دوسرا باب - پہلی صدیوں میں ایذا رسانی
- تمہید
- تعارف
- پہلا باب - یروشلیم کی تباہی
- دوسرا باب - پہلی صدیوں میں ایذا رسانی
- تیسرا باب - روحانی تاریکی کا دَور
- چوتھا باب - والڈنِسس
- پانچواں باب - جان وکلف
- چھٹا باب - ہس اور جیروم
- ساتواں باب - لو تھر کی روم سے علیحدگی
- آٹھواں باب - لوتھر کی کانفرنس (Diet) کے سامنے پیشی
- نانواں باب - سوئس اصلاح کار
- دسواں باب - جرمنی میں اصلاح کی پیش رفت
- گیارہواں باب - شہزادوں کا احتجاج
- بارہواں باب - فرانسسی ریفریمیشن
- تیرہواں باب - نیدر لینڈز اور سیکنڈی نیویا
- چودھواں باب - مابعد انگلش مُصلح حضرات
- پندرہواں باب - بائبل مقدسی اور فرانسسی انقلاب
- سولہواں باب - مسافرآباؤاجداد
- سترہواں باب - نوید صبح
- آٹھارواں باب - ایک امریکی مصلح
- انیسواں باب - تاریکی میں سے نور
- بیسواں باب - غیر معمولی دینی بیداری
- اکیسواں باب - تنبیہ رد کر دی گئی
- بائیسواں باب - پیشینگوئیاں پوری ہو گئیں
- تائیسواں باب - مقدس کیا ہے؟
- چوبیسواں باب - پاکترین مکان میں
- پچیسواں باب - خُدا کی دائمی شریعت
- چھبیسواں باب - اصلاح کا کام
- ستائیسواں باب - موجودہ دور کی بیداریاں
- اٹھائیسواں باب - تفتیشی عدالت
- انتیسواں باب - مبدا (آغاز) گناہ
- تیسواں باب - انسان اور شیطان کے مابین عداوت
- اکتیسواں باب - بری روحوں کی ایجنسی
- بتیسواں باب - شیطان کے پھندے
- تنتیسواں باب - پہلا بڑا دھوکا
- چونتیسواں باب - سپر چولزم مردوں سے باتیں کرنا
- پینتیسواں باب - ضمیر کی آزادی کو خطرہ
- چھتیسواں باب - قریب الوقوع تصادم کا خطرہ
- سینتیسواں باب - کلام مقدس قابل اعتماد محافظ
- اڑتیسواں باب - آخری انتباہ
- انتالیسوں باب - ایذا رسانی کا وقت
- چالیسواں باب - خدا کے لوگوں نے رہائی پائی
- اکتالیسواں باب - زمین کی ویرانی
- بیالیسواں باب - کشمکش کا خاتمہ
Search Results
- Results
- Related
- Featured
- Weighted Relevancy
- Content Sequence
- Relevancy
- Earliest First
- Latest First
- Exact Match First, Root Words Second
- Exact word match
- Root word match
- EGW Collections
- All collections
- Lifetime Works (1845-1917)
- Compilations (1918-present)
- Adventist Pioneer Library
- My Bible
- Dictionary
- Reference
- Short
- Long
- Paragraph
No results.
EGW Extras
Directory
دوسرا باب - پہلی صدیوں میں ایذا رسانی
جب خُداوند یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو یروشلیم کی بربادی اور اپنی آمد ثانی کے بارے بتاےتھا تو اُس نے ساتھ ساتھ اُس تجربے کے بارے بھی پیشینگوئی کی تھی جو اُس کے لو گوں کو اُس کے آسمان پر اُٹھا ئے جانے کے بعد پیش آنے کو تھا اور اُن کی رہائی کے لئے جب وہ قدرت اور جلال کے ساتھ آنے کو تھا۔ اُس زیتون کے پہاڑ پر سے اُس نے اُس طوفان کو دیکھ لیا جو رسولی کلیسیا پر آنے کو تھا اور اُسی طوفان کو مزید مستقبل میں سرایت کرتے ہوئے بھی یکھا۔ اُس نے غضبناک آفات کو بھی دیکھا جو اُس کے پیروکاروں پر تاریک اور ایذا رسانی کے زمانے میں آنے کو تھیں۔ پھر اُس نے مختصر اظہارِ خیال میں اُن کی اہمیت کے کچھ حصے کو بیان کیا کہ اس دُنیا کے حاکم خُدا کی کلیسیا کے ساتھ کیسا بر تاو کرنے کو ہیں۔ متی 9:24، متی 22:21:24۔ میسح یسوع کے حواریوں کو بھی اُسی تذلیل ، سر ز تش اور اذیت کی راہ پر چلنا ہو گا جس راہ پر اُن کا آقا چلا تھا۔ وہ دشمنی جو دُنیا کے نجات دہندہ کے خلاف بھڑک اُٹھی تھی ا ُن سب کے خلاف بھی بھڑکے گی جو اُس کے نام سے کہلاتے ہیں۔ AK 35.1
ابتدائی کلیسیا میسح یسوع کے اس کلام کی تکمیل کی شہادت دیتی ہے۔ زمین کی حکومتیں اور عالمِ امغل میسح یسوع کے نا م لیوا لوگوں کے خلاف صف آرا ہو گئے ۔ گویا وہ میسح یسوع کے خلاف صف آرا ہوئے ۔ بت پرستوں نے بھانپ لیا کہ انجیل فتح مند ہو گی۔ اور بت پرستوں کے تمام مندر اور مذبحے برباد کر د ئیے جا ئیں گے۔ اس لئے شیطان نے اپنی ساری فوجوں کو بلا لیا تاکہ وہ میسحیت کو نامود کر دے ۔ ایذا رسا نی کی آنچ بھڑکائی گئی۔ مسیحیوں کو اُن کی ملکیت سے محروم کر دیا گیا اور اُنہیں اُن کے گھر وں سے نکال باہر کیا۔ “انہوں نے دُکھوں کی بڑی خھکھٹیر اُ ٹھا ئی” عبرانیوں 32:10۔ “بعض ٹھٹھوں میں اُڑائے جانے اور کوڑے کھانے بلکہ زنجیروں میں باند ھے جانے اور قید میں پڑنے سے آزمائے گئے” عبرانیوں 36:11۔ بہت بڑی تعداد نے اپنے خون سے شہادت پر مہر کی ۔ شرفا اور غلام ، امیر اور غریب ، پڑھے لکھے اور جاہل کو بے دریغ تہ تیغ کیا گیا۔ AK 35.2
یہ ایذا رسانیاں نیرو کی علمداری میں پولس رسول کی شہادت کے وقت شروع ہو ئیں اورپھر صدیوں تک کم و بیش شدت کے ساتھ جاری رہیں۔ مسیحیوں پر نہا یت ہی جھوٹے ہیبت ناک جرائم کے الزامات لگائے گئے اور اُنہیں حکومت کے خلاف بغاوت ، مذہب کے دشمن اور سو سا ئٹی کے لئے بلائے جان قرار دے کر عیب جوئی کی جاتی تھی ۔ بڑی تعداد میں مسیحیوں کو درندوں کے آگے ڈالا جاتا اُنہیں تماشہ گاہوں میں زندہ جلایا جاتا۔ بعض کو سولی چڑ ھایا گیا بعض کو جنگلی جانوروں کی کھالوں میں بند کر کے اُکھا ڑے میں پھینک دیا جاتا جہاں کُتے اُنہیں چیر پھا ڑ دیتے۔ اُن کی گو شمالی کو [سزا]اکثر عوامی تہواروں پربڑی تفریح کا مو قع بنایا جاتا۔ بہت بڑا ہجوم اس منظر کو دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتا تھا اور ہنسی اور خوشی و مسرت سے اپنے غم کو غلط کرتا تھا ۔ AK 36.1
مسیح کے حواری جہاں کہیں بھی پناہ لیتے در ندوں کی طرح اُن کا شکار کیا جاتا ۔ وہ مجبور اً ویرانوں اور غیر آباد جگہوں میں چھپتے پھر تے۔ ” سنگسار کئے گئے ۔ آرے سے چیرے گئے۔ آزمائش میں پڑے ۔ تلوار سے مارے گئے۔ بھیڑوں اور بکریوں کی کھال اوڑھے ہوئے ، محتاجی میں، مصیبت میں، بدسلوکی کی حالت میں مارے مارے پھرے۔ دُنیا اُن کے لا ئق نہ تھی وہ جنگوں اور پہا ڑوں اور غا روں اور زمین کے گڑ ھوں میں آوارہ پھر اکئے” عبرانیوں 38:37:11 ۔AK 36.2
ایسے میں زمین دوز قبر ستانوں نے ہزاروں مسیحیوں کو پناہ دی جو روم شہر کے باہر پہا ڑوں کے نیچے، زمین اور چٹان کے درمیان لمبی لمبی گیلر یز بنائی گئی تھیں۔ ان تاریک را ستوں کا پیچیدہ نیٹ ورک کئی میلوں تک شہر کی دیواروں سے دور پھیلا ہوا تھا۔ AK 36.3
ان زمین دوز کمین گاہوں میں مسیح یسوع کے پیروکار اپنے مرد ے دفن کیا کرتے تھے ۔ اور جب اُن پر شک کیا جاتا یا اُنہیں واجب القتل قرار دیا جاتا ےو یہی اُن کا گھر ہوتا تھا۔ جب زندگی کا مالک اُن کو زندہ کرے گا جنہوں نے اچھی کشتی لڑی تو بہت سے شہید جنہوں نے مسیح کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں انہی تا ریک غاروں سے باہر آئیں گے ۔ AK 36.4
اس شدید ایذا رسانی کے ہوتے مسیح کے ان گواہوں نے ایمان کو بے داغ رکھا، وہ ہر طرح کے آرام و آسائش سے محروم تھے اور اُن تک سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچتی تھی۔ اُنہوں نے اپنے گھر اندھیرے میں زمیں کی مہربان گود میں ضرور بنائے مگر گلہ شکوہ نہ کیا۔ ایمان، صبر اور اُمید کے کلام سے ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے رہے کہ وہ محتاجی اور اذیت کو برداشت کریں۔ ہر زمینی نعمت کا نقصان اُنہیں اُس ایمان کو ترک کرنے پر مجبور نہ کر سکا جو وہ مسیح یسوع میں لا چکے تھے۔ یہ آزما ئشیں اور ایذار رسا نیاں ایسے اقدام ثابت ہوئے جو اُ نہیں اُن کے آرام اور اجر کے قریب تر کرتے جاتے تھے۔ AK 37.1
خُدا کے قدیم خادموں کی طرح “بہتیرے مار کھاتے کھاتے مر گئے مگر رہائی قبول نہ کی تاکہ اُن کو بہتر قیامت نصیب ہو” عبرانیوں 35:11۔ اُنہیں اپنے آقا کی باتیں یاد آ ئیں اس لئے جب وہ مسیح کی خاطر دُکھ اُٹھاتے تو بہت خوش ہوتے۔ کیونکہ آسمان میں اُن کا اجر بہت بڑا تھا اور اُن سے پہلے نبیوں کو بھی اسی طرح ستایا گیا تھا۔ وہ اس خوشی مناتے تھے کیونکہ اُنہیں سچائی کی خاطر دُکھ اُٹھانے کے قابل سمجھا گیا تھا۔ اسی لئے شعلوں کے درمیان سے بھی وہ خُداوند کی حمد و ستا ئشاور فتح کے نعرے بلند کرتے رہے۔ ایمان سے آسمان کی طرف نگاہ کرتے ہوئے اُنہوں نے دیکھا کہ مسیح یسوع اور اُس کے فرشتے آسمانی قلعہ سے جھک کربڑی دلچسپی سے دیکھتے اور اُن کی ثابت قدمی پر مہر ثبت کر رہے ہیں۔ پھر ایک آواز خُداوند کے تخت سے دھرتی کی طرف آتی کہ “جان دینے تک بھی وفاداررہ تو میں تجھے زندگی کا تاج دوں گا” مکاشفہ 10:2۔ AK 37.2
تشدد کے ذریعے مسیح کی کلیسیا کو ختم کرنے کی ابلیس کی کو ششیں بیکار ثابت ہو ئیں۔ عظیم کشمکش جس میں مسیح یسوع کے وفادار شاگرد زندگی کی بازی تو ہار کر بھی جیت گئے۔ خُداوند کے کارندے قتل کئے گئے مگر اُس کا کام بدستور آگےبڑھتا رہا۔ انجیل کی بد ستور تشہیر ہو تی رہی اور اس کے حامیتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رگیا۔ انجیلی داستان اُن علاقوں میں بھی سرایت کر گئی جہاں رسائی ناممکن تھی۔ حتٰی کہ یہ رومی شاہی محلات تک جا پہنچی۔ ایک مسیحی نے اُن بت پرست حکمرانوں سے شکوہ کرتے ہوئے کہا جو ایذا رسانی کی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ آپ ہمیں “جان سے مار سکتے ہیں، ہم پر تشدد کر سکتے ہیں، مجرم ٹھہرا سکتے ہیں تا ہم آپ کی یہ بے انصافی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم معصوم اور بے گناہ ہیں۔ آپ کا ظلم و تشدد بیکار ہے“۔ دوسروں کو اپنے عقیدے میں لانے کے لئے یہ بہت بڑی دعوت تھی۔ “اکثر آپ لے ہمیں با لکل تلف کرنے کی کو شش کی مگر ہم تعداد میں مزید بڑھ گئے۔ شہید مسیحیوں کا خون ایک بیج ہے“۔Tetullian,apology,paragraph 50. AK 37.3
ہزاروں ہزار کو قتل کیا اور جیل میں ڈالا گیا۔ مگر اُن کی جگہ پُر کرنے کے لئے دوسرے آگئے۔ اور وہ جنہوں نے اپنے ایمان کی خاطرجامِ شہادت نوش کیا نہ صرف مسیح محفوظ ہو گئے بلکہ اُنہیں فاتح قرار دیا گیا۔ اُنہوں نے اچھی کشتی لڑی، اور جب مسیح یسوع آئے گا تو جلالی تاج حاصل کریں گے۔ جو مصائب اُنہوں نے جھیلے، وہ مسیحیوں کو ایک دوسرے کے اور اپنے نجات دہندہ کے قریب لانے کا باعث بنے ۔ اُن کا زندہ نمونہ اور شہادت سچائی کیلئے مسلسل گواہی تھی۔ اور جہاں بہت ہی کم تو قع تھی وہاں سے بھی ابلیس کے اسیر اُس کی خدمت کو ترک کر کے مسیح کے جھنڈے تلے آجمع ہوئے۔ AK 38.1
اس لئے ابلیس نے اپنا جھنڈا میسحی کلیسیا میں گاڑھ کر خُدا کی حکومت کےخلاف کامیاب جنگی تدابیر کو مرتب کیا۔ اگر مسیح یسوع کے پیروکار دھو کا کھا جائیں اور خُداوند کو ناراض کر بیٹھیں تو پھر اُن کی قوت برداشت کم اور ثابت قدمی تغیر پذ یز ہو گی اور وہ بآ سانی ابلیس کا شکار بن جا ئینگے۔ مہا دشمن اب اُسے دغا فریب اور چالاکی سے حاصل کر نے کی کوشش میں ہے جسے وہ طاقت سے بھی حاصل نہ کر پایا۔ ایذارسانی ختم ہو چکی ہے اور اُس کی جگہ خطرنا ک دنیوی عارضی خوشالی اور عزت و تکریم نے لے لی ہے۔ بُت پرستوں کو تر غیب دی گئی کہ وہ مسیحی ایمان کے کچھ حصہ کو قبول لر لیں جب کہ اُنہوں نے دوسری اہم سچائی کو رد کر دیا۔ وہ جانتے ہیں کہ مسیح یسوع خُدا کا بیٹا ہے۔ وہ اُس کی موت اور مردوں میں سے جی اُٹھنے کو بھی تسلیم کرتےہیں مگر وہ گناہ کے قائل نہیں۔ وہ نہ تو توبہ کی ضرورت اور نہ ہی دل کی تبدیلی کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔اُنہوں نے تجو یز پیش کی ہم مسیحیوں کو کچھ رعایت دیتے ہیں اس لیے وہ بھی ہمیں کچھ رعا یت دیں۔ تاکہ ہم سب میسح میں متحد ہ ایمان رکھتے ہو ئے ایک ہی مذہبی لا ئحہ عمل اختیار کریں۔AK 38.2
ایسےمیں کلیسیا بہت بڑے خطرے کی زد میں تھی ۔ جیل ، تشدد ، آگ اور تلوار اس کے مقابلہ مں باعث برکت تھیں۔ بعض مسیحی تو ثا بت قدم رہے اور بعض بت پرستوں کی تجو یز کے حامی بن گئے یا اس بات کے لئے متفق تھے کہ وہ اپنے ایمان کے کچھ حصے میں اصلاح کریں اور اُن کے ساتھ اتحاد کرلیں جنہوں نے مسیحیت کت بعض حصوں کو مان لیا ہے۔ اور تر غیب دی کہ وہ شائد وہ اس کے بعد مسیحیت کو کلی طور پر قبول کر لیں گے۔ مسیح یسوع کے وفادار پیروکاروں کے لئے یہ روحانی اورذہنی اذیت کا وقت تھا۔مسیحیت کے لبادہ میں ابلیس مکاری سے کلیسیا کے اندر جگہ بنانے کا خواہاں تھا اُن کے ایمان کو داغدار کرے اور اُن اذہان کو سچائی سے پھیر دے۔ AK 38.3
آخر کار بہت سے مسیحیوں نے اپنے معیار کو کم کرنے کی حامی بھر لی اور یوں بت پرستی اور مسیحیت کے درمیان اتحاد قائم ہو گیا۔ گو بت پرستوں نے اقرار کیا کہ وہ تبدیل ہو گئے ہیں اور وہ کلیسیا کے ساتھ متحد ہیں مگر وہ ابھی تک بت پرستی سے چمٹے ہوئے تھے۔ صرف اُنہوں نے یہ کیا کہ جن چیزوں کی وہ پر ستش کرتے تھے اُنہیں بدل دیا اور اُن کی جگہ مسیح یسوع، مریم اور دوسرے مقدسین کے بت رکھ لئے ۔ یوں بت پرستی کا نا پاک خیمہ کلیسیا میں گاڑھا گیا اور اپنے مضرت رساں کام کو جاری کر دیا۔ ناقص تعلیمات، اوہام پرست دستور، بت پرستانہ رسم و رواج کلیسیا کے ایمان اور عبادت میں شامل ہو گئے۔ جب مسیح یسوع کے پیروکار بت پرستوں کے ساتھ متحد ہو گئے تو مسیحی مذہب بگاڑ کا شکار ہو گیا۔ یوں کلیسیا اپنی پا کیز گی اور قوت کھو بیٹھی۔ تاہم کچھ مسیحی ایسے تھے جو فریب کا شکار نہ ہوئے وہ سچائی کے بانی اور صرف خُدا کی پر ستش کرنے سے اُس کے ساتھ اپنی وفاداری کو قائم رکھنے میں سرخرُو ہوئے ۔ AK 39.1
جو لوگ مسیح کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اُن میں ہمیشہ دو فرقے رہے ہیں۔ اُن میں سے ایک جماعت مسیح یسوع کی زندگی کا خلوص نیتی سے مطالعہ کرتی اور اپنے نقا ئص کو درست کرنے اور مسیح یسوع کا نمونہ اپنا تی ہے۔ جب کہ دوسری جماعت نے سادہ اور عملی سچائیوں کو ترک کر دیا جو اُن کی خطاوں کی نشاں دہی کرتی تھیں۔ حتٰی کی جب کلیسیا بہت اچھی حالت میں تھی اُس وقت بھی کلیسیا کلی طور پر بے داغ، مخلص اور آمیزش سے پاک نہیں تھی ۔ مسیح یسوع نے سکھایا کہ جو جان بوجھ کر گناہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں اُنہیں کلیسیا میں شامل نہ کیا جائے ۔ تاہم اُس نے ایسے لوگوں کے ساتھ ناطہ رکھا جن کا چا ل چلن خراب تھا اور اُنہیں اپنی تعلیم اور اپنے نمونے سے فائدہ اُٹھا نے کا مو قع فراہم کیا تا کہ وہ اپنی غلطیوں کو دیکھ کر اُن کی تصحیح کر سکیں۔یہوداہ کو اس کے ناقص چا ل چلن کے باوجود قبول کیا گیا اور اُسے شاگردوں کے ساتھ رکھا گیا۔ تاکہ مسیح کے نمونہ اور ہدایات کے ذریعہ وہ سیکھ سکے کہ مسیحی نمونہ کیا کر سکتا ہے۔ اور یوں اُس کی رہنمائی کی تا کہ وہ امنی فرو گزاشتوں سے واقف ہو کر توبہ کرے۔ اور الٰہی فضل کی مدد سے سچائی کو قبول کرتے ہوئے اپنی روح کو پاک کر سکے ۔ مگر یہوداہ اُس نور میں نہ چلا جو خُدا نے کمال فضل کر کے اُسے بخشا تھا بہ گناہ میں مشغول ہونے کے سبب اُس نے ابلیس کی آزما ئشوں کو دعوت دی۔ اُس کے بد کار چال چلن کے وصف اُس پر غالب آگئے۔ اُس نے اپنا ذہن و دماغ تاریکی کی قوتوں کے حوالے کر دیا۔ جب غلطیوں پر اُس کی سرزنش کی گئی تو وہ ناراض ہو گیا۔ اور پھر اُس نے اپنے آقا کو پکڑوانے کے بہت گھناو نے جرم کا ارتکاب کر لیا، اسی طرح وہ سب لوگ جو بدی کو خُدا ترسی کے بھیس میں پا لتے پوستے ہیں، وہ ان سب سے نفرت کرتے ہیں جو اُن کی گناہ آلودہ زندگی میں مخُل ہوتے ہیں۔ اور جب اُنہیں اُن کا مرغوب مو قع فراہم کیا جائے تو وہ یہوداہ کی طرح اُن سب کو دغا سے دشمن کے حوالہ کر دیں گے جنہوں نے اُس کی بہتری کے لئے اُسے سرزنش کی تھی۔ AK 39.2
رسولوں نے کلیسیا میں اُن کا مقابلہ کیا تھا جو خُدا ترسی کا اقرار تو کرتے تھے مگر در پردہ وہ بدی کو عزیز جانتے تھے۔حننیاہ اور سفیرہ نے دھوکے بازوں کا کردار ادا کیا اور مکاری کی کہ اُنہوں نے خُدا کے لئے پوری قربانی دی ہے جب کہ اُنہوں نے لالچ میں آکر اس کا کچھ حصہ اپنے لئے رکھ لیا تھا۔ سچائی کی روح نے رسولوں کو ان مکاروں کے اصل کردار سے آگاہ کر دیا۔ اور خُدا کی عدالت نے کلیسیا کو اُس ناپاکدھبے سے جو اُس کے تقدس پر لگا تھا صاف کر دیا ۔ کلیسیا کی روح جو روحوں کا امتیاز رکھتی ہے وہ دہشت گردوں، ریاکاروں اور بدکاروں کے لئے ایک سگنل تھا۔ وہ اُن کے ساتھ زیادہ دیر تک منسلک نہیں رہ سکتے تھے جو عادات اور بر تاو میں مسلسل مسیح یسوع کی نما ئند گی کرتے تھے۔اور جب مسیح کے حواریوں پر ایذارسانی اور آزمائشیں آئیں تو وہ سب جو سچا ئی کی خاطر سب کچھ چھوڑنے کو تیار تھے وہی مسیح یسوع کے شاگرد ٹھہرے۔ مگر جو نہی ایذا رسانی تھمی کلیسیا میں ایسے لوگ شامل ہو گئے جو نہ ہی مخلص اور نہ ہی پوری طرح وقف تھے یوں ابلیس کو قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ AK 40.1
مگر صلح کے شہزادے اور تاریکی کے حاکم کے درمیان کو ئی میل جول نہیں ہے۔ اسی طرح مسیح کے پیرو کاروں اور ابلیس کے درمیان کوئی میل جول نہیں ہے۔ جب مسیحیوں نے اُن کے ساتھ متحد ہونے کی اجازت دےدی جو بت پرستوں سے تبدیل ہو کر آئے تھے۔ چونکہ وہ نیم مسیحی تھے اس لئے اُنہوں نے ایسی راہ اختیار کی جو اُنہیں سچائی سے کوسوں دور لے گئی ۔ ابلیس مسیح کے پیرو کاروں کی اتنی بڑی تعداد کو بڑی کامیابی سے دھوکہ دینے پر باغ باغ ہو گیا۔ پھر اُس نے انہیں اپنی قوت دی اور انہیں ترغیب دی کہ جو خُدا سے وفادار رہے ہیں انہیں ایذا پہنچائیں ۔ اس بات کو ئی بھی پوری طرح نہ سمجھ پایا کہ کوئی کس طرح حقیقی مسیحی ایمان کی مخالف کر سکتا ہے جیسے اُن لوگوں نے کی جو ایک و قت اس کا دفاع کرنے والے تھے اور یہ ملحد مسیحی،اپنے اُن نیم بُت پرستوں کے ساتھ مل گئے اور مسیح کی جو نہایت ہی ضروری تعلیم تھی اُس کے خلاف جنگ کرنے کے لئے انہیں ابھارا۔ یہ ان کے لئے سخت جدوجہد کا زمانہ تھا جو دھوکہ فریب اور مکروہات کے خلاف وفاداری سے ثابت قدم رہنے کے خواہاں تھے۔ جنہوں نے اپنا روپ پادریوں کے مقدس لباس میں چھپا رکھا تھا اور کلیسیا کے اندر آگئے تھے۔ انہوں نے ایمان کے معیار کو اچھی طرح سمجھ کر با ئبل کو قبول نہیں کیاتھا۔ مذہبی آزادی کی تعلیم کو بدعت کے نام سے موسوم کیا گیا اور اُسے سرفراز کر نے والے نفرت اور جلاوطنی کا شکار ہوئے۔AK 40.2
ایک لمبے عرصے اورشدید تصادم کے بعد تھوڑے سے وفاداروں نے فیصلہ کیا کہ اگر ابھی بھی بر گشتہ کلیسیا خود کو بت پرستی اور ناراستی سے آزاد کرنے کو راضی نہیں تو اس سے ہر طرح کا اتحاد ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے دیکھا کہ اگر انہیں خدا کے کلام کی پیروی کرنا ہے تو علیحدگی اشد ضروری ہے۔ انہوں نے بڑی دلیری سے کہا کی ہمیں غلط تعلیم کو قبول کر کے اپنی روحوں کا زیاں نہیں کرنا ہے ۔ اور نہ ہی انہیں ایسا نمونہ قائم کرنا ہے جو ان کے بچوں، اور بچوں کے بچوں کے ایمان کے لئے خطرے کا باعث ہو۔ خُدا کے ساتھ وفادار رہتے ہوئے وہ امن و سلامتی اور اتحاد کی خاطر ہر طرح کی رعایت دینے کو تیار تھے۔ لیکن انہوں نےیہ بھی محسوس کیا کہ اگر اصولوں کو قربان کرکے سلامتی کو خریدا گیا تو وہ بھی بہت مہنگا پڑے گا ۔ اگر اتحاد کو سچا ئی اور راستی کے عوض حاصل کیا جائے تو پھر اس سے تفاوت اور تصادم بہتر ہے۔ AK 41.1
اگر ان اصولات نے اس وقت خُدا کے ثابت قدم لوگوں کے دلوں کو بیداری کے لئے اُکسایا تو کیا یہ کلیسیا اور دُنیا کے لئے بہتری کا باعث نہ بنیں گے۔ اس تعلیمات ((doctrines)) سے جو مسیحی ایمان کے ستون ہیں آج نے اعتنائی پائی جاتی ہے اور یہ نقطہ نظر مقبول ہے کہ یہ اصولات کوئی زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ ایسا نظر یہ ابلیس کے کارندوں کے ہاتھوں کو مضبوط کرتا ہے تاکہ جھوٹے نظریات اور تباہ کن خام خیال، جنگی گزرے زمانے کے ایمانداروں نے مخالفت کر کے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا اور ان غلط نظریات کی حقیقت کو عیاں کیا۔ آج ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو مسیح کے پروکارہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اُن کی حمایت کر رہے ہیں۔ AK 41.2
حقیقت میں یہ ابتدائی مسیحی بڑے نرالے لوگ تھے۔ ان کے بے داغ طور طریقے اور نہ ڈگمگانے والا ایمان گنہگاروں کے امن کیلئے مسلسل تنبیہ کی مانند تھا اور ان کو پریشان کرتا تھا۔ گو وہ تھو ڑے سے تھے اور دولت مند بھی نہ تھےاور نہ ہی ان کے پاس کوئی اعلٰے مرتبہ ہی تھے۔ نہ انہیں کوئی اعزازی خطاب دیا گیا تھا مگر جہاں کہیں بھی ان کا چال چلن اور تعلیمات کا تذکر ہ ہوتا وہاں وہ بدکاری کے لئے دہشت کی علامت بن گئے۔ اسی وجہ سے بدکار ان سے نفرت کرتے تھے جیسی نفرت قائن نے ہابل سے کی وجہ سے قائن نے ہابل کو قتل کیا تھا۔ اسی طرح جو روح القدس کی مزاحمت کرنے کے خواہاں ہوئے انہوں نے خُدا کے لوگوں کو بھی قتل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ یہودیوں نے نجات دہندہ سے نفرت کی اور اُسے سولی چڑھایا۔ کیونکہ اس کی سیرت کی پاکیزگی اور تقدس اُن کی خود غرضی اور بد چلنی کے خلاف مسلسل سرزنش تھی ۔ مسیح کے زمانہ سے لیکر اب تک مسیح یسوع کے وفادار شاگردوں نے اُن کی نفرت اور مخالفت کو بھڑ کایا ہے جو گناہ کو پیار کرتے اور اُس کے راستوں پر چلتے ہیں۔ AK 41.3
تو پھر کس طرح انجیل امن کا پیغام کہلاتی ہے؟ ہان جب یسعیاہ نبی نے مسیح یسوع کی پیدائش کے بارے پیشینگوئی کی تو اُس نے اُس کت بارے یہ خطاب دیا” سلامتی کا شہزادہ “اور پھر جب فرشتوں نے چرواہوں کو بتایا کہ مسیح پیدا ہوا ہے تو انہوں نے بیت الحم کے میدان میں گیت گایا” عالم بالا پر خُدا کی تمجید ہو اور زمیں پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صلح” لوقا 14:2۔ مگر مسیح یسوع کی باتوں اور نبیوں کے بیان میں ایک تضاد دکھائی دیتا ہے۔ “یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں ۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں“متی 34:10AK 42.1
تو بھی اگر ان دونوں بیانات کا مفصل جائزہ لیا جائے تو یہ ایک دوسرے سے مکمل ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ انجیل امن و سلامتی کا پیغام ہے۔ مسیحیت ایک ایسا نظام ہے کہ اگر اسے قبول کیا جائے اور اُس پر عمل کیا جائے تو یہ دُنیا بھر میں امن و سلامتی ، ہم آہنگی اور خوشی و مسرت پھیلانے کا ذریعہ ہو گی۔ مسیح یسوع کا مذہب اُن سب کو بھائی چارے میں متحد کر دے گا جو اُس کی تعلیم پر عمل پیرا ہوں گے ۔ خُدا اور انسان ، اور انسان اور انسان کا ملاپ کرانا ہے مسیح کامشن تھا۔ مگر دنیا کے زیادہ تر لوگ ابلیس کے کنڑول میں ہیں جو مسیح یسوع کا نہا یت ہی ناگوار دشمن ہے۔ ایسوں کے سامنے انجیل زندگی کے وہ اصولات پیش کرتی ہے جو اُ ن کی عادات اور خواہشات سے بالکل مطابقت نہیں رکھتے اسی لئے وہ اس کے خلاف بغاوت کرتے ہیں ۔ چونکہ وہ اُس پاکیزگی سے نفرت کرتے ہیں جو ان کے گناہوں کو آشکار کرتی اور ان کی ملامت کرتی ہے اسی لئے وہ ان کو ایذا پہنچاتے اور تباہ کرتے ہیں جو اس کے انصاف پر مبنی اور مقدس اصولات کو ماننے کےلیے انہیں تر غیب دیتے ہیں۔ پس چونکہ سچائیوں کی سرفراز ی اکثر نفرتوں اور جھگڑوں کو جنم دیتی ہے اسی تناظر میں انجیل کو تلوار کہا گیا ہے۔ AK 42.2
پراسرار پرودگاری جو راستبازوں کو بد کاروں کے ہاتھوں تکا لیف برداشت کرنے کی اجازت دیتی ہے بہتوں کے لئے جو ایمان میں کمزور ہیں بہت بڑی تشویش کا با عث ہے۔ ان میں سے بعض تو خُدا پر اپنا بھروسہ ختم کرنے کے لئے بالکل تیار بیٹھے ہیں کیونکہ وہ ایک کمینے رذیل شخص کو بڑھنے پھولنے اور فروغ پانے دیتا ہے جب کہ ایک نیک اور متقی و پرہیز گار شخص ابلیس ظالم سے چیرا پھاڑا جاتا اور دکھ اٹھاتا ہے۔ا ور یہ بھی پوچھا جاتا ہے کس طرح خُداوند جو منصف اور رحیم ہے ، جو قادر ِ مطلق ہے وہ بے انصافی اور جو رو جفا کو گوار کر تا ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جس کے بارے ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ خُدا نے ہمیں اپنی محبت کے کافی ثبوت فراہم کیے ہیں ہمیں اُس کی بھلائی پر شک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس کی پرودگاری کس طرح کام کرتی ہے۔ نجات دہندہ نے اپنے شاگردوں سے اُن شکوک کو پہلے سے دیکھ کر کہا جو تاریکی اور آزمائش میں اُن کی روحوں پر دباو ڈالیں گے ۔ “جوبات میں نے تم سے کہی تھی اُسے یاد رکھو کہ نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا ۔ اگر انہوں نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائیں گے۔ اگر اُنہوں نے میری بات پر عمل کیا تو تمہاری بات پر بھی عمل کریں گے” یوحنا 20:15۔ مسیح یسوع نے اپنے تمام پیروکاروں کی نسبت زیادہ دکھ سہا۔ اور اس کا کوئی بھی پیروکار اس سے زیادہ بدکار انسانوں کے ہاتھوں دُکھ نہیں اٹھا ئے گا۔ وہ سب جن کو دکھ سہنے اور شہادت پانے کے لئے بلایا گیا ہے وہ خُدا کے پیارے بیٹے کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ AK 43.1
“خُداوند اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں“2 پطرس 9:3۔ وہ اپنے بچوں کو نہ تو بھولتا ہے اور نہ ہی نظر انداز کرتا ہے تو بھی وہ بدکاروں کو ضرور اجاز ت دیتا ہے تاکہ اُن کا اصلی روپ ظاہر ہو جائے۔ اور جو کوئی خُدا کی مرضی پر چلتا رہتا ہے وہ اُن سے دھوکہ نہیں کھا سکتا۔ راستباز اس لئے دکھوں کی بھٹی میں رکھے گئے ہیں تاکہ وہ پاک ہو جا ئیں اور ان کے نمونہ سے دوسرے ایمان اور خُدا ترسی کی حقیقت سے قائم ہو جا ئیں۔ اور ان کا ثا بت قدم طرزِ عمل بے ایمانوں اور بد اعمال حضرات کو ملامت کرے۔AK 43.2
خُداوند بدکاروں کو فروغ دیتا ہے تاکہ وہ اس دشمنی کو دکھا سکیں جو وہ خُدا کے خلاف رکھتے ہیں ۔ اور جب وہ بدی کے پیمانے کو لبریز کر لیں گے تو سب اُس کے انصاف اور رحم کو اُن کی تباہی کے وقت دیکھ سکیں گے۔اُس کا بدلہ لینے کا دن جلد آرہا ہے جس دن اُن سب لوگوں کو ان کے کاموں کا بدلہ دیا جائے گا۔ جنہوں نے اس کی شریعت کو توڑا اور اس کے لوگوں پر مظالم ڈھائے۔AK 43.3
ایک اور اہم سوال ہے جو آج کل کلیسیا وں کی توجہ اپنی طرف مبذول کئے ہوئے ہے اور وہ یہ کہ پولس رسول نے فرمایا” جتنے مسیح یسوع میں دین داری کت ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائینگے 2 تیمتھیس 12:3۔ لیکن پھر ایسا کیوں دکھائی دیتا ہے کہ ایذارسانی خواب راحت کے مزے لوٹ رہی ہے؟ اس کی طرف ایک ہی وجہ معلوم ہوتی ہے چونکہ کلیسیا نے دنیا کے معیار کو اپنا رکھا ہے اس لئے کلیسیا کی مخالفت بیدار نہیں۔ حالیہ زمانے کے مذہب کا کردار پاکیزہ اور مقدس نہیں، جو مسیحی ایمان کو جو مسیح یسوع کے زمانہ یا رسولوں کے زمانہ کے ایمان کے ہم پلہ کر سکے۔ یہ صرف گناہ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی روح ہے۔ کیونکہ خُدا کے کلام کی عظیم سچائیوں کو متفرق طریقہ سے تسلیم کیا جاتا ہے اور چو نکہ کلیسیا میں بہت ہی کم خُدا ترسی ہے اور مسیحیت دُنیوی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ اگر ہم ایک مرتبہ پھر ابتدائی کلیسیا کے ایمان اور قوت کو آنے دیں تو یہ ایذا رسانی کی روح خود بخود بیدار ہو جائے گی اور ایذا رسانی کی آگ پھر بھڑک اُٹھے گی۔ AK 44.1