Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
عظیم کشمکش - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    اکیسواں باب - تنبیہ رد کر دی گئی

    آمد ثانی کی منادی کرتے ہوۓ ولیم ملر اور اس کے شرکا نے بنی نوع انسان کو بیدار کرنے اور عدالت کیلئے تیار کرنے کیلئے خدمت انجام دی- انہوں نے مذہبی پروفیسرز کو انکے گہرے مسیحی تجربہ کی وجہ سے کلیسیا کی حقیقی امید کیلئے بیدار کرنا چاہا- اور انہوں نے غیر تبدیل شدہ حضرات کو بھی بیدار کرنے کیلئے خدمت کی تاکہ وہ جلد توبہ کر کے اور تبدیل ہو کر خدا کے گلے میں شامل ہو جائیں-AK 365.1

    “انہوں نے کوئی علیحدہ مذہبی فرقہ یا جماعت بنانے کی کوشش نہ کی تھی- بلکہ انہوں نے تمام فرقوں اور پارٹیوں کے درمیان انکی ارگنائزیشن یا ڈسپلن میں مداخلت کئے بغیر خدمت انجام دی تھی”-AK 365.2

    ملر نے کہا “میں نے اپنی ساری خدمت کے دوران کبھی بھی یہ خواہش نہ کی کہ جو کلیسیائیں قائم ہیں ان سے کوئی علیحدہ کلیسیا قائم کروں- یا کسی ایک کلیسیا کو فائدہ پہنچاؤں- بلکہ میں نے سب کلیسیاؤں کو فائدہ پہنچانے کا سوچا- اور میں نے سوچا کہ مسیح یسوع کی آمد کی وارننگ پر سب خوشی منائیں گے- اور وہ جو اس طرح نہیں دیکھ سکتے جیسے میں دیکھتا ہوں وہ بھی اس تعلیم کو انکی طرح پیار کریں گے، جو اسکو پہلے سے قبول کئے ہوۓ ہیں- میرا کلی مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو تبدیل کر کے خدا کی طرف لاؤں اور دنیا کو آنے والی عدالت سے آگاہ کروں اور یہ بھی کہ اپنے بھائی بندوں کو یہ ترغیب دوں کہ وہ دل کی تیاری کریں جس سے وہ سلامتی کے ساتھ خدا سے مل سکیں- وہ اکثریت جو میری خدمت کی بدولت تبدیل ہوئی وہ پہلے سے قائم شدہ مختلف کلیسیاؤں میں جا ملی”- Bliss page 328 AK 365.3

    کلیسیا کو استوار کرنے کے کام کو کچھ دیر تو بنظر احسن دیکھا گیا- لیکن جب خادم اور مذہبی لیڈران نے ایڈونٹ تعلیم کی مخالفت کا فیصلہ کیا اور اس مضمون سے جو انتشار پھیلا اسے ختم کرنا چاہا تو انہوں نے نہ صرف پلپٹ سے ہی اسکی مخالفت کی بلکہ اپنے ممبران کو منع کر دیا کہ آمد ثانی سے متعلقہ میٹنگز میں نہ جائیں اور نہ ہی کلیسیا کی سوشل میٹنگز میں اپنی اس امید کا اظہار کریں- اس صورتحال کے پیش نظر ایماندار بڑی مشکل کا شکار ہو گئے- وہ اپنی کلیساؤں سے بڑی محبت کرتے تھے اور اس سے علیحدگی اختیار کرنے کے لئے رضامند نہ تھے- لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ خدا کے کلام کی شہادت کو دبایا جڑ رہا ہے اور پیشینگوئیوں کی تحقق کرنے کے ہمارے حق سے انکار کیا جارہا ہے، تو انہوں نے محسوس کیا کہ ہم خدا کی بات مانیں گے- وہ کیلسیائیں جو خدا کے کلام کی شہادت سے لوگوں کو دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ کلیسیائیں مسیح کی “سچائی کی گراؤنڈ اور ستون” نہیں ہو سکتے- چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ دوراندیشی اسی میں ہے کہ ہم اپنی سابقہ کلیسیاؤں سے علیحدہ ہو جائیں- چنانچہ 1844 کے موسم گرما میں 50 ہزار اشخاص نے پرانی کلیسیاؤں کو خیرباد کہہ دیا-AK 365.4

    اسی دوران ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تمام کلیسیاؤں میں ایک نمایاں تبدیلی واقع ہوئی- وہاں کئی سالوں سے بدتریج مگر ثابت قدمی سے دنیاوی راہ ورسم میں مطابقت بڑھتی اور روحانی زندگی انحطاط کا شکار ہوتی جا رہی تھی- مگر اس سال اچانک ایسے ثبوت سامنے آئے کہ تقریبا ملک کی تمام کلیسیاؤں میں تنزلی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے- پریس اور پلپٹ سے اس پر بڑی بات چیت ہوئی اور حقائق سامنے لائے گئے- مگر اس گراوٹ کی وجہ بتانے سے سبھی قاصر تھے-AK 366.1

    فلڈلفیا کی پریسبیٹری میٹنگ میں، مسٹر برنس (Burnes) جو ایک کومنٹری (Commentry) کے مصنف بھی ہیں- اور شہر کی نامور کلیسیاؤں میں انکی کومنٹری کا استعمال بھی کیا جاتا ہے- انہوں نے کہا کہ میں 20 برس سے منسٹری میں ہوں اور آخری عشائے ربانیجسکی رسم میں نے ادا کی اس میں بہت حد تک ممبرز نے شرکت کی- لیکن اب کوئی بیداری نہیں، کوئی تبدیلی نہیں اور جو خداوند کا اقرار کرتے ہیں ان میں خدا کے فضل کی بڑھوتری بھی نہیں اور نہ ہی کوئی اپنی روح کی نجات کے لئے آ کر مطالعہ کرتا یا پوچھتا ہے- بزنس (Business) کی ترقی، کامرس اور مینوفیکچرنگ میں روشن مستقبل کی امید میں اذہان مادہ پرست ہو گئے ہیں- یہی حال سب چرچز کا ہے”- AK 366.2

    Congregational Journal, may23, 1844AK 366.3

    اسی سال فروری کے مہینے میں اوبرلں (Oberlin) کالج کے پروفیسر فینلے نے کہا “ہمارے سامنے حقائق موجود ہیں کہ عام طور پر ہمارے ملک کی پروٹسٹنٹ کلیسیائیں، تمام اخلاقی اصلاح کرنے کے بارے یا تو بےحس ہیں یا معاندانہ رویہ رکھتی ہیں- ان میں چند کلیسیاؤں کے علاوہ تقریبا تمام کلیسیاؤں کا یہی حال ہے- ہمارے پاس اسکے اور بھی مصدقہ ثبوت ہیں، کہ تقریبا عالمگیر سطح پر کلیسیاؤں میں بیداری مفقود ہے- روحانی بےحسی ہر جگہ چھا رہی ہے اور خطرناک حد تک اسکی جڑیں گہری چلی گئی ہیں- اس کی تصدیق دنیا کے تمام ریلیجیس پریس کرتے ہیں-بڑی حد تک چرچ ممبرز فیشن کے دلدادہ بنتے جا رہے ہیں- نشاط وطرب کی پارٹیوں میں بے ایمانوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ڈانس کرتے ہیں- مگر ہمیں اس دکھی مضمون کو زیادہ پھیلانے کی ضرورت نہیں- یہ ثبوت ٹھوس ہیں اور ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں- اور ہم پر یہ واضح کر رہے ہیں کہ کلیسیائیں عام طور پر افسوسناک حد تک پستی میں اترتی جا رہی ہیں- وہ خداوند سے بہت دور چلے گئے ہیں اور وہ بھی ان سے الگ ہو گیا ہے-AK 366.4

    ایک مصنف نے ریلیجیس ٹیلیسکوپ میں تصدیق کی- “جتنی آج مذہبی تنزلی دیکھنے کو مل رہی ہے ہم نے ماضی میں اتنی کبھی بھی نہیں دیکھی تھی- کلیسیاؤں کو سچ مچ بیدار ہونا اور اس بلا کی وجوہات کا پتہ لگانا ہو گا- وہ سب جو صیون کو پیار کرتے ہیں انہیں اس بلا کا پتہ ہونا چاہیے- جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت ہی کم لوگ بدی کو ترک کر کے خدا کی طرف آئے ہیں- اور ان کے مقابلہ میں بہت ہی زیادہ ہرزہ سرائی کرنے والے ڈھیٹ گنہگار اور گستاخ لوگ پیدا ہو گئے ہیں- یہ دیکھ کر ہم یہ بےساختہ کہہ دیتے ہیں کہ خدا اپنا رحم کرنا بھول گیا ہے؟ یا رحم کا دروازہ بند ہو گیا ہے؟AK 367.1

    چرچ کے اندر کبھی بھی ایسی حالت نہ تھی، اور یہ حالت بغیر کسی وجہ کے نہیں ہے- روحانی تاریکی جو قوموں، کلیسیاؤں اور انسانوں پر گرتی ہے یہ صرف اس لئے نہیں کہ خداوند اپنا فضل اپنی مرضی سے اٹھا لیتا ہے بلکہ خود انسان اس روشنی کو نظرانداز کر دیتے ہیں جوں خداوند خدا انکو دیتا ہے- اسکی مثال مسیح یسوع کے زمانہ کے یہودی قوم کی تاریخ میں پائی جاتی ہے- انہوں نے کلی طور پر دنیا کو اپنا لیا، خدا اور اسکے کام کو بھلا دیا، بدیں وجہ انکی سوچ تاریک ہو گئی اور انکے دل مادہ پرست اور شہوت پرست ہو گئے-اسی اے وہ مسیح کی آمد کے بارے بےخبر تھے- اور اپنی خود سری اور بے ایمانی کے باعث انہوں نے نجات دہندہ کو ترک کر دیا- اسکے باوجود خداوند نے یہودی قوم کو معرفت، اور نجات کی برکات میں شریک ہونے سے دور نہ رکھا- مگر جنہوں نے صداقت کو رد کر دیا انکے دلوں میں سے تمام آسمانی نعمتوں کی خواہش جاتی رہی- انہوں نے “روشنی کے بدلے تاریکی کو قبول کیا” اور وقت آ گیا جب وہ روشنی جو ان کے اندر تھی وہ بھی تاریکی بن گئی- اور یہ تاریکی نہایت ہی گہری تھی!AK 367.2

    یہ ابلیس کی پالیسی کے عین مطابق ہے- کہ انسان مذہبی روپ رکھیں مگر انمیں خدا ترسی کی روح معدوم ہو- انجیل کو ترک کرنے کے بعد، یہودی قدیم رسم ورواج کو بڑی تندہی سے مسلسل مناتے رہے اور اپنے قومی تشخص کو بڑی وضعداری کے ساتھ قائم رکھا، مگر خداوند کی حضوری انکے درمیان ظاہر ہونے سے باز آ گئی-AK 367.3

    دانی ایل کی پیشینگوئی مسیح کی آمد کے بارے صاف آگاہ کرتی تھی، اور اسی طرح اسکی موت کی بھی نشاندھی کی، اور انہوں نے اسکا مطالعہ کرنے کی حوصلہ شکنی کی- اور بالآخر ربیوں نے ان سب پر لعنت کا فتوی صادر کیا جو اسکے وقت کا شمار کرنے کی کوشش کرتے تھے- نادانی اور بےہودگی میں بنی اسرائیل آنے والی صدیوں میں خداوند کی نجات کی رحیم بخشش کے برعکس کھڑے ہوۓ- اور انہیں انجیل کی برکات کا اندازہ نہ تھا اور جو انہیں آسمانی روشنی کو ترک کرنے کی ہولناک اور سنجیدہ وارننگ دی گئی وہ اسے خاطر میں نہ لائیں-AK 368.1

    جہاں کہیں بھی ایسی وجوہات پائی جائیں گی، وہاں ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے- وہ جو جان بوجھ کر اپنی قائیلیت کا گلا اسلئے گھونٹ دیتا ہے کہ یہ اسکی اپنی رغبتوں میں مداخلت کا باعث بنتا ہے- تو پھر ایک وقت آتا ہے جب وہ جھوٹ اور سچ کے درمیان امتیاز نہیں کر سکتا- اسکا فہم تاریک، اور اسکا ضمیر کٹھور (بےحس) ہو جاتا ہے-دل سخت اور روح خدا سے دور ہوتی ہے- جہاں بھی الہی سچائی کا پیغام ترک کیا جائے گا یا اسے حقیر جانا جائے گا وہاں کلیسیائیں تاریکیوں میں ڈوب جائیں گئیں- ایمان اور محبت ٹھنڈے پڑ جائیں گی- اور انکی جگہ بیگانگی اور تنزلی داخل ہو جائے گی- کلیسیائی ممبرز اپنی قوت اور دلچسپی دنیاوی ترقی وخوشحالی کے لئے صرف کریں گے- اور گنہگار اپنی ہرزہ سرائی میں مزید سرکش ہو جائیں گے-AK 368.2

    مکاشفہ کے چودھویں باب کے پہلے فرشتے کا پیغام کہ خدا کی عدالت کا وقت آ گیا ہے اور بنی نوع انسان کو کہا گیا کہ خدا سے ڈرو اور اسکی حمد کرو- یہ پیغام خدا کے لوگوں کو دنیا کے بدکار اثرورسوخ سے جدہ کرنے کے بارے تھا- اور خدا کے لوگوں کو یہ دکھانے کے ل اے تھا کہ وہ اپنی حقیقی دنیوی حالت اور برگشتگی کو دکھ پائیں- اس پیغام میں خداوند نے کلیسیا کو وارننگ دی تھی- اور اگر اسے قبول کر لیا جاتا تو ان بدکاریوں کو روکا جا سکتا تھا جو انہیں خدا سے دور رکھے ہوۓ تھیں- اگر وہ آسمانی پیغام قبول کر لیتے تو روح اور خداوند کی قوت انکے درمیان ظہور پذیر ہوتی- کلیسیا دوبارہ اتحاد ایمان اور محبت کی مبارک سطح پر پہنچ جاتی جو رسولی کلیسیا کے زمانہ میں تھا- “جب ایماندار ایک دل اور ایک جان تھے- اور خدا کا کلام دلیری سے سناتے تھے- اور جو نجات پاتے تھے خداوند ہر روز ان میں ملا دیتا تھا” اعمال -47:4,31:4,32:4AK 368.3

    اگر خدا کے ایماندار لوگ اس روشنی کو قبول کر لیتے جو خدا کے کلام سے ان پر چمکتی ہے تو وہ اس اتحاد میں قائم ہو جاتے جس کے لئے مسیح یسوع نے دعا کی تھی- اور جسے رسول “روح کی یگانگی صلح کے بند” کہتا ہے- وہ مزید فرماتا ہے کہ “ایک ہی بدن ہے اور ایک ہی روح- چنانچہ تمہیں جو بلائے گئے تھے اپنے بلائے جانے سے امید بھی ایک ہی ہے- ایک ہی خداوند ہے- ایک ہی ایمان- ایک ہی بپتسمہ” افسیوں -5-3:4جنہوں نے ایڈونٹ پیغام قبول کیا انہیں ان مبارک نتائج کا تجربہ ہوا- وہ تو فرق فرق کلیسیاؤں سے آئے تھے- اور انکی کلیسیاؤں کی رکاوٹیں بنیادی مسلہ تھا- انکے عقائد مختلف تھے- آمد ثانی اور ہزار سالہ زمانے کے متعلق انکے غلط نظریات تھے، جنھیں درست کیا گیا- خود رائے اور دنیا کے ساتھ ہم آہنگی (مطابقت) کو ختم کیا گیا- غلطیوں، قصوروں کی تلافی کی گئی- دل ایک دوسرے کی رفاقت سے لطف اندوز ہوۓ- محبت اور شادمانی کی حکمرانی ہو گئی- اگر اس تعلیم نے یہ سب ان تھوڑے سے لوگوں کے لئے کر دکھایا جنہوں نے اسے قبول کیا، تو یہ بہتوں کے لئے بھی کر سکتی تھی اگر وہ سب کے سب اسے قبول کر لیتے-AK 369.1

    مگر کلیسیاؤں نے عام طور پر اس وارننگ کو قبول نہ کیا- انکے منسٹرز جو “اسرائیل کے گھرانے کے نگہبان” تھے- چاہیے تو یہ تھا یہ وہ پہلے مسیح یسوع کی آمد کی علامات کے بارے باخبر ہوتے- مگر وہ تو صداقت کو جاننے میں ناکام ہو گئے- وہ زمانوں کے نشانوں اور نبیوں کی شہادتوں کو بھی نہ سمجھ پائے- چونکہ انکے دل میں دنیوی امیدیں اور اعلی مراتب کی خواہشات رچ بس گئی تھیں اسلئے خدا کے لئے محبت اور اسکے کلام میں ایمان ٹھنڈا پر گیا- اور جب انہیں ایڈونٹ تعلیم پیش کی اس سے انکی بے ایمانی اور بدگمانی کو ہوا ملی- دراصل بات یہ تھی کہ یہ پیغام زیادہ تر لے مین (Laymen) نے پھیلایا ہے- اور اسکے خلاف بحث چل نکلی- جیسے کہ پہلے بھی خدا کے کلام کی سادہ شہادت کے بارے سوالات اٹھائے گئے- “بھلا سرداروں یا فریسیوں میں سے بھی کوئی اس پر ایمن لایا ہے“؟ یوحنا 48:7 اور کہا کہ یہ بہت مشکل کام ہے کہ نبوتی اوقات کے بارے جواب دیا جائے- اس لئے بہترے تھے جنہوں نے پیشینگوئیوں کا مطالعہ کرنے کے بارے پست ہمت کیا- اور لوگوں کو سکھایا کہ نبوتی کتابوں کو سر بمہر کر دیا گیا ہے اور انکو سمجھنا محال ہے- بھیڑ نے اپنے پاسبانوں کا پورا پورا یقین کر لیا- اور آگاہی کو سننے سے انکار کر دیا، اور دوسرے بیشک سچائی کے قائل ہو گئے، مگر وہ اسکا اس لئے اقرار نہیں کرتے تھے کہ مبادہ انہیں “ہیکل سے خارج نہ کر دیا جائے”- یہ وہ پیغام جو خدا نے کلیسیا کی جانچ اور تطہیر (پاکیزگی) کے لئے دیا تھا اس نے یقینی طور پر اس بڑی تعداد کا پتہ چلا لیا جن کے دل مسیح کی بجائے دنیا میں لگے ہوۓ تھے- وہ بندھن جس نے انہیں دنیا کے ساتھ باندھ رکھا تھا وہ آسمانی بندھن کی نسبت مضبوط تھا- انہوں نے دنیوی حکمت کی آواز سننے کو ترجیح دی اور صداقت کے پیغام کو جو دل کی جانچ کرنے والا تھا اسے ترک کر دیا-AK 369.2

    پہلے فرشتے کی آگاہی کو رد کرنے سے انہوں نے وہ ذرائع بھی رد کر دیئے جو خدا نے انکی بحالی کے لئے مہیا کئے تھے- انہوں نے اس رحیم پیامبر کوترک کر دیا جو انکی بدکاریوں کو معاف کر سکتا تھا جن کے سبب وہ خدا سے علیحدہ ہو چکے تھے- مگر وہ بڑے ذوق وشوق سے دنیوی دوستی کے متلاشی ہوۓ- یہیں پر تو دنیاداری، برگشتگی اور روحانی موت کی ہولنات وجہ پائی جاتی ہے جو 1844 میں کلیسیاؤں میں موجود تھی-AK 370.1

    مکاشفہ کے چودھویں باب کے پہلے فرشتے کے بعد دوسرا فرشتہ یہ پکارتا ہوا آیا- “گر پڑا- وہ بڑا شہر بابل گر پڑا جس نے اپنی حرامکاری کی غضبناک مے تمام قوموں کو پلائی” بابل (Babylon) کی اصلاح بیبل (Babel) سے آئی ہے جس کے معنی ابتری یعنی (nConfusio) کے ہیں- اسکا اطلاق کتاب مقدس میں مختلف برگشتہ مذاہبپر ہوتا ہے- مکاشفہ سترہ باب، میں بابل ایک خاتوں کی نمائندگی کرتا ہے- اور بائبل میں عورت، کلیسیا کی علامت ہے- نیک خاتون پاک کلیسیا کی نمائندگی کرتی ہے جبکہ بدکار عورت برگشتہ کلیسیا کی-AK 370.2

    بائبل میں مقدس اور دیرپا رنے والا رشتہ جو ممسه یسوع اور اسکی کلیسیا کے درمیان پایا جاتا ہے اسے شادی سے تشبیہ دی گئی ہے- خداوند خدا کا ایک نہایت سنجیدہ عہد کے ذریعہ اپنے لوگوں کے ساتھ مربوط ہوا ہے- وہ انکا خدا ہونے کا وعدہ کرتا ہے، اور لوگ صرف اور صرف اسکے ہو کر رہنے کا عہد کرتے ہیں- اس نے اعلان کیا “تجھے اپنی ابدی نامزد کر دوں گا- ہاں تجھے صداقت اور عدالت اور شفقت ورحمت سے اپنی نامزد کروں گا” ہوسیع -19:2AK 370.3

    اور پولس رسول بھی ایسی کنایہ کو استعمال کرتا ہے جب وہ کہتا ہے “مجھے تمہاری بابت خدا کی سی غیرت ہے کیونکہ میں نے ایک ہی شوہر کے سات تمہاری نسبت کی ہے تاکہ تمکو پاک دامن کنواری کی مانند مسیح کے پاس حاضر کروں” 2 کرنتھیوں -2:11AK 371.1

    مسیح یسوع سے کلیسیا کی بیوفائی، جو اس نے اپنا اعتماد اور اپنی محبت اس سے الگ کر لی اور اسکی جگہ اپنی روح میں دنیاوی محبت بھر لی، یہ سب شادی کے عہدوپیمان کی خلاف ورزی ہے- اس استعارہ کے تحت اسرائیل کے گناہ کی نشاندہی کی گئی جس نے اسے خداوند سے الگ کر دیا- اور خداوند کی محبت جسے اس نے حقیر جانا اسکی یوں تصویرکشی کی گئی ہے-AK 371.2

    “قسم کھا کر تجھ سے عہد باندھا-اور تو میری ہو گئی- اور تو نہایت خوبصورت اور اقبال مند ملکہ ہو گئی- اور اقوام عالم میں تیری خوبصورتی کی شہرت پھیل گئی- کیونکہ خداوند فرماتا ہے کہ تو میرے اس جلال سے جو میں نے تجھے بخشا کامل ہو گئی تھی- لیکن تو نے اپنی خوبصورتی پر تکیہ کیا اور اپنی شہرت کے وسیلہ سے بدکاری کرنے لگی- بلکہ بدکار بیوی کی مانند ہے جو اپنے شوہر کے عوض غیروں کو قبول کرتی ہے- جس طرح بیوی بیوفائی سے اپنے شوہر کو چھوڑ دیتی ہے اس طرح تو نے مجھ سے بیوفائی کی-حزقی ایل ,32:8,15-13:8,8:16 یرمیاہ -20:3AK 371.3

    عہد جدید میں ان مسیحیوں کیلئے بھی تقریبا ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے جو خدا کی محبت پر اس دنیا کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں- یعقوب رسول فرماتا ہے “اے زنا کرنے والیو! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ دنیا سے دوستی رکھنا خدا سے دشمنی کرنا ہے؟ پس جو کوئی دنیا کا دوست بننا چاہتا ہے وہ اپنے آپ کو خدا کا دشمن بناتا ہے” یعقوب -4:4AK 371.4

    مکاشفہ سترہ باب کی عورت (بابل) کے بارے یوں بیان آیا ہے “یہ عورت ارغوانی اور قرمزی لباس پہنے ہوۓ اور سونے کا پیالہ مکروہات یعنی اسکی حرامکاری کی ناپاکیوں سے بھرا ہوا اس کے ہاتھ میں تھا- اور اس کے ماتھے پر یہ نام لکھا ہوا تھا “راز- بڑا شہر بابل- کسبیوں اور زمین کی مکروہات کی ماں نبی کہتا ہیں کہ میں نے اس عورت کو مقدسوں کا خون اور یسوع کے شہیدوں کا خون پینے سے متوالا دیکھا- بابل کے متعلق مزید لکھا ہے “اور وہ عورت جسے تو نے دیکھا وہ بڑا شہر ہے جو زمین کے بادشاہوں پر حکمت کرتا ہے” مکاشفہ -8:17,6-4:17AK 371.5

    وہ حکومت جس نے صدیوں تک مسیحی سلطنتوں پر جابرانہ حکمرانی قائم کر رکھی وہ روم ہے- ارغوانی اور قرمزی رنگ سونے، جواہر اور موتیوں سے آراستہ اسکی شان وشوکت، نخوت وغرور جو بادشاہوں کی شان کو بھی مات کرے- اس کے علاوہ اور کوئی ایسی حکومت نہیں جس کے بارے کہا جا سکے کہ اس نے مقدسین کا خون پیا- اس نے بڑی بے رحمی سے مسیح کے پیروکاروں کو ایذا رسانیاں دیں- بابل پر بھی یہ الزام تھا کہ اس نے دنیا کے بادشاہوں سے ناجائز تعلقات قائم کئے تھے اسکے معنی یہ ہیں کہ یہ کلیسیا خدا سے علیحدہ ہو گی اور بت پرستوں غیر اقوام کے ساتھ الحاق کر لیا- اور یہودی کلیسیا کسبی بن گئی- اسی طرح روم نے اپنے آپکو بدکاری امن دھکیل دیا اور دنیا کی دوسری حکومتوں کی مدد حاصل کی اور بابل کو “کسبیوں کی ماں” کہا گیا ہے- اور اسکی بیٹیوں سے مراد وہ کلیسیائیں ہیں جنہوں نے اسکی تعلیم اور روایات کو اپنایا اور اسکے نمونے کی پیروی کرتے ہوۓ خدا کے حکم اور صداقت کو قربان کر دیا تاکہ وہ دنیا کے ساتھ ناجائز الحاقپیدا کرے-AK 372.1

    مکاشفہ چودھویں باب کا پیغام یہ اعلان کرتا ہے کہ بابل گر پڑا- اسکا اطلاق لازما مذہبی تنظیموں پر ہوتا ہے جو کسی وقت پاک تھیں مگر نجس ہو گئیں- چونکہ اس پیغام کے بعد عدالت کا ذکر ہے- اس لئے یہ آخری دنوں کے لئے ہے- اسکا اطلاق صرف روم کی کلیسیا پر ہی نہیں ہوتا کیونکہ یہ کلیسیا تو کئی صدیوں سے گرنے والی کیفیت میں تھا- علاوہ ازیں مکاشفہ کے اٹھارویں باب میں خدا کے لوگوں کو بابل میں سے نکل آنے کے لئے کہا گیا ہے- خدا کے کلام کے مطابق خدا کے بہت سے لوگ ابھی تک بابل میں ہیں- اور کس مذہبی تنظیم کے زیادہ تر لوگ جو یسوع کا اقرار کرتے ہیں اور ابھی تک بابل میں ہیں یہ دیکھنا باقی ہے- مگر بلاشبہ یہ مختلف پروٹسٹنٹ کلیسیائیں ہیں جو مسیح یسوع کا اقرار کرتی ہ ہیں- جب یہ کلیسیائیں ابھریں اسوقت انہوں نے خدا اور صداقت کے لئے اقرار کیا تھا- اور خداوند کی برکات انکے شامل حال تھیں، یہاں تک کہ خدا کو نہ ماننے والی دنیا بھی ان احساسات کا اقرار کرتی ہے جو انجیل کے اصولات کو اپنانے سے حئی القیوم نے ان پر کئے- اسرائیل کو نبی نے فرمایا “اور اقوام عالم میں تیری خوبصورتی کی شہرت پھیل گی- کیونکہ تو میرے اس جلال سے جو میں نے تجھے بخشا کامل ہو گئی تھی”-AK 372.2

    مگر وہ پروٹسٹنٹ کلیسیائیں بھی اسی خواہش کے سبب زوال پذیر ہوئیں جو اسرائیل کی تباہی کا سبب بنی- یعنی ان کے سے کاموں کو کرنا شروع کر دیا اور ملحدوں کے ساتھ ناطے قائم کر لئے- “لیکن تو نے اپنی خوبصورتی پر تکیہ کیا اور اپنی شہرت کے وسیلہ سے بدکاری کرنے لگی” حزقی ایل -15-14:16AK 372.3

    بہت سی پروٹسٹنٹ کلیسیائیں روم کے نقش قدم پر چل رہی ہیں اور وہ زمین کے بادشا ہوں کے ساتھ الحاق کر رہی ہیں- اور سیکولر گورنمنٹ کیساتھ الحاق کرنے سے وہ ”ملکی کلیسیائیں“ بن چکی ہیں- اسی طرح وہ دوسری کلیسیاؤں کے ساتھ الحاق کر رہی ہیں تاکہ دنیا کی حمایت حاصل کریں- اور بابل کیلئے جو ”ابتری“ کی اصطلاح آئی ہے وہ ان پر بالکل صادق آتی ہے- تمام کلیسیائیں اقرار کرتی ہیں کہ ان کی تعلیم صرف کتاب مقدس کی ہے اس کے باوجود یہ بہت سے فرقوں میں بٹی ہوئی ہیں- اور انکے عقیدے اور نظریے ایک دوسری کلیسیا سے مختلف ہیں-AK 373.1

    دنیا کے ساتھ عاصی (گنہگار) الحاق کے علاوہ وہ کلیسیائیں جو روم سے علیحدہ ہو چکی ہیں وہ دوسری کلیسیاؤں تک اسکی خصوصیات پہنچا رہی ہیں- کیونکہ رومن کیھتولک کا یہ کہنا ہے کہ “اگر روم کا چرچ سینٹس کی بتپرستی کرنے کا قصوروار ہے تو اسکی بیٹی یعنی چرچ آف انگلینڈ بھی اسی گناہ کی مرتکب ہے- جس نے 10 چرچز مریم کے نام مختص کئے ہیں اور ایک چرچ کرائسٹ کے نام-AK 373.2

    The Catholic Christian instructed, preface,pages 21,22AK 373.3

    اور ڈاکٹر ہاپکنز “ٹریٹائز آن ملینیم” میں بیان کرتا ہے کہ “کوئی وجہ نہیں کہ صرف رومن کیتھولک کلیسیا کو ہی مخالف مسیح گردانا جائے- جبکہ پروٹسٹنٹ کلیسیاؤں میں مخالف مسیح کی بہت زیادہ روح پائی جاتی ہے اور وہ کرپشن اور بدکاری کی کامل ریفریمیشن سے کوسوں دور ہیں-AK 373.4

    Samuel Hopkins,works,vol,2,page,328AK 373.5

    پریسبائیٹیرین کلیسیا کی روم سے علیحدگی کے بارے ڈاکٹر گتھری لکھتے ہیں- “تین سو سال ہوۓ، کھلی بائبل لے کر، جس کے اوپر اسکا جھنڈا تھا- یہ نعرہ لیکر روم کے گیٹوں سے باہر نکلا تھا پاک نوشتوں کی تحقق کرو اسکے بعد وہ ایک بہت ہی اہم سوال کرتا ہے، کیا وہ صاف شفاف بابل سے باہر نکل آئے، AK 373.6

    Thomas youthric, the jospel in Ezekiel, page 237AK 373.7

    سپرجین(Spurgeon) کا کہنا ہے کہ “ایسے دکھائی دیتا ہے کہ چرچ آف انگلنڈ کو گرامنیٹرین ازم نے پوری طرح کھا لیا ہے- (عشائے ربانی میں روٹی اور شیرہ محض علامت ہے- جبکہ رومن کیتھولک کلیسیا اسے حقیقی مانتی ہے) مگر یہ غیر ہم آہنگی بے ایمانی کی فلاسفی سے دبی ہوئی ہے- وہ چیزیں جنکو ہم نے بہتر خیال کیا تھا وہ ایک ایک کر کے بنیادی ایمان میں سے نکالی جا رہی ہیں- میرا پورا پورا ایمان ہے کہ انگلینڈ کی کلیسیا ن اے دل کے بے دینی کے ذریعہ نجات بخش چیزوں کی بیج کنی کر دی گئی ہے- اور ابھی بھی پلپٹ پر جا کر خود کو مسیحی کہلواتی ہے-AK 373.8

    بڑی برگشتگی کا منبع کیا تھا؟ کس طرح کلیسیا انجیل کی سادگی سے علیحدہ ہوئی؟ بتپرستوں کے طورواطوار کے ساتھ مطابقت رکھنے سے اور بت پرستوں نے مسیحیت کو قبول کر کے مسیحیت کو سہولت مہیا کی- پولس رسول بیان کرتا ہے “بے دینی کا بھید تو اب بھی تاثیر کرتا جاتا ہے” 2 تھسلنکیوں -7:2AK 374.1

    رسولوں کی زندگیوں میں کلیسیا نسبتا پاک رہیں- مگر دوسری صدی کے آخر میں زیادہ تر کلیسیاؤں نے نئی صورت اختیار کر لی- پہلی سی سادگی جاتی رہی- اور بزرگ شاگرد اپنی قبروں میں آرام کیلئے چلے گے تو انکے بچے نئے تبدیل شدہ لوگوں کے ساتھ ملکر بےپرواہی سے سامنے آئے- اور مشن کو نئے سانچے میں ڈھال دیا-AK 374.2

    Robert Robinson, ecelesiastical Researches, ch,6,par,17,p.51AK 374.3

    مسیحیت کو اختیار کرنے والوں کے حصول کیلئے مسیحی ایمان کا معیار گرانا پڑا- اسکے نتیجہ میں “کلیسیا میں بت پرستوں کا سیلاب آ گیا جو اپنے ساتھ اپنے رسم ورواج، دستور اور بت بھی لیتے آئے” AK 374.4

    Savazzi, lectures, page 278.AK 374.5

    جیسے کہ مسیحی مذہب نے سیکولر حاکمین کی مدد اور حمایت حاصل کی ان میں سے زیادہ تر نے تو برائے نام ہی مسیحیت کو قبول کیا- وہ ظاہری طور پر مسیحی تھے- مگر زیادہ تر بت پرست ہی رہے اور در پردہ بتوں کی ہی پرستش کرتے رہے- Ibid, page 278 AK 374.6

    کیا وہی طریقہ کار اب تقریبا ان تمام کلیسیاؤں میں نہیں دہرایا جا رہا جو خود کو پروٹسٹنٹ کہتے ہیں؟ وہ بانی جو ریفارم کی سچی روح رکھتے تھے جب وہ رحلت فرما گئے تو انکے جانشین سامنے آئے تو انہوں نے اس مقصد کو نئے طرز میں ڈھال دیا- اور اپنے آباؤ اجداد کے عقیدے کو ناعاقبت اندیشی سے اختیار کر لیا اور جو صداقت انہوں نے دیکھی تھی اس سے منحرف ہو گئے- یوں ریفارمرز کے بچے انکی فروتنی، خود انکاری اور دنیا کو ترک کرنے کے نمونہ سے محروم ہو گئے- “پہلی سادگی جاتی رہی” اور دنیاداری کا سیلاب کلیسیا میں امنڈ آیا- اور اپنے ساتھ رسم ورواج دستور اور بت بھی لیتے آیا-AK 374.7

    افسوس، دنیا کی دوستی “جو خدا کی دشمنی ہے” کتنی خطرناک حد تک پھیل گئی- اور اسے مسیح کے نام لیوا لوگ بھی اپنائے ہوۓ ہیں تمام مسیحی سلطنتوں کی ہردلعزیز کلیسیائیں بائبل کے معیار، فروتنی، خود انکاری، سادگی اور خدا ترسی سے دور چلی گئی ہیں- “پیسے کے درست استعمال” پر کلام کرتے ہوۓ جان ویسلی نے کہا “اپنے توڑے کا کوئی بھی حصہ آنکھوں کی خواہش پوری کرنے کے لئے ضائع نہ کریں- مہنگے کپڑے نہ خریدیں اور نہ ہی غیر ضروری زیور کی خواہش کریں- اپنے گھر کی آرائش وزیبائش کے لئے پیسہ ضائع نہ کریں- زائد یا مہنگے فرنیچر، مہنگی تصویروں، پینٹنگ اور نہ ہی فیشن ایبل چمکیلی چیزوں پر اپنا پیسہ خرچ کریں-AK 374.8

    لوگوں سے تعریف سننے کے لئے زندگی کی آن بان کے لئے پیسہ نہ ضائع کریں- جب تک آپ خود سب کچھ قرینے سے کریں گے لوگ آپکی تعریف کریں گے- اسمیں کوئی کلام نہیں کہ اگر آپ ہر روز عمدہ، گراں قدر لباس زیب تن کریں گے تو بہتیرے آپکی اس خوش وضعیپر اظہار پسندیدگی کریں گے-مگر انکی تعریف وتحسین اتنی مہنگی نہ خریدیں- بلکہ اس عزت وآبرو پر قانع رہیں جو خداوند کی طرف سے آتی ہے”-AK 375.1

    Wesley, works, sermon 50. “the use of money”AK 375.2

    مگر آجکل ہماری کلیسیاؤں میں اس تعلیم کی کوئی قدر نہیں-AK 375.3

    مذہبی ہونے کا محض اقرار کرنا، دنیا میں ہردلعزیز ہو چکا ہے- حکمران. سیاستدان، وکلا، ڈاکٹرز، تاجر حضرات کلیسیا میں اس لئے شریک ہوتے ہیں تاکہ انہیں عزت اور سوسائٹی کا اعتماد حاصل ہو- یوں وہ دنیاوی دلچسپی میں آگے بڑھتے اور تمام ناجائز کاروبار کو مسیحیت کے نام کے پیچھے چھپاتے ہیں-مختلف مذہبی حلقے انہی دنیادار لوگوں کے سرمائے اور اثرورسوخ سے رواں دواں ہیں-اور انکی سرپرستی کے لئے بہت کچھ کیا جاتا ہے- عالی شان کلیسیاؤں کو بہت خوبصورتی سے آراستہ کیا جاتا ہے اور انہیں معروف شاہراہوں پر تعمیر کیا جاتا ہے- عبادت گذار مہنگے اور فیشن دار کپڑوں میں ملبوس ہو کر آتے ہیں- قابل اور ذہین منسٹر کو بھاری تنخواہ دی جاتی ہے تاکہ وہ لوگوں کا دل بہلا کر انہیں کلیسیا کی طرف متوجہ کرے- منسٹر کو کہا جاتا ہے اسکا واعظ ہردلعزیز گناہوں کو نہ چھوۓ بلکہ بالکل خوشگوار ہونا چاہیے جو فیشن ایبل کانوں کو بھلا لگے- یوں کلیسیائی ریکارڈ میں فیشن ایبل لوگوں کا اندراج کیا جاتا ہے- اور فیشن ایبل گناہوں کو پارسائی کی ریاکاری تلے دبا دیا جاتا ہے-AK 375.4

    ایک معروف جرنل دنیا کی جانب موجودہ مسیحی رویہ پر تبصرہ کرتے ہوۓ کہتا ہے، “کم عقلی سے کلیسیا نے خود کو زمانے کی روح کے تابع کر دیا ہے اور جدید ضروریات کے مطابق عبادت کو ڈھال لیا ہے”- تمام چیزیں جو مذہبی دلکشی کا باعث بنتا ہیں کلیسیا انکی مدد بطور اوزار کے حاصل کر رہا ہے اور نیویارک انڈی پنڈنٹ کا ایک مصنف کلیسیا کے طریقہ کار کے بارے یوں گویا ہوتا ہے “خدا پرستی اور ناراستی کے درمیان جو فرق ظاہر کرنے کی لکیر ہے وہ بہت ہی دھندلی دکھائی دیتی ہے- اور دونوں اطراف کے جوشیلے لوگ اس کوشش میں ہیں کہ ان دونوں کے طریقہ کار میں جو جو فرق ہے اسے اپنی خوشیوں کے لئے مٹا دیا جائے- مذہب کے زیادہ تر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انکی تعداد میں اضافہ ہو جائے جو انکے فوائد کی حفاظت کرے خواہ وہ اپنے فرائض ایمانداری سے نہ بھی نبھا رہے ہوں-AK 375.5

    ہارورڈ کراسائی کا کہنا ہے ” یہ تو انتہائی تشویش کی بات ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسیح کی کلیسیا جیسا اس کے آقا نے کیا تھا اس سے بہت ہی کم اسکی تکمیل کر رہی ہے- بالکل اسی طرح جیسے قدیم یہودیوں نے بت پرست قوموں کے ساتھ اپنے روابط بڑھا لئے تھے جو انکے دل خدا سے چرا کر لے گئیں- اسی طرح اب مسیح کی کلیسیا، ملحد دنیا کے ساتھ جھوٹی شراکت کرنے سے اپنی حقیقی زندگی کے لئے الہی طریقہ کار کو ترک کر کے خود کو نقصان پہنچا رہی ہے، غیر مسیحی سوسائٹی کی عادات معقول لگتی ہیں- یہی دلائل دیئے جاتے ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں جو خدا کے مکاشفہ سے غیر مانوس ہیں اور براہ راست ہر طرح کے فضل کے مخالف- AK 376.1

    The healthy christian; an appeal to the curch, pages 141-142AK 376.2

    اس دنیوی عیش ونشاط پانے کٹ مدجزر میں، خود انکاری اور مسیح کی خاطر جان نثاری تقریبا ختم ہو چکی ہیں- بعض مردوزن ہمارے کلیسیا میں تعلیم پا کر سرگرم عمل ہیں اور جب وہ بچے تھے تو مسیح یسوع کی خاطر کچھ نہ کچھ قربان کرتے رہتے تھے- لیکن اگر اب فنڈز کی ضرورت ہو تو کہہ دیا جاتا ہے- کوئی فئیر (Fair)یا مینا بازار لگائیں- کوئی تماشہ یا ٹیبلو شو (Tableau) کریں- نقلیں اتارنے کا کھیل کھیلیں، آثار قدیمہ کی چیزوں کی نمائش کریں، یا کچھ کھانے پینے کا شو کریں- یعنی کچھ ایسا کریں جس سے لوگ لطف اندوز ہوں”-AK 376.3

    گورنر واش برن آف وسکانسن نے 9 جنوری 1873میں اپنے سالانہ خطاب میں کہا “کہ ایسے لگتا ہے کہ کچھ قانون ایسے بنانے پڑیں گے جو ان سکولوں کو ختم کر دیں جو جواریوں کو تیار کرتے ہیں- یہ ہر جگہ ہیں- حتی کہ کلیسیا (بیشک بےخبری میں) بھی ایسے لگتا ہے کہ وہ ابلیس کا کام کر رہے ہے- جیسے کہ گفت کانسرٹس، گفٹ انٹرپرائیزز اور ریفلز، بعض اوقات ایڈ آف ریلیجیس، اکثر یہ قابل تعریف مقصد کے لئے نہیں ہوتے- لاٹریز، پرائز پیکجز وغیرہ وغیرہ یہ سب طریقے پیسہ بٹورنے کے ہیں جس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا- یہ خاص کر نوجوانوں کے لئے نہایت ہی اخلاقی بگاڑ کا باعث ہے کیونکہ پراپرٹی یا پیسہ بغیر محنت مشقت کے انکے ہاتھ لگ جاتا ہے- کچھ معتبر لوگ اس چانس (Chance)انٹرپرائزز میں شامل ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر تسلی پذیر کر لیتے ہیں کہ یہ پیسہ کسی نیک مقصد کے لئے جا رہا ہے- یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ ریاست کے نوجوان اکثر اس عادت کا شکار ہو جاتے ہیں- اور اس چانس کی گیم کی گرمجوشی کے سبب یقینا نوجوان اس کے دلدادہ ہو جاتے ہیں-AK 376.4

    تمام مسیحی حکومتوں میں دنیوی ہم آہنگی کی روح حملہ آور ہے- رابرٹ اٹکنز نے لنڈن میں اپنے ایک واعظ میں، انگلینڈ میں جو تنزلی چھا گئی ہے اسکی تاریک پکچر پیش کی- زمین سے حقیقی راستباز ختم ہو گئے ہیں اور اسے کوئی بھی شخص دل پر نہیں لیتا- موجودہ زمانے کے مذہبی پروفیسر، کے دلدادہ اور دنیا کے ساتھ مطابقت رکھنے والے عزت کے بھوکے ہیں- انہیں بلاہٹ ملی ہے کہ وہ مسیح یسوع کے ساتھ دکھ اٹھائیں مگر وہ تو لعن طعن برداشت کرنے سے بھی جی چراتے ہیں-AK 377.1

    برگشتگی، برگشتگی، برگشتگی ہر کلیسیا کی پیشانی پر کنندہ ہے- اگر وہ اسے جانیں، اگر اسے محسوس کریں تو امید ہو سکتی ہے- مگر افسوس! وہ تو کہتے ہیں “ہم دولتمند ہیں، اور مالدار بن گئے ہیں اور کسی چیز کے محتاج نہیں”-Second advent library, tract no, 39AK 377.2

    بابل کے خلاف گناہ کا بڑا الزام یہ تھا کہ اس نے “اپنی حرامکاری کے غضبناک مے تمام قوموں کو پلائی” مکاشفہ -8:14AK 377.3

    غضبناک مے کا یہ پیالہ جو اس نے دنیا کو پیش کیا وہ اسکی غلط تعلیمات ہیں- جو دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کے ساتھ اسکے ناجائز تعلقات ہیں جن کا اس نے اقرار بھی کیا- دنیا کی دوستی نے اسکے ایمان کو برباد کیا- اور اسکے نتیجہ میں وہ اپنا بڑا اثر دنیا پر کتب مقدس کی سادہ، واضح تعلیم کے خلاف سکھا کر اثرانداز ہوئی-AK 377.4

    روم نے تمام لوگوں سے بائبل کو دور رکھا اور مطالبہ کیا کہ اسکی جگہ روم کی تعلیم مانیں یہ تو ریفریمیشن کا کام تھا جس نے لوگوں کو خدا کا کلام مہیا کیا- لیکن کیا آج ہماری کلیسیا میں لوگ پاک کلام کی نسبت اپنی تعلیم اور اپنی کلیسیا کے عقائد سکھا رہے ہیں ” پروٹسٹنٹ چرچ میں کلام کرتے ہوۓ چارلس بیچر (Beecher) نے کہا “وہ کسی بھی عقیدے کے خلاف غیر مہذب لفظ استعمال کرنے سے اسی طرح گریز کرتے ہیں جیسے ہولی فادرز کو ناتراشیدہ الفاظ سینٹس اور شہیدوں کی پرستش کے خلاف استعمال کرنے سے کتراتے تھے، پروٹسٹنٹ ایونجلیِکل کلیسیاؤں کے ہاتھ ایک دوسری کے ساتھ اس طرح مل گئے ہیں کہ خود انکے اپنے درمیان اس وقت تک کوئی مناد نہیں بن سکتا جب تک وہ بائبل مقدس کے علاوہ انکی کسی اور کتاب کو قبول نہ کرے-AK 377.5

    اس اقتباس میں کچھ بھی قیاس آرائی نہیں ہے کہ عقیدت کی قوت بائبل سے دور رکھنے کے لئے اسی طرح شروع ہو رہی ہے جیسے روم نے کیا تھا، گو طریقہ کار نہایت ہی دلفریب ہے”-AK 378.1

    Sermon on “the Bible a sufficient creed” delivered at fort wayne Indiana. Feb.22,1846AK 378.2

    جب وفادار اساتذہ خدا کے کلام کی تشریح کرتے ہیں تو کچھ صاحب علم، منسٹرز جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ پاک نوشتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ معقول تعلیم کو بدعت کےطور پر پیش کرتے ہیں- اس طرح صداقت کے بارے تلاش اور تحقیق کو ختم کر دیا جاتا ہے- کیا یہ درست نہیں کہ دنیا بابل کی غضبناک مے سے متوالا ہے- دنیا تو خدا کے صاف صریح کلام کی صداقت سے قائل اور تبدیل ہوں گے-مگر ریلیجییس فیتھ اس قدر گڑبڑ اور بے آہنگ دکھائی دیتا ہے کہ لوگوں کو معلوم نہیں ہو رہا کہ کس کو بطور صداقت کے تسلیم کریں- دنیا کے توبہ نہ کرنے کا گناہ کلیسیا کے دروازہ پر پڑا ہے-AK 378.3

    مکاشفہ چودھویں باب کے فرشتے کے پیغام کی منادی 1844 کے گرما میں کی گئی- اور اسکا براہ راست اطلاق ریاست ہائے متحدہ امریکہ پر ہوتا تھا- جہاں عدالت کی وارننگ زیادہ وسیع پیمانے پر دی گئی- اور وہیں اسے زیادہ رد کیا گیا اور وہیں کلیسیائیں بڑی تیزی سے تنزلی کا شکار ہوئیں- مگر 1844 میں دوسرے فرشتے کا پیغام پوری تکمیل کے ساتھ وہاں نہ پہنچا- اس وقت کلیسیاؤں کو اخلاقی گراوٹ کا سامنا تھا- اور اسکی وجہ ایڈوینٹ پیغام کی جو روشنی ان تک پہنچی تھی انہوں نے اسے رد کر دیا تھا- مگر وہ زوال ابھی مکمل نہیں ہو اٹھا اور اس وقت جو انہوں نے خاص صداقت کو مسلسل رد کیا تو وہ پستی میں دھنستے ہی چلے گئے، مگر اس وقت ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ بابل گر پڑا “مگر ابھی تک اس نے ایسا نہیں کیا تھا- دنیا کے ساتھ مطابقت کرنے کی روح اور صداقتوں کی جانچ کے لئے تمام تفرقات کو ختم کرنا اور یہ تمام مسیحی حکومتوں کے پروٹسٹنٹ کلیسیاؤں کے ایمان رکھنے والوں کے درمیان معاہدہ ہے اور یہ کیلسیائیں دوسرے فرشتے کی سنجیدہ اور ہولناک پکار کی حقارت کرتے ہیں- مگر برگشتگی کا کام ابھی اپنی معراج کو نہیں پہنچا تھا-AK 378.4

    بائبل مقدس فرماتی ہے کہ مسیح یسوع کی آمد ثانی سے پیشتر ابلیس ظاہر ہو گا اور- “ہر طرح کی جھوٹی قدرت اور نشانوں اور عجیب کاموں سے ظاہر ہو گا- اور ہلاک ہونے والوں کے لئے ناراستی کے ہر طرح کے دھوکے کے کامک کرے گا- اور جو حق کی محبت کو احتیار کریں گے وہ بچ جائیں گے- اور جتنے لوگ حق کا یقین نہیں کرتے بلکہ ناراستی کو پسند کرتے ہیں وہ سب سزا پائیں گے” 2 تھسلنیکیوں -12-9:2AK 379.1

    جب تک یہ موجودہ حالت اس مقام تک نہ پہنچ جائے کہ تمام مسیحی حکومتوں میں پائی جانے والی کلیسیائیں اتحاد نہ کر لیں اس وقت تک بابل کے گرنے کی تکمیل نہیں ہو گی- یہ تبدیلی قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے- اور مکاشفہ 8:14کی کامل تکمیل ابھی مستقبل میں ہونا باقی ہے-AK 379.2

    روحانی تاریکی اور خدا سے لاتعلقی جو کلیسیاؤں میں پائی جاتی ہے وہی بابل بناتی ہے- اور خداوند یسوع مسیح کے بہت سے سچے پرستار ان کلیسیاؤں میں پائے جاتے ہیں- ان میں سے بہتیرے ایسے ہیں جنہوں نے موجودہ زمانے کی سچائیاں کبھی نہیں دیکھیں، ان میں بہتیرے ایسے ہیں جو اپنی موجودہ حالت سے مطمئن نہیں اور وہ غیر مبہم روشنی کی تمنا کرتے ہیں- جن کلیسیاؤں سے وہ منسلک ہیں، ان میں رکھے ہوۓ مسیح کے مجسمہ کی طرف وہ فضول تکتے ہیں، جیسے جیسے یہ جماعتیں صداقت سے دور چلی جاتی ہیں، اور دنیا کے ساتھ الحاق بڑھاتی جاتی ہیں، تو ان دو کلاسوں کے اندر جو فرق ہے اسکی خلیج مزید بڑھتی چلی جائے گی- اور پھر یہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے- وقت آنے والا ہے جب وہ جو خدا کو بدل وجان چاہتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ رابطہ نہیں رکھیں گے- جو “خدا کی نسبت عیش وعشرت کو زیادہ دوست رکھنے والے ہوں گے- وہ دینداری کی وضع تو رکھیں گے مگر اسکے اثر کو قبول نہ کریں گے” 2 تیمتھیس -4:3AK 379.3

    مکاشفہ اٹھارواں باب اس وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جب مکاشفہ 12-6:14کی تہری (Three fold)وارننگ ترک کر دی ج آئی گی تو اسکے نتیجہ میں کلیسیا اس حالت کو پہنچ جائے گی جس کے بارے دوسرے فرشتے نے آگاہ کیا تھا اور خدا کے وہ لوگ جو ابھی بابل میں ہوں گے انہیں انکی رفاقت سے باہر نکلنے کی بلاہٹ دی جائے گی- اور یہ آخری پیغام ہو گا جو دنیا کو دیا جائے گا اور اسی کے ساتھ اسکا کام پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا- “اور جتنے لوگ حق کا یقین نہیں کرتے بلکہ ناراستی کو پسند کرتے ہیں وہ سب سزا پائیں گے” 2 تھسلنیکیوں -12:2 وہ جھوٹ کو سچ جانیں گے اور گمراہ ہو جائیں گے پھر صداقت کی روشنی ان پر جلوہ گر ہو گی جن کے دل اسے قبول کرنے کیلئے کھلے ہوں گے- اور خدا کے وہ لوگ جو بابل میں باقی ہوں گے انکو یہ بلاہٹ دی جائے گی کہ اے “میری امت کے لوگو! اس میں سے نکل آؤ تاکہ اس کے گناہوں میں شریک نہ ہو” مکاشفہ -4:18AK 379.4

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents