Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
زمانوں کی اُمنگ - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 8 - ”عید فسح میں شمولیت“

    یہودیوں میں بارہواں سال لڑکپن اور جوانی میں حدِ فاصل کی حیثیت رکھتا تھا۔ بارہویں سال کی تکمیل پر عبرانی لڑکے کو شریعت اور خدا کا بیٹا کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد اُسے خاص مذہبی ہدایات دی جاتی تھیں۔ بارہ سال مکمل ہونے پر اُس سے یہ بھی توقع کی جاتی تھی کہ وہ مذہبی عیدوں میں شمولیت کرے۔ اسی دستور کے مطابق جب یسوع مسیح بارہ سال کا ہوا تو وہ یروشلم کو گیا۔ تاکہ عید فسح میں شرکت کرے۔ جانثار عقیدت مندوں کی طرح مقدسہ مریم اور جناب یوسف ہر سال عید فسح منانے کے لیے یروشلم جایا کرتے تھے۔ اور جب یسوع نے بارہ سال پورے کر لئے تو اُس کے والدین اُسے اپنے ساتھ عید فسح منانےکے لئے یروشلم لے گئے۔ZU 73.1

    یروشلم میں تین سالانہ عیدیں یعنی عید فسح، عید پنتگست اور عید خیام منائی جاتی تھیں۔ جن کے لیے تمام بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ خداوند کے حضور حاضر ہوں۔ ان تینوں عیدوں میں سے عید فسح پر نسبتاً زیادہ رونق ہوتی تھی۔ پس یہودی جن جن ممالک میں پراگندہ ہوئے تھے وہاں سے یروشلم میں عید فسح منانے کے لئے حاضر ہوئے۔ گلیل سے یروشلم کا سفر کئی دنوں میں طے پاتا تھا اس لئے مسافر اپنی حفاظت کی حاطر بڑے بڑے جتھوں میں ہو کر سفر کرتے تھے۔ خواتین اور عمر رسیدہ لوگ گدھوں یا بیلوں پر سوار ہو کر چٹانوں اور پتھریلی سڑکوں کا سفر طے کرتے۔ جبکہ نوجوان اوور طاقتور حضرات پیدل ہی چل پڑتے۔ عید فسح غالباً مارچ کے احتتام یا اپریل کے شروع میں منائی جاتی۔ اس وقت تمام زمین خوبصورت رنگ برنگے پھولوں سے ڈھک جاتی۔ پرندوں کی راگنیوںسے سماں اور بھی دلفریب لگتا۔ ماضی کی تاریخ میں جو جو عجائب و غرائب خداوند تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دکھائے تھے اُن کی یادوں کے نشانات جگہ جگہ پائے جاتے تھے۔ اپنے سفر کا آغاز اُنہوں نے گیت بھجن سے کیا۔ اور جب یروشلم کے نزدیک پہنچے اور اُنہوں نے یروشلم کے میناروں کو دیکھا تو سب نے ملکر خوشی و فتح کا یہ نعرہ بلند کیا۔ ZU 73.2

    ” اے یروشلم! ہمارے قدم تیرے پھاٹکوں کے اندر ہیں۔ تیری فصیل کے اندر سلامتی اور تیرے محلوں میں اقبال مندی ہو۔” زبور 72:122 ZU 74.1

    عبرانی قوم کے ملک مصر سے نکلنے کے ساتھ ہی عید فسح کا آغاز ہوا تھا۔ مصر کی غلامی کی آخری رات جب رہائی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی خداوند خدا نے اُنہیں وہاں سے نکل جانے کی تیاری کا حکم دیا۔ اُس نے فرعون کو آخری آگاہی دے دی تھی کہ مصر کی عدالت آ پہنچی ہے اور جو کچھ ہونے کو تھا اُس کے بارے بھی خداوند خدا نے فرعون کے کان میں ڈال دیا تھا۔ اور یس کے ساتھ ساتھ عبرانیوں کو حکم دیا کہ اپنے خاندان کے تمام کو اپنے اپنے خاندان میں جمع رکھنا۔ نیز برہ ذبح کر کے اُس کا خون اپنے دروازوں کی چوکھٹ پر چھڑکنے کے علاوہ برے کو بھون کر بے خمیری روٹی اور کڑوے ساگ کے ساتھ کھانا۔ZU 74.2

    “اور تم اُسے اِس طرح کھانا۔ اپنی کمر باندھے اور اپنی جوتیاں پا ٔوں میں پہننے اور اپنی لاٹھی ہاتھ میں لئے ہوئے تم اُسے جلدی جلدی کھانا کیونکہ یہ فسح خداوند کی ہے۔” خروج 11:12 ZU 75.1

    آدھی رات کے وقت مصریوں کے تمام پہلوٹھے ہلاک کر دیئے گئے۔ پھر فرعون بادشاہ نے بنی اسرائیلوں کو پیغام بھیجا۔ZU 75.2

    “تب عبرانی مصر سے ایک خود مختار قون کی حیثیت سے نکل گئے۔ خداوند نے اُنہیں حکم دیا کہ عید فسح کو ہر سال منانا۔ اور جب تمہاری اولاد تم سے پوچھے کہ اس عبادت سے تمہارا کہا مقصد ہے؟ تو تم یہ کہنا کہ یہ خداوند کی فسح کی قربانی ہے جو مصر میں مصریوں کو مارتےوقت بنی اسرائیل کے گھروں کو چھوڑ گیااور یوں ہمارے گھروں کو بچا لیا۔ خروج 26:12 ۔ یوں پشت در پشت نجات کی کہانی دُہرائی جانے کو تھی۔ZU 75.3

    بے خمیری روٹی کی عید کے سات دن بعد عید فسح منائی جاتی تھی۔ عید کے دوسرے دن پہلے پھل اور جَو کے پولے خداوند کے حضور گزرانے جاتے۔ عید کی تمام رسمیں یسوع مسیح کے کام کی علامت تھیں۔ بنی اسرائیل کی مصر سے رہائی نجات کا جیتا جاگتا سبق تھا جو عید فسح کے ذریعے یاد رکھنا ضروری تھا۔ ذبح شدہ برہ، بے خمیری روٹی اور پہلے پھل نجات دہندہ کی علامت تھے۔ZU 75.4

    یسوع مسیح کے زمانہ میں عید فسح اُن رسوم و رواج کی نضر ہو چکی تھی جن کا خدا کے بیٹے کے ساتھ دُور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ پہلی بار یسوع مسیح نے ہیکل میں سفید لباس میں ملبوس کاہن کو اپنی سنجیدہ خدمت انجام دیتے دیکھا۔ اُس نے وہاں قربان گاہ پر خون میں لت پت برے کو بھی دیکھا اور دوسرے عبادت گزاروں کے ساتھ وہ بھی دعا میں جھک گیا جب بخور کا دھواں بادل کی صورت میں خدا کے حضور پہنچا۔اُس نے عید فسح کی دل پذیر رسم کو بھی دیکھا۔ روز بروز وہ اس کے واضح سے واضح تر معنوں سے واقف ہوتا گیا۔ اُسے ایسے لگا جیسے عید فسح کا پر عمل اُس کی اپنی زندگی پر لاگو ہوتا ہے۔ اُس کی دل میں نئے خدشات نے جنم لیا۔ خاموشی مگر بڑے انہماک سے وہ ان تمام مسائل کا جائزہ لے رہا تھا ۔ نجات دہندہ پر یہ راز کھلنے لگا کہ وہ کن مقاصد کی تکمیل کے لئے اس دُنیا میں آیا ہے؟ZU 75.5

    عید فسح کے نظارے میں وہ اتنا گم ہو گیا کہ وہ اپنے والدین سے بچھڑ گیا۔ وہ کچھ دیر کے لئے تنہا رہنا چاہتا تھا۔ عیدیں اختتام پذیر ہو گئیں مگر وہ ابھی تک ہیکل کے صحن میں گھوم پھر رہا تھا۔ اور جب تمام لوگ یروشلم سے چلے گئے تو وہ پیچھے رہ گیا۔ZU 76.1

    والدین چاہتے تھے کہ یسوع اسرائیلی بزرگوں اور اساتذہ سے ملے۔ چونکہ وہ کلام کی پوری پوری تابعداری کرتا تھا اسلئے وہ نہیں چاہتا تھا کی ربیوں اور دوسرے رسموں کی تصدیق کرے جوان اساتذہ نے رائج کر رکھی تھیں۔۔ مقدسہ مریم اور جناب یوسف دونوں چاہتے تھے کہ یسوع ربیوں کی عزت و تکریم کرے اور اُن کے مطالبات دلجمعی سے پورا کرے۔ مگر ہیکل میں یسوع کو خود خدا نے درس دیا اور جو اُس نے خداوند سے سیکھا وہ فوراً دوسروں میں بانٹنے لگا۔ZU 76.2

    اُس دن ایک کمرہ جو ہیکل کے ساتھ منسلک تھا مذہبی سکول کے طور پر وقف کیا گیا ، یہ سکول بالکل اُسی طرز کا تھا جیسے نبیوں کے سکول ہوا کرتے تھے۔ اِس میں نامور ربی اور اُن کے شاگرد جمع ہوئے۔ یہاں یسوع بھی آگیا۔ ان سنجیدہ عالموں کے قدموں میں بیٹھ کر اُس نے اُن کی ہدایات سنیں۔ جیسے کوئی حکمت کی تلاش میں ہو۔ اُس نے اِن اساتذہ سے پیشنگوئیوں سےمتعلق سوالات اور پھر مسیح موعود کے آنے کے واقعات کی نشانیاں پوچھیں۔ZU 76.3

    یسوع نے خود کو اُن کے سامنے ایسا پیش کیا جیسے اُسے خدا کے علم کی اشد ضرورت ہو۔ اُس کے سوالوں سے وہ گہری صداقت واضح ہوتی تھی جسے نظر انداز کر دیا گیا تھا ۔ بیشک یہ صداقتیں روح کی نجات کے لئے نہائت اہم تھیں۔ خداوند مسیح اُن پر یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ دانأوں کی حکمت کتنی تنگ اور سطحی ہے ان کے سامنے ایسے الہیسوالات رکھے جن کی روشنی میں وہ سچائی کو راست زاویے سے دیکھ سکتے ہیں۔ ربیوں کے پاس تو اس سے زیادہ بتانے کو کچھ نہ تھا کہ جب مسیح موعود آئے گا تو وہ یہودی قوم کو سرفرازی عطا کرے گا۔ مگر خداوند یسوع نے اُن کے سامنے انبیاہ بنی کی پیشنگوئی رکھتے ہوئےپوچھا تو پھر اس کے کیا معنی ہیں کہ خدا کا برہ ہلاک کیا جائے گا؟ZU 77.1

    پھر شرع کے معلموں نے اُس پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی مگر حکمت سے اُس نے اُن کے جوابات دیے اُس سے وہ بڑے حیران ہوئے۔ بڑی انکساری کے ساتھ اُس نے کلام مقدس کو دہرایا اور اُن پر وہ مطالب واضح کیےجو بڑے بڑے دانشمندوں کی حکمت سے بعید تھے۔ اور اگر اُن باتوں پر عمل کیا جاتا تو یقینا مذہب میں بحالی اور اصلاح کا کام ممکن تھا۔ نیز روحانی چیزوں میں دلچسپی بڑھتی اورجب مسیح کوئی زمینی خدمت شروع کرتا اُس وقت بہتیرے ہوتے جو اُسے قبول کرنے کے لئے تیار پائے جاتے۔ ربیوں کو تو بخوبی علم تھا کہ یسوع ناصری نے اُن کے سکولوں سے تعلیم نہیں پائی اس کے باوجود وہ پیشنگوئیوں کے بارے اُن سے کہیں زیادہ جانتا تھا۔ اس ہوشمند بچے میں اُنہوں نی عظیم وعدوں کی تکمیل دیکھی۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ اُن کے سکولوں میں داخلہ لیکر تعلیم کا پورا احتیار اپنے پاتھ میں لینا چاہتے تھے تاکہ اُس ہونہار بچے کے ذہن و دماغ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکیں۔ZU 77.2

    جیسا اثر خداوند مسیح نے اُن کے دل پر کیا ایسا اثر اس سے پہلے کسی انسانی کلام نے اُن کے دل پر نہ کیا تھا۔ خداوند اس بات کا متلاشی تھا کہ اپنا نور اسرائیلی قیادت کو عطا فرمائے۔ اس لئے اُس نے بچے یسوع کی وساطت سئ اُن تک رسائی کی۔ اُن کا غرور اُنہیں کسی کی شاگردی احتیار کرنے کی اجازت نہ دے سکتا تھا۔ اور اگر اُنہیں یہ معلوم ہو جاتا کہ یہ بچہ یسوع اُنہیں اُستاد بن کر سکھا رہا ہے تو وہ یقیناً اُس کی سُننے سے انکار کر دیتے۔ اصل میں اُنہیں گمان تھا کہ وہ اس بچے کو سکھا رہے ہیں اور اُس کے علم کا امتحان لے رہے ہیں کہ وہ الہلامی نسخہ جات کے بارے کتنا علم رکھتا ہے؟ درحقیقت وہ بچھے یسوع کی حکمت اور علم کے سامنے بے بس تھے۔ اۃن کا حسد اور فخرو غرور یکسر ختم ہو چکا تھا اور روح القدس براہ راست اُن کے دلوں پر کام کر رہا تھا۔ZU 78.1

    اب وہ اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ مسیح موعود کے آنے کے بارے جو اُن کے خیالات تھے وہ پیشنگوئیوں میں موجود نہیں۔ مگر اُن میں اتنی نہ تھی کہ اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اور جس تعلیم پر ہو فخر کرتے تھے اسکی اصلاح کرتے۔ تا ہم وہ اس بات سے سخت حیران تھے کہ اِس بچے کو بغیر پڑھے لکھے پیشنگوئیوں کا کیونکر اتنا گہرا علم ہو گیا؟ZU 78.2

    “نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے قبول نہ کیا۔” یوحنا 5:1 ZU 79.1

    دیریں اثنا مقدسہ مریم اور جناب یوسف سخت پریشان رہے۔ یروشلم سے نکلتے وقت یسوع اُن کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور انہیں معلوم نہ تھا کہ وہ پیچھے رہ گیا ہے۔ گلیل کو واپس جانے والا کارواں بہت بڑا تھا ۔ اِس بھیڑ میں کسی کو ڈھونڈنا آسان کام نہ تھا۔ شہر کو چھوڑتے وقت عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ دوستوں رشتہ داروں اور ہمجولیوں کے ساتھ چلتے چلتے رات ہو گئی اور سارا دن اُنہیں بچے یسوع کی غیر موجودگی کا علم ہوا۔ پھر بھی یہ خیال کیا کہ وہ اپنے دوستوں یا عزیزوں کے پاس ہو گا زیادہ تشویش نہ کی۔ وہ اُس پر پورا بھروسہ کرتے تھے اور سوچتے تھے کہ جب وہ محسوس کرے گا کہ ہمیں اُس کی مدد کی ضرورت ہے۔ فوراً آ جائے گا۔ مگر وہ نہ آیا اور اُن کا خدشہ حقیقت میں بدل گیا۔ اُنہوں نے اپنے سارے جان پہچانوں میں اور قافلہ والوں میں اچھی طرح ڈھونڈا مگر نہ پایا۔ اب انہیں یاد کہ کس قدر بیرودیس اس بچے کو ختم کرنا چاہتا تھا ۔ مایوسی اور تاریکی نے اُن کے دلوں پر چھاؤنی ڈال لی اور وہ دونوں اپنے آپ کو کو سنے لگے کہ انہوں نے بچے کی طرف سے کیوں غفلت برتی ۔ یروشلم میں واپس آ کر اس کی تلاش کرنے لگے۔ اگلے روز جب وہ ہیکل میں گئے تو اُنہوں نے اسے ربیوں کے سکول میں پا کر بڑی خوشی منائی۔ مگر اُس کی غیر موجودگی کا جو دُکھ اُنہوں نے سہا اسے بھلا نہ سکے۔ اور جب وہ اُن کے ساتھ ہو لیا تو مقدسہ مریم نے اُسے جھڑکتے ہوئے کہا بیٹا توُ نے کیوں ہم سے ایسا کیا؟ دیکھ تیرا باپ اور میں کُڑھتے ہوئے تجھے ڈھونڈتے رہے۔ ” لوقا 48:2 اُس نے ان سے کہا تم مجھے کیوں ڈھونڈتے تھے؟ کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ھے؟ مگر جو بات اس نے ان سے کہی اسے وہ نہ سمجھے ۔ اس کے چہرے پر نور دیکھ کر وہ حیران ہو گئے کیونکہ الوہیت بشریت میں سے ٹپک رہی تھی۔ ہیکل میں اُسے پا کر انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ربیوں اور یس کے درمیان پیشنگوئیوں پر گفتگو ہوئی ہے اور سب اس کے سوالوں اور جوابوں پر دنگ رہ گئے ہیں۔ اُس کے کلام نے اُن کے خیالات کی ایسی تربیت کی جسے وہ کبھی نہ بھلا سکیں گے۔ZU 79.2

    بچے یسوع کے سوالوں میں بھی سبق ہوا کرتا تھا ” کیا تم نہیں جانتے تھے کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے؟ پس یسوع نے اپنی وہ خدمت شروع کر لی جس کے لئے وہ اس دنیا میں آیا تھا۔ بیشک مقدسہ مریم اور جناب یوسف اپنی خدمت کو بھول گئے۔ خداوند نے تو اپنا بیٹا اُن کی گود میں دیکر اُن کی بڑی عزت افزائی کی تھی۔ اس نے اپنے پاک فرشتگان کو بھیج کر جناب یوسف کی راہوں کا تعیّن کیا تھا تاکہ بچے یسوع کی زندگی محفوظ رہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جس بچے کو اُنہیں ہر لمحہ اپنے سامنے رکھنا تھا۔ اُسے وہ پورا دن بھولائے رہے۔ اور جب اُن کی تشویش دور ہوئی تو خود کو ملامت کرنے کی بجائے وہ بچے سے باراضگی کا اظہار کرنے اور اپنی پریشانی کا الزام اُس کے سر تھوپنے لگے۔ مقدسہ مریم اور یوسف کے لیے یہ فطری بات تھی کہ وہ یسوع کو اپنے بچے کے طور پر قبول کرتے۔ وہ روزانہ اُن کے ساتھ رہتا تھا اور اُس کی زندگی عام طور پر دوسرے بچوں سے مختلف نہ تھی۔ اسلئے اُن کے لیے یہ جاننا بہت مشکل تھا کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔ وہ برکات جو اُنہیں دُنیا کے نجات دہندہ کی صورت میں دی گئی تھی وہ اس کو نہ سراہنے کے خطرے سے دوچار تھے۔ اس کے جدائی کا جو غم انہیں ہوا اور جو ملائم ملامت یسوع بچے نے کی اس میں ان کے لئے یہ اشارہ تھا کہ آپ مقدس امانت کے امین ہیں۔ZU 80.1

    نیز وہ جواب جو یسوع نے اپنی ماں کو دیا اس سے ظاہر ہوتا تھا کی وہ بتانا چاہتا ہے کہ میرا جو رشتہ خدا کے ساتھ ہے میں اُسے خُوب سمجھتا ہوں۔ اور یہ بار اس نے پہلی بار مقدسہ مریم اور جناب یوسف پر ظاہر کی۔ کیونکہ مسیح کی پیدائش سے پہلے فرشتہ نے مریم کو بتایا تھا کہ ” وہ بزرگ ہو گا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا۔ اور خداوند خدا اُس کے باپ داؤد کا تحت اُسے دے گا اور وہ یعقوب کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کرے گا اور اس کی بادشاہی کا آخر نہ ہو گا” لوقا 33-32 : 1 ---- مقدسہ مریم ان باتوں پر اپنے دل میں غور کرتی رہی مگر پھر بھی موعودہ مسیح کے آنے کے مقصد سے پوری طرح آگاہ نہ ہوئی۔ZU 81.1

    یسوع نے وہ رشتہ جو زمینی والدین کے ساتھ تھا اسے کبھی بھی نظر انداز نہ کیا۔ یروشلم سے واپس ان کی ساتھ گھر آیا اور تمام کاموں میں والدین کا ہاتھ بٹایا۔ اب وہ اپنے مشن کو اچھی طرح سمجھ گیا تھا اور وقت کا انتظار کر رہا تھا تا کہ اپنی خدمت کا آغاز کر سکے۔ یہ جاننے کے بعد کہ وہ خدا کا بیٹا ہے اس نے مزید اٹھارہ سال ایک بیٹے ، بھائی اور شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کی۔ ZU 81.2

    ہیکل میں جب اس پر اپنی خدمت کا راز کھلا تو اس نے بھیڑ سے علیحدگی احتیار کر لی۔ عید فسح کے ذریعے خداوند اپنے لوگوں کو دُنیاوی فکروں اور مصر کی غلامی سے رہائی کی حیرت انگیز نجات کے بارے یاد دلانا چاہتا تھا۔ اور وہ چاہتا تھا کہ لوگ عید فسح کے ذریعے گناہ سے خلاصی کے وعدہ کو جان سکیں۔ جیسے ذبح شدہ برے کے خون سے بنی اسرائیل کے گھر محفوظ رہے اسی طرح مسیح کے خون سے روحیں بچائی جانے کو تھیں۔ مگر صرف وہی روحیں جو ایمان سے اُسے قبول کریں گی۔ عبادت گذار کے لے لازم تھا کہ مسیح کو اپنا ذاتی نجات دہندہ قبول کرے۔ خداوند چاہتا تھا کہ تمام خدا کے لوگ دعا اور کلام پاک کا بغور مطالعہ کرنے سے یسوع کے مشن کو سمجھ سکیں۔ مگر جونہی عید فسح احتتام کو پہنچی اور بھیڑ نے ہروشلم کو چھوڑا۔ تو اُنہوں نے دوستوں کی رفاقت اور دوسرے باتوں میں پھنس کر جو کچھ دیکھا اور سمجھا تھا یکسر بھلا دیا۔ZU 81.3

    مقدسہ مریم او ر جناب یوسف جب یروشلم سے اکیلے سدھارے تو یسوع امید کرتا تھا کہ ان کے ذہن و دماغ مسیح موعود کے دکھوں پر جمے ہوں گے۔ وہ ابھی سے سوچ رہا تھا کہ مقدسہ مریم کا غم جو میری مصلوبیت کے وقت ہو گا اسے کیسے کم کیا جائے۔ کیونکہ مقدسہ مریم ہی اس کی موت کے وقت وہاں ہو گی۔ اسلئے وہ چاہتا تھا کہ اس کی ماں اس کے مشن کو بخوبی سمجھ لے۔ اور اس سانھہ کو برداشت کرنے کے لئے قوت حاصل کرے جب اس کی اپنی جان تلوار سے چھدنے کو تھی۔ جیسے خداوند یسوع مسیح اس سے تین دن تک دور رہا اور وہ غموں اور اداسیوں میں گھلتی جاتی تھی اسی طرح جب وہ اپنی جان دنیا کے گناہوں کے لیے دے گا وہ دوبارہ تین دن کے لئے اس کی نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔اور جیسے اب اُسے پا کر مقدسہ مریم کو خوشیاں حاصل ہوئیں اسی طرح قبر سے زندہ ہونے پر اسے غموں کی جگہ شادمانیاں حاصل ہوں گی۔ لیکن اگر وہ اس کلام کو جو وہ مقدسہ مریم کو سمجھا رہا تھا سمجھ جاتی تو بیٹے کہ موت کے غم کو برداشت کرنے کے لئے آسمانی باپ سے طاقت پاتی۔ ZU 82.1

    اگر مقدسہ مریم اور جناب یوسف دُعا کے ذریعہ اپنا دھیان خدا پر جمائے رکھتے تو اُنہیں اُس پاک امانت اکا احساس ہوتا جو خدا نے اُنہیں دے رکھی تھی۔ تب وہ کبھی بھی یسوع کو اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے ایک دن کی غفلت سے اُنہوں نے نجات دہندہ کو کھویا۔ مگر اُسے پانے کے لئے تین دن سخت جدوجہد کرنا پڑی۔ ہم انسانوں کا بھی یہی حال ہے۔ ایک دن کی فضول گفتگو بدی کی زبان یا دُعا سے غفلت کے نتیجہ میں نجات دہندہ کی حضوری سے ہم دور جا سکتے ہیں۔ اور پھر اُسے پانے کے لیے شاید ہمیں غم و اندوہ کے کئی دن بیت جائیں۔ تب کہیں جا کر ہمیں وہ اطمینان نصیب ہو جو ہم سے چھن گیا تھا۔ZU 83.1

    ایک دوسرے کی صحبت کا خط اُٹھاتے وقت ایسا نہ ہو کہ ہم یسوع کو بھول کر اُس کے بغیر ہی چلتے جائیں۔ جب ہم یسوع کو بھول بیٹھتے ہیں جس میں ہماری مبارک اُمید ہے تو یسوع اور فرشتے ہم سے جدا ہو جاتے ہیں۔ اور یہ بڑی مایوس کن حالت ہوتی ہے۔ کیونکہ جہاں یسوع کی حضوری نہیں ہوتی وہاں فرشتے بھی نہیں ہوتے۔ ایسی مایوسی مسیح کے بعض پیروکاروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ZU 83.2

    ہزاروں ایسے ہیں جو مذہبی رسومات میں حصہ لیتے اور کلام مقدس کو پڑھ کر تسلی پذیر بھی ہوتے ہیں۔ مگر چونکہ وہ خدا کے بارے غوروخوض نہیں کرتے، دعا میں وقت نہیں گذارتے اس لیے وہ خدا کی برکات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اور ان کی حالت پہلے سے بھی بد تر ہو جاتی ہے۔ پھر وہ سوچتے ہیں کہ خدا اُن کےساتھ بڑی سختی سے پیش آیا ھے۔ مگر وہ یہ حیال نہیں کرتے کہ اصل میں غلطی اُن کی اپنی تھی۔ کیوں کہ اُنہوں نے یسوع سے جُدا ہونے کے سبب سے نور کا راستہ مسدود کر دیا ہے جو مسیح سے صادر ہوتا ہے۔ ZU 83.3

    کتنااچھا ہو اگر ہم روزانہ کم از کم اُس کی زندگی پر غور و خوض کریں۔ اور خصوصاً اُس کی زندگی کے آخری ایام پر۔ اگر ہم اس کی قربانی پر اعتماد رکھیں گےجو اس نے ہمارے لئے پیش کی تو ہمارا اس میں زیادہ سے زیادہ ایمان اور توککل نشوونما پائے گا۔ اس سے ہماری محبت بھی اُس کے لئے بیدار ہو گی نیز ہم مزید اس کی روح میں ڈوب جائیں گے۔ ہمارے دل الٰہی تاثیر سے نرم و ملائم ہوں گے۔ اور اس کے حسن سیرت کو تکتے ہوئے ہم بھی اس کے جلال کی صورت میں درجہ بدرجہ بدلے جائیں گے۔ZU 84.1

    missing para...........................ZU 84.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents