Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
عظیم کشمکش - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    بتیسواں باب - شیطان کے پھندے

    وہ عظیم کشمکش جو مسیح یسوع اور ابلیس کے درمیان تقر یبا 6 ہزار سال سے جاری و ساری ہے وہ جلد اختتام پذیر ہونے کو ہے۔شیطان اپنی کو ششوں کو دگنا کر رہا ہے تاکہ وہ مسیح کے نام کو جو انسان کی خاطر کر رہا ہے اسے ملیا میٹ کر سکے اور روحوں کو اپنے دام میں پھنسا لے۔ نیز جب تک مسیح یسوع کا کام بطور درمیانی کے اختتام پذیر نہیں ہو جاتا لوگوں کو تاریکی میں رکھے اور توبہ کی طرف ما ئل نہ ہو نے دے ۔کیو نکہ اس کے بعد گنا ہ کی کو ئی قربا نی نہیں دی جا ئے گی۔ یہی اسکا مقصد ہے جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے- AK 499.1

    جس حال میں دنیا اور کلیسیا میں مطابقت موجود ہو اور کلیسیا اور اس کی قوت اور مزا حمت کرنے کے لیے کو ئی خاص کو شش نہ کرے، تو اس صورت میں ابلیس کو کیا فکر ہو سکتی ہے۔کیو نکہ جن کو وہ اپنا غلام بنانا چا ہتے ہیں ان کو کھو نے کا کو ئی خطرہ موجود رہتا ہی نہیں۔ لیکن جب ابدی چیزوں کی طرف تو جہ مبذول کروائی جا تی ہے اور روحیں پو چھتی ہیں کہ ‘’میں کیا کروں کہ نجات پا وٗں؟تو پھر وہ میدان میں اتر آتا ہے اور اپنی طا قت سے مسیح کی قدرت کا مقابلہ کر تا ہے ۔ نیز مقدس فرشتوں کے اثرورسوخ پر بھی حملہ آور ہوتا ہے-AK 499.2

    پا ک صحا ئف بیان کر تے ہیں کہ ایک مو قع پر جب خدا کے فرشتے خداوند کے حضور حا ضر ہو ئے تو ان کے درمیان شیطان بھی گیا ایوب6:1 ابدی کو سجدے کر نے نہیں بلکہ را ستباز کے خلاف اپنے گندے منصوبے کو ترقی دینے کے لیے ۔ اسی مقصد کے لیے وہ آج بھی اس جگہ حا ضر ہوتا ہے جہاں خدا کے لو گ اس کی عبادت کے لیے جمع ہو تے ہیں۔گو اسے کوئی دیکھ نہیں سکتا ،مگر وہ بدل و جان عبادت گذاروں کے اذہان کو کنٹرول کر نے کے لیے کام کرتا رہتا ہے ۔ ہنرمندجرنیل کی طرح وہ اپنی تدا بیر قبل از وقت بنا تا ہے۔ جیسے ہی وہ دیکھتا ہے کہ خدا کا کام خادم حوالہ ڈھونڈتا ہے وہ اس مضمون کا نوٹ لیتا ہے جو لوگوں کے سا منے پیش کیا جا نے کو ہے۔ پھر وہ اپنی ساری مکاریاں اور ساری چالاکیاں حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے تاکہ وہ پیغام ان لوگوں تک نہ پہنچ پائے جنکو وہ ان ہی باتوں پر ورغلانا چاہتا ہے-بلکہ جنہیں سب سے زیادہ اُس آگاہی کی ضرورت ہوتی ہے انہیں کسی نہ کسی خاص بز نس کے لیے ما ئل کر دیا جا تا ہے جہاں ان کی مو جود گی چا ہیے ہو تی ہے یا پھر کسی بھی اور وجہ سے انہیں کلام سننے سے روک دیا جا تا ہے حا لانکہ اس سے ان کی زندگی کو بچا یا جا سکتا ہے۔AK 499.3

    جب شیطان یہ دیکھتا ہے کہ خدا کے خادموں پر اس رو حانی تا ریکی کا بو جھ ہے جس نے خدا کے لوگوں کو گھیر رکھا ہے ۔وہ ان کی الہیٰ فضل و قوت کے لیے مخلص دعا ئیں بھی سنتا ہے جس کی بدولت وہ دنیا کی مطا بقت اور بے پر وا ہی اور آرام طلبی اور سستی کے سحر سے با ہر آ ئیں ۔ اسی وقت ابلیس نئے جوش و خروش سے اپنے آلا ت حرب کو پکڑتا ہے ۔ وہ انسا نوں کو بھو ک کا کار بنا تا ہے اور بعض کو کئی دوسر خوا ہشا ت میں پھسا دیتا ہے یوں وہ ان کے ہوش و حواس کو سن (Nubb) کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ ان ضروری چیزوں کو سننے کے قابل ہی نہیں رہتے جن کو سننا ان کے لیے ضروری ہو تا ہے ۔AK 500.1

    ابلیس ان سب کو اچھی طرح جا نتا ہے جن کو وہ دعا اور کلا م پڑھنے سے غافل کر سکتا ہے وہ ان پر حملہ کر کے انہیں ملغوب کر دیتا ہے۔اس لیے وہ ہر ممکن چیز ایجاد کرتا ہے جس سے ان کا ذہن منہمک ہو جا ئے۔ خدا ترسوں میں ہمیشہ ایک کلاس ایسی رہی ہے جو بجا ئے اس کے کہ وہ سچا ئی کی متلاشی ہو، وہ ان سب کے چال چلن میں خطائیں ڈھو نڈنا شروع کر دیتی ہے جو اس سے متفق نہیں ہو تے۔ اس طرح کے لوگ شیطان کے مددگار ہوتے ہیں-AK 500.2

    بھائیوں پر الزام لگانے والے کم نہیں ہیں- اور وہ اس وقت بڑے سرگرم ہوتے ہیں جب خداوند خدا اپنا کام کرتا ہے اور اسکے خادم اسکی اطاعت کرتے ہیں- وہ انکے کاموں اور ان کے کلام کو غلط رنگ دیتے ہیں جو صداقت کو پیار کرتے اور اسے مانتے ہیں- وہ مسیح یسوع کے نہایت ہی ایماندار، جوشیلے، اور خود انکار خادموں کی نمائندگی کریں گے جنکو دھوکا دیا گیا ہے- ایسوں کا بس یہی کام ہے کہ وہ ہر اچھے اور نیک کام کی غلط نمائندگی کریں اور درپردہ الزام تراشی کر کے ناتجربہ کار ذہنوں میں شک پیدا کریں- وہ ہر طریقہ استعمال کریں گے جس کے ذریعہ وہ پاکیزہ اور راست کو نجس اور فریب بنا کر پیش کریں-AK 500.3

    مگر ان سے کسی کو بھی دھوکہ کھانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ پہلے ہی دیکھا جا سکے گا کہ وہ کس کے بچے ہیں اور کس کا نمو نہ اپنا رہے ہیں اور کس کا کام کر رہے ہیں۔ “ان کے پھلوں سے تم انکو پہچان لو گے” متی 16:7 انکی رہیں ابلیس سے ملتی جلتی ہیں جو زہر آلود بہتان لگاتا رہتا ہے- وہ “بھائیوں پر الزام لگانے والا” ہے مکاشفہ -10:12AK 500.4

    مہا دھو کے باز بہت سے کا رندے ہیں جو روحوں کو پھنسانے کے لیے بھی اور ہر قسم کی خطا پیش کر سکتے ہیں ۔ اور جنہں وہ بر باد کرنا چا ہتا ہے ان کے خلاف مختلف قسم کی بد عتوں کا الزام لگا تا ہے ۔ یہ اس کی تجو یز ہے کہ کلیسیا کے اندر ایسے عنا صر لا ئے جو غیر مخلص اور جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہو ئے۔ تا کہ بے اعتقادی کی حوصلہ افزائی ہو اور جو چاہتے ہیں کہ خدا کا کام آگے بڑھے انہیں روکیں- ایسے عناصر جن کا خدا میں یا اس کے کلام پر کو ئی ایمان نہیں ہے وہ سچا ئی کے کچھ اصولوں کی اجازت دے دیتے ہیں بلکہ وہ اپنی غلط تعلیم کو بھی یوں متعا رف کرواتے ہیں جیسے کہ وہ پاک نوشتوں کے عین مطابق ہو۔AK 501.1

    یہ خیال کر لینا کہ لو گ کیا ما نتے ہیں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ابلیس کے دھو کہ دہی کا سب سے بڑا اور کا میاب ہتھیار ہے۔وہ جانتا ہے کہ صداقت کو قبول کر نے والے کی روح پا ک اور مقدس ہو جا تی ہے ۔ اس لیے وہ مسلسل اس کے عو ض جھو ٹے نظریات ، قصے کہا نیاں اور دوسری انجیل ڈھونڈتا رہتا ہے۔ شرو ع سے ہی خدا کے خادموں نے جھو ٹے اُستا دوں کا مقابلہ کیا ہے۔ نہ صرف بد طینت انسانوں کا بلکہ جھوٹی دل پزیر تعلیم کا بھی جو روح کیلیئے مہلک ہے۔ ایلیاہ، یرمیاہ، پولس رسول نے بیباکی اور ثابت قدمی سے ان سب کی مخالفت کی جو لوگوں کو خدا کے کلام سے گمراہ کرتے تھے- صداقت کا دفاع کرنے والے مقدسین نے اسکی کبھی بھی حمایت نہ کی کہ مذہبی ایمان جیسا بھی ہے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا-AK 501.2

    پاک نوشتوں کی غیر واضح اور وہمی اور خیالی تشریح اور مذیبی ایمان سی متعلق کئی نظریات دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔اور یہ کام ہمارے دشمن ابلیس کا ہے تاکہ وہ ہمارے اذہان کو ابتری کا شکار کرے اور ہم صداقت کو نہ سمجھ پائیں- نیز جھگٹرے اور تفرقے جو مسیحی حکومتوں میں پائے جاتے ہیں اور وہ اسلیئے ہیں کیونکہ رسما کلام مقدس کو کھینچ تان کر اپنے مطلب کا نظریہ حاصل کیا جاتا ہے- بجائے اس کے خدا کے پاک کلام کا مطالعہ خدا کی مرضی جاننے کیلئے بڑی انکساری سے کیا جائے، بہتیرے ایسے ہیں جو اس میں سے صرف کوئی انوکھی بات ہی ڈھونڈنے کے متلاشی رہتے ہیں- AK 501.3

    بعض لوگ غلط تعلیم کو قائم رکھنے کے لیے، یا غیر مسیحی دستوروں کو منوانے کیلئے کلام مقدس کے بعض حصوں کو پکٹر لیتے ہیں جو اپنے اصل سیاق وسباق سے الگ ہوتے ہیں، اور اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے نصف آیت کو پیش کرتے ہیں جب کہ آیات کا باقی آدھا حصہ بلکل متضادمعنی بیان کرتا ہے- اور وہ سانپ کی سی ہوشیاری کے ساتھ اس غیر ملحقہ حصے کی ایسی تشریح کرتے ہیں جو ان کی جسمانی خواہش کے مناسب حال ہو- اس طرح بہتیرے ہیں جو جان بوجھ کر خدا کے کلام کو درھم برھم کرتے ہیں- دوسرے کئی ایک لوگ نہایت ہی تیز فہم ہیں وہ استعاروں اور علامتوں کو لے کر اپنی مرضی کی تشریح کر لیتے ہیں اور کلام مقدس کی چنداں پرواہ نہیں کرتے حالانکہ کلام اپنی تفسیر آپ کرتا ہے- پھر وہ اپنے بے سروپا خیالات کو بطور بائبل کی تعلیم کے پیش کرتے ہیں-AK 502.1

    جب کبھی بھی کلام مقدس کا مطالعہ دعا، فروتنی اور سیکھنے والی روح کے بغیر کیا جائے گا تو سادہ ترین یا مشکل عبارت کے معنی بھی اصل متن سے ہٹ کر سمجھے جائیں گے- پوپ کی قیادت ایسے ہی حصوں کو منتخب کرتی ہے جو انکے عین مقصد کو حل کریں اور ایسی ہی تشریح کریں گے جو انکے مناسب حال ہو- اور اسی بات کو وہ لوگوں کے سامنے پیش کریں گےجبکہ وہ لوگوں کو بائبل پڑھنے کے حق سے محروم رکھتے ہیں- پوری بائبل لوگوں کے سامنے رکھنی چاہیے- پاک نوشتوں کی غلط تفسیر کرنے کی بجائے انکے لئے یہ بہتر ہوتا اگر انہیں بائبل کی ہدایات ہی نہ دی جاتیں- AK 502.2

    کتاب مقدس تو ان سب کی رہنمائی کے لیے دی گئی تھی جو اپنے خالق خداوند کی مرضی جاننے کے خواہاں تھے۔ خدا نے آل آ دم کو نبیوں کا معتبر کلام دیا ۔ فرشتے اور میسح یسوع خوددانی ایل اور یوحنا عارف کووہ باتیں بتانے آئے جو بہت جلد واقع ہونے کوتھیں اور وہ تمام ضروری باتیں جو ہماری نجات کے لیے تھیں ان کو چھپایا نہ گیا۔ وہ اس طرح ظاہر نہ کئی گئیں کہ صداقت کا مخلص متلاشی گمراہ اور پریشا ن ہوجائے۔ حبقوق نبی کے ذریعہ خداوند نے فرمایا ‘’رویا کو تختیوں پر ایسی صفائی سے لکھ کہ لوگ دوڑتے ہوئے بھی پٹرھ سکیں‘‘ حبوق 2:2 خدا وند کا پاک کلام ان سب کے لیے بڑا واضح ہے جو دعا ئیہ دل کی رہنمائی میں اس کا مطالعہ کرتے ہیں ۔AK 502.3

    ’’صادقوں کے لیے نور بویا گیا ہے۔ ‘‘زبور 11:97 کوئی بھی کلیسیا اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کے ممبر ان اس طرح تلاش اور تحقیق نہ کریں جیسے چھپے ہوئے خزانے کی تلاش کی جاتی ہے۔AK 502.4

    آزاد خیالی کے نعرے سے، انسان اپنے دشمن کے حربوں کی طرف سے اندھے ہو چکے ہیں- وہ تو ہر وقت اپنی مطلب براری کیلئے مستعدی سے کام جاری رکھے ہوۓ ہے- جیسے کہ وہ بائبل کی جگہ انسانی قیاس وگمان کو لانے میں کامیاب ہو گیا ہے یوں خدا کی شریعت کو ترک کر دیا گیا- کلیسیائیں گناہ کی غلامی میں چلی گئی جب کہ انکا دعوی ہے کہ وہ آزاد ہیں-AK 503.1

    بعض ایک کے لیے سا ئنٹیفک ریسرچ لعنت بن چکی ہے ۔ خدا وند خدا نے دنیا پر بے نا ہ روزشنی نچھا ور کی ہے تا کہ وہ سا ئنس اور آرٹ دریا فت کر پا ئیں لیکن اگر فہم و فرا ست کے ما لک اپنی ریسرچ میں خدا وند کے پاک کلام کی رہنما ئی حا صل نہ کریں تو وہ بھی سا ئنس اور مکاشفے میں جو تعلق پا یا جا تا ہے اس کی تحقیق و تفشیش میں گمراہ اور حواس با ختہ ہو جا ئیں گے ۔ انسا نی علم دونوں جسما نی اور روحا نی چیزوں کے بار ے جزوی اور ادھو را ہے اسی لیے بہت سے حضرا ت اپنے نظر یا ت سا ئنس اور الہیٰ نو شتوں کے اقتسا با ت سے ہم آہنگ کر نے میں نا کام رہتے ہیں۔AK 503.2

    بیشتر حضرات نظریات اور قیاس کو ہی سائنٹیفک حقائق سمجھ لیتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ خدا کے کلام کو سائنس کی تعلیم کے مطابق جانچنا چاہیے- (برائے نام سائنس) 1 تیمتھیس 20:6 خالق خداوند اور اسکے کام امکی سمجھ سے بالاتر ہیں- اور چونکہ وہ انہیں نیچرل لاز (Laws) کے ذریعہ بیان نہیں کر پاتے، اسلئے وہ کہہ دیتے ہیں کہ بائبل کی تاریخ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا- وہ جو عہد عتیق اور عہد جدید کے ریکارڈ کو معتبر نہیں مانتے وہ ایک قدم اور بھی آگے بڑھ جاتے ہیں اور خدا کی ہستی کا انکار کرتے ہیں اور فطرت کو کلبم قوت کا منبع قرار دیتے ہیں- وہ اپنے لنگر (Anchor) کو چھوڑ دیتے ہیں اور بے ایمانی کی چٹانوں سے ٹکراتے رہتے ہیں- AK 503.3

    یوں بہتیرے ایمان سے پھر گئے ہیں اور ابلیس نے انہیں اغوا ء کر لیا ہے- انسانوں نے خالق سے زیادہ دانا بننے کی کو شش کی ہے۔ انسا نی فلاسفی نے ان بھیدوں کو پانے اور ان کی وضا حت کر نے کا قصد کیا ہے جو زمانوں تک ٓآشکا را نہیں ہوں گی- اگر انسان صرف اسی کی تحقیق و تفشیش کرے جو خدا وند خدا نے اپنے بارے اور اپنے مقاصد کے بارے عیا ں کیا ہے ۔تو وہ یہو اہ کی شو کت و حشمت اور قوت اور قدرت کو جان کر اسی پر قناعت کر لیں گے جو ان کے لیے اور انکی اولاد کے لیے ظا ہر کیا گیا ہے ۔AK 503.4

    یہ شیطا ن کے دھو کوں کا شہکا ر ہے کہ انسانوں کے دماغ اس تلاش میں اٹکل پچو لگا تے رہیں جو خداوند نے بتایا نہیں اور جس کے بار ے خدا نہیں چا ہتا کہ ہم سمجھ پا ئیں اسی وجہ سے لو سفیر نے آسمان میں اپنا مقام کھو دیا وہ اس لیے بے چین ہو گیا کیو نکہ خدا نے اپنے تمام مقاصد جا ننے میں اپنا راز دار نہ بنایا-اور اسے جو کچھ اسکی بڑی پوزیشن اور کام کے بارے بتایا گیا تھا اسکی اس نے کچھ قدر نہ کی- اور جو فرشتے اس کے ماتحت تھے ان میں بھی اس نے وہی بے قناعتی استوار کر کے انکے گرنے کا سبب بنا- اب وہ انسانوں کے ذہنوں میں بھی وہی روح بھرنا چاہتا ہے اور اب وہ انکی رہنما ئی کر رہا ہے کہ برا ہ راست خدا کے احکام نہ ما نیں ۔AK 504.1

    وہ جو بائبل کی فصیح و بلیغ سچا ئیوں کو ماننے کاانکار کر تے ہیں اور مسلسل ایسے خوش کن قصے کہا نیاں ڈھو نڈنے لگے رہتے ہیں جو دل کو بھائیں۔اگر کم روحانی، کم ایثا ر اور کم حلیمی کی تعلیم پیش کی جائے تو وہ اسے بڑی خوشی سے قبول کرلیں گے ایسے اشخاص اپنی جسمانی مطلب براری کے لیے ذی فہم قوا کی حقا رت کر تے ہیں۔ وہ اپنے ہی خیا ل میں بڑے دانا بنتے ہیں اور بغیر فروتن روح اور مخلص دعا اور الہیٰ رہنمائی کہ وہ نو شتوں کی تحقیق کرتے ہیں- وہ مغالطہ کرنے اور فریب کھانے سے نہیں بچ سکتے کیونکہ شیطان انکی دلی خواہش کے مطابق مہیا کرنے کیلئے تیار بیٹھا ہےاور وہ فریب کو صداقت کی جگہ رکھ دیتا ہے اسی طرح پوپ کی کلیسیا نے صداقت کو رد کر کے لوگوں کے اذہان پر قبضہ جمایا کیونکہ صداقت میں صلیب شامل ہوتی ہے- پروٹسٹنٹس بھی وہی راہ اختیار کر رہے ہیں- وہ تما م لوگ جو خدا کے کلا م کا مطالعہ ترک کر دیتے ہیں وہ مذہبی صدا قت کے بجا ئے لعنتی بد عت کو قبول کریں گے- وہ جو رضا و رغبت صداقت سے منحرف ہو جا ئیں گے وہ ظا ہرو غلط تعلیم کو قبول کر لیں گے وہ جو ایک فریب کو عزت کی نگا ہ سے دیکھتا ہے وہ دوسرے فریب کو بھی جلد قبول کر لے گا ۔ پولس رسول ایسی ہی جما عت کا ذکر کر تا ہے جو سچا ئی کو قبول نہں کر تی ‘‘ اور ہلاک ہو نے والوں کے لئے یہ نا را ستی کے ہر طرح کے دھو کے کے سا تھ ہو گی اس وا سطے کہ انہوں نے حق کی محبت کو اختیار نہ کیا جس سے انکی نجا ت نہ ہو تی ۔ اسی سبب سے خدا ان کے پاس گمراہ کر نے والی تا ثیر بیجے گا تا کہ وہ جھوٹ کو سچ جا نیں اور جتنے لو گ حق کا یقین نہیں کرتے بلکہ نا را ستی کو پسند کر تے ہیں وہ سب سزا پا ئیں گے ‘‘ تھسلنیکیوں 12-10:2 ایسی آگاہی کے سا تھ جو ہما رے سامنے اس سے ہمیں فا ئدہ پہنچا تا ہے کہ ہم خبر دار ہیں کہ ہمیں کو نسی تعلیم کو قبول کر نا ہے ۔ AK 504.2

    مہا دھوکے بعض کی کامیاب ایجنسیوں میں سپرچولزم (روح پرستی) کی غیر حقیقی اور مایوس کن تعلیم ہے جو جھوٹے عجائب وغرائب پر مبنی ہے- شیطان نوری فرشتوں کے روپ میں ایسی جگہ ہر جال فنکتا ہے جہاں کم سے کم شک کی گنجائش ہوتی ہے- اگر انسان سمجھنے کیلئے دعا کے ساتھ خدا کے کلام کا مطالعہ کریں تو وہ جھوٹی تعلیم قبول کرنے کیلئے اندھیرے میں نہ چھوڑے جائیں- مگر جونہی وہ سچائی کو رد کر دیتے ہیں وہ دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں-AK 504.3

    دوسری خطرناک تعلیم مسیح یسوع کی الو ہیت کا انکار ہے۔ دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ اس دھر تی پہ آنے سے پہلے اسکا کو ئی وجود نہ تھا اس نظر یے کو بہت بڑی کلا س قبو ل کر تی ہے جبہ وہ بائبل کو بھی ما ننے کا دعوی کر تی ہے مگر یہ مسیح یسوں کے اس بیا ن کی نفی کر تی ہے جس میں اس نے با پ کے سا تھ اپنے تعلق کو دنیا سے پیشتر اپنی مو جو دگی کے با رے کہا نو شتوں کو تو ڑے مو ڑے بغیر اس طرح کے نظر یے کو تو ما نا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کو ئی جواز پیش کیا جو ہے یہ نہ صرف نجا ت کے کام کو کم تر کر تا ہے بلکہ با ئبل میں ایما ن کو بھی خدا کا مکاشفہ ہو نے کے نا طے میں با طل کر تا ہے ۔ اگر انسان مسیح یسوں کی الو ہیت کے با رے میں الہا می نو شتوں کی گوا ہی کی تر دید کر دے تو ایسے لوگوں کے ساتھ با ت کر نا ہی فضول ہے کیو نکہ نفسا نی آدمی خدا کے روح کی با تیں قبو ل نہیں کر تا کیو نکہ وہ اس کے نزد یک بے وقو فی کی باتیں ہیں اور نہ وہ اسے سمجھ سکتا ہے کیو نکہ وہ رو حا نی طور پر پر کھی جا تی ہیں ‘‘ 1 کر نیتیوں -14:2AK 505.1

    کو ئی بھی شخص جو اس غلط نظر یے پر قا ئم ہے وہ نہ تو مسیح کی حقیقی سیرت اور نہ ہی اس کے مشن اور انسان کے لیے خدا کی نجا ت کے عظیم منصو بے کو سمجھ سکتا ہے ۔AK 505.2

    ایک اور مو ذی ضرر ر سا ں اعتقاد جو بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے ابلیس کا اپنا ذا تی وجود نہیں ہے پا ک نشتوں نے اسکا نام صرف انسان کے برے خیا ل و خوا ہشا ت کی نما ئیدگی کے لیے استعما ل کیا گیا ہے ۔AK 505.3

    ایک اور غلط تعلیم جس کی منا وی ہر دل عزیز پلپٹس (Pulpits) سے کی جا رہی ہے کہ مسیح یسوع کی آمد ثا نی ہر ایک شخص کی مو ت کے وقت جا تی ہے ۔ یہ حر بہلو گوں کے اذہا ن کو مسیح کا شخصی طو ر پر آسما ن کے با دلوں پر آنے کی طرف گمرا ہ کر نے کے لیے ہے ۔ کئی سا لوں سے شیطا ن کہتا آیا ہے کہ دیکھو “وہ کوٹھری میں ہے” یوں اس دھو کے کو سش ما ن کر بہت سی روحیں برباد ہو گئی ہیں ۔AK 505.4

    پھر دینوی حکمت سکھا تی ہے دعا ضروری نہیں ہے ۔ سا ئنسدان کہتے ہیں کہ دعا کا کو ئی حقیقی جوا ب میسر نہیں ہو تا ۔ یہ تو قا نو ن کو تو ڑنے کے مترا دف ہے ۔ یہ معجزہ یا وہ معجزہ ان کا وجود ہی نہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کا ئنا ت متعین قوا نین کے تحت روا دوا ں ہے اور خدا ان قوا نین کے بر خلا ف کچھ نہیں کرتا۔ وہ خداوند کو یوں پیش کر تے ہیں جیسے وہ اپنے قوا نین کا پا بند ہے جیسے کہ الہیٰ قوا نین کا آپر یشن (Operation) الہیٰ آزادی کو ختم کر تا ہے ۔ اس طرح کی تعلیم پا ک نو شتوں کی گواہی کی مخالفت کر تی ہے ۔ کیا مسیح یسوں اور اس کے رسولوں نے معجزا ت نہ کئے تھے ؟ وہ رحیم نجا ت دہندہ آج بھی زندہ ہے ۔ اور وہ ایما ن سے کی ہو ئی وفا کو اسی طر ح سننے کے لیے تیار ہے جب وہ اس دھر تی پر انسا نوں کے درمیان چلتا پھر تا تھا اور ان کی التجا ؤں کو قبول کر تا تھا ۔ فطر ت ،فوق الفطر ت سے تعا ون کر تی ہے ۔ یہ خدا کے منصو بے کا ایک حصہ ہے کہ وہ ہما ری ایما ن سے ما نگی ہو ئی دعا ؤں کا جوا ب دے اور جو کچھ ہم دعا میں نہیں ما نگتے وہ خود بخود نہیں دے دیتا۔AK 505.5

    انگنت اقسام کی غلط تعلیما ت اور غیر حقیقی اور فرضی نظر یات مسیحی سلطنتوں کی کلیسیا ؤں میں پا ئے جا تے ہیں ۔ خدا وند کے پا ک کلا م نے جو حدود مقر ر کی ہیں ان میں سے ایک کو بھی ہٹا نے کے نتیجے میں جو برا ئیا ں پیدا ہو سکتی ہیں ان کا اندا زہ لگا نا نا ممکن ہے ۔ وہ چند اشخا ص جو ایسے خطر ے میں پڑ تے ہیں وپ سب سے پہلے کسی ایک صدا قت کو رد کر تے ہیں ۔ جب کہ اکثر یت ایک کے بعد دوسری صدا قت کے اصو لوں کو مسلسل تر ک کر تی جا تی ہے ۔ یہاں تک کہ وہ مکمل کا فر بن جا تے ہیں۔AK 506.1

    ہر دلعزیز تھیا لو جی کی غلط تعلیم نے بہت سی روحوں کو کلا م پر شک کر نے وا لا بنا دیا ور نہ وہ الہا می نو شتوں کو ما ننے والے ہو تے ۔ اس لیے ایسی تعلیما ت کو ما ننا جو اس کے انصا ف ،رحم اور فیض رسانی کے حق پر نا جا ئز دست اندا زی کرے ۔اور چو نکہ ان تعلیما ت کو ایسے پیش کیا جا تا ہے جیسے کہ با ئبل کی تعلیم ہو اس لیے وہ خدا کے کلا م کو بھی قبو ل کر نے سے انکا ر کر دیتے ہیں ۔AK 506.2

    اور یہی وہ مقصد ہے جو ابلیس حا صل کر نا چا ہتا ہے ۔ خدا اور اس کے کلام سے لو گوں کا اعتما د اٹھ جائے اس سے بڑھ کر ابلیس کی اور کو ئی خوا ہش نہیں ۔ ابلیس شک کر نے والی بہت بڑی فوج کا سردار ہے اور انتہا ئی کو شش کر تا ہے کہ وہ روحوں کو بہکا کر اپنی فوج میں شا مل کر لے ۔ شک کر نا تو اب فیشن میں شا مل ہو تا جا رہا ہے ۔ایک بہت بڑی جما عت ہے جو خدا کی جما عت کا اعتبار نہیں کر تی اور اس کی بھی وجو ہات وہی ہیں جو ابلیس کے پاس ہیں ۔ کیو نکہ خدا کا کلام گنا ہ کی ملامت کر تا ہے ۔ وہ جو پا ک کلام کے مطا لبات ہیں ان کو بھی رد کر نے کی کو شش کر تے ہیں ۔ وہ با ئبل کو پڑ ھتے ہیں یا اس کی تعلیم کو سنتے ہیں جو پلپٹ سے پیش کی جا تی ہیں ۔صرف اس لیے کہ وہ پا ک نو شتوں یا وعظ میں کو ئی غلطی پکڑیں۔کچھ یوں منکر خدا بن جا تے ہیں اور اس کے جوا ز میں وہ یہ عذر پیش کر تے ہیں کہ یہ ہما ری ڈیو ٹیوں میں تغافل کا با عث بنتا ہے ۔ جب کہ بعض اپنے گھمنڈ اورسستی کے با عث منکر خدا ہو نے کے اصولوں کو اپنا تے ہیں جو بہت زیا دہ آرا م طلب ہیں وہ خود ممتاز ظا ہر کر نے کے لیے کو ئی بھی ایسی چیز اپنا لیں گے جو ان کے لیے با عث عزت ہو۔جس میں کچھ ایثا ر اور سعی کارفرما ہو اور دوسروں سے زیا دہ دا نا بننے کے لئے دوسروں پر نکتہ چینی کریں گے ۔ ایسا بہت کچھ ہے جو محدود فہم الہیٰ سے روشن خیا ل نہیں بنتا اور بہت کچھ سمجھنے سے قا صر رہتا ہے ۔ یوں وہ نکتہ چینی کر نے کا مو قع ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ بتہرے ایسے ہیں جو یہ محسو س کر تے ہیں کہ بے ایما نی، بے اعتقادی اور شک کا سا تھ دینا نیکی ہے ۔ مگر ان کو اس غیر جانبدا ری کے ایسے حضرا ت کی خودی اور گھمنڈ چھپا ہو تا ہے ۔ بہتیرے ایسے ہیں جو پا ک نو شتوں میں ایسی چیزیں ڈھو نڈنے مین شاد ما نی حا صل کر تے ہیں جو دوسروں کے اذہان کو الجھن میں ڈال دیتے ہیں ۔بعض شروع شروع میں محظ اختالاف کر نے کی چا ہت میں غلط طرف کی حما یت کر تے ہیں اور وہ یہ محسوس نہیں کر تے کہ وہ خود کو پر ندوں کے جال میں پھنسا رہے ہیں۔اس طر ح اعلا نیہ اپنی بے ایما نی کا اظہا ر کر نے سے وہ محسو س کر تے ہیں کہ انہیں اپنی اس پو زیشن کو ق ئم رکھنا ہے ۔ یوں وہ بے ایما نیوں کے سا تھ الحا ق کر لیتے اور اپنے اوپر فردوس کے دروازے بند کر لیتے ہیں۔AK 506.3

    خداوند خدا نے اپنے پا ک کلا م میں اپنی الہیٰ سیرت کے بار ے و افر ثبو ت فرا ہم کیے ہیں ۔ وہ سچا ئیاں جن کا واسطہ ہماری نجا ت کے ساتھ ہے وہ پیش کی گئی ہیں ۔ روح مقدس کی مدد سے جس کا وعدہ ہر ایک مخلص متلا شی کے لیے ہے ہر ایک شخص ان سچا ئیوں کو اپنے لیے سمجھ سکتا ہے ۔رب کریم نے انسا ن کو مستحکم بنیا د مہیا کر رکھی ہے جس پر وہ اپنے ایما ن کو قا ئم کر سکتا ہے ۔AK 507.1

    تا ہم انسان کے محدود و اذہان ، لا محدود خدا وند کے مقا صد اور تجا ویز کو سمجھنے کے لیے نا کا فی ہیں ۔ ہم خود خدا وند کو تلا ش کر کے کبھی بھی پا نہیں سکتے ۔ ہمیں کبھی بھی قیس و گمان کے ہا تھ سے اس پر دے کو ہٹا نے کی کوشش نہیں کر نی چا ہیے جس میں اس نے اپنی عظمت اور جہ جلال کو پو شیدہ رکھا ہے ۔پو لس رسول یو ں پکار اٹھتا ہے ‘‘۔ واہ! خدا کی دولت و حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے ! اُس کے فیصلے کس قدر ادرا ک سے پرے اور اس کی را ہیں کیا ہی بے نشا ن ہیں ‘‘ اُس کا ہما رے سا تھ جو سلو ک ہے و ہ قصد جس کے ذریع وہ اکسا یا جا تا ہے ہم اسے سمجھ سکتے ہیں ۔ اور پھر ہم اس کا بے پنا ہ رحم ، اور پیا ر جو بے پا یا قوت کے سا تھ متحد ہو تا ہے اسے پہچا ن سکتے ہیں ۔ ہما را آسما نی با پ ہر ایک اپنی حکمت اور را ستبا زی سے مر تب کر تا ہے اور ہمیں غیر مطمئین اور بے اعتما د نہیں ہو نا چا ہئے ۔بلکہ بڑے ادب سے اس کے سامنے تا بع ہو نا چا ہیے۔ اور ہم پر اپنے اسی قدر مقاصد آشکا رہ کر ے گا جو ہما ری بھا ئی کے لیے ہیں اور اس کے پر ے ہما رے صرف قا در مطلق کے ہا تھ اور محبت بر ے دل پر بھرو سہ کر نا چا ہیے ۔AK 507.2

    خدا وند خدا نے ایما ن کے لیے وافر ثبو ت فرا ہم کیے ہیں،تاہم وہ بے ایمانی کے لیے تمام حلیے بہانوں کودرو نہیں کرتا۔ وہ جو اپنے شکوک کو لٹکانے کے لیے کنڈا (آنکڑا) ڈھونڈتے ہیں انہیں مل جاتا ہے۔ اور وہ حضرات اس وقت تک خد ا کے کلام کو ماننے سے انکار کرتے ہیں جب تک ان کے تمام شکوک رفع نہ ہوجائیں اور شک کا کوئی موقع باقی نہ رہے ۔ ایسے حضرات کھبی بھی نور تک نہ پہنچ پائیں گے۔AK 508.1

    غیر تبدیل شدہ دل میں خدا کے لیے بے اعتبارفطری طور پر پیدا ہوجاتی ہے۔جو خدا کے ساتھ دشمنی ہے۔مگر ایمان روح القدس کی بدو لت پیدا ہو تا ہے اور یہ اُسی قدر بڑ ھتا پھو لتا ہے جتی زیا دہ اس کی پر ورش کی جا تی ہے ۔ کو ئی شخص بھی مصمم AK 508.2

    ارا دہ کئے بغیر ایمان میں مضبو ط نہیں ہو سکتا- بے اعتقادی کی جتنی حوصلہ افزائی کی جائے وہ اتنی ہی مضبوط ہوتی جاتی ہے- اور اگر انسا ن ان ثبو توں کو اوڑھنا بچھونا بنا نے کی بجا ئے جو خدا نے ایما ن کو قا ئم رکھنے کے لیے مہیا کیے ہیں خواہ مخوا ہ کے سوالات اٹھا ئیں تو وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے شکو ک زیا دہ مستحکم ہو تے جا ئیں گے-AK 508.3

    لیکن وہ جو خدا کے وعدہ پر شک کر تے ہیں اور اس کے فضل کی یقین دہا نی کے با رے بد گما ن ہیں اور وہ خدا وند کو رسوا کر تے ہیں ۔ اور ان کا اثر دوسروں کو مسیح کو قر یب لا نے کی بجا ئے اس سے دور لے جا تا ہے ۔ وہ بے پھل درخت ہیں ، جو اپنی گھنی شا خیں اور دوسرے پودوں کے پاس سورج کی روشنی کو جا نے سے رو کتے اور دوسرے پو دوں کو نیچے جھکنے اور سردی کے سا یہ تلے مر نے کی و جہ بنتے ہیں۔ ایسے اشخاص کا زندگی بھر کا کام انکے خلاف گواہی دیتا رہے گا- وہ شک وشبہات اور بے ایمانی کا بیج بوتے ہیں جو فصل دینے سے بعض نہیں رہتا-AK 508.4

    ایسے حضرات اگر سچ مچ شکو ک سے پیچھا چھڑا نا چا ہتے ہیں تو انہیں ایک راہ اختیا ر کر نا ہو گی ۔وہ یہ کہ سوال کر نے اور اعتراض کر نے کی بجا ئے وہ اس رو شنی پر غور و خو ض کر یں جو پیشتر ان پر جلو ہ افرو ز ہے تو وہ اس سے بھی بڑی روشنی حاصل کر پائیں گے۔ انہیں اس فرض کو ادا کر نا چاہیے جو ان کے فہم کے لیے سا دہ اور آسان بنا یا گیا ۔اور پھر وہ ان با توں کو بھی سمجھ پا ئیں گے جن کے با رے میں وہ شک کا شکار ہیں۔AK 508.5

    شیطان صداقت کے سا تھ ملتی جلتی سچا ئی پیش کر سکتا ہے جس سے وہ دھو کہ کھا جا ئیں گے ۔ یہ وہ ہیں جو خود انکا ری اور ایثا ر کو تر ک کر نا چا ہتے ہیں جو صدا قت کا مطا لبہ ہے ۔ مگر ابلیس کے لیے اس ایک روح کو بھی اپنے تحت کر نا نا ممکن ہے جو بڑی ایما ندا ری سے خوا ہ کچھ بھی ہو جا ئے سچا ئے جا ننے کی تمنا رکھتی ہے ۔ مسیح یسوں نو ر ااور سچا ئی ہے ‘’جو ہر ایک آدمی کو رو شن کر تا ہے دُنیا میں آنے کو تھا ‘‘ یو حنا9:1سچا ئی کی روح دنیا میں بھیجی گئی تا کہ ہر ایک شخص کی تما م سچا ئیوں کیلئے رہنما ئی کرے ۔ اور خدا کے بیٹے نے پکار کر کہا “ڈھونڈو تو پاؤ گے” متی 7:7 AK 509.1

    اگر کوئی اسکی مرضی پر چلتا ہے تو وہ اس تعلیم کی بابت جان جائے گا” یوحنا -17:7AK 509.2

    مسیح یسوں کے پیر و کار, شیطان اور اس کی افوا ج کے منصو بوں سے بہت ہی کم وا قف ہیں ۔ مگر وہ جو آسما ن پر تخت نشین ہے وہ اپنے مقا صد کو آگے بڑھا نے کے لئے ان کے حر بوں کو ملیا میٹ کر تا ہے ۔AK 509.3

    خدا وند اپنے لوگوں کو کڑی آزمائشوں میں سے گزر نے کی اجا زت دیتا ہے ۔اس لیے نہیں کہ ان کی اذیت اور مصیبت سے اسے مسر ت حا صل ہو تی ہے بلکہ اس لیے کہ یہ ان کی آ خری فتح کے لیے اشد ضروری ہے ۔ وہ اپنے جاہ وحشمت کے ساتھ ہر وقت انکے لئے آزمائشوں کے وقت ڈھال بننا نہیں چاہتا کیونکہ آزمائش کا اصل مقصد انہیں بدی کی تمام دل موہ لینے والی چیزوں کی مزاحمت کرنے کیلیے تیار کرنا ہے-AK 509.4

    بد کار لو گ اور نہ ہی بد رو حیں خدا کے کام کو رو ک سکتی ہیں ۔ نہ ہی اس کی مو جو دگی کو اس کے لو گوں سے دور رکھ سکتی ہیں بشر طیہکہ وہ تا بع فر ما ن اور فرو تن دل کے سا تھ اپنے گنا ہوں سے تو بہ کر کے انہیں دور کریں اور ایمان کی روح سے اس کے مطا لبا ت کا مطا لعہ کریں ۔ہر ایک آزما ئش ، ہر ایک سد راہ ہو نے والا تا ثر ، ظا ہر ہو یا پو شیدہ اُس کی بڑی کا میا بی کے سا تھمزا حمت کی جا سکتی ہے ‘‘ نہ تو زور سے اور نہ توا نا ئی سے بلکہ میری روح سے رب الافواج فرما تا ہے ‘‘ زکر یا -6:4AK 509.5

    ’’ کیو نکہ خدا وند خدا کی نظر راستبا زوں کی طرف ہے اور ان کے کان ان کی طر ف لگے ہیں ‘‘ اگر تم نیکی کر نے میں سر گر م ہو تو تم سے بدی کر نے والا کو ن ہے ‘‘ 1پطرس -13-12:3جب بلعا م بڑے انعا م کے چکمے میں آ گیا اور اسرا ئیل کے خلاف افسون کر نے لگا ۔ اور کدا کے سا منے قر با نیا ں گزارنیے سے سمجھا کہ وہ بنی اسرا ئیل کے خلا ف افسون کر نے لگا ۔ اور خدا کے سا منے قر با نیاں گذارنے سے سمجھا کہ وہ بنی اسرا ئیل کے خلا ف خدا کو بھڑ کا دے گا ۔ خدا وند نے اس لعنت کو جو وہ بنی اسرا ئیل پر کر نا چا ہتا تھا اُس سے اُسے منع کر دیا تو پھر بلعا م یہ کہنے پر مجبو ر ہو گیا ‘‘ میں اس پر کیسے لعنت کروں جس پر خدا نے لعنت نہیں کی ، میں اُسے کیسے پھٹکا رون جسے خداوند نے نہیں پھٹکا را ؟ کا ش میں صا دقوں کی مو ت مروں ۔ اور میری عا قبت بھی انہی کی ما نند ہو” گنتی -10,8:2AK 509.6

    “دیکھ مجھے تو بر کت دینے کا حکم ملا ہے۔اس نے بر کت دی ہے اور میں اسے پلٹ نہیں سکتا ۔ وہ یعقوب میں بد ی نہیں پا تا ۔ اور نہ ہی اسرا ئیل میں کو ئی خرا بی دیکھتا ہے ۔ خدا وند اور اس کا خدا اس کے سا تھ ہے ۔ اور با د شا ہ کی سی للکا ر ان لوگوں کے بیچ میں ہے یعقوب پر کو ئی افسون نہیں چلتا ۔ اور نہ اسر ئیل کے خلا ف فال کو ئی چیز ہے ۔ بلکہ یعقو ب اور اسرا ئیل کے حق میں اب یہ کہا جا ئے گا کہ خدا نے کیسے کیسے کام کیے!“۔AK 510.1

    پھر بھی تیسری بار مذبحہ بنایا گیا اور دوبارہ بلعام نے اسرائیل پر لعنت کرنے کی تیاری کی- مگر نبی کے لبوں سے جو کچھ وہ نہیں کہنا چاہتا تھا خداوند کے روح نے کہلوایا- اور اسرائیل پر لعنت کرنے کے برعکس نبی نے کہا “جو تجھے برکت دے وہ مبارک اور جو تجھ پر لعنت کرے وہ ملعون ہو” گنتی ,23:23,21-20:23گنتی-9:24AK 510.2

    بنی اسرا ئیل اس وقت تک خدا وند سے وفا دار تھے جب تک وہ اس کے احکام کی بجا آوری کر تے رہے تو کو ئی بھی زمینی یا جہنمی طا قت ان پر غا لب نہ آسکی ۔ مگر وہ لعنت جو خدا نے بلا م کو بنی اسرا ئیل کپر کر نے کی اجاذت نہ دی ۔ بلغا م الآخر انہیں گناہ میں پھنسا کر انہیں لے آیا جب انہوں نے خدا کے احکا م کو تو ڑا تو خود کو خدا سے الگ کر لیا اور پھر وہ بربا کرنے والے کی طا قت کو محسوس کر نے لگے۔AK 510.3

    شیطان اس با تسے بخو بی واقف ہے کہ کمزور ترین روح جو مسیح یسوں پر بھرو سہ کر تی ہے وہ تا ریکی افوا ج کے مقا بلہ میں بہت زیا دہ قوت رکھتی ہے۔ اور اگر وہ ظا ہرہ اس کے سا منے آیا تو اس کی مزا حمت کی جا ئے گی ۔ اس لیے وہ صلیب کے سپا ہیوں کو ان کے قلعوں سے با ہر لا نے کی کو شش کر تا ہے جبکہ وہ خود اپنی افوا ج کے اساتھ چھپ کر انتظا ر کر تا ہے تا کہ جو کو ئی بھی اس کے حلقہ میں آئے اسے تبا ہ کر دے ۔ ہما ری پنا ہ صرف خدا پر بھرو سہ کر نے اور اس کے احکا م کی بجا آوری میں ہے ۔AK 510.4

    کو ئی بھی شخص دعا کے بغیر ایک دن کے لیے یا ایک گھنٹے کے لیے بھی محفوظ نہیں ۔ خا ص طور پر ہیں خدا وند سے التما س کر ناے چا ہیے کہ وہ ہمیں اپنے پا ک کلا م کی سمجھ عطا فرما ئے ۔ پاک کلا م میں آزما نے والے کے مکرو فریب ظا ہر کے گئے ہیں اور یہ بھی کہ کس طرح ان پر بڑی کامیا بی سے فتح پا ئی جا سکتی ہے ۔ شیطان کلام مقدس کے اقتبا سات پیش کر نے میں ما ہر ہے ۔ ان کے لیے وہ اپنی ہی تفسیر پیش کر تا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے اس طر ح کر نے سے ہم لڑ کھڑا جا ئیں گے ۔ ہمیں دل کی فروتنی کے سا تھ کلا م مقد س کا مطا لعہ کر نا چا ئیے ۔ اور اپنے خدا وند سے اپنی نظریں نہیں ہٹا نی چا ہیے بلکہ مسلسل اپلیس کے حربوں سے ہو شیا رہنا چا ہیے- اور ہمیں ایما ن کے سا تھ بد دستور یہ دعاکر تے رہنا چا ئیے۔ “ہمیں آزمائش میں نہ لا”-AK 510.5

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents