Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
عظیم کشمکش - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First

    چودھواں باب - مابعد انگلش مُصلح حضرات

    جب ادھر لوتھر جرمنی کے لوگوں کے لیے سربستہ ببائبل کو کھول رہا تھا، اُدھر ٹینڈیل (Tyndale) کو خُد ا کا روح مجبور کر رہا تھا کہ وہ بھی انگلینڈ کے لیے ویسا ہی کرے۔ وکلف کی بائبل کی لاطینی متن سے ترجمہ کی گئی تھی۔ جس میں کافی اغلاط تھیں۔ وہ تو کبھی پرنٹ نہ ہوئی۔ اور مینو سکرپٹ کی کاپیوں کی قیمت اس قد رزیادہ تھی کہ صرف اُمرایا نوبلز ہی اسے خریدنے کی سکت رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں کلیسیا نے اس کی کاپی حاصل کرنے پر جلاوطنی اور واجب القتل کی سزا مقرر کر رکھی تھی۔ اس لیے اس کی سرکولیشن نہ ہونے کےبرابر تھی 1516 میں لوتھر کے تھیسز (Theses) منظر عام پر آنےسے ایک سال پیشتر اراسمس (Erasmus) نے عہد جدید یونانی اور لاطینی ورژن میں شائع کیا۔ پہلی بار خُدا کا پاک کلام اپنی اصلی زبان میں پرنٹ ہوا۔ اس کام میں پہلے ورژن کی کئی اغلاط کی درستی کی گئی اور زیادہ وضاحت کے ساتھ خیال کو پیش کیا گیا۔ اس سے بہت سے پڑھے لکھے طبقات نے صداقت کو بہتر طور سے جانا۔ اور اصلاح کے کام کو نئی قوت رفتاردی۔ مگر عام لوگ بہت بڑی تعداد میں خُدا کے کلام سے محروم رہ گئے تھے۔ ٹینڈیل کو اپنے ملکی بھاءیوں کو بائبل دیکروکلف کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ AK 240.1

    سچائی کا سرگرم اور محنتی سٹوڈنٹ اور مخلص متلاشی ہونے کی وجہ سے اُس نے اراسمس کی یونانی انجیل حاصل کر لی تھی۔ اُس نے اپنی قاءیلت کی بے خوف و خطر منادی کی اور اس بات پر زور دیا کہ کلام مقدس ہر طرح کی ڈاکٹرائن(تعلیم)کی کسوٹی ہے۔ پوپ پرستوں کا دعوی یہ تھا کہ کلیسیا ہی نے بائبل دی تھی اور صرف کلیسیا ہی اس کی تشریح کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے جواب میں ٹینڈل نے کہا“کیا تمہیں پتہ ہے کہ کس نے عقاب کو شکار کرنا سکھایا ہے“؟وہی خُداوند اپنے بھوکے بچوں کو اپنے پاک کلام میں سے اُن کے خُدا کا پتہ بتائے گا۔ اُس نے تو اپنا پاک کلام عرصے سے دے رکھا ہے اور آپ نے اُسے ہم سے چھپارکھا ہے۔ یہ آپ ہی ہیں جو اُنہیں آگ میں جلاتے ہیں جو اس کی تعلیم دیتے ہیں اور اگر آپ کے بس میں ہو تو آپ پاک نوشتوں کو بھی جلادیں۔AK 240.2

    D,Aubigne, history of the reformation of the sixteenth contury, b. 18,ch.4.AK 240.3

    ٹینڈل کی منادی سے بہت زیادہ دلچسپی پیدا ہو گئی اور بہتوں نے سچائی قبول کرلی۔ پوپ کے حامی پریسٹ بھی چوکس تھے۔ جونہی اُس نے کسی اور جگہ جانے کےلیے میدان چھوڑا تو یہ دھمکیوں اور نامعقول نمائندگی کے ذریعہ اُس کے کام کو ختم کرنے کی کوشش کرتے۔ اکژوہ اس میں کامیاب ہو جاتے “کیا کیا جائے“؟ ٹینڈل نے کہا“جب میں ایک جگہ بیج بوتا ہوں، تو جس کھیت کو میں نے ابھی چھوڑا دشمن اُسے برباد کر دیتاہے“۔ میں تو ہر جگہ نہیں ہو سکتا، اگر مسیحی اپنی مادری زبان میں کلام مقدس کو پاسکیں تو وہ خود ان فلاسفروں کو سمجھ پائیں گے۔ بائبل کے بغیر لے مین (lay men ) کو سچائی میں قاءم رکھنا ناممکن ہے۔ Ibid,b.18.ch.4AK 241.1

    اُس کے ذہن میں ایک نیا خیال سمایا۔ اُس نے کہا“یہ اسرائیل کی زبان میں ہے کہ مزامیر یہواہ کی ہیکل میں گائے جاتے تھے اور کیا انجیل، ہمارے درمیان انگلینڈ کی زبان نہ بولے؟کیا کلیسیا کے پاس صبح کی نسبت دوپہر کو کم روشنی ہو نی چاہیے؟مسیحوں کو لازما اپنی مادری زبان میں عہد جدید کا مطالعہ کرنا چاہیے“۔ کلیسا کے ڈاکٹزز اور ٹیچرز خود آپس میں متفق نہیں ہوتے۔ صر ف بائبل کے ذریعہ ہی انسان سچائی تک رسائی کر سکتے ہیں۔ “ایک شخص اس ڈاکٹر کا نظریہ مانتا ہے تو دوسرا کسی اور ڈاکٹر کا۔ ان میں سے ہر ایک مصنف، دوسرے مصنف کی تردید کرتا ہے۔ تو پھر ہم اس بات میں کس طرح امتیاز کر سکتے ہیں کہ کون صحیح کہہ رہا ہے۔ اور کون غلط؟کیسے؟درحقیقت خُداکےکلام سےIbid,b.18.ch.4AK 241.2

    اس کے تھوڑی ہی دیر بعد ایک عالم فاضل کیتھولک ڈاکٹر اُس کے ساتھ مناظرہ کرنے لگا اور کہا۔“پوپ کی شریعت کے ساتھ ہم خُدا کی شریعت کے بغیر بہتر ہو سکتے تھے“۔ ٹینڈیل نے اس کے جواب میں کہا“میں پوپ کواور اُس کی ساری شریعت کو للکارتا ہوں اور اگر خُداوند مجھے زندگی دے تو زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ میں ایک بچے کو اس قابل کر دوں گا کہ وہ کلام خُدا کو آپ سے زیادہ سمجھنے لگے گا“۔AK 241.3

    Andrewson,ammals of the English Bible, page. 19.AK 241.4

    وہ مقصد جس کی اس نے آبیاری کرنا شروع کر دی تھی کہ لوگوں کو ان کو مادری زبان میں عہد جدید کے الہامی نوشتے میسر ہوں اُس کی تصدیق ہو چکی تھی اور اُس نے فورا خود کو اس کام کے لیے وقف کر دیا۔ ایذارسانی کے سبب اُسے اپنے گھر سے نکلنا پڑا اوروہ لندن چلاگیا۔ وہاں اُس نےبلاکسی رکاوٹ کے کچھ دیر کام کیا۔ مگر پھر پوپ کے حواریوں کے جبرو تشد د نے اُسے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ایسے دیکھائی دیتا تھا جیسے کہ سارا انگلینڈ اُس پر بند کر دیا گیا ہے چنانچہ اُس نے جرمنی میں پناہ لینے کا ارادہ کیا۔ یہاں اُس نے انگلش میں عہد جدید پرنٹ کرنا شروع کر دیا۔ دو دفعہ کام کو روکا گیا۔ لیکن جب ایک شہر میں پرنٹنگ منع کی گئی تو وہ دوسرے شہر کو چلا گیا۔ آخر کار اُس نے ورمز (worms) کی راہ لی۔ جہاں چند سال پیشتر لوتھر نے ڈاءٹ کے سامنے انجیل کا دفاع کیا تھا۔ اُس قدیم شہر میں ریفریمیشن کے بہت سے حامی موجود تھے۔ وہاں ٹینڈیل نے مزید رکاوٹ کے بغیر اپنے کام کو جاری رکھا اور جلد ہی تین ہزار عہد جدید کی کاپیا ں پرنٹ ہو گءیں اور دوسرا ایڈیشن اس کے بعد اُسی سال شروع کر دیاگیا۔ AK 241.5

    انتہائی نیک نیتی اور جانفشانی سے اُس نے اپنے کام کو جاری رکھا۔ اس کے باوجود کہ انگلش ارباب اختیار نے تمام بندرگاہوں (Ports) پر سختی کر رکھی تھی۔ خُدا کا کام کئی دوسرے خفتیہ راستوں سے لندن پہنچایا گیا اور پھر سارے ملک میں اُسے پھیلا دیا گیا۔ پوپ کے حامیوں نے بے فائدہسچائی کو دبانے کی کوشش کی۔ ایک دفعہ ڈراہام کے بشپ نے ٹینڈیل کے ایک بک سیلر دوست سے بائبلز کا سار سٹاک خرید لیا تاکہ اُنہیں تلف کر دے۔ اُس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ کام میں رکاوٹ ڈال دے گا۔ مگر برعکس اس کے ہمیں پیسہ مل گیا جس سے ہم نے نئے اور بہتر ایڈیشن کے لیے میٹریل خرید لیا۔ ورنہ اس کے بغیر ہم پبلش نہ کر پاتے۔ لیکن بعد میں جب ٹینڈیل کو قید کر لیا گیا تو اُس کی رہائی کو اس بات سے مشروط کیا گیا کہ وہ اُن لوگوں کے نام بتا دے جو بائبل پرنٹ کرنے کے لیے اخراجات مہیا کر تے ہیں۔ اُس نے جواب میں کہا بشپ آف ڈرہام نے باقی سب سے زیادہ مدد فراہم کی ہے۔ کیونکہ اُس نے تمام کتابیں خرید لیں جس سے ہماری بڑی ہمت افزائی ہوئی۔ AK 242.1

    ٹینڈیل کو ایک باردھوکے سے دشمنوں کے حوالے کر دیا گیا اور وہ کئی ماہ تک پابند سلاسل رہا اور آخر کار اُس نے اپنے ایمان کی گواہی شہید کی موت سے رقم کی۔ مگر وہ ہتھیار جو اُس نے تیار کیے تھے اُن ہتھیاروں نے تمام صدیوں تک جنگ لڑنے کے لیے سپاہیوں کو صلاحیت بخشی۔ AK 242.2

    لیٹی مر (Latimer) نے پلیٹ پر سے اس بات پر زور دیا کہ لوگوں کو اپنی مادری زبان میں بائبل پڑھنی چاہیے۔ کلام مقدس کے مصنف نے فرمایا” وہی خُداوند خُدا ہے “اور یہ الہامی صحائف مصنف کی قوت اور ابدیت میں شرکت کر تے ہیں۔“کوئی بادشاہ نہیں، قیصر یا مجسٹریٹ نہیں، نہ کوئی حاکم ہے ۔۔۔۔ سب کو خُداوند کے مقدس کلام کی تابع فرمان ہونا ہے۔ ہمیں کسی کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہیے۔ آئیے ہم خُداوند کے پاک کلام سے ہداہت لیں ہمیں فادرز کے پیچھے نہیں جانا چاہیے،ہمیں اُس کی تلاش ہونی چاہیے” ہف لیٹی مر۔First Sermon preadched before kind Edward VIAK 242.3

    بارنس (Barnes) اور فرتھ (Firth) جو ٹینڈیل کے وفادار دوست تھے، سچائی کا دفاع کرنے کو اُٹھے۔ رڈلیز (Ridleys) اور کرینمر (Cranmer) نے اُن کی پیروی کی۔ انگلش ریفریمیشن میں یہ لیڈرز بہت پڑھے لکھے مرد تھے۔ ان میں پیشتر رومی مذہبی گروہ میں اپنی پارساءی اور جوش و جذبہ کے اعتبار سے بڑے معروف تھے۔ اُن کی مخالفت پوپ کی بدکاریوں کو جاننے کا نتیجہ تھا، بابل کے راز سے اُن کی شناساءی نے اُنہیں اُس کے خلاف گواہی کے لیے بڑی قوت عطا کی۔ AK 243.1

    لیٹی مر نے کہا اب میں ایک عجیب سا سوال پوچھتا ہوں“سارے انگلستان میں کون سابشپ یا صدر راہب سے سے زیادہ مستعد اور سرگرم ہے؟ آپ چاہتے ہیں کہ میں اُس کانام لوں۔ میں سمجھ گیا ہوں، آپ اُس کا نام سننا چاہیتے ہیں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں یہ ابلیس ہے وہ اپنے ڈائیس (Diocese) سے باہر نہیں جاتا۔جب آپ کا جی چاہےاُسے بلالیں، وہ ہر وقت گھر پر ہی رہتا ہے۔ وہ ہر وقت چیرنے، پھاڑنے، برباد کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ میں شرط لگا سکتا ہوں، کہ آپ اُسے کبھی بیکار بیٹھا ہوا نہ پائیں گے جہاں ابلیس رہائش پذیر ہوگا وہاں کتابوں کا کیا کام۔ وہاں تو موم بتیوں کا بول بالا ہو گا۔ وہاں بائبل کا کیا کام وہاں تو موتیوں کی مالاجپی جائے گی۔ وہاں انجیل کی روشنی نہیں، بلکہ وہاں موم بتیوں کو روشنی کو برتری ہوگی۔ ہاں دوپہر کے وقت یسوع کی صلیب کے ساتھ سربسجود مگر پرگاٹوری (Purgatory) کے لیے پرس (Purse) چھینے جائیں گے۔ بے مقدور، مفلس اور ننگوں کو کپڑا نہیں پہنایا جائے گا مگر بتوں کو سجایا جائے۔ پتھروں کو سنگارا اور زرق برق بنایا جائے گا، اور خدا کی روایات اور اسکے پاک ترین کلام کو حقیر جانا جائے گا- کاش ہمارے راہب اچھی تعلیم (Doctrine) کا بیج بوئیں، جب کہ شیطان کڑوے دانوں اور جڑی بوٹیوں کا بیج بوتا ہے“۔AK 243.2

    وہ بڑا اُصول جو اصلاح کاروں نے قائمدائم رکھا، یہ وہی اصول تھا جسے والڈن سس، وکلف، جان ہس، لوتھر، زونگلی اور انہوں نے جو ان کے ساتھ منسلک ہوۓ اپنایا تھا۔ کہ کلام خُدا کا اختیارلاخطا ہے۔ اور وہی ہمارے ایمان اور عمل کا ضابطہ ہے۔ انہوں نے پوپس(popes) فادرز اور بادشاہوں کے اس اختیار کا انکار کیا کہ وہ مذہب کے معاملہ میں انسانی ضمیر پر کنٹرول رکھیں۔ اُن کی اتھارٹی باءبل تھی اور وہ باقی تمام تعلیمات کو اس کی تعلیم کے ساتھ موازنہ کرتے تھے کہ آیا یہ درست ہے یا نہیں۔ خُدا اور اُس کے کلام میں ایمان نے ان مقدس لوگوں کو سولی پر بھی ثابت قدم رکھا۔ جب اُس کے دوست شہیدوں کی آواز کوآگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کو تھی تو لیٹی مرنے اُن کی غمخواری کرتے ہوءے کہا“خاطر جمع رکھیں“آج ہم خُدا کے فضل سے ایسی شمعیں روشن کر جاءیں گے جن کو انگلستان میں کوءی گُل نہ کر پاءے گا۔ works of hugh latmar vol.1, p.XIIIAK 243.3

    سکاٹ لینڈ میں وہ بیج جو کولمبا(Columba) اور اُس کے ہم خدمت کار گزاروں نے بویا تھا وہ تمام کا تمام برباد نہ ہوا۔ کءی سو سال کے بعد جب انگلینڈ کی کلیسیاوں نے خود کو روم کے مطیع کر دیا، تو سکاٹ لینڈ کی کلیساوں نے اپنی آزادی کو برقرار رکھا۔ بارھویں صدی میں یہاں پوپ پرستی قاءم ہو گءی۔ اور اس ملک کے علاوہ اس نے کسی اور ملک میں ایسا تسلط نہجمایا اور اس سے زیادہ کسی اور جگہ تاریکی گہری نہ تھی۔ اس کے باوجود یہ روشنی کی شعاعیں آءیں جنہوں نے اندھیروں کے سینے چاک کر کے صبح تاباں کی نوید دی۔ لولارڈز انگلینڈ سے باءبل اور وکلف کی ٹیچنگ لے کر یہاں آءے۔ جس نے انجیل کی معرفت کو بڑی حد تک محفوظ رکھا۔ پھر ہر صدی میں اس کے گواہان اور شہید پیدا ہوتے رہے۔ AK 244.1

    عظیم اصلاح کے افتتاح سے لوتھر کی تصانیف، اور پھر ٹینڈیل کا انگلش عہد جدید آیا۔ مذہبی حکومت کی بے خبری میں ان بیخام رسانوں نے بڑی خاموشی سے پہاڑوں اور وادیوں کو سر کرلیا اور اُن میں نءی زندگی کی روح پھونکی۔ اور سکاٹ لینڈ میں سچاءی کی شمع روشن کی جو تقریبا بجھنے کو تھی اور روم کے تشدد آمیز کام کی بساط لپیٹ دی جو وہ چار صدیوں سے یہاں کر رہا تھا۔ AK 244.2

    پھر شہیدوں کے خون نے تحریک کو تازہ قوت اور رفتار عطاکی۔ پوپ پرست لیڈرز کی آنکھیں کھل گئیں اُنہوں نے جان لیا کہ یہاں اُن کے کام کو خطرہ ہے۔ اس لیے اُنہوں نے سکاٹ لینڈ کے بعض انتہائ شریف، اور انتہائ معزز بیٹوں کو سولی چڑھا دیا۔ ایسا کرنے سے اُنہوں نے سکاٹ لینڈ میں پلپٹ استوار کر دیا۔ جہاں سے ان مرنے والوں کی گواہی سارے ملک میں سنی گئ اور لوگوں کی روحیں اس جذبے سے تڑپ اُٹھیں کہ وہ ہر قیمت پر روم کی زنجیروں کو توڑ بھینکیں گے۔ AK 244.3

    ہیملٹن اور ویشارٹ، جو اپنی پیداءش اور کردار دونوں لحاظ سے شہزادے تھے۔ وہ نہایت ہی فروتن شاگرد تھے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ مگر ویشارٹ کی جلتی ہوءی چتا کی بدولت ایک پیدا ہو گیا جس کی آواز کو شعلے بند نہ کر سکے جس نے خُدا کی سرپرستی میں سکاٹ لینڈ میں پوپ پرستی کے اُس گھٹنے کو ٹھوکر ماری جو موت کی غم انگیز خبر دیتا تھا۔ AK 245.1

    جان ناکس(John knox) نے کلیسیا کی فلاسفی اور روایات سے منہ موڑ لیا، اور خُدا کے پاک کلام اور اُس کی صداقتوں پر دل جمالیا۔ اور ویشارٹ کی ٹیچنگ نے اُس کے ارادوں کی تصدیق کر دی کہ وہ روم کے مذہبی گروہ سے دست بردار ہو کر ستم رسیدہ اصلاح کار سے منسلک ہو گیا ہے۔ AK 245.2

    ساتھیوں کی خواہش کے بموجب اُس واعظ کی ذمہ داری دی گءی۔ وہ اس ذمہ داری سے گھبراتا اور کتراتا تھا۔ کیوںکہ روم سے اُس کی علیحدگی کو ابھی چند ہی دن گزرے تھے اور ابھی تو وہ اپنے اس فیصلے کی اذیت سے دوبدو ہور ہا تھا۔ لیکن جب اُس نے یہ ذمہ داری قبول کر لی تو وہ بلاکسی جھجک کے آگے بڑھنے لگا، اور پھر جب تک وہ زندہ رہا اپن ارادوں میں پست ہمتی کا مظاہرہ کبھی نہ کیا۔ یہ صادق دل اصلاح کار کسی انسان سے نہ ڈرتا تھا۔ شہادت کے شعلے جو اس کے گرد بھڑکتے تھے، یہ اُس کے جوش و خروش میں صرف اضافہ بنے۔ جبر کا کلہاڑا جو اُس کے سر پر لٹک رہا تھا وہ اُس کے سامنے ہرگز نہ لرزہ اور بت پرستی کو تباہ کرنے کے لیے داءیں باءیں سے شدید ضربیں لگاتا رہا۔ جب جان ناکس کو سکاٹ لینڈ کی ملکہ کے سامن پیش کیا گیا، جس کے سامنے بہت سے پروٹسنٹ کے لیڈران کی ہمت کم پڑ جای تھی، وہاں جان ناکس نے بغیر خوف کے سچاءی کو گواہی دی۔ اُسے نہ ہی پیاردلاسے اور نہ ہی زبرداری سے جیتا جا سکتا تھا۔ وہ تو دھمکیوں سے بھی پست ہمت ہونے والا نہ تھا۔ ملکہ نے اُس پر بدعت کا الزام لگایا کہ اُس نے لوگوں کو اس مذہب کی تعلیم دی ہے جسے ریاست نے ممنوع قرار دیا تھا اور یوں خُدا کے حکم کو بھی توڑاہے کہ رعایا اپنے حاکموں کے تابع رہے۔ اس کے جواب میں جان ناکس نے بڑی ثابت قدمی سے کہا۔ AK 245.3

    ”سچامذہب، دُنیاوی حاکموں سے نہ قوت حاصل کرتا ہے اور نہ ہی اختیار، بلکہ صرف ابدی خُداوند سے۔ اس لیے رعایا اس بات کی پابند نہیں ہے کہ وہ اپنے حاکمین کی خواہشات کے مطابق مذہب کو اختیار کرے۔ بلکہ اکثر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ حاکمین ہی خُدا کے مذہب کے بارے کم علم رکھتے ہیں اگر ابرہام کی ساری نسل فرعون کا مذہب اپنا لیتی، جس کی وہ رعایا تھے۔ محترمہ میں آپ کی سماجت کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ پھر دُنیا میں کون سامذہب ہوتا؟ یا رسولوں کے زمانہ میں تمام لوگ رومی حکومت کا مذہب اپنا لیتے تو آج دنیا بھر میں کون سامذہب ہو تا؟ پس آپ سمجھ گئ ہوں گی کہ رعایا اپنے حاکمین کے مذہب کو اپنانے کی پابند نہیں ہیں، اگرچہ وہ اسے ماننے کے لیے حکم دیتے بھی ہوں۔ AK 245.4

    ملکہ میری(Mary) نے کہا کہ آپ کلام مقدس کی تفسیر ایک انداز سے کر تے ہیں اور رومن کیتھولک ٹیچر دوسرے انداز سے کرتے ہیں۔ میں کس کا یقین کروں اور اس کے لیے کون جج ہو گا؟”AK 246.1

    “آپ خُدا کا یقین کریں جو بڑی صفاءی سے اپنے کلام میں بیان کرتا ہے“اصلاح کار نے جواب میں کہا۔ “آپ کونہ اس کو اور نہ اُس کو ماننے کی ضرورت ہے۔ خُدا کا کلام خود ہی بڑی سادگی سے بیا ن کر دیتا ہے ۔ اور ایک جگہ ابہام دکھاءی دے تو روح القدس جو اپنی نفی نہیں کرتا، وہ کلام کی دوسری جگہ اُسی چیز کو زیادہ صفاءی کے ساتھ ظاہر کر دے گا۔ اور شک دور ہو جاتا ہے، مگر جہاں ایک شخض کی اپنی راءے ہو اُس میں ابہام رہ سکتا ہے“۔ David Laing the collected works of John Knox vol.2,pp.281-284AK 246.2

    یہ وہ سچاءیاں تھیں جو جان کو خطرے میں ڈال کر اصلاح کار نے بڑی بے باکی سے شاہی کانوں میں ڈالیں، اُسی ہمت سے اُس نے اپنے مقصد کو پروان چڑھایا۔ دُعا مانگ مانگ کر اُس نے اُس وقت تک اس جنگ کو جاری رکھا جب تک کہ سکاٹ لینڈ پوپ پرستی سے آزادنہ ہو گیا۔ AK 246.3

    انگلینڈ میں قومی مذہب کے طور پر پروٹسٹ ازم کے استحکام(Establishmen) میں کمی تو آئ مگر پوری طرح رُکی نہیں۔ اگرچہ روم کی بہت سی رسومات کو ترک کر دیا گیا تو بھی کچھ باقی رہ گءیں۔ پوپ کے اختیار اعلے کو رد کر دیا گا، مگر اُس کی جگہ بادشاہ کلیسیا کے سر کے طور پر مسند نشیں ہو گیا۔ چرچ سروس میں ابھی تک انجیل کی سادگی اور پاکیزگی کوسوں دورتھی۔ مذہبی آزادی کے بڑے اصول کو ابھی ک سمجھا نہ گیا۔ روم نے جو مظالم بدعت کے خلاف نافذ کر رکھے تھے گو اُن کو سدباب کر دیا گیا۔ مگر پروٹسنٹ رولز نے اس طرف بہت ہی کم دھیان دیا۔ اور ہر شخض کو اپنی ضمیر کے مطابق خُدا کی پرستش کرنے کے حق کو بھی مانا نہ گیا۔ سب سے یہی مطالبہ کیا جاتا تھا کہ سب کے سب اُسی تعلیم کو مانیں اور اُسی طرز کی عبادت کر یں جو کلیسیا نے بیان کی ہے۔ اختلاف راۓ کرنے والے کو کم یا زیادہ سزادی جاتی تھی اور یہ سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔ AK 246.4

    سترھویں صدی میں ہزاروں پاسبانوں کوان کے عہدہ سے سکبدوش کر دیا گیا۔ لوگوں کو منع کیا گیا کہ وہ کسی مذہبی عبادت میں شرکت نہ کریں۔ اور صرف اُن ہی مذہبی عبادت میں جاءیں جن کی کلیسیا نے اجازت دے رکھی ہے۔ حکم عدولی کرنے والوں کو بھاری جرمانے، قید و بند اور جلاوطنی کی سزا دی جاتی تھی۔ وہ وفادار روحیں جو خُدا کی عبادت کے بغیر رہ نہیں سکتی تھیں وہ مجبورا تاریک اور تنگ گلیوں، تاریک پہاروں اور درختوں کے جھنڈ میں خُدا کی جو قدرتی ہیکل بنی ہوءی تھی، خُد کے پراگندہ اور ستم رسیدہ بچے وہاں جمع ہو کر دعا اور حمد و ثنا میں خُدا کے آگے اپنا اپنا دل اور اپنی اپنی روحیں رکھ دیتے۔ ان تمام ایذارسانیوں کے باوجود بہت سی روحوں نے اپنے ایمان کو بچاءے رکھا۔ ایمانداروں سے جیلیں بھری گءیں۔ خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گءے۔ بہت سے تو غیر ممالک میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گءے۔ تاہم خُداوند خُدا اپنے لاگوں کے ساتھ تھا جو روستم اُن پر غالب آکر اُنہیں گواہی دینے سے خاموش نہ کر سکا۔ پیشتر سمند پار کر کے امریکہ پہنچ گءے اوروہاں جا کر سول اور مذہبی آزادی کی بنیاد رکھ دی۔ جو اس ملک کی آگے چل کر شان وشوکت اور شہر پناہ ٹھہری۔ AK 246.5

    ایک بار پھر جیسے رسولوں کے زمانہ میں ہوا تھا یعنی ایذارسانی انجیل کے فروغ کا ذریعہ بن گءی۔ جہاں مکروہ جیلوں میں بدکار، شہوت پرست اور مہاپاپی بھرے پڑے تھے اور وہاں جان بینین(Bunyan) نے آسمانی فضا سنگھی اور وہاں ہی اُس نے ایک بہت ہی شاندار کہانی ”یاتری کا سفر“ (pilgrims journey) لکھی۔ یعنی وہ سفر جو تباہی کے ملک سے شروع ہو کر مقدس شہر تک کا ہے۔ تقریبا دو سو سال تک وہ آواز بیڈ فورڈ (Bedford)جیل سے سنائ دیتی رہی جس نے لوگوں کے دلوں میں جوش و جذبہ پیدا کیا۔ ہینین کے مسافر کی فضل نے بڑے گہنگاروں کے قدم زندگی کی راہ پر ڈال دءے۔ AK 247.1

    Flavel، Boxter ، آلئین (Alleine) اور کئی دوسرے مرد جن میں اعلے ہنروفن کی صفات علم و ہنر اور گہرا مسیحی تجربہ تھا وہ بڑی بہادری سے اُس ایمان کے دفاع کے لیے کھڑے ہو گۓ جو ایک وقت مقدسین کو سونپا گیا تھا۔ اُن مردوں نے جو کام استوار کیا اس دُنیا کے اختیار والوں نے اُسے ممنوع قرار دے دیا تھا۔ گوواجب القتیل اور جلاوطنی کی سز ا سنائ گئ مگر پھر بھی وہ اس کام کو برباد نہ کر سکے۔ فلیول کی کتب “Fountain of life and Method of grace” نے ہزاروں کو سکھایا کہ کس طرح ہم اپنی زندگی مسیح یسوع کےسپرد کر سکتے ہیں۔ بیکسٹر کی کتاب (Refermed Pastor) نے بہتیروں کو برکتوں سے نوازہ جو خُدا کے کام میں بیداری کے خواہاں ہوۓ اور اسی طرح (rest lasting ever s،Saint) نے اُس ”آرام“ کی طرف راغب کیا ہے جو خدا کے لوگوں کے لئے باقی ہے-AK 247.2

    ایک سو سال بعد، انتہائی روحانی تاریکی کے دنوں میں خدا کے شمع بردار (Whitefield) اور (Wesleys) پیدا ہوۓ- مسلمہ کلیسیا کے قانون کے مطابق انگلینڈ کے لوگ مذہبی لحاظ سے انتہائی پستی میں اتر چکے تھے ان میں اور بت پرستوں کے درمیان حد امتیاز نہ ہونے کے برابر تھی- طبعی مذہب (غیر روحانی) پاسبانوں کے لئے دلپسند مطالعہ تھا، مگر اسمیں بھی انکی اپنی تھیالوجی شامل ہوتی تھی- بڑے طبقے کے لوگ پارسائی پر ناک چڑھاتے تھے اور فخر کرتے تھے کہ ہم اس مذہبی جنوں سے بالاتر ہیں- (پارسائی کو وہ مذہبی جنون مانتے تھے)- نچلے طبقے کے لوگ چونکہ زیادہ تر بےعلم تھے اس لئے انتہائی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے تھے- اور کلیسیا میں نہ اتنی ہمت تھی اور نہ ہی ایمان کہ وہ گرتی ہوئی سچائی کو سہارا دے سکے-AK 248.1

    ایمان سے راستباز ٹھہرنے کی عظیم تعلیم جو لوتھر نے نہایت ہی صفائی سے پیش کی تھی، اسے تقریبا پوری طرح نظر انداز کر دیا گیا اور رومی عقیدہ پر بھروسہ کیا گیا کہ نجات اعمال حسنہ کے ذریعہ ہی ہے- اس نے لوتھر کی تعلیم کی جگہ لے لی- وائٹ فیلڈ اور ویسلی جو مسلمہ کلیسیا کے ممبر تھے اور خلوص نیتی سے خدا کی حمایت کے خواہاں تھے انہیں سکھایا گیا تھا کہ فلاں فلاں مذہبی رسوم کو ادا کرنے سے نجات یقینی ہو جاتی ہے-AK 248.2

    جب ایک دفعہ چارلس ویسلی یہاں تک بیمار پڑ گیا کہ مرنے کی نوبت آ پہنچی- تو اس سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اسکا ابدی زندگی کے لئے کس چیز پر انحصار ہے- اسکا جواب یہ تھا- “میں نے انتہائی دلجمعی سے خداوند خدا کی خدمت کرنے کی کوشش کی ہے” اور وہ دوست جس سے اس نے یہ سوال پوچھا تھا اس جواب سے تسلی پذیر دکھائی نہ دیا- ویسلی نے اپنے آپ میں س سوچا “کیا میری ساری مشقیں امید کیلئے بھرپور بنیاد نہیں ہیں؟ کیا وہ میری ان کوششوں پر ڈاکہ ڈالنا چاہتا ہے؟ میرے پاس تو اور کچھ نہیں ہے جس پر میں بھروسہ کروں“؟ AK 248.3

    John white head, life of the rev, Charles wasley,page 102.AK 248.4

    یہ تھی وہ گہری تاریکی تھی جو کلیسیا پر چھا چکی تھی- جس نے مسیح یسوع کے جلال اور کفارہ کو چھپا رکھا تھا، اور لوگوں کے دل ودماغ کو نجات کی امید سے جو مسیح مصلوب کے خون سے ہی ممکن ہے ہٹا رکھا تھا-AK 248.5

    ویسلی اور اسکے ساتھیوں پر یہ راز کھلا کہ حقیقی مذہب کی نشست دل میں ہوتی ہے- اور خدا کے احکام خیالات اور کلام اور عمل کو وسعت دیتے ہیں- جب وہ اس بات کے قائل ہو گئے کہ دل کی پاکیزگی اشد ضروری ہے اور اسی طرح ظاہری صورت یعنی طور طریق بھی پاکیزہ ہونے چاہیں- تو پھر وہ نئی زندگی پانے کی طرف متوجہ ہوۓ- پوری دلجمعی اور دعا سے بھرپور کوششوں سے انہوں نے دل کی بری خواہشات کو زیر کرنا چاہا- وہ خود انکاری، نیک خیالی، اور انکساری کی زندگی بسر کرتے- اور بڑی جانفشانی اور باقاعدگی سے ہر وہ اقدام کرتے جسے وہ سمجھتے کہ یہ ہمارے مقصد میں ممد ثابت ہو سکتے ہیں- وہ ان ذرائع سے ایسی تقدیس کے خواہاں تھے جو انہیں خدا کے منظور نظر بنائے- مگر انکی دلی مراد بر نہ آئی- گناہ کی لعنت سے مخلصی پانے کیلئے انکی اپنی تمام کوششیں رائیگاں گئیں- یہ وہی جدوجہد تھی جسکا اظہار لوتھر نے ارفرٹ (Erfurt)کے اپنے حجرے میں کیا تھا- اسکے سامنے بھی یہی سوال تھا جس نے اسکی روح کو زخمی کر رکھا تھا کہ “پر انسان خدا کے حضور کیسے راستباز ٹھہرے؟” ایوب -2:9AK 248.6

    الہی سچائی کی آگ، پروٹسٹنٹ ازم کے مذبحہ پر سے تقریبا بجھنے کو تھی، اور اسے اس قدیم شمع سے جلانے کی دوبارہ ضرورت تھی جو بوہیمین (Bohenian) مسیحیوں سے زمانہ بہ زمانہ دستیاب تھی- ریفریمیشن کے بعد، بوہیمیا میں پروٹسٹ ازم روم کے فرقہ کی وجہ سے روندی گئی تھی- وہ سب جنہوں نے سچائی سے دستکش ہونے سے انکار کیا انہیں وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا- ان میں سے بعض نے سیکسونی میں پناہ لی اور جہاں قدیم ایمان کو برقرار رکھا- انہی مسیحیوں کی اولاد سے وہ روشنی ویسلی اور اسکے ساتھیوں تک پہنچی-AK 249.1

    جب جان اور چارلس ویسلی کی منسٹری کے لئے مخصوصیت (Ordaination) ہو گی تو انہیں امریکہ مشن کے لئے بھیجا گیا- بحری جہاز میں انکے ساتھ موروین (Moravian) کمپنی بھی تھی- راستے میں انہیں تندوتیز طوفانوں کا سامنا رہا- جان ویسلی موت کے روبرو تھا اور سوچنے لگا کہ خدا کی سلامتی کی ضمانت نہیں ہے- مگر اسکے برعکس جرمنی باشندوں نے اس تشفی، سکون اور سلامتی کا مظاہرہ کیا جس کا اسے علم تک نہ تھا-AK 249.2

    اس نے کہا کہ میں ایسے اطمنان کا مدتوں سے خواہشمند تھا انہوں نے مسلسل اپنی فروتنی کا دوسرے مسافروں کے روبرو بے آواز ثبوت فراہم کیا، جو کسی بھی انگلستانی نے ابھی تک اختیار نہیں کیا تھا- وہ یہ سب کچھ بغیر کسی نفع کے لالچ میں کرتے تھے اور انکا کہنا تھا کہ ہمارے نجات دہندہ نے اس سے بھی کہیں زیادہ ہمارے لئے کیا ہے- اور ہر روز انہیں یہ خود انکساری دکھانے کا موقع ملتا تھا- جس پر کسی بھیAK 249.3

    تکلیف یا بدسلوکی کا اثر نہ پڑتا تھا- اگر انہیں دھکیلا جاتا، مارا یا نیچے گرایا جاتا، وہ اٹھتے اور چل پڑتے- مگر انکے لبوں پر کوئی شکوہ گلہ نہ آتا- یہاں انہیں آزمانے کا موقع تھا کہ آیا یہ سب کچھ کسی خوف کے تحت کرتے ہیں یا گھمنڈ، غصے اور بدلہ لینے کی رو سے- مزمور گانے کے دوران، سمندر میں طلاطم برپا ہو گیا- جس نے اہم اور مقدم بادبان ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور جہاز پر چھا گیا اور جہاز کے عرشے میں سے ٹپکنے لگا-ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے کہ سمندر نے ہمیں پہلے ہی ہڑپ کر لیا ہے- انگلینڈ کے لوگوں میں ہولناک چیخ وپکار برپا ہو گئی- جبکہ جرمن بڑے اطمنان کے ساتھ مزمور گاتے رہے- بعد میں ویسلی نے ان میں سے ایک سے پوچھا “کیا آپ گھبرائے نہیں تھے“؟ اس نے جواب میں کہا کہ “میں خداوند کا شکر کرتا ہوںکہ میں نہیں گھبرایا تھا” میں نے اسے دوبارہ پوچھا “لیکن کیا آپکے بچے اور بیوی بھی نہیں گھبرائے تھے“؟ اس نے بڑے ملائم لہجے میں کہا “نہیں ہماری خواتین اور بچے مرنے سے نہیں ڈرتے”-AK 249.4

    White head, life of the Rev, John wasley, page 10.AK 250.1

    ساوانا (Savannah) پہنچنے پر، ویسلی کو تھوڑی دیر کے لئے ماروئینکے ساتھ قیام کرنے کا موقع ملا اور وہ انکے مسیحی طوروطرق سے نہایت ہی متاثر ہوا- انکی مذہبی سروسز میں اور انگلستان کی بے جان رسمی سروسز میں بہت بڑا تضاد دیکھ کر اس نے لکھا “غیر معمولی سادگی اور سنجیدگی کو دیکھ کر میں بھول گیا کہ میں 17 ویں صدی کی اسمبلیز میں نہیں، بلکہ تصور کیا کہ میں پولس خیمہ دوز یا ماہی گیر پطرس کی اسمبلی میں ہوں- اور میں نے وہاں روح القدس کی قدرت کا مظاہرہ دیکھا”- Ibid,b.11 .ch.12AK 250.2

    انگلینڈ واپس آنے پر ویسلی نے ماروئین ٹیچر کی زیر ہدایت، بائبل کے ایمان کو صفائی کے ساتھ سمجھا- وہ اس بات کا قائل ہو گیا کہ نجات کے لئے وہ اپنے اعمال حسنہ پر بھروسہ نہ رکھے بلکہ “خدا کے برے” پر بھروسہ رکھے جو دنیا ک اے گناہ اٹھا لے جاتا ہے- لندن میں ماروئین سوسائٹی کی ایک میٹنگ میں لوتھر کا ایک اقتباس پڑھا گیا جو اس تبدیلی کو بیان کرتا تھا جب خدا کی روح ایماندار کے دل میں کام کرتی ہے- جیسے ویسلی نے اسے سنا تو ایمان اسکی روح میں چمک اٹھا- اسکا کہنا ہے کہ “مجھے ایسے محسوس ہوا کہ میرا دل عجیب طریقہ سے سرگرم ہو گیا ہے- میں نے محسوس کیا کہ میں نے مسیح یسوع پر نجات کے لئے بھروسہ کیا ہے- اور مجھے ضمانت مل گئی کہ اس نے میرے گناہ اٹھا لئے ہیں- اور مجھے گناہ کی شریعت اور موت سے بچا لیا ہے”- Ibid, page.52AK 250.3

    کئی سالوں تک تکان وماندگی اور بے آرام جانفشانی، سالوں تک شدید خدو انکاری، الزامات اور ذہانت کے ساتھ ویسلی خدا کو پانے کیلئے واحد مقصد سے چپکا رہا تھا- مگر اب اس نے خدا کو پا لیا تھا اور اسے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جس فضل کو پانے کیلئے اس نے دعا اور روزے رکھے، نفس کشی کی، خیرات دی، نیک کام کئے، وہ نعمت تو مفت حاصل کی جا سکتی تھی اور “بغیر پیسے کے” اسکی تو کوئی قیمت ہی نہیں ہے-AK 251.1

    ایک بار جب مسیح یسوع کا ایمان اس میں قائم ہو گیا تو اسکی ساری روح اس خواہش سے بھڑک اٹھی کہ خدا کی یہ جلالی خوشخبری کو ہر جگہ پھیلائے کہ خدا کا فضل مفت ہے- “میں ساری دنیا کو اپنی کلیسیا کے طور پر دیکھتا ہوں” اس نے کہا- “اسکے ہر حصہ میں میں ہوں- میں اس بات کا پابند ہوں کہ جو سننے کے لئے تیار ہوں میں ان تک نجات کی یہ خوشخبری پہنچاؤں”- Ibid, page. 74AK 251.2

    اس نے اپنی خود انکاری کی زندگی مسلسل جاری رکھی- بنیاد کے طور پر نہیں. بلکہ ایمان کے نییجہ میں، جڑوں کی طرح نہیں بلکہ پاکیزگی کے پھل کے طور پر- مسیح یسوع میں خدا کا فضل مسیحی امید کی بنیاد ہے- بلکہ یہ فضل تابعداری میں ظاہر ہو گا- ویسلی نے اپنی زندگی اس عظیم سچائی کی منادی کیلئے وقف کر دی جو اس نے حاصل کی تھی مسیح یسوع کے خون کے کفارہ میں راستبازی ایمان کے ذریعہ ہے اور روح القدس کی دل کو نیا بنانے کی قوت زندگی میں پھل لاتی ہے جو مسیح یسوع کے نمونہ کے مطابق ڈھل جاتی ہے-AK 251.3

    وائٹ فیلڈ اور ویسلی اپنے کام کے لئے اپنی قائیلیت کے وسیلے اپنی کھوئی ہوئی حالت کی وجہ سے تیار کئے گئے تھے- اسی لئے وہ مسیح کے اچھے سپاہی ہونے کے ناطے میں سختیاں جھیلنے کو تیار تھے- انہیں اس رسم سے بھی گزرنا پڑا جو ملزم کا امتحان لینے کیلئے آگ یا ابلتے تیل میں ہاتھ ڈال کر کیا جاتا ہے- ایذا رسانی، اور ٹھٹھوں کا سامنا کیا-ان تکالیف انہیں یونیورسٹی اور بعد میں جب وہ منسٹری میں داخل ہوۓ سامنا کرنا پڑا- انکے بے ایمان ہم جماعتی میتھو ڈسٹ کہتے ہیں جو ان دنوں امریکہ اور انگلستان میں ایک بہت بڑی قابل تعظیم کلیسیا (Dinomination) تھی-AK 251.4

    انگلینڈ کی کلیسیا ممبر ہونے کے ناطے میں یہ اسکی تمام رسم ورواج کو بڑی پابندی سے اپناتے تھے- مگر خداوند خدا نے اپنے پاک کلام میں انکے سامنے بہت اعلی معیار رخ دیا تھا- روح القدس نے انہیں مائل کیا کہ وہ مسیح مصلوب کی منادی کریں خداوند خدا کی قوت وقدرت نے انکی مشقت کی حمایت کی- ہزاروں تبدیل ہو گئے اور حقیقت میں تبدیل ہوۓ- اور بھی ضروری تھا کہ ان بھیڑوں کو پھاڑنے والے بھیڑیوں سے محفوظ رکھا جائے- ویسلی کا تو کوئی خیال نہیں تھا کہ وہ کوئی نئی کلیسیا قائم کریگا- تو بھی اس نے انہیں میتھو ڈسٹ کونکشن (Connection) کے نام سے منظم کیا-AK 251.5

    مسلمہ کلیسیا کی طرف سے پراصرار طریقے سے انہیں مخالفت کا سامنا ہوا- تاہم خداوند خدا نے اپنی حکمت میں ان تمام واقعات کو ختم کیا اور انہیں کلیسیا کے اندر رہ کر کام کرنے کی ترغیب دی- اگر اصلاح کار کا کام باہر رہ کر کیا جاتا تو اسکی رسائی وہاں تک نہ ہو سکتی جہاں اسکی اشد ضرورت تھی- جیسے کہ بیداری کے مناد کلیسیا ہی کے لوگ تھے اور انہوں نے جہاں کہیں موقع ملا کلیسیا کی حدود میں کام کیا- سچائی کو ان دروازوں میں سے داخلے کی اجازت مل گئی- جبکہ باہر سے آنے والوں پر یہ دروازے بند رہتے- بعض ایک پاسبان اپنی اخلاقی بے حسی سے باہر نکلے اور اپنی کلیسیاؤں میں بڑے جوشیلے مناد ہوۓ- وہ کلیسیائیں جو رسموں کی پابندی کی وجہ سے پتھر بن چکی تھیں انمیں زندگی لوٹ آئی-AK 252.1

    ویسلی کے ایام میں اور جیسے کہ ہر زمانہ کی کلیسیا میں مختلف نعمتیں رکھنے والے حضرات اپنے مخصوص کام کر انجام دیتے تھے- گو وہ عقائد (Doctrine) کے ہر پوائنٹ پر متفق نہیں تھے- مگر وہ سب کے سب خداوند کے روح سے متحرک تھے اور سب متحدہ طور پر خداوند کیلئے روحوں کو جیتنے کی خدمت ادا کرتے تھے- وائٹ اور ویسلی کے درمیان بھی ایک وقت میں اس قدر بے اعتمادی بڑھ گئی جس سے اجنبیت اور بیگانگی کی نوبت آ پہنچی- چونکہ انہوں نے مسیح کے سکول میں حلیمی اور فروتنی کا سبق سیکھ رکھا تھا اسلئے برداشت اور محبت کی رو سے ان میں پھر سے ملاپ ہو گیا- جھگڑے تکرار کے لئے انکے پاس کوئی وقت نہیں تھا- جب کہ بدی اور غلط تعلیم ہر جگہ متحد ہو رہی تھیں اور بربادی کیلئے گنہگار مزید پستیوں میں اتر رہے تھے-AK 252.2

    خدا کے خدموں کو سنگاخ راستوں پر چلنا پڑا- بارسوخ اور تعلیم یافتہ لوگوں نے ان کے خلاف اپنے اختیار کو استعمال کرنا شروع کر دیا- کچھ دیر کے بعد بیشتر پاسبانوں نے انکے خلاف باقاعدہ دشمنی کا قصد کر لیا، چرچز کے دروازے پاکیزہ ایمان اور اسکے ماننے والوں پر بند کر دیئے گئے- ان پاسبانوں نے پلپٹ کو استعمال کیا، جس سے تاریکی، جہالت اور بدی کو ابھارا گیا- بار بار جان ویسلی خداوند کے فضل وکرم سے معجزانہ طریقہ سے موت کے ہاتھوں بچ نکلا تھا- ایک دفعہ جب غیض وغضب سے بپھری ہوئی بھیڑ اس پر چڑھ آئی اور اسکے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی، اسوقت ایک فرشتہ انسانی روپ میں اسکی طرف آ کھڑا ہوا- بھیڑ پیچھے گر گئی اور مسیح یسوع کا خادم، خطرے کی جگہ سے بحفاظت بچ نکلا-AK 252.3

    غصے سے پاگل بھیڑ کے ہاتھوں بچ نکلنے کے ایسے ہی ایک موقع پر ویسلی نے کہا بہت سے لوگوں نے مجھے نیچے گرانے کی کوشش کی جب ہم پہاڑی کے پھسلنے راستہ سے ٹاؤن جا رہے تھے اور میں جانتا تھا کہ اگر میں ایک بار زمین پر گر گیا تو پھر کبھی بھی نہ اٹھ پاؤں گا- مگر میں تو بالکل نہ ڈگمگایا- تھوڑا سا بھی نہ پھسلا اور صاف انکے ہاتھوں بچ نکلا-AK 253.1

    گو بہتیرے تھے جنہوں نے میرے گریبان یا کپڑوں کو پکڑ کر مجھے نیچے گرانے کی بڑی جدوجہد کی مگر وہ میرے کپڑوں پر اپنی گرفت قائم نہ رکھ پائے- ایک شخص نے میری واسکٹ کی جیب پکڑ لی جو اسکے ہاتھ میں ہی رہ گئی- اور دوسرا حصہ جیب کا جس میں بینک نوٹ تھا آدھا پھٹ گیا ایک ہٹے کتے شخص نے جو میرے پیچھے تھا اس نے کئی بار شاہ بلوط کے ڈنڈے مجھ پر برسائے، اگر وہ میرے سر کے پچھلی جانب ایک بار لگ جاتا تو پھر اسے دوبارہ مارنے کی زحمت اٹھانا نہ پڑتی- مگر ہر بار ڈنڈے کی چوٹ ایک طرف یا دوسری طرف مڑ جاتیAK 253.2

    ایک اور شخص بھیڑ میں سے بھاگا ہوا آیا اور مارنے کیلئے بازو لہرایا مگر اچانک اسکا ہاتھ میرے سر کو چھوتا ہوا نیچے کی طرف آ گیا- اور اسکے منہ سے یہ نکلا “اس کے کتنے لچکدار بال ہیں” وہ پہلے اشخاص جنکے دل خداوند کی طرف لوٹے وہ شہر کے سورما تھے- جو ہر موقع پر گنواروں کی بھیڑ کے سرغنہ تھے- ان میں سے ایک کو تو بھنگڑ خانے میں لڑنے جھگڑنے پر انعام (Prize) بھی مل چکا تھا-AK 253.3

    خداوند خدا کس عجیب وغریب انداز سے ہمیں اپنی مرضی پوری کرنے کے لئے تیاری بخشتا ہے- “دو سال ہوۓ اینٹ کے ایک ٹکڑے نے میرے شانے چیر دیئے- اس کے ایک سال بعد ایک پتھر میری آنکھوں پر لگا- گزرے ماہ مجھے ایک چوٹ لگی- اور آج شام دو چوٹیں آئیں- ایک اس وقت جب ہم شہر میں داخل ہوۓ- دوسری اس وقت جب ہم شہر سے باہر جا رہے تھے- مگر دونوں ہی بے ضرر تھیں- ایک شخص نے اپنی پوری طاقت سے میرے سینے پر مارا، اور دوسرے نے میرے منہ پر اس زور سے مارا کہ فورا خون کے فوارے پھوٹ پڑے- مجھے ان تمام چوٹوں سے بالکل کچھ درد نہ ہوا، ایسا لگا کہ گویا دشمنوں نے مجھے صرف ایک تنکے سے چھوا ہو”- John wasley, works, vol,3,pp.297-298AK 253.4

    ان ابتدائی دنوں میں میتھو ڈسٹس لوگ اور مناد دونوں کا ٹھٹھا اڑایا جاتا اور اذیتیں دی جاتیں- اور یہ کام مسلمہ کلیسیا کے ممبران اور غیر مذہبی لوگ کرتے جنکو غلط بیانی کر کے بھڑکایا جاتا- انہیں انصاف کی عدالت میں عیب جوئی اور الزام لگانے کیلئے بلایا جاتا- یہ برائے نام انصاف کی عدالتیں تھیں- اس وقت انصاف شاذونادر ہی ملتا تھا- اکثر انہیں ستم کنندہ کے ہاتھوں دکھ سہنا پڑتا- بھیڑ گھر گھر جا کر انکا فرنیچر اور دوسرا سامان توڑ پھوڑ دیتی، عورتوں اور بچوں پر وحشیانہ زدوکوب کرتی- بعض دفعہ تو اشتہار لگائے جاتے کہ جو میتھوڈسٹسکے گھر توڑنے اور لوٹ مار کرنے میں مدد فراہم کرنا چاہتے ہیں فلاں فلاں جگہ پر جمع ہو جائیں- ملکی اور الہی دونوں قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی کھلی آزادی تھی اور خلاف ورزی کرنے والے بغیر سزا کے دندناتے پھرتے تھے- ایک منظم ظلم ان لوگوں کے خلاف جاری تھا، جنکا صرف یہ قصور تھا کہ وہ گنہگاروں کے قدم تباہی کی راہ سے ہٹا کر پاکیزگی کی راہ پر لانے کی تمنا کرتے تھے-AK 254.1

    جان ویسلی نے ان الزامات کا حوالہ دیتے ہوۓ کہا جو اسکے اپنے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف تھے “انکا یہ الزام ہے کہ ان مردوں کی تعلیم جھوٹی، بے قاعدہ، اور بھڑکانے والی ہے- یہ تو نئے نئے ہیں اور ابھی ابھی انہیں سنا گیا ہے-یہ انجمن احباب کے رکن ہیں (یہ انجمن امن وامان کی تبلیغ، اور زبان اور لباس کی سادگی پر زور دیتی تھی) مذہبی جنونی اور پوپ پرست ہیں- اس سارے ڈھونگ اور مکر کو پہلے ہی جڑوں سے کاٹ دیا گیا تھا- اور یہ بڑے پیمانے پر دکھایا جا چکا تھا کہ اس تعلیم کی ہر ایک کلام مقدس کی تفسیر کے مطابق ہے جو ہماری کلیسیا کی ہے- اس لئے یہ نہ تو جھوٹی ہو سکتی ہے اور نہ ہی بے قاعدہ” دوسرے یہ الزام دیتے ہیں کہ انکی تعلیم بہت ہی سخت ہے- اور یہ آسمان کی راہ کو بہت ہی تنگ بنا رہے ہیں- حقیقت میں یہی اصول عذر ہے (اور کچھ دیر کے لئے صرف یہی ایک عذر تھا)- اور درپردہ اسکی تہہ میں اور بھی ہزاروں عذر تھے جو مختلف اشکال میں نمودار ہوۓ- کیا یہ آسمانی راستہ کو اس سے زیادہ تنگ بناتے ہیں جو ہمارے آقا اور اس کے رسولوں نے بنایا تھا؟ کیا انکی تعلیم بائبل کی تعلیم سے زیادہ سخت ہے؟ ان چند سادہ سے حوالہ جات پر غور کیجئے-“تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سےمحبت رکھ” استثناہ 4:6 “جو نکمی بات لوگ کہیں گے عدالت کے دن اسکا حساب دیں گے” متی 36:12 “پس تم کھاؤ یا پیؤ یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کے لئے کرو” 1 کرنتھیوں -31:10AK 254.2

    “اگر انکی تعلیم اس سے سخت ہے تو انہیں الزام دیں- مگر آپ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے- اور کون وہ شخص ہے جو خدا کے کلام کو پائمال کئے بغیر ایک بھی شوشہ کم سخت کر سکتا ہے؟ کیا خدا کے بھیدوں کا کوئی مختار وفادار ہو سکتا ہے جو مقدس شہادتوں کا کوئی بھی حصہ تبدیل کر دے؟ ہرگز نہیں- وہ اس میں نہ تخفیف کر سکتا ہے اور نہ ہی اسمیں نرمی لانے کا مجاز ہے- وہ لوگوں کو یہ بتانے کے لئے مجبور ہے کہ میں اس لئے یہاں نہیں ہوں کہ آپکی مرضی کا کلام پیش کروں- بلکہ آپکو اس کے مطابق ڈھلنا ہو گا یا پھر ہمیشہ کی تباہی سکو چننا ہو گا- یہی اصل بنیاد ہے جو ان لوگوں کے خلاف ہے جو کرم النفس نہیں ہیں- کیا وہ سخت گیر ہیں؟ کس لحاظ سے، کیا وہ بھوکے کو کھانا نہیں کھلاتے یا ننگے کو کپڑا نہیں پہناتے، ایسی کوئی بات نہیں- یہ ان میں کمی نہیں ہے- انصاف کرنے میں وہ سختی کرتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ کوئی بھی انکے بتائے ہوۓ طریقے کے بغیر نجات نہیں پا سکتا”- Ibid, vol.3.pp 152-153AK 255.1

    ویسلی کے وقت سے پہلے جو انگلینڈ میں روحانی زوال آیا وہ اخلاقی قانون کے انکار کی تعلیم کا نتیجہ تھا- (یہ عقیدہ کہ مسیحی اخلاقی قانون سے آزاد ہیں) بھتیروں کا یہ دعوی تھا کہ مسیح یسوع نے اخلاقی قوانین کو ختم کر دیا ہے اس لئے مسیحی اسے ماننے کی ذمہ داری سے بڑی ہیں اور ایماندار “اعمال حسنہ کی غلامی” سے آزاد ہے- دوسرے گو شریعت کے دائمی ہونے کو مانتے تھے- مگر انکا کہنا تھا کہ منسٹرز کو لوگوں کو یہ نصیحت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ان فرامین کو مانیں- کیونکہ جن کو خدا نے نجات کیلئے چن لیا ہے وہ اسکے فضل سے تابع پارسائی اور نیکی کرتے رہیں گے- مگر جو راندہ درگاہ ہیں ان میں قوت نہیں ہے کہ وہ الہی احکام کی بجا آوری کر سکیں “کچھ اور تھے جنکا کہنا تھا کہ برگزیدہ فضل سے محروم نہیں ہو سکتے اور نہ ہی خدا انکی حمایت سے دست بردار ہو گا- “وہ اس سے بھی شدید مکروہ نتیجہ پر پہنچتے ہیں” کہ وہ بدکاریاں جو وہ کرتے ہیں وہ گناہ میں شامل نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ الہی شریعت کو توڑنا سمجھا جا سکتا ہے- اس لئے انہیں کسی بھی موقع پر اپنے گناہوں کے اعتراف کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی انکو ان بدکاریوں سے توبہ کرنے کی ضرورت ہے”- Mc Clintock and strong,cyclopedia, art.AK 255.2

    اخلاقی قانون کے منکر بیان کرتے ہیں کہ خواہ بدترین سے بدترین بدکاری کر لی جائے جسے عالمگیر طور پر الہی شریعت کی بے انداز خلاف ورزی مانا جاتا ہے (اسمت دری وغیرہ)- وہ بھی خدا کی نظر میں گناہ نہیں گنا جائے گا، “بشرطیکہ وہ گناہ برگزیدہ نے کیا ہو- کیونکہ یہ برگزیدہ کا امتیازی اور اشد ضروری طور طریق ہے کہ وہ کوئی ایسا فعل نہیں کر سکتا جو خداوند کی ناراضگی کا سبب بنے یا شریعت نے اسے ممنوع قرار دے رکھا ہو”- AK 255.3

    یہ تمام سراسر غلط تعلیمات وہی ہیں جو ہردلعزیز تھیالوجین نے بعد میں سکھائیں کہ حقوق کے معیار کے بارے کوئی لاتبدیل الہی قانون نہیں ہے- اخلاق کا معیار تو خود سوسائٹی نے مقرر کیا ہے جو مسلسل یبدلی کے تابع ہے- یہ تمام خیال اسی ماسٹر کی روح کے پیداکردہ ہیں جس نے آسمان کے معصوم باشندوں میں خدا کی راستبازی کے قانون کو توڑنا شروع کیا-AK 256.1

    یہ تعلیم کہ خداوند خدا نے ہر ایک انسان کی تقدیر پہلے سے تعین کر رکھی ہے اس کے باعث بہت سے لوگوں نے خدا کی شریعت کی پیروی کرنا ترک کر دیا- ویسلی نے اخلاقی قانون کے منکروں کے اساتذہ کی بھرپور مخالفت کرتے ہوۓ کہا کہ یہ تعلیم الہی نوشتوں کے بالکل برعکس ہے- “خدا کا فضل جو نجات بخش ہے وہ ہر ایک شخص کیلئے ہے”-AK 256.2

    “یہ بھلا ہے اور ہمارے خدا نجات دہندہ کی نظر میں قابل قبول ہے”- کیونکہ خداوند کا وہ فضل ظاہر ہوا ہے جو سب آدمیوں کی نجات کا باعث ہے” ططس 11:2 ؛تیمتھیس -6-3:2AK 256.3

    خدا کی روح سب آدمیوں کو دی گئی ہے کہ وہ انہیں اس قابل بنائے کہ وہ نجات کے ذریعہ کو تھامیں- یوں مسیح یسوع جو حقیقی نور ہے ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے جو اس دنیا میں آتا ہے- یوحنا -9:1 انسان اپنی مرضی سے زندگی کی نعمت کو رد کر کے نجات سے محروم رہتے ہیں-AK 256.4

    اس دعوی کے جواب میں کہ مسیح یسوع کی موت کے ساتھ رسمی اور اخلاقی شریعت منسوخ ہو گئی، ویسلی نے کہا کہ اخلاقی شریعت دس احکام میں پائی جاتی ہے اور نبیوں نے اسے نافذ کیا ہے، یسوع مسیح کے آنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ اسکے کسی حصے کو منسوخ کرے- یہ وہ شریعت ہے جسے کبھی بھی توڑا نہیں جا سکتا- یہ اسی طرح مستحکم کھڑا ہے جیسے آسمان میں وفادار گواہ- یہ تو دنیا مے شروع سے تھا، اور یہ پتھر کی لوحوں پر نہیں لکھا گیا تھا بلکہ تمام انسانوں کے دلوں پر جب وہ خدا کے ہاتھ سے تخلیق ہوۓ- گناہ کے باعث “واضح ہو گئے لیکن وہ مکمل طور پر معدوم نہیں ہوۓ اور یہ اس وقت نہ ہوں گے جب تک ہمیں نیکی اور بدی کی تمیز ہے- اس شریعت کا ہر حصہ انسان پر، ہر زمانہ میں لاگو رہنا چاہیے، اسکا انحصار کسی خاص زمانے یا جگہ پر نہیں- اور نہ ہی اسکا انحصار ایسے حالات پر ہے جو تغیر پذیر ہوں- بلکہ یہ خدا کی سیرت اور انسان کی فطرت پر مبنی ہے اور انکے ایک دوسرے کیساتھ غیر تغیر رشتے پر ہے-AK 256.5

    ”میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں“ بغیر کسی سوال کے اسکا مطلب یہ ہے کہ (جس طرح پہلے تھا اس کے بعد بھی ایسا ہی ہو گا)- میں اسکو پوری طرح برقرار رکھنے آیا ہوں- آدمیوں کی تاویل کے باوجود- میں آیا ہوں تاکہ جو کچھ غیر واضح تھا اسے واضح کر دوں- میں آیا ہوں تاکہ اس کے ہر حصے کے حقیقی اور بھرپور ہونے کی اہمیت دکھاؤں- اس میں پائے جانے والے ہر حکم کی لمبائی چوڑائی اور وسعت، گہرائی ظاہر کروں- اور اسکی تمام شاخوں میں اسکی راستبازی اور پاکیزگی ظاہر کروں”-Wasley, Sermon 25.AK 257.1

    ویسلی نے شریعت اور انجیل میں کامل ہم آہنگی کا اعلان کیا- “وہ قریب تر تعلق جو انجیل اور شریعت میں پایا جاتا ہے اسے سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ وہ قابل فہم ہے- ایک طرف شریعت مسلسل راستہ بتاتی اور ہمیں انجیل کی طرف متوجہ کرتی ہے دوسری طرف انجیل ہمیں شریعت کو پورا کرنے کی ترغیب دیتی ہے- مثال کے طور پر شریعت ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم خدا سے اور اپنے پڑوسی سے محبت رکھیں- فروتن، پاک یا منکسر مزاجی اختیار کرو- اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہم سے نہیں ہو سکتا- کیونکہ ہم میں ایسی صلاحیت موجود نہیں- ہاں یہ انسان کے لئے ممکن نہیں- لیکن ہم خدا کے وعدہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں محبت دیتا ہے، فروتن اور پاک کرتا ہے- ہم اس انجیل کو تھام لیتے ہیں اور یہ چیزیں ہمیں ہمارے ایمان کے مطابق مل جاتی ہیں- اور شریعت کی راستبازی ہم میں ایمان کے ذریعہ جو مسیح یسوع میں ہے پوری ہو جاتی ہے-AK 257.2

    “مسیح یسوع کی انجیل کے مہا دشمنوں کے بارے “ویسلی نے کہا “کہ یہ وہ ہیں جو کھلم کھلا تشریح اور شریعت کی عیب جوئی کرتے ہیں، اور شریعت کے بارے بری بری باتیں کہتے ہیں، اور شریعت کو توڑنے کی تعلیم دیتے ہیں- کوئی ایک خاص حکم خواہ چھوٹا ہو یا بڑا سب کے سب اسکی زد میں آتے ہیں- سب سے زیادہ حیران کن خیال یہ ہے کہ جو غور طلب ہے، کہ جو اسے ترک کرتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی شریعت کو باطل کرنے سے وہ اسکی عزت افزائی کرتے ہیں- اور اسکے رتبے کو بڑھاتے ہیں جب کہ وہ اسکی تعلیم کو مسمار کر رہے ہیں- ہاں وہ اسکی اسی طرح عزت افزائی کرتے ہیں جیسے یہوداہ اسکریوتی نے مسیح یسوع کا بوسہ لیکر اسے پکڑوایا- اور مسیح یسوع اس طرح کے سب لوگوں کو یہی کہتا ہو گا کہ کیا “تم بوسہ لیکر ابن آدم کو پکڑواتے ہو” یہ اسی طرح دھوکے والا بوسہ ہے- اس خون کے بارے باتیں کرتے ہیں مگر اسکا تاج چھین لیتے ہیں- اسکے کسی حکم پر روشنی ڈالنا اور انجیل کو ترقی دینے کا ڈھونگ رچانا- کوئی بھی شخص بے قصور نہیں ٹھہرے گا جو اس طرح ایمان کی تبلیغ کرتا اور تابعداری سے انحراف کرتا ہے- یا وہ مسیح یسوع کی منادی یوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی شریعت کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کو نہ منسوخ کرتا ہے اور نہ ہی کمزور” Ibid AK 257.3

    انکو جو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ ”انجیل کی منادی شریعت کے خاتمے کے تمام مقاصد کا جواب ہے“- ویسلی نے جواب میں کہا “اسکا ہم بھرپور انکار کرتے ہیں- یہ تو اسکے پہلے ہی مقصد کا جواب نہیں- انسان کو گناہ کے بارے قائل کرنا اور انکو جگانا جو جہنم کے کنارے سوئے پڑے ہیں” پولس نے فرمایا کہ “شریعت سے گناہ کی پہچان ہوتی ہے”- اور جب تک انسان گناہ کا قائل نہ ہو تو وہ مسیح کے کفارے کے خون کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا- جیسے کہ ہمارے آقا نے خود مشاہدہ کیا کہ وہ “جو تندرست ہیں انہیں طبیب کی ضرورت نہیں، بلکہ انکو طبیب کی ضرورت ہے جو بیمار ہیں”- اس لئے یہ معیوب دکھائی دیتا ہے کہ طبیب کی پیشکش انکو ک ا جائے جو تندرست ہیں یا جو خود کو ذرا بھر بھی بیمار نہیں سمجھتے- پہلے تو آپکو انہیں قائل کرنا پڑے گا کہ وہ بیمار ہیں، ورنہ وہ اپپکی محنت اور کوشش کا شکریہ ادا نہیں کریں گے- یہ اسی طرح معیوب ہے کہ انکو مسیح یسوع کی پیشکش کی جائے جنکے دل سلامت ہیں اور کبھی نہیں ٹوٹے”- Ibid, Sermon 35.AK 258.1

    خدا کے فضل کی خوشخبری کی منادی کرتے ہوۓ ویسلی نے اپنے آقا کی طرح ”شریعت کو بزرگی دی“ اور اسے عزت بخشی- اور جو کام خدا نے اسکے سپرد کیا تھا بڑی وفاداری سے اسے نبھایا اور اسکے نتائج نہایت ہی جلالی تھے جو اس نے دیکھے- اور اپنی منسٹری کے خاتمہ پر جو 40 برس پر محیط تھی اور نصف صدی سے زیادہ وقت اسکا سفر میں گزرا اور اسکے حمایتی اور پیروکار نصف ملین سے بھی زیادہ تھے- اور بھیڑ جو اسکی خدمت کے ذریعہ تباہی اور گناہ کی پستی سے اٹھائی گئی اور پاکیزہ اور اعلی بلندی تک پہنچائی گئی، اور وہ تعداد جو اسکی تعلیم کے ذریعہ گہرے- اور ثمرآور تجربہ سے بہرہ ور ہوۓ انکا اس وقت تک علم نہ ہو سکے گا جب تک تمام نجات یافتگان خدا کی بادشاہت میں جمع نہ ہو جائیں- اسکی زندگی ہر ایک مسیحی کے سامنے بیش قیمت سبق پیش کرتی ہے- کاش مسیح یسوع کے اس خادم کا ایمان اور فروتنی، انتھک جوش وجذبہ، ایثار، اور دینداری ہماری موجودہ کلیسیاؤں میں سے منعکس ہو-AK 258.2

    *****