Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
زمانوں کی اُمنگ - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 30 - ”اُس نے بارہ کو مخصُوص کیا“

    پھر وہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور جن کو وہ آپ چاہتا تھا اُنکو پاس بُلایا اور وہ اُس کے پاس چلے آئے۔ اور اُس نے بارہ کو مقرر کیا تاکہ اُس کے ساتھ رہیں اور وہ اُن کو بھیجے کہ منادی کریں” مرقس 13:3-14 ZU 348.1

    یہ جگہ پہاڑوں کی اطراف میں درختوں کے نیچے گلیل کی جھیل سے کچھ فاصلے پر تھی جہاں یسوع نے بارہ شاگردوں کو بُلایا۔ وہیں اُس نے پہاڑی وعظ دیا۔ کھیت اور پہاڑیاں یسوع کی دلپسند جگہیں ہوا کرتی تھیں جہاں وہ تعلیم دیا کرتا تھا۔ اُس نے زیادہ تر کھُلے آسمان تلے منادی کی کیونکہ جتنی بھیڑ اُسکے پیچھے ہو لیتی تھی اُس کو ہیکل وغیرہ میں جگہ دینا ناممکن تھا۔ اس کے علاوہ یسوع کو فطرت کے نظارے بہت پسند تھے۔ ZU 348.2

    ابو البشر نے بھی باغِ عدن کے درختوں کے نیچے خدا سے کلام کیا۔ وہیں یسوع اُس سے ملا کرتا تھا۔ بزرگ آدم اور حوا باغ عدن سے نکل جانے کے بعد بھی درختوں اور کھیتوں میں خدا کی عبادت کیا کرتے تھے۔ وہیں پر یسوع اُن کو اپنے فضل کی خوشخبری کے ساتھ ملا کرتا تھا۔ یہ یسوع مسیح ہی تھا جو جناب ابرہام سے ممرے کے بلوطوں تلےملا اور اُس سے گفتگو کی۔ اسی طرح جناب اضحاق کو خداوند مسیح کھیت میں ملا جب وہ دُعا کے لئے گیا۔ جناب یعقوب کو بیت اہل میں پہاڑی کے پاس ZU 348.3

    ملا جناب موسیٰ کلیم اللہ کو مدیان کی پہاڑیوں میں اور بزرگ داود کو مسیح خداوند میدان میں ملا جب وہ بھیڑ بکریاں چرارہا تھا۔ یہ خداوند یسوع مسیح ہی تھا جس کی ہدائت پر عبرانی لوگ پندرہ صدیوں تک ہر سال ایک ہفتہ کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہری شاخوں کی بنائی ہوئی جھگیوں میں گذارتے تھے۔ “مگر تم پہلے دن خوش نما درختوں کے پھل اور کھجور کی ڈالیاں اور گھنے درختوں کی شاخیں اور ندیوں کی بیدمجنوں لینا اور تم خداوند اپنے خدا کے آگے سات دن تک خوشی منانا “احبار 40:23-41ZU 349.1

    اپنے شاگردوں کو تربیت دینے کے لئے یسوع اُنہیں شہر کے ہنگاموں سے دُور کھیتوں اور پہاڑیوں کے پُر سکون دامن میں لے گیا۔ اپنی خدمت کے دوران اُس نے چاہا کہ لوگ اُس کے پاس کھلے آسمان تلے آ کر کلام سنیں۔ کبھی وہ اُن کو پہاڑیوں کے آس پاس ہری ہی گھاس پر بیٹھنے کی دعوت دیتا تو کبھی ندی کے صاف شفاف رواں پانیوں کے پاس۔ یہاں وہ اپنے سامعین کی توجہ مصنوعی چیزوں سے ہٹا کر فطرت کی کاریگری کی طرف لگاتا۔ فطرت کی نشوونما اور بڑھوتری میں اُس کی بادشاہی کے اصول نمایاں ہوتے تھے۔ جب انسان پہاڑوں کی طرف اپنی آنکھیں اُٹھا کر اُس کے حیرت انگیز کاموں کو دیکھتے ہیں تو اپنے لئے صداقت کے بیش قیمت اسباق حاصل کرتے۔ اور فطرت کی چیزوں کے ذریعے یسوع کی تعلیم دُہراتے ہیں۔ اگر ہم خدا کے ساتھ ملکر اُس کی فطرت کا مطالعہ کریں تو ذہن وسیع تر ہوتا اور دل سکون پاتا ہے۔ ZU 349.2

    پہلا کام کرنے کا یہ تھا کہ کلیسا کو منظم کیا جاے تاکہ جب یسوع آسمان پر صعود فرما جاءے تو یہ اُس کے نمائندوں کی حیثیت سے اُس کام کو آگے بڑھائیں جو اُس نے اس دھرتی پر شروع کیا تھا۔ اُن کی مخصوصیت کسی شاندار ہیکل میں نہیں بلکہ خوبصورت پہاڑ اور ندی کے کنارے ہوئی جسے وہ تاحیات نہ بھلا سکے۔ZU 349.3

    یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بُلایا تاکہ وہ اُن کو اپنی گواہی کے لئے بھیجے۔ اور جو کچھ اُنہوں نے دیکھا اور سُنا ہے اُس کی گواہی دنیا کو دیں۔ اُن کی خدمت اس لحاظ سے بڑی اہم تھی کہ خدا کے ساتھ ملکر دُنیا کو بچائیں۔ جیسے پرانے عہد نامہ میں بارہ بزرگ بنی اسرائیل کی نمائندگی کرتے تھے۔ اس طرح بارہ رسول کلیسیا کی نمائندگی کرنے کو تھے۔ مسیح یسوع کو یہ بھی معلوم تھا کہ جس کا میں انتخاب کر رہا ہوں وہ کیسے انسان ہیں۔ یعنی وہ کن خوبیوں اور خامیوں کے مالک ہیں۔ اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ اُنہیں کن مصائب کا سامنا کرنا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اُنہیں کون کون سی ذمہ داری نبھانا ہے۔ اُس نے پور رات پہاڑ پر تنہا اُن کے لئے دُعا میں گذاری جب شاگرد خود کوہ دامن میں گہری نیند سو رہے تھے۔ صبح بیدار ہوتے ہی اُس نے اُن کو بلایا کیونکہ اُسے اُن سے بہت اہم باتیں کرنا تھیں۔ ZU 350.1

    یہ شاگرد کچھ عرصہ سے یسوع کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ دوسرے شاگردوں کی نسبت یوحنا اور یعقوب ، اندریاس اور پطرس فلپس اور نتنی ایل اور متی اُس کے زیادہ قریب رہے تھے۔ اُس کے بہت سے معجزات کے گواہ بھی تھے۔ پطرس اور یعقوب اور یوحنا ان سب سے آگے بڑھ کر یسوع کے پہلو میں بیٹھا کرتا۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ وہ شاگرد جسکو یسوع زیادہ چاہتا تھا۔ نجات دہندہ تو سب کو پیار کرتا تھا۔ مگر وہ یوحنا کو دوسروں سے زیادہ چاہتا تھا۔ وہ عمر میں دوسروں سے چھوٹا تھا اور یسوع کی باتیں قبول کرنے میں زیادہ فراخ دل تھا۔ اس لئے یسوع کو اُس سے زیادہ ہمدردی تھی۔ اسی وجہ سے یوحنا کے ذریعے یسوع نے اپنے لوگوں کو زیادہ گہری روحانی تعلیم پہنچائی۔ زیادہ ہمدردی تھی۔ اسی وجہ سے یوحنا کے ذریعے یسوع نے اپنے لوگوں کو زیادہ گہری روحانی تعلیم پہنچائی۔ ZU 350.2

    دوسرے شاگردوں میں فلپس پہلا شخص تھا جسے یسوع نے فرمایا “میرے پیچھے ہولے” یوحنا 43:1۔۔۔۔ فلپس بیت صدا کا باشندہ تھا جو اندریاس اور پطرس کا بھی شہر تھا۔ یوحنا 44:1 اُس نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی منادی سُنی تھی اور اُسے یاد تھا کہ یوحنا نے یسوع کے بارے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ یہ خدا کا برہ ہے۔ فلپس سچائی کا متلاشی تھا مگر ایمان لانے میں وہ بہت ہی سُست تھا۔ بیشک وہ یسوع کے حلقہ میں شامل ہو گیا تھا مگر اُسے ابھی تک شک تھا کہ آیا یسوع ذات الہٰی ہے یا نہیں۔ نتن ایل کو جب اُس نے مسیح کے متعلق بتایا تو وہ اُسے یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہی سمجھتا ہے۔ یوحنا 45:1۔۔۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جب یسوع نے پانچ ہزار کو سیر کیا یہاں بھی فلپس کے ایمان کی کمزوری ظاہر ہوئی۔ یسوع نے اُسکے ایمان کو پرکھنے کی غرض سے فلپس سے پوچھا “ہم ان کے کھانے کے لئے کہاں سے روٹیاں مول لیں؟” یوحنا 5:6۔۔۔ یسوع کو فلپس کے جواب پر بڑا دکھ ہوا۔۔۔ فلپس نے تو یسوع کی قدرت دیکھی تھی۔ اُس کے اثرات کو محسوس بھی کیا تھا مگر ابھی تک اُس میں ایمان کی کمی تھی۔ آپ کو یاد ہو گا مسیح کے مصلوب ہونے سے پہلے کچھ یونانی فلپس کے پاس آئے اور درخواست کی کہ جناب ہم یسوع کو دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ فلپس نے خود اس موقع کو غنیمت جان کر فائدہ نہ اُٹھایا۔ نہ اُنہیں یسوع کے پاس لایا نہ اُنہیں یسوع کے بارے کچھ بتایا بلکہ اندریاس کو گلیلی مردوں کی درخواست کے بارے آگاہ کیا۔ گویا اُس کا کلام پست ہمتی کے برابر تھا۔ وہ یسوع کے بارے کچھ بھی وثوق سے کہتے کی ہمت نہ رکھتا تھا کیونکہ اُس میں ایمان کی کمی تھی۔ یوحنا 20:12-22 اور جب فلپس نے یسوع سے پوچھا اے خداوند ہم نہیں جانتے کہ تو کہاں جاتا ہے۔ پھر راہ کس طرح جانیں؟ یسوع نے جواب دیا “راہ اور حق اور زندگی میں ہوں ۔۔۔ اگر تم نے مجھے جان ہوتا تو میرے باپ کو بھی جانتے۔۔۔۔ فلپس نے اپنی کم اعتقادی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔۔۔ “باپ کو ہمیں دکھا یہی ہمیں کافی ہے” یوحنا 5:14-8 فلپس تین سال سے مسیح کے ساتھ رہا تھا۔ مگر ایمان لانے میں کتنا سست اور کمزور نکلا۔۔۔ ZU 351.1

    فلپس کی کم اعتقادی کے برعکس نتن ایل کا بھروسہ یسوع مسیح میں بالکل بچوں کے ایمان اور اعتقاد کی طرح خالص تھا۔ وہ نہائت صاف دل اور مخلص فطرت کا شخص تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس کے ایمان نے ان دیکھی حقیقتوں کو تھام لیا۔ ان کمزوریوں کے باوجود فلپس یسوع کے سکول میں طالب علم کی حیثیت سے قائم رہا اور آسمانی معلم نے اُس کی کم اعتقادی اور غبی پن کو بڑے صبر سے برداشت کیا۔ جب شاگردوں پر روح القدس نازل ہوا تو فلپس ایک ایسا اُستاد بنا جو الہٰی تقاضوں کو پورا کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کس کا کلام کر رہا ہے اور کس کے لئے کر رہا ہے؟ وہ اس اعتماد کے ساتھ کلام کرتا تھا کہ سننے والے قائل ہو جاتے تھے۔ ZU 352.1

    جب یسوع شاگردوں کو اُن کی مخصوصیت کے لئے تیار کر رہا تھا۔ تو یہودہ اسکریوتی کو یسوع نے نہیں بلایا تھا۔ مگر وہ خود بخود آ ٹپکا۔ اُس نے خود کو ایسے پیش کیا جیسے کہ وہ بڑا ہی مخلص اور ایماندار شخص ہے۔ بلکہ اُس نے یسوع کو یقین دلایا “جہاں کہیں تو جائے گا میں تیرے پیچھے چلوں گا۔ یسوع نے اُس سے کہا لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابن آدم کے لئے سرد ھرنے کی بھی جگہ نہیں “متی 19:8-20 یہودہ اسکریوتی ایمان رکھتا تھا کہ یسوع ہی موعودہ مسیح ہے اور وہ جانتا تھا کہ شاگردون میں شامل ہونے کے سبب وہ اُس کی نءی حکومت میں اعلےٰ عہدے پر فائض ہو سکے گا۔ اُس کی اس امید کو ختم کرنے کے لئے یسوع نے اُسے اپنی غربت اور عسرت و ناداری کا حوالہ دیا۔ ZU 352.2

    شاگردوں کی تو دلی خواہش تھی کہ یہودہ اُن میں شامل ہو۔ وہ وجیہ نوجوان تھا جس میں ناظم کی تمام خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ بلکہ اُنہوں نے اُسکی یسوع کے سامنے یہ کہہ کر سفارش کی کہ یہ تیرے کام کے لئے بہت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر وہ اس بات پر حیران ہوئے کہ مسیح نے اُسے قبول کرنے میں نہائت سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ ZU 353.1

    شاگرد اس بات پر سخت مایوس اور بے دل تھے کہ یسوع مسیح اسرائیلی قیادت کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ اُن کے خیال میں ایسی بار سوخ شخصیات کی مدد حاصل نہ کرنا غلطی ہے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اگر اب یسوع نے یہودہ کو بھی پیچھے دھکیل دیا تو یقیناً یسوع کی حکمت اور دانش میں کہیں خرابی ہے۔ انجام کار شاگردوں کو سب کچھ معلوم ہو گیا کہ کیوں یسوع ابتدا ہی سے یہودہ کو اپنی شاگردی میں لینے سے گریزاں تھا۔ اُس کی تاریخ بتاتی ہے کہ خدا کے کلام کے لئے دُنیاوی رغبتیں رکھنے والے لوگ کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ZU 353.2

    بہرحال جب یہودہ یسوع کے شاگردوں میں شامل ہو گیا تو اُسے یسوع کی سیرت کے متعلق اُسی طرح آگاہی حاصل تھی جیسے دوسرے شاگردوں کو۔ اُس نے اُس الہٰی ذات کی قدرت کو محسو س کیا جو بنی نوع انسان کو نجات دہندہ کے قریب کھینچ لائی تھی۔ وہ جو کُچلے ہوئے سر کنڈے کو نہیں توڑتا اور اُٹھتے ہوئے دھوئیں کو نہیں بجھاتا۔۔ وہ اُس روح کو اپنے ہاں سے دور نہیں کرتا جس میں نور کو پانے کی ذرا سی بھی تمنا ہو۔ نجات دہندہ نے یہودہ کے دل کو پڑھ لیا۔ اُس نے اُس کی بدی کی گہرائی کو بھی جانچ لیا۔ اور یہ بھی سمجھ لیا کہ اگر اس گہرائی سے اسے خداوند کا فضل بچائے تو یہودہ اسکریوتی بدی کی اس اتھاہ میں ڈوب جائے گا۔ ZU 353.3

    پس یسوع نے اُسے اپنے حلقہ میں ایسی جگہ رکھا جہاں وہ ہر لمحہ مسیح کی بے لوث محبت، خود انکاری اور جان نثاری کو دیکھ سکتا تھا۔ اگر وہ یسوع کے لئے اپنا دل کھول دیتا تو خدا کا فضل اُس کے دل سے خود غرضی کے بھوت کو نکال دیتا اور وہ خدا کی بادشاہی کا وارث ٹھہرتا۔ ZU 354.1

    خداوند انسان کو اُسکی خامیوں اور خوبیوں دونوں کے ساتھ قبول کرکے اپنی خدمت کے لئے تربیت دیتا ہے۔ بشرطیکہ وہ اُس سے سیکھے اور اُس کے تابع فرمان رہے۔ خداوند اپنے خادموں کو اس لئے نہیں چنتا کہ وہ کامل ہیں۔ اُن کی خامیوں کے باوجود اُن کا انتخاب کرتا ہے تاکہ اُس کی صداقت اور پہچان کو استعمال کر کے اُسکی شبیہ میں ڈھل جائیں۔ ZU 354.2

    یہودہ کے پاس بھی دوسرے شاگردوں جیسا قیمتی موقع تھا۔ اُس نے بھی دوسرے شاگردوں کی طرح یسوع سے قیمتی اسباق کی تعلیم پائی تھی۔ مگر وہ اُن سچائیوں کو عمل میں لانے سے قاصر رہا۔ بدیں وجہ اُسے وہ حکمت اور فہم جو آسمان سے حاصل ہونا تھی نہ ہو سکی۔ ZU 354.3

    مسیح یسوع یہودہ سے بڑی ہی نرمی سے پیش آیا جو اُسے پکڑوا نے کو تھا، مسیح یسوع کی نیکی اور بھلائی کی تعلیم خود غرضی پر کاری ضرب تھی۔ یسوع اکثر اُسکے ZU 354.4

    سامنے لالچ کا نفرت انگیز پہلو پیش کیا کرتا جس سے شاگردوں کو گمان ہوتا کہ وہ یہودہ کے چال چلن کو عیاں اور اُسکے گناہوں کی نشان دہی کر رہا ہے۔ مگر یہودہ نہ اپنے گناہوں کا اقرار کرنے کو تیار تھا اور نہ ہی اپنی ناراستی کو ترک کرنے پر راضی۔ وہ سمجھتا تھا کہ مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ اسلئے آزمائش کا مقابلہ کرنے کی بجائے وہ دھوکا دہی کے کاروبار میں مسلسل آگے بڑھتا گیا۔ یسوع اُس کے سامنے ایک زندہ نمونہ تھا اور اُس کو اپنا کر وہ خدا کی نظر میں مقبول ٹھہر سکتا تھا۔ مگر یسوع کی تعلیم پر یہودہ نے بالکل کان نہ دھرا۔ ZU 355.1

    یسوع مسیح نے اُس کے بے جا لالچ پر فوراً لعنت ملامت نہ کی۔ بلکہ الہٰی صبر کے ساتھ اس غلط شخص کو برداشت کیا اور اُسے ہر موقع پر سمجھایا کہ راست کاری کا کیا اجر ہے اس کے باوجود یہودہ نے اُس نور کو ٹھکرا دیا جو اُسے زندگی بخشنے کے لئے کافی تھا۔ نور کو رد کرنے کا یہودہ کے پاس کوئی جواز نہ تھا۔ ZU 355.2

    نور میں چلنے کی بجائے یہودہ نے اپنی خامیوں کو اپنے اندر چھپائے رکھنے کا فیصلہ کیا۔ بدی کی خواہشات، بدلہ لینے کی روح، گندے گھناونے خیالات ہی اُسے مرغوب تھے۔ اس کے بعد ابلیس نے اُسکا قبضہ لے لیا۔ یوں یہودہ یسوع مسیح کے دشمن ابلیس کا نمائندہ بن گیا۔ ZU 355.3

    جب شروع میں یہودہ اسکریوتی یسوع کے پاس آیا تھا اُس میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو کلیسیا کے لئے برکت کا باعث بن سکتی تھیں۔ اگر وہ یسوع کا جُوا اُٹھانے کے لئے رضا مند ہوتا تو رسولوں کا سردار ہوتا۔ لیکن جب اس کی کمزوریاں اُس پر عیاں کی گئیں تو اُن کو دور کرنے کی بجائے اُس نے اپنا دل سخت کر لیا۔ اور گردن کشی کرکے اپنی راہیں بگاڑ لیں۔ یوں وہ خدا وند کی خدمت کے قابل نہ رہا۔ جب خداوند یسوع نے شاگردوں کو بلایا اُن سب میں ہی بڑی سنجیدہ نوعیت کی خامیاں موجود تھیں۔ حتٰی کہ یوحنا جو نہائت ہی حلیم اور شائستہ مانا جاتا ہے یسوع میسح کے پاس آنے سے پہلے ایسا نہ تھا، بلکہ یوحنا اور اُس کے بھائی کو گرج کے بیٹے کہا جاتا تھا۔ جب وہ یسوع مسیح کے ساتھ خدمت کر رہے تھے اُس وقت بھی دیکھا گیا کہ اگر کسی نے مسیح کی شان میں ذرا بھر بھی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو ان دونوں بھائیوں کا غصہ بھڑک اُٹھا۔ بد مزاجی نکتہ چینی اور بدلہ لینے کی روح یوحنا میں بدرجہ غائت موجود تھی۔ وہ تو خدا کی بادشاہی میں اول ہونے کا متمنی تھا۔ مگر یسوی ع سے ہر روز حلیمی اور صبر و تحمل کے درس لینے سے اُس میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔ اُس نے اپنے آپ کو خالی کر دیا اور یسوع کو اپنا لیا۔ اُسنے نہ صرف یسوع کی تعلیم کو بغور سنا بلکہ اُس پر عمل بھی کیا۔ وہ خداوند یسوع مسیح میں مدغم ہو گیا، کیوں کہ اُس نے یسوع کا جو اُٹھانا اور اُس کا بوجھ برداشت کرنا سیکھ لیا۔ ZU 355.4

    یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کی بوقت ضرورت گوشمالی بھی کی۔ تنبیہ کے باوجود یوحنا اور اُس کے بھائی نے یسوع کو ترک نہ کیا۔ یسوع نے بھی اُن کی خطاوں اور کمزوریوں کے باوجود اُن سے علیحدگی اختیار نہ کی۔ وہ آخر تک اُس کے دُکھوں اور آزمائشوں میں شامل حال رہے۔ اور اُسکی زندگی سے بیش قیمت اسباق سیکھے۔ یسوع مسیح کی طرف تکنے اور اُس پر ایمان رکھنے کی بدولت اُن کی زندگی تبدیل ہو گئی۔ ZU 356.1

    تمام شاگرد عادات اور افتاد طبع کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت ہی مختلف تھے۔ متی محصول لینے والا ، غصیلہ شمعون جو رومی حکمرانوں کے ساتھ ہرگز تصفیہ نہ کرتا۔ اُسکے دل میں رومی حکومت کے خلاف ہر وقت نفرت کی بھٹی جلتی رہتی۔ اُس کے بعد فراخ دل پطرس جو بہت جلد مشتعل ہو جاتا، یہودہ اسکریوتی جس میں کمینگی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اس کے بعد توما ڈرپوک اور شکی مگر دل کا کھرا تھا۔ فلپس شکی اور سست اعتقاد جبکہ زبدی کے بیٹے منہ پھٹ تھے۔ اپنی اپنی خامیوں کے ساتھ یہ سب ایک حلقہ میں اکٹھے رہتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی بُرائی سے خالی نہ تھا۔ تاہم وہ سب مسیح میں مسیح کے ذریعے خدا کے خاندان میں سکونت رکھتے تھے۔ مسیح سےاُنہوں نے سیکھا کہ ہمیں ایک ایمان، تعلیم اور ایک ہی روح میں یکجا رہنا ہے۔ اُن پر آزمائش آتی ہو گی۔ اُنہیں ایک دوسرے سے ضرور شکائتیں اور رنجشیں بھی ہوتی ہوں گی۔ یقیناً اختلاف رائے بھی ہوتا ہو گا۔ لیکن اُن کے دلوں میں یسوع کی موجودگی ہر طرح کی تکرار، اختلاف رائے اور نزاع کو ختم کر دیتی اور خداوند مسیح کی محبت ایک دوسرے کو یکجا کر لیتی تھی۔ ZU 356.2

    شاگردوں کی تربیت کے اختتام پر خداون مسیح نے اُن کو اپنے پاس بلایا۔ اور اُن کے درمیان گھٹنے نشین ہو گیا۔ اُن کے سروں پر اپنے ہاتھ رکھے اور مخصوصیت کی دُعا مانگی۔ یوں شاگرد خوشخبری کی منادی کے لئے مخصوص ہوئے۔ ZU 357.1

    خداوند نے اپنی خدمت کے لئے اُن فرشتوں کا انتخاب نہ کیا جو پاک ہیں بلکہ ہم انسانوں کو جو دوسرے انسانوں کی طرح جذبات رکھتے ہیں۔ ہمیں یہ کام سونپا گیا ہے۔تاکہ بنی نوع انسان کو نجات کی راہ دکھائیں۔ خداوند یسوع مسیح نے بھی انسان تک پہنچنے کے لئے بشریت کو پہن لیا۔ کیونکہ بشریت اور الوہیت دونوں ملکر ہی دُنیا کو بچا سکتی تھیں۔ اب بھی یسوع ایمان کے ذریعے ہم انسانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ یوں الوہیت اور بشریت دونوں ملکر نجات کے کام کو پورا کرتی ہیں۔ ذات الہٰی کے ساتھ ملکر ہی انسانی قوت بار ور ہو سکتی ہے۔ ZU 357.2

    وہ جس نے گلیل کے مچھیروں کو دعوت دی آج بھی ہم انسانوں کو اپنی خدمت کے لئے بلاتا ہے اور اپنی قدرت کو اُسی طرح ہمارے ذریعے سے اُجاگر کرنا چاہتا ہے جیسے اُس نے پہلے شاگردوں کے ذریعے اپنی قدرت کے حیرت انگیز عجائب دکھائے۔ اس میں کوئی کلام نہیں، وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اُس کی دلی تمنا ہے کہ ہم اُس سے سیکھیں تاکہ اُس کی خدمت کے لائق ٹھہر سکیں۔ ZU 358.1

    “لیکن ہمارے پاس یہ خزانہ مٹی کے برتنوں میں رکھا ہے تاکہ یہ حد سے زیادہ قدرت ہماری طرف سے نہیں بلکہ خداکی طرف سے معلوم ہو” 2 کرنتھیون 7:4۔۔۔ ۔ یہی وجہ تھی کہ خوشخبری کی منادی خطاکار انسانوں کے سپرد ہوئی نہ کہ پاک فرشتوں کے۔ لہٰذا وہ قدرت جو انسانی کمزوری میں ظاہر ہوتی ہے وہ خدا کی قدرت ہے۔ “اور وہ نادانوں اور گمراہوں سے نرمی کے ساتھ پیش آنے کے قابل ہوتا ہے اسلئے کہ وہ خود بھی کمزوری میں مبتلا رہتا ہے “عبرانیوں 2:5۔۔۔۔ ہمیں پاک فرشتگان کے ساتھ ملکر خداوند مسیح کو دُنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ پاک فرشتگان بڑے اشتیاق سے ہمارے تعاون کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ انسان ہی انسان کو بچانے کا بڑا ذریعہ بنے۔ اور جب ہم بدل وجان خود کو مسیح کے تابع کر دیتے ہیں تو اُنہیں خوشی ہوتی ہے کہ وہ ہماری آوازوں کو استعمال کر کے خدا کی محبت کو اُجاگر کر سکیں۔ ZU 358.2

    ****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents