پولُس کی خدمات با برکت ثابت ہو رہی تھیں بُہت سی رُوحیں تبدیل ہو کر زور پکڑ رہی تھیں اور ایماندار دلاسا، تسلی اور حوصلہ پا رہے تھے اسی دوران بلائیں سر اُٹھا رہی تھیں جن سے نہ صرف رسُول کی زندگی کو خطرہ لاحق تھا بلکہ کلیسیا کی اقبا لمندی اور فلاح و بہبودی بھی خطرے میں تھی۔ جب پولُس روم آیا تھا تو اسے شاہی دستے کے ایک محافظ کی نگرانی میں رکھا گیا تھا۔ وہ شخص ایماندار اور انصاف پسند تھا ۔ اسی کی نظر عنایت سے رسُول کو انجیل کی تشہیر کرنے کی سہولت میسر آئی تھی۔ مگر دو سالہ قید کی مدت ختم ہونے سے پہلے رسُول کو ایسے شخص کی تحویل میں دے دیا گیا جس سے پولُس کسی خاص حمایت کی اُمید نہ رکھتا تھا۔ IKDS 453.1
پولُس کے یہودی دُشمن سے کہیں زیادہ سرگرم ہو گئے اور انہیں ایک شہوت پرست یہودن مل گئی جو نیرہ کی داشتہ (دوسری بیوی) تھی اس کے ذریعہ انہوں نے مسیحیت کے ہیرو کو مروانے کا منصوبہ تیار کر لیا۔ IKDS 453.2
پولس کو قیصر سے انصاف کی بہت ہی کم اُمید تھی جس کے ہاں اس نے اپیل کر رکھی تھی۔ نیرو نہات ہی گھٹیا اخلاق کا شخص تھا اور جتنے اس سے پہلے بادشاہ گزرے تھے ان سب سے زیادہ بد ذات اور نابکار اور ظالم واقع ہُوا تھا۔ اس سے پیشتر عنان حکومت اس سے زیادہ جابر اور خُود سر کے ہاتھ میں آئی ہو گی۔ اس نے پہلے سال اپنے سوتیلے بھائی کو زہر دے کر مار دیا جو تخت کا جائز وارث تھا۔ نیرویکے بعد دیگرے بدکاریاں، سیہ کاریاں کرتا چلا گیا یہاں تک کہ اس نے اپنی ماں کو قتل کروا دیا اور پھر اپنی بیوی کو بھی اسی طرح موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کوئی ایسی حماقت نہیں تھی۔ جس سے یہ باز رہا ہو۔ اور کسی ذلیل سے ذلیل عمل کے لئے بھی اس نے ہاتھ کو نہ روکا۔ ہر شریف شخص کے دل میں اس کے لئے نفرت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ IKDS 453.3
جو بدکاریاں اس کے دربار میں معمول بن گئی تھیں انکا بیان کرنا زبان اور قلم کو زیب نہیں دیتا۔ جن کو وہ ان برائیوں میں شریک ہونے کے لئے مجبور کرتا تھا ان کے لئے بھی یہ مکروہ تھیں۔ وہ ہر وقت اس خطرے میں رہتے تھے کہ نہ جانے اگلی بار یہ کس گناہ کبیرہ کا مشورہ دے دے۔ نیرو کے اس پاجی پن اور خباثت کے باوجود کوئی بھی اس کی تابعداری سے انحراف نہیں کرتا تھا۔ بلکہ اسے تمام تہذیب یافتہ دُنیا کا حاکم اعلیٰ مانتے تھے اور اسے دیوتا کی طرح پوجتے تھے۔ IKDS 454.1
انسانی نقطہ ء نظر سے ایسے منصف کے ہوتے ہوئے پولُس کی سزائے موت کا حُکم یقینی تھا۔ مگر رسُول کا یہ پُورا پُورا یقین تھا کہ جب تک وہ خُدا کے ساتھ وفادار ہے اسے کسی کا ڈر نہیں۔ وہ جو ماضی میں اسے سنبھالتا رہا ہے وہی اسے یہودیوں کے تعصب اور قیصر کےہاتھ سے پناہ دے گا۔ IKDS 454.2
سچ مچ خُد ا نے اپنے قُوت بازو سے اپنے خادم سنبھالا اور پناہ دی۔ وہ الزامات جو پولُس پر لگائے گئے وہ ثابت نہ ہو سکے اور یہودیوں کی توقع کے خلاف نیرو نے پولُس کو بے گناہ قرار دیا۔ پولُس کی زنجیریں اُتار دی گئیں وہ دوبارہ آزاد ہو گیا۔ IKDS 454.3
اگر پولُس کو کسی وجہ سے ایک اور سال روم میں ٹھہرنا پڑ جاتا اور اس کی پیشی کی مُدت بڑھ جاتی تو وہ ان ایذا رسانیوں کا شکار ہو جاتا جو اگلے سال شُروع ہو گئی تھیں۔ پولُس کی قید کے زمانہ میں مسیحیت کی تعداد اس قدر بڑھ گئی جن کی طرف سے ارباب اختیار کو تشویش ہوئی اور مسیحیوں کے لئے ان کے دل میں دشمنی پیدا ہو گی۔ شہنشاہ کا غصہ اس کے اپنے گھر انے کے لوگوں کا مسیحیت کے حلقہ بگوش ہونے کے سبب بھڑکا۔ اور اسے جلد ہی مسیحیوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنانے کا بہانہ مل گیا۔ IKDS 454.4
اسی دوران روم میں آگ بھڑک اٹھی جس سے کم و بیش آدھا روم جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ خبری یہی تھی کہ نیرو ہی نے یہ آگ لگوائی تھی مگر اس پر پردہ پوشی کے لئے نیرو نے اُن لوگوں کو جو متاثر ہوئے دل کھول کر اُن کی امداد کی۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ناشائستہ حرکت اسی نے کی تھی اس لئے عوام غصہ سے آگ بگولہ ہو کر اشتعال انگیزی پر اُتر آئے تھے۔ چنانچہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے اور اُن لوگوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے جن سے وہ نفرت کرتا تھا (یعنی مسیحیوں سے) نیرو نے مسیحیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کا حربہ کامیاب رہا اور ہزاروں مسیحی بہن بھائی اور بچے بڑی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ IKDS 455.1
اس ہولناک ایذا رسانی سے پولُس محفوظ رہا کیونکہ قید سے رہا ہونے کے فوراً بعد وہ روم سے چلا گیا۔ اس نے اپنا یہ آخری وقت بدل و جان کلیسیاوں کے سُدھار کے لئے صرف کیا۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ وہ یونانی اور مشرقی کلیسیاوں کے درمیان نہ ٹوٹنے والا اتحاد قائم کر سکے۔ اور جھوٹی تعلیم کے خلاف جو کلیسیاوں میں گھُس رہی تھی اور ایمان کو خراب کر رہی تھی اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ایمانداروں کو تیار کر سکے۔ IKDS 455.2
آزمائشیں، تکالیف اور تفکرات جو پولُس کو برداشت کرنا پڑے اُن کی وجہ سے اُس کی جسمانی صحت برباد ہو گئی۔ عمر کے لحاظ سے کمزویوں اور بیماریوں نے اسے آ گھیرا۔ اس نے گمان کیا کہ اب اس کی خدمت اختتام پذیر ہونے کو ہے۔ اور جب اس کی خدمت کی معیاد کم ہو گئی اُس کی کوششیں مزید شدت اختیار کر گئیں۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ اس کے جوش و جذبہ کی کوئی حد نہیں۔ مقصد میں چابت قدم، اعمال میں مستعد و آمادہ، ایمان میں مستحکم اس نے کلیسیاوں میں جا جا کر جس قدر اس کے بس میں تھا ایمانداروں کے ہاتھ مضبوط کئے اور مسیح کےلئے رُوحوں کو جیتا اور اُنہیں تلقین کی کہ ظلم اور مصیبت اور آزمائش کے وقت جس میں وہ داخل ہو رہے تھے انجیل کے لئے ثابت قدم رہیں اور وفاداری سے مسیح کی گواہی دیں۔ IKDS 455.3