چھٹا باب - ہس اور جیروم
- تمہید
- تعارف
- پہلا باب - یروشلیم کی تباہی
- دوسرا باب - پہلی صدیوں میں ایذا رسانی
- تیسرا باب - روحانی تاریکی کا دَور
- چوتھا باب - والڈنِسس
- پانچواں باب - جان وکلف
- چھٹا باب - ہس اور جیروم
- ساتواں باب - لو تھر کی روم سے علیحدگی
- آٹھواں باب - لوتھر کی کانفرنس (Diet) کے سامنے پیشی
- نانواں باب - سوئس اصلاح کار
- دسواں باب - جرمنی میں اصلاح کی پیش رفت
- گیارہواں باب - شہزادوں کا احتجاج
- بارہواں باب - فرانسسی ریفریمیشن
- تیرہواں باب - نیدر لینڈز اور سیکنڈی نیویا
- چودھواں باب - مابعد انگلش مُصلح حضرات
- پندرہواں باب - بائبل مقدسی اور فرانسسی انقلاب
- سولہواں باب - مسافرآباؤاجداد
- سترہواں باب - نوید صبح
- آٹھارواں باب - ایک امریکی مصلح
- انیسواں باب - تاریکی میں سے نور
- بیسواں باب - غیر معمولی دینی بیداری
- اکیسواں باب - تنبیہ رد کر دی گئی
- بائیسواں باب - پیشینگوئیاں پوری ہو گئیں
- تائیسواں باب - مقدس کیا ہے؟
- چوبیسواں باب - پاکترین مکان میں
- پچیسواں باب - خُدا کی دائمی شریعت
- چھبیسواں باب - اصلاح کا کام
- ستائیسواں باب - موجودہ دور کی بیداریاں
- اٹھائیسواں باب - تفتیشی عدالت
- انتیسواں باب - مبدا (آغاز) گناہ
- تیسواں باب - انسان اور شیطان کے مابین عداوت
- اکتیسواں باب - بری روحوں کی ایجنسی
- بتیسواں باب - شیطان کے پھندے
- تنتیسواں باب - پہلا بڑا دھوکا
- چونتیسواں باب - سپر چولزم مردوں سے باتیں کرنا
- پینتیسواں باب - ضمیر کی آزادی کو خطرہ
- چھتیسواں باب - قریب الوقوع تصادم کا خطرہ
- سینتیسواں باب - کلام مقدس قابل اعتماد محافظ
- اڑتیسواں باب - آخری انتباہ
- انتالیسوں باب - ایذا رسانی کا وقت
- چالیسواں باب - خدا کے لوگوں نے رہائی پائی
- اکتالیسواں باب - زمین کی ویرانی
- بیالیسواں باب - کشمکش کا خاتمہ
Search Results
- Results
- Related
- Featured
- Weighted Relevancy
- Content Sequence
- Relevancy
- Earliest First
- Latest First
- Exact Match First, Root Words Second
- Exact word match
- Root word match
- EGW Collections
- All collections
- Lifetime Works (1845-1917)
- Compilations (1918-present)
- Adventist Pioneer Library
- My Bible
- Dictionary
- Reference
- Short
- Long
- Paragraph
No results.
EGW Extras
Directory
چھٹا باب - ہس اور جیروم
نویں صدی کے اوائل میں بوہمیا (Bohemia) میں انجیل کا بیج بویا گیا۔ بائبل کا ترجمعہ ہو چکا تھا اور لوگوں کی اپنی زبانوں میں عبادت منعقد کی جاتی تھی۔ جونہی پوپ کی طاقت بڑھی خُدا کا کلام ماند پڑ گیا۔ گریگری جس نے بادشاہ کو ذلیل کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا تھا وہ لوگوں کو بھی غلامی میں رکھنے کے لئے کم کوشاں نہ تھا۔ چناچہ یہ حکم جاری کیا گیا کہ بوہمسیا میں اپنی زبان میں عبادت کی جائے ۔ پوپ نے اعلان کیا کہ “قادرِ مطلق خُداوند کو یہ بھلا لگتا ہے کہ غیر زبان میں اسکی عبادت کی جائے ۔ جبکہ اس کے حکم کی پیروہ نہ کرنے سے بہت سی برائیوں اور بدعتوں نے سر اٹھا لیا ہے۔ یوں روم نے حکم جاری کیا کہ خُدا کے کلام کی شمع کو بجھا دیا جائے اور لوگوں کو اندھیروں میں دھکیل دیا جائے ۔ مگر خالق خُداوند نے اپنی کلیسیا کو محفوظ رکھنے کے لئے دوسرے وسائل مہیا کر رکھے تھے بہت سے والڈنسس اور الہی جنس جنہیں فرانس اور اٹلی سے تشدد کر کے اپنے گھروں سے بھگا دیا گیا تھا وہ بو ہمسیا میں مقیم ہوتے ہوئے تھے ۔ گووہ اعلانیہ تعلیم پھیلانے کی جرات نہیں کرتے تھے تاہم در پردہ وہ بڑے جوش و خروش و جذبہ کے ساتھ انہوں نے منادی کی۔ یوں حقیقی ایمان ایک صدی سے دوسری صدی تک محفوظ رہا۔ AK 93.1
ہس کے زمانہ سے پہلے بوہمیا میں کچھ ایسے مرد تھے جو کلیسیا کی کرپشن اور لوگوں کی اوباشی کے خلاف اٹھ کٹھرے ہوئے تھے ۔ انکی محنت نے دور و نزدیک لوگوں کی دلچسپی کو بیدار کیا تھا۔ اس پر فرما نبروا کا غصہ بھٹرکا اور انجیل کے شاگردوں کے خلاف ایذارسانی کا آغا ز ہوگیا۔ انہیں جنگلوں اور پہاڑوں میں عبادت کے لئے بھگا دیا گیا۔ سپاہی انکے پیچھے پڑ گئے اور بہتیرے موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ اس کے بعد یہ حکم جاری کیا گیا کہ وہ سب جو رومی عبادت سے علیحدہ ہو چکے ہیں انہیں زندہ جلا دیا جائے۔ گو مسیحیوں کی زندگیاں خطرے میں تھیں اسکے باوجود اپنے معقول مقصد کی فتح کی طرف نظریں جمائے ہوئے تھے ۔ ان میں سے ایک نے جب وہ مر رہا تھا کہا کہ” نجات صرف مسیح مصلوب پر ایمان رکھنے سے ہے” گو سچائی کے دشمنوں کا غضب اس وقت ہم پر غالب ہے مگر یہ ہمیشہ تک نہیں رہے گا۔ کوئی عوام سے اٹھے گا جس کے ہاتھ میں یہ تلوار ہو گی اور نہ ہی حکومت مگر اس کے خلاف کوئی غالب نہ آسکے گا۔ AK 93.2
لوتھر کا زمانہ تو ابھی بہت دور تھا۔ مگر اس سے پیشتر ہی کوئی اٹھ رہاتھا جس کی روم کے خلاف گواہی قوم کو بلا کر رکھنے کو تھی۔ AK 94.1
جان ہس معمولی گھرانے میں پیدا ہوا۔ چھوٹی عمر میں اسکے باپ کی موت واقع ہو گئی اس کی خُدا ترس ماں نے تعلیم اور خُدا کے خوف کو پیش بہا خزانہ سمجھا اور یہی ورثہ اپنے بیٹے کو دینے کی تمنا کی ۔ ہس نے صوبائی سکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر پراگیو یو نیورسٹی کے لئے سدھا را۔ جہاں اسے جبرٹی سکالر کی حیثت سے داخلہ مل گیا۔ وہ اپنی ماں کے ہمراہ پراگیوں کے لئے روانہ ہوا جو ایک بیوہ اور غریب عورت تھی اسکے پاس کوئی دنیوی مال و دولت نہ تھا جو اپنے بیٹے کو دیتی ۔ لیکن جب وہ اس بڑے شہر پہنچی تو ماں اپنے بیٹے کے ساتھ گھنٹے نشین ہوئی اور خُدا سے دعا کی۔ اس وقت ماں کو یہ بالکل اندازہ نہ تھا کہ اسکی دعا سن کی گئی ہے۔ AK 94.2
یونیورسٹی میں اس نے بہت جلد اپنی جلد اپنی انتھک محنت بے الزال زندگی شرافت اور دلی موہ لینے والے رویے کی وجہ سے عالم گیر شہرت حاصل کر لی۔ وہ رومن کلیسیا کا بہت ہی مخلص چاہیے والا تھا اور روحانی برکات کا متلا شی بھی ۔ ایک موقع پر وہ اعتراف کے لئے گیا اور جو اسکے پاس تھوڑے سے بچے کچھے سکے تھے نذر چڑھا ئیے ۔ اور اس جلسے میں شامل ہوا جن کا نجات کی نوید سنائی جاتی تھی۔ اپنا کالج کورس ختم کے بعد اس نے کاہنوں کے فرقے میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی ناموری حاصل کر لی اور پھر بادشاہ کے دربار سے منسلک ہو گیا۔ پہلے تو اسے پروفیسر تعینات کیا گیا اورپھر اس کے بعد یونیورسٹی میں پاسبان ،مقرر کر دیا گیا جہاں اس نے تعلیم حاصل کی تھی۔چندسالوں میں وہ جو خیرات کی فیس سے تعلیم حاصل کرتا رہا تھا ملک کے لئے موجب افتخار بن گیا۔ اور پورے یورپ میں اس کے نا م کا چرچا ہونے لگا۔AK 94.3
لیکن یہ ایک اور میدان تھا جس میں ہس نے اصلاح کا کام شروع کیا۔ کئی سال پریسٹ کی خدمت کرنے کے بعد اسے بیت الحم چیپل میں مناد مقرر کر دیا گیا۔ اس چیپل کے بانی نےاس بات کی وکالت کی تھی کہ کلام مقدس کی منادی لوگاں کی اپنی زبان میں کی جائے۔ باوجود یکہ روم اس عمل کے سخت خلاف تھا پھر بھی ہمسیا میں اسے روکا نہ جا سکا تھا۔ مگر وہاں بھی بائبل کے متعلق بہت ہی کم واقفیت تھی ، اور ہر طبقہ کے لوگوں میں بدترین برائیاں غالب تھیں۔ ہمس نے ان برائیوں کی خدمت کی اور خُدا کے کلام کے اصولوں اور پاکیزگی کو فروغ دیا جو اس کے ذہن نشین تھیں۔ AK 94.4
پراگیو کا ایک شہری ، جیروم جو بعد میں ہس کے قریبی حلقہ میں شامل ہوا۔ انگلینڈ سے اپنے ساتھ وکلف کی تحرایات لیتے آیا۔ انگلینڈ کی ملکہ جا وکلف کی تعلیم کے ذریعہ تبدیل ہوئی تھی وہ بوہمیا کی شہزادی تھی ۔ چناچہ اس کے اثررو رسوخ سے اپنے وطن میں اصلاح دین کاکام بڑی تیزی سے پھیلا ۔ ہمس سے وہ تحریرات بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھیں۔ اس کا ایمان تھا کہ ان کا مصنف یقیناً نہایت ہی مخلص مسیحی ہو گا ۔ چناچہ وہ اصلاح دین کے کام کی طرف راغب ہوا۔ گووہ نہیں جانتا تھا کہ پیشتر ہی اس راہ پر چل نکلا ہے جو اسے روم سے کوسوں دور لے جائے گا ۔ AK 95.1
اس دوران انگلینڈ سے دہ اجنبی پرا گیوآئے ۔ یہ پڑھے لکھے انسان تھے انہیں روشنی ملی تھی اورجب وہ اس روشنی کو دوردارز پھیلانے کے لئے آئے تھے ۔ پوپ کے کلی اختیار پر حملے کرنے کی وجہ سے ارباب اختیار نے انہیں چپ کروادیا مگر وہ اپنے مقصد سے باز رہنے کے لئے تیار نہ تھے اس لئے انہوں نے کوئی اور راستہ اختیار کر لیا۔ چونکہ وہ آرٹسٹ اورمبلغ تھے اس لئے انہوں نے اپنے اپنے فنوں کی پریکٹس شروع کر دی۔ انہوں نے عوامی مقامات پر دو تصاویر بنائیں۔ ایک تصور مسیح یسوع کی بنائی جب وہ یروشلیم میں داخل ہوا۔ حلیم گدھے پر سوار“متی 5:21۔ اور اسکے پیچھے اسکے شاگرد آرہے ہیں جو ننگے پاوں اور مسافرانہ لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں دوسری تصویر پوپ کے جلوس کی بنائی ۔ پوپ بھر کم قیمتی لباس میں ملبوس رہے۔ سر پر تہرا تاج ہے۔اور گھوڑے پر سوار ہے جسے عالی شان انداز میں سجایا گیا تھا۔ اسکے آگے آگے نر سنگے پھونکے جا رہے ہیں جب کہ اس کے پیچھے آنے والے کارڈ ینلز اور کلیسیاکے اعلےٰ افسران ہیں جو آنکھوں کو خیرہ کرنے والے لباس میں ملبوس ہیں۔ AK 95.2
اس میں ایک وعظ تھا جس نے تمام طبقوں کے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ لوگ اس ڈرائنگ کو دیکھنے کیلئے جوق در جوق آنے لگے۔ اس میں جو سبق تھا اسے خُدا کرنے میں کسی نے بھی چوک نہ کی اور بہتیر سے اس موازنہ سے متاثر ہوئے جو مسیح یسوع کی فرو تنی اور مغرور پوپ کے درمیان واضح تھا۔ پراگیو میں بڑ ی ہلچل مچ گئی جس کی وجہ سے ان اجنبیوں نے کچھ دیر کے بعد وہاں سے چلے جانے میں عافیت سجھی۔ مگر وہ سبق جو انہوں نے سکھایا تھا اسے بھلایا نہ گیا۔ ان تصویروں نے ہمس کے ذہن پر بھی گہرا اثر چھوڑنے اور اسے مزید گہرائی سے وکلف کی تحریرات اور بائبل کا مطالعہ کرنے کی طرف مائل گیا۔ گو وہ وکلف کی تمام اصلاحات کا قائل نہ ہوا مگر اس نے مزید صفائی سے پوپ کے حامیوں کے رویے کو سمجھا اور بڑے جو شیلے انداز میں فرمان روا کے غرور جاہ و ہوس اور کرپشن کی مذمت کی۔AK 95.3
بو ہمیا سے روشنی جرمنی تک پھیل گئی۔ پراگیوں کی یو نیورسٹی میں ابتری کے باعث سینکڑوں جرمن سٹو ڈئٹس کو وہاں سے نکلنا پڑا ۔ ان میں سے بہتیرے ایسے تھے جنہوں نے ہمس سے بائبل کی تعلیم پائی تھی۔ انہوں نے واپس آکر اپنے آبائی وطن میں تعلیم کو پھیلا دیا۔ AK 96.1
پراگیو میں جو کچھ ہوا تھا اس کی خبر روم پہنچ گئی اور ہمس کو حکم ملا کہ وہ فوراً پوپ کے سامنے حاضر ہو۔ پوپ کے سامنے حاضر ہونے کا یقینی مطلب موت تھا۔ بادشاہ اور بوہمیاکی ملکہ یونیو رسٹی ، مبرز آف دی آشرافیہ اور گورٹمنٹ کے افسران نے متحد ہو کر پوپ سے اپیل کی کہ ہس کو اجازت دی جائے کہ وہ روم کو اپنا جواب اپنی کے زریعہ دے۔ درخواست کی منظوری دینے کی بجائے پوپ نے ٹرائل کی کاروائی شروع کر دی اور اس کو سزاکا حکم سنا دیا۔ اورپراگیو کے شہر کو “ممنوع-Interdict” قرار دے دیا۔ AK 96.2
اس زمانہ میں انٹر ڈکٹ کی سزا کا جب حکم ہوتا تھا تو یہ خطرے کی گھنٹی سمجھی جاتی تھی۔ وہ رسو م جو اس سے منسلک ہوتی تھیں وہ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کر د یتی تھیں کیو نکہ لوگ پوپ کو زمین پر خُدا کا نمائندہ مانتے تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس کے پاس دوزخ اور بہشت کی کنجیاں ہیں اور وہ روحانی اور دنیوی عدالت سنانے کا مجاز ہے۔ انکا ایمان تھا کہ اس ریجن کے خلاف آسمانی گیٹ بند ہو جاتے ہیں جن کے اوپر انٹرڈکٹ کی لعنت کر دی جاتی ہے۔ اور یہ اس وقر تک قائم رہتی ہے جب تک پوپ کو راضی نہ کر لیا جائے یا وہ اس پابندی کو اٹھا نہ لے۔ مردے مسرت کامل یعنی بہشت میں جانے سے روک دئیے جاتے تھے۔ شادیوں چرچ کے صحن میں منعقد کی جاتیں۔ مردوں کو مخصوص شدہ قبرستانوں میں دفنانے سے انکار کیا جاتا تھا۔ انہیں جنازے کی رسم کے بغیر ہی کسی گڑھے یا کھیت میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ یوں ان اقدامات سے انسانوں کے ضمیر کو کنڑول کیا جاتا تھا۔AK 96.3
پراگیو کے شہر میں اضطراب پھیل گیا۔ زیادہ تر لوگ ہس کی ندمت کرنے لگے۔ کیونکہ انکے نزدیک وہی اس ساری مصیبت کی جڑ تھا۔ اورمطالبہ کیا گیا کہ اسے روم کے حوالہ کر دیا جائے ۔ اس ہنگامہ آرائی کو کم کرنے کےلئے اصلاحِ دین کا یہ حامی خود باخود اپنے آبائی گاوں چلا گیا۔ اسکے جو دوست پراگیو کا نمونہ اور حکم اپناتے ہوئے کیا گیا ہے۔ تاکہ ان شرارتیوں کو اپنے اوپر ابدی لعنت لانے سے باز رکھوں۔ اورخُدا ترسوں کو ایذا رسانی کی آفت سے بچاوں۔ میں یہ سوچ کر بھی یہاں آ گیا ہوں تاکہ وہ ذرائیت پر یسٹس خُدا کے کلام کو زیادہ عرصہ تک درمیان سنانے سے منع کر دیں۔ مگر میں آپ کو اس لئے نہیں چھوڑا کہ آپ الہی ٰ سچائی کاانکار کریں۔ جس کے لئے میں جان بھی دینے کو تیار ہوں اگر یہی خُدا کی مرضی ہے تو۔ Bonnechose.the reformens before the reformation,vol.1 p.87 AK 97.1
جس نے اپنی محنت اور کوشش ترک نہ کی۔ بلکہ شہر کے گردو پیش میں سفر کرتا رہا اور جو لوگ خواہش مند ہوتے ان میں منادی کرتا پھرا ۔ لہٰذا جو تدابیر پوپ نے انجیل کی منادی کو کچلنے کے لئے کیں وہی انجیل کی منادی کو دوردراز تک پھیلانے میں حمد ثابت ہوئیں۔“کیونکہ ہم حق کے بر خلاف کچھ نہیں کر سکتے ، مگر صرف حق کے لئے کر سکتے ہیں۔ “2 کرنتھیوں 8:13۔ اس وقت ہس کا ذہن اپنے مستقبل کے بارے درد ناک کشمکش کی حالت میں تھا۔ گو رومی کلیسیااپنے اختیار کی گھن گرج سے اسےہراساں کرنے پرتی ُAK 97.2
ہوئی تھی کے باوجود اس نے اس کے اختیار کو ترک نہیں کیا تھا ۔ وہ ابھی تک رومن کلیسیا کو مسیح کی کلیسیا اور پوپ کو خُدا کا نمائندہ اور نائب مانتا تھا۔ مگر ہس جس بات کے خلاف آواز بلند کر رہا تھا اور اختیار کا ناجائز استعمال تھا نہ کہ اصول ، پوپ اور کلیسیا کے متعلق اسکی اپنی قابلیت اور ضمیر کے دعویٰ کے درمیان بہت بڑی کشمکش پیدا ہو گئی۔ اگر پوپ کا اختیار مبنی برانصاف اور لاخطا تھا جو کہ اس کا ایمان بھی تھا تو پھر وہ اسے کیونکر اندر ردّ کرنے کے احساس سے مجبور ہورہا تھا۔ اسے لگا کہ اسے ماننا گناہ ہے مگر کیوں ایک کلیسیا کی تابعداری اس طرح کے مسائل کی طرف راغب کر رہی تھی ۔ یہ ایسا مسلہ تھا جسے وہ حل نہیں کو کر پا رہا تھا۔ یہی وہ شک جو اسے ہر وقت اذیت سے دوچار کرتا تھا۔ نجات دہندہ کے زمانے میں جو کچھ ہوا تھا دوبارہ واقع ہو گیا تھا۔ کہ کلیسیا کے پریسٹ بدکار انسان بن چکے تھے اور وہ اپنے قانونی اختیار کو اپنے ناجائز مقصد کو پانے کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے اس نے اپنے لئے خود اصول وضع کر لئے ۔ اور دوسروں کو پاک نوشتوں کے زیادہ سے زیادہ قوانین سکھائے جو معرفت کے ذریعہ دئیےگئے ہیں اور وہی ہمارے ضمیر کے لئے قواعد ٹھہرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اس نتیجہ پہنچا کہ خُدا ہم سے بائبل کے ذریعہ بولتا ہے نہ کہ کلیسیا کے پاسبانوں کے ذریعہ اور یہی لا خطار ہبر ہے” Wylie, B.3, ch.2AK 97.3
جب کچھ دیر کے بعد پراگیو میں سکون ہو گیا تو ہمس اپنے چیپل بنا م “بیت الحم ” میں خُدا کا کلام مزید جوش و جذبہ کے ساتھ مشتہر کرنے کے لئے لوٹ آیا۔ اس کے دشمن بڑے ہوشیار اور طاقتور تھے۔ مگر ملکہ اور کئی دوسرے شرفا اس کے دوست تھے۔ ان کے علاوہ اوربھی بہت زیادہ لوگ اسکی طرف ہو گئے۔ ہمس کی تعلیم پاک اور سرفراز کرنے والی تھی اور اسکی زندگی پاکیزہ تھی جبکہ اس کے برعکس رومی کلیسیائی تعلیم حقیر سی تھی اور جس کی منادی کی جاتی تھی اور پھر انکی زندگی میں بدکاری اور عیاشی پائی جاتی تھی ۔ لوگوں نے موازنہ کرتے ہوئے جس کی طرف آنا باعث عزت سمجھا۔ AK 98.1
ابھی اس خدمت کو اس تنہا انجام دے رہا تھا۔ مگر جس نے وکلف کی تعلیم کو قبول کر رکھا تھا ہس کے ساتھ اصلاح کے کام میں آملا۔ اس کے بعد سے وہ زندگی بھر اکٹھے رہے۔ حتٰی کہ وہ دونوں موت میں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ۔ ذہانت کی تیز طراری اور وضاحت اور علمیت کی نعمتیں جو ہر دلعزیر حمایت حاصل کرنے کا زریعہ ہے وہ تو جیروم کو خُدا نے ودیعت کر رکھی تھیں۔ مگر ان خصوصیات میں جو کردار کو ٹھوس اور مستحکم بناتی ہیں ان میں ہس کو بر تری حاصل تھی ۔ ہس کے پر سکوں فیصلہ ادراک نے جبروم نے ہس کے مشوروں کو تہہ دل سے قبول کیا۔ ان کے اتحاد کے سایہ میں اصلاح کا کام بڑی تیزی سے پھیلا۔ AK 98.2
ان منتخب مردوں کے ذہنوں پر خُدا نے عظیم روشنی چمکائی اور ان پر روم کی بہت سی برائیاں آشکار کیں۔ پھر بھی انہیں وہ ساری روشنی نہ دی گئی جسے ایک دن دنیا تک پہنچا تا تھا۔ ان کے ذریعہ خُداوند لوگوں کی رہنمائی کر رہا تھا تا کہ وہ رومن ازم کی تاریکی سے باہر آئیں۔ مگر ان کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں تھیں جن کا انہیں سامنا کرنا تھا۔ قدم بہ قدم آگے بڑھنے میں وہ ان کی اس قدر رہنمائی کرتا جس قدر وہ برداشت کر سکتے تھے۔ وہ یکدم پوری روشنی حاصل کرنے کے لئے تیار نہ کئے گئے تھے ۔ جیسے کہ اگر سورج کی پور ی آب و تاب ان کے لئے جو عرصہ سے تاریکی میں رو تو انہیں واپس تاریکی کی طرف جانے پر مجبور کر دے گی ۔ اس لئے خُدا نے اپنے لیڈران کی تھوڑی تھوڑی روشنی سے نوازہ جس قدر لوگ قبول کر پائیں ۔ صدی تا صدی دوسرے وفادار کار گزاروں کے آنا تھا جنہیں مزید روشنی دی جاتی تھی اور انہوں نے لوگوں کو مزید صلاح دین کی راہ پر آگے لے کر چلنا تھا۔ AK 98.3
کلیسیا میں مذہبی فرقہ بندی ابھی تک جاری تھی۔ جو پوپ کے اختیار اعلےٰ کے لئے دنگا فساد کر رہے تھے اور ان کے جھگڑوں کی وجہ سے تمام مسیحی ریا ستیں جرائم اور ہنگامہ آرائی کا شکار تھیں۔ انہوں نے نہ صرف زبانی کلامی ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجیں بلکہ انہوں نے اپنے حامیوں کو لڑائی کے لئے ہتھیار فراہم کئے ۔اسلحہ خریدنے اور سولجز رکھنے کے لئے انہیں خطیر رقم خرچ کرنا پڑی ۔ چونکہ اس کے لئے پیسہ درکار تھا اور اسے حاصل کرنے کے لیے انہوں نے تحائف لینے عہدے اور کلیسیا کی برکات بیچنے(Sale) کی پیشکش کر دی ۔ پریسٹس نے بھی اپنے بڑوں کی نقل کرنا شروع کر دی ۔ اور اپنے حریفوں کو نیچا دکھانے کے لئے کلیسیا کے نام پر خریدوفروخت کرنے کا جرم کیا۔ ہس نے ان مکروہات کے خلاف کاری چوٹ لگائی جسے مذہب کے نام پر برداشت کیا جارہا تھا۔ اور لوگوں نے رومی تجارت کی کھل کر مذمت کی جو مسیحی ریاستوں میں تباہی کا باعث بن رہی تھی۔ AK 99.1
دوبارہ پراگیو خون خرابے کے دہانے پو آکٹھرا ہوا۔ جیسے قدیم زمانہ میں بھی خُدا کے خادم کو بنی اسرائیل کے لئے مصیبت کا باعث قرار دیا گیا تھا سلاطین 17:18۔ شہر دوبارہ انٹر ڈکٹ (Interdict)کے تحت آگیا۔ ہس کو اس کے لئے الزام دیا گیا۔ یوں ہس ایک بار اپنے آبائی گاوں چلا گیا۔ وہ گواہی جو بڑی وفاداری سے بیت الحم کے چیپل سے دی جارہی تھی اختتام کو پہنچی صداقت کا گواہ ہونے کے ناطے اسے مرنے سے پہلے تمام مسیحی ریاستوں کو ایک وسیع سٹیج سے سچائی کی گواہی دینا تھی ۔AK 99.2
ان برائیوں کا علاج کرنے کے لئے جو پوپ کو الجھن میں ڈال رہی تھیں کانسٹینس(Constance) میں ایک کونسل بلائی گئی ۔ وہ کونسل جان Sigismund xxIII[ سیگس منڈ] سلطان کی خواہش پر بلائی گئی تھی جو تین حریف پوپوں میں سے ایک تھا پوپ جان اس کونسل کو خوش آمدید کرنے پر راضی تو نہ تھا جس کا اپنا چال چلن اور پالیسی بری شہرت کی حامل تھی یہاں تک کہ کلیسیا کے عہدہ داران اسی طرح اخلاقی اور بگاڑ کا شکار تھے جیسے کہ اس وقت کے چرچ کی کلیسیا تاہم اس نے سیگس منڈ کی مرضی کی مخالفت نہ کیAK 99.3
اس کونسل کا اصل مقصد یہ تھا کہ چرچ کی خریدوفروخت کرنے والے مجرموں کو اور برگشتگی کو ختم کی جائے اس کونسل کے سامنے دو مخالف پوپوں کو حا ظے ہونے کے لیے بلایا گیا- ان کے علاوہ نئی تجاویز کے حامیوں کو بھی بلایا گیا جو ان کے لیئے پراپیگنڈا کر رہے تھے —انہیں میں جان ہس بھی شامل تھا- اول الذکر حفاظتی خطرے کے پیش نظر خود نہ حاظر ہوئے بلکہ ان کے ڈیلی گیٹس نے ان کی نمائند گی کی- چونکہ پوپ جان کونسل کو کال دینے والا تھا اس لئے وہ بڑی آن بان کے ساتھ کونسل میں آیا-اس کے دل میں شہنشا ہ کے بارے میں بڑے شکوک تھے کہ وہ معزول نہ کر دے- اور ان برائیوں کا حساب نہ لے جن کی وجہ سے منصب یاپائی کی بےحرمتی ہوئی ہے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جرم تھے جو اس کی زندگی میں پائے جاتےتھے —اس کے باوجوداس نے کانسٹینس شہر میں بڑی شان و شوکت سے قدم رکھا —اس کے ساتھ اعلے رتبہ کے بہت سے پاسبان تھے ، اور اس کے پیچھے پیچھے کئی ملکوں کے لوگ تھے —شہر کے تمام پاسبان اور معززین اور شہریوں کی بہت بڑی بھیڑ اسے خوش آمدید کہنے کے لئے باہر نکل آئی — اس کے سر پر سنہری سائبان تھا جسے چار چیف مچسٹر یٹس سنبھالے ہوئے تھے- لا و لشکر اس کے آگے آگےتھا- کاڈینلز اور اشرافیہ کے لباس آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے- AK 100.1
اسی دوران ایک اور مسافر کا نسٹینس آ رہا تھا یعنی ہس جو ان تمام خطرات سے آگاہ تھا جو اس کی زندگی کو در پیش تھے-وہ اپنے دوست و یحباب سے یوں جدا ہوا جیسے پھر انہیں کبھی دیکھ نہیں پائے گا- اور سفر پر یوں روانہ ہوا جیسے وہ مصلوب ہونے جا رہا ہے- باوجودیکہ اس کے پاس بوہمیا بادشاہ کی طرف سلامتی کاپروانہ تھا اوراسی نوعیت کا اسک اور پروانہ اسے سیگس منڈ سلطان کی جانب سے ملا تھا- اس نے یہ تمام انتظا مات ذہن میں رکھ لئے گویا کہ وہ موت کے حوالے کیا جا رہا ہے- AK 100.2
ایک خط میں ہس نے اپنے دوستوں کو جو پراگیو میں تھے یوں لکھا ” میرے بھا ئیو، میں شہنشاہ کی طرف سے سلامتی کے پروانے کے ساتھ روانہ ہو رہا ہوں تاکہ مین اپنے بہت سے قاتل دشمنوں کو ملوں اور مجھے قادر مطلق خداوند اور نجات دہندہ مسیح یسوع مین پورا پورا بھروسہ ہے- مجھے یقین ہے کے وہ آپکی سر گرم دعا وں کو ضرور سنے گا- اور وہ ضرور اپنی حکمت اور عاقبت اندیشی میرے منہ میں ڈالے گا تاکہ میں ان کی مزمت کر سکوں-اور وہ مجھے اپنا روح القدس عطا کرے گا تاکہ میں سچائی کی حمایت کر سکوں- نیز میں بڑے حوصلے کے ساتھ آزمائشوں اور جیل کا مقابلہ کر سکوں، اگر یہ ضرورت پڑے موت کا بھی سامنا کرسکوں- مسیح یسوع نے اپنے پیاروں کے لئے دکھ اٹھائے تو کیا ہمیں اس سے حیران ہونا چاہیئے جو اس نے ہمارے لیئے نمونہ چھو ڑا ہے، تاکہ ہم اپنے نجات کے لیے ان ساری چیزوں کو بڑے صبر سے برداشت کریں؟ وہ خداوند ہے —اور ہم اس کے خادم ہیں — وہ دنیا کا مالک ہے اور ہم حقیر فانی انسان ہیں — اس کے باوجود اس نے دکھ برداشت کیے ،تو پھر ہم بھی کیوں نہ دکھ جھیلیں —خصوصا جب یہ تکالیف ہماری پاکیزگی کے لیے ہیں ؟اس لیے اے عزیزو، اگر میری موت سے اس کا جلال ظاہر ہوتا ہے ، تو دعاکیجیئے کہ یہ جلد آ جائے — اور وہ مجھے ان تمام مصائب کو ثابت قدمی سے برداشت کرنے کے قابل کرے- لیکن اگر خدا کی نظر میں یہ بہتر ہو کہ میں واپس آپ کے درمیاں آوں تو خدا سے دعا کیجئے کہ میں بغیر کسی داغ دھبے کے واپس آوں- اور یہ کی میں انجیل کی سچا ئی کے ایک شوشے کا بھی انکار نہ کروں- اور اپنے بھائیو ں کے لیے اعلے نمونہ چھو ڑ جائوں — مگر زیادہ تر ایسا دکھا ئی دیتا ہے کہ آپ میرے چہرے کو دوبارہ پراگیو میں نہ دیکھ پائیں گے- لیکن اگر قادرِ مطلق کی مرضی ہے کہ میری زندگی محفوظ رہے تو آیئے ہم ثابت قدمی، معرفت اور اس کی شریعت کی دلجوئی میں آگے قدم بڑھا ئیں”-Bonnchose, vol.1 pp.147,148AK 100.3
ایک اور خط جو اس نے ایک پریسٹ کو لکھا، جو انجیل کا شاگرد بن چکا تھا- اس میں ہس نے اپنی خطائو ں کے بارے میں بڑی فروتنی سے خود کو قصو روار ٹھرایا —“قیمتی لباس پہن کے بڑی خوشی محسوس ہوتی تھی اور یوں غیر سنجیدہ پیشے میں کئی کئی گھنٹے ضائع کر دئیے”- پھر اس نے دل پزیر پندو نصا ئع کا اضافہ کیا- “میری دعا ہے کہ خداوند کا جلال اور روح کی نجات سے تمہارا ذہن بھرپور رہے نہ کہ کلیسیائی اوقاف اور جاگیر سے- اپنی روح سے زیادہ اپنے گھر کو پاک کرنے سے باز رہیں- اور اس سب سے بڑھ کر روحانی عمارت کی فکر کریں- غریبوں کے ساتھ فروتنی اور خدا ترسی سے پیش آئیں —اور ضیافتوںمیں اپنا سرمایہ برباد نہ کریں- اپنی زندگی کی اصلاح کریں اور ضرورت سے زیادہ اشیاء اور دولت جمع کرنے سے باز رہیں- میں سمجھتا ہوں کے تم بھی ایسے ہی پاکدامن ہو جیسے کہ میں ہوں-تم میری تعلیم سے واقف ہو کیونکہ تم نے بچپن ہی سے میری ہدایات کو سن رکھا ہے —اس لیے مزید لکھنا میرے لیے فضول ہو گا-تاہم میں صدقِدل سے خداوند کا واسطہ دے کہ درخواست کرتا ہوں کہ تم نے اگر مجھ میں کوئی چھچھورا پن یا خود نمائی دیکھی ہے تو اسے نہ اپنانا” خط کے کور پر اس نہ یہ اضافہ کیا- میرے دوست میں درخواست کرتا ہوں اس سیل کو اس وقت تک نا توڑنا جب تک تم کو اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ میں مر چکا ہوں Ibid.B.7 pp.148,149“- ہس کو اپنے سفر میں ہر جگہ روکا گیا تاکہ اپنی تعلیم کے بارے میں بتائے اور اس کے مقصد کی حمایت کی گئی-لوگ جوق در جوق اسے ملنے آئےاور بعض قصبوں میں تو مچسٹر یٹس نے اس کے ساتھ اپنی گلیوں میں آکر ملاقات کیAK 101.1
کانسٹینس پہنچنے پر ہس کو پوری آزادی ملی- اور شہنشاہ نے جو سلامتی کا پروانہ دیا تھا وہ پوپ کی جانب سے شخصی یقین دہانی تھی- مگر ان سنجیدہ ناموں کی خلاف ورزی کی گئی — اور تھوڑی ہی دیر بعد پوپ اور کارڈینلز کے حکم پر اس اصلاحِ دین کو گرفتار کر کے کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا- بعد میں اسے سٹرانگ کیسل، رائن کے پار جیل میں ڈال دیا گیا- پوپ کو اس کا بہت کم فائدہ پہنچا- کینکہ غداری کے باعث اس کو بھی اسی جیل میں ٹھونس دیا گیا- (Ibid.vol.1p.247)AK 102.1
پوپ پر کونسل کے سامنے بڑےبڑے جرم ثابت ہو گئے — قتل کے علاوہ ، چرچ کے مال میں خردبرد ،زناکاری وغیرہ وغیرہ -” گناہ ان جرائم کے لیے مناسب لفظ نہیں” چناچہ کونسل نے خود کہا کہ اسے جیل میں تہراج مہیا نہ کیا جائے-دوسرے مخالف پوپ بھی معزول کر دیئے گئے-اور ایک نیاپوپ چنا لیا گیا-AK 102.2
گو پوپ خود ہس سے ذیادہ جرائم کا مرتکب تھا جس نے پریسٹس پر الزام تراشی ک تھی اور ریفریمیشن کا مطالبہ کیا تھا — تاہم جس کونسل نے پوپ کو معزول کیا، وہی کونسل ریفارمز کو کچلنے کے لئے کاروائی کر رہی تھی- ہس کی قید نے بوہیمیا میں بہت ذیادہ نفرت کوہوا دی- طاقتور اشرافیہ نے کونسل کی اس ناجائز دست اندازی کے خلاف احتجاج کیا- شہنشاہ سلامتی کے پروانے کی خلاف ورزی پر نفرت کا اظہار کر رہا تھا اس نے اس کاروائی کی مذمت کی- مگر ریفارمز کے بد خواہ دشمن پکا قصد کر چکے تھے — انہوں نے ہائر کورٹ میں شہنشاہ کے بے جا اثر ،خوف اور اس کے ولولے کے خلاف اپیل کی-وہ اسے ثابت کرنے کے لیے لمبی چوڑی بحث سامنے لائے ” ایمان کو بد عتیوں کے ساتھ منسلک نہ کیا جا ئے اور نہ ہی کسی ایسے شخص کے ساتھ جس کے بارے میں بدعتی ہونے کا شک ہو- خواہ ان کے پاس فرمانرواہ یا بادشاہ کی طرف سے سلامتی کا پروانہ ہی کیو ں نہ ہو- Jaeques Lanfent, history of the council of cansTance,vol.1 p.516AK 102.3
ہس پر قید اور بیماری سے سخت کمزوری واقع ہوئی — رطوبت اور عقوبت ضانے کی وجہ سے اسے سخت بخار آنے لگا جس نے تقریبا اس کی زندگی تمام کر دی- بالآخر پس کونسل کے سامنے لایا گیا- زنجیروں سے جکڑا ہوا وہ فرمانروا کے سامنے کھڑا ہوا، جس کے سامنے اچھے ایمان اور توقیر نے اس کی حفاظت کی حامی بھری تھی- لمبی ٹرائل کے دوران اس نے بڑی ثا بت قدمی سے سچائی کی تائید کی- اور کلیسیا اور ریاست کے اعلے عہدہدار ان کے رو برو اس نے بڑی سنجیدگی سے مذہبی حکومت کی کرپشن کے خلاف احتجاج کیا — اور جب اسے پوچھا گیا کہ کیا تم اپنی اس تعلیم سے دستبردار ہونا چاہوگے یا موت کا انتخاب کرنا چاہو گے- تو اس نے بلا تامل شہید کی موت کو تر جیح دی- AK 102.4
خدا کے فضل نے اس کی دستگیری کی-کئی ہفتوں کی تکلیف اس کے آخری فیصلے کے واتھ جاتی رہی — اور آسمانی سلامتی سے اس کی روح معمور ہو گئی ” میں یہ خط اپنی جیل سے لکھ رہا ہوں —میرے ہاتھ زنجیروں سے جکڑے ہیں — اور صبح میری موت متوقع ہے”- یہ اس نے ایک دقست کو کہا “اس کے بعد مسیح یسوع کی مدد سے ہم مستقبل کی زندگی ابدی اور شیریں آرام میں ایک دوسرے سے ملیں گے- پھر آپ جان پائیں گے کہ رحیم خداوند کس طرح مجھ پر ظاہر ہوا، اور اس نے کس طرح آزمائشو ں کے دوران موثر انداز میں میری حمایت کی“- Bonnechose, vol.2 p.67AK 103.1
اپنی کال کو ٹھری میں اس نے حقیقی ایمان کی پیشگی فتح کو دیکھا- وہ اپنے خوابوں میں پراگیو کی چیپل میں پہنچا جہاں اس نے انجیل کی منادی کی تھی- اس نے وہاں پوپ اور اس کے بشپوں کو دیکھا جو مسیح یسوع کی تصویروں کو جو چیپل کی دیوارں پر پینٹ شدہ تھیں ، انہیں ملیا میٹ کر رہے ہیں — اس رویا سے وہ سخت پریشان ہوا — مگر اگلے ہی روز اس نے بہت سے پینٹرز کو دیکھا کہ وہ کئی گنا زیادہ تعداد میں اس تصویروں کو بحال کر رہے ہیں- اور ان کے رنگ پہلی پینٹنگ کے مقابلے میں زیادہ روشن ہیں- جب ان کا کام ختم ہوا تو ان پینٹرز نی اس بڑی بھیڑ کو بتایا جو انہیں گھیرے ہوئی تھی — “اب بیشک پوپ اور بشپ آئیں —وہ انہیں کبھی نا مٹا سکیں گے” ریفارمر نے اپنے خوابوں کی یوں تفسیر کی- ” میں یقینی طور پر کہ سکتا ہوں کہ مسیح یسوع کی شبیہ کبھی بھی ملیامیٹ نہیں ہو سکتی- انہوں نے اسے تباہ کرنے کی کوشش کی تھی — مگر اب یہ ان مبشرین کے زریعہ ہر ایک دل میں از سر نو پینٹ ہو چکی ہے جو مجھ سے کہیں بہتر ہیں“- D'aubigne,B.1 Ch.6AK 103.2
آخری بار ہس ایک کونسل کے سامنے پیش ہوا — یہ بہت بڑی اور ذہین کونسل تھی جس میں سلطان مملکت کے شہزادے ، شاہی پارلیمنٹ کے نمائندگان ، کارڈینلز ،بشپس اور پریسٹس اور ان کے علاوہ بہت بڑی بھیڑ تھی جو اس دن اس واقعہ کا نظا رہ کرنے آئی تھی —تمام مسیحی سلطنتوں سے لوگ جمع ہوئے تھے تاکہ اس پہلی بڑی قر بانی کے گواہ بن سکیں جو ضمیر کی آزادی کو محفوظ کرنے کے لئے دی جا نے والی تھی- AK 103.3
آخری فیصلے کے بلانے پر ہس نے اعلان کیا کہ وہ اپنی تعلیم سے دست بردار نہ ہوگا- اور پھر اس فرمانروا پر جس کے قول کی بڑی دیدہ دلیری سے خلاف ورزی کی گئی تھی نظریں جما کر اس نے کہا ” میں اس کونسل کے سامنے اپنی آزاد مرضی سے پیش ہونے کا مصمم ارادہ کر چکا ہوں — کیونکہ اس میں مجھ لوگوں کا تحفظ اورفرمانروا کا اعتماد حاصل ہے (Bonnechose, vol.2 p.84)“ — جب ساری کونسل کی نظریں سیگس منڈ پر جمی ہوئی تھیں تو اس کا چہرہ شرم سے قرمزی ہو گیا- AK 104.1
سزا کا حکم صادر ہو گیا اور رسوائی کی رسم شروع ہوئی- بشپس نے اپنے قیدی کو پادریوں کے متبرک لباس میں ملبوس کیا جب ہس نے پاسبانی کا لباس لیا تو کہا ” ہمارے آقا مسیح یسوع کو اس وقت سفید لباس میں ملبوس کیا گیا تھا جب ہیرودیس نے اسے پیلاطس کے پاس بھیجا تھا“ (Ibid.vol.2p.86) - جب اپنے دعوی سے دست بر دار ہونے کے لیئےاسے دوبارہ کہا گیا تو اس نے لوگوں کی جانب منہ کر کے کہا ” پھر میں آسمان کو کیا منہ دکھائوں گا ، میں اس بھیڑوں کو کیا منہ دکھائوں گا جنکے رو برو میں نے مقدس انجیل کی منادی کی ہے؟ نہیں ، میں اس حقیر بدن کی نسبت جس پر موت کا حکم صادر ہوا ہے ، ان کی نجات کے واسطے ذیادہ فکر مند ہوں ”- رسمی کپڑے خادمانہ پوشاک ایک ایک کر کے اتارے گئے — ہر ایک بشپ رسم ادا کر نے آتا تو لعنتیں بھیجتا — آخر کارانہوں نے کاغذ کی مخروطی تاج جو بشپ پہنتے ہیں بنا کر ہس کے سر پررکھا- جس پر بدروحوں کی ڈراونی اشکال چھپی تھیں اور پھر لکھا تھا ” سب سے بڑا بدعتی اور سازشی”- اس پر ہس نے بڑی خوشی سے کہا ” مسیح یسوع میں تیری خاطر اس شرمناک تاج کو پہنوں گا کیونکہ تو نے میری خاطر کانٹوں کا تاج پہنا”- AK 104.2
جب اسے یوں آراستہ کر دیاگیا تو چرچ کے اعلی عہدیداران نے کہا ” اب تیری روح کو ابلیس کی بھینٹ چڑھاتے ہیں “ اور ہس نے اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھا کر کہا ” میں جانِ ہس ، اپنی روح ، اے میرے آ قا مسیح یسوع تیرے ہاتھوں سونپتا ہوں — کیونکہ تو ہی نے مجھے نجات بخشی ہے “-Wylie, B.3, ch.7.AK 104.3
پھر اسے دینوی اربابِ اختیار کے ہاتھ سونپ دیا تاکہ وہ اسے پھانسی چڑھانے کی جگہ لے جائیں — ایک بہت بڑی بھیڑ اس کے پیچھے پیچھے آرہی تھی- سینکڑوں اسلحہ بردار مرد، پریسٹس اور بشپ قیمتی لباس میں ملبوس اور ان کے علاوہ کانسیٹینس کے باشندے اس بھیڑ میں شامل تھے- جب اسےسولی پر باندھ دیا گیا اور جلانے کی تیاریاں مکمل تھیں تو ایک بر پھر اسے ترغیب دی گئی کہ وہ خود کو بچالے اور اپنی خطاوں کا اعتراف کرلے- ”کون سی خطائیں“ ہس نے کہا ”جن سے میں دستبردار ہو جاوں ؟میں جانتا ہوں کہ میں کسی بات کا قصوروار نہیں- میں خدا کو حاظر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا اور جس کی منادی کی وہ لوگوں کو گناہ اور جہنم کے عذاب سے بچانے کے نقطئہ نظر سے تھی- اور اب جسے میں نے لکھا اور جس کی میں نے منادی کی اسی صداقت کی بڑی خوشی کے اپنے خون کے ساتھ تصدیق کر تا ہوں“- IBID.B.3 ch.7AK 104.4
جب شعلے اس کی چاروں طرف بھڑک اٹھے تو اس نے گانا شروع کیا ” اے یسوع، ابن داود مجھ پر رحم کر”- اور اس وقت تک گاتا رہا جب تک اس کی آواز ہمیشہ کی لیے خاموش نہ ہو گئی- حتی کہ اس کے دشمن بھی اس کی بہادرانہ برداشت پر انگشت بدنداں رہ گئے — پوپ کی حکومت کے ایک بہت ہی جوشیلے حامی ہس اور جیروم کی شہادت کے بارے میں کہا ،جیروم نے ہس کی شہادت کے بعد جلد ہی جام شہادت نوش کر لیا تھا، ” جب ان دونوں ک آخری وقت قریب آیا تو انہوں نے سب کچھ ثابت قدمی سے برداشت کیا- وہ جلنے کے لیے یوں تیار ہوئے جیسے کسی شادی کی ضیافت پر جانے کو ہیں- انہوں نے کسی طرح کا واویلا نہ کیا — جب شعلے بھڑ کے ، وہ گیت گانے لگے اور آگ کی شدت ان کے گیتوں میں کمی واقع نہ کر سکی“- IBID.B.3 ch.7AK 105.1
جب ہس کا بدن پوری طرح جل کر راکھ ہوگیا، تو اس کی راکھ مع اس مٹی کے جس پر اس کا جسم پڑا تھا جمع کر لی گئ اور رائن(Rhine) میں بہا دی گئی- جو وہاں سے بہتے بہتے بڑے سمندر میں جا گری اسے ایذا دینے والوں نے فضول یہ خیال کیا کہ ہم نے اس صداقت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے جس کی اس نے منادی کی تھی- انہوں نے یہ زرا بھی نا سوچا کہ وہ راکھ جہ انہوں نے بہا دی ہے وہ ایک بیج کی طرح دنیا بھر کے تمام ممالک میں جا پہنچی ہے —بلکہ جو ممالک اس وقت تک دریافت نہ بھی ہوئے تھے ان میں بھی یہ سچائی کی گواہی کے طور پر بڑا پھل لانے کو تھی- وہ آواز جو کانسٹینس ہال میں سنی گئی اس کی باز گشت آنے والے تمام زمانوں میں بھی سنی گئی —ہس تو رہا نہیں- مگر وہ صداقت جس کے لیے اس نے اپنی جان دی نہ کبھی برباد ہوئی اور نہ ہو گی- اس کے ایمان کا نمونہ جات اور ثابت قدمی ان گنت لوگوں کو حوصلہ بخشے گی کہ وہ سچائی کے لیے سینہ سپر ہو جائیں — خواہ سامنے موت ہویا اذیتیں- اس کی موت نے روم کی غداری اور ظلم کو تمام دنیا پر ظاہر کر دیا ہے- سچائی کے دشمن ، گوہ وہ نہیں جانتے تھے کہ جسے وہ برباد کرنے جا رہے ہیں ، حقیقت میں اسی کے مقصد کو نہ جانتے ہوئے آگے بڑھا رہے ہیں AK 105.2
ابھی ایک اور سولی کانسٹینس میں گڑی جانے کو تھی- ایک اور گواہ کے خون کو صداقت کی تصدیق کرنا تھی — جب جیروم نے کونسل کے سامنے پیش ہونے کو الوداع کہا تھا تو اس نے اسے ہمت اور ثابت قدمی کے لئے ترغیب دی تھی اور کہا تھا کہ اگر وہ کسی عذاب مین مبتلا ہو جائے تو وہ اس کی مدد کو پہنچ جائے گا- ہس کی قید و بند کے بارے سن کر شاگرد فورا اپنا وعدہ پورا کرنے کے لئے تیار ہو گیا- بغیر کسے سلامتی کونسل کے وہ کانسٹینس کے لئے روانہ ہو گیا- جب وہاں پہنچا تہ اسے احساس ہو گیا کہ وہ حس کی رہائی کے لئے کچھ نہیں کر سکتا تھا، برعکس اس کے اسے پورا پورا ےیقین ہو گیا کہ وہ بھی عذاب میں پھنس جائے گا- چناچہ وہ شہر سے بھاگ گیا —مگر اسے گھر کی طرف جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا- اور اسے سپاہیوں کی بھاری نفری میں بیڑیوں سے جکڑ کر واپس لایا گیا — کونسل کے سمنے پہلی پیشی کے وقت وہ ان الزامات کا جواب دینا چاہتا تھا جو اس کے خلاف لگا ئے گئے تھے، مگر وہ سب کچھ شور شرابے کی نظر ہو گیا ، لہذا فرمان جاری کیا گیا کہ ” اسے شعلے کے حوالے کیا جائے “ — Bonne chose, vol.1 p.234AK 106.1
اسے بھی ویسے ہی غلیظ عقوبت خانے میں بیڑیوں میں جکڑ کر اس پوزیشن میں رکھا گیا جس سے اسے نہایت اذیت پہنچی — وہاں اسے صرف روٹی اور پانی دیا گیا — چند ماہ کے بعد عقوبت خانے کا ظلم و ستم اور بیماری اس کی جان کا خطرہ بن گیا- اور اس کے دشمن ڈرتے تھے کہ اس کہ منہ سے کچھ ہمارے خلاف نہ نکل جائے — اس لیے اس پر کم سختی کرنے لگے- تاہم وہ ایک سال تک قید رہا- AK 106.2
ہس کی موت سے وہ نتیجہ برآمد نہ ہوا جس کی پوپ کو امید تھی- اس کی سلامتی کی ضمانت کی خلاف ورزی نے نفرت کا طوفان کھڑا کر دیا — چناچہ محفوظ رامتہ اختیار کرتے ہوئے کونسل نے تہیہ کیا کہ جروم کو آگ کی نظر کرنے کی بجائے اگر ممکن ہو ات اس قدر مجبور کیا جائے گا کہ وہ امنے دعوی سے دستبردار ہو جائے — اسے اسمبلی کے سامنے لایا گیا اور اسے موقع دیا گیا کہ وہ اپنی تعلیم سے دستبردار ہو یا سولی چڑھنے کے لیے تیا ر ہو جائے- قید و بند کے شروع میں وہ ایسی ہو لناک اذیتوں میں سے گزرا تھا جس کے مقابلے میں موت رحم کے برابر تھی- لیکن اب بیماری اور عقوبت خانے کی لرزہ خیز سردی، اضطراب، گومگو کی کی زندگی، دوست و احباب سے علیحدگی اور ہس کی موت کی دلگیری کے باعث وہ بہت زیادہ کمزور ہو چکا تھا، جیروم کے صبر اور برداشت کا پیالہ لبریز ہو چکا تھا- چنانچہ اس نے عہد کر لیا کہ وہ کیتھولک ایمان کے ساتھ چمٹا رہے گا اور کونسل کے ایکشن کو مان لیا کہ وہ وکلف اور ہس کی تعلیم سے دست بردار ہو جائے گا بلکہ ان کو ملاامت کرے گا — اور ان مقدس سچائیوں کی بھی جن کی انہوں نے تعلیم دی ہے-Ibid.vol.2p.141 اس نے اپنی اس تدبیر سے ضمیر کی آواز کو چپ کرانے اور موت سے بچنے کی کوشش کی- مگر پھر اچانک اپنی قید تنہا ئی میں اس نے جو کچھ کیا تھا اسے بڑی صفائی سے دیکھا — اس نے ہس کی ہمت اور ایمان کو دیکھا- اور اس کے برعکس اس نے خود کو سچائی کا انکار کرتے ہوئے دیکھا — اس نے اپنے الہی آقا کو دیکھا جس کی خدمت کرنے کا اس نے عہد کیا تھا- اور جس نے اس کی خاطر صلیبی موت گوارا کی تھی — اس سے پہلے کہ وہ غلطی کا اعتراف کرتا اسے تمام مصیبتوں کے دوران اطمینان مل گیا- اسے خداوند کی حمایت کا قول مل گیا- لیکن اب پچھتاوے اور شکوک نے اس کی روح کو چھلنی کر دیا- وہ جانتا تھا کہ روم کے ساتھ بخیر و خوشی رہنے کے لیے ایک بار پھر غلطی کا اعتراف کرنا ہوگا- جس راہ میں وہ داخل ہو رہا تھا وہ مکمل طور سے بر گشتگی پر ختم ہونے کو تھی- ان ساری باتوں کا تجزیہ کیا گیا — اس نے سوچا کہ وہ تھوڑی دیر کی مصائب سے بچنے کے لئے اپنے آقا کا انکار نہیں کر سکتا تھا- AK 106.3
جلد ہی وہ دوبارہ کونسل کے سامنے پیش کیا گیا — مصنفین اس کی اطاعت سے تسلی پذیر نہ ہوئے — ہس کی موت سے ان کی خون کی وہ پیاس بھڑک اٹھی تھی جو اب اس تازہ شکار کا تقاضا کر رہی تھی — انہوں نے کہا کہ اگر جیروم نے اپنی زندگی بچانی ہے تو غیر مشروط ہماری اطاعت قبول کرے- مگر وہ اعتراف کر چکا تھا کہ وہ اپنے شہید بھا ئی کے نقش قدم پر چل کر خود کو شعلوں کے حوالے کر دے گا- AK 107.1
وہ اپنے پہلے اعتراف سے دست بردار ہوگیا اور ایک مرنے والے شخص کی طرح اپنا دفاع کر نے کی لیے بڑی سنجیدگی سے موقع مانگا- اس کے کلام کی تاثیر سے گبھرا تے ہوئے کلیسیا کے اعٰلے عہد داران اس بات پر بضد ہو گئے کہ جو اس الزامات لگائے گئے ہیں ان کی صرف تصدیق یا تردید کرے- جیروم نے کلیسیا کے مظالم اور بے انصافی کے خلاف احتجاج کیا” تم نے مجھے 340 دن غلیظ قیدِ تنہا ئی میں رکھا — جہاں شور شرابہ کان پھاڑ دیتا تھا- جہاں ضروریاتِ زندگی کی ہر شے کی کمی تھی — پھر تم نے مجھے اپنے سامنے پیش کیا- اور میرے خون کے پیاسے دشمنوں کی بات سنی اور میری باتوں کو سننے سے انکار کر دیا ، اگر تم میں کچھ حکمت ہے، اور دنیا کا نور ہو تو انصاف کے خلاف گناہ نہ کرو — جہا ں تک میرا تعلق ہے میں تو ایک کمزور فانی پر مبنی سزا نہ دو- تو یہ میں آپ کے بھلے کے لئے کہہ رہا ہوں ، اپنے لئے نہیں” Ibid.vol.2 p.146-147AK 107.2
آخر کار اس کی بولنے کی درخواست منظور کر لی گئی — وہ اپنے ججز کی موجودگی میں گھٹنے نشین ہو گیا — اور یہ دعا مانگی — اے الہیٰ روح میر ے خیالات اور الفاظ کو کنٹرول کر تاکہ میں سچائی کے خلاف کچھ بھی نہ بولوں- اور کوئی ایسا کلام نہ کروں جو میرے آ قا کے جلال کے خلاف ہو — اس دن خدا نے جو اپنے پہلے شاگردوں سے وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا” اور تم میرے سبب سے حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کئے جائو گے تاکہ انکے اور غیر قوموں کے لئے گواہی ہو- لیکن جب وہ تم کو پکڑائیں تو فکر نہ کرنا کہ ہم کس طرح کہیں یا کیا کہیں کیونکہ جو کچھ کہنا ہو گا اسی گھڑی تم کو بتایا جائےگا — کیونکہ بولنے والے تم نہیں بلکہ تمہارے باپ کا روح ہے جو ت میں بولتا ہے” AK 108.1
جیروم کے کلام نے حیرت اور مدح کو اکسایا — یہاں تک کہ اس کے دشمن بھی اس کی مدح کرنے لگے — پورا سال وہ جیل میں بند رہا — جہاں وہ جسمانی ایذا اورذہنی کوفت کے باعث لکھ پڑھ نا سکتا تھا اور نہ دیکھ سکتا تھا — اس کے باوجود اس کے دلائل اس قدر واضح اور مضبوط تھے جیسے اسے بلا روک ٹوک مطالعہ کا موقع ملتا رہا ہو- اس نے اپنے سامعین کی توجہ مقدسین کی لمبی فہرست کی طرف مبذول کرائی جن پر بے انصاف قاضیوں نے الزامات لگا ئے تھے- تقریبا ہر پشت میں ایسے لوگ رہے ہیں اپنے زمانے کے لوگوں سرفراز کرنا چاہتے تھے مگر ان کی تحقیر کی گئی اور ینہیں ترک کر دیا گیا- اگرچہ بعد میں یہ بھی تسلیم کر لیا گیا کہ وہ قدرومنزلت کے حقدار تھے —مسیح یسوع خودناراست ٹربیونل کے ہاتھوں ایک گنہگار کے طور پر ملعون قرار دیا گیا — جیروم نے اپنی اس رائے کو واپس لیا کہ قاضیوں نے ہس کو جو سزا سنائی تھی وہ واجب تھی — اس نے توبہ کا اعلان کیا اور شہید کی پاگیزگی اور معصومیت کی گواہی دی- اس نے کہا ” میں اسے اس کے بچپن سے جانتا ہوں — وہ نہایت ہی اعلی شضصیت کا مالک تھا — پاک اور انصاف پسند- مگر اس کی معصومیت کے باوجود اس پا الزامات لگائے گئے- میں بھی مرنے کے لئے تیار ہوں- میں اس اذیتوں سے پسپا نہیں ہوں گاجو میرے دشمنوں اور جھوٹے گواہوں نے تیار ک رکھی ہیں — انہیں ایک دن اپنی مکاری کاا حساب اس عظیم خداوند کے سامنے دینا ہوگا- جسے کوئی چیز فریب نہیں دے سکتی”- Bonne chose, vol.2 pp.151AK 108.2
سچائی کا انکار کر نے پر اس نے اپنے آپ کو سرزنش کر تے ہوئے کہا ” اپنی جوانی سے لیکر اب تک جتنے گناہ مجھ سے سر زرد ہوئے ہیں میرے ذہن پر ان کا نہ تو اتنا بڑا بوجھ محسوس ہوا اور نہ ندامت اور الجھن ، جتنی اس مقتل گاہ میں اس وقت جب میں نے اس ناحق سزا کو جو وکلف اور مقدس شہید ہس کو دی گئی حق بجانب تھا جو میرا دوست اور استاد بھی تھا- میں دل کی گہرائیوں سے اپنی غلطیوں کا اقرار کرتا ہوں — کیونکہ میں نے خوف ذدہ ، شرمندہ اور پست ہمت ہو کر موت کے خوف سے ان کی تعلیمات پر لعنت بھیجی تھی — اس لیے میں قادرِ مطلق یہواہ سےملتجی ہوں کہ وہ اپنے رحم و کرم کی بدولت میری خطائیں معاف فرمائے- “قاضیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ثابت قدمی سے اس نے کہا ” آپ نے وکلف اور جان ہس کو موردِالزام ٹھہرایا- اس لیے نہیں کہ انہوں نے کلیسیا کی تعلیم کو سبوتاژ کیا تھا- بلکہ انہوں نے پادریوں کی بدمعاشی ،سان و شوکت اور غرور اور تمام کلیسیا کے اعلےٰ عہدہداران اور پریسٹس کی برائیو ں کے خلاف آواز بلند کی تھی — اس کے لئے انہیں سزا سنائی گئی- یہ ایسی برائیاں ہیں جن کی کوئی حمایت نہیں کر سکتا- میں بھی ایسا ہی AK 109.1
سو چتا ہوں جیسا ان کا خیال تھا” — اسے مزید بولنے سے روک دیا گیا- چرچ کے عہدہداران غصہ سے لرزنے لگے- اور چلا کر کہا “اب ہمیں مزید ثبوت کی کیا ضرورت ہے؟ ہم نے اپنی آنکھوں سے سرکش برگشتہ کو دیکھ لیا ہے”- ہلڑ سے بے نیاز ہو کر جیروم نے پو چھا ” کیا تم سوچتے ہو کہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں ؟ تم نع سال بھر مجھے ہولناک عقوبت خانے میں رکھا ہے جو موت سے بھی زیادہ وحشت ناک تھا- تم نے مجھ سے ترک یہودی اور بت پرست سے زیادہ برا سلوک کیا ہے- جبکہ میرے ہڈیوں پر کا یہ گوشت گل سڑ گیا ہے ، اس کے باوجود میں نے کوئی شکایت نہیں کی- مگر مجھے ایک مسیحی کے ساتھ تمہارے اس طرح کے وحشیانہ سلوک پر حیرت ہوئی ہے” Ibid.vol.2p.151-152AK 109.2
غصے کا طوفان پھر برپا ہوا — اور جیروم کو جلدی جلدی جیل منتقل کر دیا گیا- مگر اسمبلی میں کچھ لوگ ایسے تھے جن پر اس کی باتوں کا گہرا اثر پڑا وہ اس کی جان بچانے کے خواہاں تھے- چرچ کے کچھ معززین اسے ملے اور اسے ترغیب دی کہ وہ خود کو کونسل کے تابع کر دے- اور اسے اعلےٰ مراعات کی پیشکش کی گئی اس شرط پہ کہ وہ روم کی مخالفت کر نا ترک کر دے- مگر اپنے آقا کی طرگ جب اسے دنیا کی چان و شوکت کی پیشکش کی گئی ، جیرام ثابت قدم رہا- اس کا اصرار تھاکہ ” کلامِ مقدس سے یہ ثابت کریں کہ میں غلطی پر ہوں تو میں اپنے دعوی سے دست بردار ہو جائوں گا”- “کلامِ مقدس “ایک آزمانے والے نے حقارت سے کہا “ہر ایک بات تو ان کلیسیا کے والوں کے ذریعہ قائم کی جاتے ہے؟اور جب تک کلیسیاِروم ان کی تفسیر نہ کرے کون انہیں سمجھے گا؟”AK 109.3
جیروم کا جواب تھا” کیا انسانی روایات مسیحِیسوع کی انجیل سے ذیادہ قابل قدر ہیں؟ پولس رسول نے جن کو خطوط لکھے انہیں یہ نہیں کہاکہ انسانی روایات سنو — بلکہ یہ کہا کہ مقدس میں سے تحقیق کرو ” انہوں نے جواب میں اسے ” برگشتہ” کہا اور پھر جیروم نے کہا “میں کافی عر صہتم سے التماس کرتا رہا ہوں مگر اب میں اس سے توبہ کرتا ہوں میں دیکھ رہا ہوں کہ ابلیس تمھیں ابھار رہا ہے ” — Wylie, B.3, ch.10AK 110.1
اس کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد بحیثیتِ مجرم اسے موت کی سزا کا حکم سنا دیا گیا- اور اسے اسی جگہ پہنچا دیا گیا جہاں ہس نے اپنی جان دی تھی-وہ گاتا ہوا مرنے کی راہ پر رواں تھا، اس کا چہرہ خوشی اور اطمینان سے دمک رہا تھا- اس کی نظریں مسیح یسوع پر جمی ہوئی تھیں- اور موت کا خوف اس سے کافور ہو چکا تھا — جب جلاد لکڑیوں کے ڈھیر میں آگ لگانے کے لئے اس کی پچھلی طرف گیا تو اس نڈر شہید نے پکار کر کہا” بہادری سے سامنے آو- میری آنکھوں کے سامنے آگ لگاو- میری آنکھوں کے سامنے آگ لگاو- اگر میں ڈرنے والا ہوتا تو یہاں ہرگز نہ آتا “- AK 110.2
جب آگ نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا تو اس کے آخری الفاظ یہ تھے ” خداوند خدا قادر مطلق باپ مجھ پر رحم کر اور میرے خطا وں کو معاف فرما- کیونکہ تو تو جانتا ہی ہے کہ میں نے شروع سے ہی تیرس صداقتوں سے محبت رکھی ہے “-Bonne chose, vol.2 pp.168 اس کی آواز بند ہو گئی مگر اس کے ہونٹ دعا میں بدستو ر ہلتے رہے- جب آگ اپنا کام کر چکی تو شہید کی راکھ اور وہ مٹی جس پر اس کا جسدِخاکی پڑا تھا جمع کر لی گئ- اور جیسے دوسےر شہیدوں کی راکھ کع رائن(Rhine) دریا یں ڈالا گیا تھا اسی طرح جیروم کی راکھ کو بھی رائن مین ڈالا گیا- AK 110.3
یوں یہ خدا کے وفادار شمع بردار شہید کر دئے گئے- مگر اپنے نمونے سے انہوں نے جو شمع روشن کی ہے اور جب صداقتوں کی انہوں نے منادی کی تھی ان کی تجلی تا قیامت مدھم نہ پڑ سکے گی- یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کہ اگر کوئی انسان سورج کو واپس اس کے راستے پر بھیجنے کی کتنی ہی تگ و دو کیوں نہ کر لے تاکہ صبح نمودار نہ ہو ،لیکن دنیا پر سورج ضرور چمکے گا- ہس کی موت نے بوہمیا میں نفرت کے شعلے اور شورش پھیلا دی — ساری قوم نے یہ محسوم کیا کہ اسے پریسٹس کے بغض اور شہنشاہ کی ٰداری کی بھینٹ چڑ ھا یا گیا تھا- اسے “سچائی کا وفادار استاد” قرار دیا گیا اور جس کونسل نے اسے سزا سنائی تھی اسے قتل کا مجرم- اس کی تعلیم نے لوگوں کو اب جتنا اپنی طرف متوجہ کیا اس سے پہلے کبھی نہ کیا تھا- پوپ کے حکم سے وکلف کی تحریرات نطرِ آتش کر دی گئیں- لیکن جو بچ گئیں وہ ان جگہوں سے باہر آنا شروع ہو گئیں جہاں انہیں چھپایا گیا تھا اور اس کو بائبل کے ساتھ پڑھا جانے لگا- یا اس کے کچھ حصے جو لوگ حاصل کر پائے اور یوں ینۃوں نے اصلاح دین کی تعلیم کو قبول کر لیا- AK 111.1
ہس کے قاتل آرام سے بیٹھے اس کے مقصد کو کامیابی کر بڑھتے دیکھ نہ سکتے تھے- اسلئے بادشاہ اور پوپ متحد ہوگئے تاکہ اس تحریک کو کچل دیں- چنانہ سیگس منڈ (Sigismund)کی فوجوں نے بوہمیا پر چڑھا ئی کر دی- مگر ایک مخلصی دینے والا پیدا کر دیا گیا، زسکا(Ziska) جو لڑائی شروع ہونے کے فورا بعد کلی طور پر اندھا ہو گیا، تاہم وہ اپنے زما نے کا قابل ترین جرنیل تھا اور وہی بوہمیا کی کمان کر رہا تھا- خدا کی مدد پر بھروسہ اور اپنے مقصد کی راستبازی کے سبب اس پر فوج کے مقابلہ میں وہ ان کے مدِ مقابل ڈٹ گیا جس نے ان پر چڑھائی کی تھی- بوہیمیا پر حملہ کر نے کے لئے شہنشہاہ بار بار تازہ کمک مہیا کرتا، مگر وہ رسوائی کے ساتھ پسپا ہو جاتی، ہس کے شاگرد موت کو خاطر مین نہیں لاتے تھے- اس لئے اس کے مقابلے میں کوئی کھڑا نہ ہو سکا- لڑائی شروع ہونے کے چند سال بعن زسکا وفات پا گیا- مگر اس کی آسامی پروکیپس(Procopius) نے پر کر دی- جو اسی طرح لائق اور آزمودہ کار جنرل تحا اور ایک لحا ظ سے بہتر لیڈر بھی- AK 111.2
جب بوہیما کے دشمنوں کو یہ پتہ چلا کہ اندھا جنگجو مر چکا ہے تو انہوں نے جو کچھ کھویا تھا اسے پانے کے لئے اسے بہترین موقع خیال کیا- پوپ نے ہس کے پیروکاروں کے کلاف کروسیڈ(Crusade) کا اعلان کر دیا- یوں ان گنت فوج بغیر سو چے سمجھے بوہمیا پر حملہ کر بے کے لئے بھیج دی- مگر اسے شرمناک شکست کا سامنا کر نا پڑا- پھر دوسری کرعسیڈ کا اعلان کیا گیا — یورپ کے وہ تمام ممالک جو و پو پ کے حمایتی تھے انہوں نے فوج ، پیسہ اور جنگی سامان فراہم کیا- بہت بڑا ہجوم پوپ کے جھنڈے تلے جمع ہو گیا جنہیں یقین دلایا گیا کہ آخرکار ہس کے برگشتہ لوگوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا- فتح کے گمان میں بہت بڑی فوج بوہیمیا میں داخل ہو گئی- کئی لوگ تو دل لگی کے لئے بھی ان کے درمیان دریانہ آگیا- کروسیڈ بہت بڑی اور اعلےٰ تربیت یافتہ فوج تھی- لیکن ندی کر پار جانے کی بجائے صرف ادھر کھڑے ہو کر خاموشی کو ساتھ ہس کے جنگجووں کو دیکھتے رہے- AK 111.3
پھر اچانک پوپ کے حامیوں کی فعج پر پراسرار دہشت چھا گئی اور بعیر کسی دنگا فسان کے یہ قوی فوج تباہ ہو گئی اور وہ ادھر ادھر تتر بتر ہو گئی جیسے کہ کسی اندیکھی قوت نے ینہیں بھگا دیا ہو- ہس کی آرمی نے پیچھا کر کے بے شما ر لوگوں کو ذبح کر دیا- اور ان کے ہاتھ بہت سا مالِ غنیمت لگا- بوہیمیا مفلوک الحال ہونے کی بجائے مالدار ہو گیا- AK 112.1
چند سالوں کے بعد نئے پوپ کی زیر کمان ایک اور کروسیڈ کا اعلان کیا گیا — پہلے کی طرح یورپ کے ان تمام ممالک سے جو پوپ کے حاپی تھے فوج، اسلحہ اور دوسرا جنگی سامان اور دیگر ذرائع حادل کئے گئے اور جو اس خطرناک عظیم کام میں حصہ لینے والے تھے انہیں ترغیب دینے کے لئے ان سے بہت کچھ کہا گیا — مثلا یہ کہ ہر کروسعڈ کر لڑاکوں کے بڑے بڑے گناہ کی مکمل معافی اور جو جنگ میں مر جائیں ان کے لئے آسمان میں بہت بڑے اجر کا وعدہ- جو زندہ بچیں گے ان کو بہت بڑا نعام واکرام اور عزت و توقیر سے نوازنا- ایک بار پھر بہت بڑی فوج جمع ہوگئی- شروع میں تو ہس کی فوجیں ان کے سامنے پسپا ہو گئیں — یوں وہ حملہ آوروں کو دور دور تک ملک کے اندر لے آئیں —ظاہر کیا گیا کی جیسے پوپ کی فوجوں نے فتح حاصل کر لی ہو- ازاں بعد جنرل پروکوپیس کی فوجیں موابلہ کے لئے ڈٹ گئیں اور دشمن پر ٹوٹ پڑیں اور ینہیں جنگ کے لئے للکارا- اب کروسیڈ کو اپنی ظلطی کا احساس ہو گیا یہ لوگ اپنی چھاونی میں چھپے ہوئے تھے مناسب حملے کا انتظا ر کر رہے تھے- ہس کی فوجیں گو اس کی نظراں کے سامنے تھیں انہیں ایسے لگا جیسے کسی اور طرف سے بھی فوجیں چڑھے آ رہی ہیں — کروسیڈ پر بے بنیاد خوف چھا گیا- شہزادے ، جنرلز اور تمام فوجی اپنے ہتھیار پھینک کر چاراں اظراف کو بھاگ نکلے- پوپ کا ایک قانونی نمائندہ جو اس حملے میں انکا لیڈر بھی تھا اس نے ان خوفزدہ اور غیر منظم فوجوں کواکھٹا کر نے کی کوشش کی مگر اپنی انتھک کوشش کے باوجود وہ خود بھگوڑوں کی یکا لہر میں بہ گیا- کوچ کا حکم ے دیا گیا- اور فاتحین کے ہاتھ بہت سا مال ِغنیمت لگا- AK 112.2
یوں یہ دوسری بار بہت بڑی آرمی یورپ کی طاقتور قوموں کی طرف کی طرف سے بھیجی گئی تھی- یہ دلیر فوجیں، جنگجو آدمی ، تربیت یافتہ، جنگی حرب سے لیس، مگر بغیر کسی جھڑپ کے ایک کمزور قوم کی معمولے سی آرمی کے سامنے بھاگ نکلی- یہاں الہی قوت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا- حملہ آور فوق الفطرت خوف سے مغلوب ہو گئے- وہ جس نے بحر قلزم میں فرعون کی فوجوں کو ڈبویا ، وہ جس نے مدیانوں کی فوجوں کو جدعون اور اس کے تین سو مردوں کے آگے سے بھاگنے پر مجبور کر دیا، وہ جس نے ایک ہی رات میں اسواریوں کی فوج کو ملیامیٹ کر دیا، اسی نے اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ ظالموں کی قوت خاک میں ملادے- “وہاں ان پر بڑا خوف چھاگیاگو ظاہرا خوف کی کوئی بات نہ تھی- “کیونکہ خداوند نے ان کی ہڈیاں جو تیرے خیمہ زن تھے بکھیر دیں- تو نے ان کو شرمندہ کر دیا اس لئے کہ خدا نے ان کو رد کر دیا ہے- زبور ۵:۵۳ —AK 113.1
پوپ کی قیادت نے دلبرداشتہ ہو کر اور یہ جان کر کہ وہ طاقت کے ذریعہ کامیاب نہیں ہو سکتی بالآخر اس معاملہ کو افہام و تفہیم اور سیا ست دانی کی طرف راغب کیا- سمجھوتہ یوں ہوا کے بوہیمیا کے باشندوں کو اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کر نے کا حق دے دیا گیا — در حقیقت یہ ا نہیں روم کے تابع کرنے کی ایک نئی چال تھی — روم کے ساتھ صلح کر نے کے لئے بو ہمین نے ۴ نقاط رکھے- AK 113.2
۱ بائبل کی منادی کی آزادی-AK 113.3
۲ عشائے ربانی میں تمام کلیسیا کا حق- AK 113.4
۳ الہی عبادت میں مادری زبان کا استعمال- AK 113.5
۴- پاسبانوں کا تمام غیر مذہبی عہدوں کی ممانعت اور اختیار سے دست برداری- ساور اگر ان سے کوئی جرم صادر ہو جائے ، تو ان پر بھی سول کورٹ جیسے کسی عام آدمی کا فیصلہ کرتا ہے ان کا بھی کریگا- AK 113.6
پوپ کے اربابِ اختیار نے چاروں نقاط مان لئے- اس شرط پر کہ ان کی تشریح کونسل کرے گا- دوسرے لفظوں میں پوپ اور شہنشاہ- (Wylie, b.3, ch.18)AK 113.7
ان بنیادوں پر معاہدہ ہو گیا- اور روم نے مکاری اور فراڈ سے ہس کی تعلیم اور بائبل کی تشریح کا حق خود لیکر وہ سب کچھ حاصل کر لیا جو وہ جنگ و جدل سے حاصل نہ کر پایا- کیونکہ اب وہ ان کی تشریح اپنے مقصد کے لئے توڑموڑ کر پیش کرنے کا ا ختیار رکھتا تھا- AK 113.8
بو ہمیا کی ایک بڑی کلاس نے دیکھا کہ ان کی آزادی کو دھوکے سے ہتھیا لیا گیاہے- اس لئے وہ اس معاہدے کی منظوری دینے کے خلاف ہو گئے- اختلاف رائےکی بنا پر تکرار اور ان بن شروع ہوگئی-تفر قے پیدا ہو گئےجس کی وجہ سے ان کے اپنے درمیان جھگڑا اور خون خرابہ شروع ہو گیا- پرو کوپیس(Procopius) بھی اس فساد کی نظر ہوگیا اور اور بوہمیاکی آزادیاں تباہ و برباد ہو گئیں- AK 114.1
سیگس منڈ (Sigusmund)جو ہس اور جیروم کو بھی دھوکہ دینے والا تھا بوہمیا کا بادشاہ بن گیا- بو ہمیا کے حقوق کے تحفظ کی قسم اٹھانے کے باوجود اس نے پوپ کی حمایت شروع کر دی- مگر روم کی فرمانبرداری سے اسے بہت ہی کم فائدہ پہنچا- کیونکہ اگلے ۱۱ برسوں تک اس کی زندگی اندیشوں اور جدوجہد میں گزر گئی- اس کی فو جیں پائمال ہو گئیں اور اس کا خزانہ فضول جدوجہد میں خالی ہو گیا- اور وہ اپنی سلطنت کو خانہ جنگی کے دہانے پر چھوڑ گیا- اور وصیت میں حکومت اس انسان کے نام چھو ڑ گیا جو بہت ہی بدنام تھا- AK 114.2
ہنگامہ آرائیاں، دنگاہ فساد اور خوں خرابہ طول پکڑ گئے- دوبارہ بیرونی فوجیں بوہمیا پر حملہ آور ہوئیں- اور اندرونی اختلاف کی وجہ سے قوم کی نظروں کو اصل مسئلے سے ہٹا دیا گیا- وہ جو انجیل سے وفادار تھے خونی ایذا رسانی کا شکار ہو گئے- AK 114.3
اپنے قدیم زمانہ کے بھائیوں کی طرح جو روم کے ساتھ معاہدے میں شامل ہوئے تھے انہوں نے بھی روم کی تعلیم کو قبول کر لیا- لیکن وہ جو قدیم اور حقیق ایمان سے لپٹے رہے انہوں نے ایک خاص کلیسیا کو قائم کر لی جس کا نام انہوں نے ” United Brothern“ رکھ لیا- ان کے اس قدم سے دوسری تمام جماعتیں انہیں بد دعا ئیں دیتی تھیں مگر ان کی ثابت قدمی کو زک نہ پہنچا سکیں- تاہم انہیں مجبور کر دیا کہ وہ جنگلوں اور غاروں میں جا کر پناہ حاصل کریں- اس کے باوجود وہ خدا کی عبادت کرنے اور اس کا کلام پڑھنے کے لئے اکٹھے ہوتے رہے- AK 114.4
بڑی رازداری سے پیامبروں کو مختلف ممالک میں بھیجا جاتا رہا تاکہ وہ ان سچائی کے فرمانبرداروں کا سراغ لگا ئیں جو یہاں وہاں چھپ چھپا کر بیٹھے ہوئے تھے- اور یوں ہوا کہ الپس(Alps) کے پہاڑوں میں ایک قدیم کلیسیا موجود تھی جس کی بنیاد کلامِ مقدس پر تھی اور جو روم کی کرپشن کے خلاف ہمیشہ سے احتجاج کرتے رہے تھے- Wylie, b.3, ch.19ان خبر رسانوں(Intelligence) کو بڑی خوشی سے قبول کیا جاتا تھا — یوں والد نسس مسیحوں کے ساتھ ان کی خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو گیا- AK 114.5
انجیل کے ساتھ ثابت قدم ہونے کے ناطہ بوہمیا کے لوگ اپنی ایذا رسانی کی تاریک ترین گھڑیوں میں ابھی تک آسمان کی طرف ، اس شخص کی طرح آنکھیں اٹھائے ہوئے تھے، جو صبح کا انتظا ر کرتا ہے- ابھی تک ان کی قسمت میں برے دن موجود تھے — مگر انہیں ہس کے پہلے الفاظ یاد تھے جو اس نے ان سے کہے تھے- اور پھر انہی الفاظ کو جیروم نے بھی دہرایا تھا کہ دن سے پہلے ایک صدی گزر سکتی ہے- اس کی تعلیم ماننے والوں کے لئے یہ باتیں ایسی تھیں جیسے یوسف نے اپنے قبیلے سے کیں جو مصر کی غلامی میں تھا- ” یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا میں مر تا ہوں اور خدا یقینا تمکو یاد کرے گا اور اس ملک سے نکالے گا”- پیدائش ۲۴:۵۰ پندرھویں صدی کے ختم ہونے کے قریب گواہی کا سلسلہ قدرے مدھم پڑ گیا مگر بھائیوں کی کلیسیا ترقی کرتی گئی- گو وہ اس وقت بھی مزاحمت اور چھیڑچھاڑ سے پوری طرح آزاد نہیں تھے- مگر مقابلتا بہت آرام میں تھے سولہویں صدی کے شروع میں ان کی کلیسیا وں کی تعداد بوہیمیا اور موراویا میں ۲۰۶ ہوگئی- EzrahaIII Gilleff, life and times of john huss, vol.2 p.257AK 115.1
دو بقیہ کس قدر خوش قسمت نکلے جو تباہی و بربادی اور آگ اور تلوار سے اس دن کر دیکھ سکے جس کی پیشنگوئی ہس نے کی تھی- Wylie, b.3, ch.19AK 115.2