خدا کی محبّت جس کا مصدر خداوند مسیح ہے، انسان کی محبّت کو برباد نہیں کرتی بلکہ اس کی شمولیت کو پسند کرتی ہے۔ اس سے انسانی محبّت پاک، سر بلند اور سرفراز ہوتی ہے جب تک انسانی محبّت، الہی فطرت سے اتحاد کر کے آسمان کی طرف نشوونما پانے کی تربیت نہیں پاتی۔ وہ انمول پھل نہیں لا سکتی۔ خداوند یسوعؔ مسیح خوشحالی اور با مسرّت شادیاں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ پاک کلام میں مرقوم ہے کہ خداوند مسیح اور آپ کے حوارین کو شادی کی ضیافت (قانائے گلیل) میں دعوت دی گئی تھی۔ خداوند مسیح نے مسیحی لوگوں کو یہاں یہ درس نہیں دیا کہ جب ان کو شادی میں آنے کی دعوت دی جائے تو وہ ایسی خوشی کے موقع پر حاضر نہ ہوں۔ بلکہ اس ضیافت میں شامل ہونے سے خداوند مسیح نے سکھایا کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم ان کے ساتھ جو خداوند کی مقرر کردہ خوشیوں میں شریک ہوں، شامل ہوں جب خدا کے احکام کے مطابق آدمی معصوم خوشیاں مناتا ہے تو خدا ان میں شمولیت کی حوصلہ شکنی نہیں کرتا۔ جس اجتماع میں خداوند نے حاضر ہو کر توقیر کی اس میں اس کے مقلدین کو بھی شامل ہونا درست ہے۔ اس ضیافت کے بعد خداوند نے کئی اور ایسی ضیافتوں میں شمولیت کر کے انہیں اپنی پاک حضوری سے پاک ٹھہرایا اور تعلیم و تربیت عطا فرمائی۔ CChU 178.1
گو دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے حسب حال ہوں تو بھی اِس بات کا کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ ہم ایسی شان و شوکت اور تزئین و آرائش کریں۔ CChU 178.2
مجھے ہمیشہ یہ بات بڑی غیر مناسب معلوم ہوتی ہے کہ شادی بیاہ کی رسم میں ہنسی ، ٹھٹھا، مذاق اور ایسی ہی غیر معقول اور بڑی شان و شوکت کی باتیں کی جاتی ہیں۔ یہ بالکل بجا نہیں کیونکہ شادی ایک پاکیزہ رسم ہے جس کو خدا نے مقرر کیا ہے اور اس میں ہمیشہ بہت سنجیدگی اور احترام ہونا چاہیے۔ جب خاندانی تعلق قائم کیا جاتا ہے تو اس سے یہ ظاہر کیا جانا چاہیے کہ وہ کیا کچھ ہوں گے یعنی آسمانی خاندان کے افراد۔ لہٰذا ہمیشہ خدا کے جلال کو سب سے مقدم ہونا چاہیے۔ (اے ایچ ۹۹۔۱۰۱) CChU 178.3