلچیوں کے تکبر کی نما ئش سے حیران ہوئے اور بڑی ثابت قدمی سے جواب دیا کہ ہم مسیح یسوع کے علاوہ کسی دوسرے آقا کو نہیں جانتے نہیں مانتے ۔ پھر اصلی پوپائی روح سامنے آ گئی لیڈر نے کہا۔“اگر آپ ان بھائیوں کو قبول نہیں سن جو صلح پسند ہیں تو آپ کے پاس وہ دشمن آئیں گے جو جنگجوہیں۔ اگر آپ ہمارے ساتھ سیکسن طرزِزندگی اپنانے کے لئے متحدنہیں ہوں گے تو پھر آپ ان کی طرف سے موت کا جھٹکا پائیں گے“۔ AK 58.4

J.H.MERLED AUBIGNE, history of the fefomation of the sixteenth century.b.17, ch.2 AK 59.1

یہ صرف گیڈر بھکیاں نہ تھیں۔ جنگ کا اہتمام کیا گیا اور ان گواہوں پر جو بائبل پر ایمان رکھتے تھے ان کے خلاف اس وقت تک جنگ اور جھوٹے الزامات جاری رہے جب تک کہ برطانیہ کی کلیسیا ئیں تباہ نہ ہو گئیں یا انہوں نے پوپ کے اختیار کو قبال نہ کر لیا۔ AK 59.2

رومی تسلط کے ایک مسیحی جماعتیں آبادتھی جو تقریباً کئی صدیوں تک پوپائی کرپشن سے بچی رہیں تھیں۔ وہ ان بت پرستوں میں گھر ے ہوئے تھے جا صدیوں سے پوپائی غلط تعلیم سے متاثر ہو چکے تھے ۔ مگر وہ بد ستور بائبل مقدس کو ضابطہ ایمان مانتے رہے اس کی سچائیوں سے چمٹے رہے۔ یہ مسیحی لوگ خُدا کی دائمی شریعت پر ایمان رکھتے تھے ۔ اور چو تھے حکم کے سبت کو بھی مانتے تھے۔ اس طرز کا ایمان و عمل رکھنے والی کلیسیاوں کا وجود مر کزی افریقہ اور آر مینیا میں بھی تھا ۔ AK 59.3

مگر وہ سب جنہوں نے پوپ کی دست اندازی کی مزاحمت کی ان میں والڈ نسس کا نام سرفہرست ہے۔ جس جگہ پوپ پرستی نے اپنی نشست قائم کی وہیں انہوں نے اس کی نا راستی اور کرپشن کے خلاف سخت مزاحمت کی۔ صدیوں تک پائنڈ مانٹ کی کلیسیاوں نے اپنی خود مختاری کو قائم رکھا۔ لیکن وقت آگیا جب روم نے انہیں اطاعت کرنے کے لئے اصرار کیا۔ جابر کے خلاف غیرموثر جدوجہد کے بعد ان کلیسیاوں کی لیڈر شپ نے چارروناچار اس کی برتری تسلیم کر لی جس کی تمام دنیا تعظیم گرتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے باوجود کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے پوپ یا مذہبی رہنماوں کے اختیار کو ماننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے خُداوند ہی سے وفادار رہیں گے اور اپنے ایمان کی سادگی اور پاکیزگی کو قائم رکھیں گے لہٰذا ان میں پھوٹ پڑ گئی جو قدیم ایمان سے و فادار رہے وہ ہاں سے نکل گئے ۔ بعض نے اپنے آبائی اپلیس(ALPS) کو خیر باد کہا اور غیر ممالک میں جاکر سچائی کے جھنڈے کو بلند کیا۔ جب کہ بعض دشوارگزار ردادیوں کی طرف لوٹ گئے یا پہا ڑی گڑھ میں جا چھپےجہاں وہ آزادی قائم رکھ کر خُدا کی عبادت کر سکتے تھے۔ AK 59.4

والڈ نسس مسیحیوں نے جس ایمان کو صدیوں سے سیکھا اور جس پر وہ قائم تھے اُس میں اور جھوٹی تعلیم جو روم انہیں دینا چاہتا تھااس میں بہت بڑافرق تھا۔ ان کے مذہبی ایمان کی بنیاد خُداوند خُدا کے لکھے ہوئے کلام پر تھی جو مسیحیت کی حقیقی بنیاد ہے مگر یہ عاجز کسان اپنی تاریک گوشہ نشینی میں دنیا سے کٹ کر رہ گئے تھے اور اپنے تاکستونوں اور بوڑوں کے اندر روزمرہ کی مشقت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ یہ لوگ خودبخود مرتد کلیسیا کی بدعت اور عقیدے کے خلاف سچائی تک نہ پہنچ پائے تھے اور نہ ہی انہوں نے کوئی نیاعقیدہ اپنایا تھا بلکہ اب کا مذہبی عقیدہ ان کی میراث تھا جو ان کے آباواجاد سے انہیں ملا تھا۔ یہ لوگ رسول کلیسیا کے ایمان سے پوری طرح مطمئن تھے ۔ یعنی وہی ایمان جو ایک بار مقدسین کو سونپا تھا۔ (یہوداہ آیت 3 ) “۔یہ بیانان کی کلیسیا ہی “ہی مسیح کی حقیقی کلیسیا تھی نہ وہ کہ مغرور اور مذہبی حکومت جس کا دارلسلطنت دنیا کت بڑے شہر میں واقع ہے۔ ان ہی لوگوں کو خُدا کی سچائیوں کے خزانے کا محافظ ٹھہرایا گیا تاکہ وہ ان سچائیوں کو دنیا کے لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ AK 60.1

روم سے اس حقیقی کلیسیا کی علیحدگی کی ایک سب سے بڑی وجہ بائبل کے “سبت“سے روم کی نفرت تھی اور اس کے لئے پہلے سے پیشنیگوئی موجود بھی تھی کہ ایک سن سچائی کو ملیا میٹ کرے گی۔ یوں خُدا کی شریعت کو خاک میں ملا دیا گیا جب کہاانسانوں کی روایات اور رسوم کو سرفراز کیا گیا۔ وہ کلیسیائیں جو پوپ کی زیر سایہ تھیں ان کو بہت پہلے مجبور کیا گیا کہ وہ اتوار کو مقدس دن کے طور پر منائیں۔ جب روایات اور غلط عقائد غالب آگئے توخُدا کے سچے لوگ تھے حواس باختہ رہ گئے ۔ کیونکہ وہ نہ صرف حقیقی سبت کو منات ےتھے بلکہ اتوار کے روز کام کاج کرنے سے بھی باز رہتے تھے۔ مگر اس سے بھی پوپ کی قیادت تسلی پذیر نہ ہوئی انہوں نے نہ صرف یہ مطالبہ کیا سنڈے یعنی سورج کے دن کع مقدس مائیں بلکہ سبت کی بے حرمتی بھی کریں اور انہوں نے سخت زبان میں اس کی تعظیم کرنے والوں سے انتقام لینے کی پیشنیگوئی بھی کی۔ ایسی صورت حال میں خُدا کی شر یعت پر صرف وہی پیرا ہو سکتا تھا جو پوپ کی عملداری سے راہِ فرار ختیار کر لیتا۔ AK 60.2

یہ والڈ نسس پورپ کے پہلے لوگوں میں سے جو تھے جنہوں نے بائبل مقدس کا ترجمعہ حاصل کیا۔ اصلاحی زور سے کئی سوسال پہلے ان کے ماس اپنی زبان میں بائبل کا نسخہ موجود تھا۔ لٰہذا ان کے پاس خالص سچا ئی موجود تھی ۔ اسی وجہ سے وہ نفرت اور ایذا رسانی کا شکار بنے۔ تو بھی انہوں نے اعلانیہ کہا کہ وہ روم کی یہ کلیسیا یوحنا عارف کے مکاشفہ مطابق“بابل” کی برگستہ کلیسیا ہے۔ اور جب کہ ان کی جانیں خطرے میں گھری ہوئی بھی انہوں نے ان کی غلط باتوں کی مزمت کی۔ ایک لمبے عرصہ تک جاری رہنے والی اس ایذا رسانی کے باعث بعض ایک نے اپنے ایمان کو چھوڑ کر پوپ کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔اور پھر آہستہ آہستہ اپنے اصولوں سے بھی دستبردار ہو گئے ۔ جب کہ کئی ایک سچائی کو بڑی مضبوطی سے تھامے رہے۔ تاریکی اور بر گشتگی کے اس زمانہ میں یہ والڈ نسس ہی تھے جنہوں نے روم کی برتری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نےان کے پیشکئے ہوئے مجسموں کی پر ستش سے بھی انکار کر دیا جو ان کے نزدیک بت پرستی کے مترادف تھا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے حقیقی سبت کو مانا۔ انہوں نے مخالفت کے تندطوفانوں کے۔ دوران اپنے ایمان کو قائم رکھا۔ بے شک بھالے پرچھی لے گہرے زخم کھائے ۔ آگ میں جل کر کباب بنے؟اس کے باوجود انہوں نے خُداوند کی عظمت اور اس کے کلام سے روگردانی نہ کی۔ جبرو تشدد اور ایذارسانی سے پناہ حاصل کرنے کے لئے ان والڈ نسس نے ان سر بفلک پہاڑوں میں جاپناہ لی جو ان کے لئے کئی زمانوں تک پناہ گاہ رہے۔ انہیں کےبیچ قرونِ وسطٰی کی تاریکی میں نور بدستور چمکتا رہا۔ اسی جگہ ہزاروںسالوں تک سچائی کے گواہوں نے قدیم ایمان کو برقرار رکھا۔ AK 61.1

خُداوند نے انہیں وہاں ایک ایسی شاندار جلالی ہیکل بخشی جوان کے دیو ہیکل ایمان کے میں مطابق تھی جو ان کلاوطن ایمان داروں کو کے لئے پہاڑ یہواہ کی لا تبدیل راست بازی کی علامت تھے ۔ وہ اپنے بچوں کو اس کے بارے بتاتےجو ان پہاڑوں سے بھی اوپر غیر متعیز شہنشاہ ہے۔ وہ اس کے بارے بتاتے “جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اس پر سایہ پڑتا ہے“۔ یعقوب 17:1۔ انکا ماننا تھا کہ اس کا کلام ایسا دیر پا ہے جیسے ابدی چٹانیں۔ خُداوند نے پہاڑوں کی اپنی قوت اور قدرت سے اس قدر مستحکم کیا ہے کہ قادرِمطلق خُدا کے علاوہ کوئی بشر انہیں ان کی جگہ سے ہلا نہیں سکتا۔ اسی طرح اسنے اپنی شریعت کو قائم کیا ہے جو آسمان اور زمین پر اس کی حکومت کی بنیاد ہے۔ بقول ان کے کسی ایک شخص کا ہاتھ تو دوسرے اشخاص تک پہنچ کر ان کی زندگیوں برباد کر سکتا ہے۔ لیکن اگر وہی ہاتھ آسانی سے پہاڑوں کو ان کی بنیادوں سے اکھاڑ کر انہیں سمندر میں ڈال سکے تو وہ یہواہ کی شریعت کے فرمان کو بھی تبدیل کر سکے گا یاوہ جو خُدا کی مرضی پر چلتے ہیں ان کے لئے خُدا کے کسی وعدے کو مٹا سکے گا۔ ان لوگوں کا ماننا تھا کہ خُدا کے کام کو اس کی شریعت سے ایسا وفادار ہونا چاہیے جیسے لا تبدیل چٹانیں ہیں۔ AK 61.2

وہ خُدا جو اپنا اور حفاظت کرنے کے وعدے میں کبھی ناکام نہیں ہوتا یہ پہاڑ جو دادی میں گڑھےہوئے اسی کی تخلیقی قوت کی مسلسل شہادت دیتے ہیں۔ ان مسافروں نے خُداوند کی موجودگی کی خاموش علامت کو پیار کرنا سیکھ لیا۔ اس لئے جو مشکلات وہ جھیل رہے تھے اس کے بارے ان کے لبوں پر کبھی کوئی شکایت نہ آئی۔ اصل میں وہ لوگ ان سنسان پہاڑوں کے درمیان کبھی بھی تنہا نہیں تھے۔ بلکہ وہ خُداوند کے شکر گزار تھے کہ جس نے انہیں انسانوں کے جبرو ستم سے وہاں پناہ دی تھی ۔ وہ عبادت کی اس آزادی پر خوش تھے جا انہیں وہاں خُداوند کے حضور حاصل تھی۔ اور جب بھی ان کے دشمن ان کا تعاقب کرتے تو انہی پہاڑوں کی قوت ان کا یقینی اور بھرپور دفاع کرتی ۔ ان ہی بہت ہی پر شکوہ اور بلند ع بالا پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے وہ لوگ خُداوند کی حمدو ثنا کے گیت گایا کرتے تھے جب کہ یہ رومی فو جیں انکی شکرگزاری کے ان گیتوں کا خاموش نہ کر سکیں۔ AK 62.1

مسیح یسوع کے ان پیروکاروں کی پاکیزگی انتہائی سادہ اور ولولہ انگیز تھی ۔ اپنے گھروں زمینوں، دوستوں، رشتہ داروں بلکہ اپنی زندگی سے بھی زیادہ وہ سچائی کے اصولوں کی قدر کیا کرتے تھے۔ یہ ان کی پرخلوص خواہش تھی کی انکے یہ اصول نوجوانوں کے دلوں کو متاثر کرتے۔ اس لئے نوجوانوں کو لڑکپن ہی سے بائبل مقدس کے بارے ہدایات دی جا تیں اور انہیں سکھایا جاتا کہ وہ خُداکی شریعت کی تابعداری کریں۔ چونکہ اس وقت بائبل مقدسکی کاپیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس لئے اس زندگی بخش اور بیش قیمت کلام کو زبانی یاد کیا جاتا۔ اس زمانہ میں بہتیرے ایسے لوگ تھے جنہوں نے عہدجدید اور عہد عتیق کے بڑے بڑے حصے حفظ کر رکھے تھے ۔خُدا کے فہم وادراک کو فطرت کے عظیم مناظر اور روزمرہ کی زندگی کی چھوٹی موٹی برکات سے مربوط کیا جاتا تھا۔ان کے چھوٹے بچے اس خُدا کی طرف شکرگزار نگاہوں سے دیکھنا سیکھتے تھے جو انہیں ہر طرح کے آرام و آسائش بخشتا اور ان کی دل جوئی کرتا تھا۔ AK 62.2

وہ والدین بڑے شفیق مگر محتاط اور حساس تھے۔ جنہوں نے اپنے بچوں کو بڑی حکمت سے پیار تو کیا مگر انہیں خود پسندی اور ناز پروری کی زندگی کا خو گر نہ بننے دیا۔ کیونکہ حقیقت میں ان کے سامنے تو آزمائش اور اذیت ناک مشکل زندگی دھری تھے بلکہ شائد شہادت کا جام دھرا تھا۔ انہیں بچپن ہی سے یہ تعلیم دی جاتی تھی کہ وہ مشکلات برداشت کرنا سیکھیں اور خود ضبطی کا مظاہرہ کریں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے لئے خُود سو چیں اور عمل کریں۔ انہیں بہت سی چھوٹی عمر میں ذمہ داریاں نبھانے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اور یہ بھی کہ بولنے میں کیسے محتاط رہیں اور خاموشی کی حکمت سے کیسے آگاہ ہونا ہے۔ کیونکہ ان کا ایک بھی غیر محتالفظ دشمنوں کے کانوں میں پڑنے سے نہ صرف بولنے والے کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا تھا بلکہ اس کے سینکڑوں بھا ئیوں کی زندگیوں کے لئے خطرے کا باعث بن سکتا تھا۔ کیو نکہ جس طرح بھیڑ اپنے اپنے شکار کے لئے نکلتے ہیں اسی طرح سچائی کے دشمن ان کا تعاقب کیا کرتے تھے جو مذہبی ایمان کی آزادی کا دعویٰ کرنے کی جرات کرتے تھے۔ AK 63.1

والڈ نسس لوگوں نے سچائی کی خاطر اپنی دنیاوی املاک کو قربان کرکے بڑے صبر اور استقلال کے ساتھ اپنی روزی روٹی کے لئے مشقت کی۔ ان پہاڑوں کے اندر جو بھی قطعہ زمین کاشتکاری کے قابل ملا انہوں نے اسے بڑی محنت سے تیار کر لیا۔ وادیوں اور پہاڑوں کے دامن میں گو بہت کم زرخیز مین تھیں تو بھی انہوں نے انہیں اپنی آمدنی کے لئے تیار کیا۔ ایسی بحث اور جانفشانی نہ صرف ان بچوں کی تعلیم کا حصہ تھا یہی انکی میراث تھی۔ انہیں سکھایا جاتا کہ خُدا نے نظم و ضبط کی تربیت کے لئے زندگی کو تشکیل دیا ہے۔ اس لئےضروریات کو ذاتی محنت سے پورا کرنا ہو گا جس کے لئے دار اندیشی ، احتیاط اور ایمان نہایت ہی لازم ہے۔ گویہ سارا عمل نہایت مشقت بھرا تھا تو بھی نہایت ہی صحت بخش اور خوشگوار بھی تھا۔ انسان کی زوال پذیر حالت میں یہی ضروری اور بہتر ہے۔ یہی تو وہ سکول ہے جس میں مسیح یسوع نے خود ترقی اور تربیت کو بھی نظرانداز نہ کیا گیا۔ انہیں سکھایا گیا کہ ان کی تمام تر خُداوند ہی کی ہیں اس لئے انہیں انکی نشو و نما اور پرورش اسی کی خدمت کے لئے کرنا چاہیے ۔ AK 63.2

والڈ نسس کلیسیائیں اپنی پاکیز گی اور سادگی کے لحاظ سے رسولی کلیسیا کے زمانے کے کلیسیاوں سے مشا بہت رکھتی تھیں۔ پوپ کی برتری کو رد کر کے وہ بائبل کی برتری کو سرفراز کرتے اور بائبل کو ہی لا خطا ہستی مانتے تھے ۔ ان کے پاسبان روم کے پاسبانوں کے برعکس اپنے آقا کے نقشِ قدم پو چلنے والے تھے جو “خدمت لینے نہیں بلکہ خدمت کرنے آیا“۔ وہ خُداوند کے گلے کو چراتے اور انہیں ہری ہری گھاس کی چراگاہوں کے پاس لے جاتے اور زندہ پاک کلام کے چشموں کے پاس لے جاتے ۔یہ لوگ دیگر انسانی شان و شوکت اور عالی شان یادگاروں سے بہت دور ہو کر اپنی عبادت کے لئے جمع ہوتے تھے۔ نہ تو عالی شان خوبصورت گرجا گھروں میں اور نہ ہی بڑے بڑے کیتھر یڈلزمیں بلکہ گر ینڈ الپائن کی وادیوں کے درختوں کے سایہ تلے۔ یا پھر خطرے کے وقت پہاڑوں کےگڑھ[قلعہ]میں چلے جاتے تاکہ خُداوند مسیح کے خدام سے سچائی کے کلام کو سنیں۔ ان کے پاسبان نہ صرف انجیل کی تشہیر کرتے بلکہ وہ بیماروں کو وزٹ کرتے ، بچوں کو تعلیم دیتے اور انکا امتحان لیتے۔ خطا کرنے والوں کو تنبیہ کر تے ، جھگڑے نمٹا تے اوع بردرانہ محبت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتے ۔ امن کے زمانہ میں وہ رضا کارانہ ہدیہ جات جمع کرتے ۔ مگر پولس رسول جا خیمہ دوزی کا کام کرتا تھا اس کی طرح کوئی پیشہ یا کاروبار سیکھ رکھا تھا تاکہ بوقت ضرورت اس کے ذریعہ اپنی روزی کما سکیں۔ AK 63.3

اپنے پاسبانوں سے نوجوان ہدایات حا صل کرتے۔ جب کہ زیادہ تر توجہ عام چیزوں کے سیکھنے کی طرف ہوتی مگر بائبل ان میں اولاً مطالعہ کا ذریعہ تھا۔ متی اور یوحنا کی انجیل کو زبانی یاد کیا جاتا۔ اور ان کے علاوہ کئی خطوط بھی زبانی یاد کئے جاتے ۔ انہیں ان صحائف کو کاپی [نقل] کر کے روزگار کمانے کے لئےاستعمال کیا جاتا۔ بعض مینو سکر پٹ میں پوری بائبل شامل ہے جب کہ بعض میں مختصر چیدہ چیدہ حصے ہیں جن میں حوالے کی مناسبت سے سادہ سی تفسیر بھی شامل کی گئی ہے۔ یوں سچائی کے وہ خزانے آشکارہ کئے گئے جاتا۔ بعض جنہیں عرصہ سے ان حضرات نے چھپا رکھا تھا جو خُدا سے زیادہ اپنی بڑائی کے خواہاں تھے۔ AK 64.1

انتھک محنت اور صبرو تحمل کے ساتھ بعض اوقات زمین کی اندھیری غاروں میں ٹا رچ کی روشنی میں پاک صحا ئف آیت بہ آیت باب بہ باب لکھے جاتے ۔ یوں کام آگے بڑھتا رہا۔ خُدا وند کا مکاشفہ اصلی سونے کی مانند چمکنے لگا۔ اس قدر روشن واضح اور بڑی قوت کے ساتھ چمکنے لگا کیونکہ جو اس کی خاطر آزمائشوں اور مصائب سے گذرے تھے وہی جانتے تھے کہ وہ اس کام میں برسر پیکار ہیں۔ آسمانی فرشتے ان وفاداروں کا گذاروں کے چوگرد خیمہ زن تھے۔ AK 64.2

ابلیس نے پوپ کے پاسبانوں اور کلیسیا کے اعلےٰ عہدہ داروں کو ابھارا کہ وہ سچائی کے کلام کو کے ہر کلام کو غلط تعلیم ، بر گشتگی اور روایات کی لغویات کے نیچے دفن کر دیں تو بھی نہایت ہی حیرت انگیزانداز میں اس تما م تاریک زمانہ کے دوران کلام کی سچائیوں کو بے داغ محفوظ کر لیا گیا، ان پر کسی انسانی کی مہر نہیں بلکہ خود خُداوند خُدا کی مہر ثبت ہے۔ انسان انتھک کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ صحائف کی سادہ اور واضح معنوں کو الجھا دیں ۔ لیکن متلا طم لہروں پر نوح کی کشتی کی طرح خُدا کا یہ کلام بھی ان طوفانوں پر غالب آتا رہا ہے جو اسے برباد کرنے لے لئے آتے اور جاتے رہے ہیں۔ جیسے کہ کان میں اس کی سطح لے نیچے بہت ہی قیمتی سونا چاندی چھپا ہو تا ہے اور جو کوئی بھی اس قیمتی خزانے کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے کھودنا ہی کھلتے ہیں جو نہایت ایمان داری، تندہی اور فروتنی اور دعا کے ساتھ انکی جستجو کرتے ہیں۔ AK 65.1

تما م بنی نوع انسان کے لئے خُدا نے بائبل کو بطور نصابی کتاب کے پیش کیا ہے۔ جسے بچپن، نوجوانی اور بلوغت میں بلکہ ہر وقت پڑھتے رہنا چاہیے۔ اسکا کلام اسکا مکاشفہ ہے اور یہی اس نے انسان کو دیا ہے۔ اس کی ہر نئی سچائی اس کےبانی خُداوند کی سیرت کی تازہ کھوج ہے۔ کلام مقدس کا مطالعہ خُدا کی طرف سے اس لئے فرض کیا گیا ہے تاکہ نوع انسان کو اس کے خالق کے قریب لایا جائے اور ان پر اس کی ماضی کو واضح طور پر عیاں کیا جا ئے ۔ یہ خُدا اور انسان کے رابطہ کا درمیانی ہے۔ AK 65.2

جب کہ والڈ نسس خُدا کے خوف کو حکمت کا شروع مانتے تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کے ساتھ رابطہ رکھنے کی اہمیت سے بے بہرونہ تھے۔ وہ لوگ جانتے تھے شعوری عمل کا جلا بخشنا۔ ذہن و دماغ کو وسعت دینا اور زندگی کو چاق و چوبند رکھنے کے لئے انسانی علم بھی ازحد ضروری ہے ۔ اسی لئے ان پہاڑی سکولوں میں سے بعض نوجوانوں کو فرانس یا اٹلی کے کئی تعلیمی اداروں میں بھیجا گیا جہاں ایلپس کے مقابہ میں فلسفہ، نظرتات اور مشاہدات اور تعلیم کے وسیع اور بہتر مواقع تھے۔ یوں نوجوانوں کو بھیجنے سے انہیں آزمائشوں کا سامنا ہوتا وہاں وہ بدی اور ابلیس کے بد معاش کاریندوں کا مقابلہ کرتے جو انہیں بڑے فریب سے برگشتگی اور دھوکے کی طرف مائل کرتے مگر جو تعلیم انہوں نے اپنے بچپن سے حاصل کی تھی وہ انہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی تھی۔ AK 65.3

وہ جن جن سکولوں میں بھی گئے انہوں نے کسی کو بھی اپنا ہمراز نہ بنایا۔ ان کے لباس اسطرح تیار کئے گئے تھے کہ ان کے اندر وہ اپنے بڑے خزانے یعنی بیش قیمت صحائف کے مینو سکرپٹ کو چھپا سکتےتھے۔ یہ نسخے جو کئی کتابوں اور سالوں کی مشقت کا پھل وہ لوگ اپنے ساتھ نے لے جایا کرتے تھے اور پھر بڑی احتیاط سے ان نسخوں کے بعض حصے وہ انکے سامنے رکھاکرتے تھے جن کے دل واقعی سچائی کو قبول کرنے کے لئے تیار دکھائی دیتے تھے ۔ ان کہ والڈ نسس نوجوانوں کی اسی مقصد کے لئے تر بیت انکی ماوں کی گواہی سے دی جاتی تھی۔ اور وہ لوگ اپنے اس کام کو بہت اچھی طرح سمجھتے اور نبھاتے تھے۔ اب تر بیتی اداروں میں کئی روحوں کو جیتا گیا۔ اور اکثر اوقات اس کے اصولوں کو سارے سکول میں اپنانے کی اجازت دے دی جاتی ۔ تاہم وہاں کی پوپائی لیڈر شپ اپنی تمام تر خفیہ تفتیش کے باوجود انکا سراغ نہ لگا سکی جنہیں وہ برگشتہ اور بدعتی قرار دے چکے تھے۔ AK 66.1

مسیح کا روح ایک مشنری روح ہے جو تبدیل کر دیا جاتا ہے اسکی پہلی امنگ یہی ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو بھی نجات دہندہ کے پاس لائے۔ بس ایسی ہی روح والڈ نسس مسیحیوں کی بھی تھی ۔وہ محسوس کرتے تھے کہ خُداوند ان سے کہیں زیادہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ صرف اپنی ہی کلیسیاوں میں سچائی اور پاکیزگی کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں انکی یہ بڑی سنجیدہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی روشنی کو ان پر چمکنے دیں جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں۔ خُدا کے کلام کی قوت اور قدرت سے وہ روم کی اس غلامی کے جوئے کو توڑنے کے خواہاں تھے جو اس نے ان پر تھوپ رکھی تھی۔ والڈ نسس منسڑ ز کی بطور مشزی تربیت ہوتی تھی اور جو کوئی انکی بھی منسڑ ی میں داخلے کا خواہاں ہوتا اس سے مطالبہ کیا جاتا کہ وہ پہلے جا کر بطور مبشر تجربہ حاصل کرے ۔ ہر ایک کے لئے یہ لازم تھا کہ اپنی مقامی کلیسیا میں چارچ سنبھالنے سے پہلے تین برس تک مشن فیلڈ میں خدمت سر انجام دے۔ سروس کے شروع کا مطالبہ خود انکاری اور قربانی ہوا کرتا تھا جو ان دنوں پاسٹرکی زندگی کے لئے نہایت ہی مناسب تعارف ثابت ہوتا تھا۔ یہی اس انسان کی روح کو آزماتا تھا۔ جو نوجوان خود کو اس مقدس خدمت کے لئے وقف کیا کرتے تھے ان کے سامنے دنیاوی فروغ مال ودولت اور سرفرازی کی زندگی نہیں ہوتی تھی بلکہ مشقت اور خطرے کی حتٰی کہ شہادکی موت کی بھی۔ وہ مشنری بھی دودو کی صورت میں نکلتے با لکلاسی طرح جیسے مسیح یسوع نے دو دو کر کے اپنے شاگردوں کو منا دی کے لئے بھیجا تھا۔ ہر نوجوان کے ساتھ عوماً ایک بڑی عمر کا تجربہ کار شخص ضرور ہوتا تھا۔ یہ نوجوان اپنے بزرگ ساتھی سے رہنمائی حاصل کرتا جو اس کی تربیت کا ذمہ دار ہوتا۔ اپنے بزرگ کی ہدایات پر عمل کرنا ہی نوجوان پر لازم شرط تھی۔ یہ دونوں خدمت گزار ہر وقت اکٹھے نہ رہتے تھے۔ تاہم اکثر دعا اور اصلاح مشورے کے لئےاکٹھے ہو جاتے اور یوں ایک دوسرے کو ایمان میں مضبوط کیا کرتے تھے۔ AK 66.2

اپنے مشن کا اصل مدعا ظاہر کرنے سے انہیں شکست کا سامنا ہو سکتا تھا۔ اس لئے وہ بڑے محتاط انداز میں اصل کردار کو صیغہ راز میں رکھتے تھے۔ ہر ایک منسٹر کسی نہ کسی پیشے یا تجارت کے ہنر کا علم ضرور رکھتا تھا تاکہ اپنے مشنری کام کو کسی سیکولر کام کا نام دے سکے۔ اکثر وہ خود کو سوداگر یا خوردہ فروشی بتا یا کرتے تھے۔ “وہ لوگ اپنے ساتھ سلک، زیورات اور دوسری چیزیں لئے پھرتے تھے اور چونکہ یہ چیزیں ان دنوں آسانی سے خریدی نہیں جا سکتی تھیں کیونکہ انہیں خریدنے کے لئے دوردراز جا نا پڑتا تھا ۔اسلئے لوگ انہیں سوداگر کے طور پر خوش آمدید کہتے لیکن اگر وہ مشنریوں کے طور پر داخل ہونے کی کوشش کرتے تو ان کےساتھ برا سلوک کیا جاتا” (wylie,b.1.ch.7.)- AK 67.1

وہ اپنے دلوں کو خُدا کے حضور ہمیشہ کھلا رکھتے تاکہ وہ انہیں ایسی حکمت سے بھرے جس کے باعث وہ دوسروں کے سامنے سانے چاندی سے بھی اس بیش قیمت خزانہ رکھ سکیں۔ وہ خفیہ طور پر اپنے ساتھ کلام مقدس کی نقل یا اس کے کچھ حصے لے جایا کرتے تھے اور پھر جہاں کہیں انہیں موقع ملتا وہیں وہ اپنے گاہکوں کی توجہ اسکی طرف مبذول کرواتے ۔ یوں اکثر دوسروں میں خُدا کے کلام کو پڑھنے کی دلچسپی بیدار ہو جاتی۔ اس کت بعد جو انہیں لینے کی خُواہش ظاہر کرتا مینو سکرپٹ کے کچھ حصے ان کے پاس خوشی سے چھوڑ دیتے جاتے۔ AK 67.2

ان مشزیوں کا کام اپنے پہاڑوں کے دامن میں پائی جانے والی وادیوں اور میدانوں سے شروع ہوا مگر پھر یہ انکی حدود سے نکل کر دوردراز تک پھیل گیا۔ ننگے پاوں اور ادنٰے کپڑوں کے ساتھ جن پر سفر کے داغ دھبے ہوتے ، جیسے انکا آقا کے کپڑوں پر بھی ہوا کرتے تھے وہ بڑے بڑے شہروں کے بیچ سے گزرے اور دوردراز کے ملکوں تک سرایت کرتے گئے۔ انہوں نے ہر جگہ بیش قیمت بیچ کو بکھیر دیا۔ ان ہی کی بدولت کلیسیا ئیں قائم ہوئیں اور شہیدوں کے خون نے سچائی کی گواہی دی۔ خُداوند کا آنے والا دن یہ بتا دے گا کہ روحوں کی کیسی بڑی فصل ان ایمان دار مردوں کی محنت سے نہ صرف اگی بلکہ جن سے کہتے بھر گئے ۔ بڑی ہی رازداری اور خاموشی کے ساتھ خُداکا کلام مسیحی دنیا میں راستہ بنا رہا تھا اور لوگوں لے دلوں اور گھروں میں پر تپاک استقبال حاصل کر رہا تھا۔ AK 67.3

والڈ نسس کے نزدیک کلام مقدس قدیم زمانہ میں خُدا کاا نسان کے ساتھ برتاو کا محض ریکارڈہی نہ تھا اور نہ ہی صرف یہ موجود زمانے کی ذمہ داریوں کا مکاشفہ تھا بلکہ یہ کلام مستقبل کے اندیشوں اور جاہ و جلال کو بھی آشکارا کرتا تھا۔ انکے ایمان کے مطابق سب چیزوں کے خاتمہ کا وقت کوئی زیادہ دور نہیں تھا۔ اور جوں جوں وہ کتاب کا مطالعہ دعا اور دل سوزی سے کرت ےتوں توں وہ اور بھی زیادہ اسکے منہ کت کلام سے متاثر ہوتے اور سوچتے کہ اس کی نجات بخش سچائیوں کو دوسروں تک پہنچایا انکا فرض ہے ، انہوں نے دیکھا کہ نجات کی تجویز مقدس اوراق میں بڑی صفائی سے آشکارا کی گئی ہے۔ اس لئے مسیح پر ایمان رکھنے سے انہیں بڑی تسلی امیداور امن حاصل ہوا۔ جو نہی اس کلام کا نور انکی سوجھ بوجھ کو روشن اور انکے دلوں کو شاد کرتا تو ان کی خواہش ہوتی کہ وہ اس کی کرنوں کو ان تک پہنچائیں جو پاپا ئیت کی غلط تعلیمات کے اندھیرے میں ہیں۔ AK 68.1

انہوں نے دیکھا کہ پوپ اور پریسٹ کی رہنائی میں لوگوں کی بھیڑ فضول اپنے بدنوں کو گناہ کی معافی کے لئے ایذا پہنچا رہی تھی۔ انہیں سکھایا جاتا کہ اپنی نجات کے لئے اعمال حسنہ پر ایمان رکھو۔ اس لئے ان کا ذہن ہر وقت اپنی گنا ہ گار زندگی طرف لگارہتا۔ وہ خود کو ایسے دیکھتے تھے جیسے انہیں خُدا کے غضب کا سامنا رہتا ہو اس لئے وہ اپنے جسم و جاں کو دکھ پہنچاتے رہتے۔ پھر بھی انہیں کوئی چین نصیب نہ ہوتا۔ یوں جاگتی جانیں روم کی تعلیمات کے بوجھ تلے بری طرح سے دبی ہوئی تھیں۔ ہزاروں نے اپنے دوست احباب سے بچھڑ کر اپنی زندگیوں کا کانونٹ سلز)Cell Convent۔ راہب خانوں) کی نظر کردیا تھا۔ اکثر روزے رکھنا خود کو تاز یانے مارنا۔ راتیں جاگ کر گزارنا، بیزاری کی حالت میں اپنے سنسان بھیا نک رہب خانہ کے ٹھنڈے اور گیلے پتھروں پر سجدے میں پڑے رہنا دوردارز کی یاترا کرنا اور ذلت آمیز اعتراف گناہ کے احساس تلے دبے ہوئے اور خُدا کے بدلہ لینے والے غضب سے ڈربے ہوئے کئی مسلسل اپنی جانوں کو دکھ دیتے رہتے۔ یہاں تک کہ وہ با لکل بدحال ہو جاتے ۔ تو بھی انہیں روشنی یا امید کی ایک کرن نصیب نہ ہوتی اور آخر کار یوں ہی اپنی قبروں میں دھنس جاتے۔ AK 68.2

والڈ نسس ان فاقہ کش روحوں کے لئے زندگی کی روٹی توڑ نے اور خُدا کے وعدوں میں جو امن کا پیغام پایا جاتا ہے ان تک پہنچا نے اور ان کی توجہ مسیح یسوع کی طرف جو نجات کی واحد امید ہے مبذول کروانے کے لئے بے تاک رہتے تھے ۔ وہ لوگوں کو سکھاتے کہ خُدا کے احکام کی حکم عدولی کا کفارہ ہمارے نیک اعمال نہیں کر سکتے ۔ یہ جھوٹ پر مبنی تعلیم ہے۔ انسانی اوصاف پر بھروسہ کرنے کا مطلب مسیح یسوع کی لامحدود محبت کا انکار کرنے ہے۔ مسیح یسوع انسانوں کے لئے کفارہ دینا گناہ گار انسان خود کو خُدا کے حضور لانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ ہر جان کا مسیح یسوع پر انحصار ایسا حقیقی اور اس کے ساتھ رابطہ اس قدر نزدیکی ہونا چاہیے جیسے کہ بدن کے ساتھ اعضا کا یا انگور کے درخت کے ساتھ اسکی ڈالی کا ہے۔ AK 68.3

پوپوں اور پاسبانوں کی تعلیم نے لوگوں کو خُدا اور مسیح کی سیرت اور سبھاو کے بارے یہ سکھا رکھا تھا کہ وہ بے رحم ، ملول اور کر یہہ النظر ہے۔ انہیں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ چونکہ انسان گری ہوئی حالت میں ہے اس لئے مسیح یسوع کے دل میں اس کے لئے کوئی ہمدردی نہیں۔ اس لئے پریسٹس اور مقدسین کا ان کے لئے درمیانی ہونا لازم ہے تاکہ وہ ان کے لئے مناجات کریں۔ مگر جن کے دل و دماغ خُدا کے پاک کلام سے روشن ہو جاتے وہ ان روحوں کو مسیح یسوع کی طرف متوجہ کرواتے جو ان کا ہمدرد اور محبت بھرا نجات دہندہ ہے۔ اور اپنے بازو پھیلا کر ان سب کو بلارہا ہے کہ اپنے گناہ کے بوجھ سمیت میرے پاس آو میں تمہیں تمہاری فکروں اور دکھوں سے آرام دوں گا۔ وہ ان رکاوٹوں کو دور کرنا چاہتے جو ابلیس نے پیدا کر رکھی ہوتیں یعنی انسان خُدا کے وعدوں کو دیکھ نہ پائیں اور براہِراست اس کے پاس نہ آ سکیں اور نہ ہی اس سے گناہوں کا اعتراف کر کے معافی اور آرام پائیں۔ یہ مسیح یسوع جو مر کر زندہ ہوا صرف اسی کے اوصاف ہر مسیحی ایمان کی واحد اور حقیقی بنیاد ہیں۔ AK 69.1

ہر والڈ نسس مشنری بڑی خوشی سے انجیل کی بیش قیمت سچائیوں کو ان لوگوں کے سامنے کھول دینا جنہوں نے بھی انہیں جاننے کا مطالبہ کیا۔ کلام کے جو حصے بڑے محتاط اندازسے لکھے ہو تے مشنری انہیں مہیا کر دیتا۔ یہ اس کے لئے بڑی خوشی کا مقام ہوتا کہ وہ ان ایمانداروں کو جو گناہ کے مارے ہوئے اور جوخداوند کع صرف بدلہ لینے اور سزا کے لئے تیار دیکھتے تھے انہیں امید دلاتا۔ لرزتے ہونٹوں اور آہیں بھر بھر کر اسنے اکژ گھٹنے نشین ہو کر اپنے بھائیوں کے لئے ان بیش قیمت وعدوں کو کھولا جو گناہ گارروں کی واحد امید تھے۔ یوں بہت سے تاریکی میں غرق ذہنوں تک روشنی پہنچائی گئی اورغموں کے مبادل ہٹائے گئے ۔ تاکہ استبازی کے سورج کی وہ شعا عیں جب میں شفا ہے ان کے دلوں میں چمکنے لگے، کلام کے کئی حصے بار بار پڑھے جاتے کیونکہ سننے والے خواہش کرتے تھے کہ انہیں دوبارہ پڑھا جائے ۔ تا کہ انہیں یقین ہو جائے کہ جو کچھ انہوں نے سناتھا وہ واقعی درست تھا۔ خاص طور پر اس کلام کو بار بار سننے کی درخواست کی گئی۔ لیکن اگر ہم نور میں چلیں جس طرح کہ وہ نور میں ہے تو ہماری آپس میں شراکت ہے اور اس کے بیٹے یسوع کا خون ہمیں تمام گناہوں سے پاک کرتا ہے“یوحنا 7:1۔ اور “جس طرح موسٰی نے سانپ کو بیابان میں اونچے پر چڑھایا اسی طرح ضرور ہے کہ ابن ِآدم بھی اونچے پر چڑھایا جائے تا کہ جو کوئی ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے” یوحنا 14:3۔ 16۔ AK 69.2

بہتیرے ایسے تھے جنہوں نے روم کے دعووں سے دھونہ کھایا تھا انہون نے دیکھا کہ کسی انسان یا فرشتہ کا گناہ گار کا درمیا نی ہونا بعید العقل ہے۔ جب حقیقی نور نے ان کے اذہان کو منور کیا تو وہ خوشی سے چلا اٹھے” مسیح یسوع میرا کاہن ہے۔ اس کا خون میرا کفارہ ہے۔ اس کا مذبحہ گناہ کے اعتراف کا مقام ہے۔ “انہوں نے کلی طور پر مسیح یسوع کی راستبازی پر یہ دہراتے ہوئے تقویٰ کر لیاکہ “بغیر ایمان کے اس کو پسند آنا نا ممکن ہے۔ (عبرانی 6:11)، ” اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے نجات پا سکیں۔ اعمال 12:4۔ AK 70.1

کئی ایک ایسی بھی طوفان زدی اور نادارروحیں تھیں جن کے لئے نجات دہندہ کی محبت کا یقین کرنا سمجھ سے باہر بات تھی ۔ ان پر اس روشنی کے پڑنے سے انہیں بہت زیادہ سکون حاصل ہوا بلکہ انہیں ایسا لگنے لگا جیسے کہ وہ آسمان کی جانب رواں دواں ہو گئے ہیں۔ انکے ہاتھ بڑی پر اعتمادی سے مسیح یسوع کت ہاتھ میں دئیے گئے تھے۔ جب کہ انکے قدم زمانوں کی چٹان پر مستحکم کر دئیے گئے۔ موت کا سارا خوف معدوم ہو جاتا اور اگر اب انہیں نجات دہندہ کے نام کی خاطر جیل جانا پڑے یا آگ میں کباب بننا پڑے تو وہ ہر دو کے لئے بصد شوق تیار ہوتے تھے۔ AK 70.2

یوں خُدا کا کلام خفیہ جگہوں میں پہنچایا اور پڑھاجاتا بعض اوقات تو صرف ایک ہی شخص کے لئے ا ور بعض دفعہ چھوٹی سی جماعت کے لئے جونور اور سچائی کی خواہش مند ہوتی۔ اکثر اس طریقہ سے ساری ساری رات بیت جاتی ۔ سا معین کا شوق وذوق اس قدر ہوتا کہ وہ رحم کے پیامبر کو اس وقت تک نہ کرنے دیتے جب تک کہ انہیں نجات کی خوشخبری کی پوری پوری سمجھ نہ آ جاتی۔ لوگ اس طرح کے سوالات کرتے“کیا خُداوند واقعی میرا بدیہ قبول کر لے گا؟ کیاوہ مجھ پر مسکرائے گا؟ کیا وہ مجھے معاف کردے گا“؟ایسوں کے لئے یہ جواب پڑھایا جاتا:“اے محنت اٹھانے والو اور بوجھ سے دیے ہوئے لوگو سب میرے پاس آو میں تم کو آرام دوں گا۔ “متی 28:11۔ AK 70.3

جب ایمان وعدے کو تھام لیتا تو یہ پر مسرت جواب سننے کو ملتا:“اب کوئی لمبی یاترا اداکار نہیں۔ اب سے تکلیف دہ مقدس مقامات کی زریات ختم ۔ جیسا بھی میں ہوں مسیح یسوع کے پاس آوں گا خواہ میں گناہ گار اور نجس ہوں کیونکہ وہ نائب دل کی دعا کو ہر گز رونہ یگا“۔ تیرے گناہ معاف ہوئے وہ کہتے میرے ہاں میرے گناہ بھی معاف کئے جائیں گے“۔ AK 71.1

پاکیزہ خوشی و مسرت کی ایک لہر دل کو معور کر دیتی اور مسیح یسوع کا بام تعریف اور شکر گزاری کی بدولت سر بلند ہو جاتا- وہ خوش بخت روحیں اپنے گھروں کو لوٹ جاتیں تاکہ روشنی کو پھیلا ئیں اور اپنے نئے تجربہ کے متعلق جہاں تک ہو سکے دوسروں کو بتائیں کہ انہوں نے نئی اور حقیقی زندگی کو پا لیا ہے ۔ کلامِ مقدس کے الفاظ میں ایسی عجیب و غریب قدرت اور قوت موجود تھی جو براہِ راست ان دلوں سے مخاطب ہوتی جو سچائی کے متلا شی ہوتے تھے۔ یہ آواز خُداوند کی تھی جس نے ان سب کو قائل کر دیا جنہوں نے اس آواز پر کان دھرا۔ AK 71.2

صداقت کا پیامبر تو اپنی راہ چلا جاتا تھا مگر اس کی فروتنی کی جھلک، اس کی خلوص نیتی اس کی ایمان داری اور دلی گرم جوشی کی اس کے حلقہ بگوش بدستورذ کر کرتے رہتے۔ کئی مواقع پر ایسا ہوا کہ اسکے سامعین نے اسے یہ بھی نہیں پوچھا کہ وہ کہاں سے آیا اور کہاں گیا۔ اور وہ اس لئے کہ پہلے تو وہ بڑی حیرانی میں ڈوب جانے اور بعد میں وہ خوشی اور شکرگزاری میں کھو جاتے ایسے میں اس سے سوال کرنا انہیں یا وہی نہ رہتا۔ اور جب انہوں نے اسے اپنے گھروں میں آنے کے لئے ترغیب دی تو اس کا جواب تھا کہ مجھے گلے کی کھوئی ہوئی اور بھیڑوں سے سے بھی ملاقات کرنی ہے۔ پھر انہوں نے خود سے سوال کیا کہ کہیں یہ کوئی آسمانی فرشتہ تو نہیں تھا؟ AK 71.3

کئی حالات میں سچائی کا یہ پیامبر پھر کبھی دوبارہ دیکھنے کو نہ ملا تھا کیونکہ دوسرے کسی ملک چلاجاتا پھر وہ کسی قید خانہ میں پڑا آپنی زندگی کے دن گن رہا ہوتا تھا۔ پھر شائد اس کی ہڈیاں اسی جگہ چکنا چور کر دی گئی ہوتیں جہاں وہ سچائی کی گواہی دے رہا ہوتا تھا۔ مگر جو کلام وہ اپنے پیچھے چھوڑ جاتا وہ کبھی تلف نہ ہوتا۔ وہ لوگوں کے دلوں میں اپنا کام ہوتا تھا۔ ان کی خدمت کے پورے نتائج صرف روز ِعدالت کو ہی معلوم ہو سکیں گے۔ AK 71.4

والڈسس مشنری ابلیس کی سلطنت اور تاریکی کے حاکموں پر حملہ کرتے تھے جس سے ابلیس پہلے سے زیادہ کس ہو جاتا۔ ہر کوشش جو صداقت کی پیش قدمی کے لئے جاتی ہے، بدی کا شہزادہ اس پر کڑی نظر رکھتا ہے اور اپنے کارندوں کی دہشت کو بھڑکاتاہے۔ پوپ کی قیادت نے پہلے سے ہی بھانپ لیا کہ ان خانہ بدوشوں کی کو شش سے ہمارے مشن کا بہت بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر اس سچائی کی روشنی کو روکے ٹوکے بغیر ہی چمکنے دیا تو ان کی غلط تعلیمات کے ان گہرے بادلوں کے خلاف کو ان کے اوپر سے اتار پھینکے گی۔ اسطرح لوگوں کی سوچ واحد خُدا کی طرف متوجہ ہو جائے گی جو بالآخر رام کی برتری کو تباہ کرکے رکھ دے گی۔ AK 72.1

ان لوگوں کی موجودگی قدیم کلیسیائی ایمان کو تھامے رکھنے کا باعث تھے یعنی روم کی برگشتگی کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی گواہی تھی ۔ جس نے ان کے خلاف سخت نفرت اور شدید ایذا رسانی کے عمل کو بھڑکایا تھا۔ کلام کے اس نسخہ کو جو ان کے پاس تھا سپرد نہ کرنا بھی ایسی خلاف ورزی تھی جسے روم برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔ اس لئے اس نے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا نے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ جس کے لئے ایک بڑی ہی ہولناک جنگ خُدا کے ان لوگوں کے خلاف ان ہی کے پہاڑی گھروں میں شروع کر دی گئی ۔ کھوج لگانے دانے ان کے پیچھے لگادیئے گئے اور پھر وہی معصوم ہابل اور خونی قائن والا منظر بار بار دہرایا گیا۔ AK 72.2

انکی زرخیز زمینیں بار بار کر دی جاتیں ان کے گھر اور چپل مسمار کر دئیے جاتے لہٰذا جہاں کسی وقت لہلہاتے کھیت اور معصوم لوگوں کے گھر تھے اور جفائش محنتی لوگ بستے تھے وہاں اجاڑ بیابان رہ جاتا۔ جیسے کوئی خونخواردندہ خون کے چسکے سے مزید غضب ناک ہو جا تا ہے۔ اسی طرح اپنے آفت زدہ شکار کو دیکھ کر پوپ کے حواریوں کا غصہ مزید شدت اختیار کر لیتا۔ خالص ایمان والے بہیترے گواہوں کا تعاقب پہاڑوں اور نیچے وادیوں میں کیا گیا جہاں وہ چھپے ہوئے تھے۔ اس طبقہ کے خلاف کوئی بھی ایسا اخلاقی الزام نہ لگایا گیا جس سکا جس کی وجہ سے انہیں واجب القتل قرار دیا جاتا جلاوطن کیا جاتا۔ حتٰی کہ ان کے دشمن بھی اقرار کرتے کہ وہ صلح پسند ، سادہ اور متقی لوگ ہیں۔ ان کا سب سے بڑا جرم یہی تھا کہ وہ خُدا کی عبادت پوپ کی مرضی کے مطابق نہیں کرتے تھے۔ انکے اسی جرم کی پاداش میں ان پر ہر طرح کی تذلیل ہتک اور ظلم و تشد جو لوگ اور شیطانی ارواح کر سکتے تھے کیا گیا۔ AK 72.3

جب روم نے ایک موقع پر اس مذہبی فرقہ کو جس سے وہ نفرت کرتا تھا نیست و نابود کرنے کا تہیہ کر لیا تو اس فرقہ کو بدعتی قرار دینے کا پوپ نے فرمان جاری کر دیا۔ اور کہا کہ یہ فرقہ واجبالقتل ہے۔ ان پر کاہل آوارہ بددیانت یا امن عامہ میں خلل ڈالنے کے الزامات نہ لگائے گئے بلکہ کہا گیا کہ ان کی وضح قطع پر ہیز گاروں اور مقدسین کی سی ہے جو “حقیقی گلے کی بھیڑوں” گمراہ کر سکتی ہے۔ اسی بنا پر پوپ نے حکم دیا کہ یہ بد وطن، نفرت انگیز اور بدخواہوں کا فرقہ اگر یہ اپنے دعویٰ سے دست بردار نہیں ہوتا تو اسے زہریلے سانپ کی طرح کچل کے رکھ دیا جائے“۔ AK 73.1

کیا اس مغرور حاکم کو اپنے الفاظ کا دوبارہ سامنا کرنے کا اندازہ ہو گا؟ کیا اسے علم تھا کہ انکا اندراج آسمانی کتاب میں ہو چکا ہے۔ جن کا اب سامنا اسے روزِعدالت کو کرنا ہو گا۔ جب تم نے میرے اسن سب سے چھوٹے بھائیوں میں کسی کے ساتھ یہ سلوک کیا مسیح یسوع نے کہا تو میرے ساتھ کیا” متی 40:25 ۔ AK 73.2

اس حکم کے ذریعہ تمام کلیسیائی ممبرز کو اکٹھا کیا گیا تاکہ وہ اس بدعتی گروہ کے خلاف جنگ شامل ہوں۔ اس سفاک کام میں شامل ہونے والوں سے وعدہ کیا گیا کہ ” وہ تمام آسمانی تکالیف اور ہر چھوٹے بڑے کلیسیائی ہر جانے سے بری ہوں جائیں گے۔ ان سے کہا گیا کہ جتنے بھی لوگ اس جنگ میں حصہ لیں گے خواہ انہوں نے جرمانے کرنے کی قسمیں لکھی ہوں گی تو انہیں بھی معاف کر دیا جائے گا اور اگر انہوں نے کسی کی ملکیت پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہو گا اسے بھی جائز قرار دے دیا جائے گا ۔ اگر وہ کسی بدعتی کو موت کے گھاٹ اتار دیں تو اسے وعدہ کیا گیا کہ اسکے تمام گناہ معاف کر دیا جائے گا اور اس فرمان کے جاری ہوتے ہی والڈسس کے ساتھ کئے گئے تمام معاہدوں کو منسوخ کر دیا گیا اور یہ حکم دیا گیا کہ والڈسس کے گھروں اور مویشیوں کو ختم کر دیا جائے اور نیز تمام لوگوں سے کہا کہ ان کو کسی بھی قسم کی مدد نہ دی جائے بلکہ تمام لوگوں کو یہ اجازت دے دی گئی کہ انکی ملکیت کو ہتھیا لیں۔ ” AK 73.3

دستاویز سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کون سی روح اس سارے منظر کے پیچھے کار فرما تھی۔ یہ اژداہا کی دھاڑتھی نہ کہ مسیح کی آواز جووہاں سنی گئی ۔ پوپ کی ساری قیادت خُدا کی شریعت کے عظیم معیار کے مطابق خود کو تکمیل کر نے کے لئے تیار نہیں تھے۔ بلکہ انہوں نے ایک ایسا معیار مقرر کر لیا جو ان کے اپنے مناسب حال تھا اور پھر سب مجبور کیا وہ خود کو ایسا ہی بنا لیں۔ کیونکہ یہی روم کی مرضی تھی ۔ نہایت ہی وحشتناک مصائب عمل میں لائی گئیں۔ یہ کرپٹ اور کفر گو پریسٹس اور انکا پوپ وہ کام کر رہے تھے جس کے لئے ابلیس نے انہیں تعنیات کیا تھا۔ انکے دلوں میں رحم نام کی کوئی چیز نہ تھی ۔ وہی روح جس نے مسیح یسوع کو مصلوب اور اس کے رسولوں کو قتل کیا تھا۔ وہی روح جس نے خون کے پیاسے نبرہ کو اپنے زمانے کے ایمانداروں کے خلاف متحرک کیا تھا وہی روح اسکا کام پر بھی معور تھی کہ خُدا کے پیاروں کو اس دھرتی سے نیست و نابود کر دے۔ AK 73.4

خُدا کا خوف رکھنے والے ان حضرات پر صدیوں ایذا رسانی کا سلسلہ جاری رہا اور انہوں نے بھی اسے بڑے صبرق استقلال کے ساتھ برداشت کیا۔ جس کے باعث مسیح کی تمجید ہوئی ۔ اپنے خلاف جنگ اور انسانیت سوزقتل و غارت کے باوجود وہ پیش قیمت سچائی کو پھیلانے کے لئے اپنے مشزیز بیرون ملک بھجتے رہے ۔ان کا تعاقب کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتارا دیا جاتا یوں جو انہوں نے بیچ بویا اسے اپنے خون سے سینچا جو بہت سا پھل لایا۔ یوں والڈنسس نے لوتھر کی پیدائش سے کئی صدیوں پیشتر خُدا کی گواہی دی۔ جن ملکوں میں وہ پرا گندہ کئے گئے وہاں انہوں نے ہی اس ریفریمیشن کے بیچ بودیا جو کلف کے زمانہ میں شروع کی گئی ۔ وہ مزید بڑھتی اور پھلی حتیٰ کہ لوتھر کے زمانہ میں اس نے اور زیادہ گہری جڑین پکڑ لیں۔ اب اسے اخیر زمانہ تک وہ لوگ لے کر جائیں گے جو خُدا کے کلام اور مسیح یسوع کی گواہی کے باعث ہر طرح کا دکھ جھیلنے کے لئے تیار ہیں۔ (مکاشفہ9:1) AK 74.1

*****