Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
عظیم کشمکش - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    بارہواں باب - فرانسسی ریفریمیشن

    سپائرز میں احتجاج ،اور آگس برگ میں اعتراف جس نے جرمنی میں ریفریمیشن کو یقینی بنا دیا۔ اس کے بعد سالوں تک شورش اور تاریکی کا دور دورہ رہا۔ اس کے حامیوں میں تفرقے نے اسے کمزور کر دیا۔ اور طاقتور دشمنوں کے حملوں نے ان کی ناک میں دم کر دیا۔ ایسے معلوم ہوتا تھاکہ پروٹسنٹنٹ زم مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ ہزاروں نے اپنے خون سے اپنی گواہی پر مہر شبت کی۔ خانہ جنگی شروع ہو گءی۔ پیروکاروں میں سے ایک نامی گرامی پیروکار کے سبب پروٹسٹنٹ کے مقصد کو دھچکا لگا۔ شہزادوں میں سے ایک نہایت ہی دیانتدار شہزادہ فرمانروا کے ہتھے چڑھ گیا۔ اور وہ اُسے شہر بہ شہر ایک غلام کی طرح گھیسٹ کر لے گیا۔ مگر جب فرمانبردا کو فتح نظر آنے لگی اُسی وقت وہ بُری طرح شکست سے دو چار ہوا۔ اُس نے دیکھا کہ شکار اُس کے ہا تھ سے نکل گیا۔ اُسے آخر کار مجبوراًجس تعلیم کو برباد کرنے کی خواہیش رکھتا تھااُس کے خلاف تشدد کا ہا تھ روک لیا۔ بدعت کے خاتمہ کے لیے اُس نے اپنی بادشاہت اپنے خزانوں اور اپنی زندگی کو جوکھوں میں ڈال دیا۔ اب اُس نے دیکھا کہ جنگ میں اُس کی فوج برباد ہو گءی۔ اُس کے خزانے معددم ہو گءے۔ اُس کی سلطنت میں ہر جگہ بغاوت کے بادل منڈلانے لگے۔ جب کہ ہر جگہ ریفریمیشن جسے اُس نے خواہ مخواہ تہس نہس کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا بڑھنے پھوٹنے لگی۔ چارلس پنچم قادر مطلق خُداوند کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔ خُداوند نے کہہ دیا تھا“روشنی ہومگر فرمانروانے تاریکی کو قاءم رکھنے کے لیے سر توڑ کوشش کی۔ وہ اپنے مقاصد میں بُری طرح ناکام ہو گیا۔ اور بڑھاپے سے قبل ہی طویل جدوجہد کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ وہ تخت سے دستبردار ہو گیا اور خود کو ایک حجرے میں دفن کر لیا۔ AK 206.1

    جرمنی کی طرح سوءزرلینڈ میں بھی ریفریمیشن کے لیے تاریک دن آءے۔ جہاں بہت سے فرقوں میں اور گروہوں نے اصلاح شدہ ایمان کو قبول کرایا، وہاں کچھ ایسی بھی جماعتیں تھیں جو روم کے عقیدے سے چمٹی رہیں۔اُن کو ایزارسانی کا سامنا کرنا پڑا جو صداقت کو ماننے لگے اور اس سے خانہ جنگی شروع ہو گءی۔ زونگلی اور بہت سے دوسرے جہنوں نے اصلاح کے لیے اُس کا ساتھ دیا کیپل(Cappel) کے خونی میدان میں کام آءے۔ روم فتح مند ہوا اور کءی جگہوں پر اُ س نے جو کھویا تھا پا لیا۔ مگر وہ جس کی شورت ابدی ہے اُس نے اپنے مقصد (Cause) کو ترک نہیں کیا تھا اور اُس نے دوسرے ملکوں میں اصلاح کو آگے بڑھانے کے لیے کارگزار پید کر لیے۔ AK 206.2

    اس سے پیشتر کہ فرانس میں کسی نے لوتھرکا نام بطور اصلاح کار کے سنا وہاں پہلے ہی سے اصلاح شروع ہو گءی تھی۔ جس نے سب سے روشنی پاءی وہ عمر رسیدہ لفیور(Leffver) تھا جو بہت پڑھا لکھا شخض تھا۔ اور پیرس کی یونیورسٹی میں پروفیسر تھا۔ وہ پوپ کا بڑا مخلص اور جانثار حامی تھا۔ قدیم لٹریچر کی تحقیق کرتے ہوءے اُس کی نظر باءبل کی طرف پڑی۔ اور اُس نے اُس کا مطالعہ اپنے عالب علموں کے درمیان متعارف کروایا۔ AK 207.1

    لفیور، سینٹس کی پرستش کا بڑا حامی تھا۔ اور اُس نے مقدسین اور شہید وں کی ہسٹر ی مرتب کرنے کی ذمہ داری لے رکھی تھی اور یہ تاریخ اُن بزرگان دین کے قصے تھے جو کلیسیا کو سناءے گءے تھے۔ یہ بہت ہی محنت طلب کام تھا۔ مگر اس نے اس بارے پیشتر ہی کافی کام کر لیا تھا۔ لیکن جب اُس نے کتاب مقدس میں سے کوءی مفید مد د لینے کا سوچا تو اُس نے اس مقصد کے تحت اس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ یہاں بہت سے مقدسین سامنے آگءے مگر وہ ایسے نہیں تھے جو رومی کیلنڈر میں تھے۔ اُس کے ذہہن پر الہی روشنی کا سیلاب امڈ آیا۔ بڑی حرانگی کی بات ہے کہ اُس نے سپرد کردہ کام سے علیحدگی اختیار کر لی اور خود کو خُدا کے کلام کے لیے وقف کر دیا۔ وہ پیش قیمت سچاءیاں جو اُس نے دریافت کیں اُن کی تعلیم دینے لگا۔ AK 207.2

    1512میں ، جب لوتھر یا زونگلی نے اصلاح کا کام شروع کر رکھا تھا تو لفیور نے لکھا” یہ خُداوند خُدا ہی ہے جو ہمیں ایمان کے ذریعہ اپنے فضل سے راستبازی اور ابدی زندگی عطاکرتا ہے“۔ Wylie, B.13, ch.1AK 207.3

    مخلصی کے بھید کے بارے اُس نے فرمایا یہ ایسا تبادلہ ہے جو بیان سے باہر ہے۔ جو بے گناہ تھا وہ ملعون ٹھہرا اور جو قصور وار تھا و ہ آزاد ہو گیا۔ برکات کے حامل کو لعنت، جبکہ لعنتی کو برکات کے پاس لایا جاتا ہے۔ زندگی مرتی ہے۔ اور مردہ زندہ ہو تا ہے۔ جلال ، ظلمت میں چھپ جاتا ہے اور جو پرا گندگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا وہ جلال سے ملبس ہو تا ہے۔ D'aubigne,london.ed B.12, ch.2AK 207.4

    اور یہ سکھاتے ہو ءے کہ نجات صرف خُداوند کی طرف سے ہے، تو اُس نے یہ بھی سیکھا کہ تابعداری انسان کا فرض کلی ہے۔ اُس نے کہاکہ“اگر آپ مسیح کی کلیسیا کے ممبرہیں، تو آپ اُس کے بدن کا حصہ ہیں۔ اگر آپ اُس کا بدن ہیں تو آپ کو الہی سیرت سے بھرپور ہونا چاہیے۔ اگر نبی نوع انسان اس حق اور شرف کو حاصل کر لیں اور اس میں داخل ہو کراسے سمجھ لیں تو وہ اپنی زندگیوں کو بہت زیادہ شفاف ، مقدس اور پاک بسر کریں گے اور اُس جلال کو جو اُن کے اندر ہے اُس کا مقابلہ اُس جلال سے کیسے کریں گے جو جسمانی آنکھ دیکھ نہیں سکتی اور جس کے سامنے ساری دُنیا کا جلال بے معنی ہے؟ Ibid, b.12, ch.2AK 207.5

    لفیور کے طالب علموں کے درمیان کچھ ایسے بھی تھے جہنوں نے بڑے شوق اور دھیان سے اُس کی باتوں کو سُنا۔ اور اُن کی خواہش تھی کہ اگر کبھی اُستاد کی آواز بند کر دی گءی تو اُس نے جس سچاءی کا ذکر کیا ہے ہم آس کی منادی کریں گے۔ آن میں سے ایک ولیم فیرل تھا۔ اُس کے والدین متقی ، پرہیز گار اور پڑھے لکھے تھے۔ وہ کلیسیا کی تعلیم کو کلی طور پر مانتے تھے۔ وہ پولیس رسول کے ساتھ ملکر یہ کہہ سکتا تھا“میں فریسی ہو کر اپنے دین کے سب سے زیادہ پابند مذہبی فرقہ کی طرھ زندگی گزارتا تھا“اعمال وہ ایک جانثار پوپ پرست تھا اور اُس میں اتنا جوش و جذبہ تھا کہ وہ اُ ن سب کو تبا ہ کرنے کا ارادہ رکھتا جو کلیسیا کی تعلیم کے خلاف لب کشاءی کرتے۔ اُس نے اپنی سابقہ زندگی کے بارے بتایا کہ جب میں سُنتا کہ کسی نے پوپ کے خلاف کچھ کہا ہے “تومیں اُن پر غضبناک بھیڑءے کی طرح دانت پیستا۔ Wylie, B.13, ch.2AK 208.1

    وہ سیٹس کی انتھک پرستش کر تا۔ وہ لفیور کے ساتھ ملکر پیرس کے چرچز کا چکر لگا تا مذبحوں پر عبادت کرتا اور مندروں میں عبادت کرنے کے علاوہ ہدیہ جات دیتا۔ مگر ان سب کی پوجا کرنے سے روع کو سکون نصیب نہ ہوا۔ گناہ کی قاءیلیت نے اُسے جکڑ رکھا تھا۔ گناہ کے کفارے کی جتنی مشقتیں اور گوشہ نشینیاں تھیں وہ اُسے مخلصی نہ دلاسکیں۔ پھر اُس نے اصلاح کار کی آواز سنی جو حقیقت میں آسمان کی طرف سے آواز تھی۔ “نجات فضل سے ہے “معصوم ملعون ٹھہر ا اور مجرم آزاد ہو گیا“یہ تو صرف مسیح یسوع کی صلیب ہے جو آسمانی دروازے کھولتی ہے اور جہنم کے دروازوں کو بند کرتی ہے“۔ Ibid, b.13, ch.2AK 208.2

    فیرل نے بڑی خوشی سے سچاءی قبول کر لی۔ تبدیل ہو نے کے بعد وہ پولس رسول کی طرح غلامی کی روایات سے منہ موڑ کر خُدا کے بیٹوں کی آزادی میں آگیا۔ “خون خوار بھیڑیے کا دل رکھنے والا واپس آگیا اور پُرامن اور بے ضرر برہ بن گیا۔ پوپ سے کلی طور پر اپنا دل واپس لیکر مسیح یسوع کے تابع کر دیا“۔ D'aubigne,london.ed b.12, ch.3AK 208.3

    لفیور اپنے طالب علموں کے درمیان مسلسل روشنی پھیلا رہا تھا۔ فیرل جیسے و ہ پوپ کے لیے جو فیلا اور سرگرم تھا اُسی طرح مسیح کے لیے بھی سرگرم ہو گیا۔ وہ ہر جگہ پبلک میں منادی کرنے لگا۔ کلیسیا کے نفززین اور میاکس کا بشپ بھی جلد ان میں آملا۔ دوسر ے قابل اساتذہ جو اعلے عہدوں پر فاءز تھے وہ بھی انجیل کی منادی کرنے میں شامل ہو گءے۔ اس نے تمام طبقوں کے ایمانداروں کو جیت لیا۔ غینمت کار،کسان اور شاہی محلوں تک لوگ اس تحریک میں شامل ہوتے گءے۔ فرانس اول کی بہن جو اُس وقت کی فرمانروا تھی اُس نے بھی اصلاح شدہ ایمان کو قبول کر لیا۔ خود بادشاہ اور ملکہ کی ماں بھی اس کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوءے۔ اور بڑی اُمیدوں کے ساتھ اصلاح کاروں نے مستقبل کی طرف دیکھا جب سارا فرانس انجیل کے لی جیت لیا جاءے گا۔ AK 209.1

    مگراُن کی اُمیدوں کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ آزمائش اور ایذارسانیاں مسیح یسوع کے شاگردوں کی منتظر تھیں تاہم یہ اُن کی آنکھوں پر ایک رحم دل پردہ تھا۔ سلامتی کے وقت نے مداخلت کی تاکہ وہ طوفانی ہواوں کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت حاصل کر پائیں اور ریفریمیشن جلد ترقی کر سکے۔ میاکس پشپ نے اپنے حلقے میں بڑی سرگرمی سے کام کیا اور اپنے منسٹرز اور جماعت کو بھرپور تعلیم اور ہدایات دیں۔ جاءل اور بد اخلاق پریسٹس کو فارغ کرکے اُن کی جگہ پڑھے لکھے اور دیانتدار حضرات کو تعینات کر دیا گیا۔ پشپ کی بدل و جان یہ خواہیش تھی کہ اُس کے لوگ خود کلام مقدس کو پڑھیں اور یہ مقصد بہت جلد حاصل کر لیا گیا۔ لفیور نے نے عہدنامے کے ترجمہ کی ذمہ داری لے لی۔ اور اُسی دوران جب لوتھرکی جرمنی بایبل وٹن برگ پریس سے شائع ہو رہی تھی ،میاکس میں فرانسسی زبان میں عہد جدید کی اشاعت ہو رہی تھی۔ بشپ جلد میاکس کے کسانوں تک ان مقدس نوشتوں کو پہنچا دیا۔ AK 209.2

    جیسے پیاسے بدحال مسافر پانی کے سوتوں کے لیے ترستے ہیں اور جب مل جائے تو باغ باغ ہو جاتے ہیں اُسی طرح اُن پیاسی روحوں نے آسمانی پیخام کو خوشی خوشی قبول کر لیا۔ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور، فنکار، صنعت کار، اپنے کام کاج کے دوران بائبل کی ان پیش قیمت سچائیوں کے بارے گفتگو کیا کرتے تھے۔ شام کے وقت شراب خانوں میں جانے کی بجائے وہ خُدا کا کلام پڑھنے کے لیے ایک دوسرے کے گھر میں جمع ہوتے۔ اور ملکر دُعا اور خُدا کی حمد و ستائش کرتے، ان معاشروں میں بہت جلد تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ گو وہ غریب طبقہ کے ان پڑھ اور محنت مشقت کش کسان پیشہ لوگ تھے اس کے باوجود اُن کی زندگیوں میں ریفریمیشن کو سر بلند کرنے والی الہی فضل کی قوت دیکھی گئی۔ اُن کے فروتن ، محبت بھرے اور پاک دل اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ انجیل کو دیانتداری سے قبول کیا جائے تو وہ کیا کچھ نہیں کر سکتی۔ AK 209.3

    جو روشنی میاکس میں چمکی اُس کی شعاعیں دور دور تک پہنچ گئیں۔ ہر روز تبدیل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو تا گیا۔ مذہبی حکومت کا غصہ کچھ دیر کے لیے بادشاہ کی وجہ سے رکا رہا جو مانکس کی تنگ نظری سے نفرت کرتا تھا۔ تاہم آخر میں پوپ کی قیادت غالب آگئی۔ صلیبیں تیار کر لی گءیں۔بشپ آف میاکس کو دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ ریفریمیشن یا ریفریمیشن سے انکار۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ چروائے (لیڈر) کے گرنے کے باوجود، اُسکا گلہ ثابت قدم رہتا ہے۔ بہترے ایسے نکلے جہنوں نے آگ میں جلتے ہوئے بھی سچائی کی گواہی دی۔ خطرے کے دوران بھی ان حلیم مسیحیوں نے بڑی ہمت اور جرات کے ساتھ اُن ہزاروں لوگوں کے سامنے گواہی ہیش کی جہنوں نے امن کے زمانہ میں اُن کی گواہی نہیں سنی تھی۔ AK 210.1

    نہ صرف فروتن ، غریب اور نفرت سے دیکھے جانے والے لوگ ہی مسیح یسوع کی دلیری سے گواہی دے رہے تھے۔ بلکہ ان میں محلوں اور بڑے بڑے دیوان خانوں کے نامور سورما بھی شامل تھے۔ اسی طرح بڑے بڑے رییس اور حاکم بھی شامل تھے۔ جو صداقت کو اپنے عہدوں ، دھن دولت بلکہ اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ شاہی دربار میں بڑے بڑے رینک (Rank)کے مالک اپنے باطن میں سچائی کے لیے بشپوں س کہیں زیادہ مستحکم اور بالاتر روح رکھتے تھے۔ اُن ہی میں سے ایک لوئس ڈی برکوئن (Louis de Berquin)جو ایک شریف گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ نہایت ہی بہادر اور درباری سورما تھا۔ اُس نے خود کو مطالعہ کے لیے وقف کررکھا تھا۔ اُس کے طورواطور بڑے نفیس تھے۔ اور اخلاقی لحاظ سے بے داغ تھا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ وہ پوپی حکومت کے وضع کردہ ریاستی قوانین کا بہت بڑا پیروکار تھا۔ اسی لکن سے وہ ماسس(Masses) اور سرمنز()sermons کو سننے والا تھا۔ اور اُسے لوتھرن سے خاص حقارت رکھنے کی وجہ سے بڑی شہرت ملی تھی۔ لیکن کئی دوسرے لوگوں کی طرح خُداوند خُدا نے اُسے بابئل تک پہنچایا اور وہ اُس میں روم کی تعلیم نہیں بلکہ لوتھر کی تعلیم پا کر بڑا حیران ہوا۔ Wylie, B.13, ch.9AK 210.2

    پھر اُس نے اُسی وقت سے خود کو کلی طور پر انجیل کی بزرگی کے لیے وقف کر دیا۔“فرانس کے شرفا میں سے سب سے زیادہ پڑھا لکھا۔ اُس کی خُداداد قابلیت اور فن تقریر ، غیر مخلوب بہادری اور ہیرو کا سا جوش و جذبہ و دربار میں اُس کا اثرورسوخ۔ ان خوبیوں نے اُسے بادشاہ کی نظر میں عزیز تر کر دیا۔ اور پیزے سمجھتے تھے کہ یہ اپنے ملک کا اصلاح کار ہو گا“۔بیزا(Beza) نے کہا“اگر بروئین ، فرانس اول کے زمانہ میں ہوتا جو دوسرا ایلکٹور تھا تو یہ دوسرا لوتھر ہوتا“۔ جب کہ پوپ کے حامیوں کی رائے میں وہ لوتھر سے بھی بدترین تھا۔ Wylie, B.13, ch.9AK 211.1

    فرانس کے پوپ پرستوں کے لیے وہ بیشک خوفناک تھا اُنہوں نے اُسے ایک بدعتی کے طور پر جیل میں ڈال دیا مگر بادشاہ نے اُسے آزاد کر دیا۔ سالوں تک جدوجہد جاری رہی۔ فرانس، روم اور ریفریمیشن کے درمیان ڈگمگا رہا تھا۔ برکوءین کو تین بار پوپ کے ارباب اختیار نے جیل میں ڈالا اور بادشاہ نے اُسے رہا ئی دی یہ سمجھتے ہو ئے کہ اُس میں خُدا داد قابلیت اور شرافت ہے بادشاہ نہیں جانتا تھا کہ وہ فرمانروا کے تعصب کی بھینٹ جڑھ جائے۔ AK 211.2

    برکوئین کو بار بار اُن خطرات سے آگاہ کیا گیا جو اُس کے لیے فرانس میں موجود تھے۔ اور اُسے ترغیب دی گئی کہ وہ بھی اپنی حفاظت کے لیے اُن لوگوں کی پیروی کرے جہنوں نے رضا کارانہ طور پر جلاوطنی اختیار کر لی تھی۔ بزدل اور ابن الوقت اراسمس(Erasmus) جس کے پاس اعلے پایہ کا علم تھامگر وہ اخلاقی دیوالیہ ہو گیا جو زندگی اور عزت و آبرو اور سچائی کے لیے عظیم معاون ہے۔ برکوئین نے لکھا کہ اُسے کسی دوسرے ملک میں سفیر کے طور پر جانے کے لیے کہا گیا۔ اور یہ کہ جرمنی میں جا کر سیرو ساحت کرو۔ کیا تم نے بیڈا(Beda) دیکھا ہے وہ سوسروں والا اژدہا جو ہر طرف زہر اُگلتا ہے۔ تمہارے دشمنوں کا نام شکر ہے ۔ کیا تمہارے مسیح یسوع کے مقصد سے بہتر ہے۔ وہ تجھے جب تک بُری طرح تباہ نہ کر لیں چھورنے کا نام نہیں لیں گے۔ بادشاہ کی پناہ پر بہت زیادہ بھروسہ مت کرو“۔ مگر اُس کا ہر موقعہ پر یہی جواب ہوتا تھا“مجھے پریسٹس کی فیکٹی کے ساتھ مت ملائیں“۔ Wylie, B.13, ch.9AK 211.3

    لیکن جب خطرات بہت زیادہ بڑھ گئے ، تو برکوءین کا جوش و خروش اُن سے بھی زیادہ بڑھ گیا۔ فرانس کا مشورہ سننے سیاسی رنگ اختیار کرنے اور اپنی ہی بھلائی کے بارے سوچنے کی بجائے اُس نے اس سے بھی کہیں زیادہ دلیرانہ اقدام اُٹھانے کا یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ نہ صرف سچائی کا دفاع کرے گا بلکہ غلط تعلیمات پر بھرپور حملہ کریکا۔ بدعتی ہونے کا الزام جو پوپ کے حامی اُس پر عائد کرنے کے خواہاں تھے وہی الزام اُس نے اُن کے سر پر تھوپ دیا۔ اُس کے مخالفین میں تعلیم یافتہ ڈاکٹرز ، اور پیرس کی اعلے یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل علم الہیات کے منسٹرز ، اور کلیسیا کے اعلے عہدداران ، شامل تھے جو نہایت ہی سرگرم اور مہلک دشمن تھے اُن ڈاکٹرز کی تحریرات سے برکوئین نے بارہ نقاط لیے جو اُس نے اعلانیہ کہا کہ یہ “بائبل کی تعلیم کے منافی ہیںاور مسیحی عقائد کی نفی کرتے ہیں اور اُس نے بادشاہ سے اپیل کی کہ وہ بطور جج اس متنازعہ تعلیم کے خلاف کاروائی کرے۔ AK 211.4

    فرمانروا نے مخالف چمییئن کی فراست اور نمایاں فرق بتانے کے لیے ہچکچاءٹ کا مظاہرہ نہ کیا۔ بلکہ وہ اس موقع سے خوش تھا کہ اس کے ذریعہ اُسے اُن مفرور راہبوں کے غرور کو نیچا دکھانے کا موقع ہاتھ لگا تھا۔ اس لیے اُس نے پوپ کے حواریوں کو کہا کہ بائبل کی رُو سے ان الزامات کا جواب دیں ۔ اور اپنے مقصد کا دفاع کر یں۔ مگر اُن کو اچھی طرح علم تھا کہ یہ ہتھیار بائبل اُن کی کچھ زیادہ مدد نہ کر سکے گا جیل ، تشدد ہی اُن کے ہتھیار تھے جن کو وہ اچھی طرح استعمال کرنا جانتے تھے۔ مگر اب تو پانسا پلٹ چکا تھا اور اُنہوں نے دیکھا کہ جو گڑھا اُنہوں نے برکائین کے لیے کھودا تھا اُس میں خود گرنے کو ہیں۔ چنانچہ پریشانی کے عالم میں اُنہوں نے راہ فرار کا سوچا۔ AK 212.1

    اُسی وقت کنواری کے بُت کو کسی نے گلی کے کنارے چکنا چور کر دیا۔ شہر میں شورش پھیل گئی۔ اُس جگہ ہزاروں ہزار لوگ اُمڈ آئے۔ اُن کے دل خفگی سے بھرے تھے اور خون کے آنسو بہارہے تھے۔ اس کا بادشاہ پر بھی گہر اثر پڑا۔ اس موقعہ کا راہبوں نے خوب فائدہ اُٹھایا اور وہ اس سے فورا ثابت کرنے پر تُل گئے کہ یہ “برکائین کی تعلیم کا اثر ہے ، سب کچھ برباد ہو نے کو ہے۔ مذہب قوانیین ، تخت بھی۔یہ سب لوتھرن کی سازش ہے“۔ Ibid, b.13, ch.9AK 212.2

    دوبارہ برکائین کو حراست میں لے لیا گیا۔ بادشاہ پیرس سے جا چکا تھا اور راہب اپنے ارادے پورے کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد تھے۔ اصلاح کار پر مقدمہ چلایا گیا اور اُسے موت کی سزا سنا دی گئی۔ اگر فرانس اُسے بچانے کے لیے مداخلت نہ کرتا تو اُسے اُسی دن سولی چڑھا دیا جاتا۔ بیشمار بھیڑوہاں جمع ہو گءی اور اُس نے بڑی حیرانگی کے ساتھ دیکھا کہ سولی چڑھانے کے لیے اُنہوں نے فرانس کے نہایت بہادر اور اعلے شریف خاندان کے سپوت کو چنا ہے۔ موجزن بھڑکے چہروں پر نفرت، حیرت اور شدید غیض وAK 212.3

    غضب دیکھا جا سکتا تھا۔ مگر ایک چہرے پر ان میں سے کسی چیز کا بھی سایہ نہ تھا۔ شہید کے خیالات اس افطراب سے کہیں دور تھے اُسے تو صر ف الہی حضوری کا شعور تھا۔ AK 212.4

    مقتل میں لے جانے والی وہ بد نصیب گاڑی جس پر وہ سوار تھا۔ اُس کی طرف دیکھنے والے ظالم چوری چڑھائے ہو ئے چہرے اور وہ ہولناک موت جس کا اُسے سامنا تھا۔ ان سب کی اُس نے بالکل کوئی پروا نہ کی۔ وہ جو مرگیا اور اب زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اُسی کے پاس موت اور علم ارواح کی کنجیاں ہیں اور وہی اُس کے پہلو میں تھا۔ برکوئین کا چہرہ آسمانی نور اور اطمینان سے دمک رہا تھا۔ اُس نے بہت نفیس لباس زیب تن کیا تھا۔ اُس نے ولوٹ کا چوغہ، ساٹن کا کُرتا ، ریشمی اور سہنری موزے پہن رکھے تھے۔ D'aubigne, History of the refermaion in Europe in the time of calvin b.2 ch.16AK 213.1

    وہ اپنے ایمان کی گواہی بادشاہوں کے بادشاہ کی حضوری میں پیش کرنے کو تھا۔ اور جو بھیڑ وہاں موجود تھی اُس سے اُس نے کہا کہ وہ آہ نالہ کر کے اُس کی خوشی میں کمی واقع نہ کریں۔ جب وہ جلوس بھری گلیوں میں سے آہستہ آہستہ گزر رہا تھا تو لوگوں نے بڑی حیرانگی سے اُس کے پُر سکوں چہرے کو دیکھا اُس پر پُرمسرت فتح دکھائی دیتی تھی۔ اُنہوں نے اُسے دیکھ کر کہا“یہ تو اُن کی طرح دکھائی دے رہا ہے جو ہیکل میں بیٹھا اور مقدس باتوں پر غور و خوض کرتا ہو“۔ Wylie, B.13, chAK 213.2

    سولی پر برکوئین نے لوگوں سے چند باتیں کرنے کی کوشش کی۔ مگر راہب اُس کے اس کلام کے نتیجہ سے خوفزدہ تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے شور برپا کر دیا۔ اور سپاہیوں نے اپنے سامان حرب کو ایک دوسرے سے ٹکرانا شروع کر دیا۔ لہذا اُن کے اس شورو غُل میں شہید کی آواز دب کر رہ گئی۔ یو ں بڑے اعلی اور مذہبی ارباب اختیار جو پیرس کے تہذیب یافتہ تھے اُنہوں نے ” 1793کی دُنیا کے سامنے مرتے ہوئے شخض کے مقد س کلام کو دہانے کا بہت ہی گھٹیا نمونہ قائم کیا“۔AK 213.3

    برکوئین کو پھانسی دی گئی۔ اُس کا بدن شعلوں میں جل کر راکھ ہو گیا۔ سارے فرانس میں اُس کی موت کی خبر ریفریمیشن کے دوستوں میں دلگیری کا باعث بنی۔ مگر اُس کا نمونہ تلف نہ ہو ا تھا۔ ” سچائی کے باقی گواہوں نے کہا ہم بھی موت کو خوشی سے گلے لگانے کے لیے تیار ہیں کیونکہ ہماری آنکھیں آنے والی زندگی پر لگی ہیں“۔ D'aubigne, History of the refermaion in Europe in the time of calvin b.2 ch.16AK 213.4

    میاکس کی ایذارسانی کے دوران اصلاح شدہ ایمان کے ٹیچرز منادی کرنے کے لائنس سے محروم کر دیے گیے۔ جس کی وجہ سے دوسری جگہوں پر چلے گیے ۔ کچھ دیر کے لیے لفیور جرمنی چلا گیا۔ اور فیرل اپنے آباءی قصبے میں، جوایسٹرن فرانس میں ہے تاکہ اپنے بچپن کے قصبے میں روشنی پھیلائے۔ یہ خبریں مل رہی تھیں کہ میاکس میں کیا ہو رہا ہے ۔ اور جو اُس نے بڑے ذوق و شوق اور بے باکی کے ساتھ صداقت کی منادی کی تھی اُسے سامعین مل گئے۔ جلد ہی وہاں کے ارباب اختیار نے اُس کی آواز بند کرنے کی کوشش کی اور اُسے شہر بدر کر دیا۔ گووہ اعلانیہ خدمت نہیں کر سکتا تھا۔ تاہم اُس نے مختلف میدانوں کا رخ کیا اور ذاتی رہاءش گاہوں دوردراز چراگاہوں میں تعلیم دینا اور جنگلوں ، پہاڑوں کی غاروں میں پناہ لینا شروع کر دی جہاں وہ بچپن میں شکار وغیرہ کے لیے آیا کرتا تھا۔ خُداوند اُسے اس سے بھی بڑی بڑی آزمائشوں کے لیے تیار کر رہا تھا اُس نے اقرار کیا۔ “صلیبیں ، ایذارسانیاں اور ابلیس کے ہتھ کنڈے ان کے بارے مجھے پہلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ وہ کم نہ تھیں۔ وہ تو بہت ہی سخت ہیں جہنیں برداشت کرنا میرے بس کا روگ نہیں، مگر خُداوند میرا باپ ہے۔ اُسی نے مہیا کیا ہے اور وہی ہمیشہ قوت مہیا کرتا رہے گا۔ جس کی مجھے ضرورت ہے“۔AK 213.5

    جیسے رسولوں کے زمانہ میں ایذارسانی” خوشخبری کی ترقی کا باعث ہوئی“فلیپیوں اُسی طرح پیرس اور میاکس سے نکالے گئے”جو پراگندہ ہو ئے تھے وہ کلام کی خوشخبری دیتے پھرے“ اعمال یو ں یہ روشنی فرانس کے بہت سے دور اُفتادو صوبوں تک بھی جا پہنچی۔ AK 214.1

    خُدا ابھی تک اپنے کام کو بڑھانے کے لیے کار گزار تیار کر رہا تھا۔ پیرس کے سکولوں میں سے ایک سکول کا صاحب فکر ، خاموش طبع، تیز فہم نوجوان پہلے ہی ثبوت فراہم کر رہا تھا۔ یہ بے داغ زندگی کا مالک اور مذہبی اُمور پر غور فکر کرنے والا جوشیلا نوجوان تھا۔ اُس کی خُداداد صلاحیتیوں نے اُسے بہت جلد کالج کا موجب افتخار بنا دیا۔ اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ایک دن یہ جان کیلون کلیسیا کا دفاع کرنے والوں میں قابل ترین شخض ہو گا۔ مگر الہی روشنی کی شعا ع رواءیتی اصولوں کے آرپار ہو گئی جن میں کیلون محصور تھا۔ اُس نے نئی تعلیم کو انتہائی غیض و غضب کے ساتھ سنا اور کہا کہ یہ بدعتی لوگ بیشک آگ سے جلائے جانے کے ہی مستحق ہیں، تاہم وہ غیر ارادی طور پر بدعت کے سامنے آگیا اور اُس نے رومی تعلیمات کا پروٹسٹنٹ تعلیم سے موازنہ کرنے کا سوچا لیا۔ AK 214.2

    کیلون کے ایک چچیرے بھائی نے پیرس میں اصلاح کاروں میں شرکت اختیار کر لی تھی۔ یہ دونوں بھائی اکثر آپس میں ملتے اور اُن مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے جو مسیحی حکومتوں کے درمیان وجہ تنازعہ بنے ہوئے تھے۔ اولی ویثان(Olivetan) جو پروٹسٹنٹ تھا اُس نے کہا”دنیا میں دو ہی مذہب ہیں ایک مذہب وہ ہے جو خود انسانوں نے ایجاد کیا ہے۔ جس میں ایسی رسوم ہیں۔ جن پر عمل کر کے انسان خود بچ سکتا ہے یعنی اعمال حسنہ کی بدولت ۔ دوسرا وہ مذہب ہے ۔ جس کا اظہار بائبل میں ہو ا ہے۔ جو انسان کو یہ سکھا تا ہے کہ وہ خُدا کے فضل سے ہی نجات حاصل کر سکتاہے۔ کیلون نے کہا مجھے آپ کی اس تعلیم سے کچھ واسطہ نہیں۔ کیا تمہارا خیال ہے کہ میں نے اپنی ساری زندگی غلط تعلیم پر گزاردی ہے“؟ Wylie, B.13, ch.7AK 215.1

    مگر اُس کے ذہن میں کچھ خیالات اُبھر رہے تھے جنہیں وہ خارج نہیں کر پا رہاتھا۔ جان تنہا اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا اپنے چچیرے بھائی کی باتوں پر غور و خوض کرنے لگا۔ گناہ کی قائیلیت نے اُسے جکٹر رکھا تھا اور مقدس جج کی حضوری میں اُس نے اپنے درمیان کسی شفاعت کرنے والے کو نہ پایا۔ سیٹس کا توسط، اعمال حسنہ،چرچ کی رسوم پستی یہ سب گناہ کا کفارہ ہونے کے لیے بے اثر تھے۔ اُسے ابدی مایوسی کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کلیسیاکے ڈاکٹرز اُسے اُس کے رنج وغم سے بے فائدہ سکون پہنچانے کو کوشش کر رہے تھے۔ اعتراف ، کفارہ کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ وہ روح کا خُدا کے ساتھ ملاپ نہ کر سکے۔ AK 215.2

    جب وہ اس بے پھل جدوجہد میں مصروف تھا۔ تو ایک دن ایک چوراہے میں ایک بدعتی کو جلانے کے دوران کیلون بھی وہاں موجود تھا۔ کیلون اُس اطمینان کو دیکھ کر بڑا ہی حیران ہواجو اُس شہید کے چہرے پر تھا۔ اُس تشدد اور ہولناک موت ، اور کلیسیا کی نفرت انگیز لعنتوں کے درمیان جس جوان مردی سے شہید نے اپنے ایمان کا اقرار کیا تھا اُس کا موازانہ نوجوان طالب علم کیلون کی اپنی مایوسی اور تاریکی کے مقابلہ میں ہیچ تھا۔حالانکہ اس سٹوڈنٹ نے کلیسیا کی تمام رسوم کی تابعداری میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ وہ یہ تو جانتا تھا کہ ان بدنتیوں کا ایمان صرف بائبل پر ہے۔ اُس نے بائبل کا مطالعہ کرنے کا اس لیے تہیہ کر لیا کہ شاءد وہ خوشی و مسرت کے بھید کو پالے۔ بائبل میں اُسے مسیح مل گیا۔ وہ چلایا”اے خُداوند اُس کی قربانی نے تیرے غضب کور فع کر دیا۔ اُس کے خون نے میر ی نجاستوں کو دھو دیا۔ اُس کی صلیب نے میری لعنت اپنے اوپر اُٹھالی۔ اُس کی موت نے میر اکفارہ دے دیا۔ ہم نے خود اپنے لی کئی بے فائدہ حماقتیں تیار کر رکھی تھیں۔ لیکن تو نے اپنے کلام کو میرے سامنے چراغ کی مانند رکھ دیا ہے۔ تو نے میرے دل کو چھوا ہے۔ تاکہ میں مسیح یسوع کے اوصاف کے علاوہ باقی سب چیزوں کو نجس جانوں“۔ Martyn, vol.3 ch.13AK 215.3

    کیلون کو کاہنوں کے فرقہ میں شامل ہونے کے لیے تعلیم دی گئی تھی۔ جب وہ ابھی بارہ برس کا ہی تھا تو اُس ایک چھوٹی کلیسیا میں بطور چیلپن خدمت کرنے کا موقع دیا گیا اور بشپ نے اُس کے ہیڈ کو ہٹا دیا۔ کیلون کی مخصوصیت نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اُس نے عالم دین کے فرائض ادا کئے تھے مگر وہ کاہنوں کاممبر بن گیا۔اُسے اپنے کام کا خطاب بھی مل گیا اور اُسی کی بنا پر اُسے الونس(Allowance) بھی ملنا شروع ہو گیا۔ AK 216.1

    یہ محسوس کرتے ہو ئے کہ وہ کبھی بھی پریسٹ نہیں بن سکتا اُس نے کچھ دیر کے لیے لاء(law) کے مطالعہ کی طرف رُخ کر لیا۔ مگر پھر اس خیال کو بھی ترک کر کے پوری زندگی انجیل کے لیے وقف کر دی۔ تو بھی وہ پبلک ٹیچر بننے سے ہچکچاتا رہا۔ وہ فطری طور پر شرمیلا تھا۔ اور اپنی بھاری ذمہ داریوں کو نبھانے کا اُسے بہت احساس تھا۔ اور ایک بار پھر اُس نے مطالعہ کے لیے خود کو وقف کرنے کی خواہش کی۔ اُس کے دوستوں کی مخلص التجاوں نے بالاآخر اُسے راضی کر لیا۔”اُس نے کہا کہ یہ کتنا ہی شاندار اور عجیب ہے کہ ایک ادنے شخض کی اتنی عزت افزائ ہوئ“۔ Wylie, B.13, ch.9AK 216.2

    بڑی خاموشی سے کیلون اپنے کام کی طرف پلٹا۔ اُس کی باتیں ایسی تھیں جیسے شبنم زمین کو تروتازہ کر تی ہے۔ اُس نے پیرس کو چھوڑ دیا اور اب وہ ایک صوبائی قصبے میں تھاجو شہزادی مارگریٹ کے زیر تسلط تھا۔ وہ انجیل کی دلدادہ تھی اور اُس نے انجیل کے شاگردوں کو پناہ مہیا کی۔ کیلون نوجوان تھا اور اُس میں خود نمائی کا شائبہ تک نہ تھا۔ اُس کا کام لوگوں کے گھروں سے شروع ہوا ۔ گھر کے لوگوں کے درمیان وہ بائبل کو پڑھتا اور نجات کی سچائیاں بیان کرتا۔ جو لوگ بھی اُس کا پیخام سنتے وہ دسروں تک بھی خوشخبری پہنچاتے۔ یہ ٹیچر بہت جلد شہر سے باہر اور گا وں اور چھوٹی بستیوں میں کام کرنے لگا۔ محلوں اور جھونپڑیوں سھوں میں اُس نے رسائی کی۔ اور وہ مزید آگے بڑھا اور ایسی کلیسیا وں کی بنیاد ڈالی جو بے خوف و خطر سچائی کی گواہی دے سکتے تھے۔ AK 216.3

    چند ماہ کے بعدوہ پھر پیرس پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ تعلیم یا فتہ طبقہ میں غیر معمولی بے چینی پائی جاتی ہے۔ قدیم زبانوں کا مطالعہ کرنے کے شوق نے اُنہیں باءبل کی طرف راغب کیا اور جن کے دل اس کی صداقتوں سے متاثر نہیں ہوئے وہ بڑے شوق سے بحث کر تے تھے بلکہ وہ رومی چمپئنز کو ہرادیتے تھے۔ تھیالوجیکل متنازعہ کے بارے کو کیلون بہت قابل مبصر تھا، مگر وہ ان سکول ٹیچرز کے مقابلہ میں کوئی بڑا گول حاصل کرنا چاہتا تھا۔ انسان کے فہم میں کھلبلی مچ چکی تھی۔ اور اب وقت آچکا تھا کہ اُن کے سامنے سچائیوں کو کھولا جائے۔ جب یونیورسٹیوں کے ہالز تھیالوجیکل تنازعہ کے اکھاڑے بن گئے، تو اُس وقت کیلون گھر گھر جا کر لوگوں کو بائبل کی تعلیم دیتا اور مسیح مصلوب کے بارے لوگوں کو سکھاتا تھا۔ AK 216.4

    خُداوند نے اپنی پرودگاری سے پیرس کو ایک اور موقع فراہم کیا کہ وہ انجیل کو قبول کرے۔ لفیور اور فیرل کی بلاہٹ کو تورد کر دیا گیا تھا۔ مگر صدر مقام میں دوبارہ پیخام سنایا جانا ضروری تھا۔ بادشاہ ابھی تک سیاسی اثر کے تحت پور ی طرح ریفریمیشن کے خلاف روم کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ مارگریٹ اُمید رکھتی تھی کہ پروٹسٹنٹ ازم فرانس میں غالب آجاۓ گا۔ اُس نے ارداہ کر رکھا تھا کہ پیر س میں اصلاح شدہ ایمان کی تشہیر ہو ۔ بادشاہ کی غیر موجودگی میں اُس نے حکم کیا کہ شہر کے چر چز میں پروٹسٹنٹ منسٹر منادی کریں۔ پوپ کی حکومت کے معززین نے تو یہ منع کر رکھا تھا مگر شہزادی نے اُن کے لیے محل کے دروازے کھول دۓ۔ ایک خاص کمرہ چیپل کے لیے آراستہ کر دیا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ ہر روز ایک خاص مقر رہ وقت پر وعظ پیش کیا جاۓ گا جسے ہر طبقہ کے لوگوں کو دعوت دی گئ کہ وہ آءیں اور سنیں۔ بڑی بھیڑ سروس کے لیے جمع ہو نے لگی۔ نہ صرف چیپل بلکہ ہالز اور ڈیوڑھیوں میں بھی لوگ سما نہ سکے۔ ہر روز ہزاروں شرفا، ریاستی اہلکار، وکلا حضرات ، سوداگر اور صنعت کار جمع ہوتے۔ بادشاہ نے منع کرنے کی بجاۓحکم دیا کہ پیر س کے دو چرچز کو ان کی سروس کے لیے کھول دیا جاۓ۔ اس سے پہلے کبھی بھی شہر اس قدر خُدا کے کلام سے متاثر نہ ہو ا تھا۔ ایسے معلوم ہو تا تھا جیسے کہ آسمان سے لوگوں پر زندگی کی روح پھونکی جا رہی ہے۔ بیکاری، چپقلش، شہوت پرستی کی جگہ پرہیز گاری، پاکیزگی ، امن اور محنت مشقت نے لے لی تھی۔ AK 217.1

    مگر مذہبی حکومت بھی کاہل نہیں بیٹھی تھی۔ بادشاہ نے منادی روکنے کے لیے مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ اور اُنہوں نے لوگوں کی طرف رجوع کیا۔ اور خوف و ہراس ، تعصب اور وہم پرست ہجوم کی جنونی پن کو ہوا دینے میں کوءی کسر باقی نہ رکھی۔ پیرس ، جھوٹے اساتذہ کی اندھی تقلید میں قدیم کے یرو شنیم کی طرح اپنی مصیبت کے وقت سے بے خبر تھا اور ان چیزوں سے ناواقف تھا جو اُس کی سلامتی کے لیے تھیں۔ دو سال تک شہر کے صدر مقام میں خُدا کے کلام کی تشہیر ہوتی رہی، بہت سے لوگون نے انجیل کے بیخام کو قبول کر لیا جب کہ اکثریت نے اسے رد کر دیا- فرانسس نے محض اپنی مطلب براری کیلئے عدم تشدد کا اعلان کر دیا اور مذہبی حکمت برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی- ایک بار پھر چرچز بند کر دیئے گئے اور ظلم وتشدد کا بازار گرم ہو گیا-AK 217.2

    کیلون ابھی تک پیرس میں تھا اور مطالعہ، غوروخوض اور دعا کے ذریعہ مسلسل روشنی پھیلانے کیلئے خود کو مستقبل کے کام کیلئے تیار کر رہا تھا- آخر کار اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھا گیا اور ارباب اختیار نے اسے شعلوں کی نظر کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا- اپنے گوشہ تنہائی میں کیلون نے کسی خطرے کا نہ سوچا تھا- لیکن جب اس کے دوستوں نے اس کے کمرے میں آ کر خبر دی کہ جلدی کرو کیونکہ آپ کو گرفتار کرنے کیلئے آفیسرز آ رہے ہیں- فورا باہر کے بڑے دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی، اب ایک لمحہ بھی ضائع کرنے کو نہ تھا- کیلون کے بعض دوستوں نے آفیسرز کو کچھ دیر کیلئے باہر رہنے پر مجبور کر دیا، جبکہ دوسرے دوستوں نے ایک کھڑکی کے راستے اصلاح کار کو نیچے اتار دیا- اور وہ فورا شہر سے باہر نکل گیا- اور جا کر ایک مزدور کی جھونپڑی میں پناہ لے لی جو کیلون کا دوست بھی تھا- اور کپڑے تبدیل کر کے حلیہ بدل لیا- اور کندھے پر باغ میں پانی دینے والی پائپ رکھ لی اور اپنی راہ لی- جنوب کی طرف سفر کرتے ہوۓ اسے مارگریٹ کے زیر تسلط علاقے میں پناہ مل گئی-AK 218.1

    D,aubigne,History of the reformation in Europe in the time of calvin,b,2.ch,30.AK 218.2

    یہاں وہ کچھ طاقتور اور بااختیار دوستوں کے زیر سایہ چند ماہ تک محفوظ اور حسب معمول مطالعہ میں مصروف رہا- مگر اسکا دل فرانس میں بشارتی مہم چلانے کیلئے مچلتا رہا اور وہ یہاں مزید عضو بیکار کی طرح رہنا نہیں چاہتا تھا- جونہی طوفان میں تھوڑی کمی واقع ہوئی، تو اس نے ایک نئے علاقے پوٹیرز (Poitiers) میں جہاں یونیورسٹی بھی تھی کام کرنا چاہا- اور جہاں پیشتر ہی نئے نظریے کی حمایت جاری تھی- ہر طبقے کے لوگ انجیل کو بڑے شوق سے سنتے تھے، سر عام تو منادی نہیں ہوتی تھی مگر چیف مجسٹریٹ کے گھر، اسکی اپنی آرام گاہ میں، اور بعض اوقات پبلک گارڈن میں، کیلون ان سب کیلئے ابدی زندگی کا کلام کھولتا جو سننے کیلئے خواہش ظاہر کرتے- کچھ دیر کے بعد جب سامعین کی نفری میں اضافہ ہوا، تو یہ خیال کیا گیا کہ شہر کے باہر کہیں جمع ہونا زیادہ محفوظ اور خطرے سے خالی ہو گا- ایک غار جو ایک گہری اور تنگ گھاٹی کی طرح تھی، جہاں درخت اور اوپر چھائی ہوئی چٹانیں تھیں جو اس گوشیہ تنہائی کو کامل کرتی تھیں اسے میٹنگ کی جگہ کیلئے منتخب کیا گیا- چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں مختلف راہیں اختیار کرتے ہوۓ سامعین وہاں پہنچ جاتے- اس جگہ بائبل پڑھی جاتی اور اسکی تفسیر بیان کی جاتی- یہاں پہلی بار فرانس کے پروٹسٹنٹس نے عشائے ربانی کی رسم ادا کی- اس چھوٹے سے چرچ میں سے بہت سے وفادار مبشر بیرون ملک بھیجے گئے-AK 218.3

    ایک بار پھر کیلون پیرس میں لوٹ آیا- وہ ابھی تک اس امید سے دست کش نہیں ہوا تھا کہ فرانس بطور قوم ریفریمیشن کو قبول کر لے گا- مگر اس نے تقریبا کام کرنے کیلئے ہر دروازہ کو بند پایا- انجیل کی منادی کرنا سیدھا سولی کو دعوت دینا تھا- چنانچہ اس نے وہاں سے جرمنی جانے کا ارادہ کر لیا- ابھی وہ بمشکل فرانس سے نکلا ہی تھا کہ پروٹسٹنٹس پر غیر متوقع طوفان امڈ آیا- اور اگر وہاں ٹھہر جاتا تو وہ بھی عام تباہی کی بھینٹ چڑھ جاتا-AK 219.1

    فرانس کے اصلاح کار خواہش کرتے تھے کہ انکا ملک بھی جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کے ساتھ قدم بہ قدم ملا کر چلے- اور انہوں نے روم کی توہم پرستی کے خلاف بھرپور حملہ کرنے کا سوچا جس سے ساری قوم بیدار ہو جائے- چنانچہ ماس (Mass) پر حملہ کرنے کیلئے ایک ہی رات میں تمام فرانس میں اشتہار آویزاں کر دیئے گے- اس عمل سے اصلاح آگے بڑھنے کی بجائے تباہی وبربادی کا باعث بنی- نہ صرف جنہوں نے یہ پروپیگینڈا کیا تھا بلکہ پورے فرانس میں اصلاح شدہ ایمان رکھنے والے دوستوں کے خلاف بھی یہ تحریک تباہی لائی- یہی کچھ تو مذہبی حکومت عرصے سے چاہتی تھی اور اب انھیں بہانہ مل گیا کہ ان بدنیتوں کو مکمل طور پر برباد کیا جائے کیونکہ یہ تخت وتاج کی پائیداری اور قوم کے امن وامان کیلئے خطرے کا باعث ہیں- AK 219.2

    کسی خفیہ ہاتھ نے یا کسی غیر محتاط دوست یا کسی بدمعاش دشمن نے، یہ معلوم نہیں ہو سکا ایک اشتہار بادشاہ کے ذاتی چیمبر کے دروازہ پر آویزاں کر دیا- جس سے بادشاہ ششدر رہ گیا- اس اشتہار میں ان اوہام پرستیوں کے خلاف سخت گیر مرحلہ تھا جنکی زمانوں سے پوجا ہو رہی تھی اور بادشاہ کے چیمبر میں دلیری کے ساتھ زبردستی گھسنے کی کوئی مثال موجود نہ تھی- بدیں وجہ بادشاہ کا غیض وغضب بھڑکا- کچھ دیر تو وہ حیران کھڑا رہا اور اس کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا- پھر اس نے غصے کے عالم میں یہ ہولناک حکم صادر کیا “کہ ان سب کو بلا امتیاز گرفتار کر لیا جائے جو لوتھر کی تعلیم کے حامی ہیں- میں ان سبھوں کو نیست ونابود کر دوں گا” ibid,b.4,ch.10AK 219.3

    ہلاکت شروع ہو گئی- اور بادشاہ نے حتمی طور پر خود کو روم کی حمایت کیلئے وقف کر دیا-AK 219.4

    پیرس میں بسنے والے تمام لوتھرن کو فورا گرفتار کرنے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے- ایک غریب دستکار جو اصلاح شدہ ایمان کا حامی تھا اور جو ایمانداروں کو انکی خفیہ اسمبلیوں میں بلانے کی خدمت انجام دیتا تھا اسے فورا گرفتار کر لیا گیا اور کہا گیا کہ اگر وہ شہر میں رہنے والے تمام پروٹسٹنٹس کا پوپ کے جاسوسوں کو پتہ نہ بتائے، تو اسے فورا سولی چڑھا دیا جائے گا- وہ اس گھٹیا تجویز سے جی چرا رہا تھا- مگر آگ میں جلنے کے خوف سے آخر کار وہ اپنے بھائیوں کو دغا دینے والا ٹھہرا- بہت سے پریسٹس، بخور دان اٹھانے والے، راہب، سپاہیوں شاہی جاسوسوں میں محصور ہو کر شہر کی گلیوں میں سے آہستہ آھستہ اور خاموشی کے ساتھ گزرے جنکی پیش روی وہ غدار کر رہا تھا- اور یہ نمائش “پاک ماس” کی عزت افزائی کے لئے ہے اور اس چیز کا کفارہ ہے جو احتجاج کرنے والوں نے ماس (Mass) کی بے حرمتی کی تھی- مگر اس ناٹکی کھیل کے پیچھے نہایت ہی ہولناک مقصد پوشیدہ تھا- لوتھر کی تعلیم کے ماننے والوں کے گھر کی مخالف سمت یہ دغا باز صرف اشارہ کرتا اور منہ سے کوئی لفظ ادا نہ کرتا- جلوس رک جاتا، گھر میں داخل ہو کر خاندان کو باہر گھسیٹ کر لے جاتا اور ہتھکڑیاں پہنائی جاتیں اور پھر یہ خطرناک کمپنی دوسرے تازہ شکار کیلئے چل پڑتی- انہوں نے کوئی گھر نہ چھوڑا، خواہ وہ چھوٹا تھا یا بڑا حتی کہ پیرس کی یونیورسٹیوں کے کالج کو بھی نہ بخشا گیا- “اس نما کشی جلوس نے شہر کو تہہ وبالا کر دیا---- جیسے کہ شیطان کا راج ہو”- ibid,b.4,ch.10AK 220.1

    بہت ہی ظالمانہ طریقہ سے آفت زدگان کو موت کے گھات اتارا گیا- یہ خاص حکم دیا گیا کہ انکی تکلیف کے دورانیہ کو بڑھانے کیلئے آنچ کو معمول سے کم رکھا جائے- مگر انہوں نے بھی فاتحین کی طرح جان دی- وہ غیر متزلزل رہے اور انکی سلامتی، انکا امن بدستور قائم رہا- انکو ستم کا نشانہ بنانے والے انکی ثابت قدمی میں لچک پیدا کرنے میں بے بس ہو گئے- “پیرس کے کونے کونے میں ہتھکڑیاں تقسیم کی گئیں اور اسکے بعد جلانے کا سلسلہ شروع ہو گیا- اور یوں تشدد کو پھیلانے کیلئے زیادہ سے زیادہ ایذا رسانیاں شروع کر دی گئیں- تو بھی اسکا سارا فائدہ آخر انجیل کے حصے میں آیا- سارے پیرس نے دیکھ لیا کہ نیا نظریۂ کس طرح کے مرد پیدا کر سکتا ہے- شہیدوں کی چتا کی طرح کوئی پلپٹ ہو نہیں سکتا- پرسکوں مسرت جس سے ان مردوں کے چہرے اس وقت جلالی دکھائی دیئے جب وہ اپنے مرنے کی طرف رواں ہوۓ- انکی دلیری قابل دید تھی جب وہ شعلوں کے درمیان استادہ تھے- ان تکالیف کے باوجود انکے ماتھوں پر شکن نہ آیا- بلکہ نفرت کی بجائے انہوں نے محبت کا اظہار کیا اور غصے کی بجائے ستانے والوں کے لئے خدا سے معافی کی درخواست کی- wylie,B,13,ch.20AK 220.2

    پریسٹس لوگوں کے غیض وغضب کو بھڑکانے پر کمر بستہ تھے- انہوں نے پروٹسٹنٹس کے خلاف الزامات لگا کر انکی ہر جگہ مشہوری کر دی- ایک ان پر یہ الزام تھا کہ یہ کیتھولکس کا قتل عام کرنے اور گورنمنٹ کا تختہ الٹنے اور بادشاہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں- ان تمام الزامات کے خلاف کوئی ثبوت نہ مل سکا- مگر بدی کی یہ پیشینگوئیاں انکو پورا تو ہونا ہی تھا- گو یہ مختلف حالات کے تحت اس کے برعکس مقاصد حاصل کرنے کیلئے پوری ہونی تھیں- وہ مظالم جو کیتھولکس نے معصوم پروٹسٹنٹس پر ڈھائے تھے وہ بدلہ لینے کی صورت میں جمع ہوتے جا رہے تھے- کئی صدیوں بعد ان پر وہی آفت آئی جسکی انہوں نے بادشاہ، اسکی حکومت اور رعایا کے بارے پیشینگوئی کی تھی- مگر یہ وبا ان پر خود پوپ کے حامی اور منکر لے کر آئے- یہ اسٹبلشمنٹ نہیں بلکہ پروٹسٹنٹ آزم کا انسداد تھا- جس نے تین سو سال بعد فرانس کے اوپر یہ مہلک قہر نازل کیا-AK 221.1

    شک وشبہات بے اعتباری اور تشدد سوسائٹی کے تمام طبقوں میں گھر کر گیا- عام اندیشوں میں ایک اندیشہ یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ لوتھرن ٹیچنگ نے اعلی تعلیم یافتہ طبقے کو اور اعلی اثرورسوخ رکھنے والوں اور جو اچھے چالچلن کے مالک تھے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا- اعتبار کی صورت حال اور ایک دوسرے کا احترام اچانک نابود ہو گیا- دستکار، پرنٹرز، سکالرز، یونیورسٹیز میں پروفیسرز، مصنفین حتی کہ درباری غائب ہو گئے- سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اپنے آبائی ملک فرانس سے بھاگ گئے- اور رضاکارانہ طور پر جلاوطنی اختیار کر لی- اس سے پہلی نظر میں یہی اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اصلاح شدہ ایمان کے حامی ہیں- پوپ کے حامیوں نے انھیں بڑی حیرانگی سے دیکھا کیونکہ انکی نظر میں یہ لوگ کسی طرح بھی مشکوک یا بدعتی نہیں تھے- اسی لئے انہیں ایذا رسانی کے زمانے میں نظر انداز کیا گیا تھا- ان کا غصہ اس بیگناہ بھیڑ پر نکلا جو انکے اختیار میں تھی- جیلیں بھر دی گئیں- انجیل کا اعتراف کرنے والوں کیلئے جو چتا جلائی گئی اسکے دھوئیں سے فضا سیاہ ہو گئی-AK 221.2

    فرانس اول تو اس بات پر نازاں تھا بیداری کی عظیم تحریک جو پڑھنے لکھنے اور سیکھنے سے متعلق تھی اسکا اسے لیڈر ہونے کا شرف حاصل ہے جو سولہویں صدی کے آغاز میں ہوئی- وہ اپنے دربار میں ہر ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کو رکھنے پر خوشی مناتا تھا- علم وفضل کیلئے اسکی محبت اور بے علموں اور مانکس کی وہم پرستی سے کچھ نہ کچھ نفرت اسکے ذہن میں تھی- اس نے کسی حد تک اصلاح کو برداشت کرنے کی اجازت دے دی- مگر بدعت کو ختم کرنے کے جوش میں اس نے حکم جاری کیا کہ سارے فرانس میں پرنٹنگ کے کام کو منسوخ کیا جائے فرانس اول کئی مثالوں میں سے ایک مثال ہے کہ روشن خیال کلچر مذھب اور ایذا رسانی کے خلاف عدم تشدد کی ضمانت نہیں-AK 222.1

    فرانس پبلک رسوم کے ذریعہ پوری طرح پروٹسٹنٹ ازم کو برباد کرنے کیلئے سنجیدہ تھا- پریسٹس نے مطالبہ کیا کہ ماس (mass) کی برملا ہتک کا کفارہ خون کے ذریعہ ہی ممکن ہے- اور بادشاہ اپنے لوگوں کی خاطر اس ہولناک کام کرنے کی اجازت عوام کو دے- 21 جنوری 1535 اس دہشت ناک رسم کو انجام دینے کیلئے مقرر کیا گیا- اوہام پرستی کا خوف اور تمام قوم کی ہٹ دھرمی کی نفرت ابھر آئی- پیرس کی گلیوں کوچوں میں اردگرد کے ملکوں کے انبوہ جمع ہونا شروع ہو گئے یہاں تک کہ پیرس بھیڑ سے کھچا کھچ بھر گیا- دن کا آغاز ایک بہت بڑے جلوس سے ہوا- جن راستوں سے جلوس نے جانا تھا ان راستوں کے گھروں پر ماتمی کپڑے لٹکائے گئے- اور مذبحوں پر گلاب کے پھول چڑھائے گئے- پاک سکرامنٹ کے اعزاز میں تمام گھروں کے سامنے شمعیں روشن کی گئیں- دن نکلنے سے پیشتر ہی جلوس بادشاہ کے محل پہنچ گیا- “پہلے کئی چرچز کے جھنڈے اور صلیبیں آئیں- اسکے بعد شہری نمودار ہوۓ جو ہاتھوں میں شمعیں لئے دو دو ہو کر چل رہے تھے- اسکے بعد چار رہبوں کی قطاریں آئیں- ہر ایک کا اپنا اپنا مخصوص لباس تھا- پھر مشہور متبرکات (Relics) کا بڑا ذخیرہ لایا گیا- اسکے بعد لارڈلی (Lardly) پاسبان جو قرمزی اور ارغوانی چوغوں میں ملبس تھے آئے- چوغوں پر قیمتی ہیرے جڑے ہوۓ تھے، جو چمکدار اور شاندار دکھائی دے رہے تھے- پیرس کا بشپ صاحب خانہ کو شاندار سائبان میں لایا جسے 4 شہزادے سہارہ دے رہے تھے- اسکے بعد بادشاہ فرانس اول آیا- اس دن اس نے تاج نہیں پہنا تھا اور نہ ہی سٹیٹ (State) کا لباس زیب تن کیا تھا اور وہ اپنی آنکھیں زمین کی طرف جھکائے ہوۓ تھا اور اسکے ہاتھ میں روشن شمع تھی- فرانس کا بادشاہ توبہ واستغفار کرنے کے طور پر نمودار ہوا- ibid,b.13.ch.21AK 222.2

    ہر ایک مذبحہ پر اس نے بڑی عاجزی سے سجدہ کیا- ان بدکاریوں کے سبب سے نہیں جنہوں نے اسکی روح و نجس کر رکھا تھا، نہ ان معصوموں کے خون کی وجہ سے جس سے اسکے ہاتھ رنگے تھے- بلکہ ماس کی بے حرمتی کے گناہ کے باعث جو اسکی رعایا نے کی- اسکے بعد ملکہ اور ریاست کے ارباب اختیار آئے- وہ بھی دو دو کی ٹولیوں میں ہاتھوں میں شمعیں لئے ہوۓ تھے-AK 223.1

    اس دن کی سروس کا کچھ حصہ خود بادشاہ نے لیا جس میں اس ن اے گورنمنٹ کے آفیسرز کو بشپ کے محل کے بڑے ہال میں خطاب کیا- اداس چہرے کیساتھ وہ ان کے سامنے آیا اور اس دن کے جرم، ریاکاری، دکھ اور بےحرمتی پر ماتم کیا اور کف افسوس جو قوم پر آیا- اور اس نے ہر ایک وفادار باشندے کو کال دی کہ وہ اس بدعتی وبائی مرض کے کفارے کیلئے جو کچھ کر سکتا ہے کرے، جس نے فرانس کو تباہی کی دھمکی دی ہے- اے صاحبو! میں بیشک تمہارا بادشاہ ہوں- اگر مجھے معلوم ہو کہ میرا کوئی اعضا اس نفرت انگیز عفونت کا سبب بنا ہے تو میں اسے کاٹنے کیلئے آپ کے حوالے کر دوں گا- مزید اگر میں دیکھوں کہ میرا کوئی اپنا بچہ اس بےحرمتی کا مرتکب ہوا ہے میں اسے بھی نہ چھوڑوں گا- میں خود اسے قربان کر دوں گا- روتے روتے اسکی ہچکی بندھ گئی اور ساری اسمبلی اسکے ساتھ روئی- اور ایک زباں ہو کر کہا “ہم کیتھولک مذھب کیلئے مریں اور جئیں گے”-AK 223.2

    D,aubigne,History of the refermation in Europe in the time of calvin,b,4.ch,12.AK 223.3

    جس قوم نے روشنی کو ترک کر دیا وہ روشنی اسکے لئے ہولناک تاریکی بن گئی- فضل ”جو مخلصی بخشتا ہے“ وہ ظاہر ہوا- مگر فرانس نے اسکی قدرت اور پاکیزگی کو دیکھتے ہوۓ بھی اور جبکہ ہزاروں اسکی خوبصورتی سے اسکی طرف آ گئے- اسکی روشنی سے بہت سے شہر اور خانقاہیں منور ہو گئیں، اسے رد کر دیا اور روشنی کی بجائے ظلمت کو چن لیا- جب انہیں آسمانی نعمت کی پیشکش ہوئی تو اس نے اسے نکال باہر کیا- انہوں نے نیکی کو بدی اور بدی کو نیکی کہا- جب تک کہ وہ اپنے ہی فریب کا شکار نہ ہو گئے- گو وہ یہ ایمان رکھتے تھے کہ وہ خدا کے لوگوں کو ایذا رسانی پہنچا کر خدا کی خدمت کر رہے ہیں- مگر انکی یہ نیک نیتی انکو بیگناہ نہیں ٹھہراتی- وہ روشنی جو انہیں دھوکے فریب سے بچا سکتی تھی اور انکی روحوں کو بیگناہوں کے خون سے داغدار ہونے سے محفوظ رکھ سکتی تھی انہوں نے اپنی مرضی سے اسے رد کر دیا-AK 223.4

    بدعت کو مکمل تباہ کرنے کیلئے اس بڑے کیتھڈرل میں قسم اٹھائی گئی جہاں تقریبا تین صدیوں بعد ادراک کی دیوی کو اس قوم نے مسند نشیں کیا جس نے زندہ خدا کو بھلا دیا تھا- پھر جلوس تیار ہوا اور فرانس کے نمائندے اس کام پر چل نکلے جسے کرنے کیلئے انہوں نے قسمیں کھائی تھیں- یہاں سے تھوڑی ہی دور سولیاں نصب کی گئیں جن پر خاص پروٹسٹنٹ مسیحیوں کو زندہ جلایا جانا تھا- اور یہ انتظام کیا گیا کہ جب بادشاہ یہاں پہنچے اسی وقت چتا کو آگ لگانا- اور جلوس وہاں کھڑا ہوتا کہ اس ایذا رسانی کا گواہ بنے- Wylie,B,13,ch.21AK 223.5

    ان ظلم وتشدد کی تفصیل جو ان گواہوں نے مسیح یسوع کیلئے برداشت کیں وہ بیان سے باہر ہے- مگر ستم رسیدہ بالکل نہ لرزے بلکہ ثابت قدم رہے- جب ایک شہید کو دستبردار ہونے کیلئے کہا گیا تو اسکا جواب یہ تھا ”میں صرف اس میں ایمان رکھتا ہوں جسکی قدیم نبیوں اور رسولوں نے منادی کی ہے- اور جو کچھ تمام مقدسین کی کمپنی مانتی ہے- میرا ایمان باری تعالیٰ میں ہے جو جہنم کی تمام قوتوں کی مزاحمت کرے گا-AK 224.1

    D,aubigne,History of the refermation in Europe in the time of calvin,b,4.ch,12.AK 224.2

    جلوس بار بار ان جگہوں پر رکتا رہا جہاں ایذا رسانی کا سلسلہ جاری تھا- یہاں تک کہ اژدہام شاہی محل پہنچا جہاں سے جلوس شروع ہوا تھا اور پھر تتر بتر ہو گیا- بادشاہ کلیسیا کے اعلی عہدہ داران اور صدر راہب وغیرہ کے ساتھ اس دن کی کاروائی پر تسلی پذیر ہو کر اور اس بات کی مبارکبادیاں وصول کر کے کہ جو کام آج شروع ہوا ہے وہ بدعتیوں کی مکمل تباہی تک جاری رہے گا-AK 224.3

    امن وسلامتی کی انجیل جسے رد کر دیا گیا اور اسے بالکل معدوم کرنے کا سوچا، اسکے نتائج نہایت ہی ہولناک برآمد ہونے کو تھے- 21 جنوری 1793 اس دن کے 258 برسوں کے بعد جب فرانس نے پروٹسٹنٹس کو بالکل نیست ونابود کرنے کا تہیہ کیا تھا، ایک اور جلوس نکالا گیا اور وہ بھی پیرس کی گلیوں میں سے گزرا مگر اس جلوس کا مقصد متذکرہ بالا جلوس کے مقصد کے بالکل برعکس تھا- “ایک بار پھر بادشاہ اس جلوس کا نمایاں کردار تھا- پھر اسی طرح کا ہنگامہ اورچیخ وپکار تھی- پھر مزید صدقه دینے کیلئے وہی آوازیں سنی گئیں- پھر سولیاں کھڑی کی گئیں اور دوبارہ وہ منظر ہولناک پھانسیوں کے بعد اختتام پذیر ہوا- لوئیس IXVI اپنے پھانسی دینے والوں اور جیلروں کیساتھ جدوجہد کر رہا ہے، جسے کھینچ کر جیل سے باہر لایا گیا اور مقتل گاہ میں سولی پر جکڑ کر کلہاڑے سے اسکا سر تن سے جدا کر دیا گیا- wylie,B,13,ch.21AK 224.4

    اسکا شکار نہ صرف بادشاہ بنا اسی جگہ کے قریب دو ہزار آٹھ سو مردوزن، سر قلم کرنے والی مشین کی بھینٹ چڑھ گئے-AK 224.5

    ریفریمیشن نے دنیا کو کھلی بائبل پیش کی جو خداوند کے احکام اس پر آشکارہ کرتی ہے اور لوگوں کے فہم وادراک کو خیر وشر کا احساس دلاتی ہے- بے پایاں محبت نے انسانوں پر آسمانی قوانین وضوابط اور اصولات عیاں کئے ہیں- رب جلیل نے فرمایا “سو تم انکو ماننا اور عمل میں لانا کیونکہ اور قوموں کے سامنے یہی تمہاری عقل اور دانش ٹھہریں گے- وہ ان تمام آئین کو سن کر کہینگی کہ یقینا یہ بزرگ قوم نہایت عقلمند اور دانشور ہے” استثناہ -6:4 جب فرانس نے آسمانی عطیہ کو رد کر دیا تو اس نے تباہی وبربادی اور لاقانونیت کے بیج بوئے- لامحالہ اسکے نتائج انقلاب اور دہشت گردی کی بادشاہی کی صورت میں سامنے آ گئے-AK 225.1

    ماس (Mass) کی بےحرمتی کے اشتہارات لگانے اور ایذا رسانی شروع ہونے سے کافی پہلے ایماندار اور بہادر فیرل کو اپنے آبائی وٹن کو مجبورا خیر بعد کہنا پڑا- وہ سوئٹزر لینڈ جا پہنچا- اسکی کوشش اور محنت سے زونگلی کے کام کی حمایت ہوئی- اس نے ریفریمیشن کے حق میں پلڑا بھاری کر دیا- اسکے آخری ایام یہیں بسر ہونے کو تھے- اس کے باوجود اس نے فرانس کے اصلاح پر فیصلہ کن تاثر جاری رکھا- اپنی جلا وطنی کے پہلے سالوں میں اسکی کوششیں اپنے آبائی وطن میں انجیل پھیلانے میں صرف ہوئیں- اس نے فرنٹیئر (Frontier) کے قریب اپنے وطن کے لوگوں میں انجیل سنانے کے لئے خاصہ وقت لیا- جہاں اس نے انتھک بیدار مغزی سے کشمکش کو دیکھا اور اپنے مشورے اور حوصلہ افزائی کے کلام کے ذریعہ انکی مدد کی- دوسرے جلا وطنوں کی مدد سے جرمن اصلاح کاروں کی تصانیف فرانسسی زبان میں ترجمہ کی گئیں- اور انہیں معه فرانسسی بائبل کی بڑی تعداد میں پرنٹ کیا گیا- اور کالپوٹروں کے ذریعہ فرانس میں بڑی تعداد میں بیچی گئیں- کالپورٹرز کو یہ کتابیں بہت ہی کم قیمت پر دی گئیں- اور ان پر جو منافع ملا اس سے وہ اپنے کام کو جاری رکھنے کے قابل ہو سکے-AK 225.2

    فیرل سوئٹزر لینڈ میں بطور ایک سکول ٹیچر کے روپ میں داخل ہوا- ایک دور افتادہ چرچ میں پہنچا اور بچوں کو ہدایات دینے کے علاوہ اس نے بڑے محتاط انداز میں بائبل کی سچائیاں متعرف کروانا شروع کر دیں اور امید کی کہ وہ بچوں کے ذریعہ انکے والدین تک رسائی کر لے گا- کچھ لوگ تھے جو اسکی باتوں کا یقین کرتے تھے مگر اسکے کام کو روکنے کیلئے پریسٹس سامنے آ گئے اور توہم پرست ملک کے لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوۓ- “پریسٹس نے کہا یہ مسیح یسوع کی انجیل نہیں ہو سکتی- کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ امن نہیں بلکہ جنگ وجدل کا سبب بنتی ہے”- wylie,B,14,ch.3AK 225.3

    پہلے شاگردوں کی طرح جب وہ ایک جگہ ستائے گئے تو دوسری جگہ بھاگ گئے- اسی طرح فیرل ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں، اور ایک شہر سے دوسرے شہر پیدل بھوکا پیاسا، سردی گرمی اور تکلیفیں برداشت کرتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا گیا- اس نے مارکیٹس میں، چرچز میں اور بعض اوقات کیتھڈرلز کے چرچز کے پلپٹ سے منادی کی- بعض اوقات تو اسے چرچ خالی یعنی سامعین کے بغیر ملا- بعض اوقات اسکی منادی شور شرابے کی نظر ہو گئی- کبھی کبھی اسے جوروجبر کے ذریعہ پلپٹ سے اتار دیا گیا- متعدد بار جاہلوں، گنواروں کی بھیڑ اس پر حملہ آور ہوئی اور مار مار کر ادھ موا کر دیا- اسکے باوجود وہ آگے ہی بڑھتا گیا- گو کبھی کبھار پسپا بھی ہونا پڑا- مگر پھر بڑی ثابت قدمی سے حملہ آور ہونے کیلئے پلٹا- اور ایک کے بعد دوسرے حملے کے وقت اس نے دکھا کہ وہ قصبے اور شہر جو پوپ کے بڑے حامی تھے انہوں نے انجیل کیلئے پھاٹک کھول دیئے- وہ چھوٹا چرچ جہاں وہ پہلے آ کر ٹھہرا اور خدمت شروع کی اس نے اصلاح شدہ ایمان کو قبول کر لیا- موراٹ اور نیخاٹل کے شہروں نے رومی رسم وروآج کو ترک کر دیا اور بت پرستی کے مجسموں کو اپنے چرچز سے نکال دیا-AK 226.1

    فیرل کی بڑی خواہش تھی کہ وہ جنیوا میں پروٹسٹنٹ کے معیار زندگی کو قائم کرے- اگر یہ شہر جیتا جا سکا تو یہ اٹلی، سوئٹزر لینڈ اور فرانس میں ریفریمیشن کا مرکز بن سکے گا- اس مقصد کے پیش نظر اس نے اس وقت تک خدمت جاری رکھی جبتک کہ اسکے گرد ونواح کے قصبے اور بستیاں حاصل نہ کر لیں- پھر ایک ساتھ کے ہمراہ وہ جنیوا میں داخل ہو گیا- مگر اسے صرف دو واعظ کرنے کی اجازت ملی- پریسٹس نے سول اتھارٹی کے ذریعے اسے ملعون قرار دینے کی بےسود کوشش کی-اور اسے کاہنوں کی کونسل میں حاضر ہونے کے لئے کہا اور اسکی زندگی تمام کرنے کیلئے وہ اپنے چوغوں میں اسلحہ چھپا کر لائے- ہال کے باہر غیض وغضب سے بھری ہوئی بھیڑ لاٹھیاں اور تلواریں لیکر کھڑی تھی کہ اگر وہ کسی نہ کسی طریقے سے کونسل سے بچ نکلے تو بھیڑ اسکا کام تمام کر دے- مچسٹریٹ کی موجودگی اور مسلح فورس نے اسکی جان بچائی- اگلی صبح سویرے اسے جھیل کے پار محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا- یوں اسکی جنیوا میں بشارت پھیلانے کی پہلی مہم اختتام پذیر ہوئی-AK 226.2

    خداوند خدا نے دوسری بار کیلئے ایک بہت ہی معمولی آلہ کو اپنے کام کیلئے چنا- وہ اس قدر حلیم اور فروتن تھا کہ اصلاح کے دوست بھی اسے خاطر میں نہ لاتے تھے- جہاں فیرل کو قبول نہ کیا گیا وہاں یہ معمولی سا شخص کیا کارنامہ دکھائے گا؟ کیسے یہ کم ہمت اور کم تجربہ رکھنے والا شخص ان طوفانوں کے سامنے کھڑا رہ سکے گا، جن کے سامنے بڑے بڑے نامور اور بہادر شخص بھاگنے پر مجبور ہو گئے؟ “نہ تو زور سے اور نہ توانائی سے بلکہ میری روح سے” زکریاہ 6:4 “بلکہ خدا نے دنیا کے بیوقوفوں کو چن لیا کہ حکیموں کو شرمندہ کرے اور خدا نے دنیا کے کمزوروں کو چن لیا کہ زور آوروں کو شرمندہ کرے” 1 کرنتھیوں 27:1 “کیونکہ خدا کی بیوقوفی آدمیوں کی حکمت سے زیادہ حکمت والی ہے اور خدا کی کمزوری آدمیوں کے زور سے زیادہ زور آور ہے” 1 کرنتھیوں -25:1AK 226.3

    فرامنٹ (Froment) نے بطور سکول مسٹر کے کام کا آغاز کیا- وہ سچائیاں جو اس نے سکول میں بچوں کو سکھائیں وہ بچوں نے اپنے گھروں میں دوہرائیں- بہت جلد والدین بائبل کی تشریح سننے کے لئے آنے لگے، یہاں تک کہ سکول کے کمرے ان سامعین سے بھر گئے جو بڑے غور اور ذوق وشوق سے سچائیوں کو سننے کی تمنا رکھتے تھے- عہد جدید اور ٹریکٹ آزادانہ طور پر تقسیم کئے گئے- اور وہ انکے ہاتھوں میں بھی پہنچ گئے جو سر عام نئی تعلیم سننے کی ہمت نہ رکھتے تھے- کچھ دیر کے بعد اس خدمت گزار کو بھی بھاگنا پڑا- مگر وہ صداقتیں جو اس نے سکھائیں وہ لوگوں کے اذہان میں بیٹھ گئیں- ریفریمیشن کا پودا لگایا گیا اور مسلسل بڑھتا مضبوط ہوتا اور پھیلتا گیا- واعظین واپس آئے اور انکی محنت سے بالاخر جنیوا میں پروٹسٹنٹ ورشپ قائم ہو گئی- جب گردش زمانہ کے تحت کئی بار کیلون اس شہر کے پھاٹکوں کے اندر داخل ہوا تو شہر ریفریمیشن کیلئے پہلے ہی اعلان کر چکا تھا- اپنی جنم بھومی آخری بار واپس آ کر وہ بیزل کی راہ پر تھا جب اس نے دیکھا کہ سیدھا راستہ تو چارلس V کی فوجوں نے گھیر رکھا ہے تو اسے ادھر ادھر چکر کاٹ کر مجبورا جنیوا کا راستہ اختیار کرنا پڑا-AK 227.1

    اس وزٹ میں فیرل نے خدا کے ہاتھ کو تسلیم کیا- گو جنیوا نے اصلاح شدہ ایمان کو قبول کر لیا تھا تاہم ابھی بہت بڑا کام کرنا باقی تھا- یہ ایک جماعت نہیں بلکہ فردا فردا اشخاص ہوتے ہیں جو خداوند کے لئے تبدیل ہوتے ہیں- دوبارہ تخلیق کا کام دلوں اور ذہنوں میں روح القدس کی قدرت سے انجام پانا چاہیے، نہ کہ کونسل کے حکم سے- جنیوا کے لوگوں نے روم کے اختیار کو اتار تو پھینکا لیکن وہ ان بدکاریوں کو ترک کرنے پر تیار نہیں تھے جو انہوں نے اسکی حکومت کے تحت پروان چڑھا رکھی تھیں- انجیل کے پاکیزہ اصولوں کو قائم کرنا، اور لوگوں کو اس جگہ کیلئے تیار کرنا جسکے لئے خداوند نے انہیں بلاہٹ دی ہے، آسان کام نہ تھا۔ AK 227.2

    فیرل کو پورا یقین تھا کہ کیلون کے ساتھ ملکر یہ کام کر سکے گا۔ چنانچہ اُس نے نوجوان ایونجلسٹ کی سماجت کی کہ وہ یہاں رہ کر خدمت کر۔ کیلون خطرے کو بھانپتے ہوءے پیھچے ہٹ گیا۔ شرمیلا اور امن پسند، وہ ایک خود مختار دلیر شخض کے ساتھ چلنے سے مطالعہ۔ اس کے علاوہ وہ جنیوا کے لوگوں کی تشدد پسند روح سے بھی گریزاں ہوا۔اُس کی خرابی صحت اور مطالعہ میں مگن رہن کی عادت نے اُسے ریٹاءرمنٹ کی طرف دھکیل دیا۔ اُس کاایمان تھا کہ وہ اپنے قلم سے ریفریمیشن کے مقصد کی بہتر آبیاری کر سکتا ہے۔ اُس کی خواہیش تھی کہ اُسے کوئ پر سکوں جگہ مل جاۓجہاں وہ سٹڈی کر پاۓ اور وہاں سے پریس کے ذریعہ کلیسیاوں کو اُستوار کرنے کی ہدایات جاری کرے۔ مگر فیرل کو جو آسمان سے بلاہٹ ملی تھی۔ اور وہ اُس کا انکار کرنے کی جرات نہیں کرسکتاتھا۔ اُس نے کہا مجھے ایسا لگا جیسے کہ ”خدا کا ہاتھ آسمان سے نیچے آیا ہے جس نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے اُس جگہ پر رکھ دیا جسے میں چھوڑنے کے لیے بڑا بیقرار تھا“۔ D'aubigne, History of the refermation in Europe in the time of calvin b.9 ch.17AK 228.1

    اس وقت پروٹسنٹ ک مقصد کو بڑے مصاءب کا سامنا کرنا پڑا۔ پوپ کی نفرت جنیوا کے خلاف اس قدر بڑھ گئ کہ وہ اسے بڑی بڑی اور طاقتور قوموں کے ساتھ ملکر تباہ کرنے پر تل گیا۔ یہ چھوٹا سا شہر کیونکر اس قد ر بڑی مذہبی حکومت کامقابلہ کر سکتا تھا جس کے سامنے بڑے بڑے بادشاہوں اور فرمانراؤں نے گھٹنے ٹیک دئے تھے؟یہ کس طرح دُنیا کی اُس آرمی کا سامنا کر سکتا تھا جس میں دُنیا کے بڑے بڑے فاتحین شامل تھے۔ AK 228.2

    تمام مسیحی حکومتوں میں پروٹسنٹ ازم کو بھیانک دشمن کی دھمکیوں کا سامنا تھا۔ ریفریمیشن کی پہلی فتوحات ماضی کا حصہ بن چکی تھیں۔ روم نے اب نئ تازہ دم فوجیں طلب کر لیں اور ریفریمیشن کو مکمل طور سے نیست و نابود کرنے کی تھان لی۔ اسی وقت جیسو ٹس(Jesuits) آرڈر پاس کیا گیا۔ یہ آرڈر نہایت ہی سفاک، انتہائ غیر محتاط اور پوپ کی حکومت کے تمام آرڈرز کا چمپئن تھا۔ یہ جسمانی رشتے ناطے اور انسانی دلچسپیوں سے بے نیاز، یہ فطری محبت کی طرف سے مردہ، ادراک، ضمیر اس کے سامنے بالکل خاموش یہ کوئ اصول ضابطے کو نہیں مانتا تھا، اور نہ ہی کسی رشتے کے لگاؤ کو۔ اس حکم کو ماننا ہی تھا۔ اس سے زیادہ کوئ اور فرض نہیں تھا۔ AK 228.3

    مسیح یسوع کی انجیل نے ایمانداروں کو ان خطرات کا سامنا کرنے کے لیے قابل بنا رکھا تھا۔ تاکہ وہ مصا ۂب ، رنچ والم سردی کی شدت، بھوک پیاس، مشقت، غربت کو برداشت کر سکیں اور سولیوں اور جیلوں میں ٹھونسے جانے کے باوجودسچائ کے جھنڈ کو سر بلندکریں۔ AK 229.1

    ان قوتوں س نبرد آزما ہونے کے لیے جیسوٹس نے اپنے پیروکاروں کو جنونیت اپنانے کے لیے اُبھارا جو اُنہیں ان خطرات سے نمٹنے کے قابل بناۓ اور سچاءی کی قوت کی فریب کے آلہ سے مخالفت کرے۔ اس کے لیے وہ کسی بھی بڑے سے بڑے جرم کے مرتکب ہو سکتے تھے۔ گھٹیا سے گھٹیا فریب دہی کا سہارا لے سکتے تھے۔ اُن کے مطالعے کا کلی اور اصل مقصد دولت اور اختیار حاصل کرنا اور پروٹسنٹ ازم کو غارت کرنا اور پوپ کے اختیار اعلے کو قائم کرنا تھا۔ اور جب وہ اس آرڈر کے ممبر بن جاتے تو وہ مقدس لباس زیب تن کرتے۔ جیلوں اور ہسپتالوں میں وزٹ کرتے، غریبوں اور بیماروں کی خبر گیری کرتے۔ اور نارک الدین ہونے کا دعوی کرتے، مسیح یسوع کے مقدس نام کی مالا جپتے جو خود بھلائ کرتا پھرا تھا۔ مگر اس بے داغ ظاہر داری کے نیچے اکثربہت ہی مہلک مقاصد نپہاں ہوتے۔ اس آرڈر کا اختتامیہ اصول یہ تھا کہ جو بھی ذرائع استعمال کیے گۓہیں اُن کا نتیجہ اس کی مقصد برداری ہو۔ جھوٹ بولنا، چوری کرنا، قتل، دروغ علمی نہ صرف یہ قابل معافی تھے بلکہ اگر ان سے کلیسیا کو فاءدہ پہنچاہو تو یہ قابل تعریف بھی تھے۔ AK 229.2

    کئی حلیےدھار کر جیسوٹس ریاست کے دفتروں تک رسائ کرلیتے اور خود کو بادشاہ کے مشیر وغیرہ ظاہر کرتے۔ یوں وہ قوم کی پالیسی مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے۔ وہ خادموں کے روپ میں اپنے آقاوں کی جاسوسی کرتے۔ اُنہوں نے شہزادوں اور شرفا کے بچوں کے لیے کالج قائم کیے۔اور عوام کے لیے سکول کھولے۔ اور پروٹسنٹ والدین کے بچوں کو پاپاءے روم کے رسم و رواج کی طرف راغب کیا۔ ظاہری شان و شوکت اور پاپاۓ روم کی نمائشی ورشپ ذہنوں میں ابتری کا باعث بنتی اور تصورات کو غلام بنالیتی۔ یوں آزادی کے لیے جو آباءواجداد نے مشقت کی اور خون بہایا وہ دغا سے بچوں کے ذریعہ دشمن کے حوالہ کر دیاگیا۔ جیسوٹس بہت جلد سارے یورپ مِں پھیل گۓ اور جہا ں کہیں وہ گۓ وہاں پوپ پرستی میں بیداری آئی۔ AK 229.3

    اُنہیں مزید اختیارت دینے کے لیے ایک بُل(Bull) ایشو کیا گیا تاکہ دوبارہ سرکاری تفشیش شروع کی جاسکے۔( بل سربمرخط)AK 229.4

    باوجود یکہ عوام اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ بلکہ کیتھولک ممالک بھی اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ یہ ہولناک ٹریبونل پاپاءے روم کے حاکمین نے نافذکر دیا تھا۔ کءی ممالک میں ہزاروں ہزار قوم کے سپوت، متقی پرہیز گار اور شرفا، ذہین، جانثار پاسٹرز، محنت کش، حُب الوطن شہری، اعلے تعلیم یافتہ، نامی گرامی سکالرز، بہترین فنکار، ہنر مند، صنعت کارقتل کر دیے گءے یا پھر اُنہیں جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا۔AK 230.1

    ان ہتھکنڈوں سے روم نے ریفریمیشن کی روشنی کو روکنے کی جدوجہد کی اور یوں بنی نوع انسان سے باءبل کو چھینا اور تاریک زمانے کی توہم پرستی اور جہالت کو بحال کیا۔ مگر خُدا کی برکات کے زیر سایہ اور اُن شریف و نجیب لوگوں کی مشقت سے جنہیں اُس نے لوتھر کے جانشین پیدا کیے اُنہوں نے پروٹسنٹ ازم کو برباد ہونے نہ دیا۔ اس کی قوت پرنس کی امداد یا اسلحہ نہ تھی۔ چھوٹے سے چھوٹے ممالک بہت ہی حلیم اور کمزور قومیں اس کے لیے جاءے پناہ ثابت ہوءیں۔ جنیوا طاقتور دشمنوں کے درمیان گھرا ہوا تھا جو اُسے تہس نہس کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اور یہ ہالینڈ جو ناردرن سی کے ساحل پر تھا وہ سپین کے جبرو تشدد کامقابلہ کر رہاتھا۔ جو بہت طاقتور اور تمام حکومتوں سے زیادہ مالدار بھی تھا۔ لیکن سویڈن جو سنسان اور بنجر تھا اُس نے ریفریمیشن کے لیے فتوحات حاصل کیں۔ AK 230.2

    تقریبا 30 برس تک کیلون نے جنیوا میں کام کیا۔ بائبل کی اخلاقیات کے نظام سے پیوستگی کے لیے پہلے اُس نے چرچ قائم کیا اور اس کے بعد اُس نے تمام یورپ میں ریفریمیشن کے پھیلاو کے لیے خدمت کی۔ پبلک لیڈر ہونے کے ناطے اُس کی روش لاخطانہ تھی اور اُس کی تعلیم بھی اغلاط سے مبرانہ تھی۔ مگر وہ سچائ کو مشتہر کرنے کا ایک آلہ تھا اُس کے زمانہ میں یہی سب سے اہم تھا۔ پوپ پرستی کی دوبارہ آتی ہوئ لہر کے خلاف پروٹسنٹ ازم کے اصولات قائم رکھنا اور اصلاح شدہ کلیسیا میں رومی تعلیم، اُس کے گھنمڈ اور بدکاری کی جگہ سادگی اور زندگی کی پاکیزگی کو تقویت دینا تھا۔ AK 230.3

    جنیوا سے پبلیکشز تالیف و تعنیف اور ٹیچرز اصلاح کی تعلیم پھیلانے کے لیے باہر گۓ۔اس وقت تمام ملک کے ایذارسیدہ لوگ ہدایات، مشورے اور ہمت افزائ کی تلاش میں تھے۔ کیلون کا شہر تمام مغربی یورپ کے اصلاح کاروں کے لیے جاءے پناہ بن گیا جنہیں شکار بنانے کی کوشش کی جاتی ہولناک طوفان جو کءی صدیاں جاری رہا اُس سے ڈر کر بھاگے ہوۓ پناہ گزین جنیوا کے پھاٹکوں کے اندر داخل ہو گۓ۔ فاقہ مست، زخمی، گھر اور رشتہ داروں سے جُدا، اُنہیں بڑی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ بڑی رحم دلی سے اُن کی حفاظت کی گءی۔ جب وہ یہاں آکر مقیم ہو گءے تو اُنہوں نے اپنے علم ، ہنروفن اور پارساءی سے شہر کو بابرکت بنا دیاجس میں وہ آکر ٹھہرے تھے۔ بہت سے جو بطور پناہ گزین کے یہاں آءے تھے اُنہوں نے واپس اپنے وطن جا کر روم کے مظالم کی مزاحمت کی۔ جان ناکس جو ایک بہادر سکاچ ریفارمر تھا۔ اسی طرح وہ انگلش پیوری ٹن ، اسی طرح ہالینڈ اور سپین کے پروٹسنٹس، اور فرانس کے ہگوناءٹس ان سبھوں نے جنیوا ہی سے سچاءی کی شمعیں روشن کیں اور انہیں وہ تاریکی کو مٹانے کے لیے اپنے آبائی وطنوں کو لے گئے۔ AK 230.4

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents