فطرت میں خدا کی صنعتگری کا ہرگز یہ مطلوب نہیں کہ فطرت کی چیزوں میں خود خدا ہے- فطرت کی چیزیں خدا کی قدرت اور اس کی سیرت کا مظہر ہیں مگر ہم فطرت کو خدا نہیں مانتے- جس طرح انسانوں کی خوبصورت کاریگری جو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے یہ چیزیں بنانے والے کے بارے ہمیں کچھ بتاتی ہیں مگر جو چیزیں بنائی گئی ہیں وہ خود خالق نہیں ہیں- بنی ہوئی چیز کی اتنی فضیلت نہیں جتنی بنانے والے کی- اسی طرح کی فطرت خدا کا مظہر ہے- اس لئے فطرت کی نہیں بلکہ خداوند کی ہی تعریف ہو- SKC 294.6
“آؤ ہم جھکیں اور سجدہ کریں- اور اپنے خالق خداوند کے حضور گھٹنے ٹیکیں” زبور -6:95 SKC 295.1
“زمین کے گہراؤ اس کے قبضے میں ہیں- پہاڑوں کی چوٹیاں ببھی اسی کی ہیں- سمندر اس کا ہے- اسی نے اس کو بنایا- اسی کے ہاتھوں نے خشکی سکو بھی تیار کیا”زبور -5-4:95 SKC 295.2
“وہی ثریا اور جبّار ستاروں کا خالق ہے جو موت کے سائے سکو مطلع نور اور روز روشن کو شب دیجور بنا دیتا ہے- اور سمندر کے پانی کو بلاتا اور روی زمین پر پھیلاتا ہے جس کا نام خداوند ہے” عاموس -8:5 SKC 295.3
“وہی آسمان پر اپنے بلا خانے تعمیر کرتا ہے- اس نے زمین پر اپنے گنبد کی بنیاد رکھی- وہ سمندر کے پانی کو بلا کر روئے زمین پر پھیلا دیتا ہے اسکا نام خداوند ہے”عاموس -6:9 SKC 295.4
“کیونکہ دیکھ اسی نے پہاڑوں کو بنایا اور ہوا کو پیدا کیا- وہ انسان پر اس کے خیالات کو ظاہر کرتا ہے اور صبح کو تاریک بنا دیتا ہے اور زمین کے اونچے مقامات پر چلتا ہے- اس کا نام خداوند رب الافواج ہے”عاموس -13:4 SKC 295.5