Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
عظیم کشمکش - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    پانچواں باب - جان وکلف

    اگرچہ اصلاح دین سے پہلے مقدس کی بہت ہی کم کاپیاں دستیاب رہ گئی تھیں تو بھی خُدا نے اپنے کلام کو پوری طرح تباہ ہونے نہیں دیا تھا۔ اس کو صداقتیں کو ہمیشہ تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ سہ اس زندگی کے کلام کے بندھن اسی طرح بہ آسانی کھول سکتا تھا جیسے اس نے اپنے خادموں کا آزاد کرنے کے لئے قید خانہ کے آہنی گیٹ کھول ڈالے۔ پورپ کے مختلف مما لک میں لوگ روح نقدس کی تحریک سے سچائی کی تلاش میں ایسے نکل پڑے جیسے کسی چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش ہو۔ مقدس نوشتوں کا بڑی لچسپی سے مطالعہ کرنے کے لئے پروردگار نے ان کی رہنمائی کی ۔ اس لئے یہ لوگ ہر قیمت پر نور کو قبول کر نے کے لئے تیار تھے ۔ گووہ سب باتیں تو وضاحت سے نہ جان پائے تو بھی ان سچائیوں کو سمجھنے کے قابل لر دئیے گےجنہیں عرصہِ دارز سے نظروں سے اوجل کر دیا گیا تھا، آسمانی پبا مبروں کی طرح یہ لوگ باطل زنجیروں کو توڑتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے اور ان سب کو بھی ساتھ ملنے کی بلا ہٹ دہی جو لمبے عرصہ سے اسکی غلامی میں رہ چکے تھے تاکہ وہ بھی انہیں اور اپنی آزادی کے لئے آواز بلند کر سکیں۔ AK 75.1

    والڈنسس لوگوں کے علاوہ خُدا کا کلام ایسی زبانوں کا مقید ہو کر رہ گیا تھا جن سے صرف پڑھے لکھے لوگ ہی واقف تھے۔ مگر اب وہ وقت آ چکا تھا کہ کلامِ مقدس کا تر جمہ کیا جاتااور مختلف مما لک کے لوگوں کو ان کی اپنی زبان میں دیا جاتا۔ دنیا کی اندھیری رات وقت گزر چکا تھا۔ اسی لئے تاریکی بھاگ رہی تھی اور بہت سے ممالک میں نئی صبح کے نور کی علامتیں نمودار ہو رہی تھیں۔ AK 75.2

    لہذاٰ چودھویں صدی میں انگلینڈ کے اندر ریفر یمیشن کا صبح کا ستارہ آشکارہ ہوا۔ یہ جان و کلف تھا جو نہ صرف انگلینڈ میں بلکہ تمام مسیحیممالک میں اصلاح پر مذہب کی منادی کرنے والا ٹھہرانہ اسے روم کے خلاف ایسے بڑے ا حتجاج کے لئے آواز اٹھانے کا موقع ملا جسے پھر کبھی خاموش نہ کیا جا سکا۔ اس احتجاج نے جدوجہد کی ایسی راہ کھولی جس کا انجام لوگوں کلیسیاوںاور قوموںکی آزادی ہوا۔ AK 75.3

    جان وکلف نے آزاد منش تعلیم پائی تھی جس کے نزدیک خُدا کا خوف ہی حکمت کا شروع تھا۔کالج میں اسے متقی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی خصوصیات کا حامل اور ذہین طالب علم مانا جاتا تھا۔ علم کے لئے اپنی پیاس کو بجھانے کی خاطر اس نے علوم کی ہر شاخ سے واقفیت حا صل کی ۔ اس نے فلاسفی کلیسیائی یعنی پاسبانوں کے قواعد اور رسول جا اس کے ملک سے تعلق رکھتا تھا میں تعلیم حاصل کی ۔ اس ابتدئی تعلیم و تر بیت کا اثر اس کی بعد کی خدمت میں خوب نمایاں ہوا۔ چونکہ اسے اپنے زمانے کی قیاس آرائیوں پر مبنی فلاسفی کے علم پر عبور حاصل تھا لہذا اس نے ان میں موجود غلطیوں کی نشان دہی کی اور ملکی اور کلیسیائی قانون کے مطالعہ کے باعث وہ اپنے ملک اور مذہب کی آزادی کی جدو جہد میں شرکت کےلئے بھی تیار تھا ۔ وہ خُدا کے کلام کے ہتھیاروں کو استعمال کرنا خوب جانتا تھا دیگر سکولوں کے ڈسپلز بھی تیار تھا۔ جب کہ وہ عولم حضرات کے حربوں سے بھی پوری طرح واقف تھا۔ اس میں جوخُدا اور قابلیت اور علم وادب کی وسعت پائی جاتی تھی اسکا لوہا دوست اور د شمن دونوں مانتے تھے اس کے ساتھیوں کو یہ دیکھ کر بڑی تسلی ملتی تھی کہ ان کا یہ چیمیپن ملککے ذہین لوگوں میں اول درجہ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کے دشمن و کلف کے مقصد پر اس کے حماتیوں پر توہین کمزوری یا بے پروائی کا الزام لگانے سے باز رہے۔ AK 76.1

    جب وکلف بھی کالج میں ہی تھا تو اس نے کلام مقدس کے مطالعہ کے لئے داخلہ لے لیا۔ ان ابتدائی ایام میں جب بائبل مقدس صرف قدیم زبانوں میں ہی پائی جاتی تھی تو صرف پڑھا لکھا طبقہ ہی سچائی کے چشمہ کو دریافت کر سکتا تھا جب کہ ان پڑھ طبقہ اس حق سے بالکل محروم رہ جاتا تھا۔ چنانچہ کلف کے لئے بطورِ اصلاح کار مستقبل کے کام کے لئے راہ تیار تھی ۔ پڑھے لکھے لوگوں نے تو خُدا کے پاک کلام کا مطالعہ کر رکھا تھااور انہوں نے اس میں مفت فضل جیسی سچائی کو بھی جان لیا تھا جسے انہوں نے تعلیم دیتے وقت پھیلا دیا تھا اور اس طرح دوسروں کی رہنمائی کی گئی کہ وہ بھی زندہ الہامی کلام کی طرف پلٹ آئیں۔ AK 76.2

    جب وکلف کی توجہ الہامی نسخہ جات کی طرف دلائی تو اس نے انکی ایسی مکمل اور ماہرانہ چھان بین کی جیسی اس نے دیگر علوم کو سیکھتے وقت کی تھی ۔ یہیں سے ایک ایسی بڑی کمی کا احساس ہونے لگا جسے نہ تو وعلم و ادب اور نہ ہی چرچ کی تعلیم تسلی پذیر کر سکتی تھی ۔ اس نے خُدا کے کلام سے یہ سیکھا کہ جو کچھ وہ پہلے جانتا تھا وہ بےکار تھا۔ اس نے نہ صرف نجات کی تجویز کو جانا بلکہ یہ بھی کہ مسیح یسوع کی خدمت کے لئے وقف کرتے ہوئے تہیہ کر لیا کہ جو صداقیں اس نے یہاں پائی ہیں ان کوعلانیہ نشر کرے گا۔ AK 76.3

    اپنے بعد آنے والے ان اصلاح کاروں کی طرح و کلف بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کا یہ ابتدائی کام اسے کہاں تک پہنچا ئے گا۔ اس نے جان بوجھ کر روم کی مخالفت مول نہ لی تھی۔ مگر سچائی کے ساتھ اس کی وفاداری نے اسے جھوٹ اور مکرہ فریب اور ناراستی کے سامنے لاکھٹرا کیا۔ جتنی صفائی سے اس نے پاپائیت کی غلط تعلیمات کو جانچااتنی ہی ایمانداری سے اس نے بائبل کی تعلیم کو پیش کیا۔اس نے دیکھا کہ رومی کلیسیا نے انسانی روایات کو ترجیح دیتے ہوئے خُداوند کے زندہ کلام کو ترک کر دیاہے۔ اس نے بڑے جارحانہ انداز میں انکی کہانت کی سرزنش کی جنہوں نے کلام مقدس کو لوگوں کے دل سے نکال دیا تھا۔ اس نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ بائبل لوگوں کے ہاتھوں میں دوبارہ جانے دیا جائے تا کہ کلیسیا میں کلام مقدس کا اختیار قائم ہو سکے۔ وہ ایک لائق اور ایماندار استاد اور شعلہ بیان مبشر تھا۔ جس بات کی وہ منادی کرتا تھا اسکے مطابق زندگی بسرکرتا تھاالہامی نوشتوں کے بارے اس کا علم اس کے مضبوط اور زور دار دلائل اسکی پاکیزگی اور اس کی نہ جھکنے والی ہمت اور ایمان داری نے عوام کے دل موہ لئے ۔ لوگ اس پر بھرپور اعتماد کرنے لگے۔ بہت سے لوگوں نے رومی کلیسیا میں بدی کو پروان چڑھتے ہوئے دیکھاتھا اور چونکہ وہ اپنے قدیم ایمان سے اُکتا چکے تھے اس لئے وہ صداقت کو کلف انکی سامنے لایا اس سے اس کے دل وباغ باغ ہونے لگے۔ مگر جب پاپائیت کی قیادت نے دیکھا کہ اصلاح کا یہ حامی ان سے زیادہ اثر و رسوخ کا مالک بنتا جا رہا ہےتو وہ غیض و غضب سے بھر گئی۔ AK 77.1

    وکلف مکروغریب اور جھوٹ کی تعلیم کو گرید گرید کر کھوج لگا لیتا تھا۔ اس نے بلاخوف و خطر ان غلط کاریوں پر کاری ضرب لگائی جن کی اجازت روی ارباب اختیار نے دے رکھی تھی۔ جب وہ بادشاہ کے لئے چیپلن کی خدمات انجام دے رہا تھا تو اس عنی اس جزیہ کی ادائیگی کے خلاف سخت موقف اختیار کیا جو پوپ، انگلینڈ کے بادشاہ سے لینے کا دعویٰ کرتا تھا اور بیان کیا کہ پوپ کا سیکولر حکمرانوں پر اختیار عقل و ادراک اور مکاشفات کے منافی ہے۔ پوپ کے مطالبہ نے نفرت کو بھڑ کایا اور کلف کی تعلیم نے قوم کے اہنماوں پر اثر جما لیا۔ بادشاہ اور امر اپوپ کو خراج نہ دینے اور اس کے اختیار کے خلاف متحد ہو گئے، یوں انگلینڈ کی پوپ کے اعلےٰ اختیار کے خلاف یہ بڑی موثر چوٹ بنی۔ AK 77.2

    دوسری بڑی بدی جس کے خلاف اس اصلاح کے حامی نے ایک لمبی اور بھرپور جنگ کی وہ درویشی نظام اور خانقا ہوں کے مختلف مراکز تھے ۔ جس نے اس وقت باقاعدہ ایک ادارے کی صورت اختیار کر رکھی تھی ۔ انگلینڈ میں خانقا ہوں کی اس قدر بھر مار قوم کی برومندی اور عظمت ہر کلنگ کا ایک بد نما ٹیکہ تھا۔ اسکی وجہ سے صعنت کاری تعلیم اور اخلاقیات سب کار نگ پھیکا پڑتا جا رہا تھا۔ راہبوں کی بے کار اور ناکارہ زندگی اور گداگری نہ صرف لوگوں کی آمدنی پر بھاری بوجھ تھا بلکہ اس سے کام کی عظمت کی بھی توہین ہونے لگی تھی۔ نوجوان بد اخلاق اور کرپٹ ہو کر رہ گئے۔ ان راہیوں اور درویشوں کا ان پر گہرا اثر تھا بہتیروں کو ر ہبانہ زندگی بسر کرنے کے لئے حجروں میں جانے کے لئے مائل کیا گیا اور وہ بھی نہ صرف ان کے ماں باپ کی اجازت کے بغیر بلکہ اکژ والدین کو تو علم بھی نہ ہوتا کہ ان کے منع کرنے کے باوجود خانقا ہوں کا رخ کرنے لگے تھے۔ رومی کلیسیا کے ابتدائی فادروں میں سے ایک فادر ایسا بھی تھا جو راہبانہ زندگی بسر کرنے پر زور دیتا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ یہ عمل ہر طرح کے فرض اور محبت پر مقدم ہے اس نے تو یہاں تک اعلان کر دیا کہ خواہ حجرے کے دروازے پر تمہارا باپ چیختے چلائے آہ و نالہ کرے اور تمہاری ماں اپنا بدن جس میں تم نے پرورش اور جس کی چھتایاں تمہیں کھول کر دکھائے جو تم نے چوسیں انہیں اپنے قدموں تلے روندد داور سیدھے مسیح کی پاس چلتے جاو”- اس غیر انسانی اور شرم ناک رسم کے متعلق لوتھر نے بعد میں یوں بیان فرمایا کہ اس میں کسی انسان اور مسیح کی نسبت بھیڑ ئیے اور مردم آزاد کی زیادہ خاطر دمدارت پائی جاتی تھی۔ گویا بچوں کے دلوں کو ان کے والد ین سے چرا لیا گیا۔ (The life of Luther,page 69-70)AK 78.1

    پوپ کی قیادت قدیم زمانے کے فریسیوں کی طرح اپنی روایات سے خُدا کے احکامات کو غیر موڑ کر تی تھی۔ یوں گھر ویران کر دئیے جاتے اور والدین اپنے بیٹیوں کی صحبت سے محروم رہ جاتے ۔ حتٰی کہ یونیورسٹیوں میں طلبا کو راہبوں کی جھوٹی نمائندگی سے بہکایا جاتا اور ترغیب دی جاتی کہ انکے حکم مانو۔ بعد میں بہیترے اپنے اس قدم پر پچھتاتے ہوئے کہتے کہ انہوں نے اپنی زندگیوں پر دھبہ لگوالیا ہے اور اپنے والدین پر غموں کے بادل جمع کئے ہیں۔ لیکن جب وہ ایک بار پھندے میں پھنس جاتے تو پھر ان کی رہائی ناممکن ہو جاتی ، بہت سے والدین راہبوں کے اثرات سے ڈر کر اپنے لڑکوں کو یو نیورسٹیوں میں بھیجنے سے بھی گریز کرنے لگے۔ یوں بڑے بڑے تعلیمی مراکز میں طالب علموں کی تعداد خاصی حد تک گر گئی ۔ سکول مضمحل ہو گئے اور جہا لت نے ڈیرے ڈال لئے۔ AK 78.2

    پوپ نے اپنے راہیوں پر عنایت کر رکھی تھی کہ وہ لوگوں کا اعتراف سنیں اور انہیں معافی دیں۔ یہ عمل بدی کا بہت بڑا ذریعہ بن گیا۔ اپنے مفاد حاصل کرنے کی خاطر یہ راہب ہر قسم کے مجرموں کو معافی دینے کے لئے تیار رہتے ۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ بدترین بدکاروں میں اضافہ ہو گیا۔ بیمار اور غریب غربا کو دکھ برداشت کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا جب کہ وہ تحائف جو ان کی حاجتوں کو رفع کر سکتے تھے راہیوں کے پاس چلے گئے ۔ جو پہلے ہی لوگوں کو ڈرادھمکا کر خیرات کا مطالبہ کرتے ۔ اور جو ان کی حکم پر خیرات و غیرہ نہ دیتے وہ ان پر منسق و فجور کا فتویٰ دیتے ۔ وہ یہ دھمکی دیتے کہ خُدا تم سے اسکا انتقام لے گا۔ باوجود یکہ عام لوگوں کا پیشہ غربت سے منسلک تھا راہیوں کا سرمایہ بدستور بڑھتا جا رہا تھا۔ انکی شاندار کو ٹھیاں اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے اس لئے وہ وزٹ پر خود نہیں بلکہ گنوار لو گوں کو بھیج دیتے تھے۔ جو صرف دلفریب کہانیاں، حکامات اور لو گوں کو خوش کر نے کے لئے ٹھٹھے مزاق کی باتیں سناتے اور انہیں مکمل طور پر ان درویشیوں کا گروید ہ کر دیتے ۔ ان سب باتوں کے باوجود راہیوں نے اس توہم پرست ہجوم کو مسلسل اپنے سکنجے میں پھنسا ئے رکھا۔ وہ انہیں یہ ماننے پر مجبور کرتے رہے کہ تمام مذہبی فرائض میں پوپ کے اختیار اعلے ٰ تا ماننا ہی افضل ہے۔ وہ یہ بھی کہتے کہ مقد سین کی پرستش کرنا اور راہوں کو تحائف دینا ضروری ۔ کیونکہ ان ہی کی بدولت آپ آسمان میں اپنی جگہ پائیں گے ۔ AK 79.1

    پڑھے لکھے اور پارسا لوگوں کا اس خانقاہ ہی نظام میں اصلاح لانے کی جدوجہد بالکل رائیگاں گی مگر و کلف نے بڑی دور اندیشی سے بدی کی اس جڑ گہرا وار کیا، اور کہا کہ یہ نظام بذاتِ خود جھوٹ پر مبنی ہے اسے ختم ہو نا چاہیے۔ ان باتوں پر بحث و مباحثہ اور تحقیق و تفتیش ہر جگہ شروع ہو چکی تھی۔ ایسے میں جب راہب ملک کا دورہ کر کے پوپ کی معافی فروخت کرنے جاتے تو بہتیروں نے انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا اور کہا کہ” یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گناہوں کی معافی پیسوں سے خریدہ جاتے ” بلکہ لوگوں نے سوال کیا کہ “کیا ہمیں پوپ کی بجائے خُدا سے معافی کے طالب گار نہیں ہونا چاہیے “کافی لوگ راہبوں کی لوٹ مار سے ہوشیار ہو چکے تھے جن کی حرص کبھی بھی مطمئن نہ ہوتی تھی ۔ لوگوں نے کہا کہ راہب اور رام کے پر یسٹس ہمیں کیسز کی طرح کھا رہے ہیں۔ خُداوند سے ان سے ہمیں مخلصی دلا ورنہ ہم لوگ برباد ہو جا ئیں گے۔ (D’Aubigne,b.17,ch.7)AK 79.2

    اپنے اس لالچ کو چھپانے کے لئے یہ مانگنے والے راہب دعویٰ کرنے لگے کہ ہم تو مسیح یسوع کے نمونہ کی پیروی کر رہے ہیں۔ کیونکہ مسیح یسوع اور اسکے شاگردوں کی گزر بسر بھی لوگوں کی خیرات پر ہوتی تھی۔ مگر اس بات سے انکے مقصد کو اور ابھی زیادہ دھچکا لگاکیونکہ اسکی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے خود سچائی جاننے لے لئے کتاب ِ مقدس کی طرف رجوع کیا۔ جب کہ روم یہ ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ لوگ کلام ِ مقدس کو خود پڑھیں۔ لہذا جن سچائیوں کو روم چھپانا چاہتا تھا لوگوں کی ذہن ان کی طرف جا لگے۔ AK 80.1

    پھر وکلف نے لکھنا اور ان راہبوں کے خلاف ٹریکٹ شائع کرنا شروع کر دئیے۔ یہاں اسکا یہ ہر گز مطلب نہیں تھا کہ انکے ساتھ کوئی محاذ آرائی کرے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ تو یہ چاہتا تھا کہ لوگوں کو بائبل کی تعلیم دے اور اسکے بانی کا انکو علم ہو- اس نے اعلان کیا کہ معافی دینے کی قدرت یا دین مسیح سے اخراج کا حق جیسا پوپ کو ہے ویسا ہی ہر ایک عام پریسٹ کو بھی ہے۔ نیز کسی کو بھی مسیحت سے خارج نہیں کیا جا سکتا ۔ جب تک کہ اس شخص نے خود اپنے اوپر خُدا کی ملامت کو نازل نہ کر لیا ہو۔ اب پوپ مزید کسی بھی موثر طریقہ سے اس عظیم الحبثہ روحانی اور عارضی بادشاہت پر قا بض نہیں رہ سکتا جو اس نے خود کھڑ ی کر رکھی ہے۔ اور جس میں اس نے لاکھوں روحوں اور بدنوں کو قید رکھا ہے۔AK 80.2

    ایک بار پھر وکلف کو دعوت دی گئی کہ وہ روم میں دست اندازی کی خلاف تاج انگلینڈ کے حقوق کا دفاع کرے ۔ اور اسے شاہی سفیر مقرر کیا گیا۔ اس نے پوپ کے کمشرز کے ساتھ کانفرنس کرتے ہوئے نید لینڈ میں دہ برس گزارے ۔ جہاں اس کا رابطہ فرانس،اٹلی اور سپین کے علم الہٰیا ت کے ماہر ین سے کروایا گیا۔ یہاں اسے موقع ملا کہ وہ اس سارے منظر کے پیچھے تک دیکھ سکے اور ان بہت سی چیزوں کے بارے بھی جان سکے جو وہ انگلینڈ میں رہ کر نہیں جان سکتا تھا اور جو اس کی نظروں سے پوشیدہ تھیں۔ اس نے یہاں بہت کچھ سیکھا جو اس کی بعد کی خدمت میں بڑا مددگار ثابت ہوا۔ ان مندو نین سے جوپوپ کے کورٹ سے آئے تھے اس نے پیشوائی کردار کو پڑھ لیا۔ اس نے انگلینڈ آکر پہلی تعلیم کو کھلم کھلا اور زیادہ جوش و خروش سے مشتہر کیا۔ اور اس نے اعلانیہ بتایا کہ غرور ، گھمنڈ اور دھوکہ فریب یہی روم کے دیوتا ہیں ۔ AK 80.3

    اپنے ایک رسالہ میں پوپ اور اس کے کو ککڑ کے بارے بیان دیتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ” انہوں نے ہمارے ملک سے غریب لوگوں کی روزی کو چھین لیا اور بادشاہ کا وہ روپیہ پیسہ جو سالا نہ ہزاروں مارکس (Marks) ہوتے ہیں لیے ہیں۔ اس سے وہ اپنے سکرا منٹ اور دوسری روحانی چیزوں کے لیے اکٹھا کرتے ہیں، مگر یہ ایک کلیسیائی بدعت ہے۔ جس کا تمام مسیحی مما لک کی سلطنتوں کی پابند کیا گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے پاس سونے کی ایک بہت بڑی پہاڑی ہے۔ جسے کوئی اور نہیں بلکہ اس مغرور پوپ کے محصول حصول کرنے والے لے جا رہے ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ پہاڑی ختم ہو جاَئے گی کیونکہ یہ لوگ ہمارے سب پیسے کو باہر کے جا رہے ہیں۔ کلیسیا ک ے نام پر ایسی خریدو فروخت کرنے والے مجرموں پر خُدا کی لعنت ہے۔ AK 80.4

    John Luwis, History of the life and sufferings of .J.Wicliff, page 37.AK 81.1

    انگلینڈ آنے کے فوراً بعد بادشاہ نے کلف کولوٹرورتھ کا پادری تعینات کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔ اوریہ اس بات کی یقین دہانی تھی کہ کم از کم بادشاہ اسکی صاف گوئی سے قطعاًخفا نہیں ہے۔ کلف کے بیان کے اثر سے نہ صرف عدالتی ایکشن کو وضع و شکل ملی بلکہ قوم کی سوچ کو بھی ایک نیا رخ حاصل ہوا۔ AK 81.2

    پوپائیت کی گرج فوراً اس کے خلاف صف آرا ہو گئی۔ تین پروانوں کو لکھ کر انگلینڈ روانہ کیا گیا۔ ایک یو نیورسٹی میں ایک بادشاہ کے پاس اور ایک کلیسیا کے معززین اور اعلےٰ عہد ہ دار ان کے پاس جس میں حکم دیا گیا کہ اس بدعتی ٹیچر کو چپ کرانے کے فوری ضروری اقدامات کئے جائیں۔ AK 81.3

    Augustus Neander,general history of the Christian religion and (church,per.6.Sec.2.pt1,8 see also appendix)AK 81.4

    ان پروانوں(Bulls) کے آنے سے پیشتر ہی بشپوں نے جوش میں آ کر و کلف کو اپنے سامنے ٹرائل کے لئے بلا لیا تھا۔ مگر وہ بہت ہی ڈی اثر حکومتی شہزادے کلف کے ساتھ عدالت کے سامنے حاضر ہو گے۔ اس طرح بہت سے لوگوں نے بھی اس بلڈ نگ کا گھیراو کر لیا بلکہ وہ تو اندر گھستے جاتے تھے، جنہوں نے ججوں کو ہراساں کر دیا اور انہیں یہ سماعت معطل کرنا پڑی ۔ اور وکلف کو سلامتی سے گھر جانے کی اجازت مل گئ ۔ اس عمل کے تھوڑے ہی عر صے بعد ایڈورڈ سوئم جسے کلیسیا کے اعلےٰ افسران اس اصلاح کے حامی کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے وفات پا گیا اور کلف سابقہ حکومت کا حامی نائب منتخب کر لیا گیا-AK 81.5

    تو بھی پوپ کے ان پروانوں نے تمام انگلینڈ پر یہ قطعی حکم صادر کر دیا کہ اس بدعتی شخص کو لازماًگرفتار کر کے جیل میں بند کیا جائے ۔ یہ اقدامات اس کو سولی پر چڑھانے کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ اور ایسے معلوم ہونے لگا جیسے کہ کلف بہت جلد روم کے انتقام کا نشانہ بننے کو ہے ۔ بگر وہ جس نے کہا ہے کہ “تو مت ڈر میں تیری سپرد ہوں” پیدا ئش 1:15۔ اسی نے اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر اپنے خادم کو پناہ دی ۔ ابکی بار موت مذہب کی اصلاح کے اس حامی کو نہیں بلکہ اس پوپ کو آئی جس نے کلف کو تباہ کر نے کا حکم جاری کیا تھا۔ گر یگری IX وفات پا گیا اور وہ مذہبی رہنما جو کلف کا ٹرائل کرنے آئے تھے غائب ہو گئے۔ AK 81.6

    خُداوند کی پرودگاری بہت سے نمایاں واقعات پر پوری قابض رہی تاکہ اصلاح دین یعنی ریفر یمشین کو ترقی کا مزید موقع ملے ۔ پوپ گریگری کی موت کے بعد دوحریف پوپوں (Popes) کا الیکشن ہوا۔ یہ دہ طاقتیں آپس میں گھتم گھتا تھیں۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ وہ لاخطا ہیں دونوں نے ایمان داروں کی مدد کے لئے باہٹ دی تا کہ مدِمقابل کے خلاف جنگ آزمائیں اور اپنے دشمنوں پر بدترین لعنتیں بھیجیں ایسے حالات میں انکی مدد کرنے والوں کے لئے آسما نی اجر کے وعدے کئے گئے۔ ان حالات نے پوپ کی قوت میں خاصی کمزوری پیدا کر دی ۔ حریف ایک دوسرے پربڑھ چڑھ کر حملے کررہے تھے ۔اور اکلف کو وقتی طور پر آرام کرنے کا موقع مل گیا اور تہمتیں ایک پوپ سے دوسرے پوپ کی طرف کو پرواز ہو گئیں۔ اور خون کے سیلاب متضاد دعووں کی حمایت میں بہتے رہے۔ جرائم اور سیکنڈلز کی کلیسیا میں بھر مار ہو گئی ، اس دوران اصلاح کا یہ حامی اپنی لو ٹر ورتھ کلیسیا میں بڑے سکون کے ساتھ لوگوں کو اس مسیح یسوع کی طرف کا صلح کا شہزادہ ہے مائل کرتا رہا۔ AK 82.1

    اس لمحہ ایسی تقسیم و تفریق جس میں کر پشن اور نوک جھانک دکھائی دے رہی تھی اسی نے اصلاح دین (Reformation) کی راہ تیار کر دی ۔ کیونکہ اسی نے لوگوں کو اس قابل کر دیا تا کہ وہ پاپائیت کی حقیقت کو خود سے دیکھ لیں۔ پوپوں کی تقسیم-“On the “Schism of the popes وکلف نے جو رسالہ تحریر کیا اس میں لوگوں سے اس نے کہا کہ خود ہی دیکھ لیں کہ آیا یہ پوپ ایک دوسرے کی جو برائی یہاں کر رہے ہیں وہ درست ہیں یا نہیں اور کیا یہ باتیں انہیں “مخالف مسیح ” ثابت نہیں کر تیں۔ گویا خُداوند نے کہا کہ میں ابلیس کے نام سے کہلانے والے لوگ ان دنوں پر بہ آسانی فتح پا سکیں“۔AK 82.2

    R.Vanghan, Life and Opinions of John de wyeliffe, 2, page6AK 82.3

    وکلف نے اپنے آقا کی طرح غریبوں کو گھر گھر جا کر انجیل سنائی ، وہ صرف اس پر ہی راضی نہ ہوا کہ لوٹر ورتھ کی کلیسیا کے غریب جھو نپڑوں میں ہو انجیل کی روشنی کو پھیلا ئے بلکہ اس نے انگلینڈ کے ہر۔ کونے میں انجیل کی روشنی کو چمکانے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اس کام کو کرنے لے لئے اس نے منادوں کی ایک ایسی جماعت منظم کی جن میں سادہ اور جانثار تھے یعنی وہ جو صداقت کو پیار کرتے تھے ۔ اور اس سچائی کو پھیلا نے کے سوا اور کوئی تمنا نہیں رکھتے تھے ۔ یہ ہر مرد ہر جگہ جا پہنچے ۔ گلیوں بازاروں اور بڑے بڑے شہروں اور ادارہ کے کناروں پہ جا کر انہوں نے تعلیم دہ ۔ انہوں نے کیا بزرگ کیا بیمار اور کیا غریب غربا سب کو ڈھونڈا اور انہیں خُدا کی فضل کی خوشخبری سنائی ۔ AK 82.4

    آکسفورڈ میں تھیالوجی کا پروفیسر ہونے کے ناطے وکلف نے یونیورسٹی کے ہالز میں خُدا کے کلام کی بشارت دی ۔ جو طالب علم اس کے زیر سایہ پڑھتے تھے اس نے انہیں ایسی ایمان داری سے صداقت کی آگاہی سنائی کہ اسے “دی گاسپل ڈاکٹر” کے خطاب سے نوازا گیا۔ تو بھی اس کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ کلامِ مقدس کا انگریزی ترجمہ تھا جسکو سر انجام دینا باقی تھا- بلکہ کسی موقع پر اس نے اپنی دلی نیت کا یوں مظاہرہ کیا کہ وہ بائبل کا ترجمہ کرنا چاہتا ہے تا کہ انگلینڈ کا ہر ایک شخص اپنی مادری زبان میں خُدا کے عجیب و غریب پاک کلام کو پڑھ سکے۔ AK 83.1

    مگر پھر اچانک اس کی جدو جہد کو رکنا پڑا- گو وہ ابھی اساٹھ برس کا بھی نہیں ہو ا تھا تو بھی اس کی انتھک اور لگاتار محنت و مشقت، اور کلام کے مطالعہ، اور دشمنوں کے حملوں نے اسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔ اس پر ایک بہت ہولناک بیماری کا حملہ ہو گیا۔ یہ خبر راہبوں کے لئے خوشی کا ایک پیغام لائی انہوں نے سوچا کہ کلیسیا کے ساتھ اس نے کو بدی کی ہے اب وہ اس کے لئے رورو کر معافی مانگے گا۔ لہٰذا وہ جلدی سے اس کے کمرے میں اعتراف سننے کی غرض سے جا پہنچے ۔ اس ان وہاں چار مختلف مسیحی مذہبی قوتوں کے نمائندے اور چار ہی سول آفیسرز بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ یہ سب لوگ قریب المرگ شخص کے گرد جمع ہو گئے ۔ اور انہوں نے کہا” موت تمہارے سر پر ہے“۔ اس لئے اپنی غلطیوں اور قصوروں کی دل پذیری کرو اور ہماری موجودگی میں ان تمام باتوں کا بھی اعتراف کرو جو تم نے ہمارے خلاف کہی تھیں۔ اصلاح دین کے اس حامی نے بڑی خا موشی سے انکی ساری باتیں سنیں۔ پھر اپنی نگہدا شت کرنے والے سے کہا کہ اسے بستر پر بٹھائے پھر اس نے ان پر ٹکٹی لگائی جو اعتراف سننے کے انتظار میں وہاں کٹھرے تھے اور پھر زور دار ، بلکہ اسی پائیداری آواز میں گویا ہو جسکو سن کر وہ پہلے اکژ لڑکٹھرا جاتے تھے ۔ وکلف نے کہا“میں مروںگا نہیں۔ بلکہ زندہ رہوں گا اور مزیدراہبوں کے برے کرتوں کا بیان کر دوں گا۔ وہ راہب انتہائی حیران اور شرمندہ ہو کر جلدی سے اس کے کمرے سے چلے گئے ۔ (D Aubigne,b.17,ch.7)AK 83.2

    وکلف کی یہ باتیں پوری ہو گئیں تھیں۔ وہ نہیں مرابلکہ اس نے اپنے ملک کے لوگوں کے ہاتھوں میں کتاب مقدس تھمادی جو روم کے خلاف قو می ہتھیار ثا بت ہوئی ۔ کتاب مقدس وہ آسمانی ایجنٹ ہے جو آزادی ، روشن خیالی اور دنیا کو بشارت پہنچاتی ہے۔ اس کام کی تکمیل کی راہ میں نہایت ہی دشوار گزار رکاو ٹیں آئیں تھیں۔ اکلف کو بیماریوں نے دبا رکھا تھا اور وہ جانتا تھا کہ مشقت کرنے کے لئے اس کے پاس بہت ہی کم سال رہ گئے ہیں۔ اس نے اس مخالفت کو بھی دیکھ لیا جس کا اسے مقا بلہ کرنا لازم تھا۔ مگر وہ خُدا کے کلام کے وعدوں سے ہمت افزائی حاص کر کے آگے بڑھتا رہا اور کسی چیز سے ہر گز خوف نہ کھایا اور نہ ہی پست ہمت ہوا۔ اپنی تعلیمی استعداداور پورے جوش و خروش سے تجر بہ میں پختہ اور خُدا کی خاص عنایت سے وہ نہ صرف محفوظ رہا بلکہ اسی عظیم کام کے لئے وہ تیار بھی کیا گیاتھا۔ جس وقت تمام مسیحی سلطنتیں ہنگامہ آرائیوں میں مشغول تھیں وکلف اپنی کلیسیا ٹوٹر ورتھ میں اس سارے طوفان سے لاتعلق اپنے اس چنیدہ کام میں مگن رہا۔ AK 84.1

    با لآخر کام پایہ تکمیل کو پہنچ گی بائبل کا پہلا ترجمہ معرض وجود میں آگیا۔ انگلینڈ مین خُدا کا کلام کھولا گا۔ اب وکلف کو نہ تو کسی پھانسی کو خوف تھا اور نہ ہی جیل حا۔ اس نے انگلینڈ کت لوگوں کے ہاتھ میں وہ مشعل تھمادی تھی جس کو کبھی نبھایا نہ جانا تھا۔ اپنے وطن کے لوگوں کے ہاتھوں میں بائبل دینے سے اس نے بدکاری اور جہالت کی زنجیروں کو توڑنے ، آزاد کرنے اور اپنے ملک کو ان فتوحات سے بڑھ کر ہمکنار کر دیا تھا جو میدان جنگ میں جیتی جاتی ہیں۔ AK 84.2

    ابھی تک پرنٹنگ کے فن سے آشنائی نہیں ہوئی تھی ۔ چنا نچہ یہ نہایت ہی سست رفتار اور تھکا دینے والا کام تھا کہ بائبل کی زیادہ سے زیادہ کاپیاں دستباب ہو سکیں ۔ اس کتاب کو حاصل کرنے کے لئے ایسی شدید دلچسپی دیکھی گئی تھی کہ بہت سے لوگ اس بات کے لئے راضی ہو گئے کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے اسے لکھ لیں گے۔ پھر بھی لوگوں کی استدعا پوری کرنے میں بڑی مشکل درپیش تھی وہ جو زیادہ اور امیر خریدار ہوتے تھے۔ وہ تو پوری بائبل خرید لیتے تھے جب کہ دوسرے کتاب مقدس کا کچھ ہی حصہ خریدتے تھے اور ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ بہت سے خاندان اکٹھے مل کر ایک کاپی خرید لیتے۔ یوں کلف کی بائبل لوگوں کے گھروں میں پہنچ گئی۔AK 84.3

    کلام مقدس نے لوگوں کی سوچ و فکر سے جو اپیل کی اس نے پاپائیت کی تعلیم سے جسے وہ بادل نخواستہ تسلیم کرتے تھے جیسے بیدار ساکر دیا۔ اب کلف نے پرو ٹسٹنٹ لازم کی چیدہ چیدہ تعلیم لوگوں کو سکھانا شروع کر دی ، جیسے کہ نجا ت صرف مسیح میں ایمان کے ذریعہ اور پاک مقدس کلی طور پر لا خطا ہیں، وہ مبشر جنہیں اس نے بھیجا انہوں نے بائبل اور اس کی تحریرات کو عام کر دیا اس کامیابی کے نتیجہ میں یہ نیا عقیدہ تقریباً نصف انگلینڈ کے لوگوں نے قبول کر لیا تھا۔ AK 85.1

    کلام مقدس کے منظرِ عام پر آنے سے کلیسیا کے حکمران سخت مایوں ہوئے ۔ اب انہیں اس ایجنسی کا سامنا تھا جو کلف سے کہیں طاقتور تھی ایسی ایجنسی جس کے خالاف ان کے حربے بہت ہی کم فائدہ مند ثا بت ہوئے تھے۔ اس وقت انگلینڈ میں بائبل کو روکنے کا کوئی قانون موجود نہ تھا ۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ لوگوں کی زبان میں کبھی پرنٹ اور شائع ہی نہ ہوئی تھی ۔ایسے قوانین بعد میں بنانے گئے اور ا ن پر بڑی سختی سے عمل کیا گیا اس دوران پاسبانوں کی کوششوں سے کلام مقدس کی ترسیل کے لئے بہت ہی اچھا موقع تھا ۔AK 85.2

    لہذا ایک بار پھر پوپ کے لیڈر نے کلف کی آواز کو خاموش کر نے کا منصوبہ بنا یا۔ اس پہلے ٹرائل کے لئے انہون نے یکے بعد دیگرے تین خصوصی کمیٹیاں بنا ئی تھیں جن کا کچھ فائدہ نہ ہوا تھا۔ پہلے بشپوں کے سنڈ (Synod) نے فتویٰ دیا کہ اس کی تمام تحریرات بد عتی ہیں۔ اور پھر نوجوان بادشاہ چر ڈالا نے روم کی حمایت حاصل کر نے کے لئے شاہی فرمان حاصل کر لیا کہ ان تمام کو جیل میں ڈالا جائے جن جن کے پاس یہ بدعتی تعلیم موجود ہے۔ AK 85.3

    وکلف نے سنڈ (Synod) سے پارلیمنٹ کو اپیل کی ۔ اس کے بلاخوف و خطر مذہبی حکومت پر نیشل کونسل کے سامنے الزام لگایا۔ اور ان سے اپنی برائیوں کی اصلاح کرنے کا مطالبہ کیا جو ان کی اجازت سے کلیسیا نے دے رکھی تھی اور اس نے بڑی جرات سے پوپ کے غا صبانہ اختیارات اور کرپشن کا بیان کیا۔ اس کے دشمن اضطراب کا شکار ہو گئے ۔ جب کہ وکلف خود اپنے بڑھامے میں انتہا بے یارومدد گار ہو کر بادشاہ اور بشہ کے سامنے سر تسلیم خم کر لر گا۔ مگر برعکس اس کے پوپ اور اس کے حامیوں نے اپنی شکست کو دیکھا۔ پار لیمنٹ و کلف کی بھڑکا دینے والی اپیلوں سے بر ا نگخیتہ ہو گئی اور اس نے ایذا اسانی کے فرمان میں ترمیم کر دی اور اصلاح کا حامی ایک بار پھر آزاد ہو گیا۔ AK 85.4

    اب تیسری بار اس کی پیشی حکومت کی اعلے ٰ ترین مذ ہبی کمیٹی کے سامنے ہوئی ۔ پوپ کے حامیوں نے سوچا کہ کوئی حمایت نہ کی جائے گی۔ اور روم فتح مند ہو گا اور اصلاح دین کے حامی کی تحریت اپنی موت آپ مر جائے گی۔ مگر انکو کیا انہوں نی تو جیسے بھی ہوا اپنا مقصد پانا ہے۔ وکلف کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنی تعلیمات سے دست بردار ہو جائے ، یا آگ کے شعلوں کی نظر ہونے کے لئے عدالت سے باہر جائے۔ AK 86.1

    مگر وکلف نے یہ کبھی بھی نہیں مانا کہ وہ غلطی پر ہے۔ کیونکہ اس نے کسی دھوکہ بازی سے کام نہ لیا تھا۔ اس لئے وہ بلا خوف و خطر اپنی تعلیم پر قائم رہا اور ایذا رسانی دینے والوں کے تمام الزامات کو پسپا کر دیا۔ اپنی طرف سے بے نیاز ہو کر اور اپنی حیثیت اور موقع کی نزاکت سے بھی قطع نظر اس نے اپنے سامعین کو الہٰی کمیٹی کے حضور بلایا اور ان کے غلط استدلال اور مکرو فریب کو ابدی صداقت کے پلڑے میں ڈالا ۔ کونسل روم میں روحِ القدس کی قوت محسوس کی جا رہی تھی۔ سا معین خُداوند کی طرف سے محسور ہو گئے ۔ ایسے لگتا تھا کہ ان میں وہاں سے جانے کی سکت نہیں رہی۔ جیسے خُدا کے ترتش سے تیر نکلتے ہیں ویسے ہی وکلف کے الفاظ نے ان کے دل چھلنی چھلنی کر دئیے تھے ۔ بدعت کا جو الزام انہوں نے اس پر لگایا تھا اس نے انہیں ہی بڑے مدلیل انداز میں واپس ان پر داغ دیے ۔ا س نے مطالبہ کیا کہ کیوں وہ اپنی غلط تعلیمات کی تشہیر کرتے ہیں؟ اپنے نفع کے لئے کیوں انہوں نے خُدا کے فضل کو مال ِ تجارت بنا رکھا ہے؟”AK 86.2

    آخر میں اس نے ان سے پوچھاکہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔“کیا آپ ایک بوڑھے شخص کے ساتھ مطمئن ہیں جو خود قبر کے دہانے پر کٹھراہے؟ انہیں آپ صداقت کے ساتھ کٹھرے ہیں۔ وہ صداقت کو آپ سے زیادہ طاقتور ہے اور وہی تم پر فتح پائے گی“یہ کہنے ہوئے وہ اسمبلی سے باہر چلا گیا، اور اس دشمنوں میں سے کسی کو روکنے کی جرا ت تک نہ ہوئی۔ (Wylie,b.2,ch,13.)AK 86.3

    وکلف کاکام تقریباً ختم ہو چکا تھا صداقت کا وہ جھنڈا جسے وہ عرصے سے تھامے ہوئے تھا اسکے ہاتھوں سے گرنے کو تھا۔مگر ایکبارر پھر اسے انجیل کی گواہی دینا تھی۔ غلط تعلیمات دینے والی حکومت کے قلعوں سےسچائی کا اعلان ہونا ضروری تھا۔ وکلف کو روم میں پوپ کی اعلےٰ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے لئے بلایا گیا جس نے کئی بار مقدسین کا خون بہایا تھا۔ وہ اس خطرے سے بے خبر ہوا تھا جو اسے درپیش تھا۔ وہ ضرور حکم کی تکمیل کرتا اگر فالج کا حملہ اسے سفر کرنے سے نہ روکتا۔ گو اسکی آواز روم میں سنائی نہ دی گئی ، مگر وہ خط کے ذریعہ کلام کر سکتاتھا۔ اور یہی اس نے کرنے کا قصد کیا۔ اپنی کلیسیاا سے اس نے پوپ کوخط لکھا۔ جو مودب اور مسیحی روح میں لکھا گیا گو اس میں پوپ کے گھمنڈ اور شان و شوکت کی خوب سرزنش کی تھی ۔ AK 86.4

    اس نے کہا یہ میری خوشی قسمتی ہے کہ ” میں اس کی ایمان کو سب کے سامنے رکھوں جو میں مانتا ہوں خصوصاً روم کے بشپ کے سامنے ۔ جس کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ وہ راست دموغ اور صاد ق ہے۔ اور جس ایمان کا میں نے ذکر کیا ہے امید کرتا ہوں کہ وہ دلی طور پر اس کی حمایت کرے گا۔ اور اگر یہ غلط تعلیم پر مبنی ہے تو اس کی اصلاح فرمائے گا“۔AK 87.1

    پہلی بات تو یہ کہ میں سمجھتا ہوں کہ مسیح یسوع کی انجیل خُدا کی شریعت کا مکمل وجود ہے۔ چونکہ بشب اس زمین پر مسیح کے شاگردوں میں بڑائی کا انحصار دنیوی شان و شوکت یا اعلےٰ مراتب پر نہیں ہے ۔ بلکہ مسیح کے ساتھ قربت اور مسیح کے طرزِندگی اور آداب و رسوم کو اپنانے پر ہے۔ مسیح یسوع جب اس دھرتی پر تھا وہ نہایت ہی غریب آدمی تھا اور اس نے تمام دنیوی قاعدہ و قانون اور عزت و تکریم کو حقیر جانا۔ ” کسی بھی ایمان دار شخص کو نہ تو پوپ کی اور نہ ہی کسی اور مقدس شخص کی پیروی کرنی چاہیے۔ پطرس اور زبدی کے بیٹے بھی ایک موقع پر دنیوی تعظیم کے خواہاں ہوئے تھے جو مسیح کے نقش قدم پر چلنے کے منافی بات تھی اور چونکہ یہ بات بیزاری کا باعث ہے اس لیے ا نکی طرح کی غلط سوچ کی پیروی نہ کی جائے۔ AK 87.2

    “پوپ کو چاہیے کہ وہ دنیوی حکمرانی چھوڑ دے جا کہ عارضی باد شاہی ہے۔ اور الہٰی پیشوا ہونے کے ناطے پوری توانائی موثر انداز میں خالق خُداوند کے کلال کے لئے صرف کر دے۔ یہی مسیح یسوع نے اور انکے شاگردوں نے کیا۔ اگر میں ان نقاط میں کو ئی غلطی کی ہے تو میں بڑی فروتنی سے ان اغلاط کو تعلیم کردوں گا خواہ مجھے تختہ دار پر لٹکٹا ہی کیوں نہ پڑے ۔ اور اگر میں اپنی مرضی کا خواہاں ہوں یا میں خود پرستی پر اتر آیا ہوں تو میں ضرور بشپ آف روم کی قدیم بوسی کروں گا ۔ مگر خُداوند نے مجھے اس کے برعکس یہ سکھایا ہے کہ انسان کی نسبت خُدا کے تابع فرمان رہو“۔AK 87.3

    خط کے اختتام پر اس نے کہا آئیے ہم خُداوند سے دعا مانگیں کہ وہ ہمارے نئے پوپ اربن کو ابھارے جس طرح اس نے خمت شروع کی ہے کہ وہ اپنے سمیت مسیح کی پیروی اپنی زند گی اور اس طریقے سے کریں۔ اور وہ موثر انداز میں لوگوں کو سکھائیں اور وہ خود بھی اپنی تعلیم کی پیروی کریں۔ (جان فاکس، ایکٹس اینڈ مانو منٹس والیم 3، صفحہ 50،49)AK 87.4

    یوں وکلف نے پوپ اور اسکے کارڈی نلز کے سامنے مسیح یسوع کی فروتنی اور جانثاری پیش کی- بلکہ نہ صرف انہیں ہی یہ پیش کیا بلکہ تمام مسیحی سلطنتوں کو بھی وہ تضاد دکھایا جو ان کے اور انکے آقا کے درمیان پایا جاتا تھا جس کے وہ نمائندہ ہونے کا اقرار کرتے تھے-AK 88.1

    وکلف پوری طرح توقع کرتا تھا کہ اس کی جان وفاداری اور ایا نتداری کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ بادشاہ پوپ اور تمام بشپ اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے متحدہو گئے اور اسے یقین تھا کہ زیادہ سے زیادہ چند ماہ کے عرصہ میں اس ےسولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ ایسے میں اس کی ہمت متزلزل نہ ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ ” آپ شہادت کا تاج پانے کے لئے دور کی باتیں کیوں کرتے ہو؟ مسیح یسوع کی انجیل کی منادی ان خُود پسند اور مغرور پوپ کے منادوں کے سامنے کرو تو شہادت آنے میں دیر نہ کرے گی۔ اب کیا میں چپ وہ کر زندگی بسر کروں؟۔۔۔۔۔۔۔ کبھی نہیں یہ دھچکا لگنے ہی دیں۔ میں اس کا منتظر ہوں۔ AK 88.2

    D’Aubigne,b.17ch.8AK 88.3

    مگر خُداوند نے اپنی پرودگاری میں اپنے خادم کو پناہ دی۔ جس شخص نے بڑی دلیری سے عمر بھر سچائی کے حق میں آواز بلندی اسے دشمن باوجود اپنی نفرت کے شکار نہیں بنا سکتا تھا ۔ وکلف نے کبھی بھی خود کو محفوظ رکھنے کی کو شش نہ کی خُداوند اس کی ڈھال اور محافظ رہا اور اب دشمنوں کو جب یہ یقین ہو گیا کہ شکار انکے ہاتھ آجائے گا خُدا نے ان سب کی پہنچ سے بہت دور پہنچا دیا۔ جس وقت وہ اپنے چرچ لو ٹرورتھ میں عشائے ربانی کی رسم ادا کر رہا تھا اس پر فالج کا شدید حملہ ہوا۔ وہ گرا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے جان دے دی۔ AK 88.4

    خُداوند ہی نے وکلف کو ایک خاص کام کے لئے مقرر کیا تھا۔ اسی لئے اس نے اپنے کلام کو اس کے منہ میں رکھا اور اسی نے اس کے گرد پہرہ بٹھایا تاکہ اس کا اکلام لوگوں تک پہنچایا جائے۔ اسکی زندگی کی حفاظت کی گئی اور اسکی خدمت اس وقت تک جاری رکھی گئی جب تک کہ ریفر یمیشن کے عظیم کام کی بنیاد ڈالی گئی۔ AK 88.5

    وکلف تاریک زمانوں کی گمنای میں سے آیا تھا۔ اسے پہلے ایسا کوئی اصلاح ِ دین نہ آیا تھا ۔ جس کے کام سے وہ اپنے اصلاحی نظام کو شکل دیتا۔ اس کی پرورش ایک خاص کال انجام دینے کے لئے یوحنا بپتسمہ دینے کی طرح کئی گئی۔ وہ ایک نئے دور کی آمد کی آواز تھا۔ تاہم جس صداقت کے نظام کی اس نے منادی کی اس میں یگانگت اور کاصلیت تھی ، جس سے بعد میں آنے والے مصلح حضرات آگے نہ بڑھ سکے۔ بلکہ بعض تو اس تک بھی پہنچ نہ پائے گو صدیوں بعد نمودار ہوئے تھے۔ چناچہ نہ نیو اس قدر وسیع اور گہری ڈالی گئی ، اور اس کا بنیادی ڈھانچہ اس قدر مستحکم اور راست تھا کہ وہ بعد میں آئے انہیں اسکی دوبارہ تعمیر کرنے کی قطعاً ضرورت پیش نہ آئی۔ AK 88.6

    وہ بڑی تحریک جس کا وکلف نے افتتاح کیا تھا اس سے ذہین اور ضمیر کو آزادی ملی بلکہ وہ ان قوموں کو آزاد کرنے کے لئے تھی جو مدتوں سے رو، کی غلام رہ چکی تھیں ۔ اس تحریک ک سر چشمہ کلام ِ مقدس تھا۔ اسی سے اس برکت کی ندی آغاز ہوا جو زندگی کے پانی کی مانند ٹھہرا، یہی قدیم زمانوں سے بہتا ہوا چودھویں صدی تک پہنچایا گیا۔ وکلف نے مقدس نوشتوں کو خُدا کی مرضی کا الہامی مکاشفہ جانتے ہوئے کامل ایمان کے ساتھ قبول کیا۔ اسے تعلیم دی گئی تھی کہ روم کی کلیسیا الہامی کلیسیا ہےاور وہ با اختیار اور بے الزام ہے اور اس کی قائم کردہ تعلیمات اور رسومات کو جا ہزاروں سال پرانی ہیں بلا تامل مانا جائے ، مگر وہ ان سے دور چلا گیا تا کہ خُداوند کے مقدس کلام کو سنے ، اسی کلام کے اختیار کو ماننے کی اس نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو ترغیب دی۔ بجائے یہ ماننے کہ خُدا پوپ کے ذریعہ کلام کرتا ہے اس نے لوگوں کی توجہ اس واحد حاکم کی طرف لگائی جواپنے کلام کے ذریعہ بولتا ہے۔ اس نے نہ صرف یہ سکھایا کہ بائبل خدا کی مرضی کا کامل مکاشفہ ہے بلکہ اس نے یہ بھی سکھایا کہ روح القدس ہی اس کا واحد مفسر ہے ، لہذا ہر شخص ازخود اس کی تعلیم کا مطالعہ کرکے اپنے ضرض سے آقاہی حاصل کر سکتا ہے، یوں اس نے انساں کی سوچ و فکر کو پاپائیت اور روم کی کلیسیا سے موڑ کر خُدا کے کلام کی طرف پھیردیا۔ AK 89.1

    اصلاح دین کے تمام تر حامیوں میں سے وکلف سے عظیم تر گنا جاتا ہے۔ علم کی جس وسعت، خیالات کی ایسی وضاحت سچائی کو برقرار رکھنے اور اس کا دفاع کرنے میں جس جرات کا اس نے مظاہرہ کیا ایسا بہت ہی کم مصلح کر پائے ۔ اگرچہ اس کے بعد کئی آئے تھے۔ اس کی زندگی کی پاکیزگی اور اس میں مطالعہ اور انتھک جانفشانی وہ بے داغ ایمان داری اور مسیح یسوع محبت اور اپنی خدمت کے ساتھ پوری وفاداری نے اسے واقعی اصلاح دین کا پہلا سور ماننا دیا اور یہ ستارہ ابھر بھی اس دور میں جہاں شعوری تا ریکی اور اخلاقی بد چلنی کا راج تھا۔ جس کی اس نے نہ پرواہ کی تھی اور نہ ہی اثرلیا تھا۔AK 89.2

    وکلف کا ایسا کردار اس تعلیم کے حق میں گواہی ہے جو پاک نوشتوں میں پائی جاتی ہے اور جس میں تبدیل کر دینے کی تاثیر ہے۔ وہ جو بھی صرف بائبل کی بدولت تھا۔ مکاشفات کی عظیم سچائیوں کو جاننے کی ہماری تمام قوا کو تازگی اور استعداد بخشتی ہے۔ یہ ذہنی فیصلہ کو پختہ کرتی ہے ۔ کتاب مقدس کا مطالعہ ہر خیال محسوسات اور آرزو کو اتنا سر فراز کردے گا جتنا کوئی دوسرا مطالعہ نہیں کر سکتا۔ اس سے ارادوں کو صبر، ہمت کو قوت، برداشت کو پائیداری ، چال چلن کو جلا اور روح کو تقدس ملتی ہے۔ کلام مقدس کا مخلص اور مودبانہ مطالعہ ایک طالب علم کے ذہن کو براہ راست الہیٰ اور لامحدود ذہن کے ساتھ جاملاتا ہے۔ اسکی بدولت دنیا میں مضبوط اور ہوشیار ذہن لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں جو عظیم اصولوں کے مالک تھے ایسا عالی شان نتیجہ کوئی بھی انسانی فلاسفی اور تربیت مہیا نہیں کر سکتی ۔ زبور نویس کہتا ہے کہ “تیری باتوں کی تشریح نور ہے۔ وہ سادہ دلوں کو عقل مند بناتی ہے۔ زبور 130:119AK 90.1

    وہ تعلیمات جو کلف نے سکھائی تھیں کچھ دیر تک مسلسل پھیلائی جاتی رہیں۔ اس کے پیروکاروں کو لولارڈز (Lollaards) وکلفٹیس (Wychiffites) کہاجاتا تھا۔ وہ نہ صرف انگلنیڈ میں بلکہ انجیل کا علم لے کر دوسرے ملکوں میں بھی پھیل گئے ۔ اب اگرچہ ان کا لیڈر انکے درمیان نہ رہا تھا تو بھی ان منا دوں نے پہلے سے کہیں زیادہ جوش و خروش سے کام کرنا شروع کر دیا۔ اور بھیڑ انکی تعلیم سننے کے لئے امڈآئی ، بہت سے اعلیٰ خاندانوں حتیٰ کہ بادشاہ کی بیگم صاحبہ نے بھی اس نئی تعلیم کو قبول کر لیا۔ اس تعلیم کے باعث بہت سی جگہوں پر لوگوں کی عادات و اطوار میں خصوصی اصلاح دیکھنے کو ملی۔ بلکہ جو بت پرست رسومات روہن ازم کی علامات تھیں انہیں گرجا گھروں سے باہر کر دیا گیا ۔ لیکن جلدی ایذا رسانی کا ایک بے درطوفان ان سب پر برپا ہو گیا جنہوں نے کتاب مقدس کو اپنا رہنماتسلیم کیا تھا۔ وہ انگر یز فرما نروا جو روم کی حمایت حاصل کر کے اپنی قوت کو بڑھانے کے خواہاں تھے ۔ وہ ان مصلح حضرات کی قربانی دینے سے بھی باز نہ آئے۔ انگلستان کی تاریخ میں پہلی بار انجیل کے شاگردوں کے خلاف پھانسی کی سزر کا فرمان جاری کیا گیا۔ یکے بعد دیگرے شہادتوں کا سلسلہ شروع ہو گیاصداقت کے حامئتیوں کو واجب القتل قرار دے دیا گیا اور انہیں ایذائیتیں پہنچائی گئیں۔ وہ اپنی چیخ و پکار سبت کت مالک کے کان میں ڈال دسکتے تھے ۔ انہیں کلیسیا کے دشمن اور غدار جان کر شکار کیا جاتا۔مگر انہوں نے پوشیدہ مقاموں میں منا سہ جاری رکھی۔ انہوں نے غریب غربا کت گھروں میں پناہ پائی اور اکثر غاروں میں جنگلی جانوروں کی کھوہ میں چھپتے پھرتے رہے۔ AK 90.2

    ایذا رسانی کے اس غیض و غضب کے باوجود ایک پر امن ، جانثار، سنجیدہ، مذہبی ایمان غالب رہا جس نے مذہبی کرپشن کے خلاف صدیوں تک احتجاج جاری رکھا۔ اس ابتدائی زمانے کے مسیحوں کے پاس سچائی کا جزوی علم تھا۔ انہوں نے خُدا کے کلام کو پیار کرنا اور اس کا فرمان بجالانا سیکھ لیا تھا۔ اور انہوں نے بڑے صبر سےاس کی خاطر دکھ اٹھائے۔ رسولوں کے زمانہ کے شاگردوں کی طرح یسوع مسیح کے حق کی خاطر بہتیروں نے اپنی دنیوی ملکیت قربان کر دیں۔ جن کو اپنے گھروں میں رہنے کی اجازت ملی انہوں نے بخوشی اپنے کاوطن بھائیوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی۔ اور جب انکا بھی بھگا دیا گیا تو انہوں نے خوشی خوشی خانہ بدوشوں کی سی زندگی قبول کی۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ ہزاروں ایسے بھی تھے جو اپنے ایذارسانوں سے گبھرا گئے اور جنہوں نے اپنے ایمان کی قربانی پر آزادی خریدی۔ یہ لوگ اپنی جیلوں سے باہر آئے اور توبہ کرنے والوں کے لباس زیب تن کئے۔ اور صداقت سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا۔ مگر انکی بھی تعداد کوئی ٹھوری نہیں ہے جن میں اونچے گھرانے کے افراد اور غریب مسکین مردوزن شامل تھے انہوں نے جیلوں کے اندر جا“لولا رڈ ناوز” میں سیل (Cell) بنائے گئے تھے اچھی گواہی دی۔ ان میں ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے ایذارسانی اور بھٹرکتے شعلوں کے درمیان بے خوف و خطر گواہی دی کہ وہ مسیح یسوع کی خاطر دکھ اٹھانے کے قابل تو نکلے۔ اور اس کے دکھوں میں شراکت کی۔ AK 91.1

    پاپائیت کے اقتدار کے حامی و کلف پر اس کی زندگی میں اپنی مرضی نہ ٹھوس سکے۔ جب کہ اسکا جسد خاکی قبر میں آرام کر رہا تھا تو بھی ان کی فطرت ابھی اس کے خلاف تلملا رہی تھی ۔ کاٹسٹینس (Canstance) کونسل کے حکم سے، اسکی موت کے چالیس سال بعد اس کی قبر کھود کر اس کی ہڈیاں نکالی گئیں اور عوام کی آنکھوں کے سامنے انہیں جلایا گیا۔ اور انکی راکھ نیبرنگ نام ایک ندی (Neighboring brook) میں بہا دی گئی- ایک منصف اس عمل پر یوں رقمراز ہے کہ اس ندی “نیبرنگ” نے وکلف کی راکھ کو Avon کے سپرد کیا اور Avon نے Severnکے جس نے اسے چھوٹے سمندر کے اور چھوٹے سے اسے بڑے بحیر میں پہنچا دیا گیا ۔ لہٰذا اکلف کی راکھ اسکی تعلیم کی علامت اور داستان بن گئی جو تمام دنیا میں پہنچا دی گئی ہے”-AK 91.2

    T.Fuller, church history of Britain,B,4,Sec.2.per.54.AK 91.3

    اپنے گھناؤنے کلام کی اس خوبصورت اہمیت کا اس کے دشمنوں کا اندازہ بھی نہ تھا۔ AK 91.4

    یہ وکلف کی تحریرات کا نتیجہ ہی تھا کہ بعد میں آنے والا جان ہس (John Huss) جو بوہمسیاہ کا ایک باشندہ تھا ۔ اس نے رومن ازم کی بہت سی غلط تعلیمات کو ترک کرتے ہوئے اصلاح دین کے کام میں قدم رکھا۔ اس طرح ان دو ممالک میں جو ایک دوسرے سے کوسوں دور تھے سچائی کا بیج بویا گیا۔ بوہمسیا سے کا، داسرے ممالک تک پھیلایا گیا۔ وہاں بھی لوگوں کے اذہان کو خُدا کے اس کلام کی طرف مائل کیا گیا جسے ایک عرصہ سے بھلا دیا گیا تھا۔ ایک الہٰی ہاتھ ایک عظیم ریفر یمیشن کے لئے راہ تیار کررہا تھا۔ AK 92.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents