Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
عظیم کشمکش - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    تیسواں باب - انسان اور شیطان کے مابین عداوت

    “میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تو اس کی ایڑی پر کاٹے گا” پیدائش 15:3AK 486.1

    انسان کے گنا ہ میں گرنے کے بعد شیطان پر سزا کا لہیٰ حکم بھی ایک پیشنگوئی ہے اور اس کا اطلا ق تما زبانوں پر دنیا کے خاتمے تک ہو تا ہے۔ اور یہ پہلے ہی بتا دیتی ہے کہ دنیا میں بسنے والی تمام نسلیں اس کشمکش میں شریک ہوں گی۔AK 486.2

    خدا وند نے کہا ‘’میں عدالت ڈالوں گا’‘ یہ عدالت فطری طور پر قائم نہیں ہوئی بلکہ جب انسان نے الہیٰ حکم عدولی کی اس کی فطرت میں تبدیلی آگئی۔اور وہ ابلیس سے کچھ زیادہ مختلف نہ رہا۔ فطری طور پر گنہگار انسان اور گناہ کے بانی میں کوئی عداوت نہیں پائی جاتی۔ دونوں بر گشتگی کے باعث گنہگار ہوئے۔ برگشتہ شخص کو چین نہیں آتا مگر وہ دوسروں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انہیں بھی اپنا نمونہ اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی لئے گرائے گئے فرشتے اور بدکار لوگ بڑی شدت اور چاہت کیساتھ ایک دوسرے کیساتھ مل جاتے ہیں- اگر خداوند مداخلت نہ کرتا تو شیطان اور انسانی کنبہ دونوں آسمان کے خلاف اتحاد کر لیتے اور پھر ایک دوسرے کے خلاف عداوت رکھنے کی بجائے دونوں خداوند کے دشمن بن جاتے-AK 486.3

    شیطان نے انسان کو گناہ کرنے کے لیے بہکایا، بالکل اسی طرح جس طرح اس نے فرشتوں کو بغاوت پر آمادہ کیا تھا تاکہ آسمان کے خلاف جنگ کرنے کے لیے ان کا تعاون حاصل کر سکے۔ جہاں تک مسیح یسوع کے خلاف نفرت کا تعلق ہے تو ابلیس اور گرائے ہوئے فرشتوں میں اس بارے کوئی پیچھے نہیں تھا۔گو بعض نقاط پر ناچاکی تھی- مگر وہ کائنات کے مالک کی مخالفت میں سب پوری طرح متحد تھے- لیکن جب ابلیس نے سنا کہ عداوت اس کے اور عورت کے مالک کے درمیان ہو گی۔اس کی نسل اور عورت کی نسل کے درمیان رہے گی تو اس نے سمجھ لیا کہ انسان کی فطرت میری مخالفت کرے گی اور انسان اس کی کسی نہ کسی طرح مزاحمت کرے گا۔AK 486.4

    شیطان کی دشمنی انسانی نسل کے خلاف بھڑکی کیونکہ مسیح یسوع کے ذریعہ وہ خدا وند کے رحم اور محبت کو پانے والا تھے- اس نے چاہا کہ انسان کی نجات کی تجویز کو ختم کرے اور خدا کے ہاتھ کے شہکار کو مسخ کرنے سے خدا کی ہتک کرے۔ وہ آسمان میںغم والم اور زمین پر تباہی و بربادی لانا چاہتا تھا اور وہ سب کو بتانا چاہتا تھا کہ چونکہ خدا نے انسان کو پیدا کیا کہ اس لیے ساری خرابی اسی کا نتیجہ ہے-AK 487.1

    یہ تو خداوند کا فضل ہے جو وہ انسانی روح میں شیطان کے خلاف دشمنی کو جنم دیتا ہے- اس نئی زندگی اور فضل کے بغیر انسان مسلسل ابلیس کی غلامی میں رہتا- اور ہر وقت اسکے حکم کو ماننے کیلئے تیار پایا جاتا- روح میں جہاں پہلے امن ہوتا تھا نیا اصول وہاں کشمکش پیدا کرتا ہے- وہ قوت جو مسیح یسوع عطا کرتا ہے وہ انسان کو ظالم اور غاصب ابلیس کی مزاحمت کرنے کے قابل بناتی ہے- پھر گناہ کو پیار کرنے ک ا بجائے انسان اس سے نفرت کرتا ہے، اور ان جذبات پر قابو پاتا ہے جو اسے خدا سے دور لے جاتے ہیں، اور ان اصولوں کا مظاہرہ کرتا ہے جو آسمان سے صادر ہوتے ہیں-AK 487.2

    مسیح یسوع کی پہلی آمد کے وقت دنیا نے جو مسیح یسوع کا استقبال کیا اس میں مسیح یسوع اور ابلیس میں جو دشمنی پائی جاتی ہے اسکا مظاہرہ دیکھنے کو ملا- یہ کوئی بڑی بات نہ تھی کہ مسیح یسوع دنیاوی دھن دولت کے اور بڑی شوکت وحشمت کیساتھ نہ آیا کہ یہودیوں نے اسے رد کر دیا- انہوں نے دیکھا کہ اس کے پاس وہ قوت وقدرت اور سب کچھ ہے جو مادی چیزوں کے مقابلہ میں بہت قدرومنزلت کی حامل ہے- مگر پاکیزگی اور پارسائی جو مسیح یسوع میں پائی جاتی تھی اس سے وہ غیر صالح نفرت کرتے تھے - اسکی خود انکاری کی زندگی اور مغروروں اور شہوت پرست لوگوں کیلئے مسلسل ملامت تھی- یہی وہ چیزیں تھیں جنہوں نے مسیح یسوع کے خلاف عداوت کو ہوا دی- شیطان اور برے فرشتے بدکار انسانوں کے ساتھ مل گئے- برگشتگی کی تمام قوتوں نے سچائی کے چیمپئن کیخلاف سازش کی-AK 487.3

    اسی عداوت کا مظاہرہ مسیح کے پیروکاروں کے خلاف کیا جا رہا ہے جو انکے آقا کے خلاف کیا گیا تھا- جو کوئی بھی گناہ کے مکروہ کردار کو دیکھے گا اور اسکی آزمائش کی مزاحمت کرنے کیلئے آسآمن سے قوت حاصل کرے گا، وہ یقینی طور پر شیطان اور اسکے گماشتوں کے غضب کو بھڑکائے گا- جب تک گناہ اور گنہگار زندہ ہیں، سچائی کے اصولوں کی جو وکالت کرتے ہیں انکے خلاف ایذا رسانی نفرت اور ملامت انکے خلاف قائم رہے گی جو اسکی وکالت کرتے ہیں- خداوند مسیح کے پیرکاروں اور ابلیس کے غلاموں میں کبھی بھی مفاہمت نہیں ہو سکتی- صلیب کا آزار ابھی ختم نہیں ہوا- “جتنے مسیح یسوع میں دینداری کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائیں گے” 2 تیمتھیس -12:3AK 487.4

    ابلیس کے گماشتے مسلسل اسکی ہدایت کے مطابق اسکے اختیار کو اور اسکی حکومت کو خدا کی حکومت کے مدمقابل قائم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں- اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے وہ میش کے پیروکاروں کو دھوکا دے رہے اور انہیں اسکی وفاداری سے گمراہ کر رہے ہیں- اپنے لیڈر کی طرح اپنا مقصد پانے کیلئے وہ نوشتوں کی غلط تاویل کر رہے ہیں- جسطرح شیطان نے خدا پر الزام تراشی کرنے کی کوشش کی تھی اسی طرح ابلیس کے حواری خدا کے لوگوں پر الزام تراشی کرنے کے خواہاں ہیں- وہ روح جس نے مسیح یسوع کو موت کی نیند سلایا وہی روح بدکار لوگوں کو اکسا رہی ہے کہ وہ مسیح کے پیروکاروں کو تباہ کریں- یہ تو پہلی پیشینگوئی میں آگاہ کر دیا گیا تھا کہ “میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت دالوں گا” اور یہ عداوت رہتی دنیا تک جاری رہے گی-AK 488.1

    شیطان اس مقابلہ کے لئے اپنی ساری فوجیں اور اپنی ساری قوت لگا رہا ہے- کیونکہ اسے کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں؟ کیوں مسیح کے سپاہی سو رہے ہیں اور دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہے؟ کیونکہ انکا مسیح یسوع کیساتھ بہت ہی کم حقیقی واسطہ ہے؟ کیونکہ ان میں مسیح یسوع کی روح کی انتہائی کمی ہے- گناہ سے انھیں کوئی نفرت اور کراہت نہیں، جیسی نفرت انکے آقا کو گناہ سے تھی- یہ اسکا اس طرح مقابلہ نہیں کرتے جیسے مسیح یسوع نے ثابت قدمی سے اسکی مزاحمت کی- وہ گناہ کی بدکاری کی بڑھوتری اور خباثت کو محسوس نہیں کرتے اور تاریکی کے شہزادے کی قوت اور اسکے کردار کی طرف سے انکی آنکھیں اندھی ہو چکی ہیں- شیطان اور اسکے کام کے خلاف بہت ہی کم عداوت ہے کیونکہ انہیں اسکی طاقت کے بارے بہت ہی کم واقفیت ہے- اور وہ اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ اس نے مسیح اور کلیسیا کے خلاف کس قدر وسیع پیمانے پر جنگ چھیڑ رکھی ہے- بھیڑ کو سبز باغ دکھایا گیا ہے- وہ نہیں جانتے کہ انکا دشمن بہت ہی بہادر جرنیل ہے جو برے فرشتوں کے اذہان کو کنٹرول کرتا ہے- اور بڑی ہی پختہ پلان کیساتھ اور ماہرانہ چال کیساتھ روحوں کی نجات کو روکنے کیلئے مسیح یسوع کے خلاف جنگ میں مصروف ہے- مسیح یسوع کے پیروکاروں حتی کہ انجیل کے خادموں سے بھی ابلیس کے حوالے سے بہت ہی کم سننے کو ملتا ہے کبھی پلپٹ سے اتفاقیہ ہی اسکے بارے کچھ کہا جاتا ہو- وہ اسکی مسلسل کامیابیوں اور کاروائیوں کے ثبوت کو نظر انداز کر جاتے ہیں- وہ اسکی آگاہی کی پرواہ نہیں کرتے، بلکہ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اس کی موجودگی کو بھی یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں-AK 488.2

    انسان تو اسکے حربوں سے ناواقف ہیں مگر یہ ہوشیار، عیار دشمن ہر لمحہ انکا پیچھا کرتا ہے- وہ گھر کے ہر شعبہ میں اپنی موجودگی سے دخل اندازی کرتا ہے- شہر کے ہر گلی کوچے، کلیسیاؤں میں، قومی مجلس شوری اور عدالتوں میں موجود ہوتا، وہ ہر جگہ مردوزن کی روحوں اور بدنوں کو تباہ کرتا ہے- خاندانوں میں رخنے ڈالتا ہے- نفرت کے بیج بوتا ہے- ضدبازی، جدل وجدال، قتل، فتنہ فساد اسکی سرگرمیوں کا محور ہے اور مسیحی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہے اور اسے اسی طرح رہنا ہے-AK 489.1

    ابلیس مسلسل اس کوشش میں ہے کہ اس رکاوٹ کو دور کر کے جو مسیحیوں کو دنیا سے جدا کرتی ہے ان پر غلبہ حاصل کرے- وہ قدیم اسرائیلی گناہ میں پھنس گئے انہوں نے بتپرستوں کی صحبت اختیار کر لی، جسے خداوند نے منع کر رکھا تھا- اسی طریقہ سے یہ جدید اسرائیلی بھٹکائے جا رہے ہیں- “اس جہاں کے خدا نے اندھا کر دیا ہے تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اسکے جلال کی خوشخبری کی روشنی ان پر نہ پڑے” 2 کرنتھیوں -4:4AK 489.2

    جو مسیح یسوع کے پیروکار ہونے کا فیصلہ نہیں کر پائے، وہ سب شیطان کے غلام ہیں- جو دل ابھی تک نئے سرے سے پیدا نہیں ہوا وہاں گناہ سے محبت پائی جاتی ہے- وہ اسے پالتا پوستا اور اسکے لئے جواز ڈھونڈتا ہے- جس دل کی تجدید نو ہوئی ہے وہ گناہ سے نفرت کرتا ہے اور اسکے خلاف بھرپور مزاحمت کرتا ہے- جب مسیحی کسی بے ایمان کی سوسائٹی کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ آزمائش کو دعوت دیتے ہیں- ابلیس خود سامنے نہیں آتا، بلکہ چوری چھپے اپنے نقاب پوش گمراہ کن حواریوں کے آگے لاتا ہے- وہ (مسیحی) یہ دیکھ نہیں پاتے کہ یہ کمپنی انہیں بے اندازہ نقصان پنہچا سکتی ہے- اور جوں جوں وہ اپنے گفتار وکردار اور اعمال کو دنیا کے مطابق ڈھالتے جاتے ہیں، مزید اندھے ہوتے جاتے ہیں-AK 489.3

    دنیا کے رسم ورواج اپنانے سے کلیسیا دنیا کی مانند بنتی جاتی ہے اور یہ کبھی بھی دنیا کو مسیح کیلئے تبدیل نہیں کر سکتی- گناہ کے ساتھ دوستانہ لازما گناہ کے خلاف کم سے کم نفرت کا اظہار کرنا ہے- وہ جو شیطان کے خادموں کے ساتھ رفاقت رکھنے کا چناؤ کرتا ہے جلد ہی ان کے ماسٹر سے خوف کھانا ختم کر دے گا- جب ہم اپنے فرض کی انجام دہی میں آزمائش سے دوچار ہوتے ہیں جیسے دانی ایل بادشاہ کے دربار میں ہوا تھا تو ہمیں پورا یقین ہونا چاہیے کہ حق تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا- لیکن اگر ہم خود اپنے آپ کو آزمائش کے حوالہ کرتے ہیں تو جلد یا بدیر گر جائیں گے-AK 489.4

    آزمانے والا اکثر بڑی کامیابی سے ان حضرات کے ذریعہ کام کرتا ہے جن کے متعلق بہت ہی کم شبہ ہوتا ہے کہ وہ ابلیس کے کنٹرول میں ہیں- باوصف پڑھے لکھے پروفیسرز جنکی بڑی عزت وتوقیر ہوتی ہے- ان اوصاف کے بارے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ خدا کے خوف کی غیر موجودگی کا ان سے ازالہ ہو سکتا ہے- خوبی اور کلچر خود خداداد نعمت ہے- لیکن جب انکو پارسائی کی جگہ استعمال کیا جائے، اور روحوں کو خدا کے قریب لانے کی بجائے دور بھگایا جائے تو اس وقت یہاور پھنسانے والا جال بن جاتی ہیں-زیادہ تر کا خیال تو یہ ہے کہ جن میں ملنساری یا خوش خلقی پائی جاتی ہے، لازما انکا تعلق مسیح یسوع سے ہو گا- ایسی بڑی غلطی پہلے کبھی نہ دیکھی تھی- ان اوصاف کو ہر ایک مسیحی کے کردار کو جلالی بنانا چاہیے- کیونکہ وہ حقیقی مذہب کے حق میں اپنا زبردست اثرورسوخ پیش کر سکتے ہیں- مگر انہیں خداوند کیلئے مسح ومخصوص ہونا چاہیے- ورنہ وہ ابلیس کی قوت کیلئے ہوں گے- بہت سے لوگ بہت ہی ذہین فطین اور نہایت ہی اعلی سبھاؤ کے ہوتے ہیں، اور غیر اخلاقی عمل کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے- مگر وہ شیطان کے ہاتھ میں ایک صیقل کیا ہوا اوزار ہیں- ایسوں کے مقابلہ میں مسیح یسوع کے مشن کیلئے کم پڑھے لکھے اور شائستہ لوگ زیادہ کار آمد ہیں-AK 490.1

    مخلص دعا اور خدا پر بھروسہ کرنے سے سلیمان بادشاہ نے وہ حکمت حاصل کی جسے دیکھ اور جان کر دنیا حیران بھی ہوئی اور اسکی تعریف بھی کی- لیکن جب وہ اپنی قوت کے منبع سے ہٹ گیا، اور خود پر انحصار کرنے لگا تو آزمائشوں کا شکار ہو گیا- یہ حیران کن قدرت جو خداوند نے اس بادشاہ پر نچھاور کی جو سب بادشاہوں سے حکمت میں ممتاز تھا اس نے روحوں کو برباد کرنے والے کے ایجنٹ کی حیثیت سے بہت موثر کام کیا- AK 490.2

    ابلیس مسلسل حقائق کی طرف سے ذہنوں کو دھندلا کرنے کی سرگرمیوں میں مگن ہے تو مسیحیوں کو یہ کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ “ہمیں خون اور گوشت کے خلاف کشتی نہیں کرنا ہے- بلکہ حکومت والوں اور اختیار والوں اور اس دنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی ان روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں- کلام مقدس کی آگاہی صدیوں سے لے کر آج تک گونج رہی ہیں- “تم ہوشیار اور بیدار ہو- تمہارا مخالف ابلیس گرجنے والے شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو فار کھائے” 1 پطرس 8:5 “خدا کے سب ہتھیار باندھ لو تاکہ تم ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہ سکو” افسیوں -11:6AK 490.3

    آدم کے زمانے سے لیکر ہمارے وقتوں تک ہمارا مہا دشمن اپنی طاقت ہمیں کچلنے کیلئے استعمال کر رہا ہے- وہ اب کلیسیا کے خلاف آخری مہم چلانے کو ہے- وہ سب جو مسیح یسوع کے پیروکار ہیں اس سفاک دشمن کے خلاف صف آرا ہوں گے- جتنا زیادہ مسیحی، الہی نمونہ اپنائیں گے اتنا ہی زیادہ وہ شیطان کا نشانہ بنیں گے- وہ سب جو بڑی سرگرمی کیساتھ خدا کے کام کو آگے بڑھائیں گے اور ابلیس کے دھوکوں کو بے نقاب کریں گے اور دنیا کے سامنے مسیح یسوع کو پیش کریں گے وہ پولس رسول کے ساتھ گواہی دینے کے قابل ٹھہریں گے- جس نے کمال فروتنی اور آنسو بہا بہا کر اور آزمائشوں میں گواہی دی- اعمال 19:20AK 491.1

    ابلیس نے خشم آلود اور فریب کاری کی آزمائشوں سے مسیح یسوع پر حملہ کیا- مگر مسیح نے ہر کشمکش کو الٹ دیا- وہ لڑائیاں ہمارے واسطے لڑی گئیں- وہ فتح یابیاں ہمیں فتحمند قرار دینے کیلئے تھیں- جو بھی اسکے متلاشی ہیں خداوند انہیں ہمتعطا کرتا ہے- کسی انسان پر شیطان اسکی اجازت کے بغیر غلبہ حاصل نہیں کر سکتا- آزمانے والے کے پاس کوئی قوت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی روح کو گناہ کرنے کیلئے کنٹرول کر سکے- وہ اذیت تو پہنچا سکتا ہے مگر وہ نجس یا ناپاک نہیں کر سکتا- وہ ذہنی کرب پہنچا سکتا ہے مگر وہ بے حرمتی نہیں کر سکتا- حقیقت تو یہ ہے کہ مسیح یسوع فتحمند ہوا ہے- اس سے اسکے پیروکاروں کو بڑی ہمت اور دلیری کیساتھ مردانہ وار شیطان اور گناہ کے خلاف جنگ لڑنی چاہیے-AK 491.2

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents