Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
عظیم کشمکش - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    ساتواں باب - لو تھر کی روم سے علیحدگی

    جن صفِ اول کے نامور اصحاب کو خداوندکی طرف سے یہ بلاہٹ ملی کہ وہ کلیسیا کو پایائیت کی تاریکی سے نکال کر پاکیزہ ایمان کی روشنی میں لائیں ان اصحاب میں مار ٹن لوتھر کا نام سرفہرست گنا جاتا ہے- وہ ایک سر گرم ، جانثار اور جوشیلا شخص تھا جو خدا کے سوا کسی سے ڈرتا نہیں تھا- جس نے مذہب کے ایمان کی حقیقی بنیاد یعنی کلام ِ خداوند نے کلیسیاکی اصلاح اور روشن خیالی کے عظیم کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا — AK 116.1

    انجیل کے پہلے منادوں کی طرح منادوں کی طرح ایک لو تھر بھی غریب طبقے سے ابھرا تھا- اس کے ابتدائی ایام جرمن کسان کے گھر میں گزرے تھے- کان(Mine) پر مشقت کر کے اس کا باپ اس کی تعلیم کے اخراجات پورے کر تا تھا- وہ لوتھر کو وکیل بنانا چاہتا تھا مگر خداوند اسے اس بڑی ہیکل میں معمار بنانا چاہتا تھا جو صدیوں سے آہستہ آہستہ استوار کی جا رہی تھی-لوتھر کی زندگی کے اہم مشن کے لئے لامحدود حکمت کے خداوند نے اسے دشواری اور تنگ دستی جیسے نظم و ضبط میں تیار کیا- AK 116.2

    لوتھر کا باپ مضبوط اور سر گرم ذہن و دماغ اور پختہ کردار کا مالک تھا- وہ ایماندار، دلیر اور صاف گواور کھرا آدمی تھا- وہ یمنی خدمت کی بجا آوری میں کوئی کسر اتھا نہ رکھتا تھا خواہ نتائج کچھ ہی کیوں نہ ہوں- اس کی خالص راہبانہ سسٹم پر بداعتمادی کا اظہار کرتی تھی- وہ اس وقت سخت ناراض ہوا جب لوتھر نے اس کی اجازت کے بغیر خانقاہ میں داخلہ لے لیا- پھر دو سال کے بعد باپ نے بیٹے کے ساتھ صلح کر لی مگر تب بھی اس کی راَ ئے نہ بدلی- AK 116.3

    لوتھرکے والدین نے امنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر بڑی توجہ دی- انہوں نے لوتھر کو خدا کی حکمت کی اور مسیحی اقدار کی ہدایات دیں- باپ کی دعا اکثر بیٹے کے سنتے ہوئے آسمان کی طرف جاتی کہ میرا بیٹا خدا کے ناپ کو یاد رکھے اور ایک دن خدا کی سچائی کو آگے بڑھائے — محنت و مشقت کی زندگی سے جو موقع ہاتھ لگتا والدین اسے بچوں کے اخلاق اور ذہن کی بڑھوترِ ی کے لئے استعمال کرتے- ان کی کوششیں بچوں کی پاکیزگی اور مفید زندگی کو تیار کر نے کے لئے مخلص اور بلا لغزش دعائیں تھیں-ثابت قدم اور کر دار کی مضبوطی کو وہ بڑی سختی سے عمل میں لاتے- لوتھر خون بھی امنے اندر کی خطاوں کو مپا کر ان کی درستی کرنے کی کوشش کرتا- AK 116.4

    ابتدائی عمر میں اسے جس سکول میں بھیجا گیا تھا وہاں لوتھر کے ساتھ سنگدلی سے سلوک کیا گیا- اس کے ولادین اس قدر غربت کا شکار تھے کہ گھر سے دوسرے قصبے میں سکول جانے کے لئےاسے گھر گھر جا کر کھانے کے لئے گانا پڑتا تھا- اور پھر بھی اسے کبھی کبھی فاقہ کر نا پڑتا — اس کے علاوہ مذہب کے وہمی خیالات اس پر غالب آتے جاتے تھے جن سے وہ بہت زیادہ خوف زرہ رہتا- AK 117.1

    پھر بھی اتنی بڑی اور زیادہ پست ہمتی میں لوتھر پختہ ارادہ سے اعلیٰ اخلاقی معیار اور بصیرت کی طرف قدم بڑھا تا ہی گیا¬- جس سے اس کی روح بڑی متاثر ہوئی وہ علم و معرفت کا بھوکا پیاسا تھا- اس کے مخلص اور با عمل ذہن نے سطھی اور دکھا وے کی نہیں بلکہ ٹھوس اور مفید چاہت کی چرف رہنما ئی کی- AK 117.2

    اٹھارہ برس کی عمر میں جب اس نے ارفرٹ(Erfurt) کی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اس کے خیالات اس کے حق میں تھے اور اپنے ابتدائی سالوں کی نسبت مکان زیادہ روشن تھے- اس کے والدین نے کفایت شعاری سے خطیر رقم جمع کر لی تھی جس سے وہ اس کی ضروریات ِ زندگی کو پورا کرنے کے قابل ہو گئے تھے- اور اس کے مدبرانہ دوستوں کے اخلاقی اور روحانی اثرنے اس کی پہلی تر بیت کے افسردہ تاثر کو کم کر دیا- اس نے بہترین مصنفین کا مطالعہ کر نے کے لئے درخواست دی تاکہ بدل وجان ان کے گران قدر حالات کا ذخیرہ کر لے اور پھر بھی اس کی دانش اور حکمت کو خود امنا لے- حتیٰ کہ اس نے اپنے پہلے انسٹرکٹر ز کے دشوار نطم و ضبط میں بھی خود کو ممتاز ثابت کیا- اور امید افزا اثر کے تحت اس کا ذہن بڑی تیزی سے استوار ہوا- قوی یاداشت ، جاندار تصورات، بحث و تمحیض کر نے کی اعلے قوت ور انتھک مشقت نے اسے اپنے ملنے جلنے والوں میں ممتاز مقم عطا کیا- روشن خیال اور نظم و ضبط نے اس کی سوجھ بوجھ کو مستحکم کیا اور ذہن کی سر گرمیوں کو ابھارا، اور عمل ادراک کی شدت یہ سب ایسے امور تھے جنہوں نے اسے زندگی کی کشمکش کے لئے تیاری بخشی-AK 117.3

    لو تھر کے دل میں جو خدا کا خو ف بسا تھااسی نے اسے اس لائق کیا کہ وہ ثابت قدمی سے اپنے مقصد کی تکمیل کر پائے — اور اسی نے ہی اسے خدا کے سامنے فروتنی اختیار کرنے کی ترغیب دی- اسے یہ شعور تھا کہ اس کا سارا انحصا ر الہیٰ مدد پر ہے- اور اس کا دل رہنمائی اور مدد کے لئے التجا کرتا رہتا تھآ- وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ” اچھی طرح اور بھرپور طریقہ سے دعا مانگنا نصف مطالعہ سے بہتر ہے D'aubigne B.2, ch.2“- AK 118.1

    جب وہ ایک دن یونیورسٹی کی لائبریری میں کتابوں کا جائزہ لے رہا تھا تو لوتھر کو ایک لاطینی بائبل مل گئی- ایسی کتاب اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی- اسے تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ ایسی کوئی کتاب موجود بھی ہے- اس نے انجیل کے کچھ حصوں اور خطوط کے بارے میں سن رکھا تھا جو عام لوگوں کی عبادت میں پڑھے جاتے تھے-اور وہ انہیں ہی پوری بائبل خیال کیا کر تا تھا- یہ پہلی بار تھی جب اس نے خدا کے سارے پاک کلام کو دیکھا تھا- حیرانی اور خو شی کے ملے جلے جزبات کے ساتھ اس نے مقدس اوراق کو الٹنا پلٹنا شروع کر دیا- تیز نبض اور دھک دھک کرتے دل کے ساتھ اس نے خود زندگی کے کلام کو پڑھا —کبھی اس جگہ سے اور کبھی اس جگہ سے تب زارا رک کر اس نے خداوند سے درخواست کی کہ “مجھے ایسے کتاب مہیا کردے”AK 118.2

    آسمانی فرشتے اس کے پہلو میں ہی تھے اور نور کی شعائیں خداوند کے تخت سے صادر ہوئیں جنہوں نے سچائی کے خزانے اس کے فہم و فراست پر عیاں کر دئیے — وہ خدا کو ہمیشہ ناراض کر نے سے گھبراتا تھا- مگر اب بطور گنہگار کے اس کی گہری قائلیت نے اس کو جس طرح پکڑا تھا ویسے پہلے کبھی نہ پکڑا تھا- AK 118.3

    گناہ سے آزاد ہونے اور خدا سے امن پانے کی مخلص خواہش نے اسے آخرکار خانقاہ نشین اور رہبانہ زندگی کے لئے ضانثار بنا دیا تھا- یہاں اسے گٹھیا قسم کی بیگاری یعنی گھر گھر جا کر بھیک مانگنا تھی — جب کہ وہ اس وقت عمر کے اس حصے میں تھا جب ایک شخص عزت کا خواہاں ہو تا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اس کی قدر کریں — اور یہ کام اس کی فطری محسوسات کے لئے باعث ننگ تھا- مگر اس نے بڑے تحمل سے اس تذلیل کو یہ سوچ کر برداشت کر لیا کہ یہ اس کے گناہوں کی معافی کے لئے ضروری تھآ-AK 118.4

    روزمرہ کے فرائض ادا کرنے میں جو بھی لمحہ بچ جاتا وہ مطالعہ کرنے میں صرف ہو جاتا- نیند بھی پوری نہ ہوتی- اور بادل نخواستہ باقی وقت قلیل سے کھانے پر صرف ہوجاتا اور سب سے بڑھ کر اسے خداوند کے پاک کلام کو پڑھ کر خوشی محسوس ہوتی — اس نے عہد کی دیوار کے ساتھ ایک بائبل مقدس کو زنجیروں سے بندھا ہوا پایا تھا جسے وہ اکثر صاف کرتا اور سنوارا کرتا تھا- جب اسے اپنے گناہوں کی قائلیت کا بھرپور احساس ہوا تو اس نے اپنے اعمال حسنہ سے خود اطمینان پانے کے لئے جانفشانی کی زندگی اختیا ر کر لی- روزہ رکھنے، راتوں کو جاگتے رہنے اور اپنی بری فطرت کو تابع کرنے کے لئے خود کو ازیتیں پہنچائیں- اس کے باوجود راہبانہ زندگی نے اسے کوئی سکون نہ بخشا- اس نے کوئی کسر نہ چھوڑی جو اس کے دل کو صاف کر کے اسے خدا کا منظور نظر بنائے- اس کا کہنا ہے کہ ” میں بیشک ایک متقی، پرہیزگار راہب تھا- اور اس کے بعد اس نے کہا ” میں نے تمام قوانین کو جس پابندی کے ساتھ مانا اسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا- اگر کوئی راہب اپنے راہبانہ کام سے آسمان پر جا سکتا تو خداوند ضرور مجھے اس کا حقدار ٹھہراتا- اگر اس سے بھی زیادہ کرنا پڑتا تو میں مرنے تک یہ ریاضت جاری رکھتا “ IBid.B.2 ch.3AK 118.5

    اس درد ناک نظم و ضبط کہ نتیجہ میں، وہ نقاہت کا شکار ہو گیا اور اسے غشیوں کے دورے پڑنے شروع ہو گئے — جن کے اثرات سے وہ کبھی بھی مکمل طور پر باہر نہ نکل پایا- مگر اس تمام کوششوں سے اس کی بوجھ تلے دبی ورح کو کوئی سکوں نہ مل سکاا اور بالآخر وہ لاعلاج مایوسی کے دہانے پر جا پہنچا- AK 119.1

    جب لوتھر کو یہ لگنے لگا کہ سب کچھ برباد ہو چکا ہے تو خداوند نے اس کی مدد کے لئے ایک دوست کو پیدا کیا- وہ مقدس شخص سٹا ئوپٹنر(Staupitz) تھا — اسی نے لوتھر کے شعور میں خداوند کے پاک کلام کو ڈالا- اور فرمایا کہ وہ اپنی طرف سے نظر ہٹا لے اور خدا کی شریعت کو عدول کر نے پر اس ابدی سزا پر غور ع فکر کرنا چھوڑ دے ؛ اور صرف یسوع مسیح کی طرف دیکھے جو اس کے گناہ معاف کرنے والا نجات دہندہ ہے- ” اپنے گناہوں کی خاطرخود کو اذیت پہنچانے کی بجائے ، اپنے آپ کو نجات دہندہ کے بازءوں میں دے دو- اس پر بھروسہ رکھو — اس کی زندگی کی راستبازی پر اور اس کے کفارہ بخشش موت پر بھروسہ رکھو- اس نے اس لئے انسانی روپ دھارا تاکہ وہ ہمیں الہی ٰ حمایت کی یقین دہانی کرائے- اسے پیار کریں جس نے پہلے تمہیں پیار کیا”- ارحم کو اس پیامبر نے پر فضل کلام کیا- اور س کی باتوں نے لوتھر کے ذہن پر نہایت ہی عمیق اثر ڈالا- اور جس غلط تعلیم کو وہ بہت پسند کرتا رہا تھا، اس کے ساتھ لمبی جدوجہد کرنے کے بعد وہ نئی سچائی کو مانے کے قابل ہو گیا- جس کے بعد اس کی پریشانی روح میں جیسے سکون سا آگیا- AK 119.2

    لو تھر مخصوص شدہ پریسٹ تھا- اسے خانقاۃ سے وٹن برگ کی یونیروسٹی میں بطور پروفیسر بلایا گیا- یہاں اس نے اصل زبان میں کلام مقدس کے مطالعہ کے لئے داخلہ لے لیا- پھر اس نے بائبل پر پیغام دینا شروع کر دیا- یوں زبور کی کتاب ، انا جیل اور رسولوں کے خطوط ان لوگوں کے لئے کھولے گئے جو خوشی سے سننا چاہتے تھے — اس کے دوست سٹاوپٹر نے جو لوتھرسے بڑا اور قابل بھی تھا اس نے سے ترغیب دی کہ وہ خدا کے کلام کی منادی پلیٹ (Pulpit)پر سے کرے — لوتھر ہچکچایا کیونکہ وہ خود کو اس قابل نہ سمجھتا تھا کہ وہ مسیح یسوع کی طرح اور اس کی جگہ ہو کر لوگوں سے کلام کرے- تاہم بڑی جدوجہد کے بعد اس نے اپنے دوست کی رائے پر دکان دھرا- وہ پیشتر ہی پاک توشتوں کا مہر ہو چکا تھا اور خدا کا فضل اس پر تھا- اس کی وضاحت کے ساتھ وہ سچائی کو بیان کرتا اس سے حاضرین قائل ہو ئے بغیرنہ رہ سکے اور اس کی رغبت اور شوق نے لوگوں کے دل موہ لیے — لوتھر ابھی تک رومی کی کلیسیا کا سچا فرزند تھا - خداوند کی مہربانی سے وہ روم گیا- یہ سفر اس نے پیدل طے کیا، اور راستے میں راہبوں کے حجروں میں قیام کیا- وہاں اٹلی کے کنونٹ میں اتنی شان وشوکت اور عیش و نشاط دیکھ کر وہ حیران رہ گیا- شہزادوں کے سے حقوق و مراعات ، راہب تو بہت شاندار گھروں میں رہتے، بہت ہی قیمتی لباس زیب تن کرتے اور شاہانہ ضیافتیں اڑاتے تھے- یہ سب کچھ لوتھر کی زندگی کی مشقت اور سختی اور اذیت کے بالکل برعکس تھا- یہ سب کچھ دیکھ کر اس جیسے چکرا گیا ہو- AK 120.1

    بالاخر اس نے دور سے سات پہاڑوں کے اس شہر کو دیکھا- جزباتی سا ہو کر وہ زمین پر سر بسجود ہوگیا- اور اس کے منہ سے بے اختیار نکلا “ مقدس روم، میں تجھے سلام کرتا ہوں” — IBid.B.2 ch.6AK 120.2

    وہ شہر میں داخل ہو کر مختلف کلیسیاوں میں گیا- ان شاندار قصوں کہانیوں کو سنا جو پریسٹ اور راہب دہرا رہے تھے اور مطلوبہ رسومات کو ادا کر رہے ٹھے- ہر جگہ اس نے ایسے مناظر دیکھے جن سے وہ حیرانی اور خوف سے بھر گیا- اس نے ہر طبقے کی پریسٹ میں بدکاری دیکھی- اس نے کلیسیا کے اعلے ٰ عہداہ داران سے بےہودہ مذاق سنے- اور ان کی حماقتوں اور لغویات پر سخت پریشان ہوا حتیٰ کہ ماس(Mass) کے دوران بھی- اور پھر جیسے جیسے وہ شہریوں اور راہبوں سے ملا تو اس نے ان کے درمیاں عیاشی اور رنڈی بازی کو دیکھا- جس طرف بھی اس کی نظر گئی اس نے ایسی بے حرمتی دیکھی جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا — اس نے ایک موقع پر لکھا کہ روم میں جو گناہ اور قابل نفرت کام ہوتے ہیں- وہ دیکھے، سنے اور مانے جاسکتے تھے اسی لئے یہ کہاوت مشہور ہے” گر کہیں جہنم ہے تو روم اس کے اوپر تعمیر ہوا ہے- یہ وہ پاتال ہے جہاں سے ہر قسم کے گناہ کا اجرا ہوتا ہے “ IBid.B.2 ch.6AK 120.3

    ان ہی دنوں میں پوپ نے ایک فرمان جاری کیا جس میں وعدہ کیا گیا” جو کوئی بھی گھٹنوں کے بل پیلاطس کی سیڑھیاں چڑھے گا جن پر سے ہمارا نجات دہندہ رومن کمرہٰعدالت کو چھوڑ کر نیچے اترا او معجزانہ طریقہ سے یروشلیم سے روم تک پہنچا دیا جائے گا”- ایک دن لوتھر نے دل جمعی سے ان سیڑھیوں پر چڑھنے کا قصد کیا جب اچانک ایک گرج دار آواز یسے یوں کہتے سنائی دی ” راستباز ایمان سے جیتا رہے گا” وہ فورا اپنے پاوں پر کھڑا ہو گیا اور شرمندہ اور خوفزدہ ہو کر اس جگہ کو چھوڑ دیا- اس حوالے نے اس کی روح پر ایسا چھوڑا جو کبھی محو نہ ہوا- انسانی کاموں پر نجات کے انحصار کے مکرو فریب کو اتنی صفائی سے اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا- تب سے اسے معلوم ہو گیا کہ جو نجات کے لئے مسیح یسوع پر ایمان رکھنے کی اشد ضرورت ہے- اس کی آنکھیں کھل چکی تھیں جو پایا ئیت کے مکرو فریب کو دیکھنے کے لئے پھر کبھی بند نہ ہوئیں- جب اس نے روم سے اپنا منہ پھیرا تو دل سے بھی روم سے دور ہو گیا- اس کے بعد سے جدائی کی خلیج گہری ہوتی گئی ، یہاں تک کہ اس نے روم کی کلیسیا سے تما م تعلوات منقطع کر لئے- AK 121.1

    روم سے واپس آنے پر لوتھر نے وٹن برگ کی یونیورسٹے سے ڈاکٹر آف ڈیو نٹی کی ڈگری حاصل کر لی- اب اسے پوری پوی آزادی تھی کہ وہ ان الہی صحیفوں کل لیے خود کو وقف کر دے جن کو وہ دل سے چاہتا تھا- اس نے بڑی سنجیدگی سے حلف اٹھایا کہ وہ بڑی ایمانداری کے ساتھ خدا کے کلام کی منادی کرے گا اور پوپ حضرات کی تعلیمات اور دوسرے حکایات سے عمر بھر اجتناب کرے گا- اب وہ صرف راہب اور پروفیسر ہی نہ تھا بلکہ مستند بااختیار بائبل کی مندی کرنے ولالا تھا — اسے بطور چرویہے کے بلاہٹ ملی تھی کہ وہ خدا کے اس گلے کو چرائے جو راستبازی اور سچائی کا بھوکا اور پیاسا تھا- اس نے بڑی جرات اور استقلال کے ساتھ اعلان کیا کہ مسیحوں کو کلامٰخدا کے علاوہ کسی اور تعلیم کو نہیں اپنانا چاہیے- ان باتوں نے پوپ کے اعلے اختیار کی بنیادوں پر کاری ضرب لگائی کیونکہ ان الفاظ میں ریفریمیشن کے اشد ضروری اصول پائے جاتے تھے- AK 121.2

    لوتھر نے دیکھا کہ انسانی نظریات کو خدا کے کلام پر فضیلت دینا خطرناک بات ہے- اس نے بڑی بے باکی سے سکول ٹیچرز کی کم اعتقادی اور کفر پر حملہ کیا اور اس تھیالوجی کی فلاسفی کی مخالفت کی جس نے لمبے عرصے سے لوگوں کو گمراہ رکھا تھا- لوتھر نے اس مطالعہ کی جو نہ صرف بے وقعت تھا بلکہ مضرت رساں بھی تھا مذمت کی اور لوگوں کے خیالات کو فلاسفروں اور علم الہیات کے ماہرین کی غلط استدلال سے ہٹا کر اس ابدی سچائی کی طرف مبذول کرایا جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ دی گئی تھے- AK 122.1

    اس مشتاق بھیڑ کے لئے اس کا پیغام بہت ہی بیش قیمت تھا جو اس کے کلام سے لپٹے ہوئے تھے- اس کے کانوں نے ایسی تعلیم کبھی نہ سنی تھی- نجات دہندہ کی محبت کی خوشخبری ، گناہوں کی معافی کی یقین دہانی اور اس کے خون کے کفارہ سے سلامتی کی خوشخبری اور ابدی امید سے ان کے دل باغ باغ ہو گئے — وٹن برگ میں وہ مشعل روشن کر دی گئی تھے جس کی کرنیں دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے کو تھیں اور زمانے کے خاتمہ تک اسے روشن تر ہوتے جاناتھا- AK 122.2

    لیکن روشنی اور تاریکی ایک دوسرے کے ساتھ متفق نہیں ہو سکتیں- حق و باطل کی کشمکش نہ ختم ہونے والی کشمکش ہے- ایک کو سر بلند کرنے کے لئے دوسری پر حملہ کرنا اور اسے نیست و نابود کرنا ہی پڑتا ہے- ہمارے نجات دہندہ نے خود فرمایا- ” میں صلح کرانے نہیں بلہ تلوار چلوانے آیا ہوں” ریفریمیشن شروع ہونے کے چند سال بعد لوتھر نے کہا ” خداوند محض میری رہنمائی نہیں کرتا بلکہ وہ مجھے آگے کی طرف دھکیلتا ہے — وہ مجھے بہت دور لے جاتا ہے- مجھے اپنے آپ پر کشھ اختیار نہیں رہتا- میں تو سستانا چاہتا ہوں ، مگر مجھے شورشوں اور گردشِ زمانہ میں پھینکا دیا جاتا ہے”- AK 122.3

    رومن کلیسیا نے خدا کے فضل کو تجارت بنا رکھا تھا- صرافوں کے تختے مذبحہ کے ساتھ رکھے گئے تھے — اور ضریدوفروخت کرنے والوں کی صدائیں گرنج رہی تھیں- روم میں سینت پیٹر کے چرچ کو بنانے کے لئے فنڈز کے لئے اپیل کی جا رہی تھی- پوپ کے اختیار سے گناہوں کی معافی کی سیل کا اعلان کیا جاتا تھا- جرائم کی قیمت سے خدا کی عبادت کے لئے ہیکل تعمیر کی جا رہی تھی- اس کے کونے کو سرے کا پتھر بدکاری کی کمائی سے رکھا جا رہا تھا- لیکن یہی ذرائع جو روم نے امنی عظمت میں اضافہ کرنے کے لیے اختیار کئے انہوں نے ہی اس کی سرفرازی پر مہلک ضرب لگائی- اس نے ہی پایائیت کے خلاف نہایت ہی کامیاب اور مستقل مزاج دشمنوں کو جنم دیا- اور ایسی جنگ چھری جس نے پاپائی نظام کے تخت کو ہلا کر رکھ دیا اور جس نے پوپ کے تہرے تاج کو جھنجھوڑا- AK 122.4

    ٹٹز ل (Tetzel)کو جرمنی میں معافی ناموں ، نڈل جنس-یعنی گناہوں کی معافی کی سیل، کع فروخت کے لئے مقرر کیا گیا- جس پر سوسائٹی کے طرف سے گھٹیا حرکات اور خدا کی شریعت کے خلاف بہت الزاما ت تھے- مگر وہ جرائم کی سزا سے بچ گیا- اس کے لئے اسے زبردستی غیر معقول منصوبے پر کام کر کے پوپ کے لئے پیسہ جمع کرنا تھا- بڑی ڈھٹائی سے اس نے دلکش جھوٹ بولے اور معجزانہ قصوں کو دہرانا شروع کر دیا- تاکہ بے علم اناڑی،بھولے بھالے اور توہم پرست لوگوں کو دھوکا دے سکے- اگر ان کے پاس خداکا کلام ہوتا تو یوں دھوکا نہ کھاتے- یہ سب کچھ انہیں پوپ کے کنٹرول میں رکھنے کے لئے تھا تاکہ پوپ کی لیڈر شپ کو طاقت اور سرمائے میں اضافہ ہو- اسی لئے کتاب مقدس کو ان سے دور رکھآ گیا- See John Siesler, a compendium of ecclesiastical history history, per.4 sec.1 per.6AK 123.1

    جونہی ٹٹزل شہر میں داخل ہوا تو اس سے پہلے ایک پیغا م رساں یہ اعلان کرنے کے لئے پہنچ گیا” خدا کا فضل اور مقدس فادا آپ کے گیٹ پر ہےD'aubigne B.3, ch.1“AK 123.2

    لوگوں نے اس کافر، مکار کو یوں خوشآمدید کیا جیسے کہ خدا خود آسمان سے ان کے پاس اتر آیا ہو- کلیسیا میں رسوائی کے مال کی خرید وفروخت کے لئے لوگ جمع ہو گئے — اور ٹٹزل ملیٹ فارم پر آکھڑا ہوا- اور انڈل جنس کے حق مین تعریفوں کے پل باندھ دیئے اور کہا کہ یہ خدا کی طرف سے بہت ہی قیمتی تحفہ ہے — اس نے اعلان کیا کہ معافی نامے کے اس سرٹیفیکیٹ کی بدولت اس کے خریدار کے آئندہ بھی جا اس نے گناہ کرنے ہیں ان کی معافی کی ضرورت نہ ہو گی-Ibid, b.2, ch.1 بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس نے یہ کہا کہ اس کے خریدنے سے نہ صرف زندہ بلکہ پردہ لوگ بھی بچ جائیں گے- کیونکہ انڈل جنس میں یہ قدرت پائی جاتی ہے کہ جیسے ہی یہ رویپہ پیسہ تجوری کی تہہ کو چھوئے گا تو مردہ جن کے لئے یہ انڈل جنس خریدی گئی ہے پرگا ٹوری سے سیدھے بہشت میں چلے جائیں گے(پرگا ٹوری يعنی اعتراف :بہشت اور دوزخ کا درميانی طبقہ)See K.R. haggenbach history of reformation,vol.1 p.96جب شمعون جاداگر نے معجزات کی قدرت حاصل کرنے کے لئے پیسے کی پیشکش کی تو پطرس نے اسے جواب میں کہا تھا” تیرے اعما ل تیرے ساتھ غارت ہوں- اس لئے کہ تو نے خدا کی بخشش کو روپوں سے حاصل کرنے کا خیال کیا“ اعمال20:8- مگر ٹٹزل کی پیشکش کو ہزاروں نے بڑے شوق سے قبول کیا-سو نے اورچاندی سے خزانے بھر دیے گئے- یہ نجات جو پیسے سے خریدی جا رہی تھے اس کے مقابلے میں کس قدر آسان لگ رہِی تھی جس کے لئے تقبہ، ایمان اور بدل و جان کی کوشش کرنا پڑتی ہے بلکہ گناہ پر بھی تو غلبہ حاصل کرنا پڑتا ہے- AK 123.3

    انڈل جنس کی تعلیم کی مخالفت روم کی کلیسیا میں پڑھے لکھے اور متقی لوگوں نے کی- بتہیرے تھے جن کا دکھاوے اور جھوٹے دعووں میں کوئی ایمان نہ تھا کیوں کہ یہ بات الہی مکاشفہ اور انسانی عقل دونوں کے متضاد تھا- مگر کوئی بھی کلیسیا کا عہدہدار اس نا حق کارابار کے خلاف آواز ا ٹھانے کی ہمت نہین رکھتا تھآ- اگرچہ لوگوں کے تصورات اس سے پریشان اور گیر مطمئن غرور تھے- اور بتہیرے تھے جنہوں نے بڑی سنجیدگی سے یہ سوال اٹھایا کہ کیا خدا کے پاس امنی کلیسیا کو پاک کرنے کے لئے اور کوئی ذریعہ نہیں- AK 124.1

    لوتھر پوپ کے اقتدار سے نہیں بلکہ ان انڈل جنس کی خریدوفروخت پر سخت نالاں تھا- اس کے اپنی کلیسیا کے لوگوں نے معافی کے یہ سرٹیفیکیٹ خریدے —انہوں نے اپنے کئی گناہوں کا اعتراف کیا — وہ مغرفت کی توقع کرتے تھےاس لئے نہیں کہ وہ تائب ہو چکے تھے اور اصلاح کے ممتنی تھے بلکہ ان انڈل جنس کی بنیاد پر- لوتھر نے ان کی ایسی مخلصی کا انکار کر دیا بلکہ انہیں خبردار کیا کہ جب تک وہ توبہ نہ کریں اور زندگی میں تبدیلی نہ لائیں تو وہ اپنے گناہوں میں برباد ہو جائیں گے- بڑی پریشانی کے عالم میں وہ ٹٹزل کے پاس پہنچے اور شکایت کی کہ ان سے اعتراف لینے والے نے اس کے سرٹیفیکیٹس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا- بلکہ بعض نے تو بڑی دلیری سے کہا کہ ہمارا میسہ ہمیں واپس کرو- راہب غصے سے بھر گیا- اس نے بہت ہولناک لعنتیں بھیجیں اور اعلان کیا ” پوپ سے آدر لیا ہے کہ تمام بدعتیوں کو جلا دو، جو اس مقدس ترین انڈل جنس کی مخالفت کرتے ہیں“D'aubigne B.3, ch.4 AK 124.2

    اب لوتھر سچائی کا سب سے بڑا حامی بن کر سامنے آیا- اس کی آواز پلیٹ سے بڑی سنجیدہ تنبیہ کے طور پر سنی گئی — اس نے لوگوں کے سامنے گناہ کا نفرت انگیز پہلو سامنے رکھا- اور انہیں سکھایا کہ انسان کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ امنے کاموں سے اپنی خطاوں کو کم کر سکے — صرف خداوند سے توبہ اور مسیح یسوع میں ایمان ہی گنہگار کو بچا سکتے ہے- مسیح یسوع کے فضل کو خریدا نہیں جا سکتا — یہ تو مفت انعام ہے- اس نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ انڈل جنس کو نہ خریدیں بلکہ ایمان کی آنکھ سے مسیح مصلب کی طرف دیکھیں — اس نے اپنا تکلیف دہ تجربہ بتایا جس سے کچھ فائدہ نہ ہوا- اس نے کہا کی میں نے فضول فروتنی، تذلیل اور نفس کشی کے ذریعہ نجات پانے کی کوشش کی اور اس نے سامعین کو یقین دلایا کو خدی کو ترک کر کے اور مسیح یسوع پر ایمان لاکر اس نے خوشی و مسرت اور سکوں پایا ہے- AK 124.3

    ٹٹزل نے مکاری اور ناراستی کے کارابار کو جاری رکھا، اور لوتھر نے ان برائیوں کے آگے بڑھانے پر بھرپور اور موثر احتجاج کیا- جلد ہی ایک اور پیشکش شروع کر دی گئی- وٹن برگ کے کسیل چرچ میں بہت سے برکات(Relics) جن کی مخصوص دنوں پر کوگوں کے سامنے نمائش کی جاتی تھی- اس دن جو لوگ چرچ آکر گناہوں کا اعتراف کرتے انہیں گناہوں سے پوری معافی مل جاتی تھی- اسلئے ان ایام میں لوگ جوق در جوق جمع ہو جاتے — ان میں ایک دن خاص اہمیت کا حامل ہوتا اسے فیسٹول آف آل سینٹس (Festival of all Saints) کہا جاتا تھا — یہ دن بھی قریب آ رہا تھا — اس روز لوتھر بھی اس بھیڑ میں شامل ہو گیا- اس نے چرچ کے دروازہ پر ۹۵ قول لکھ کر چسپا ں کر دئے جو انڈ جنس کے خلاف تھے- اس نے اعلان کیا کہ وہ ان دعوعں کی کل یونیورسٹی میں وضاحت کرنا چاہے گا جو ان کے خلاف بولنا چاہیں انہیں عام اجازت ہو گی- AK 125.1

    اس کے ان تھیسس(Theses) نے ہر خا ص و عام کو اپنی طرف متوجہ کر لیا- انہیں بار با ر پڑھا گیا- یونیورسٹی اور سارے شہر میں بڑی ہلچل مچ گئی — ان تھیسس(Theses) میں بتایا گیا کہ گناہوں کی معافی کا اختیار ، گناہوں کی سزا پوپ یا کسی اور شخص کو حاصل نہیں- یہ ساری سکیم گٹھیا ناٹک اور پیسے کمانے کی چالاکی ہے- اور یہ بھی بڑی صفائی سے بتایا گیا کہ مسیح یسوع کی انجیل کلیسیا کا بیش قیمت خزانہ ہے- اس سے خدا کے فضل کا پتہ چلتا ہے اور جو اس کی تلاش توبہ اور ایمان کے ذریعے کرتے ہیں انہیں مفت دیا جاتا ہے- AK 125.2

    لوتھر نے ان تھیسس کے لئے سب کو چیلنج کیا مگر کسے نے بھی چیلنج قبول کرنے کی ہمت نہ کی- وہ سوالات جو اس نے تجویز کئے تھوڑے ہی عرصے میں ساری جرمنی میں مشتہر ہو گئے اور پھر چند ہی ہفتوں میں ان کی گونج تمام ریاستوں میں سنی جانے لگی- بہت سے جان نثار پوپ کے حامی جنہوں نے کلیسیا میں بدی کو چھا ئے ہوئے دیکھاوہ اس پر نوحہ کرتے تھے مگر نہیں جانتے تھے کہ اسے کس طرح روکا جائے- جب انہوں نے یہ تھیسس پڑھے تو خوشی سے بھر گئے- انہوں نے اسے خداوند کی آواز تسلیم کیا — انہوں نے محسوس کیا کہ خداوند کے کمال نوازش کر کے تیزی سے بڑھتی ہوئی اس کرپشن کو روکنے کے لئے انا ہاتھ بڑھایا ہے جو روم میں پاِئی جاتی تھی — شہزادے اور مچسٹر یٹس دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے کہ اس مغرور حکومت پر روک تھام لگی ہے جو امنے فیصلوں کے خلاف اپیل کے حق کو مسترد کرتی ہے- AK 125.3

    مگر گناہ کی رسیا اور اوہام پرست بھیڑ ڈر گئی کیونکہ غلط استدلال جن کی بدولت انہیں خوف و ہراس سے سکون ملتا تھا وہ جاتی رہی- ان پر دھوکہ باز مذہبی رہنماوں نے نوٹس لیا کہ گناہ معاف کرنے سے جو انہیں نفع ہوتا تھا وہ خطرے میں پڑ گیاہے- اس لئے وہ سب جمع ہو گئے — اب ریفارمر کو بہت غضبناک دشمنوں کا سامنا تھا - بعض نے اس پر الزام لگایا کہ و ڈرامے کر رہا ہے- بعض نے اس پر قیاس آرائیوں کا الزام لگایا اور کہا کہ خدا نے اسے یہ ہدایات نہیں دیں- بلکہ گستاخی اور آزاد خیالی کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے- اس نے جواب میں کہا ” کون نہیں جانتا، کہ شازونادر ہی کوئی شخص نیا خیال سمانے لاتا ہے- جب تک کہ اس میں میں فخر کا کچھ شاِئبہ نہ ہو اور اس پر جھگڑا فساد کرانے کا الزام لگتا ہے- کیوں مسیح یسوعاور دیگر شہیدوں کو موت کے گھا ٹ اسی لئےاتارے گیا، کیونکہ ان کی حکمت اس زمانے کی حکمت سے افضل تھی اور انہوں نے زمانے کے سامنے انوکھی شے رکھی تب بھی یہ خیال کیا گیا کہ انہوں نے قدیم رائے اور صحائف سے مشورہ نہیں نہیں لیا”- AK 126.1

    اس نے دوبارہ اعلان کا کہ ” جو کچھ میں کر رہا ہوں وہ ہو کر رہے گا- انسانوں کی عاقبت اندیشی سے نہیں بلکہ خداوند کے مشورے سے- اگر یہ کام خداوند کی طرف سے ہو تو پھر کون اسے روک سکتا ہے؟ اور اگر یہ اس کی طرف سے نہیں تو کون اسے آگے بڑھا سکتا ہے؟ اوراگر یہ اس کی طرف سے نہیں تو کون اسے آگے بڑھا سکتا ہے- اور اگر یہ اس کی طرف سے نہیں تو کون اسے آگے بڑھا سکتا ہے؟ میری مرضی نہیں، نہ ان کی مرضی ، بلکہ اے مقدس ضداوند تو جو آسمان میں تیرے مرضی پوری ہو“ IBID, B.3, Ch.6AK 126.2

    گو لوتھر خدا کی روح سے یہ خدمت کرنے کے لئے متحرک کیا تھا تو وہ بھی اسے سخت مخالفت کا سامنا کئے بغیر آگے نہیں بڑھا سکتا تھا- اس کے دشمنوں کی ملامتیں ، اس کےمقصد پر ان کی غلط تشریحات، اور اس کے چالچلن اور ارادوں پر ان کی گیر منصفانہ اور بغض پر مبنی عکاسی نے اسے سیلاب کی طرح گھیر لیا اور یہ سب کچھ بے تاثیر نہ رہنا تھا- اور اسے پورا پورا یقین تھا کہ عوامی لیڈرز ، جو سکولوں اور کلیسیاوں میں ہیں خوشی سے اصلاح کے کام میں اس کے ساتھ متحد ہو جائیں گے- انکی طرف سے حوصلہ افزائی کا کام جو اعلے عہدوں پر براجمان تھے بڑی خوشی اور امید کا باعث تھا- پیشتر ہی اس نے دیکھ لیا تھا کہ کلیسیا کے لئے ایک روشن ترین دن تمودار ہو رہا ہے- مگر یہ حوصلہ افزائی لعنت ملامت اور تنبیہ میں بدل گئی- AK 126.3

    کلیسیا اور حکومت کے زیادہ تر معززین اس کے تھیسس کی صداقت کے قائل تھے-مگر انہوں نے جلد ہی بھانپ لیا کہ ان کی صداقتوں کو ماننے سے بہت سی تبدیلیوں کرنا ہوں گی- لوگوں کو روشن خیال اوراصلاح دین کی طرف لانے کے لئے روم کے اختیار کو ختم کرنا ہو گا، یوں پوپ کی لیڈر شپ کی زائد عیاشی اور فضول خرچیاں کاٹنی پڑیں گی- علاوہ ازیں لوگوں کو یہ سوچنے اور عمل کرنے اور نجات کے لئے صرف مسیح یسوع کی طرف دیکھنا اور پوپ کے تخت کو گرانا ہوگا- اور بالآخر ان کا اپنا بھی اختیار مذیر ہو جائے گا- اسی وجہ سے انہوں نے اس میشکس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جو انہیں خدا کے بارے دی گئی اور وہ مسیح، سچائی اور اس آدمی کے خلاف صف آراہو گئے جسے خداوند نے بھیجا تھا تاکہ ان کے خیالوں کو روشن کرے- AK 127.1

    جب لوتھر نے خود پر نظر دوڑائی تو لرز گیا کیونکہ اس ایک شخص کے خلاف دنیا کی سب سے ذیادہ طاقتور قوتیں آکھڑیں ہوئیں — کبھی کبھی تو اسے شک ہوتا کہ کیا سچ مچ خدا نے میری رہنمائی کی ہے کہ میں کلیسیا کے ارباب ِاختیار کے خلاف کھرا ہوں- اس نے لکھا “میں کون تحا کہ میں عزت معاب پوپ کی مخالفت کرتا جس کے سامنے دنیا کے تمام بادشاہ کانپ اٹھتے ہیں؟ کوئی نہیں جانتا کہ پہلے دو برسوں میں میرے دل پر کیا گزری اور مجھے کس مایوسی اور پست ہمتی کا سامنا کرنا پڑا“- IBID.B.3 ch.6AK 127.2

    مگر اسے اس دل شکستگی کی حالت میں نہ چھوڑا گیا- جب انسانی مدد نہ رہی تو اس نے صرف خداوند کی طرف دیکھا اور جانا کہ وہ قدرِ مطلق کے بازووں میں بلکل محفوظ ہے- اس نے ریفریمیشن کے ایک دوست کو لکھا” ہم کلام مقدس کی مپجھ صرف سٹڈی یا امنے تعلیمی معیار یا شعور سے حاصل نہیں کر سکتے- آپ کا پہلا فرض یہ ہے کہ دعا سے شروع کریں- اور خداوند سے التجا کریں کہ وہ آپ کو امنے فضل سے امنے پاک کلام کی صحیح سوجھ بوجھ عطا کرے- پاک کلام کا کوئی اور مفسر نہیں ہے، سوا اس کے جو اس کا منصف ہے- جیسے کہ اس نے خود فرمایا ہے وہ سب خدا سے تعلیم یافتہ ہوں گے- اپنی ہی جدوجہد کرنے میں کچھ امید نہ رکھو- اور نہ ہی اپنی عقل پر بھروسہ کرو- سارا بھروسہ خداوند پر اور اس کی روح کی تاثیر پر رکھو- اس آدمی کی باتوں کایقین کرو جسے اس کا تجربہ حاصل ہوا ہے“- IBID.B.3 ch.7AK 127.3

    یہاں ایک بہت ہی اہم سبق ان حضرات کے لئے ہے جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا نے انہیں دوسروں تک اس کی سنجیدہ سچائیوں مہنچانے کے لءَ بلایا ہے- یہ سچائیاں ابلیس کی دشمنی اور ان لوگو ں کی دشمنی کو ابھاریں گے جو ان فرضی قصے کہانیوں کو پسند کرتے ہیں جو ابلیس نے تیار کی ہیں- اسی لئے بدی کی قوتوں کی اس کشمکش میں انسانی حکمت اور طاقت اور ذہانت سے ذیادہ کسی اور چیز کی ضرورت ہے- AK 128.1

    جب دشمنوں کو رسم و رواج ، روایات یا اپنی ہٹ دھرمی اور پرپ کی اتھارٹی ہی پسند آئی تو لوتھر نے ان کا مقابلہ بائبل اور صرف بائبل سے کیا- اس کلام میں ایسے ٹھوس ثبوت اور دلائل تھے جن کا وہ جواب نہ دے سکے- اس لئے جو توہم پرستی کے دلداہ تھے اس کے خون کے اسے طرح پیاسے ہو گئے جیسے یہودی مسیح یسوع کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے- “وہ بدعتی ہے”- رومن کڑا اور معتصب لوگوں نے غل مچا دیا- “یہ تو کلیسیا کے خلاف بغاوت ہے- اور اسطرح کے خطرناک بدعتی کو ایک گھنٹہ بھی زندہ رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہئیے – اس کے لئے فورا سولی نصب کی جائے- AK 128.2

    مگر لوتھر ان کے غیض و غضب کا نشانہ بنا کیونکہ خدا کے پاس اس کے کرنے کے لئے ایک کام تھا اس آسمانی فرشتے اس کی حفاطت کے لئے روانہ کر دئے گئے – تاہم بتہیرے ایسے تھے جنہوں نے لوتھر سے بیش قیمت روشنی حاصل کی تھی و ابلیس کا غضب کا نشانہ بنے ، تو بھی سچائی کی خاطر انہوں نے بڑی بے باکی سے تمام مصیبتیں بلکہ موت تک برداشت کی- لوتھر کی تعلیم نے جرمنی کے تمام ہو شمند اذہان کو اپنی طرف متوجہ کر لیا- ا سکے وعظ اور تحریرات سے جو شعائیں پھیلیں انہوں نے ہزاروں کو بیدار اور منور کر دیا- زندہ ایمان نے مردہ روم و روایات کی جگہ لےے لی جنہوں نے کلیسیا کو عرصے سے غلام بنا رکھا تھا- لوگ روز بروز رومی کلیسیا کی توہمات پرستی سے ایمان کھوتے جا رہے تھے- تعصب کی دیواریں گری جا ری تھیں ہر ظرف راستبازی کی بھوک اور پیاس محسوس کی جا رہی تھی – جن لوگوں کی نظریں انسانی رسوم اور زمینی درمیانی کی طرف لگی رہتی تھیں اب وہ تائب ہو کر اور ایمان لا کر مسیح مصلوب کی طرف واپس آ رہے تھےAK 128.3

    یہ دور و نزدیک پھیل جانے والی دلچسپی نے پوپ کے ارباب اختیار کی نیندیں اڑادیں لہذا لوتھر کو ان کی طرف سے بلاوا آیا کہ روم میں آکر اس بدعت کا جواب دے- اس حکم سے اس کے دوست خوف ذدہ ہوگئے- وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس کرپٹ شہر میں اسے کیسے کیسے خطرات کا مانا کرنا پڑ سکتا ہے- اس نے پیشتر ہی مسیح کے کئی شہیدوں کا خون کا پیاسا تھا، انہوں نے اس کے روم جانے پر احتجاج کیا اور درخواست کی کہ جرمنی میں ہی اس سے پوچھ گچھ کی جائے- AK 129.1

    یہ درخواست منظور ہو گئی اور پوپ کا ایک قانو نی تعینات کر دیا گیا تاکہ کیس کی سماعت کرے- اسے پوپ کی ہدایات پہنچا دی گئیں اور کہا گیا کو لوتھر کو پیشتر ہی بدعتی قرار دیا جا چکا ہے- چنانچہ پوپ کے قانونی نمائندہ کو ہدایات کی گئی ” اس پر مقدمہ چلایا جائے اور قید کرنے میں دیر نہ کی جائے“اگر وہ ثابت قدم رہے اور قانونی نمائندہ اسے گرفتار کرنے میں ناکام رہے تو اسے پورا پورا اختیار ہو گا کہ اسے جرمنی کے ہر حصے میں واجب القتل قرار دے دے- اسے شہر بدر کیا جائے — اسے ملعوں قرار دیا جائے او ان سب کو کلیسیا سے خارج کیا جائے جک کا اس کے ساتھ تعلق واسطہ ہے- IBID, B.4, ch.2AK 129.2

    علاوہ ازیں پو نے امنے قانونی نمائندے کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ بدعت کی اس جڑ کو تلف کرنے کے لئے وہ شہنشاہ کے علاوہ ان سب کو کلیسیا سے خارج کر دے ، خواہ کلیسیا میں ان کی پوزیشن کوئی بھی کیوں نہ ہو — جو لوتھر کو پکڑنے میں غفلت کا مظاہرہ کریں اور ان سب کو جو بھی اس کے رفیق اور حمایتی ہیں- ایسے سب لوگوں کو انتوامی کاروائی کے لیے بھیجا جائے- AK 129.3

    یہاں پاپا ئیت کی قیادت کی روح کی حقیقی عکاسی ہوتی ہے- اس ساری خط و کتابت میں مسیحی اصول یا عام انصاف کا ذرا بھی شائبہ دیکھنے کو نہیں ملتا- لوتھر روم سے کوسوں دور تھا — اسے کوئی موقع نہیں ملا تھا کہ وہ اپنے دعویٰ کی تصدیق کر پاتا- اور اس کے مقدمے کی سماعت سے پہلے ہی اسے بدعتی قرار دیا جا چکا تھا- اور اوی دن اسے قصور وار ٹھرایا جا چکا تھا ، اس کی عیب جوئی کی گئی اور اسے ملعون گردانا گیا- اور یہ سب کچھ اس شخص کے ذریعے ہوا جو خود بخود مقدس فادر( Holy father) واحد اختیار کل ، کلیسیا اور ریاست میں خودمختار بنا بیٹھا تھا-AK 129.4

    اس وقت جب لوتھر کو ہمدردی ، مشورے اور سچے دوست کی ضرورت تھی خداوند کی پر وردگاری نے میلانچ تھا ن (Melanchthan)کو وٹن برگ بھیج دیا ہو ایک نوجوان شخص تھا- پاکدامن اور مودب تھا- میلانچ تھان(‏Melanchthon) کی نیک رائے ، وسیع معلومات ، اور دل موہ لینے والی خطابت اور اس کے ساتھاس کی پاکیزگی اور چالچلن کی راستبازی نے ہر ایک کے دل جیت لئے اس کے توڑوں کی تیز طبعی سے بڑھ کر اس کے افتاد مزاج کی شرافت تھی- وہ بہت جلد انجیل کا ایماندار، وفادار شاگرد ور لوتھر کا با اعتماد ، وابل ٰقدر حمایتی دوست بن گیا- اس کی شرافت ، ہوشیاری اور تھیک وقت پر خدمت لوتھر کی ہمت اور حوصلہ افزئی کے لئے تحفہ ثابت ہوئی — ان دونوں کے اتحاد نے ریفریمیشن کے کام کو بہت ذیادہ تقویت بخشی- AK 129.5

    لوتھر کی ٹرائل کے لئے آگسبرگ(Ausburg) کا مقام مقرر کیا گیا اور ریفارمر اس سفر پر میدل ہی چلا گیا — راہ میں اس کے لئے بہت ہی خطرے پائے جاتے تھے- اسے دھمکیاں دی گئی کہ اسے راستے میں پکڑ کر قتل کر دیا گیا- ان خطرات کے پیش نظر اس کے دوستوں نے اس کی مزید سماجت کی کہ وہ یہ خطرہ مول یہ لے- بلکہ اس کی منت کی گئ کہ وہ کچھ دیر کے لئے وٹن برگ کو چھوڑدے اور ان کے درمیاں جا رہے جو خوشی سے اسے پناہ دیں- مگر وہ اس خدمت سے دست بردار ہونے کے لئے راضی نہ تھا جس کے لئے خدا نے اسے تعینات کیا تھا- لازم ہے وہ وفاداری سے صداقت کو قائم رکھے گئے اس پر طوفان ہی کیوں نہ چڑھاآئیں- “میں تو یرمیاہ کی طرح ہوں — جھگڑے فساد کی جڑ- لیکن جس قدر دھمکیوں میں اضافہ ہوا، اسی قدر میری خوشیاں بڑھیں- انہوں نے پیشتر ہی میری عزت و وقار اور نامور ی کو زک پہنچایا ہے- ایک چیز رہ گئی ہے اور وہ میرا بد نصیب بدن ہے- اگر وہ اسے لینا چاہتے ہیں تو لے لیں- اس سے صرف یہ ہوگا — کہ میری زندگی چند گھنٹے کم کر پائیں گے- جہاں تک میری روح کا تعلق ہے اسے نہیں لے سکتے- جو مسیح کے کلام کے منا دی کے خواہاں ہیں انہیں ہر لمحہ موت کی توقع رکھنی چاہیے- IBID.B.4 ch.4AK 130.1

    لوتھر کی آگس برگ آمد آنے کی خبر سے پوپ کے قانونی نمائندے کو بڑی تسلی ملی- وہ تکلیف پہنچانے والا بدعتی جو ساری دنیا کو ابھار رہا تھا ایسے معلوم ہوا کہ جیسے وہ اب روم کی ذد میں ہے اور قانونی نمائندے نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ لوتھر بچ نہ نکلے گا- ریفارمر اپنے لئےسلامتی کا پروانہ حاصل کنے میں ناکام رہا — اس کے دوست اس کی منت سماجت کرتے رہے کہ پوپ کے قانونی نمائندے کے سلامتی کے پروانے کی بغیر پیش نہ ہو — انہوں نے یہاں تک کہا کہ ہم بادشاہ سے آپ کے لئے یہ زمانت لے لیتے ہیں — پوپ کے نمائندے کا یہ قصد تھا کہ اگر ممکن ہو تو وہ لوتھر کو اپنے دعویٰ سے دست بردار ہونے کے لئے مجبور کرے — اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اسے روم بھیجے تاکہ اس کا بھی وہی حشر ہو جو ہس اور جیروم کا ہوا تھا- اس لئے اس نے امنے ایجنٹس کہ ذریعہ اسے سلامتی کے پروانے کے بغیر پیش ہونے کی ترغیب دی اور کہا کہ وہ اس کے رحم پر اعتماد کرے- ریفارمر نے بڑی مستقل مزاجی سے ایسا کرنے سے انکار کر دیا- جب تک اس نے بادشاہ کے سلامتی کے وعدہ کو نہ لے لیا اس وقت تک وہ پوپ کے نمائندے (Ambassador) کے سامنے پیش نہ ہوا- AK 130.2

    سیاسی مصلحت کے تحت رومی کلیسیا نے فیصلہ کیا کوہ لوتھر کا بظاہر شریفانہ انداز سے جیتا جائے- ایک نمائندے نے اس کے ساتھ انٹرویو میں دوستی کا اظہار کیا- مگر یہ مطالبہ بھی پیش کیا کہ لوتھر کو چاہیے کہ پوری طرح خود کو کلیسیا کے تابع کر دے اور ہر ایک بات کو بغیر بحث یا سوال کے مان لے- مگر ا نے اس شخص کا صحیح انداذہ نہیں کیا تھا جس کے ساتھ وہ معاملہ طے کر رہا تھا- لوتھر نے امنے جواب میں کلیسیائی احترام اور صداقت کے لئے اپنی خواہش کا بھرپور اظہار کیا اور بتایا کہ وہ امنے تمام اعتراضات کے جواب دینے کے لئے تیا ر رہے- اور یہ بھی کہ ساتھ وہ اپنی تعلیمات کو خاص یونیورسٹیوں کو فیصلے کے لئے دینے کو بھی تِار ہے- مگر وہ کارڈ ڈینل کے طریقہ کار پر احتجاج کر تا تھا جو اسے ظلط ثابت کئے بغیر ہی کہ رہا تھا کہ اسے اپنے دعویٰ سے دست بردار ہو جانا چاہیے- AK 131.1

    اس کو ایک ہی جواب دیا جاتا کہ” اپنی رائے واپس لو-واپس لو” مگر ریفامر نے ثابت کیا کہ اس اقدام کلام مقدس کی بدولت مستحکم ہیں — پوپ کا قانونی نمائندہ لوتھر کے دلائل اور بحث کا جواب نہیں دے سکتا تھا- اس نے اس سرزنش ، لعنت ملالت اور سبز باغ دکھانے کے ساتھ ساتھ ، روایات کے اقتسابات کی بھرمار اور حکایات کی بوچھار کر دی اور ریفارمر کو مزید بولنے کا موقع نہ دیا- یہ دیکھتے ہوئے کہ اگر اس کانفرنس اسی انداز میں جاری رہی تو یہ بے حاصل ہوگی لوتھر کو بالآخر ہچکچاتے ہوئے اس بات کی اجازت دے دی گئی کہ وہ اپنا جواب لکھ کر پیش کرے- AK 131.2

    لکھ کر جواب دینے کے متعلق اس نے ایک دوست کو لکھتے ہوئے بتایا ” اس کا مظلوم کو دہرا فائدہ ہوتا ہے- پہلا تو یہ کہ جو لکھا جائے گا ہوسکتا ہے اس پر دوسروں کی رائے لے لی جائے- اور دوسرا یہ کہ اس کی پاس اچھا پوقع ہوتا ہے کہ وہ امنے خدشات کا بھرپور اظہار کر سکے- جسے صرف ایک خود سر ،ظالم اور منہ زور ور گستاخ کے بغیر کوئی اور اسے رد نہیں کر ے گا” ‏Martyn, the life and Times of Luther, pages 271-272AK 131.3

    اگلے روز انٹرویو پر لوتھر نے اپنے نقطہ نظر کو واضح طور پر اور زوردار طریقہ سے پیش کیا- جس کی تشریح میں کلام مقدس کے بہت سے اقتباسات پیش کئے — اس پیپر کو اونچی آواز میں پڑھنے کے بعد اسے کارڈ ینل کے حولے کر دیا جس نے اسے حقارت سے ایک طرف پھینک دیا بلکہ کہا کہ یہ صرف ایک بے معنی الفاظ کا پلندہ ہے اور تمام تر حوالے غیر متعلقہ ہیں- اس پر لوتھر پوری طرح طیش میں آگیا- اور اس ڈھیٹ صدر راہب سے پوچھا کہ پھر کلیسیائی روایات کی تعلیمات کے بارے میں اس کا کیا خیال ہے ؟ اور یوں اس کے تمام قیاس و گمان کو رد کر دیا- جب صدر ِ راہب نے دیکھا کو لوتھر کے استدلال لاجواب ہیں تو وہ بے قابو ہو گیا اور چلاکے کہنےلگا ” اپنے دعوی سے انکار نہ کرو ، ورنی میں تمہیں روم بھیج دوں گا- جہان ججز کی کپیشن کے سامنے تمہاری سماعت ہو گی- میں تمہیں اور تمہارے سارے حامیوں اور ان لوگوں کو جن کا تمہارے ساتھ کسی بھی وقت میل جول رہا ہے انہیں کلیسیا سے خارج کر دونگا” اور آخر میں اس نے غصیلے اور گستاخ لہجے میں کہا” امنی تعلیم سے دستبردار ہو جاو ورنہ یہاں دوبارہ نہ آنا” D' Augbigne london de; B.4ch.AK 132.1

    ریفارمر امنے دوستوں کے ہمراہ وہاں سے فورا یہ کہتے ہوئے نکل گیا کو دستبردار ہونے کی توقع نہ کیجیے- کارڈینل نے اس نتیجہ کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں تھا- وہ تو دل ہس دل میں گمان کئے ہوئے تھا کہ جبر و تشدد سے لوتھر کو روم کے مطیع کر لے گا- مگر جب وہ امنے حمایتی کے ہمراہ اکیلا رہ گیا تو اس نے ان کی طرف یوں دیکھا کہ جیسے اپنی سکیم کی اس غیر متوقع ناکامی پر برہم ہو- AK 132.2

    اس موقع پر لوتھر کی کوششیں بے پھل نہ رہیں- جو بہت بڑی اسمبلی وہاں موجود تھی اسے یہ موقع ملا کہ وہ ان دو آدمیوں کا موازنہ نہ کر سکیں — اور خود اس روح کا فیصلہ کر سکیں جس کا ان دونوں نے مظاہرہ کیا تھا- اسی طرح ان دونوں کی قوت اور سچائی کو بھی انہوں نے جانچا- دونوں میں کس قدر تضاد پایا جاتا تھا، ریفارمر خداوند کی قوت میں سادہ مگر فروتنا اور ثابت قدم رہا- جب کہ پوپ کا نمائندہ جو خود ہی اپنے آپ کو بڑا خیال کر رہا تھا- تحکم پسند ، گستاخ اور غیر معقول ، جس نے کلام مقدس سے کو ئی بھی اقتباس پیش نہ کیا تھا- بس یہ چیخ چیخ کر کہ رہا تھا” اپنے دعوی سے دست بردار ہو جاو، ورنی میں تمیں سزا دلوانے کے لئے روم بھیج دونگا” AK 132.3

    باوجودکہ لوتھر نے سلامتی کا پر وانہ حاصل کر رکھا تھا ، پوپ کے حامی اسے پکڑنے اور قید و بند میں ڈالنے کے لئے سازشیں کر رہے تھے- اس کے دوستوں نء اسے مائل کیا کہ یہاں مزید ٹھہرنا فضول ہے — اسے وقت ضائع کئے بغیر وٹن برگ پہنچنا چا ہیَ- اس منصوبہ کے تحت دن نکلنے سے پیشتر ہی گھوڑے پر سوار ہو کر آگس برگ سے نکل گیا- اس کے ساتھ صرف ایک گائیڈ تھا-بہت سے خطرات کے پیش و نظر وہ خفیہ طور پر اس شہر کی تاریک اور خاموش گلیوں میں سے گزرا- ظالم دشمن چوکس تھے جو اسے برباد کرنے کی سازش کر رہے تھے- وہ شہر کی دیوار کے چھوٹے گیٹ پر پہنچے جو اس کے لئے کھولا گیا تھا- جب وہ بحفاظت باہر نکل گئے تو ان مفروروں نے رفتار تیز کر دی- اس سے پہلے کہ پوپ کے قانونی نمائندے کو لوتھر کے فرار ہو جانے کا علم ہوتا، لوتھر ان کی پہنچ سے بہت دور جا چکا تھا- ابلیس اور اس کے کارندے ناکام ہو گئے- جس شخص کے بارے میں انہوں نے خیال کیا تھا کہ ہم اس پر قبضہ جما لیں گے وہ ان کے ہاتھوں سے ایسے نکل گیا تھا جیسے کوئی چڑیا چڑیمار کے جال سے بچ کر اڑجاتی ہے- AK 133.1

    لوتھر کے بچ نکلنے کی خبر سے پوپ کا قانونی نمائندہ غصے اور حیرانی میں ڈوب گیا- اس نے تو کلیسیا کو دکھ دینے والے کو گرفتار کرنے پر اپنی حکمت اور ثابت قدمی پر انعام و اکرام کی توقع کی تھی- مگر اس کی ساری امیدیں خاک میں مل گئی — اس نے اپنے اس غصے کا اظہار ایک خط میں کیا جو اس نے فریڈرک کو لکھا- جو سیکسن(Saxon) کا شہزادہ ایلکٹور(Elector) تھا- اس نے بڑی تلخی سے لوتھر کی سرزنش کی اور فریڈرک کو کہا کہ اسے جلد روم بھیجدے اور اسے سیکسونی(Saxony) سے جلا دے- AK 133.2

    لوتھر نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کو اگر پوپ یا پوپ کا کوئی قانونی نمائندہ کالم مقدس سے یہ ثبت کر دے کہ وہ غلطی پر ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے یہ عہد کرتا ہے کہ اپنی تعلیمات سے جو کلام مقدس کے بر عکس ہیں دست بردار ہو جائے گا- اور اس نے خداوند کا شکریہ ادا کیا کہ جس نے اسے مقدس مقصد کے لئے دکھ سہنے کے قابل سمجھا- AK 133.3

    اس الیکٹور(Elector) کو بھی اصلاح دین کی تعلیم کا بہت کم علم تھا — مگر وہ لوتھر کی غیر جانبداری ، اخلاقی جرات اور اس کے کلام کی وضاحت سے بے حد متاثر تھا — اور فریڈرک نے امنے دل میں تہہ کر لیا کہ جب تک ریفارمر پر قصور ثابت نہ ہوئے وہ اسے پناہ دے گا- چنانچہ پوپ کے قانونی نمائندے کے مطالبات کے جواب میں اس نے یوں لکھا ” جب آحس برگ میں ڈاکٹر مارٹن آپ کے سامنے پیش ہوا تو آپ کو تسلی پذیر ہو جانا چاہیے تھا- ہم یہ توقع نہیں کرتے تھے کہ اسے قائل کئے بغیر آپ اسے اس کی تعلیمات سے دچتبردار ہونے کے لئے کہیں گے — مجھے تو ابھی تک کسی بھی پڑھے لکھے شخص نے مارٹن کی تعلیمات کے بارے میں نہیں بتایا کہ وہ فاسق تعلیم ہے یا مرٹن خود مسیحیت کا مخالف یا ایک بدعتِی شخص ہے- اس شہزادے نے لوتھر کو روم بھیجنے یا اسے امنی ریاست سے جلا وطن کر نے سے انکار کر دیا تھا- D' Aubigne, london de; B.4, ch.10 AK 134.1

    اس نے یہ بھی دیکھا کہ لوتھر یونیورسٹی میں بطرو ایک پروفیسر کے نامور اورکامیاب پروفیسر تھا- ابھی صرف ایک سال ہی گزرا تھا جب ریفارمر نے کیسل چرچ میں تھسس لگائے تھے جبکہ پیشتر ہی ان یاتریوں کی تعداد میں خادی کمی واقع ہو گئ تھی — اس سے روم عبادت گزار اور ان کے ہدیہ جات سے تو محروم ہوگیا مگر ان کی جگہ ایک اور کلاس نے لے لی،جو وٹن برگ آبے لگے- یہ لوگ یاتری نہیں تھے جو کسی متبرکات (Relics)کی پرستش کو آتے تھے بلکہ وہاں کے ہالز((Halls)) تعلیم حاصل کرنے والوں کی بدولت بھر رہے تھے نہ صرف جرمںی کے ہر حصے سے بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی طالبعلم یونیورسٹی مین آ پہنچے — AK 134.2

    وٹن برگ مین پہلی بار نوجوانوں کو آتے دیکھا گیا- انہوں نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر خدا کی تعریف کی کہ اس نے سچائی کی روشنی کو اس شہر سے اسی طرح پھیلایا جیسے زمانہ قدیم کے عیبوں سے اور پھر یہ روشنی دور دراز کے ممالک تک پہنچ گئی- AK 134.3

    ابھی تک لوتھر رومی تعلیمات کے بعض صرف حصوں سے ہی غیر متفق تھا- لیکن جب اس نے پاک کلام کا موازنہ پوپ کے فامیں اور دساتیر سے کیا تو ا کی حیرانی کی کوئی حد نہ رہی — اس نے لکھا ” میں پوپ کے فرامین پڑھ رہا ہوں اور مجھے اس کی سمجھ نہیں آرہی کہ آیا پوپ مخالفِ مسیح ہے یا اس کا رسول” جنہوں نے مسیح یسوع کی موت اور شخصیت کی اس قدر غلط تصویر پیش کر رکھی ہے- ABID, B.5, ch.1AK 135.1

    اس کے باوجود لوتھر ابھی تک رومی کلیسیا کا حمایتی تھا اور اس نے اس سے علیحدگی کا کبھی نہیں سوچا تھا- اسکا کام سوئیٹزر لینڈ اور ہالینڈ تک پھیل گیا- اس کی تحریرات کی کاپیاں فرانس اور سپین میں پہنچ گئیں- بلجیم اور اٹلی میں بھی سچائی پھیلائی گئی- ہزاروں غنودگی کی قبر سے جاگ کت خوشی، زندگی کی امید اور ایمان میں داخل ہو رہے تھے- AK 135.2

    روم لو تھر کے حملے سے بہت زیادہ آگ بگولہ ہو رہا تھا- اس کے بعض جنونی مخالفیں نے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی باغی راہب کو قتل کرے گا وہ بے گناہ رہے گا- ایک دن ایک اجنبی امنے چوغے میں پستول چھپا کر ریفارمر کے پاس پہنچ گیا اور اس سے پوچھا کہ وہ اکیلا کیوں گھوم رہا ہے- لوتھر نے جواب میں کہا ” میں خداوند کی ہاتھوں میں ہوں — وہی میری قوت ہے اور سپر ہے- آدمی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے”AK 135.3

    IBID, B.6 chیہ سنتے ہی اس اجنبی کا رنگ پیلا پڑ گیا- اور وہ وہاں سے یوں بھا گا جیسے کہ آسمانی فرشتوں کی حضوری سے بھاگنکلا ہو- AK 135.4

    روم لوتھر کی تباہی پر کمر بستہ ہو چکا تھا مگر خداوند اس کا محکم قلعہ تھا- اس کی تعلیمات کا ہر جگہ پرچار کیا گیا- جھونپڑیوں اور کانونٹس(Convents) میں اشرافیہ لے قلعووں مین، یونیورسٹیوں میں بادشاہوں کے محلوں میں — بتہیرے شرفا اس کی کوششوں کو مستحکم کرنے کے لیے ہر چرف سے اٹھ رہے تھے- IBID, B.6 ch.2AK 135.5

    یہ وہ وقت تھا جب لوتھر ہس کی تحریرات کا مطالعہ کر رہا تھا — اور اس نے ایمان سے راستباز ٹھرائے جانی کی سچائی کو سکھا — اسی بات کو وہ خود بھی اجاگر کر رہا تھا، اور اسے ہی بوہمیا کا یہ ریفامر تھامے ہوئے ہے- لوتھر کا کہنا تھا کہ “ہم ست تو پال ، آگسٹیں اور میں خود نہ جانتے ہوئے ہس کے شاگرد بن چکے تھے- اس نے مزید کہا کہ یقینا خداوند اسے دنیا پر اجاگر کرے گا”- جس سچائی کو سوسال پیشتر سنا دیا گیا مگر پھر نظر آتش کر دیا گیا ” Wyle.B.6 ch.1AK 135.6

    مسیحت کی ریفر یمیشن کے حوالے سے ایک امیل میں جو جر منی کے شہنشاہ اور طبقہ امرا کو کی گئی لوتھر نے پوپ کے بارے میں یوں لکھا ” یہ دیکھ کر خوف آتا ہے کہ جو شخص خود کو مسیح یسوع کا نائب قرار دیتا ہے وہ اس قدر شان و شوکت کا مظاہرہ کرتا ہے جس کی ہمسرکوئی بادشاہ نہیں کر سکتا- کیا یہ فروتن مسیح یسوع کا نمونہ ہے یا حلیم پطرس کا؟ اس نے فرمایا تھآ کہ میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں- کیا وکر کی بادشاہت اپنے بالا دست سے بڑی ہے؟ D,Aubigne,b.6.ch.3AK 136.1

    اور یونیورسٹیز کو اس نے یوں لکھا ” مجھے ڈر ہے کہ یونیورسٹیز(Universities) دوزخ کا بڑا گیٹ ثابت نہ ہوں ، اگر وہ بدل و جان کلام مقدس کو بیاں نہ کریں تو، اور اس کلام کو نوجوانوں کے دل پر کندہ نہ کریں- میں تو یہ مشورہ دوں گا کہ کوئی بھہی شخص اپنے بچے کو کسی ایسی جگہ داخل نہ کروائے جہاں کلامِقدس کو بیان نہ کریں — ہر وہ ادارہ جس میں خداوند کے کلام کو انسانوں کے ذہنوں میں بقش نہیں کیا جا رہا کرپٹ ہو کر رہ جائے گا-” AK 136.2

    یہ اپیل بہت جلد جرمنی میں پھیل گئی- اور اس کا لوگوں پر بڑا گہرا اثر پڑا- ساری قوم بیدار اور سرگرم ہوگئی بھیٹر ریفارم کے لئے جلسے جلوسوں میں شامل ہونے لگی۔ لوتھر کے مخالف انتقا م لینے کی آگ میں جل رہےتھے ۔ انہوں نے پوپ کو راغب کیا کہ اس کے خلاف فیصلہ کن اقدام اٹھائے۔ یہ حکم صادر کیا گیا کہ لوتھر کی تعلیمات سے دستبردار نہ ہوئے تا ان سب کو کلیسیا سے خارج کر دیا جاناتھا۔ AK 136.3

    ریفر یمشن کے لئے یہ ایک ہولناک بحران تھا۔ وہ جانتے تھے کہ صدیون سے رو م کی ایکس کمیونی کیشن (Ex communication)بے بڑے بڑے اور طاقتور خود مختار شہنشاہوں کو ناکوں چنے چبوائے تھے ۔ اس نے بڑی بڑی طاقتور سلطنتوں کو ویراں کر ڈالا تھا۔ جن جن پر یہ لعنت برسائی گئی تھی ۔ دنیا نے اس کی تباہی و بربادی کو دیکھ کر خوف کھایا تھا۔ انکا اپنے عزیز و اقارب سے رابطہ کٹ جاتا اور ان سے غداروں کا سا سلوک کیا جاتا، اور ان کی بیخ کنی کرنے کے لئے انکا جانوروں کی طرح شکار کیا جاتا۔ مگر وہ ثابت قدم رہا اس نے مسیح کو اپنا حمایتی اور سپر سمجھا ایک شہید کے ایمان اور حوصلے کے ساتھ اس ن لکھا“مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہونے کو ہے۔ اور نہ ہی مجھے یہ جاننے کی کوئی پرواہ ہے۔ اگر تباہی نازل ہوتی ہے تو پھر ہوتی رہے ۔ مجھے تو خوف نہیں کیونکہ ہمارے خُداوند کی مرضی کے بغیر ایک پتی بھی نہیں گرتا تو وہ ہماری فکر کیوں نہ کرے گا۔ کلام کے لئے مرنا تو بہت ہی معمولی بات ہے کیونکہ وہ کلام جو مجسم ہوا وہ خود بھی مرا تھا۔ اگر ہم اس کے ساتھ زندہ بھی کئے جائیں گے اور اگر ہم اسی راہ پر چلیں جس پر وہ چلا تو پھر ہم بھی اس کے ساتھ تاابدو ہیں رہیں گے جہاں وہ رہتا ہے۔ IBID, 3D,London ed. walther , 1840, B.G. ch,9AK 136.4

    جب پاپائی حکم نامہ (Papal Bull)لوتھر کے پاس پہنچے تو اس میں مسیح یسوع کو ملعون قرار دیا گیا ہے۔ اچھے مقصد کے لئے میں نے دکھ جھیلے مجھے اس کی خوشی ہے۔ میں پیشتر ہی اپنے دل میں بہت قرار دیا گیا ہے۔ اچھے مقصد کے لئے میں نے دکھ جھیلے مجھے اس کی خوشی ہے۔ میں پیشتر ہی اپنے دل میں بہت آزادی محسوس کرتا ہوں کیونکہ بالآخر مجھے معلوم ہو گیا کہ پوپ واقعی مخالفِ مسیح ہے اور اس کا تخت خود ابلیس ہے۔” D'aubigne, b.6. ch.9AK 137.1

    پھر بھی روم کا اختیار بغیر تا ثیر کے نہ تھا قیدو بند جورو جفا اور تلوار تابع فرمان رکھنے کے لئے بہت طاقتور ہتھیار تھے۔ پوپ کے حکم کے سامنے ہر ایک ناتواں اور اوہام پرست لرز اٹھتا تھا۔ اور چونکہ لوتھر کے لئے عوام میں ہمدردی پائی جاتی تھی تو بہتیروں نے یہی سوچا کہ چونکہ جان بہت ہی قیمتی ہے اس لئے اسے ریفریمشین کے مقصد کے لئے جوکھوں میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ ان تمام باتوں سے ظاہر ہونے لگا کہ مصلح کا کام ختم ہو جائے گا۔AK 137.2

    مگر لوتھرا بھی تک بے باک تھا۔ روم نے اس کے خلاف ملعون ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور دنیا کو یقین تھا کہ لوتھر مارا جائے گا۔ مگر وہ بڑی تیزی سے اس معمولی سزا کے باعث اٹھ کٹھرا ہوا جا عوام کے سامنے پوپ نے سنائی تھی۔ اور اسی طرح لوتھر نے بھی اس سزا کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے در کر دیا۔ طالب علموں کے ہجوم ، ڈاکٹرز اور ہر طبقہ کے شہریوں کے سامنے لوتھر نے پوپ کے سزا نامے کے کاغذات اور کینن(canon) یعنی پوپ کے فرامین کا مجوعہ اور پوپ کے اختیارات کی تحریرات کو جا دیا۔ اس کا کہنا تھا” میرے دشمنوں نے میری کتابوں کو جلا یا جس سے سچائی کے مقصد کو نقصان پہنچا اور جسے عام لوگوں کے اذہان تک رسائی لے لیا۔ ا ب بڑی خطرناک جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے۔ اب تک میں صرف پوپ کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ چونکہ میں خُدا کے نام سے یہ کام شروع کیا تھا اس لئے یہ میرے بغیر ہی خُدا کی قوت سے اختتام پذیر ہوگا” IBID, B.6 ch.10AK 137.3

    دشمنوں کی اس سرزنش کے متعلق جو انہوں نے اس کے مقصد کی کمزوری کا طعنہ دیتے ہوئے کہی تھیں۔ لوتھر کا جواب تھا۔” کون جانتا ہے کہ خُدا نے مجھے چنا یا بلا یابھی ہے کہ نہیں؟ اگر وہ میری حقارت کرنے سے نہیں ڈرتے تو کیا وہ یوں خُدا کی حقارت کرتے ہیں؟۔ مصر سے روانگی کے وقت موسٰی اکیلا ہی تھا۔ یسعیاہ پروشلیم میں اکیلا ہی تھا۔ حزقی ایل بابل میں اکیلا ہی تھا۔ خُداوند کبھی بھی بنی کے طور پر کسی سردار کاہن یا بڑی شخصیت کا انتخاب نہیں کرتا ہے۔ بلکہ ایک دفعہ تو خُدا نے چروا ہے کو چن لیا۔ ہر زمانہ میں مقد سین نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بڑے بادشاہوں، شہزادوں، کاہنوں، حکمت والوں کی سرزنش کی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ میں نبی ہوں۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ انہیں بھی اسی طرح خوف کرنا چاہیے کیونکہ میں اکیلا ہوں اور وہ بہتسے ہیں۔ مجھے پورا پورا یقین کہ خُدا کا کلام میرے AK 138.1

    ساتھ ہے۔ اور یہ انکے ساتھ نہیں ہےIBID, B.6 ch.10کیونکہ لوتھر کو کلیسیا سےعلیحد گی کا حتمی فیصلہ درپیش تھا اس لئے اس کے اپنے دل میں بڑی ہولناک جدو جہد جاری تھی ۔ یہی وہ وقت تھا جب اس نے لکھا “میں اسے آئے روز ریادہ سے زیادہ محسوس کر رہا ہوں کہ یہ کس قدر مشکل ہے کہ جس چیز کو میں نے بچپن سے ذہن نشین کر لیا ہے اسب اسے ترک کر دوں ۔ یہ میرے لئے سخت دہ ہے۔ اگرچہ الہامی نوشتے میرے ساتھ ہیں کہ میں راستی پر ہوں۔ اور مجھے اکیلے ہی پوپ کا مقابلہ کرنے کی جرات کرنا چاہیے اور اسے بطور مخالف مسیح ہی لینا چاہیے۔ ایسا دکھ ایسی تکلیف میرے دل میں پہلے کبھی نہ تھی ۔ کتنی ہی بار میں تلخی میں خود سے وہی سوال کیا جو پوپ کے حامیوں کے لبوں پر ہوا کرتا تھا کیا صرف تم ہی دانا رہ گئے ہو؟ کیا باقی سب غلطی پر ہیں؟ اور کیا ہوا اگر تم ہی خود غلط ثابت ہو جاو۔ پھر ان روحوں کا کیا بنے گا جو تمہاری تعلیمات میں شامل ہوئیں ہیں اور کون ابدی لعنتی قرار پائے گا؟میں اس وقت تک اپنے آپ اور ابلیس سے لڑتا رہا تھا جب تک کہ مسیح یسوع خُود اپنے لاخطاکلام کے ساتھ میرے شک و شبہادت میں ڈوبے ہوئے دل کو سہارا دینے کے لئے میری طرف آ کھڑانہ ہوا۔ Martyn, pages 372-373 AK 138.2

    اگر لوتھر نے توبہ نہ کی تو پوپ نے اسے کلیسیا سے خارج کرنے کی دھمکی دے رکھی تھی۔ جس کی اب تکمیل ہو گئی۔ ایک نیا آرڈر جاری ہو گیا جس کے تحت رومن کلیسیا سے ریفارمر کی بید خلی کے احکام جاری کر دئیے گئے۔ اور اسے آسمان کی چرف سے ملعون ہونے کا اعلان کیا گی اور اسکے ساتھ ان سب کو بھی ملعون قرار دیا گیا جو اس کی تعلیمات کو قبول کرتے تھے۔ مہا مقابلہ شروع ہو گیا۔ AK 139.1

    جن کو خُدا سچائی کی پیشکش کرنے کے لئے تعنیات کرتا ہے اور خصوصاً وہ سچائی تھی وہ جس کا اطلاق انکے اپنے زمانے پر ہوتا ہے ان کی بہت مخالفت ہوتی ہے۔ لوتھر کے زمانہ میں بھی ایک موجودہ سچائی تھی وہ سچائی جس کی وجہ اس وقت بڑی اہمیت تھی آج کی کلیسیا کے لئے بھی ایک موجودہ سچائی ہے وہ جو سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق انجام دیتا ہے تو خُداوند مردوں کو بخوشی مختلف حالات میں جن میں وہ رہ رہے ہیں فرائض نبھانے کے لئے تعینات کرئے گا۔ اگر وہ اس روشنی کو جو انہیں د ی گئی ہے پھیلائیں گے تو خُداوند ان کے سامنے مزید سچائی کے وسیع مناظر رکھ دے گا۔ لیکن آج بھی لوگوں کی اکثریت اسی طرح سچائی کو پسند نہیں کرتی ہے جیسے پوپ کے حامی لاتھر کے زمانہ میں پسندنہ کرتے تھے- ابھی بھی خدا کے کلام کی نسبت قدیم زمانوں کی طرح انسانوں کی روایات اور نظریات کو قبول لرنے کا زیادہ رجحان پایا جاتاتھا- AK 139.2

    وہ جو اس زمانے میں سچاِئی کا پرچار کرتے ہیں انہیں ابتدائی ریفارپرز سے زیادہ حامیوں کی توقع نہیں رکھنی چاہئے- سچ اور جھوٹ، ابلیس اور مسیح یسوع کے درمیاں اخیر زمانہ کی تاریخ میں عظیم کشمکش سدت اختیار کر لے گی- مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا” اگر تم دنیا کے ہو تو دنیا امنے عزیزوں کو عزیز رکھتی ہے- لیکن چونکہ تم دنیا کے نہیں بلکہ میں نے تم کر دنیا سے چن لیا ہے اس واسطے دنیا تم سے عداوت رکھتی ہے- جو بات میں نے تم سے کہہی تھی اسے یاد رکھو کہ نوکر اپنے مالک سے بڑے نہیں ہوتا- اگر انہوں نے مجھے ستایاتو تمہیں بھی ستائیں کیں- اگر انہوں نے میری بات پر عمل کیا تو تمہاری پر بھی عمل کریں گے” یوحنا- اور پھر ہمارے خداوند نے بڑی وضاحت سے فرمایا” افسوس تم پر جب سب لوگ تمہیں بھلا کہیں کیوں کہ ان کے باپ دادا جھوٹے نبیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے” لوقا ۲۶:۶AK 139.3

    ابتدائی زمانوں کی نسبت آج بھی دنیا کی روح، مسیح یسوع کی روح کے ساتھ کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتی اور وہ جو خدا کے ماک کلام کی صداقتوں کی منادی کرتے ہیں انہیں قدیم زمانہ کی نسبت اب کچھ زیادہ حمایت حاصل نہیں ہو گی- سچائی کی مخالفت رنگ اور ڈھنگ بدل سکتے ہیں اور دشمنی کا چہرہ پسِ پردہ رکھا جا سکتا ہے- کھلم کھلا سامنے نہ آئے، تو بھی مخالفت وہیں کی وہیں قائم ہے جو اخیر زمانہ میں کھل کر ظاہر ہو جائےگی- AK 140.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents