پیدائش کے کام سکو سائنس بیان نہیں کر سکتی- سائنس زندگی کے بھید کو کے بیان کر سکتی ہے؟ “ایمان ہی سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ عالم خدا کے کہنے سے بنے ہیں- یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہے”عبرانیوں -3:11 SKC 295.6
“میں ہی روشنی کا موجد اور تاریکی کا خالق ہوں- میں ہی خداوند یہ سب کچھ کرنے والا ہوں- میں نے زمین بنائی اور اس پر انسان سکو پیدا کیا- اور میں ہی نے ہاں میرے ہاتھوں نے آسمان کو تانا اور اس کے سب لشکروں پر میں نے حکم کیا”یسعیاہ-12,5:45 SKC 295.7
“یقینا میرے ہی ہاتھ نے زمین کی بنیاد ڈالی اور میرے داہنے ہاتھ نے آسمان کو پھیلایا- میں ان سکو پکارتا ہوں اور وہ حاضر ہو جاتے ہیں”یسعیاه-13:48 SKC 295.8
زمین کی تخلیق کے لئے خداوند کو پہلے سے موجود کسی جوہری مادے پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی- SKC 296.1
“اس نے فرمایا اور ہو گیا- اس نے حکم دیا اور واقع ہوا”زبور-9:33 اور روحانی چیزیں اس کے سامنے سربستہ کھڑی ہو گئیں- SKC 296.2
جب اس نے پکارا تو تمام مادی اور روحانی چیزیں اس کے حضوری کھڑی ہو گئیں- اور اس نے انہیں اپنے مقصد کے لئے بنایا آسمان اور اس کا لشکر، زمین اور جو کچھ اس میں ہے اس کے منہ کے دم سے وجود میں آ گیا- SKC 296.3
انسان کی تخلیق میں خداوند خدا کی اپنی ہستی سکو بڑا عمل دخل ہے- جب خدا نے انسان سکو اپنی شبہ پر بنا لیا، بیشک انسانیت کا بت بلکل مکمل تھا، مگر اس میں جان نہ تھی- پھر خداوند خدا نے اس بت میں اپنا دم پھونکا، اور انسان جیتی جان ہوا- ایسا انسان جو عقل اور شعور اور ادراک سے بہرہ ور تھا- پھر انسان کے تمام اعضاء حرکت کرنے کے لئے تیار تھے- SKC 296.4
دل، خون کی نالیاں، نسیں، زبان، ہاتھ، پاؤں، حواس خمسہ ذہنی قوا کام کرنے لگیں- ان سب سکو خداوند خدا نے قانون اور ضابطے کے تحت رکھا- یوں انسان جیتی جان ہوا- خداوند خدا نے انسان کو تخلیق کیا اور اسے شعور، عقل اور قوت عطا کی- SKC 296.5
جب ہم پوشیدگی میں شکل پا رہے تھے تو ہمارا بےترتیب مادہاس کی آنکھوں سے پوشیدہ نہ تھا- اور جب کہ ابھی کچھ بھی وجود میں نہ آیا تھا اس کی کتاب میں ہمارے تمام اعضاء درج تھے- SKC 296.6
تمام تخلیق میں انسان خدا کا شاہکار ہے- چاہیے کہ انسان خدا کا جلال ظاہر کرے نہ کہ اپنا— SKC 296.7
“اے اہل زمین! سب خدا کے حضور خوشی کا نعرہ مارو- خوشی سے خداوند کی عبادت کرو- گاتے ہوۓ اس کے حضور حاضر ہو- جان رکھو کہ خداوند ہی خدا ہے- اس نے ہم کو بنایا اور ہم اسی کے ہیں- ہم اس کے لوگ اور اس کی چراہ گاہ کی بھیڑیں ہیں- شکر گزاری کرتے ہوۓ اس کے پھاٹکوں میں اور حمد کرتے ہوۓ اس کی بارگاہوں میں داخل ہو- اس کا شکر کرو اور اس کے نام کو مبارک کہو”زبور -4-1:100 SKC 296.8
“تم خداوند ہمارے خدا کی تمجید کرو- اور اس کے مقدس پہاڑ پپر سجدہ کرو- کیونکہ خداوند ہمارا خدا قدوس ہے”زبور -9:99 SKC 296.9
جو چیزیں خداوند خدا نے تخلیق کی ہیں وہ انہیں مسلسل اپنی خدمت کے لئے خادموں کے طور پر استعمال کرتا ہے- وہ فطرت کے قوانین کے ذریعہ کام کرتا ہے اور انھیں اپنے آلہ کار کے طور استعمال میں لاتا ہے-وہ خود بخود حرکت میں نہیں آ سکتیں- فطرت اپنے کاموں سے اس کی گواہی دیتی ہے جو اس میں موجود ہو کر سرگرم عمل ہے اور اپنی مرضی کے مطابق اس سکو (فطرت) حرکت میں لاتا ہے- اور اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے- SKC 297.1
“اے خداوند تیرا کلام آسمان پر ابد تک قائم ہے- تیری وفاداری پشت در پشت ہے- تو نے زمین کو قیام بخشا اور وہ قائم ہے- وہ آج تیرے احکام کے مطابق قائم ہیں کیونکہ سب چیزیں تیری خدمت گزار ہیں” زبور -91-89:119 SKC 297.2
“آسمان اور زمین میں، سمندر اور گراؤ میں خداوند نے جو چاہا وہی کیا” زبور -6:135 SKC 297.3
“یہ سب خداوند کے نام کی حمد کریں- کیونکہ اس نے حکم دیا اور یہ پیدا ہو گئے- اس نے انکو ابد الآ باد کے لئے قائم کیا ہے- اس نے اٹل قانون مقرر کر دیا ہے” زبور -6-5:148 SKC 297.4
یہ زمین کی جبلت میں نہیں کہ وہ سال بہ سال اپنی پیداوار دیتی اور سورج کے گرد گھومتی ہے- بلکہ اس سیارے سکو خداوندتعالیٰ کا ہاتھ بدستور سنبھالتا اور اس کی رہنمائی کرتا ہے- یہ خداوند ہی کی قدرت ہے جو اسے اپنے محور کے گرد گھومنے میں مدد کرتی ہے- یہ خداوند ہی ہے جس نے سورج کو حکم دیا کہ آسمانوں میں طلوع ہو- وہی آسمان کی کھڑکیاں کھول کر مینہ برساتا ہے- SKC 297.5
“وہ برف کو اون کی مانند گراتا ہے اور پالے کو راکھ کی مانند بکھیرتا ہے” زبور -16:147 SKC 297.6
“اس کی آواز سے آسمان میں پانی کی فراوانی ہوتی ہے- اور وہ زمین کی انتہا سے بخارات اٹھاتا ہے- وہ بارش کے لئے بجلی چمکاتا اور اپنے خزانوں سے ہوا چلاتا ہے” یومیاہ -13:10 SKC 297.7
انسانی نظام سکو پوری طرح سمجھنا ناممکن ہے- بڑے بڑے دانشور بھی اس بھید سے ناواقف ہیں- یہ اس طرح کا نظام نہیں جسکو ایک دفعہ چالو کر دیا تو پھر خود بخود رواں دواں رہے گا- یعنی خود ہی دل کی دھڑکن جاری رہے گی اور سانس نہ رکے گی- ایسا نہیں بلکہ دل کی ہر دھڑکن، نبض، ہر نس اور پٹھا ایک خاص انداز میں رکھا گیا ہے اور اسے ازلی خداوند کی قائم اور رواں دواں رکھتی ہے- SKC 297.8
کتاب مقدس بتاتی ہے کہ خداوندتعالیٰ بلند اور پاک مقام میں رہتا ہے- وہ وہاں نہ تو بے حس وحرکت ہے اور نہ ہی تنہا- بلکہ ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ پاک فرشتوں سے گھرا ہوا ہے اور سب کے سب اس کی مرضی بجا لانے کے لئے تیار کھڑے ہیں- ان پیامبروں کی وساطت سے وہ اپنی سلطنت کے ہر حصے میں سرگرم عمل ہے- اپنی روح کے ذریعے وہ ہر جگہ حاضر وناظر ہے- اپنے پاک فرشتگان اور اپنی روح کی نمائندگی کی وجہ سے وہ آل آدم کی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے- SKC 298.1
زمینی اضطراب سے بے نیاز وہ اعلیٰ و بالا مقام پر تخت نشین ہے- ہر چیز اس کے سامنے بے پردہ ہے- اور جو کچھ وہ دیکھتا اور بہتر سمجھتا ہے کرنے کا حکم دیتا ہے- SKC 298.2
“اے خداوند! میں جانتا ہوں کہ انسان کی راہ اس کے اختیار میں نہیں- انسان اپنی روش میں اپنے قدموں کی رہنمائی نہیں کر سکتا” یرمیاہ -23:10 SKC 298.3
“سارے دل سے خداوند پر توکل کر- اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر- اپنی سب راہوں میں اس کو پہچان- اور وہ تیری رہنمائی کرے گا” امثال -6-5:3 SKC 298.4
“دیکھو! خداوند کی نگاہ ان پر ہے جو اس سے ڈرتے ہیں- جو اس کی شفقت کے امیدوار ہیں- تاکہ ان کی جان موت سے بچائے- اور قحط میں ان سکو جیتا رکھے” زبور -19-18:33 SKC 298.5
“اے خدا! تو انسان اور حیوان دونوں کو محفوظ رکھتا ہے” زبور -7:36 SKC 298.6
“خوش نصیب ہے وہ جس کا مددگار یعقوب کا خدا ہے- اور جس کی امید خداوند اس کے خدا سے ہے” زبور -5:146 SKC 298.7
“اے خداوند! زمین تیری شفقت سے معمور ہے- مجھے اپنا آیئن سکھا” زبور -64:119 SKC 298.8
“وہ صداقت اور انصاف کو پسند کرتا ہے- زمین خداوند کی شفقت سے معمور ہے” زبور -5:33 SKC 298.9
“اے ہمارے نجات دینے والے خدا! تو جو زمین کے سب کناروں کا اور سمندر پر دور دور رہنے والوں کا تکیہ ہے- کوفناک باتوں کے زریعے سے تو ہمیں صداقت سے جواب دے گا- تو قدرت سے کمر بستہ ہو کر اپنی قوت سے پہاڑوں سکو استحکام بخشتا ہے- تو سمندر اور اس کی موجوں کے شور کو اور امتوں کے ہنگامہ سکو موقوف کر دیتا ہے” زبور -7-5:65 SKC 298.10
“زمین کی انتہا کے رہنے والے تیرے معجزوں سے ڈرتے ہیں- تو مطلع صبح سکو اور شام کو شادمانی بخشتا ہے- تو سال سکو اپنے لطف کا تاج پہناتا ہے- اور تیری راہوں سے روغن ٹپکتا ہے” زبور -11:65 SKC 298.11
“خداوند گرتے ہوۓ کو سنبھالتا اور جھکے ہوۓ کو اٹھا کھڑا کرتا ہے- سب کی آنکھیں تجھ پر لگی ہیں- تو ان سکو وقت پر ان کی خوراک دیتا ہے- تو اپنی مٹھی کھولتا ہے اور جاندار کی خواہش پوری کرتا ہے” زبور -16-14:145 SKC 299.1