Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
زمانوں کی اُمنگ - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 17 - ”نیکدُیُمس“

    “نیکدُیمس یہودی قوم میں اعلےٰ عہدے پر فائض تھا۔ وہ اُن میں با عزت اور بااثر شخص جانا جاتا تھا۔ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہت سی خوبیوں کا مالک تھا۔ وہ یہودیوں کی قومی کونسل کا بھی ممبر تھا۔ نیکد یمس امیر، تعلیم یافتہ اور بلند مرتبہ شخص ہونے کے باوجود وہ یسوع ناصری کی تعلیم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ اسباق جو مسیح نے سکھائے اُن کا اُس کے دل پر بڑا گہرا اثر ہو ا اور اُس نے چاہا کہ اُس سے مزید صداقت پائے۔ ZU 192.1

    ہیکل کے صاف کرنے کے عمل نے یہودیوں اور سرداروں میں یسوع کے خلاف نفرت بھڑکا دی۔ حقیقت میں وہ اس اجنبی کے اختیار سے لرزاں تھے۔ وہ اس معمولی گلیلی کی دیدہ دلیری کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ وہ اُس کے کام کو سرے سے ہی ختم کرنے عہہد کر چکے تھے۔ مگر سب کے سب اُن کے ساتھ متفق نہ تھے کیونکہ بعض ایک اُس کی مخالفت کرنے سے ڈرتے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ اس میں خدا کی روح ہے ورنہ جو کام یہ کرتا ہے کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اُنہیں یاد تھا کہ جن نبیوں نے بنی اسرائیل کے رہبروں کو اُن کے گناہوں کے سبب لعن طعن کیا اُنہیں تلوار کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ اُنہیں یہ بھی یاد تھا کہ جب بنی اسرائیل خداوند کی ہدایات سے منحرف ہو گئے تو خداوند نے اُنہیں بُت پرستوں کی غلامی میں دے دیا۔ وہ ڈرتے تھے کہ اب یہ قوم کے سردار اور کاہن جو مسیح کے خلاف بغاوت کرنے پر تلے ہوئے ہیں بیشک یہ اپنے آباو اجداد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ اگر یہ باز نہ آئے تو بنی اسرائیل پر وہی مصائب آسکتے ہیں جو ہمارے بزرگوں پر آئے تھَ۔ نیکدُیمس نے کونسل کے سامنے یہ ساری باتیں رکھیں جب وہ مسیح کو قتل کرنے کی سکیم بنارہے تھے۔ نیکدُیمس نے انہیں خبردار کیا اور تجویز پیش کی کہ وہ اس بارے جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ اُس نے مزید فرمایا کہ اگر مسیح کو خدا کا اختیار حاصل ہے تو ہم اُسے رد کر کے خدا کے غضب کو دعوت دینے کا سبب بنیں گے۔ کاہن اُس کی اس تجویز کو رد کرنے کا حوصلہ نہ رکھتے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے تھوڑی دیر کے لئے مسیح کے خلاف کچھ کھلم کھلا کاروائی نہ کہ۔ ZU 192.2

    یسوع مسیح سے کلام سننے کے بعد نیکدیمس نے موعودہ مسیح کی آمد کے بارے پیشنگوئیوں کا مزید لگن اور جانفشانی سے مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ جس قدر اُس نے زیادہ پڑھا اُسی قدر وہ مسیح کا زیادہ گرویدہ ہو گیا اور جانا کہ یہی آنے والا تھا۔ ہیکل کی بے حرمتی سے اُس کا دل دکھتا تھا۔ وہ اُس وقت وہیں تھا جب یسوع نے خریدوفروخت کرنے والوں کو مار بھگایا۔ اُس نے وہاں الہی اختیار کا اظہار پانی آنکھوں سے دیکھا۔ اُس نے یہ بھی دیکھا کہ نجات دہندہ نے غریبوں اور ناداروں اور بیماروں کو اپنے پاس بُلایا۔ اُنہیں دلاست اور شفا بخشی۔ ان بے کس لوگوں کے چہروں پر اس نے خوچی اور اطمینان دیکھا۔ اُن کے منہ سے نیکدُیمس نے خدا کی تمجید سُنی۔ اس منظر کو دیکھ کر اسے کوئی شک نہ رہا کہ ناصرت کے اس شخص کو ضرور خدا نے بھیجا ہے۔ ZU 193.1

    اُسکی دلی خواہش تھی کہ کسی وقت یسوع سے ملاقات کرے مگر وہ اعلانیہ ایسا کرنے سے گریز کرتا تھا۔ اگر نیکدُیمس یسوع ناصری کو قبول کر لیتا تو یہ سرداروں اور قوم کے بزرگوں کے لئے بڑی ندامت کا باعث ہوتا۔ کیونکہ خود نیکدُیمس اس اُستاد کے بارے بہت کم جاتا تھا اور اگر قومی کونسل کے ممبران کے علم میں میں یہ بات آ جاتی کہ نیکدُیمس یسوع ناصری کو مسیح مانتا ہے تو اُسے اُن کے غیض و غضب کا نشانہ بنتا پڑتا۔ اسلئے اُس نے مسیح سے خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا۔ پہلے اُس نے مسیح کے رہنے کی جگہ کے بارے جو کوہ زیتوں کے پاس تھی معلوم کیا۔ پھر لوگوں کے سونے کا انتظار کیا۔ اور جب اُس نے دیکھا کہ رات اندھیرے میں اُسے کوئی نہ پہچانے گا ہو مسیح کی ملاقات کو پہنچا۔ ZU 193.2

    مسیح یسوع کی حضوری میں نیکدُیمس پر عجیت سا خوف طاری تھا جسے اُس نے چھپانے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے مسیح سے کہا “اے ربی ہم جانتے ہیں کہ تو خدا کی طرف سے اُستاد ہر کر آیا ہے کیوں کہ جو معجزے تو دکھاتا ہے کوئی شخص نہیں دکھا سکتا جب تک خدا اُس کے ساتھ نہ ہو” یوحنا 2:3۔۔۔ مسیح کے معجزات اور اُس کی عجیب و غریب تعلیم کے بارے کلام کر کے اُس نے تعارف کی راہ ہموار کی۔ بیشک نیکدُیمس ظاہر کر رہا تھا۔ کیونکہ وہ مسیح کو آنے والا قبول نہیں کر رہا تھا۔ بلکہ اُسے ایک اُستاد تسلیم کر رہا تھا جسے خدا نے بھیجا ہو۔ ZU 194.1

    بجائے اس کے کہ یسوع نیکدُیمس کے تعریفی کلمات پر غور کرتا اُس نے اپنی آنکھیں نیکدُیمس پر جمائیں جیسے کہ وہ اُس کی روح کا مطالعہ کر رہا ہو۔ اپنی حکمت میں مسیح نےمعلوم کر لیا کہ جو اُس کے سامنے شخص بیٹھا ہے وہ صداقت کا متلاشی ہے۔ وہ اُس کے آنے کے مقصد سے بھی بخوبی واقف تھا۔ لہٰذا اُس کی قائلیت کو تقویت بخشنے کے لئے مسیح نے بڑی سنجیدگی اور محبت سے فرمایا “میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی کو نہیں دیکھ سکتا” یوحنا 3:3 نیکدُیمس تو تبادلہ خیال اور بحث مباحثہ کی غرض سے مسیح کے پاس آیا تھا۔ مگر صبح نے اُس کے سامنے صداقت کے اصولات کی بنیاد رکھ دی۔ اُس نے نیکدُیمس سے کہا روحانی پیدائش کا علم نظریاتی اور قیاس علم سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آپ کے لئےصرف یہی ضروری نہیں کہ آپ کے تجسس کی تشفی ہو، برعکس اس کے آپ کو نئے دل کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ آسمانی چیزوں کی قدر کرنا سیکھیں ضروری ہے کہ آپ کو آسمان کی طرف سے نئی زندگی نصیب ہو۔ جب تک یہ تبدیلی واقع نہیں ہو گی۔ یعنی تمام چیزیں نئی نہیں ہو جاتیں اُس وقت تک تمہاری بحث تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ میرے اختیار اور میرے مشن کا اگر آپ کو پتہ چل بھی جائے تو بھی بغیر زندگی کے تمہیں کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ ZU 194.2

    نیکدُیمس نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی تعلیم جو توبہ اور بپتسمہ کے بارے تھی سُن رکھی تھی۔ اور اُسے یہ بھی بخوبی علم تھا کہ یوحنا لوگوں کی توجہ اُس کی طرف مبذول کراتا تھا جو روح القدس سے بپتسمہ دے گا۔ اُس نے خود محسوس کیا تھا کہ یہودیوں میں روحانی اقدار کی کمی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ زیاعہ تر دُنیاوی اور جذباتی خواہشات کے زیر اثر ہیں۔ اور اُسے اُمید تھی کہ جب مسیح موعود آئے گا تو یہ چیزیں بہتر ہوتی چلی جائیں گی۔ وہ یوحنا کی التماس کے باوجود اپنے گنہگار دل کی جانچ کرنے اور گناہ کی قائلیت کے بارے ناکام رہا۔ وہ کٹرّ فریسی تھا۔ اور اُسے اپنے اُن بھلائی کے کاموں پر فخر تھا جو وہ کیا کرتا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ اُسے خدا کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ اُس نے کبھی بھی یہ محسوس نہ کیا کہ وہ غیر محفوظ ہے ۔ اُس وقت وہ خاصہ پریشان اور حیران ہوا جب مسیح یسوع نے اُسے بتایا کہ نئی زندگی کے بغیر تو خدا کی بادشاہی کو دیکھ بھی نہیں سکتا۔ ZU 195.1

    نئی پیدائش کی علامت جو یسوع نے بیان کی اُس سے نیکدُیمس بالکل ناواقف نہ تھا۔ کیونکہ جو شخص بت پرستی ترک کر کے بنی اسرائیل کے ایمان کو قبول کرنا اُسے نوزائیدہ بچے سے مشابہہ قرار دیا جاتا۔ اس لئے اُسے کمان ہو گیا ہو گا کہ نئے پیدائش سے مسیح کا کیا مطلب ہے؟ مگر چونکہ وہ تو پیدائشی اسرائیلی تھا اسلئے اُسے پوراپورا یقین تھا کہ خدا کی بادشاہی میں اُس کے لئے جگہ موجود ہے۔ بدیں وجہ اُس نے کبھی بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اور جب مسیح یسوع نے اُسے بتایا کہ تجھے تبدیلی کی ضرورت ہے تو وہ اس پر بڑا حیران ہوا۔ بلکہ اُس نے اُس وقت بہت بُرا منایا جب مسیح یسوع نے اُسے برائے راست فرمایا کہ تجھے نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔ ZU 196.1

    اس پر نیکدُیمس نے حیران ہو کر کہا کہ آدمی جب بوڑھا ہو گیا تو کیوں کر پیدا ہو سکتا ہے؟ یہ کہتے سے اُسنے ثابت کر دیا کہ جسمانی خدا کی روحانی باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ ZU 196.2

    مگر مسیح خداوند نے اُسکی دلیل کا جواب دلیل سے نہ دیا کیونکہ بحث و مباحثے سے روحیں جیتی نہیں جاتیں۔ اسلئے مسیح خداوند نے دوبارہ سچائی کے کلام کو اُس کے سامنے پیش کر کے فرمایا “میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی آدمی پانی اور روح سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا” نیکدُیمس کو پتہ تھا کہ پانی سے مراد بپتسمہ ہے مگر نیا دل صرف خداوند کی روح سے حاصل ہوتا ہے۔ اب نیکدُیمس جان گیا کہ وہ اُس شخص کی حضوری میں ہے جسکا ذکر یوحنا بپتسمہ دینے والے نے کیا تھا۔ یسوع نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا “جو جسم سے پیدا ہوا ہے وہ جسم ہے اور جو روح سے پیدا ہُوا ہے وہ روح ہے۔ ہمارا دل فطری طور پر بُرا ہے، ناپاک چیز میں سے پاک چیز کون نکال سکتا ہے؟ کوئی نہیں “ایوب 4:14۔۔۔ اور نہ ہی کوئی ایسی اب تک چیز ایجاد ہوئی ہے جو روح کو گناہ سے پاک کر سکے ۔ ZU 196.3

    اسلئے کہ جسمانی نیت خدا کی دُشمنی ہے کیونکہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے نہ سکتی ہے” “کیوں کہ بُرے خیال، خونریزیاں، زنا کاریاں، حرام کاریاں،چوریاں، جھوٹی گواہیاں، بد گوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں” ZU 197.1

    رومیوں 7:8 ، متی 19:15۔۔۔ اس سے پہلے کہ ندی کا پانی صاف شفاف اور پاک جو لازم ہے کہ وہ چشمہ ‘دل’ پاک ہو جس میں سے ندی پانی حاصل کرتی ہے۔ وہ جو اپنے کاموں کی بدولت خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتے۔ یہ اُن کے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ یکسر نا ممکن ہے۔ جو مذہبی رسوم و عقائد کو اپنا کر خدا کی بادشاہی کی آس لگائے بیٹھے ہیں اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ظاہر داری اُنہیں خدا کے لائق نہ ٹھہرا سکے گی۔ مسیحی زندگی ماضی کی زندگی میں تھوڑی بہت تبدیلی کا نام نہیں بلکہ ہماری فطرت کی تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ مسیحی زندگی گناہ کی طرف سے مرنا ہے۔ اس کے بعد مکمل تبدیلی۔ اور یہ تبدیلی روح القدس کے موثر کام کی بدولت ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ ZU 197.2

    نیکدُیمس ابھی تک اُلجھن کا شکار تھا جب مسیح نے اُسے ہوا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہوا جدھر چاہتی ہے چلتی ہے اور تو اُس کی آواز سنتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کدھر سے آتی اور کدھر کو جاتی ہے۔ جو کوئی روح سے پیدا ہوا ایسا ہی ہے “یوحنا 8:3 درختوں کی شاخوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی ہوئی ہوا اور آندھی کی آواز سُنی جا سکتی ہے۔ اور جب پتوں اور پھولوں کو ہوا تھپتھپاتی ہے پھر بھی احساس ہوتا ہے اس سب کے باوجود ہم ہوا یا آندھی کو دیکھ نہیں سکتے۔ اور نہ کوئی آدمی یہ بتاسکتا ہے کہ یہ کدھر سے آتی ہے اور کدھر کو جاتی ہے۔ ہمارے دلوں پر روح القدس کے عمل کا بھی یہی حال ہے۔ جس طرح ہوا کی حرکات و سکنات کے بارے ہم کچھ نہیں بیان کر سکتے اسی طرح روح القدس کے عمل کے بارے بھی ہم بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک تائب شدہ شخص شائد اُس طریقہ کار کے بارے من و عن بیان نہ کر سکے جس نے اُسے قائلیت کی روح بخشی مگر اُس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قائل نہیں ہوا اور اُس نے نجات دہندہ کو قبول نہیں کیا۔ یقیناً خداوند یسوع مسیح اس قائل شدہ شخص کے دل پر تواتر کے ساتھ ایسے ہی کام کر رہا ہے جیسے ہوا اور آندھی اپنے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ عمل شائد اس قدر دھیرے دھیرے وقوع میں آرہا ہے کہ مسیح کے قریب آنے والی روح بھی بے خبر ہے۔ غوروخوض کلام کی تلاوت یا مبشر کی منادی کے ذریعے بھی یہ عمل اثر پذیر ہو سکتا ہے۔ جب روح آہیں بھر بھر کر ہماری شفاعت کرتا ہے تو انسان خوشی سے خود کو مسیح کے تابع کر دیتا ہے۔ بعض اس کو اچانک قائلیت کا نام دیتے ہیں جو دُرست نہیں۔ قائلیت تو خدا کے روح کے مسلسل عمل کا کام ہے جس میں خدا کا تحمل اور رحم شامل ہے۔ ZU 197.3

    گو ہوا بذات خود غیر مرئی شے ہے پھر بھی اس سے پیدا شدہ نتائج دیکھے اور محسوس کئے سا سکتے ہیں۔ اسی طرح جو نجات پا گیا ہے۔ وہ روح القدس کے عمل کو دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے۔ جب خدا کا روح ہمارے دل کا قبضہ لیتا ہے تو ہماری زندگی خود بخود تبدیل ہو جاتی ہے۔ بدی کے خیالات دور ہو جاتے ہیں۔ غصے، حسد اور لڑائی کی جگہ مہر و محبت، خوشی و شادمانی اور حلیمی لے لیتی ہے۔ جب کوئی روح خدا کے تابع ہو جاتی ہے تو خداوند اپنی برکات اُس پر نچھاور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ قدرت جسے کوئی دیکھ نہیں سکتا انسان کو نئے سرے سے تخلیق کر دیتی ہے۔ یعنی نئی پیدائش ہے۔ ZU 198.1

    نجات کے کام کو سمجھنا انسان کے بس کا روگ نہیں۔ یہ بھید انسانی حکمت و فہم اور انسانی علم کے ادراک سے پرے ہے۔ اس کے باوجود جو موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہوا ہے وہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ الہی صداقت ہے۔ اس دُنیا میں ہم اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر نجات کی ابتدا کو دیکھ سکتے ہیں۔ مگر اس کے نتائج ابدیت کو چھوتے ہیں۔ ZU 199.1

    جب خداوند یسوع مسیح کلام کر رہاتھا تو سچائی کی کچھ کرنیں نیکدُیمس کے ذہن میں سرائیت کر گئیں۔ روح القدس کی تاثیر نے اُسکے دل پر گہرا اثر کیا۔ اس کے باوجود وہ نجات دہندہ کے کلام کی پوری افادیت سے واقف نہ ہو سکا۔ خاص کر وہ نئی پیدائش کی ضرورت سے بالکل متاثر نہ ہوا۔ بلکہ ابھی تک حیران تھا کہ “آدمی جب بوڑھا ہو گیا تو کیوں کر پیدا ہو سکتا ہے “اُس کے نزدیک یہ سب ان ہونی باتیں تھیں۔ اسی لئے اُس نے پوچھا“یہ باتیں کیوں کر ہو سکتی ہیں” مسیح نے جواب میں اُس سے کہا بنی اسرائیل کا اُستاد ہو کر کیا تو اُن باتوں کو نہیں جانتا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ جس نے مذہبی تعلیم پائی ہو اُسے ان اہم سچائیوں سے بے بہرہ تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس پر نیکدُیمس جان گیا کہ اُسے سچائی کے اس اُستاد کے قدموں میں بیٹھ کر سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اُس کے سامنے اُس کی روحانی غفلت اور کم علمی کھڑی تھی جسے دیکھ کر وہ ضرور پانی پانی ہو گیا ہو گا۔ اور یہ مسیح کے سادہ کلام اور محبت کا اثر تھا جس نے نیکدُیمس کو اپنی بے چارگی کا احساس دلایا۔ ZU 199.2

    اس کے بعد جب خداوند مسیح نے اپنے کام کی نوعیت اور غرض و غائت سے اُسے آگاہ کیا کہ وہ روحانی بادشاہی قائم کرنے آیا ہے نہ کہ جسمانی اور عارضی، تو اس سے نیکدُیمس کو دھچکا لگا۔ اس پر یسوع نے اُسے فرمایا۔ “جب میں نے تم سے زمین کی باتیں کہیں اور تم نے یقین نہیں کیا تو اگر میں تم سے آسمان کی باتیں کہوں تو کیوں کر یقین کرو گے؟ اگر نیکدُیمس خدا کے فضل کی مثال کو نہ سمجھ سکا جو انسان کے دل پر کام کرتا ہے تو وہ آسمانی جلالی بادشاہت کے بارے کیوں کر سمجھ سکتا تھا۔ اگر مسیح کے اُس کام کو وہ نہ سمجھ سکا جس کو مسیح اس دھرتی پر کرتا تھا تو وہ اُس کی آسمانی خدمت کو کیونکر سمجھ سکتا تھا۔ ZU 200.1

    یہودی جو ابراہام کی اولاد ہونے کا عوےٰ کرتے تھے جب اُن کو ہیکل سے مار بھگایا تو وہ خدا کے اُس جلال کا سامنا نہ کر سکے جو مسیح کے چہرے جلوہ گر تھا۔ اُنہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ خدا کی مُقدس خدمت کے نااہل تھے۔ یہودی ظاہرہ پاکیزگی کو قائم رکھنے کے بڑے قائل تھے مگر وہ دل کی پاکیزگی کو یکسر نظر انداز کر جاتے۔ شریعت کے الفاظ کی تو وہ پوری پیروی کرتے مگر وہ شریعت کی روح کو تواتر سے ٹھکرا رہے تھے۔ اُنہیں بھی دل کی اُسی تبدیلی کی ضرورت تھی جو مسیح نے نیکدُیمس کو بتائی۔ بلکہ اُنہیں گناہوں سے نجات اور دل کی پاکیزگی اور نئی پیدائش کی اشد ضرورت تھی۔ ZU 200.2

    بنی اسرائیل کے پاس نئی پیدائش کے کام کو نہ جاننے کا کوئی بہانہ نہ تھا۔ کیونکہ یسعیاہ نبی نے روح کی ہدائت سے اُنہیں آگاہ کر رکھا تھا۔ اور اسی طرح دوسرے نبیوں نے بھی اُنہیں گاہے بگاہے اس کی ضرورت محسوس کروائی تھی۔ ZU 200.3

    ہم تو سب کے سب ایسے ہیں جیسے ناپاک چیز اور ہماری تمام راستبازی ناپاک لباس کی مانند ہے۔ ”اے خدا ! میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں ازسرِ نو مستقیم روح ڈال “ بلکہ خدا نے وعدہ بھی کیا کہ میں تمہارے اندر سے سنگین دل نکال کر گوشتین دل عطا فرماؤں گا۔ “اور میں تم کو نیا دل بخشوں گا اور نئی روح تمہارے باطن میں ڈالوں گا اور تمہارے جسم میں سنگین دل کو نکال ڈالوں گا اور گوشتین دل تم کو عنائت کروں گا۔ اور میں اپنی روح تمہارے باطن میں ڈالوں گا اور تم سے اپنےآئین کی پیروی کراؤں گا اور تم میرے احکام پر عمل کرو گے اور اُن کو بجا لاؤ گے“ (یسعیاہ 6:64 ، زبور 10:51 ، حزقی ایل 26:36 -27 ) ZU 201.1

    نیکدُیمس نے محض سرسری طور پر مندرجہ بالا اقتباسات کو ضرور پڑھ رکھا تھا۔ مگر اب اُن کے معنی سمجھنے لگا بلکہ بخوبی جان گیا کہ محض شریعت کے لفظوں کو ماننا اور اس کی روح کو نہ سمجھنا انسان کو خدا کی بادشاہی کی لائق نہیں ٹھہراتا۔ نیکدُیمس بذاتِ خود سمجھتا تھا کہ وہ باعزت شخص ہے مگر یسوع مسیح کی حضوری میں آ کر اُسے معلوم ہوا کہ اُس کا دل نجس ہے اور اُس کی زندگی نکمی ہےZU 201.2

    نیکدُیمس یسوع مسیح کا گرویدہ ہو گیا۔ اور جیسے مسیح نے اسے نئی پیدائش اور نئی زندگی کے بارے تعلیم دی تھی وہ چاہتا تھا کہ اب وہ سب کچھ اُس کی زندگی میں پورا ہو جائے۔ مگر اُس نے اپنے دل ہی دل میں کہا کہ یہ کیوں کر ہو گا۔ اۃس کے اس سوال کے جواب میں جو ابھی اُس کے دل میں تھا یسوع نے فرمایا “جس طرح موسےٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابنِ آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے تا کہ جو کوئی ایمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے” یوحنا 14:3ZU 201.3

    سانپ کو اونچے پر چڑھانے کی علامت کی بدولت نیکدُیمس یسوع مسیح کے مشن کو بخوبی سمجھ گیا۔ جب بنی اسرائیل سانپ کے کاٹے سے مر رہے تھے خداوند نے موسٰی کو حکم دیا کہ ایک پیتل کا سانپ بنا اور اسے اُونچے پر لٹکا دے۔ اسکے بعد اعلان کر دے کہ جو کوئی سانپ کا ڈسا ہوا اس سانپ کی طرف نگاہ کرے بچ جائے گا۔ لوگ بخوبی جانتے تھے کہ پیتل کے اس سانپ میں میں بذاتِ خود بچانے کی کوئی قدرت موجود نہیں۔ کیوں کہ یہ تو محض یسوع کی علامت تھی۔ اور جیسے سانپ کو اونچے پر چڑھایا گیا اسی طرح مسیح کو گناہ آلودہ جسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کے لئے بھیج کر جسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا” رومیوں 3:8ZU 202.1

    بنی اسرائیل قربانیوں کے نظام کو گناہ سے رہائی کا باعث مانتے تھے۔ خداوند اُن کو سکھانا چاہتا تھا کہ یہ رسمی قربانیاں پیتل کے سانپ سے کچھ زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں ۔ ان دونوں کے ذریعے بنی نوع انسان کے ذہن ودماغ نجات دہندہ کی طرف مبذول کرنا مقصود تھا۔ خواہ یہ سانپوں کی کاٹے کا علاج ہو یا گناہ سے معافی مقصود ہو۔ دونوں صورتوں میں انسان کو خدا کی مہیا کردہ بخشش میں ایمان رکھنا از حد ضروری تھا۔ اگر اُنہیں زندگی پانا تھی تو اُن کے لئے لازم تھا کہ وہ بلی پر لٹکے ہوئے سانپ کی طرف دیکھیں۔ZU 202.2

    بعض جن کو سانپوں نے کاٹا ، ہو سکتا ہے کہ سوال کرتے ہوں کہ پیتل کے اس سانپ پر نگاہ کر کے ہم کیونکر شفا پا سکتے ہیں؟ وہ شائد اس کی کوئی ٹھوس دلیل کا مطالبہ کرتے ہوں ، مگر اُنہیں کوئی وضاحت نہ دی گئی۔ بلکہ صرف یہ کہ جو کچھ خدا نے موسٰی کے ذریعے فرمایا ہے اُسے مانیں ۔ انکار کرنے کا حتمی نتیجہ موت تھا۔ متنازعہ فیہ روح میں جلا پیدا نہیں کر سکتے ۔ ہمیں مسیح یسوع کی طرف تکنا اور زندہ رہنا ہے۔ نیکدُیمس نے اس سے سبق حاصل کر کے اُس پر عمل کیا۔ نیز گھر جا کر اُس نے کلام مقدس کو نئے انداز سے پڑھا۔ اُس کے مفہوم کو صدق دل سے تلاش کیا۔ بحث و مباحثہ اور محض ایک نظریہ کے طور پر نہیں بلکہ ابدی زندگی پانے کی لئے ۔ اور جونہی اُس نے خود کو خدا کے تابع کر کے روح القدس کی رہنمائی حاصل کی تو وہ خدا کی بادشاہی دیکھنے لگا۔ZU 202.3

    بلی پر لٹکائے ہوئے سانپ کی علامت سے نیکدُیمس نے سبق حاصل کیا ۔ آج بہت سے لوگوں کو وہی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہم بڑی وفاداری سے خدا کی شریعت کو مانتے ہیں یہی اُن کے لئے کافی ہے۔ اور جب اُن کو کہا جاتاہے کہ یسوع کی طرف تکیں وہی اپنے فضل سے آپ کو نجات دے گا ۔ تو وہ فوراً کہتے ہیں “یہ بات کیوں کر ہو سکتی ہے؟”ZU 203.1

    سب سے بڑے گنہگار ہونے کی حثیت سے ہمیں زندگی میں اُسی طرح داخل ہونے کی ضرورت ہے جیسے نیکدُیمس کو کیونکہ “اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں۔” اعمال 12:4 ZU 203.2

    ایمان کے ذریعے ہم خدا کے فضل کو حاصل کر سکتے ہیں ۔ مگر ایمان ہمارا نجات دہندہ نہیں ہے۔ اس سے ہم کُچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے ۔ ایمان وہ ہاتھ ہے جس سے ہم مسیح کو پکڑتھ اور اُس کی خوبیوں کو سراہتھ ہیں کیوں کہ وہ ہمارے گناہوں کا علاج ہے۔ یاد رہے کہ ہم خدا کی روح کے بغیر توبہ بھی نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ لکھا ہے۔ “اُسی کو خدا نے مالک اور منجی ٹھہرا کر اپنے دہنے ہاتھ سے سر بلند کیا تا کہ اسرائیل کو توبہ کی روفیق اور گناہوں کی معافی بخشے” اعمال 31:5 ZU 203.3

    پھر ہم کیوں کر بچائے جاتے ہیں؟ جیسے موسٰی نے سانپ کو بیابان میں لٹکایا۔ اُسی طرح ابنِ آدم بھی لٹکایا گیا اور جو سانپ سے کاٹا گیا ہے اور جس نے دھوکا کھایا ہے اُس کی طرف دیکھے اور زندگی پائے۔ZU 204.1

    “دیکھو خدا کا برّہ جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔ یوحنا 29:1 صلیب سے چمکنے والا نور خدا کی محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اُس کی محبت ہمیں اُس کے قریب کھینچ لاتی ہے۔ اگر ہم اس محبت کی مذاحمت نہ کریں گے تو یہ ہمیں گناہوں سے توبہ کے لئے صلیب کے پاس لے آئے گی۔ پھر خدا کا روح ایمان کے ذریعے ہمیں نئی زیندگی بخشے گا۔ ازاں بعد ہمارے تمام خیالات اور ارادے یسوع مسیح کے تابع ہو جائیں گے ۔ ہمارا دل ، ذہن اُس کی شبیہ کی مانند تخلیق پائیں گے جو ہم میں تمام چیزوں کو اپنے تابع کرنے کے لئے کام کرتا ہے۔ پھر خدا کی شریعت ہمارے دل و دماغ میں لکھی جائے گی اور ہم مسیح کے ساتھ مل کر کہہ سکیں گے “اے میرے خدا! میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے۔ بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے“زبور 8:40 ZU 204.2

    نیکدُیمس کے ساتھ گفتگو کے دوران مسیح یسوع نے نجات کی تجویز اور اپنے مجسم ہو کر آنے کی غرض و غائت پر سے پردہ اُٹھایا۔ اپنی خدمت کے آغاز میں ہی اُس نے نیکدُیمس پر جو قومی کونسل کا ممبر اور بنی اسرائیل کا اُستاد تھا سچائی کو کھولا۔ کیونکہ اُس کا ذہن صداقت قبول کرنے کے لئے تیار پایا گیا۔ مگر بنی اسرئیل کے دوسرے معلموں نے نور کو قبول نہ کیا۔ نیکدُیمس نے کم و بیش تین سال تک سچائی کو چھپائے رکھا اور اُس کا بہت تھوڑا پھل نظر آیا۔ مگر یسوع جانتا تھا کہ اُس نے کیسی زمین میں بیج ڈالا ہے۔ رات کے وقت تنہائی میں جو کلام نیکدُیمس سے کیا گیا وہ بے تاثیر نہ لوٹا۔ کچھ دیر کے لئے تو اس نے مسیح کو اعلانیہ تسلیم نہ کیامگر اس دوران اُس نے مسیح کی زندگی کو دیکھا اور اُس کی تعلیم پر خوب غوروخوض کیا۔ وہ بدستور قومی کونسل میں مسیح کو قتل کرنے کی سازش کی مخالفت کرتا رہا۔ اور آخر کار جب مسیح کو مصلوب کر دیا گیا تو نیکدُیمس کو مسیح کی وہ باتیں جو اُس نے کوہ زیتون پر فرمائی تھیں یاد آئیں۔ “جس طرح موسٰی نے سانپ کو بیابان میں اُونچے ہر چڑھایا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابنِ آدم بھی اونچے پر چڑھایا جائے تاکہ جو کوئی ایمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے” اُس لیلائے شب کی خفیہ ملاقات کے دوران جو روشنی نیکدُیمس نے پائی اُس نے صلیب کو کوہ کلوری پر روشن کر دیا اور اُس نے مسیح یسوع میں دُنیا کے نجات دہندہ کو پایا۔ZU 204.3

    مسیح کے آسمان پر صعود فرما جانے کے بعد جب شاگرد ایزا رسانی کی وجہ سے تتر بتر ہو گئے تھے۔ اُس وقت نیکدُیمس بڑی دلیری سے سامنے آیا جس وقت یہودی سوچ رہے تھے کہ مسیح کی موت کے ساتھ اُس کی کلیسا بھی ختم ہو گئی ہے نیکدُیمس نے اُس ابتدائی کلیسیا کو مالی امداد کے ذریعے زندہ و جاوید رکھا۔ مصیبت کے وقت اُس نے مسیح کلیسیا کی مدد کی گو اُس پر یہودیوں کی طرف سے نالش ہوئی تھی مگر وہ چٹان کی طرح قائم رہا ۔ اُس نے شاگردوں کو حوصلہ دیا۔ اُن کے ایمانوں کو گرمایا اور مضبوط کیا اپنی دولت سے اُن کی مالی اعانت کی تاکہ وہ خوشخبری کے کام کو آگے بڑھا سکیں۔ مگر یہودیوں نے اسے اس خدمت کے بدلے لعن طعن کیا۔ZU 205.1

    نیکدُیمس نے مسیح کے ساتھ ملاقات کی کہانی یوحنا کو بتائی جس نے اسے قلمبند کیا۔ تاکہ لاکھوں اس کہانی سے ہدائت پائیں۔ اس کہانی میں مرقوم صداقتیں یسوع کی زبان مبارک سے نکلے کی زمانے سے لیکر آج تک یکساں مصدقہ ہیں۔ZU 205.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents