باب نمبر 20 - ”جب تک تم نشان اور عجیب کام نہ دیکھو“
- زمانوں کی اُمنگ
- گزارش نامہ
- ديباچہ
- باب نمبر ۱ - خدا ہمارے ساتھ
- باب نمبر 2 - چنیدہ لوگ
- باب نمبر 3 -“جب وقت پورا ہو گیا”
- باب نمبر 4 - “تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا”
- باب نمبر 5 - مخصُوصیّت
- باب نمبر 6 - ”ہم نے اُس کا ستارہ دیکھا ہے“
- باب نمبر 7 - یسوع بحیثیت بچہ
- باب نمبر 8 - ”عید فسح میں شمولیت“
- باب نمبر 9 - ایام کشمکش
- باب نمبر 10 - بیابان میں آواز
- باب نمبر 11 - بپتسمہ
- باب نمبر 12 - آزمائش
- باب نمبر 13 - فتح
- باب نمبر 14 - ”ہم کو مسیح مل گیا“
- باب نمبر 15 - شادی کی ضیافت
- باب نمبر 16 - ”خدا کے گھر میں“
- باب نمبر 17 - ”نیکدُیُمس“
- باب نمبر 18 - ”ضرور ہے کہ وہ بڑھے“
- باب نمبر 19 - یعقوب کے کنویں پر
- باب نمبر 20 - ”جب تک تم نشان اور عجیب کام نہ دیکھو“
- باب نمبر 21 - بیت حسدا اور قومی کونسل
- باب نمبر 22 - یوحنا کی قید اور شہادت
- باب نمبر 23 - ”خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے“
- باب نمبر 24 - ”کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں“
- باب نمبر 25 - ”جھیل کے کنارے بلاوا“
- باب نمبر 26 - کفر نحوم میں
- باب نمبر 27 - ”اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے“
- باب نمبر 28 - ”متی محصول لینے والا“
- باب نمبر 29 - ”سبت“
- باب نمبر 30 - ”اُس نے بارہ کو مخصُوص کیا“
- باب نمبر 31 - ”پہاڑی واعظ“
- باب نمبر 32 - ”ایک صوبیدار“
- باب نمبر 33 - ”میرے بھائی کون ہیں“
- باب نمبر 34 - ”دعوت“
- باب نمبر 35 - ”تھم جا“
- باب نمبر 36 - ”ایمان سے چھونا“
- باب نمبر 37 - ”پہلے مُبشرین“
- باب نمبر 38 - ”ذرا آرام کرو“
- باب نمبر 39 - ”تم ہی ان کو کھانے کو دو“
- باب نمبر 40 - ”ساری رات جھیل میں گزاری“
- باب نمبر 41 - ”گلیل میں بحران“
- باب نمبر 42 - ”روائت“
Search Results
- Results
- Related
- Featured
- Weighted Relevancy
- Content Sequence
- Relevancy
- Earliest First
- Latest First
- Exact Match First, Root Words Second
- Exact word match
- Root word match
- EGW Collections
- All collections
- Lifetime Works (1845-1917)
- Compilations (1918-present)
- Adventist Pioneer Library
- My Bible
- Dictionary
- Reference
- Short
- Long
- Paragraph
No results.
EGW Extras
Directory
باب نمبر 20 - ”جب تک تم نشان اور عجیب کام نہ دیکھو“
گلیلی کے مرد و زن نے اُن حیرت انگیز کاموں کی خبر اپنے وطن میں پھیلا دی جو یسوع نے عید فسح کے موقع پر کئے تھے۔ یروشلم میں ہیکل کے ہیکل کے مختاروں نے یسوع مسیح کے کاموں پر نکتہ چینی کی اُس نے گلیل میں کام کرنے کی راہ ہموار کر دی۔ بہت سے لوگ ہیکل کی بے حُرمتی اور کاہنوں کی حرص اور بے حسی پر آٹھ آٹھ آنسو روتے تھے۔ اُنہیں پختہ یقین ہو چکا تھا کہ یہی نجات دہندہ ہے۔ جس کی وجہ سے حاکم آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ اب وہاں اُس کے نبی ہونے کی خبریں بھی پہنچنا شروع ہو گئیں۔ جس سے اُن کی اُمیدوں کو تقویت پہنچی۔ بلکہ اُن کے کانو ں تک یہ خبر بھی پہنچی کہ اُس نبی نے اعلان کر دیا ہے کہ آنے والا مسیح وہی ہے۔ ZU 229.1
مگر ناصرت کے لوگ اُس کا یقین نہ کرتے تھے اسی وجہ سے قاناہ کو جاتے وقت یسوع ناصرت میں نہ گیا۔ بلکہ مسیح نے اپنے شاگردوں کو جتا دیا کہ نبی اپنے وطن میں عزت نہیں پاتا۔ انسان اپنی حیثیت کے مطابق ہی دوسرے کا تخمینہ لگاتا ہے۔ مسیح کو تنگ نظر اور دنیاوی لوگ اُس کی پیدائش اور معمولی لباس کے لحاظ سے جانچتے۔ وہ اُس کی روح کی پاکیزگی کا اندازہ لی نہ کر سکتے جو خود گہنگار اور دُنیا دار انسان تھے۔ZU 229.2
مسیح یسوع کی واپسی کی خبر قانائی گلیل میں پھیل گئی جس سے دکھیوں میں امن کی لہر دوڑ گئی۔ یہ خبر کفر نحوم میں ایک یہودی شخص کو بھی ملی جو بادشاہ کی فوج میں ملازم تھا۔ اُس کا بیٹا ایسی بیماری میں مبتلا تھا جو لاعلاج خیال کی جاتی تھی۔ طبیبوں نے اُس کا علاج کرنا چھوڑ دیا تھا۔ مگر جب باپ نے یسوع کے بارے سُنا تو اُس نے یسوع کی مدد طلب کرنے کی ٹھانی۔ بچے کی حالت بڑی نازک تھی۔ پھر بھی باپ مے مسیح کے پاس حاضر ہو کر اپنی گذارش پیش کرنا ضروری سمجھا۔ گو بعض نے اُسے یہاں تک کہا کہ بچے کی حالت سخت خراب ہے اور آپ کے واپس آنے تک بچہ شائد زندہ نہ رہے۔ مگر یہ ایمان رکھتے ہوئے اُس نے کسی کی نہ سُنی کہ عظیم طبیب ضرور اُس پر ترس کھا کر اُس کی درخواست قبول کرے گا۔ ZU 229.3
جب وہ قاناہ پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ مسیح کے گرد بہت بڑی بھیڑ جمع ہے۔ تاہم وہ اپنی آرزو لئے ہوئے مسیح کے قدموں میں جا پہنچا۔ اُس کے ایمان کو دھچکا لگا جب اُس نے مسیح کو معمولی سے کپڑوں میں ملبوس پایا۔ اُس نے یہ بھی دیکھا کہ سفر کی وجہ سے یسوع کے پاؤں گرد سے اٹے اور زخمی ہیں۔ اُس نے دل ہی میں کہا کہ جس کام کے لئے میں آیا ہوں شائد یہ شخص اُسے انجام نہ دے سکے ۔ سو اُس کے دل میں شک گزرا۔ پھر بھی اس نے اُس سے درخواست کی کہ اُس کے ساتھ کے اُسے کے گھر چلے۔ مسیح تو اُس کی تکلیف سے بیشتر ہی واقف تھا۔ZU 230.1
اس کے علاوا مسیح یہ بھی جانتا تھا کہ اس باپ کے دل میں شک ہے۔ اور شک کی بنا پر ہی باپ اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر اُس کا مقصد حل نہ ہوا تو یسوع کو مسیحا نہ مانے گا۔ چنانچہ جب وہ مسیح کے حضور دلگیر بیٹھا تھا مسیح نے فرمایا “جب تک تم نشان اور عجیب کام نہ دیکھو ہر گز ایمان نہ لاؤ گے”ZU 230.2
ہر چند کہ تمام ثبوت موجود تھے کہ یہی یسوع مسیح ہے جو آنے والا تھا پھر بھی اس درخواست گذار نے تہیہ کر رکھا تھا کہ جب تک اُس کی التجا قبول نہیں ہو گی وہ ایما ن نہیں لائے گا ۔ مسیح نے اُس سامری عورت کے سادہ ایمان کا موازنہ اس یہودی سردار کے ایمان کے ساتھ کیا جس نے نہ کوئی نشان مانگا نہ معجزہ کی درخواست کی۔ اس سے یسوع کو اپنے لوگوں کے ایمان کو دیکھ کر دُکھ ہوا کیوں کہ ان کے پاس الٰہوں کے صحائف موجود تھے۔ اس کے باوجود وہ خدا کے بیٹے کو پہچاننے میں ناکام رہے جو اُن سے کلام کر رہا تھا۔ ZU 230.3
پھر بھی اس سردار کا کچھ نہ کچھ ایمان ضرور تھا۔ کیونکہ وہ یسوع سے بیش قیمت نعمت لینے آیا تھا۔ کیوں کہ یسوع اسے اس کے بیٹے کی صحت سے بھی کہیں زیادہ ہی نعمت دینے کو تھا۔ یعنی اس کے پورے خاندان کو نجات۔ اور اسی خاندان کے سبب یسوع کفر نحوم میں روشنی کا مینار قائم کرنا چاہتا تھا۔ مسیح کے فضل کو پانے سے پہلے اُس سردار کے لئےلازم تھا کہ اپنی کمی کو محسوس کرے۔ بادشاہ کا یہ درباری اپنی قوم کے کئی لوگوں کی نمائندگی کرتا تھا۔ ۔ قوم کے سردار خود غرضی کے تحت مسیح میں دلچسپی لیتے تھے۔ ساسہ الفاظ میں وہ اُس کی قدرت اور احتیار کے ذریعے اپنے لئے کوئی دُنیاوہ مفاد پانے کے چکر میں تھے۔ مگر وہ اپنی روحانی بیماری سے بےخبر تھے اور الٰہی فضل کی ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ ZU 231.1
یسوع کاکلام اُس پر بجلی کی طرح گرا اور فوراً اُس کے دل میں اُتر گیا۔ اب اُس نے کہا کہ واقعی وہ یسوع کی تلاش خود غرضی سے کر رہا تھا۔ اُس کا لڑکھڑاتا ہوا ایمان اُس پر اصلی روپ میں ظاہر ہوا۔ پھر گمان غالب ہوا کہ کہیں اُس کی کم اعتقادی اُس کے بیٹے کی جان نہ لے لے ۔ اُسے یقین ہو گیا کہ وہ اُس کی حضوری میں ہے جو دلوں اور گردوں کو جانتا ہے ۔ اور جس کے سامنے سب کچھ ممکن ہے۔ پس وہ چلا کر کہنے لگا“اے خداوند میرے بچہ کے مرنے سے پہلے چل۔ اُس کا ایمان اب مسیح میں مضبوط ہو گیا اُس نے یعقوب کی طرح یسوع کو تھام لیا جس نے فرشتہ کو کہا تھا۔ “جب تک تو مجھے برکت نہ دے میں تجھے جانے نہ دوں گا۔” پیدائش 26:32 ZU 231.2
بزرگ یعقوب کی طرح وہ سردار بھی کامیاب ہوا۔ جو روح یسوع مسیح کے ساتھ چمٹ جاتی ہے اور اپنی حاجت کے لئے آہ و نالہ کرتی ہے یسوع اُسے ناکام نہیں لوٹاتا۔ پس یسوع نے اُس سردار سے کہا ۔ “جا تیرا بیٹا جیتا ہے” اُس شخص نے اس بات کا کہ جو یسوع نے اس سے کہی یقین کیا اور چلا گیا۔ نہ صرف اس نے یہ یقین کیا کہ میرا بیٹا بچ جائے گا بلکہ اس نے یہ بھی یقین کر لیا کہ یہی دُنیا کا نجات دہندہ ہے۔ZU 232.1
کفر نحوم میں وہ لوگ جو قریب المرگ بچے کی نگرانی کر رہے تھے اُنہوں نے بچے میں اچانک تبدیلی دیکھی۔ موت کے سائے پلت گئے یعنی بخار اُتر گیا اور بچے کے منہ پہ رونق آ گئی۔ آنکھوں میں روشنی اور بدن میں قوت لوٹ آئی اور بچے میں بیماری کا کوئی نشان باقی نہ رہا۔ اُس کا بدن جو بخار اور بیماری سے جھلس رہا تھا فطری حالت میں آ گیا اور وہ گہری نیند کا لطف اُٹھانے لگا۔ ZU 232.2
قانائی گلیل کفر نحوم سے بہت دور تو نہ تھا۔ والد شام تک گھر پہنچ سکتا تھا ۔ مگر وہ اگلی صبح گھر آیا۔ گھر آنے پر اُسے بڑی خوشی ہوئی ۔ جب وہ گھر سے چلا تھا تو غم سے نڈھال تھا ۔ سورج کی گرمی سے وہ سخت بےچین تھا۔ پرندوں کے گیت اُسے مذاق معلوم ہوتے تھے مگر اب اس کی محسوسات بہت فرق تھیں۔ تمام فطرت اُس کے لئے یکسر بدل گئی ۔ اب وہ ہر چیز کو نئی آنکھ سے دیکھ رہا تھا ۔ جب وہ صبح کے وقت سفر کر رہا تھا تو اُسے ایسے لگا جیسے تمام فطرت اُس کے ساتھ ملکر خدا کی تمجید کر رہی ہے۔ جب وہ ابھی گھر سے دور ہی تھا تو اُس کے نوکر بھاگے بھاگے اُس کے پاس آئے اور بچے کی صحت کے بارے خبر دی۔ مگر اُس نے اس خبر پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہ کیا بلکہ پوچھا کہ اُسے کس وقت آرام آنا شروع ہو گیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کل ساتویں گھنٹے اُس کا بخار اُترنا شروع ہو گیا تھا اور یہ وہی وقت تھا جب مسیح نے اُسے بتایا تھا کہ تیرا بیٹا جیتا ہے۔ZU 232.3
باپ بھاگ کر اپنے بچے کو ملنے گیا۔ اور اُسے اپنے سینے سے لگا کر بار بار اُس کی صحت کے لئے خدا کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ وہ سردار خداوند مسیح کے بارےمزید معلوم کرنا چاہتا تھا ۔ اور بعد میں جب اُس نے مسیح کی تعلیم کو مزید سُنا تو مع خاندان مسیح کے حلقہ بگوش ہو گیا۔ بچے کی بیماری اس تمام خاندان کے لئے نجات کا باعث بن گئی۔ اس معجزے کی خبر فوراً دور و نزدیک پہنچ گئی۔ اور کفر نحوم مسیح کی شخصی خدمت کا مرکز بن گیا۔ZU 233.1
جس نے اُس سردار کو کفر نحوم میں برکت دی وہ ہمیں بھی برکت دینا چاہت ہے۔ مگر ہم بھی اکثر اُس سردار کی طرح صرف یسوع کی چاہت اپنے کسی جسمانی فائدے کے تحت کرتے ہیں۔ اور جب ہماری درخواست قبول ہوتی ہے تو اُس نے بعد ہم اُس پر ایمان لاتے اور اُس کی محبت میں اعتماد دکھاتے ہیں۔ جو برکات ہم مانگتے ہیں نجات دہندہ ہمیں اُن سے بڑھ کر برکات دینا چاہتا ہے۔ اور جب وہ ہماری درخواست قبول کرنے میں دیری کرتا ہے تو اصل میں وہ ہم پر ہمارے دل کی بدی کو ظاہر کرنے کے لئے ہی کرتا ہے۔ اور ہماری اُس ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے لئے ہمیں اُس کے فضل کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ اُس کی تمنا ہوتی ہے کہ ہم اُس خود غرضی کی نیت کو دور کریں جو ہمیں خدا کا امتحان لینے پر اُکسا رہی تھی۔ZU 233.2
یہ سردار جس کا بچہ مرنے کو تھا اپنی دُعا کی تکمیل کے بعد یسوع پر ایمان لانے کا منصوبہ رکھتا تھا مگر لازم تھا کہ اس سے پہلے اُس کی درخواست قبول ہو وہ یسوع مسیح کی باتوں کا یقین کرتا۔ یہ سبق ہمیں بھی سیکھنا ضروری ہے۔ ہمیں اُس کے وعدوں میں بھروسہ رکھنا ہو گا۔ جب ہم ایمان کے ساتھ خدا کے پاس آتے ہیں تو ہماری ہر درخواست اس کے دل میں اُ تر جاتی ہے۔ جب ہم نے اُس کی برکات کی درخواست کی ہے تو ہمیں یقین کر لینا چاہئے کہ وہ ہمیں مل گئی ہیں۔ اور اُس کے لئے ہمیں خدا کا اس لئے شکر ادا کرنا چاہئے کہ جو کچھ ہم نے اُس سے مانگا تھا اُس نے ہمیں عطا کر دیا ہے اور یہی ہمارا فرض ہے۔ ZU 234.1
لکھا ہے ” کہ وہ اپنے جلال کی دولت کے موافق تمہیں یہ عنائت کرے کہ تم اُس کے روح سے اپنی باطنی انسانیت میں بہت ہی زور آور ہو جاؤ ۔ اب جو ایسا قادر ہے کہ اُس قدرت کے موافق جو ہم میں تاثیر کرتی ہے ہماری درخواست اور خیال سے بہت زیادہ کام کر سکتا ہے۔ اور ہم ایمان لانے والوں کے لئے اُس کی بڑی قدرت کیا ہی بے حد ہے” افسیوں 16:3 ، افسیوں 19:1 ZU 234.2