Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
عظیم کشمکش - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    سینتیسواں باب - کلام مقدس قابل اعتماد محافظ

    “شریعت اور شہادت پر نظر کرو- اگر وہ اس کلام کے مطابق نہ بولیں تو ان کے لئے صبح نہ ہہو گی” یسعیاہ 20:8 اس آیت میں خداوند کے لوگوں کی توجہ اس مقدس کلام کی طرف دلائی گئی ہے جو جھوٹے اساتذہ کی تعلم کی تاثیر اور تاریکی کی دھوکہ دینے والی روحوں کے حملے کو روکتا ہے- شیطان ہر حربہ استعمال کرتا ہے تاکہ لوگوں کو کلام مقدس کی تعلیم حاصل کرنے سے روکے، کیونکہ یہ اس کے مکروفریب کو بڑی صفائی سے عیاں کرتا ہے- خدا کے بیداری کے ہر کام پر بدی کا شہزادہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اپنی سرگرمیاں شروع کر دیتا ہے- اب وہ مسیح اور اس کے پیروکاروں کے خلاف فیصلہ کن تصادم کرنے کو ہے جس کے لئے وہ اپنی ہر کوشش بروئے کار لا رہا ہے- آخری بڑا دھوکہ بہت جلد کھل کر ہمارے سامنے آ جائے گا- مخالف مسیح ہماری آنکھوں کے سامنے حیرت انگیز کام کر دکھائے گا- وہ کام خدا کے حقیقی کام سے اس قدر مشابہ ہوں گے کہ پاک نوشتوں کی رہنمائی کے بغیر ان میں امتیاز کرنا محال ہو گا- ا سلے پاک نوشتوں کی روشنی میں ان کی ہر گواہی ہر معجزہ اور ہر قول کو آزمایا جانا چاہیے-AK 570.1

    جو بھی خداوند کی تمام شریعت پر عمل کرتے ہیں انکی مخالفت کی جائے گی اور ٹھٹھا بھی اڑایا جائے گا- ایسی آزمائشوں کو برداشت کرنے کے لئے ان کے لئے لازم ہے کہ وہ خدا کا منشا معلوم کریں جو اس نے اپنے پاک کلام میں ظاہر کیا ہے- وہ اسکی اسی صورت میں بڑائی اور عزت کر سکیں گے اگر وہ اسکی سیرت، اسکی گورنمنٹ اور اسکے مقاصد سے صحیح طور سے آگاہ ہوں گے اور انکے مطابق عمل کریں گے- آنے والی آخری کشمکش میں صرف وہی قائم رہ سکیں گے جنہوں نے کلام مقدس کی سچائیوں کو اپنے ذہن ودماغ میں بٹھا رکھا ہے-AK 570.2

    ہر روح کے سامنے ی یہ جانچنے کا ٹسٹ آئے گا کہ کیا میں انسانوں کی بجائے خدا کا حکم مانوں؟ اب فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے- کیا ہمارے قدم خداوند کے لاتبدیل کلام کی چٹان پر جمے ہوۓ ہیں؟ کیا ہم مسیح یسوع کے ایمان اور خدا کی شریعت کا ثابت قدمی سے دفاع کرنے کے لئے تیار ہیں؟AK 570.3

    مسیح یسوع نے اپنی صلیبی موت سے پیشتر شاگردوں کو بتایا تھا کہ وہ قت کیا جائے گا اور پھر تیسرے روز مردوں میں سے زندہ ہو جائے گا ور وہاں فرشتے موجود تھے جنہوں نے اس کے کلام کو دل ودماغ پر موثربنایا کہ مگر شاگرد تو یہودی جوۓ سے عارضی مخلصی چاہتے تھے اور وہ اس خیال کو برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ جس پر انکی تمام امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ گنواروں کی سی موت مرے- وہ کلام جو انھیں یاد رکھنا چاہیے تھا وہ اسے سمجھنے سے قاصر رہے اور جب آزمائش کا وقت آیا تو وہ اسکا مقابلہ کرنے کے لئے مطلق تیار نہ پائے گئے- مسیح یسوع کی موت نے انکی امیدوں پر یوں پانی پھیر دیا جسے کہ انہیں اس کا پہلے سے کچھ علم ہی نہ تھا- پیشینگوئیوں میں ہمارے سامنے اسی طرح مستقبل کھلا ہے جیسے کہ شاگرودں کے سامنے مسیح یسوع کا کلام کھلا دیا تھا- آزمائشی وقت کے خاتمہ کے ساتھ جو واقعات منسلک ہیں، اور مصیبت کے وقت کی تیاری کا کم بڑی صفائی سے پیش کیا گیا ہے- مگر عوام تو ان سچائیوں سے ایسے بے خبر ہیں جیسے کہ یہ کبھی ظاہر بھی نہ کی گئی ہوں- شیطان ان سے ہر اس تاثر کو چھین لیتا ہے، جو انہیں نجات کے لئے عقل بخشنے اور مصیبت کے وقت تیاری بخشنے کے لئے ضروری ہے-AK 571.1

    جب خدا بنی نوع انسان کے پاس اس قدر اہم آگاہی بھیجتا ہے کہ انکا اعلان آسمان میں اڑتے ہوۓ اس کے مقدس فرشتے کرتے ہیں- وہ ہر شخص سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عقل وشعور سے اس پیغام کو تسلیم کر کے اس پر عمل کرے- حیوان اور اس کے بت کو پوجا کرنے والوں کے خلاف ہولناک عدالت کا اعلان کیا گیا ہے (مکاشفہ 11-9:14)- اس اے سب کو بڑی جانفشانی کے ساتھ کتاب مقدس کا مطالعہ کر کے جاننا چاہیے کہ حیوان کے بت سے کیا مراد ہے اور کس طرح اسے تسلیم کرنے سے گریز کیا جا سکتا ہے- مگر عوام نے تو سچائی سننے کی طرف سے کان بند کر لئے ہیں اور من گھڑت کہانیوں کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں-AK 571.2

    پولس رسول ان ایام کی طرف دیکھتے ہوۓ یوں فرماتا ہے- “ایسا وقت آئے گا کہ لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہ کریں گے بلکہ کانوں کی کھجلی کے باعث اپنی اپنی خواہشوں کے موافق بہت سے استاد بنا لیں گے” 2 تیمتھیس -3:4 وہ وقت اب مکمل طور پر آ چکا ہے- عوام کتاب مقدس کی سچائیاں نہیں چاہتی کیونکہ یہ گناہ اور دنیاوی محبت کی راہ میں مخل ہوتی ہیں اور ابلیس ایسے مکروفریب پیش کرتا ہے جنہیں وہ پسند کرتے ہیں-AK 571.3

    مگر اس دھرتی پر خداوند کے لوگ ہوں گے جو بائبل اور صرف بائبل کی پیروی کریں گے اور ہر طرح کی اصلاح اور اپنی تعلیمات کا اسے معیار مقرر کریں گے- عالموں کی آرا، سائنس کے قیاس، مذہبی کونسلز کے فیصلے یا عقائد جو بہت زیادہ اور اسی طرح بے ہنگم اور ناموزوں ہیں- جس طرح بہت سے کلیسیائیں ہیں اور سب کے اپنے اپنے عقیدے ہیں اس لئے اکثریت کی آواز، نہ کسی ایک کی آواز کو مذہبی ایمان کے ک خلاف بطور ثبوت لیا جائے- بلکہ کسی بھی تعلیم (Doctrine) کو قبول کر کے بارے مطالبہ کریں کہ کیا----- “خداوند یوں فرماتا ہے”-AK 572.1

    شیطان مسلسل کوشش میں ہے کہ خدا کی بجائے انسان کی طرف توجہ مرکوز کی جائے- وہ لوگوں کو بشپس (Bishops) پاسٹرز، تھیالوجی کے پروفیسرز کی طرف جانے کیلئے ترغیب دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ خود پاک کلام کی تحقیق نہ کریں ان لیڈروں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد وہ عوام پر اپنی مرضی سے اثرانداز ہو سکتا ہے-AK 572.2

    جب خداوند یسوع مسیح زندگی کا کلام سنانے کے لئے آیا- عوام نے تو اسے بڑی خوشی سے سنا- بلکہ بہت سے پریسٹس اور حاکم اس پر ایمان لے آئے- مگر سردار کاہنوں، اور قوم کے رہنماؤں نے اس کی تعلیم کی ملامت کرنے اور اسے ترک کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا- گو وہ اس پر کوئی الزام لگانے کی کوششوں میں ناکام ہو گئے- مگر وہ اس کا کلام سن کر الہی تاثیر اور حکمت قبول کئے بغیر نہ رہ سکے- تو بھی تعصب ان پر چھا گیا- انہوں نے اس کے واضح مسیحا ہونے کے ثبوت رد کر دیئے- مبادہ انہیں اس کے شاگرد بننا پڑتا- یہ مخالفین وہ لوگ تھے جن کو بچپن سے ہی مسیحا کے سامنے سربسجود ہونا اور اسکی عظمت کو برتری دینا سکھایا گیا تھا- عوام سوال کرتے تھے کہ یہ “کیسے ہو سکتا ہے” کہ حاکم اور فقیہہ مسیح کو نہیں مانتے؟” یہ ایسے ٹیچرز کا اثر ہی تو تھا جس کی وجہ سے یہودی قوم نے نجات دہندہ کو رد کر دیا-AK 572.3

    وہ روح جس نے ان پریسٹس اور حکمرانوں کو ترغیب دی وہ ابھی بھی ان لوگوں میں ظاہر ہوتی ہے جو پارسائی کا دعوی کرتے ہیں- وہ خاص سچائیاں جو اس زمانے کے لئے ہیں وہ ان کے بارے کلام مقدس کی گواہیوں کی جانچ کرنے سے انکار کرتے ہیں- وہ اپنی تعداد، دولت اور ہردلعزیزی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ انکو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو سچائی کی وکالت کرتے ہیں- کیونکہ وہ تعداد کے لحاظ سے ان سے کم ہیں، غریب اور غیر پسندیدہ ہیں اور ایسا ایمان رکھنے والے ہیں جو انہیں دنیا سے علیحدہ کرتا ہے-AK 572.4

    مسیح یسوع نے پہلے سے حاکموں کے غیر واجب رویے اور اختیار کو دکھ لیا تھا جسے فقیہوں اور فریسیوں نے جائز قرار دیا تھا اور یہ یہودیوں کی پراگندگی سے بھی ختم ہونے والا نہ تھا- اس نے نبوتی آنکھ سے دیکھ لیا تھا کہ ضمیر کی آزادی پر کنٹرول کرنے کے لئے انسانی اتھارٹی کو سرفراز کیا جیے گا، جو ہر زمانہ میں کلیسیا کے لئے بڑی لعنت رہی ہے- فقیہوں اور فریسیوں کے متعلق اس کے خدشات، اور اسکی لوگوں کو یہ آگاہی کہ ان اندھے لیڈروں کی پیروی نہ کرنا، مستقبل کی نسل کی ہدایت کے لیے ریکارڈ کئے گئے تھے-AK 573.1

    رومی کلیسیا کلرجی (پادری) کو کلام مقدس کی تفسیر کرنے کا حق دیتی ہے- وہ کہتے ہیں کہ صرف پاسبان ہی خدا کے کلام کی تشریح کرنے کے قابل ہیں- عوام سے یہ حق چھین لیا گیا ہے- گو ریفریمشن نے سب کو خدا کا کلام دے دیا- مگر روم نے خود ہی یہ اصول بنا رکھا تھا کہ پروٹسٹنٹ کلیسیاؤں میں عوام کلام مقدس کی تحقیق اور تفتیش نہیں کر سکتے- انہیں سکھایا گیا کہ وہ کلام مقدس کی تعلیم اور تفسیر اسی طرح مانیں جیسے رومی کلیسیا بتائے ہیں- ہزاروں تھے جو کلام مقدس کی سادہ تعلیم کو بھی نہ حاصل کر سکے اس لیے یہ اصول ان کی اپنی کلیسیا کی تعلیم اور عقیدے کے خلاف گواہی تھا-AK 573.2

    یہ جانتے ہوۓ بھی کہ کتاب مقدس جھوٹے ٹیچرز کے خلاف آگاہی سے بھری پڑی ہے اس کے باوجود بہتیرے اپنی روحوں کو پادری صاحب کے حوالے کرتے ہیں- آج میں ہزاروں ایسے لوگ موجود ہیں جو مذہب کا اقرار تو کرتے ہیں مگر وہ اپنے ایمان کی کوئی وجہ نہیں بتا سکتے- سوا اس کے کہیہ ہدایات ان کے مذہبی رہنماؤں نے دے رکھی ہیں جبکہ نجات دہندہ کی تعلیم کو بالکل نظرانداز کر جاتے-وہ اپنے منسٹرز کی تعلیم پر مکمل اعتماد کرتے ہیں- کیا منسٹرز لاخطا ہیں؟ ہم اپنی روحوں کے لئے کیونکر رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں جب تک کہ ہمیں خداوند کے پاک کلام سے یہ پتہ نہ چلے کہ یہ منسٹرز مشعل بردار ہیں؟ اخلاقی جرات کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگ اس ٹریک (Track) سے ہٹنے سے گریز کرتے ہیں جو دنیا نے بنا رکھا ہے اور وہ راستہ انہی علماء کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے اور چونکہ وہ خود کلام مقدس میں سے تحقیق نہیں کرتے اسلئے وہ مایوسی کی غلط زنجیر میں جکڑے رہتے ہیں- وہ تو یہ دیکھتے ہیں کہ موجودہ سچائی بڑی صفائی سے کتاب مقدس میں دکھائی گئی ہے اور وہ روح القدس کی قوت بھی محسوس کرتے ہیں جو انہیں اس کی منادی کی طرف مائل کرتا ہے- اس کے باوجود پاسبانوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ اس روشنی سے منہ موڑ لیتے ہیں گو عقل وشعور قائل ہو گئے تھے مگر یہ فریب خوردہ روحیں منسٹر کی سوچ سے اختلاف کرنے کی جرات نہیں کرتیں- یوں انکی اپنی بصیرت، ابدی دلچسپیاں کسی دوسرے کی بے ایمانی، گھمنڈ اور تعصب کی نظر ہو جاتی ہیں-AK 573.3

    اور بہت سے طریقے ہیں جن کے ذریعہ شیطان انسانی اثر ورسوخ استعمال کرتا ہے تاکہ اپنے ہیں-بلکہ دعا اور خدا پر اعتماد کر کے مخلص تمنا کے ساتھ خدا کی مرضی کو جاننا چاہیے- ہمیں خداوند خدا سے علم حاصل کرنے کے لئے سیکھنے والی فروتن روح کے ساتھ آنا چاہیے- ورنہ بدکار فرشتے ہمارے اذہان کو اس قدر اندھا اور دلوں کو اس قدر سخت کر دیں گے کہ ہم صداقت سے اسکا اثر قبول نہ کر پائیں گے-AK 576.1

    الہامی نوشتوں کے بہتیرے حصے جنھیں علما پرسرار کہتے ہیں یا انہیں غیر ضروری سمجھ ر چھوڑ دیتے ہیں مگر دوسری طرف وہ لوگ وہ بڑے سکون بخش اور اسکے لئے ہدایت سے بھرپور ہوتے ہیں جس نے مسیح ییسوع کے سکول میں تعلیم پائی ہو- کیوں بہت سے علم الہیات کے ماہرین کو خدا کے کلام کی واضح سمجھ نہیں ہوتی، اسکی ایک خاص وجہ یہ ہے کیونکہ وہ ان سچائیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں جن کو وہ اپنانا نہیں چاہتے- خداوند کے پاک کلام کی سوجھ بوجھ کا انحصار زیادہ تر علم اور دنیوی حکمت پر نہیں بلکہ راستبازی کی تلاش پر ہوتا ہے-AK 576.2

    دعا کے بغیر کتب مقدس کا مطالبہ ہرگز نہ کریں- صرف روح القدس ہی ان چیزوں کی ضرورت محسوس کرائے گا جو اہم ہیں اور ان چیزوں کو ترک کرنے کی ترغیب دے گا جو سمجھنے میں مشکل ہیں اور توڑ موڑ کر انکا مطلب نکالا گیا ہو- یہ پاک فرشتوں کا کام ہے کہ خدا کا کلام سمجھنے کیلئے دل کو تیار کریں تاکہ ہم اسکی خوبصورتی سے مسرور ہو جائیں، اسکی آگاہی سے نصیحت حاصل کریں، اور اسکے وادوں سے ہمت اور زندگی پائیں- ہمیں زبور نویس کی التجا کو اپنی التجا بنا لینا چاہیے- “میری آنکھیں کھول دے تاکہ میں تیری شریعت کے عجائب دکھوں” زبور 18:119 دعا اور بائبل کے مطالعے سے غافل ہونے سے آزمائش پر غلبہ پانا ناممکن دکھائی دیتا ہے- آزمائش میں پڑا ہوا شخص فوری طور پر خدا کے وادوں کو یاد نہیں کر سکتا اور ابلیس کا مقابلہ خدا کے کلام کے ہتھیار سے نہیں کر سکتا مگر خداوند کے پاک فرشتے ان کے چوگرد رہتے ہیں جو الہی چیزوں کے بارے سیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں اور سخت ضرورت کے وقت وہ سچائیاں ان کے اذہان میں ڈالتے ہیں وہ ان سچائیوں کو یاد دلائیں گے جن کی اس وقت ضرورت ہو گی- “جب دشمن سیلاب کی طرح آئے گا تو خداوند کا روح اپنے دشمنوں کو سزا دے گا” مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں سے وعدۂ کیا “لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلاۓ گا” یوحنا -26:14 مگر پہلے مسیح یسوع کی تعلیم کو ذہن میں جمع کرنا لازم ہے تاکہ مصیبت کے وقت خداوند کا روح ہمیں یاد دلائے- داؤد نبی فرماتا ہے “میں نے تیرے کلام کو دل میں رخ لیا ہے تاکہ میں تیرے خلاف گناہ نہ کروں” زبور -11:119AK 576.3

    وہ سب جو اپنی ابدی دلچسپیوں کی قدر کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ بے ایمانی کی راہ پر نہ چلیں سچائی کے ستون گرا دیئے جائیں گے اور پھر جدید زمانے کی بے دینی، طنز، مضرت رساں تعلیم، عیاری اور دلیل باطل سے بچنا ناممکن ہو جائے گا- ابلیس تمام طبقات کے لئے آزمائش تیار کرتا ہے- وہ بے علم لوگوں کو ٹھٹھوں میں بہا لے جاتا ہے جب کہ پڑھے لکھے لوگوں کو سائینٹفک اعتراض فلاسفِکل دلائل سے- وہ پاک نوشتوں میں بے اعتمادی پیدا کر کے ان کے خلاف ان کی نفرت کو بھڑکاتا ہے- حتی کہ نوجوان جن کا کم تجربہ ہے وہ ان کے دل میں مسیحیت کے بنیادی اصولوں کے خلاف بداعتمادی پیدا کر دیتا ہے- نوجوانوں کی یہ بے دینی خواہ کتنی کچھ ہی کم کیوں نہ ہو اثر رکھتی ہے- یوں بہتیرے اپنے جدامجد کے ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں اور فضل کی روح کی حقارت کرتے ہیں عبرانیوں -29:10 بہتیرے جنہوں نے خداوند کو عظمت اور دنیا کو برکت دینے کا وعدہ کیا تھا وہ بے دینی کی آلودہ سانس سے مرجھا گئے ہیں- وہ سب لوگ جو انسانی شعور کے گھمنڈی فیصلوں اور قیاس کے زیراثر کہتے تھے کہ ہم الہی بھیدوں کی وضاحت کریں گے وہ خدا کی حکمت کے بغیر سچائیوں تک پہنچے وہ ابلیس کے پھندے میں پھنس گئے-AK 577.1

    ہم دنیا کی تاریخ کے نہایت ہی سنجیدہ حصے میں رہ رہے ہیں- اس دھرتی کے عوام کی قسمت کا جلد فیصلہ ہونے کو ہے- ہمارے اپنے مستقبل کی فلاح وبہبود، اور دوسری روحوں کی نجات کا انحصار اس راہ پر ہو گا جو ہم اختیار کریں گے- ہمیں سچائی کی روح کی رہبری کی ضرورت ہے- مسیح یسوع کے ہر ایک پیروکار کو خلوص نیتی سے یہ تقاضا کرنا چاہیے-AK 577.2

    “اے خداوند تو کیا چاہتا ہے کہ میں کروں؟“ہمیں روزہ اور دعا کے ساتھ، اور اس کے کلام پر غور خوض کرنے سے اور خصوصاً عدالت کے منظر پر غوروخوض کرنے سے خود کو خدا کے سامنے خاکسار بنانے کی ضرورت ہے- ہمیں ابھی خدا کی گہری اور خدا کی چیزوں میں زندہ تجربہ رکھنے کی ضرورت ہے- ہمارے پاس ایک بھی لمحہ ضائعکرنے کو نہیں- بڑی اہمیت کے حامل واقعات ہمارے اردگرد وقوع پذیر ہو رہے ہیں- ہم ابلیس کی دلفریب زمین پر ہیں- اے خدا کے پاسبان! سو نہ جانا- دشمن آپ کے اردگرد کہیں گھات لگائے جاتا ہے اور کسی بھی لمحہ حملہ کر سکتا ہے- اگر آپ کاہل اور اونگھنے لگے تو وہ جھپٹ کر آپکو شکار کر لے گا-AK 577.3

    بہتیرے جو دھوکہ کھا گئے ہیں خداوند انکی حقیقی حالت سے واقف ہے وہ ان برے کاموں کے لئے جو ان سے سرزد نہیں ہوۓ خود کو مبارک کہتے ہیں اور انہوں نے انکی نیکی اور بھلائی کے کاموں کو نظرانداز کر دیا ہے جنکا خداوند نے ان سے مطالبہ کیا تھا- یہ کافی نہیں کہ وہ خدا کے باغ میں ایک درخت ہیں- انہیں پھل لا کر اس کے مطالبات کا جواب دینا ہو گا- وہ انہیں ان تمام بھلائی کے کاموں میں ناکام ہونے پر ذمہ دار ٹھہرائے گا جنہیں وہ اس کے فضل کی قوت سے انجام دے سکتے تھے- آسمان کی کتاب میں انکا نام غیر ضروری زمین کے روکنے والے کی طرح رجسٹر ہو گا- پھر بھی ایسی جماعت کا کیس مکمل طور پر مایوس کن نہیں ہے- خداوند کا دل ان کے ساتھ ابھی تک التماس کرتا ہے جنہوں نے اس کے رحم، اور فضل اور تحمل کی تحقیر کی ہے- اس لئے وہ فرماتا ہے “اے سونے والے جاگ اور مردوں میں سے جی اٹھ تو مسیح کا نور تجھ پر چمکے گا پس غور سے دیکھو کہ کس طرح چلتے ہو اور وقت کو غنیمت جانو کیونکہ دن برے ہیں” افسیوں -16-14:5AK 578.1

    جب آزمائش کا وقت آئے گا تو وہ جنہوں نے خداوند کے پاک کلام کو اپنی زندگی کا مدعا بنا رکھا ہے ظاہر ہونگے- موسم گرما میں صد بہار درخت اور دوسرے درختوں میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا- لیکن جب شدید سردی پڑتی ہے تو سدا بہار درخت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی جبکہ دوسرے درختوں کے تمام پتے جھڑ جاتے ہیں- اسی طرح اب برائے نام مسیحیوں اور حقیقی مسیحیوں میں کچھ فرق معلوم نہیں ہوتا مگر وہ وقت آنے والا ہے جب دونوں میں نمایاں امتیاز ظاہر ہو جائے گا- ابھی مخالفت کو جنم لینے دیں- تعصب اور دوبارہ تنگ نظری کو ابھرنے دیں، ایذا رسانی کو آگ بھڑکنے دیں، تو آدھ دلا کفر بکنے والا لڑکھڑا جائے گا جبکہ حقیقی مسیح چٹان کی طرح ثابت قدم رہے گا- کیونکہ اقبال مندی کے دنوں کی نسبت اب اسکا ایمان بہت قوی ہے اور اسکی امید تابناک ہے- زبور نویس فرماتا ہے “میں اپنے سب استادوں سے عقلمند ہوں- کیونکہ تیری شہادتوں پر میرا دھیان رہتا ہے- تیرے قوانین سے مجھے فہم حاصل ہوتا ہے- اسلئے مجھے ہر جھوٹی راہ سے نفرت ہے” زبور -104-99:119 “مبارک ہے وہ آدمی جو حکمت کو پاتا ہے اور وہ جو فہم حاصل کرتا ہے” امثال -13:3AK 578.2

    “کیونکہ وہ اس درخت کی مانند ہو گا جو پانی کے پاس لگایا جائے اور اپنی جڑ دریا کی طرف پھیلائے اور جب گرمی آئے تو اسے کچھ خطرہ نہ ہو بلکہ اس کے پتے ہرے رہیں اور خشک سالی کا اسے کچھ خوف نہ ہو اور پھل لانے سے باز نہ رہے” یرمیاہ -8:17AK 578.3

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents