Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
عظیم کشمکش - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    تیرہواں باب - نیدر لینڈز اور سیکنڈی نیویا

    نیدر لینڈ نے پاپائیت کے ظلم و تشدد کے خلاف بہت پہلے احتجاج کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ لوتھر کے وقت سے سات سال پہلے رومن اسقف اعظم پوپ پر دو بشپوں نے بلا جھجک سنگین الزامات عائد کۓ جنہیں روم میں طور ایمبسڈرز کے بھیجا گیا تھا۔ اُنہوں نے پوپ کے اصل کردار پر سے پردہ اُٹھایا۔ پوپ کا کہنا ہے کہ خُد ا نے “چرچ کو اُس کی ملکہ اور جیون ساتھی(spouse) بنا رکھاہے۔ اور اُسے ایسا جہیز دیا ہے جو نہ تو خستہ و خراب ہوتا ہے اور نہ ہی مُر جھاتا ہے۔ اور اُسے ابدی عصا اور تاج بھی عطا کیاہے۔ AK 232.1

    “پاسبان ہونے کی بجاءے تو خُدا کی ہیکل میں براجمان ہوتا ہے۔ تو بھیڑوں کے لیے بھیڑیا بنا بیٹھا ہے۔ تو ہمیں یقین دلاتا ہے کہ تو سپریم بشپ ہے ، مگر آپ کا رویہ مردم آزارکاسا ہے۔ آپ کوتو خادموں کے خام بننا چاہیےتھا۔ مگر آپ تو خُداوندوں کے خُدا بننے کی کوشش میں ہیں۔ آپ خُدا کے احکام کی توہین کرتے ہیں۔ روح القدس دُنیا کے کناروں تک کلیسیاوں کا معمار ہے۔ ہمارے خُدا کا شہر، جس کے ہم شہری ہیں۔ آسمان کے تمام حصوں تک رساءی کرتا ہے اور یہ اُس شہر سے بہت بڑا ہے جس کو نبیوں نے بابل کا نام دیا ہے، جو الہی ہونے کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ خود کو آسمان کا مقبول نظر ظاہر کرتا ہے۔ اور لاف زنی کرتا ہے کہ اُس کی حکمت ابدی ہے۔ اور پھر آخر میں بغیر کسی دلیل کے دھینگ مارتا ہے کہ میں نے کبھی غلطی نہیں کی اور نہ کبھی غلطی کر سکتا ہے“۔AK 232.2

    اور بھی کئ لوگ صدی تاصدی احجاج کرنےکے لیے پیدا ہوتے رہے۔ اور وہ ابتدائ ٹیچرز جومختلف ملکوں کا سفر کرتے رہے اُنہیں مختلف ناموں سے جانا جاتاتھا۔ اور اُنہوں نے والڈن سس مشریوں کا ساکردار ادا کیا، اور ہر جگہ انجیل کی تعلیم پھیلا دی، جونیدر لینڈ تک سریت کر گئ۔ اُنہوں نے والڈن سس کی بائبل کوڈچ زبان میں ترجمہ کیا۔ اور کہاکہ”اس میں بہت فائد ہ ہے۔ کوئ دل لگی یا ہنسی ٹھٹھا نہیں ،نہ بناوٹی جھوٹی کہانیاں ہیں، نہ یہ کوئ بے ہودہ شے ہے ، نہ عیاری و مکروفریب ہے ، بلکہ یہ سچا ئ کا کلام ہے، اس میں کہیں آگے پیچھے سخت چھال تو ہے۔ مگر اس میں جو گودا اور مٹھاس پائ جاتی ہے۔ وہ بھلی Ibid,b.1.p.14AK 232.3

    اب رومی جبرو تشدد شروع ہو گیا، مگر اس جورو جبراور چتا کے درمیان ایمانداروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور بڑی مستقل مزاجی سے یہ منادی جاری رہی کہ صرف باءبل مقدس ہی لاخطا اور بااختیار ہستی ہے۔ کسی کو بھی اس کی اطاعت کے لیے جبر کا نشانہ نہ بنایا جاۓ بلکہ ہر ایک کو منادی کے ذریعہ جیتا جاۓ۔ Martyn, vol.2 p.87AK 233.1

    لوتھر کی تعلیم کے لیے نیدرلینڈ بڑی زرخیز زمین نکلی کیونکہ جلد ہی وہاں سے کءی ایک انتہائ مخلص، دیندار اور وفادار انجیل کی منادی کرنے والے اُٹھ کھڑے ہوۓ۔ ہالینڈ کے ایک صوبے میں سے مینو سائمز (Menno simons) اُٹھا۔ وہ ایک تعلیم یافتہ رومن کیتھولک تھا جو کاہنوں کی جماعت میں شامل ہونے کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ مگر وہ بایبل سے بالکل ناواقف تھا۔ وہ گمراہ اور بدعتی ہونے کے خوف سے بائبل نہیں پڑھتا تھا۔ جب اُسے خود اس تعلیم پر شک گزرا کہ عشاۓ ربانی کے وقت شیرہ اور روٹی، سچ مچ مادہ تبدیل کر جاتی ہے۔ یعنی شیرہ مسیح یسوع کا بدن بن جاتی ہے تو اُس نے سمجھا کہ یہ ابلیس کی طرف سے مجھ پر صرف آزماءش ہے دعا اور اعتراف کے ذریعہ اُس نے اس سے آزاد ہونے کی بے سود کوشش کی۔ عیاشی اور فضول خرچی کے ذریعہ اس الزام دینے والے ضمیر کو چپ کرانے کی کوشش کی مگر اس کا بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کچھ دیر کے بعد وہ عہد جدید کا مطالعہ کرنے پر مائل ہو گیا۔ اور اس کے ساتھ لوتھر کی تعلیمات کا بھی مطالعہ کیا۔ اُس نے اصلاح شدہ ایمان قبول کر لیا اس کے فورا بعد اس نے پڑوسی گاوں میں ایک شخص کا سر اسلیے قلم ہوتے دیکھا کیونکہ اُس نے دوبارہ بپستمہ لیا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ شیر خوار کے بپستمہ کے بارے باءبل کامطالعہ کرنے لگا۔ الہامی نوشتوں میں اُسے بچوں کے بپستمہ کے بارے کوئی ثبوت نہ ملا۔ جبکہ بپستمہ پانے کے لیے توبہ اور ایمان کا مطالبہ ہر جگہ موجود تھا۔ AK 233.2

    مینو ساءمز نے رومن چرچ کو ترک کر دیا اور اپنی پوری زندگی اُس سچاءی کی منادی کرنے کے لیے وقف کر دی جو اُس نے حاصل کی تھی۔ جرمنی اور نیدر لینڈ دونوں جگہوں پر متعصب جنونی کلاس اُٹھ کھری ہوءی تھی جو بعید القیاس اور فتنہ انگیز تعلیم کی حمایت کرتی تھی۔ وہ قانون میں ناجاءز دست اندازی کرتی۔ امن عامہ میں خلل ڈالتی، دہشت گردی اور فتنہ فساد برپا کرتی۔ مینو نے ان وحشت ناک تحریکوں کے نتائج کو دیکھا جن کی طرف یہ لے جا رہی تھیں۔ چنانچہ اُس نے نامعقول تعلیم اور مذہبی جنونی سکیموں کی بڑی شدت سے مخالفت کی۔ بہتیرے ایسے تھے۔ جن کو مذہبی فتنہ انگیز نے گمراہ کر لیا تھااور انہوں نے بھی اپنی بیش قیمت تعلیم کا انکار کر دیا۔ تاہم ابھی قدیم مسیحیوں کی نسل میں سے بے شمار باقی بچے تھے جو درحقیقت والڈن سیسن(Waldensian) کی تعلیم کا پھل تھے۔ ان طبقوں میں مینو نے بڑی سرگرمی اور کامیابی کیساتھ کام کیا۔AK 233.3

    پچیس دسمبر تک اُس نے اپنے بیوی بچوں سمیت سفر کیا۔ اُسے بھوک افلاس اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بلکہ اکژ اُسے اپنی زندگی کو خطروں میں ڈالنا پڑا۔ نیدرلینڈ اور شمالی جرمنی میں وہ گھومتا پھرتا رہا۔ اُس نے زیادہ تر کام غریب طبقوں میں کیا۔ اور اُن میں سخت محنت کر کے دوررس اثر چھوڑا۔ وہ فطری طور پر خوش بیان تھا۔ گواُس کی محدود تعلیم تھی مگر وہ ایماندار اور ثابت قدم شخص تھا۔ روح کا فروتن، سلیم الطبع اور پرہیز گار انسان تھا۔ وہ قانون اور ضابطے جو اُس نے دوسروں کو سکھائے خود بھی اُنہی کے مطابق زندگی بسر کیا کرتا تھا۔ اُس نے لوگوں کے اعتماد کو بحال کیا۔ اُس کے پیرو کارادھر اُدھر پراگندہ کیے اور مسلے گئے۔ مذہبی جنونیوں کے انسانیت سوز عمل کے بھینٹ چڑھ گیے۔ اس کے باوجود اُس کی محنت کے سبب بڑی تعداد میں لوگ تبدیل ہوئے۔AK 234.1

    نیندرلینڈ ہی وہ جگہ تھی جہاں سب سے زیادہ اصلاح شدہ تعلیم کو قبول کیا گیا۔ چند ملکوں کے حماءیتوں نے نہایت ہی وحشت ناک ایذارسانی برداشت کی۔ جرمنی میں چارلس وی نے ریفریمیشن کی ممانعت کر دئ اور اُس نے اس کے تمام حمائتیوں کو سولی پر لٹکا دیا۔ مگر اُس کی بربریت کے خلاف شہزادے اُٹھ کھڑے ہو ۓ ۔ نیندر لینڈز میں اُس کا زیادہ زور اور اختیار تھا اور ایذارسانی کے احکام فورا یکے بعد دیگرے پہنچے۔ باءببل پڑھنا، سننا یا اُس کی منادی کرنا، یا اس بارے گفتگو کرنے کی سزا موت تھی۔پوشیدگی میں خُدا سے دُعا مانگنا، بتوں کے آگے جھکنے سے گریز کرنا، یا زبور گانا، اس کی بھی سزا موت تھی۔ حتی کہ وہ جو اپنی غلطی کا اعتراف کر کے معافی کے لیے ملتجی ہوتے وہ بھی ملعون ٹھہراۓ جاتے۔ اگر یہ عمل کوئ مرد کرتا تو اس کاسر تلوار سے اڑا دیا جاتا اور اگر یہ خاتون ہوتی تو اُسے زندہ دفن کر دیا جاتا۔ چارلس اور فلپ دوم کے دور حکومت میں یوں ہزاروں جانوں کا زیاں ہوا۔AK 234.2

    ایک دفعہ ایک سارا خاندان سرکاری تحقیقات کرنے والوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ اُس پر یہ الزام تھا کہ وہ ماس سے گریزاں ہیں اور گھر پر تنہاءی میں عبادت کرتے ہیں۔ جب سے سے چھوٹے لڑکے سے پوچھا گیا تو اُس نے کہا”ہم گھٹنے نشین ہوتے ہیں کہ خُداوند ہمارے ذہنوں کو روشن کرے اور ہمارے گناہ معاف کرے۔ ہم اپنے بادشاہ کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اس کی حکومت پروان چڑھے اور اس کی زندگی خوش و خرم ہو ۔ ہم اپنے مچٹرٹیس کے لیے دعا مانگتے ہیں کہ خُداوند اُن کو محفوظ رکھے۔ AK 234.3

    بعض ججز تو اس سے بڑے متاثر ہوءے اس کے باوجود والد اور اُس کے بیٹوں میں سے ایک کو سولی چڑھا دیا گیا۔ AK 235.1

    ایذا پہنچانے والوں کے غصے کی ہمسری شہیدوں کے ایمان نے کر دکھائ۔ مرد ہی نہین بلکہ نازک ظرف خواتین اور نو خیز لڑکیوں نے بھی پسپا نہ ہو نے والی جرات کا مظاہر ہ کیا۔ “بیگمات اپنے خاوندوں کی چتا کے پاس کھڑی ہوتیں اور جب وہ آگ کا سامنا کرتے تو وہ تسلی کے الفاظ بولتیں۔ یازبور گاتیں تا کہ وہ بیدل نہ ہوں“نوجوان لڑکیاں اپنی قبر میں یوں لیٹ جاتیں جیسے وہ رات کو اپنے کمرے میں سونے کو جاتی ہیں۔ سولی چڑھنے اور چتامیں جلنے کے لیے اپنے بہترین لباس میں جاتیں جیسے وہ اپنی شادی کے لیے جا رہی ہوں۔ Ibid, b.18, ch.6AK 235.2

    (See tertullian,apology,paragraph.50)جیسے مظاہر پرستی بت پرستی کے زمانہ میں انجیل کو ختم کرنے کی کوشش کی گیی مگر مسیحیوں کا خون بیج بن گیا تھا۔ اسی طرح ان کی ایذارسانی نے بھی سچائ کے گواہوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا۔ ہر سال فرمانروا اس بات پر جھنجھلااُٹھے کہ اُنہیں کامیابی نصیب نہیں ہو رہی اور ایذارسانی کے طریقہ میں مزید شدت لانے کے لیے نیت ٹھانی گئ مگر یہ بھی رائیگاں گیا۔ نوبل ولیم آف اورنج کی زیر نگرانی انقلاب آیا اور ہالینڈ میں خُدا کی عبادت کرنے کی آزادی مل گئ۔ AK 235.3

    پیڈمانٹ(Piednont) کے پہاڑوں، فرانس کے میدانوں اور ہالینڈ کے ساحلوں پر انجیل کی ترقی ولیم کے شاگردوں کے خون سے رقم ہوئ۔ مگر شمالی ممالک میں اس کا داخلہ پُرامن طریقہ سے ہوا۔ وٹن برگ میں جو سٹوڈنٹس تھے وہ اپنے گھروں کو لوٹے اور سکینڈے نیویا (Scandinavia)میں صلاح شدہ ایمان ساتھ لاۓ۔ لوتھر کی تصانیف کی اشاعت بھی روشنی پھیلانے کا ذریعہ بننں۔نارتھ کے سادہ محنت کش لوگوں نے کرپشن، شان و شوکت اور روم کی توہم پرستی سے منہ موڑ کر سادگی، پاکیزگی اور باءبل کی سچاءیوں کو اپنا لیا جو زندگی بخش ہیں۔ AK 235.4

    (Tausen)ٹائیسن ”ڈنمارک اصلاح کار“ایک کسان کا بیٹا تھا۔ اس بچے نے اپنی چھوٹی عمر میں ہی اپنے ہونہار ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا۔ وہ تعلیم کا پیاسا تھا۔ مگر اپنے والدین کے حالات کے سبب وہ ایسا نہ کر پایا اور وہ خانقاہ میں داخل ہو گیا۔ یہاں اُس کی زندگی کی پاکیزگی معہ اُس کی ایمانداری اور بدل و جان محنت نے اپنے بڑوں کی حمایت حاصل کر لی۔ اُس کے امتحانات کےنتائج یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ آنے والے دنوں میں کلیسیا کی بہت بڑی خدمت انجام دے گا۔ اور فیصلہ کیا گیا کہ اُسے جرمنی یا نیدر لینڈز کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا جاۓ۔ نوجوان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے لیے سکول کا خود چناؤ کرے مگر اس میں ایک شرط بھی رکھی گئ کہ وہ وٹن برگ نہیں جاۓ گا۔ راہبوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کلیسیا کا سکالر بدعتی زہر کا شکار ہو۔ AK 235.5

    ٹائیسن، کولاگنے(cologne) گیا، جو اس وقت رومن ازم کا قلعہ تھا۔ یہاں وہ بہت جلد سکول ٹیچرز کے تصوف کے رنگ علم باطن میں رنگا گیا۔ اسی دوران اس نے لوتھر کی تصانیف حاصل کر لیں۔ اُس نے اُنہیں بڑی خوشی اورحیرانی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پڑھا۔ اورذاتی طور پر اصلاح کار کی ہدایات سے لطف اندوز ہونا چاہا۔ مگر ایسا کرنے سے خانقاہی بزرگوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لینا تھا، جس کے باعث وہ اُن کی مدد سے محروم ہو سکتا تھا۔ تاہم اُس نے فیصلہ کر لیا اور اُسے بطور طالب علم کے وٹن برگ میں داخلہ مل گیا۔ AK 236.1

    ڈنمارک واپس آنے پروہ دوبارہ خانقاہ چلاگیا۔ بھی تک کوئ اسے لوتھرازم کے حامی کے طور پر شک کی نظر سے نہیں دیکھتا تھا۔ اُس نے اس راز کو چھپاۓ رکھا۔ مگر اپنے ساتھیوں کے تعصب کو بھڑکاۓ بغیر اُن کی رہنمائ پاکیزہ ایمان اور مقدس زندگی کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا رہا۔ اُس نے اُن کے لیے بائبل کھولی اور اُس کے اصل معنی بیان کیے۔ آخرمیں مسیح یسوع کی منادی کی جو گہنگار کی راستبازی اورنجات کی واحد اُمید ہے۔ جنہوں نے اس پر روم کے دفاع کے لیے بڑی بڑی اُمید لگا رکھی تھیں وہ اس پر سخت برہم ہوۓ۔ فورا اسے اپنے ہجرے سے نکال کر سخت نگرانی میں کسی اور حجرے میں منتقل کر دیا گیا۔ AK 236.2

    اس کے محافظوں کے جبروستم کے باعث بہت سے مانکس(Monks) کے پروٹسنٹ ازم کی پیروی کرنے کا اعلان کر دیا۔ ٹائیسن جیل کی سلاخوں کے راستے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سچائ کا علم بانٹا کرتا رہا۔ اگر ڈنمارک کے فادرز بدعتیوں سے نمٹنے کے لیے با صلاحیت ہوتے تو ٹائیسن کی پھر کبھی آواز سنائ نہ دیتی۔ مگر اُسے کسی زیر زمین جیل میں ڈالنے کی بجاۓ اُنہوں نے اُسے خانقاہ سے خارج کر دیا۔ اب اُن کا اُس پر کوئ اختیار نہیں تھا۔ کیونکہ حال ہی میں شاہی فرمان جاری کیا گیا تھا کہ نئ تعلیم کے اساتذہ کو تحفظ فراہم کیا جاۓ گا۔ اس لیے ٹاءیسن منادی کرنے لگا۔ اُس کے لیے چرچز کھولے گۓ اور لوگ سننے کے لیے جوق در جوق آنے لگے ۔ وہاں دوسرے بھی لوگ تھے جو خُدا کے کلام کی تشہیر کرتے تھے۔ عہد جدید کا ترجمہ ڈنمارک کی زبان میں کیا گیا اور ہر جگہ اُسے پہنچایا جانے لگا۔ پوپ کے کارندوں کی اسے ختم کرنے کی کوشش، اسے ترقی دینے کا سبب بن گئ ۔ اور ڈنمارک نے اس سے پیشتر ہی اصلاح شدہ ایمان کی منظوری کا اعلان کر دیا۔ AK 236.3

    سویڈن میں بھی اُن نوجوان مردوں نے جنہوں نے وٹن برگ کے کنویں سے پیا تھا، وہ اپنے ساتھ زندگی کا پانی لے آۓ۔ سویڈش ریفریمیشن کے دورہنما اولف اور لورنیٹس پٹری (Lauretius petri)تھے۔ جو اوری برو(Orebro) کے ایک لوہار کے بیٹے تھے۔ انہوں نے لوتھر اور میلانچ تھان کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی تھی۔ اور جو سچاءیاں اُنہوں نے سکھیں تھیں اُنہیں بصد شوق سکھانا چاہتے تھے۔ عظیم اصلاح کارکی طرح اولف نے اپنے جوش و جزبے، شعلہ بیانی سے اُبھارا، جب کہ لورنیٹس ، میلانچ تھان کی طرح بہت عالم فاضل، خاموش طبع اور عاقبت اندیش تھا۔ دونوں نہایت سرگرم پارسا، اعلے علم الہیات کی قابلیت رکھنے اور سچاءی کے فروغ کے لیے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ پوپ کے حواریوں کی مخالفت کچھ کم نہ تھی۔ کیتھولک پریسٹس نے جاہل بے علم اور توہم پرست لوگوں کو ان کے خلاف اُبھارا۔ اولف پٹری کءی بار اڑبام کے نرغے میں پھنسا، اور بمشکل اپنی جان بچا سکا۔ ان ریفارمرز کو بادشاہ نے پناہ دی اور حمایت جاری رکھی۔ AK 237.1

    رومن کلیسیا کے زیر تسلط لوگ غربت میں ڈوب کر برباد ہو گءے۔ یہ لوگ کلام مقدس سے بالکل عاری ہو گءے۔ان کا مذہب رسومات کا پلندہ ہو کر رہ گیا جو فہم کو نور نہیں بخشتا تھا۔ لوگ اوبام پرستی کی طرف آنے اور اپنے آباو اجداد کی بت پرستی کی طرف ماءیل ہونے لگے۔ قوم دھڑے بندیوں میں بٹ گءی۔ جن کے داءمی جھگڑوں رگڑوں نے بد بختی میں اضافہ کیا۔ بادشاہ نے کلیسیا اور ریاست میں اصلاح لانے کا تہیہ کیا اور اُس نے روم کے خلاف جنگ کے لیے ہر قابل تعریف مدد کا خیر مقدم کیا۔ AK 237.2

    شہنشاہ کی موجودگی اور سویڈن کے رہنما اولف پٹری نے بڑی خوبی کے ساتح رومی چمپین کے خلاف اصلاح شدہ ایمان کا دفاع کیا۔ اُس نے اعلانیہ کہا کہ فادروں کی وہی تعلیم قبول کی جاءے جو کتاب مقدس کے الہامی نوشتوں کے مطابق ہو۔ تمام ضروری عقاءد باءبل مقدس میں موجود ہیں جو بڑے سادہ اور صریح انداز میں پیش کیے گئے ہیں جنہیں ہر انسان سمجھ سکتا ہے۔ مسیح یسوع نے فرمایا”میری تعلیم میری نہیں بلکہ بھیجنے والے کی ہے “یوحنا۔ اور پولس رسول نے کہاکہ “اُس خوشخبری کے سوا جو ہم نے تمہیں سنائ کوئ اور خوشخبری تمہیں سناۓ تو ملعون ہو“گتیوں۔ اصلاح کار نے کہا تو پھر کیوں“دوسرے یہ قیاس کر لیتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے مذہبی عقاءد نافذ کر سکتے ہیں جو نجات کے لیے ضروری ہوں“؟ Wylie, B.10, ch.4AK 237.3

    اُس نے کہا کہ کلیسیاکا اختیار اُس وقت بے معنی ہو جاتا ہے جب وہ خُداوند خُدا کے حکم کو عدول کرے۔ اُس نے پروٹسٹنٹ کے اس بڑے اصول کو قائم رکھا کہ ”بائبل اور صرف بائبل ہی ہمارے ایمان اور عمل کا معیار ہے۔ AK 238.1

    یہ مقابلہ خواہ سٹیج پر ہوغیر واضح ہے مگر اس سے پتہ چلتا ہے کہ ریفارمرز کے سپاہی کس قسم کے انسان ہیں۔ وہ ان پڑھ نہیں تھے۔ اُن کا تعلق کسی خاص جماعت یا فرقے سے نہ تھا۔ وہ تکراری بھی نہ تھے۔ بلکہ ان تمام باتوں سے اُن کا کوءی تعلق نہ تھا۔ یہی وہ حضرات تھے جنہوں نے کلام مقدس کا مطالعہ کیا تھا اور وہ اچھی طرح اس اسلحہ کو چلانا جانتے تھے جو اُنہیں باءبل کے اسلحہ خانہ سے ملاتھا۔ اور اگراں کی علمیت کے بارے خیال کریں تو وہ لوگ اپنی عمر سے زیادہ لیاقت رکھتے تھے۔ اور جب ہم اپنی توجہ ایسے روشن خیال مراکز، وٹن برک اور زورخ کی طرف کریں تو یہ اتنے مثالی حضرات تھے جیسے کہ لوتھر، میلانچ تھان، زدنگلی وغیرہ۔ اسی لیے توہم اُن پر فخر کرتے ہیں۔ یہی تحریک کے رہبر تھے۔ اس لیے ہم اُن میں فطری طور پر گراں قدر قوت اور وسیع شوق حصول دیکھتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں کہ اُن کے ماتحت ایسے نہیں تھے۔ ہم سویڈن کے گم نام تھیٹر کی طرف آتے ہیں اور دوخاکسارنام اولف اور لورءیس پٹری ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ ماسٹرز تا شاگرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔AK 238.2

    ہم یہاں کیا دیکھتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔AK 238.3

    سکالرز اینڈ تھیالوجین ایسے انسان جنہوں نے انجیل کی سچاءیوں کا بھرپور مطالعہ کیا اور جنہوں نے بڑی آسانی سے روم کے معززین اور سکول کے فلسفہ دانوں پر فتح حاصل کی“۔ Ibid, b.10 ch.4AK 238.4

    اس متنازعہ مناظرہ کے نیتجہ میں سویڈن کے بادشاہ نے پروٹسنٹ ایمان قبول کر لیا اور اس ے تھوڑی ہی دیر بعد قومی اسمبلی نے اس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ عہد جدید کا سویڈن زبان میں اولف پٹری نے ترجمہ کر دیا تھا۔ اور بادشاہ کی خواہیش پر دونوں بھاءیوں نے پوری باءبل کا سویڈن زبان میں ترجمہ کرنے کی ذمہ داری لے لی۔ یوں پہلی بار سویڈن کے لوگوں نے اپنی مادری زبان میں خُدا کا کلام حاصل کیا۔ ڈائٹ کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ ساری سلطنت میں منسٹرز کلام مقدس کی تشریح کر یں اور سکول میں بچوں کو باءبل پڑھاءی جاۓ۔ AK 238.5

    انجیل کی باقاعدہ اور یقینی مبارک روشنی سے وہاں کی جہالت کی تاریکی اور اوبام پرستی جاتی رہی۔ رومی جبر سے آزاد ہو کر قوم نے وہ قوت اور برتری حاصل کی جو کبھی خواب میں بھی نہ دیکھی گءی تھی۔ سویڈن پروٹسنٹ ازم کا ایک شہر پناہ بن گیا۔ ایک صدی بعد شدی خطرے کے وقت پورے یورپ میں سے صرف یہی چھوٹی اور کمزورقوم تیس سالہ ہولناک جنگ سے رہاءی دلانے کے لیے پہنچی۔ ایسے دکھاءی دیتا تھا جیسے کہ سارا شمالی یورپ دوبارہ رومی جبر تلے آنے کو ہے یہ تو سویڈن کو فوجیں تھیں جنہوں نے جرمنی کو اس قابل کر دیا کہ وہ پوپ کی فتح کی لہر کو واپس جانے پر مجبور کر دے۔ اور پروٹسنٹس، کیلونسٹس اور لوتھرنز کے خلاف تشدد کو روکے اور اُن ممالک کے لیے آزادی ضمیر کو بحال کرے جنہوں نے ریفریمیشن کو قبول کرلیاہے۔ AK 239.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents