Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
عظیم کشمکش - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    آٹھارواں باب - ایک امریکی مصلح

    ایک راست بازاور ایمان دار کسان کو جسے کلام مقدس کے بارے شک و شبہات کا شکار کردیا گیا تھا۔ وہ بڑی دیانتداری سے صداقت کے آشنا ہونے کا آرزومند تھا- در حقیقت وہ خدا کا ایک خاص چنیدہ بندہ تھا جسے مسیح یسوع کی آمد ثانی کی منادی کرنے کیلئے رہنمائی کرنا تھی- کئی دوسرے صلاح مذھب کے رہنماؤں کی طرح ولیم ملر کو بھی ابتدائی زندگی میں غربت کا سامنا رہا- جس سے اس نے خود انکاری اور سرگرمی کے عظیم اسباق سیکھے- اسکے خاندان کے افراد خود مختار، آزادی پسند اور بردبار، سرگرم حب الوطن تھے- اور یہی اوصاف اسکی زندگی میں بھی نمایاں تھے- انقلاب کی آرمی میں اسکے والد محترم کپتان تھے اور وہ قربانیاں اور تکالیف جو اس طوفان زدہ زمانے میں جدوجہد کے دوران اٹھائیں ملر کی ابتدائی زندگی میں انکو دیکھا جا سکتا تھا-AK 309.1

    اسکی جسمانی ساخت بہت سڈول تھی- اپنے بچپن میں ہی اس نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا ثبوت فراہم کر دیا تھا- اور جونہی وہ عمر میں بڑھا یہ مزید نمایاں ہو کر ابھریں- اسکا ذہن سرگرم اور پختہ تھا- وہ علم وادب کا انتہائی دلدادہ تھا - گو اسے کالج کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہ مل سکا- مگر مطالعہ کے لئے اسکی محبت اور محتاط انداز سے سوچ وبچار اور ٹھوس نکتہ چینی نے اسے صاحب بصیرت اور نظریات کو سمجھنے میں تیز فہم بنا دیا- وہ ایسا باکردار شخص تھا کہ اسکے چال چلن پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا اور اسکی نیک نامی قابل رشک تھی- اسکی ایمانداری، کفایت شعاری فیض رسانی شہرہ آفاق تھی- ابتدا ہی سے وہ طاقت اور اسکے استعمال کی بدولت مقابلہ جتنے کی تمنا رکھتا تھا گو اسکے ساتھ ساتھ میں نے مطالعہ کی عادت بھی قائم رکھی تھی- اس نے سول اور ملٹری کے کئی عہدے عزت ووقار ناموری کے ساتھ نبھائے اور عزت وناموس اور دھن دولت کے اس پر دروازے کھلتے ہوۓ نظر آئے-AK 309.2

    اسکی والدہ محترمہ نہایت ہی پارسا اور خدا ترس خاتون تھی- بچپن ہی سے وہ مذہب کے زیر اثر رہا تھا- بچپن کے اوائل میں اسے دین فطرت (خدا کو ماننے والے اور نبیوں کا انکار کرنے والے) کی سوسائٹی میں ڈال دیا گیا- انکا اثر ملر پر بہت گہرا تھا- کیونکہ وہ زیادہ تر اچھے شہری، انسان دوست اور نیکی کے دلدادہ لوگ تھے- مسیحی اداروں کے درمیان انکا رہن سہن کسی حد تک عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا- جن بزرگوں نے انہیں اس طرف راغب کیا اور انہیں عزت اور اعتماد بخشا وہ کتاب مقدس کے مقروض تھے- اسکے باوجود یہ نعمتیں اس قدر درہم برہم کر دی گئیں کہ انکا اثر خدا کے کلام کے خلاف استعمال کیا گیا- انکے ساتھ رفاقت رکھنے کی وجہ سے ملر نے بھی انکے جذبات اپنا لئے- موجودہ الہامی نوشتوں کی تفسیر نے ایسی مشکلات پیدا کر دیں جنھیں حل کرنا ناممکن دکھائی دیا- مگر اسکا نیا عقیدہ جو بائبل کا انکاری تھا، اسکی جگہ لینے کیلئے کچھ بھی اس سے بہتر پیش نہ کر سکا- اور وہ درہ بھر بھی مطمئن نہ ہوا- اسکے باوجود اس نے تقریبا 12 برس مسلسل ان نظریات کو اپنائے رکھا- مگر34 برس کی عمر میں روح القدس نے اس کے دل پر اثر کیا اور اسکی بھرپور گناہی حالت اس پر ظاہر کی گئی- اسکے پہلے عقیدے کے مطابق مرنے کے بعد کسی خوشی ومسرت کی کوئی یقین دہانی نہ تھی- مستقبل تاریک تھا- بعد میں اس وقت کی محسوسات بیان کرتے ہوۓ اس نے کہا- AK 309.3

    ”نیست ونابود ہو جانے کا خیال پژمردگی اور افسردگی کا خیال تھا- اور اس یقینی تباہی پر آسمان میرے سر پر تانبے کی مانند اور زمین میرے قدموں کے نیچے مانند فولاد تھی ابدیت یہ کیا تھی؟AK 310.1

    اور موت یہ کیوں تھی؟ جتنا زیادہ میں نے اس پر غور وخوض کیا اتنا ہی میں اسکا مظاہرہ کرنے سے دور چلا گیا- جتنا میں نے اس پر سوچا اتنے ہی زیادہ مرے اخذ کردہ نتائج پراگندہ ہو گئے- میں نے کوشش کی کہ یہ سوچنا ترک کر دوں مگر خیالات تو جیسے میرے بس میں نہ رہے- میں سچ مچ بدبخت ہو گیا- مگر اسکی مجھے کچھ وجہ معلوم نہ ہوئی- میں بڑبڑایا، میں نے گلہ شکوہ کیا- مگر مجھے بس اتنا معلوم تھا کہ کہیں نہ کہیں خرابی ہے- مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ اسکی درستگی کیسے اور کہاں سے کروں؟ میں گویا بغیر امید کے نوحہ کناں تھا”-AK 310.2

    چند ماہ تک اسکی یہی کیفیت رہی- اسکا کہنا ہے کہ پھر اچانک ”نجات دہندہ کی سیرت واضح طور پر میرے ذہن میں سما گئی- ایسے لگا یہ کوئی بہت ہی بھلی ہستی ہے جو ہم پر اس قدر مہربان ہے جو ہماری خطاؤں کا کفارہ دیتی ہے تاکہ ہم گناہ کی سزا سے بچ جائیں- میں نے فورا یہ محسوس کیا کہ یہ کیسی مہربان ہستی ہے اور سوچا کہ میں خود کو اس کے بازوؤں میں دے دوں اور اسکے رحم وکرم پر پورا پورا بھروسہ کروں- مگر سوال پیدا ہوا کہ یہ کیسے ثابت کیا جائے کہ کوئی ایسی ہستی موجود ہے؟AK 310.3

    ”میں نے دیکھا کہ جس طرح کے نجات دہندہ کی مجھے ضرورت تھی تو بائبل مقدس ویسی ہی الہی صفات کے حامل ایک نجات دہندہ کو پیش کرتی ہے- مگر یہ جان کر میں حیران رہ گیا کہ کس طرح ایک ایسی کتاب جو الہامی نہیں ہے وہ ایسے اصول واضح کرتی ہے جو بالکل گنہگار دنیا کے مناسب حال ہیں؟ مجھے فورا یہ ماننا پڑا کہ پاک نوشتے خداوند کے الہام سے دیئے گئے ہیں- یہ میرے لئے باعث مسرت ٹھہرے اور مسیح یسوع میں مجھے دوست مل گیا- نجات دہندہ میرے لئے دس ہزار میں ممتاز بن گیا اور پاک نوشتے جو پہلے میرے لئے تاریک تھے وہ اب میرے قدموں کیلئے چراغ اور میری راہ کیلئے روشنی بن گئے- میرا ذہن پوری طرح تسلی پذیر اور مطمئن ہو گیا- میں نے خداوند کو زندگی کے سمندر میں چٹان کی مانند پایا، اور میں یہ سچ مچ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اسکی تلاش بڑی مسرت کیساتھ کی- جو کچھ میں نے اسکی تلاش سے پایا، اسکا نصف بھی مجھے بتایا نہ گیا تھا- میں حیران ہوں کہ کیوں میں نے اس سے پیشتر اسکی خوبصورتی اور جلال کو نہ دیکھا اور میں اس بات پر حیران ہوں کہ کیوں میں نے اسے رد کر دیا تھا- میں نے دیکھا کہ اس نے وہ سب کچھ مجھ پر آشکارہ کر دیا جو میرے دل کی چاہت تھی اور روح کے ہر مرض کا علاج مہیا کر دیا- دورے تمام مطالعہ جات سے میرا دل اچاٹ ہو گیا، اور میں نے حکمت حاصل کرنے کیلئے خدا کی طرف دل لگایا ہے”- S.Bliss, memoirs of WM. Miller, pages 65-67AK 311.1

    ملر نے جس مذہب کی حقارت کی تھی اب اسمیں اعلانیہ اپنے ایمان کا اظہا ر کر دیا- مگر اسکے بے ایمان ساتھی جنکے ساتھ اسکی رفاقت رہی تھی وہ اسکی وہ ساری بحث وتمحیض سامنے لیکر آئے جو اس نے الہامی نوشتوں کے خلاف خود پیش کی تھیں- اس وقت وہ انہیں جواب دینے کیلئے تیار نہ تھا- مگر اس نے یہ ضرور کہا کہ اگر بائبل خدا کا مکاشفہ ہے تو اس میں مطابقت اور ہم آہنگی کا پایا جانا ازحد ضروری ہے- اور جیسے کہ یہ بنی نوع انسان کی ہدایات کیلئے مکاشفہ دیا گیا تو اسے ایسا ہی لیا جائے جیسے اسکا فہم وادراک ہے- اس نے مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ بذات خود کلام مقدس کا مطالعہ کرے گا اور یہ جانچنے کی کوشش کرے گا کہ آیا ظاہری تضاد جو نظر آتا ہے وہ دیگر مکاشفات کیساتھ مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟AK 311.2

    اس نے پہلے سے قائم شدہ رائے کو ایک طرف رکھنے کا فیصلہ کر لیا- جب تک کہ تفاسیر کی کتابوں کو بھی چھوڑ دیا- اس نے الہامی نوشتوں کے ایک حوالے کا دوسرے حوالے سے موازنہ کیا- اسی طرح حاشئے (Margin) میں دیئے گئے حوالوں کی مدد سے انہیں پرکھا- اس نے باقاعدہ ایک طریقہ کار کے تحت کتاب مقدس کا مطالعہ شروع کیا- اس نے پیدائش کی کتاب سے شروع کیا اور ایک ایک آیت کو پڑھا- اس نے جلدبازی سے کام نہ لیا- اور جب تک اسے تمام آیت کی صحیح تشریح کا علم نہ ھوتا وہ آگے نہ بڑھاتا کہ اسے کسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے- جب اسے کوئی چیز غیر واضح دکھائی دیتی تو وہ اپنے دستور کے مطابق اسکا دوسرے حوالہ جات کے ساتھ موازنہ کرتا جو اسکی نوعیت کے ہوتے- اور متعلقہ مضمون کے بارے ہر ایک لفظ کا جائزہ لیا جاتا اور پھر تمام حوالہ جات ایک ہی بات پر متفق ہوتے تو مشکل حل ہو جاتی- اگر کسی عبارت کے سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا تو وہ اسکی وضاحت الہامی وظائف کے دوسرے حصوں میں تلاش کرتا اور جب اس نے دعا اور الہی روشن خیالی کے ساتھ خدا کے پاک کلام کا مطالعہ کیا تو وہ چیزیں جو اسکی سمجھ سے باہرتھیں وہ بڑی واضح ہو گئیں- اسے زبور نویس کے کلام کی صداقت کا تھربہ حاصل ہو گیا- ”تیری باتوں کی تشریح نور بخشتی ہے- وہ سادہ دلوں کو عقلمند بناتی ہے“ زبور -130:119AK 311.3

    انتہائی دلچسپی کے ساتھ اس نے دانی ایل اور مکاشفہ کی کتابوں کا مطالعہ کیا- اور تشریح کرنے کے وہی اصولات اپنائے جو دوسرے پاک نوشتوں کیلئے اپنائے تھے- اور اس نے اس پر بڑی خوشی ومسرت کا کا اظہار کیا کہ نبیانہ علامات سمجھی جا سکتی ہیں- اس نے دیکھا کہ کچھ پیشینگوئیاں ہو بہو پوری ہو چکی ہیں- تمام مختلف شبیہ، استعاروں، تماثیل اور مشابہتوں وغیرہ کی تشریح اسکے حوالے سے دی جا چکی ہے یا انہیں الہامی نسخوں میں کسی اور جگہ انکی تعریف (Defination) بتا دی گئی ہے- اور جب انکی تشریح کی جائے تو پتہ چل سکتا ہے کہ ان پیشینگوئیوں کی ہو بہو تکمیل ہو چکی ہے- اسکا کہنا ہے کہ ”میں اس سے نہایت ہی مطمئن ہوں کہ بائبل صداقت خود کو یوں سلسلہ وار سادہ انداز میں واضح کرتی ہے کہ راہ چلتا شخص خواہ وہ احمق ہی کیوں نہ ہو غلطی نہیں کر سکتا- جیسے کہ اس نے پیشینگوئی کی بڑی لائن کا قدم بہ قدم کھوج لگایا اور (70page,Bliss) سچائی کے ایک حلقے کو دوسرے کیساتھ ملانے سے اسکی کوششوں کو بڑی برکت ملی- آسمانی فرشتے اسکے فہم کی رہنمائی کر رہے تھے اور اسکے ذہن کو پاک نوشتوں کی فہم وفراست کیلئے کھول رہے تھے-AK 312.1

    اس نے اسی طریقہ کار کو اپنایا جس کے تحت ماضی کی پیشینگوئیاں پایہ تکمیل کو پہنچی تھیں اسی کو معیار بنا کر ان پیشیںگوئیوں کو پرکھا جو ابھی مستقبل میں پوری ہونے کو ہیں- اسے اس بات پر بھی پورا اطمنان ہو گیا کہ جو بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ زمانہ کے آخر ہونے سے پہلے مسیح کا ہزار سالہ زمانہ روحانی اور زمینی پر ہو گا- اس نظریہ کو خداوند کے پاک کلام کی بالکل حمایت حاصل نہیں ہے- اس طرح کی تعلیم ہزار سالہ زمانے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو مسیح یسوع کی آمد ثانی سے پہلے راستبازی اور سلامتی کا دورانیہ ہو گا- اور خدا کے غضب کے دن کو دور کر دیتا ہے- گو یہ بہت ہی خوش کن خیال ہے مگر یہ مسیح یسوع اور رسولوں کی تعلیم کی نفی کرتا ہے- جنہوں نے یہ کہا کہ فصل کی کٹائی تک گیہوں اور کڑوے دانے اکٹھے بڑھیں گے- اور برے اور دھوکے باز آدمی فریب دیتے اور فریب کھاتے ہوۓ بگڑتے چلے جائیں گے- اس وقت وہ بے دین ظاہر ہو گا جسے خداوند یسوع اپنے منہ کی پھونک سے ہلاک اور اپنی آمد کی تجلی سے نیست کر دیگا“- متی 2,41:38,30:13 تیمتھیس 2,1,13:3 تھسلنیکیوں -8:2AK 312.2

    دنیا کے تبدیل ہو جانے اور مسیح یسوع کی روحانی حکومت کی تعلیم رسولی کلیسیا کی طرف سے نہیں آئی- اور اٹھارویں صدی کے شروع تک عام مسیحیوں نے اس تعلیم کو قبول نہیں کیا تھا- دوسری غلط تعلیمات کی طرح اسکے نتائج بھی برے ہی برآمد ہوۓ- اس نے لوگوں کو یہ سکھایا کہ مسیح یسوع کی آمد ثانی کو بہت دور مسقبل میں دیکھیں- مگر انہیں اسکے آنے کی نشانیاں دیکھنے سے منع کیا- اس نے بہتوں کو خود اعتمادی کی طرف آمادہ کیا اور سلامتی ہی سلامتی پکارا- جس نے بہتوں نے اس ضروری تیاری کو نظر انداز کیا جو انہیں اپنے آقا سے ملنے کیلئے کرنا تھی- (اس تعلیم کا لب لباب یہ تھ اکہ مسیح یسوع دوسری بار بنفس نفیس نہیں آئے گا)-AK 313.1

    مگر ملر نے یہ دریافت کر لیا کہ مسیح یسوع خود اسی طرح دوسری بار آئے گا جس طرح وہ اوپر اٹھایا گیا- اور یہی کلام پاک کی تعلیم ہے- پولس رسول فرماتا ہے ”کیونکہ خداوند خود آسمان سے للکارا اور مقرب فرشتہ کی آواز اور خدا کے نرسنگے کے ساتھ اتر آئیگا اور پہلے تو وہ جو مسیح میں موئے جی اٹھیں گے“ متی 1,30:24 تھسلنیکیوں 16:4 نجات دہندہ نے فرمایا ”اور اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا اور اس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی“-AK 313.2

    ”کیونکہ جیسے بجلی پورب سے کوند کر پچھم تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی ابن آدم کا آنا ہو گا“ متی -27:24 آسمانی لشکر اسکے ہمراہ ہو گا- ”جب ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اسکے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا“ متی -31:15AK 313.3

    ”اور وہ نرسنگے کی بڑی آواز کیساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ اس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کے اس کنارے سے اس کنارے تک جمع کریں گے“ متی -31:24AK 314.1

    اسکی آمد ثانی پر راستباز مردے زندہ کئے جائیں گے اور زندہ راستباز تبدیل ہو جائیں گے- پولس رسول فرماتا ہے کہ ہم ”ہم سب تو نہیں سوئیں گے“ مگر سب بدل جائیں گے- اور یہ ایک دم میں، ایک پل میں، پچھلا نرسنگا پھونکتے ہی ہو گا- کیونکہ نرسنگا پھونکا جائے گا اور مردے غیر قانونی حالت میں اٹھائیں گے اور ہم بدل جائیں گے- کیونکہ ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے اور یہ مرنے والا جسم حیات ابدی کا جامہ پہنے“ 1 کرنتھیوں -53-51:15AK 314.2

    اور پولس رسول تھسلنیکیوں کی کلیسیا کو مسیح یسوع کی آمد ثانی بیان کرنے کے بعد یوں فرماتا ہے- ”کیونکہ خداوند آسمان سے للکارا اور مقرب فرشتہ کی آواز اور خدا کے نرسنگے کیساتھ اتر آئے گا اور پہلے تو وہ جو مسیح میں موۓ جی اٹھیں گے- پھر ہم جو زندہ باقی ہوں گے انکے ساتھ بادلوں پر اٹھائے جائیں گے- تاکہ ہوا میں خداوند کا استقبال کریں اور اس طرح ہمیشہ خداوند کے ساتھ رہیں گے“ 1 تھسلنیکیوں 17-16:4AK 314.3

    مسیح یسوع کی شخصی آمد ثانی سے پہلے اسکے لوگ بادشاہی حاصل نہ کر پائیں گے- نجات دہندہ نے فرمایا ”جب ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اسکے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا- اور سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی- اور وہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے- اور بھیڑوں کو اپنے دہنے اور بکریوں کو بائیں کھڑا کرے گا- اسوقت بادشاہ اپنے دہنی طرف والوں سے کہے گا آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنای عالم سے تمھارے لئے تیار کی گئی ہے اسے میراث میں لو“ متی -34-31:25AK 314.4

    جو حوالہ جات دیئے گئے ہ این انکو الہامی نوشتوں کی بدولت ہم نے ابھی دیکھا ہے کہ جب ابن آدم آئے گا تو مردے غیر قانونی حالت میں جی اٹھیں گے اور زندہ راستباز بدل جائیں گے- اس بڑی تبدیلی کی بدولت وہ بادشاہی کو حاصل کرنے کیلئے تیار کئے گئے ہیں پولس رسول فرماتا ہے ”گوشت اور خون خدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہو سکتے“ 1 کرنتھیوں 50:15انسان اس موجود حالت میں فانی اور خرابی کی طرف مائل ہونے والا ہے- مگر خدا کی بادشاہی غیر فانی اور تاابد قائم رہنے والی ہے- لہذا انسان اپنی اس موجودہ حالت میں خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا- لکین جب مسیح یسوع آئے گا وہ اپنے لوگوں کو بقا عطا کرے گا- اور پھر وہ انہیں ببادشاہی لینے کے لئے بلائے گا جس کے لئے وہ شرکت غیرے وارث ہیں-AK 314.5

    یہ اور پاک نوشتوں کے دوسرے حوالہ جات ملر کے فہم کے مطابق اس بات کا ثبوت تھے کہ وہ واقعات جن کے بارے عالمگیر رائے یہ تھی کہ وہ مسیح یسوع کی آمد ثانی سے پہلے واقع ہوں گے- اور خدا کی بادشاہت قائم ہو جائے گی- ان حوالہ جات کی روشنی میں یہ سب کچھ مسیح یسوع کی آمد ثانی کے بعد وقوع پذیر ہو گا- علاوہ ازیں زمانے کی تمام نشانیاں اور دنیا کی موجودہ حالت آخری دنوں کے بارے جو نبیانہ وضاحتیں آئی ہیں ان سے مطابقت رکھتے ہیں- چناچہ ملر پاک صحائف کے مطالعہ کی روشنی میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس دھرتی کی موجودہ حالت کا خاتمہ ہونے کو ہے- اور جو وقت اسے دیا گیا تھا وہ ختم ہو چکا ہے-AK 315.1

    ملر نے کہا یہ دوسرا ثبوت جس نے میرے فہم کو بہت زیادہ متاثر کیا وہ الہامی نسخہ جات کی واقعہ نگاری (تاریخوں کا حساب) تھا میں نے معلوم کیا کہ جن واقعات کی پیشینگوئی کی گئی تھی انکی ماضی میں تکمیل ہو چکی ہے- اور انکے لئے جو وقت مقرر تھا اسی دوران انکی تکمیل ہوئی- پانی کے طوفان کے ایک سو بیس برس (پیدائش 3:6)اور سات دن جو اسکے بعد آنے تھے، اور 40دن رات بارش کی پیشینگوئی (پیدائش 4:7)- ابرہام کی نسل کا چارسو برس غلامی کی پیشینگوئی (پیدائش 13:15)- ساقی اور نان پر کے خواب کے تین دن کی پیشینگوئی (پیدائش 20-12:40)- فرعون کے سات برس کی پیشینگوئی- (پیدائش 54-28:41) بیابان میں 40 برس- (گنتی 43:14)قحط کے ساڑھے تین برس (1 سلاطین ,1:17 لوقا 25:4)— غلامی کے 70 برس (یرمیاہ 11:25)- نبوکد نظر کے سات دور (دانی ایل 16-13:4) اور یہودیوں کیلئے 70 ہفتے، 62 ہفتے اور ایک ہفتہ اور نصف ہفتہ پورے 70 ہفتے جو یہودیوں کیلئے مقرر ہوۓ پورے ہوۓ- (دانی ایل 27-24:4) یہ پیشینگوئیاں وقت پورا ہونے پر پایہ تکمیل کو پہنچیں- Bliss, pages 74,75AK 315.2

    جب اس نے بائبل کے مطالعہ کے ذریعہ مختلف تاریخ وار حوالہ جات دیکھے جو اسکے فہم کے مطابق آمد ثانی تک جاتے تھے تو اس نے انہیں ”مقررہ وقت“ سے پیشتر خیال کر لیا- جو خداوند خدا نے اپنے بندوں پر آشکارا کئے تھے- موسی نے فرمایا کہ ”غیب کا مالک تو خداوند ہمارا خدا ہی ہے- پر جو باتیں ظاہر کی گئی ہیں وہ ہمیشہ تک ہمارے اور ہماری اولاد کیلئے ہیں تاکہ ہم اس شریعت کی سب باتوں پر عمل کریں“ استثناہ -29:29AK 315.3

    اور خداوند خدا نے عاموس نبی پر ظاہر کیا کہ ”یقینا خداوند خدا کچھ نہیں کرتا جب تک کہ اپنا بھید اپنے خدمت گزار نبیوں پر پہلے آشکارا نہ کرے“ عاموس 7:3تو پھر خدا کے کلام کے طالب علم پر امید ہو کر ان عظیم الشان واقعات کی توقع کرتے ہیں جنکا اشارہ بڑا واضح طور پر صداقت کے پاک نوشتوں میں پایا جاتا ہے-AK 316.1

    ملر کا کہنا ہے کہ جب میں پوری طرح اسکا قائل ہو گیا کہ ”ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کیلئے فائدہ مند بھی ہے“ 2 تیمتھیس 21:11----- اور وہ اسی لئے ورطہ تحریر میں آئے ”کیونکہ جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں تاکہ صبر سے اور کتاب مقدس کی تسلی سے امید رکھیں“ رومیوں 4:15----- ”بائبل کی تاریخوں کے حصوں کو میں نے اسی طرح لیا جیسے بائبل مقدس کے دوسرے حصے ہیں- اور جیسے دوسرے حصے ہمارے لئے سنجیدہ غور وخوض کیلئے ہیں اسی طرح تاریخی حصے بھی ہیں- اس لئے میں نے محسوس کیا وہ چیزیں سمجھوں جو خداوند نے اپنے رحم کے وسیلہ سے ہم پر آشکارا کرنا مناسب جانا- مگر مجھے کوئی حق نہیں تھا کہ میں نبیانہ دور سے آگے بڑھوں“- Bliss, pages,75AK 316.2

    وہ پیشینگوئی جو مسیح یسوع کی آمد ثانی کے بارے بڑی صفائی سے آگاہ کرتی ہے وہ دانی ایل 14:8 میں پائی جاتی ہے- ”دو ہزار تین سو صبح شام تک، اسکے بعد مقدس پاک کیا جائیگا“ اپنے اصول کی پیروی کرتے ہوۓ کہ پاک نوشتے خود اپنی تفسیر کرتے ہیں ایئر علامتی پیشینگوئی میں ایک دن ایک سال کے برابر ہے (گنتی ,34:14 حزقی ایل 6:4)- یوں اس نے دیکھا کہ 2300 نبیانہ دنوں کا دور یا لغوی سال یہودیوں کے آزمائشی وقت سے آگے بڑھتے ہیں- مگر یہ ہیکل کی معزولی کا حوالہ نہیں ملتا- ملر نے اس نظریہ کو مان لیا کہ مسیحی زمانہ میں زمینی ہیکل ہے، اور اس سے یہ سمجھا کہ ہیکل کی صفائی کی پیشینگوئی جسکا ذکر دانی ایل 14:8 میں آیا ہے- یہ اس وقت کی نمائندگی کرتا ہے جب مسیح یسوع کی آمد ثانی کے وقت یہ دھرتی آگ سے پاک صاف کی جائے گی- اگر اس وقت 2300 کی شروعات کا صحیح پتہ چل جاتا تو وہ یقینی طور پر آمد ثانی کا صحیح وقت بتانے کا اہل ہو سکتا تھا- اور اس عظیم منزل مقصود کا پتہ چل جاتا جس وقت موجودہ کیفیت ”کی خود بینی، ظاہری نمائش، شان وشوکت، اختیار، بدکاری جبر وستم اور لاف زنی ملیامیٹ ہو جاتی اور جب اس دھرتی سے لعنت ختم اور موت اپنی موت آپ مر جاتی- اور خدا کے خادموں کو انکا اجر دیا جاتا نبیوں اور مقدسین کو اور انکو بھی جو اسکے نام سے ڈرتے ہیں- اور وہ تباہ ہو جاتے جو دنیا کو تباہ کرتے ہیں“- AK 316.3

    Bliss, pages 76AK 317.1

    نئی اور گہری سنجیدگی اور مستعدی کے ساتھ ملر نے پیشینگوئیوں کی تحقیق وتفتیش جاری رکھی- ان کے مطالعہ کے لئے اس نے دن رات ایک کر دیا- اور اس عظیم اور اہم کام کیلئے اس نے اپنی تمام دلچسپیاں اس پر قربان کر دیں- کیونکہ یہ جاننا اس کے نزدیک نہایت ہی اہم تھا- دانی ایل کے آٹھویں باب میں اسے 2300دنوں کی شروعات کا کوئی اشارہ نہ ملا- گو جبرائیل فرشتہ نے دانی ایل کو رویا سمجھنے کیلئے کہا مگر اسے جزوی طور پر بیان کیا- نبی کی رویا میں کلیسیا پر آنے والی ہولناک مصیبت کا ہی ذکر کیا گیا- جس سے اسکی ہمت جواب دے گئی- دانی ایل نے فرمایا کہ “مجھ دانی ایل کو غش آیا اور میں چند روز تک بیمار پڑا رہا- لیکن اسکو کوئی نہ سمجھا” دانی ایل -27:8AK 317.2

    تاہم خداوند نے اپنے پیامبر کو حکم دیا ”اے جبرائیل اس شخص کو اس رویا کے معنی سمجھا دے“ حکم کی تعمیل ہوئی- فرشتہ بعد میں کسی وقت واپس آیا اور دانی ایل سے کہا ”اے دانی ایل میں اب اس لئے آیا ہوں کہ تجھے دانش وفہم بخشوں، پس تو غور کر اور رویا کو سمجھ لے“ دانی ایل ,23-22:9, 16,27:8دانی ایل 27-25:9 آٹھویں باب میں ایک نہایت ہی اہم پوائنٹ ہے جسکی وضاحت نہیں کی گئی اور جو وقت سے علاقه رکھتا ہے یعنی 2300 دن کے متعلق- اس لئے فرشتے نے اپنے بیان کو جاری رکھا جو خصوصا وقت کے متعلق تھا-AK 317.3

    ”تیرے لوگوں اور تیرے مقدس شہر کیلئے ستر ہفتے مقرر کئے گئے پس تو معلوم کر اور سمجھ لے کہ یروشلیم کی بحالی اور تعمیر کا حکم صادر ہونے سے ممسوح فرمانروا تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے ہونگے- پھر بازار تعمیر کئے جائیں گے اور فصیل بنائی جائے گی مگر مصیبت کے ایام میں- اور باسٹھ ہفتوں کے بعد وہ ممسوح قتل کیا جائیگا- اور اسکا کچھ نہ رہے گا اور وہ ایک ہفتہ کیلئے بہتوں سے عہد قائم کرے گا اور نصف ہفتہ میں ذبیحہ اور ہدیہ موقوف کرے گا“ دانی ایل -27-24:9AK 317.4

    فرشتہ کو دانی ایل کے پاس بھیجا گیا تاکہ آٹھویں باب کی رویا کے بارے جو وہ پوائنٹس نہ سمجھ پایا تھا اسے سمجھائے جن کا واسطہ وقت سے تھا- ”دو ہزار تین سو صبح وشام تک اسکے بعد مقدس پاک کیا جائے گا“ دانی ایل -14:8 دانی ایل کو یہ کہنے کے بعد کہ اس رویا کو سمجھ لے اور رویا پر غور وخوض کر- اس فرشتہ کے پہلے الفاظ یہ تھے ”تیرے لوگوں اور تیرے مقدس شہر کیلئے ستر ہفتے مقرر کئے گئے ہیں“- اور جو مقرر کیلئے لفظ (Determined) استعمال کیا گیا ہے اسکے لغوی معنی (Cutoff) مخصوص کرنے یا مقرر کرنے کے ہیں- 70 ہفتے 490 سال کی نمائندگی کرتے ہیں- جو فرشتہ نے مقرر کا اعلان کیا- جنکا خاص تعلق یہودیوں سے تھا- مگر وہ کس میں سے کاٹے گئے؟ دانی ایل آٹھویں باب میں صرف 2300 دنوں کے دورانیے کا ذکر ہے تو پھر اسی دورانیے میں سے 70 ہفتے کاٹے گئے ہوں گے اور یہ 70 ہفتے 2300 دنوں کا حصہ ہی ہوں گے- اور یہ دونوں دورانیے (اوقات) ایک ساتھ شروع ہوۓ ہوں گے- اور ان 70 ہفتوں کا ذکر اس تاریخ سے لیا جائے گا جب یروشلیم کی ہیکل کو تعمیر کرنے کا حکم صادر ہونے کو تھا- اگر اس حکم کی تاریخ کا علم ہو جائے تو پھر 2300 دنوں کی شروعات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے-AK 318.1

    عزرہ کے ساتویں باب میں حکم کا پتہ چلتا ہے- (عزرہ 26-12:7) یہ فرمان شاہ فارس ارتخششتا کی طرف سے 457 قبل از مسیح جاری ہوا تھا- مگر عزرہ 14:6 کے مطابق یروشلیم میں خداوند کا گھر ”خورس اور دادا اور شاہ فارس ارتخششتا کے حکم سے بنایا گیا “ یہ تین بادشاہ فرامین کی دوبارہ تصدیق کرتے ہیں اور 2300 دنوں کی پیشینگوئی شروع ہونے کی نشاندھی کرتے ہیں- اگر B.C.457 کو لیں جب فرمان جاری ہوا تو پیشینگوئی کی ساری نمایاں خصوصیات جو 70 ہفتوں سے علاقه رکھتی ہیں پوری ہو چکی ہیں-AK 318.2

    یروشلیم کی بحالی اور تعمیر کا حکم صادر ہونے سے ممسوح فرمانروا تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے ہوں گے” یعنی 69 ہفتے یا 483 سال- ارتخششتا کا حکم B.C,457 موسم خزاں میں موثر ہوا- اس تاریخ سے 483 سال 27 عیسوی خزاں تک پہنچ جاتے ہیں- اسوقت پیشینگوئی کی تکمیل ہو گئی- لفظ مسیحا ”Messiah“ ممسوح کے معنوں میں آتا ہے- 27 کے موسم خزاں میں مسیح یسوع نے یوحنا سے بپتسمہ لیا اور روح القدس کا مسح حاصل کیا- پطرس رسول اسکی یوں تصدیق کرتا ہے- ”خدا نے یسوع ناصری کو روح القدس اور قدرت سے کس طرح مسح کیا“ اعمال -38:10 مسیح یسوع نے خود فرمایا ”خداوند کا روح مجھ پر ہے اس لئے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کیلئے مسح کیا“ لوقا 18:14 اپنے بپتسمہ کے بعد وہ گلیل کو گیا اور خدا کی بادشاہی کی منادی کی- اور کہا کہ ”وقت پورا ہو گیا ہے“ مرقس -15-14:1AK 318.3

    ”اور وہ ایک ہفتہ کیلئے بہتوں سے عہد قائم کرے گا“ یہاں یہ ”ہفتہ“ جو سامنے لایا گیا ہے یہ ستر سالوں کا آخری ہفتہ ہے- یہ وہ آخری سات سال ہیں جو خصوصا یہودیوں کیلئے مخصوص کئے گئے- اس عرصۂ کے دوران جو 27 اے ڈی سے 34 اے ڈی تک کا ہے، پہلے مسیح یسوع نے خود اور پھر مسیح یسوع کے شاگردوں نے یہودیوں کو انجیل کی منادی کی دعوت دی- جیسے کہ شاگرد انجیل کی خوشخبری پھیلانے کیلئے نکلے تو مسیح یسوع نے انہیں ہدایت دی کہ ”غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا- بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا“ متی -6-5:10AK 319.1

    ”اور نصف ہفتہ میں ذبیحہ اور ہدیہ موقوف کرے گا“ 31-27 اے ڈی میں مسیح یسوع کے بپتسمہ کے ساڑھے تین برس بعد ہمارا آقا مصلوب ہوا- اس عظیم قربانی کیساتھ ہی جو کوہ کلوری پر گذرانی گئی، چار ہزار سال سے جاری قربانیوں کا سلسلہ موقوف ہوا جو خدا کے برے کی قیربانی کی طرف اشارہ کرتا تھا- نمونے کی قربانی کی جگہ اصل قربانی نے لے لی- یوں تمام قربانیوں اور ذبیحوں کا رسمی نظام اختتام پذیر ہوا- جیسے کہ ہم نے دیکھا ہے وہ ستر ہفتے یا 490 سال جو یہودیوں کیلئے الاٹ ہوۓ تھے 34 اے ڈی کو اختتام کو پہنچے- اس وقت یہودی سنہیڈرن کے ایکشن کے ذریعہ قوم نے ستفنس کو شہید کرنے اور مسیح کے دوسرے پیروکاروں کو اذیتیں پہنچانے سے انجیل کو رد کر کے اس پر مہر ثبت کر دی- پھر نجات کا پیغام چنیدہ قوم کو پہنچانے کی ذمہ داری نہ رہی- اور نجات کا پیغام دنیا کو پہنچایا گیا- ایذا رسانی کی وجہ سے شاگرد مجبورا یروشلیم سے نکلا گئے ”اور کلام کی خوشخبری دیتے پھرے“AK 319.2

    ”فلپس شہر سامریہ میں جا کر لوگوں میں مسیح کی منادی کرنے لگا- پطرس کو خداوند کی رہنمائی حاصل ہوئی اور وہ قیصریہ میں خدا ترس صوبیدار کرنیلیس کے پاس پہنچ گیا اور اسے خوشخبری سنائی- اور سرگرم پولس کو میہ یسوع نے پکڑ لیا اور اسے حکم دیا کہ تو خوشخبری پھیلا“ میں تجھے غیر قوموں کے پاس دور دور بھیجوں گا“ اعمال -21:22,5-4:8AK 319.3

    یوں پیشینگوئی کے ہر اہم پہلو کی حیران کن طریقہ سے تکمیل ہوئی- اور بلا شبہ ستر ہفتے B.C.457سے شروع ہوۓ اور 34 اے ڈی کو اختتام پذیر ہو گئے- اس معلومات کی روشنی میں 2300 دنوں کے اختتام ہونے کو جاننے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہے- 70 ہفتے 490 دن 2300 دنوں میں سے نکال دینے سے 1616 دن رہ گئے تھے- 490 دن کے خاتمہ کے باوجود 1810 دن کی تکمیل ہونا باقی تھی A.D.34 سے 1810 سال ہمیں 1844 تک لے جاتے ہیں- لہٰذا 2300 دن جن کا ذکر دانی ایل 14:8 میں آیا ہے وہ 1844 میں اختتام پذیر ہو جاتے ہیں- اس عظیم نبیانہ دورانیے کے اختتام پر اور خدا کے فرشتہ کی گواہی کے مطابق “مقدس پاک کیا جائے گا” یوں جیسے عالمگیر خیال بھی ہے کہ ہیکل کی صفائی کا کام مسیح یسوع کی آمد ثانی پر ہو گا اس وقت کی طرف قطعی طور پر اشارہ کر دیا گیا ہے-AK 319.4

    ملر اور اسکے ساتھیوں نے پہلے تو یہ خیال کیا کہ 2300 دن 1844 کے موسم بہار میں اختتام پذیر ہوں گے- مگر پیشینگوئی 1844 کے موسم خزاں کی طرف اشارہ کرتی تھی- اس نقطہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انکو ک س قدر مایوسی اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے نجات دہندہ کے آنے کی تاریخ قبل از وقت مقرر کر دی تھی- مگر اسکا کچھ زیادہ اثر نہ پڑا کیونکہ 2300 دنوں کا خاتمہ 1844 میں ہی ہوا- اور ہیکل کی صفائی کا عظیم واقعہ کو ضرور معرض وجود میں آنا چاہیے ہی تھا-AK 320.1

    الہامی نوشتوں کے مطالعہ میں مگن ہو کر جیسے کہ اس نے پہلے بھی کیا تھا- یہ ثابت کرنے کیلئے کہ یہ خداوند کی طرف سے دیا ہوا مکاشفہ ہے- ابتدا میں تو ملر کو یہ ذرا بھی گمان نہیں تھا کہ وہ اب جس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے کبھی بھی پہنچ پائے گا- وہ اس ساری تحقیق کے نتیجہ کا کریڈٹ لینے کیلئے قطعا راضی نہ تھا- مگر صحائف کے ثبوت اس قدر واضح اور پرتاثیر تھے کہ انکو نظرانداز کرنا ناممکن تھا-AK 320.2

    اس نے دو سال بائبل کے مطالعہ کیلئے وقف کر دیئے تھے، جب 1818 میں وہ اس بات کا قطعی طور پر قائل ہو گیا کہ 25 برس کے بعد مسیح یسوع اپنے لوگوں کی نجات کیلئے ظاہر ہونے کو ہے تو ملر نے کہا ”کہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس پرمسرت نظارہ کو دیکھنے کیلئے میرا دل کس قدر خوشی سے بھر گیا- اور میری روح نجات یافتگان کی خوشی وانبساط میں شریک ہونے کیلئے نہایت ہی سرگرم ہو گئی- بائبل مقدس میرے لئے ایک نئی کتاب کی صورت میں سامنے آئی- یہ بیشک مجلس مذاکرہ (علمی تذکرہ) کے طور پر تھی- اسکی تعلیم میں جو کچھ میرے لئے تاریک، پوشیدہ اور غیر واضح تھا وہ میرے ذہن سے اس وقت غائب ہو گئے جب مقدس اوراق کی تجلی ان پر پڑی- اور صداقت نہایت ہی روشن وتاباں ہو کر آشکارا ہوئی- اور جو پہلے کلام مقدس کے بارے میرے متضاد خیالات تھے وہ کافور ہو گئے- کتاب مقدس کے بہت سے ایسے حصے جن کے بارے میں مطمئن نہ تھا اب مجھے انکی کلی سمجھ آ گئی- اور ان سے اس قدر نور صادر ہوا کہ اس نے میرے تاریک ذہن کو منور کر دیا- اور مجھے کلام مقدس کو مزید پڑھنے میں خوشی محسوس ہوئی- اور اسکی تعلیمات سے وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہا جو اس میں سے پہلے حاصل نہ کر پایا تھا“- Bliss,pages.76,77AK 320.3

    ”اس انتہائی سنجیدہ قائلیت کیساتھ وہ نہایت ہی اہم واقعات جنکی پیشینگوئی الہی نوشتوں میں کی گئی ہے انکی اس تھوڑے سے عرصۂ میں تکمیل ہو رہی ہے- اور بڑی شدت کیساتھ میرے دل میں یہ سوال ابھرا کہ اس نظریے اور ثبوت کے بارے جس نے میرے ذہن کو متاثر کیا ہے- میرا اس دنیا کے لئے کے فرض ہے“- Ibid, page 81AK 321.1

    اسکے پاس اس کے بغیر کوئی اور چارہ ہی نہ تھا کہ وہ اس روشنی کو جو اسے حاصل ہوئی تھی دوسروں تک پہنچائے- اسے بلاشبہ بے ایمانوں کی مخالفت کا علم تھا- مگر وہ اس بارے پرامید تھا کہ تمام مسیحی جو اس کے نام سے کہلاتے ہیں اور اس سے محبت رکھتے ہیں اپنے نجات دہندہ سے ملنے کیلئے باغ باغ ہو جائیں گے- مگر اسے صرف یہ خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی مخلصی کے اس جلالی منظر کی خوشی میں اس تعلیم کو خود پاک نوشتوں کی تحقیق کئے بغیر تسلیم کر لیں جہاں سے صداقت حاصل ہوتی ہے اسلئے وہ اس تعلیم کی پیشکش سے ہچکچایا- مبادہ وہ غلطی پر ہو اور دوسروں کو گمراہ کرنے کا وسیلہ بنے- چنانچہ جس نتیجہ پر وہ پہنچا تھا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اسکے ثبوت کیلئے اعادہ کرے- اور ہر آنے والی مشکل کا جائزہ لے جو اعتراضات خدا کے کلام کی روشنی میں جاتے رہے- بالکل ایسے ہی جیسے سورج کی شعاعؤں سے دھند غائب ہو جاتی ہے- مزید پانچ برس اور صرف ہو گئے اب اسے اپنے نظریے کے درست ہونے کا پورا پورا وثوق ہو گیا-AK 321.2

    اب دوسروں کو بتانے کی ذمہ داری وہ مانتا تھا کہ کتاب مقدس سے بڑی واضح ہے- اسکا کہنا ہے کہ ایک نئی مجبور کرنے والی قوت کے ساتھ، خواہ میں کہ اپنے کسی بھی کام میں مصروف کیوں نہ ہوتا، میرے کانوں میں مسلسل یہ آواز گونجتی رہتی تھی- “دنیا کو انکے خطرے سے آگاہ کرو” اور اسکے لئے میرے ذہن میں یہ حوالہ نمودار ہوتا رہتا تھا “جب میں شریر سے کہوں اے شریر تو یقینا مرے گا اس وقت اگر تو شریر سے نہ کہے اور اسے اس کی روش سے آگاہ نہ کرے تو وہ شریر تو اپنی بدکرداری میں مرے گا پر میں تجھ سے اسکے خون کی باز پرس کروں گا- لیکن اگر تو اس شریر کو جتائے وہ اپنی روش سے باز آئے تو وہ تو اپنی بدکرداری میں مرے گا لیکن تو ن اے اپنی جان بچا لی” حزقی ایل -9-8:33AK 321.3

    میں نے محسوس کیا اگر بدکار کو موثر انداز میں آگاہ کر دیا جائے تو ان میں سے بیشتر توبہ کر لیں گے- اور اگر آگاہ نہ کیا جائے تو انکے خون کی باز پرس مجھ سے ہو گی”- Bliss page, 92AK 321.4

    اس نے یہ اپنے نظریات کو پرائیویٹ حلقوں میں جہاں بھی اسے موقع ملا پیش کرنے شروع کر دیئے اور اسکی دعا تھی کہ کوئی خادم ان نظریات کی قوت کو محسوس کر کے انہیں مشتہر کرنے کی ذمہ داری اٹھا لے- مگر وہ اس قائیلیت کو ترک نہ کر سکا کہ یہ اسکا ذاتی فرض بھی ہے کہ دوسروں تک آگاہی پہنچائے، اسکے دماغ میں ہر وقت خیال رہتا تھ اکہ “انکے خون کی باز پرس میں تم سے کروں گا” اس نے 9 برس تک انتظار کیا اور یہ اسکی روح پر بہت بڑا بوجھ بن گیا- اور پھر 1831 میں اس نے اعلانیہ اپنے ایمان کی وجوہات سے آگاہ کیا- اور جیسے کہ الیشع کو اس وقت بلاہٹ ملی جب وہ بیلوں سے کھیت جوت رہا تھا- جب اس پر اسے ایلیاہ نے اپنی چادر ڈال دی نبیانہ خدمت کیلئے مخصوص کیا 1 سلاطین 19:19اسی طرح ولیم ملر کو اپنے ہل کو (Plow) چھوڑنے اور خدا کی بادشاہی کے بھیدوں کی لوگوں کے سامنے منادی کرنے کیلئے بلایا گیا- اس نے ڈرتے ڈرتے خدمت میں قدم رکھا مگر اپنے سننے والوں کو قدم بہ قدم اس نبوت میں ایسی رہنمائی کی کہ وہ با آسانی مسیح کی آمد کو دیکھ سکے- جب اس نے دیکھا کہ اس کے کلام سے بہت بڑی دلچسپی پیدا ہو گئی ہے تو اسکی ہر کوشش اسکے لئے ہمت افزا ثابت ہوئی-AK 322.1

    یہ صرف اسکے بھائیوں کی آرزو اور درخوست تھی جن کی باتوں میں اس نے اپنے لئے خدا کی طرف سے بلاہٹ کو سنا- جبکہ ملر کو پبلک میں اپنے نظریات کی تشہیر کرنے کی اجازت مل گئی- اب وہ پچاس برس کا ہو چکا تھا- حالانکہ اسے پبلک م این خطاب کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا تھا اور وہ خود کو اس خدمت کے اہل بھی نہیں سمجھتا تھا جو اسے درپیش تھی- مگر اسکی پہلی خدمت جو اس نے روحوں کی نجات کیلئے کی خداوند نے اسے بہت زیادہ برکت دی- اسکے پہلے واعظ سے تیرہ خاندانوں میں مکمل مذہبی بیداری آئی- اور دو اشخاص کے علاوہ باقی تمام تبدیل ہو گئے- پھر اسے فورا دوسری جگہوں پر کلام کرنے کی دعوت دی گئی- اور تقریبا ہر جگہ جہاں وہ گیا اسکی خدمت سے خدا کے کام میں بیداری آئی- گنہگار تائب ہوۓ، مسیحیوں نے بڑی تعداد میں خود کو مخصوص کیا- بے ایمانوں کو خدا کے کلام کی صداقتوں اور مسیحی مذھب کی طرف مائل کیا گیا- جن کے درمیان اس نے خدمت کی انکی یہ گواہی تھی کہ کسی دوسرے کے اثرورسوخ سے نہیں بلکہ خود اس نے ہر طبقہ، ذات تک رسائی کی ہے- اسکی منادی کے بارے درست کہا گیا کہ وہ عوام کے اذہان کو مذھب کے عظیم امور کیلئے ابھارتی ہے اور اس زمانے کی بڑھتی ہوئی مادہ پرستی ایئر شہوت پرستی کو روکتی ہے-AK 322.2

    ہر ایک شہر میں تقریبا ”بیسیوں“ اور بعض میں سینکڑوں لوگ اسکی منادی کے نتیجہ میں تبدیل ہونے لگے- بہت سی جگہوں پر تمام کلیسیاؤں کے پروٹسٹنٹ چرچز نے اس کے لئے دروازے کھول دیئے- اور بہت سی جماعتوں کے خادموں کی طرف سے خدمت کرنے کی دعوتیں اسے موصول ہوئیں- اسکا یہ ایک اصول تھا کہ وہ اس جگہ جا کر منادی نہیں کرے گا جہاں اسے دعوت نہ ملی ہو- مگر اس نے جلد ہی جان لیا کہ منادی کرنے کے جتنے دعوت نامے موصول ہوۓ ہیں- انکے نصف دعوت ناموں سے بھی وہ عہدہ برآہ نہیں ہو سکا- بہتیرے ایسے بھی تھے جنہوں نے مسیح یسوع کی آمد ثانی کے بارے بتائے ہوۓ وقت کیساتھ اتفاق نہ کیا گو آمد ثانی کے یقینی ہونے پر ضرور اتفاق کیا کہ وہ بہت قریب ہے اور اس کی تیاری کی ضرورت کو بھی مانا- بعض بڑے شہروں میں اسکے کام نے نمایاں اثر چھوڑا- شراب فروشوں نے شراب بیچنا بند کر دیا اور انکی دکانیں میٹنگ روم میں تبدیل ہو گئیں- جوۓ کے اڈوں کو ملیامیٹ کر دیا گیا- ملحد مظاھر پرست اور وہ لوگ جنکا عقیدہ ہے کہ آخر میں سب بچ جائینگے، حتی کہ نہایت ہی شہدے، لچے بدکار لوگوں کی بھی اصلاح ہو گئی- اور وہ جو سالوں سے عبادت گاہوں میں داخل نہیں ہوۓ تھے وہ خداوند کے گھر آنا شروع ہو گئے- مختلف کلیسیاؤں کی طرف سے دعائیہ میٹنگز کا انعقاد کیا گیا، جو تقریبا ہر گھنٹے بعد منعقد کیا جاتا تھا- کاروباری حضرات دعا اور حمد وثناکیلئے دوپہر کے وقت جمع ہونے لگے- وہاں کوئی بے جا جوش وخروش تو نہ تھا تاہم سب لوگوں کے ذہنوں پر سنجیدگی کا عالم طاری تھا- اسکا ابتدائی اصلاح مذہب والوں کی مانند لوگوں کو قائل کرنا تھا نہ انکے جذبات کو ابھارنا تھا-AK 323.1

    1833میں ملر کو منادی کرنے کا لائسنس بیپٹسٹ کلیسیا نے دے دیا جسکا وہ ممبر تھا- اس کی کلیسیا کے بہت سے خادم نے اسکے کام کی تصدیق کی- اور یہ انکی طرف سے باقاعدہ اجازت نامہ تھا کہ وہ اپنی خدمت کو جاری رکھے- اس نے بلا ناغہ سفر اور منادی کی- گو اسکی ذاتی خدمت نیو انگلینڈ اور مڈل سٹیٹس تک محدود تھیں- کئی سالوں تک یہ تمام اخراجات اس نے خود برداشت کئے- اسکے بعد اسے کبھی بھی اتنے سفری اخراجات نہ مل سکے کہ وہ ان تمام جگہوں پر جا کر منادی کر سکے جہاں سے اسے دعوت نامے موصول ہوۓ تھے- یوں اسکی عوامی خدمات مالی فائدے پہنچانے کی بجائے اسکی پراپرٹی پر بھاری بوجھ بن گیا، جو بتدریج اس زندگی کے دوران بہت کم رہ گئی- وہ ایک بڑی فیملی کا باپ تھا- مگر اسکے تمام بچے محنتی اور کفایت شعار تھے اسلئے اسکا فارم خاندان کی کفایت کرنے کیلئے کافی تھا-AK 323.2

    1833میں، دو سال کے بعد جب ملر پبلک میں جلد آمد ثانی کے ثبوت پیش کرنے لگا تو فطرت میں بھی آخری نشانات ظاہر ہوۓ جن کے بارے خود مسیح یسوع نے یوں فرمایا تھا- “ستارے آسمان سے گریں گے” متی -29:24 یوحنا عارف نے مکاشفہ کی کتاب میں جب خداوند کے دن کی رویا دیکھی تو اس منظر کے بارے یوں بیان کیا- “اور آسمان کے ستارے اس طرح زمین پر گر پڑے جس طرح زور کی آندھی سے حل کر انجیر کے درخت میں سے کچے پھل گر پڑتے ہیں” مکاشفہ -13:6AK 324.1

    اس پیشینگوئی کی تکمیل نہایت ہی موثر انداز میں 13 نومبر 1833 ستاروں کے گرنے کی صورت میں ہوئی-ستاروں کے گرنے کی یہ نہایت ہی حیران کن بارش تھی جو پہلے کبھی ریکارڈ میں نہ آئی تھی- یونائیٹڈ سٹیٹس کی ساری فضا پر کئی گھنٹوں تک جیسے آگ برس رہی ہو ستاروں کی بارش جاری رہی- اس ملک میں جب سے قائم ہوا تھا اس سے پہلے کبھی ایسا آسمانی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا- اسے کمیونٹی کی ایک کلاس نے بڑی خوشی کیساتھ دیکھا، جبکہ دوسروں نے اس پر بڑے خوف وہراس کیساتھ نگاہ کی- ”بہت سے ذہنوں میں ابھی تک اسکی خوبصورتی کی رفعت اور خوف قائم ہے- اتنی بھاری بارش کبھی نہیں ہوئی جتنی بھاری تعداد میں ستارے زمین کی جانب: مشرق، مغرب،شمال اور جنوب چاروں جانب تانتا ٹوٹے بغیر ستارے گرے- ایسے دکھائی دیتا تھا جیسے کہ سارا آسمان حرکت میں آ گیا ہو- جیسا کہ پروفیسر سلیمین کے جرنل میں بیان آیا ”کہ یہ نظارہ سارے نارتھ امریکہ میں دیکھا گیا- دو بجے دوپہر تک آسمان بالکل غیر مضطرب تھا اور اس پر بادلوں کے نام ونشان بھی نہ تھے- پھر متواتر نورانی درخشندہ ستاروں کا سارے آسمان میں کھیل شروع ہو گیا“-AK 324.2

    B.M. Devens, American progress or the great events of the threatest century, ch, 28 parts 1-5AK 324.3

    ”بیشک کوئی بھی زبان اس عظیم الشان طمطراق منظر سکو بیان نہیں کر سکتی جس کا مظاہرہ ہوا اور جس نے اس منظر کو نہیں دیکھا وہ بھی کافی حد تک اپنے تصور سے اسکی منظر کشی کر سکتا ہے- ایسے دکھائی دیتا تھا کہ ستاروں کے سارے آسمان سمت الراس (Zenith) کے قریب جمع ہو گئے ہیں اور سب بیک وقت آگے کی جانب تیر چلا رہے ہیں- اور بجلی کی چمک کی رفتار کے ساتھ، فضا کی ہر طرف جا رہے ہیں- اسکے باوجود ان میں کمی واقع نہیں ہوئی ہزاروں ستاروں کا پیچھا مزید ہزاروں ہزار ستارے بڑی سرعت کے ساتھ کر رہے تھے- جیسے کہ یہ اس موقع کے لئے ہی بنائے گئے تھے“-AK 324.4

    F.Fteed in the Christian advocate and Journal.Dec,13,1833.AK 324.5

    ”اس سے بھی درست تصویر انجیر کے درخت کی ہے جب اس پر زور کی آندھی چلتی ہے اور اس کا پھل جھڑ جاتا ہے- جسے قائم رکھنا ممکن نہیں“-AK 325.1

    ”The old century man in Portland evening advertiser, 26,1833 “AK 325.2

    نیویارک میں 14نومبر 1833 کے جرنل آف کامرس میں کافی بڑا مضمون اس حیران کن معمہ کے بارے شائع ہو- جس میں یہ عبارت پائی گئی- ”کل صبح کی طرح کا واقعہ میرے خیال میں نہ تو کسی فلاسفر نے اور نہ ہی کسی سکالر نے بتایا یا ریکارڈ کروایا ہے- مگر نبی نے جو کچھ ہوا اس بارے میں بالکل اسی طرح 18 سو سال پہلے اسکی پیشینگوئی کی تھی- ستاروں کے گرنے کے بارے اگر ہمیں سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہو- تو اصل میں اسکا مطلب شہاب ثاقب ہے اور جو منظر دیکھا گیا وہ لغوی مضمون میں بھی درست ہے“-AK 325.3

    یوں اسکے آنے کے آخری نشانات کا مظاہرہ ہوا جنکا ذکر مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں سے کیا تھا- ”جب تم ان سب باتوں کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے“ متی 33:24 ان نشانات کے بعد یوحنا نے آنے والے اگلے بڑے واقعہ کو دیکھا کہ آسمان اس طرح سرک گیا جس طرح مکتوب لپیٹنے سے سرک جاتا ہے- جبکہ زمین پر بھونچال آیا اور ہر ایک پہاڑ اور ٹاپو اپنی جگہ سے ٹل گیا- بدکار پہاڑوں کی غاروں اور چٹانوں میں جا چھپے اور آرزو کی کہ انہیں ابن آدم کے غضب سے چھپا لیں مکاشفہ -17-12:6AK 325.4

    بہتیرے جنہوں نے ستاروں کو گرتے ہوۓ دیکھا انہوں نے اسے روز عدالت کے طور پر لیا- اس کے ہیبتناک دن سے پہلے اسکی راہ تیار کرنے والا یہ واقعہ ”بہت ہی ہولناک قسم کا تھا“-AK 325.5

    ”The old country man in Portland evening advertiser,nov.26,1833“AK 325.6

    یوں لوگوں کی توجہ پیشینگوئی کی تکمیل کی طرف مبذول کی گئی- اور بہتیرے تھے جنہوں نے آمد ثانی کے بارے غور وخوض کیا- AK 325.7

    1840 میں ایک اور پیشینگوئی کی تکمیل نے دوردراز تک لوگوں کی دلچسپی میں ہیجان پیدا کر دیا- دو سال سے جوزایا لچ (Josiah Litch) جو ایک معروف مناد تھا آمد ثانی پر درس دے رہا تھا- اور مکاشفہ نانوویں باب کی تشریح کر رہا تھا جو آٹومن (Ottoman) حکومت کی معزولی کے بارے تھی- اسکے اندازے کے مطابق 1840عیسوی میں گرائی جانے کو تھی- اور اس نے یہ بھی بتایا کہ یہ اگست کے ماہ میں واقعہ پیش آئے گا- اور واقعہ کے وقوع ہونے سے چند روز پیشتر اس نے لکھا “150 کا زمانہ ترکوں کی اجازت سے ڈیکوزس (Deacozes) کے تخت نشین ہونے کے وقت پورا ہو گیا- اور 391 سال اور 15 دن پہلے دورانیے کے خاتمہ پر شروع ہوا اور یہ 11 اگست 1840 اختتام پذیر ہو گا جب آٹومن (Ottoman) حکومت کانسٹینٹی نوپل (Constanti nople) میں گرانی متوقع تھی”-AK 325.8

    Josiah litch,in signs of the times, and expositor of prophecy, Auguest, 1,1840AK 326.1

    بالکل اسی وقت ترکی نے اپنے سفیروں کے ذریعہ یورپ کی متحدہ طاقتوں کی پناہ قبول کر لی اور یوں خود مسیحی قوموں کے تابع ہو گئی- یہ واقعہ بالکل پیشینگوئی کے مطابق پورا ہوا- جب اسکا علم ہوا تو ہجوم نبیانہ تشریح کے درست اصولوں کے قائل ہو گئے جو ملر اور اسکے ساتھیوں نے اختیار کئے تھے- اور ایڈونٹ تحریک بڑی سرعت سے آگے بڑھی- تعلیم یافتہ طبقہ اور اعلی عہدوں پر سرفراز لوگ ملر کیساتھ آ ملے جنہوں نے منادی اور اسکے نظریات کی اشاعت میں حصہ لیا- یوں 1840 تا 1844 کام بڑی تیزی سے آگے بڑھا-AK 326.2

    ولیم ملر نہایت ہی قوی ذہنی دماغی قوا کا مالک تھا- ان قوا پر اسکا ضبط مطالعہ اور فہم وفراست کے باعث تھا- انمیں اس نے آسمانی حکمت کا اضافہ خود کو حکمت کے منبع سے منسلک کر کے کر لیا اور ہر لحاظ سے مخلص اور ققبل قدر شخص تھا- اور وہ اخلاقی رفعت اور ایمانداری کے عوض کسی اور مرتبہ کو خاطر میں نہ لاتا تھا- مسیحی انکساری کیساتھ دل کی سچائی اور خود ضبطی کو یکجا کرنے سے وہ ہر ایک کیساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتا- وہ مخالفوں اور دوسرے لوگوں کو بھی سننے کیلئے تیار رہتا اور انکی رائے اور استدلال سنتا اور انکی اہمیت کا اندازہ کرتا- جذبات میں آئے بغیر وہ تمام نظریات اور تعلیمات کو خدا کے کلام سے پرکھتا- اور اسکے معقول دلائل اور کلام مقدس کے بھرپور علم نے اسے اس قابل کر دیا تھا کہ وہ دروغ کو عیاں اور جھوٹی تعلیمات کو رد کر دے-AK 326.3

    تاہم وہ اپنی خدمت کو سخت مخالفت کا سامنا کئے بغیر جاری نہ رکھ سکا- جیسے ابتدائی ریفارمرز کے ساتھ ہوا، کہ وہ سچائی جو وہ پیش کر رہا تھا اسے ہر دلعزیز مذہبی اساتذہ نے قبول نہ کیا- چونکہ وہ کلام مقدس کی رو سے سامنا نہ کر پائے اس لئے انہوں نے آدمیوں کی دی گئی تعلیمات اور فادروں کی روایات کا سہارا لیا- مگر ایڈونٹ صداقت کے مناد صرف خدا کے کلام کی گواہی مانتے تھے- منافقوں کے استدلال میں چونکہ الہامی نوشتوں کے حوالوں کی کمی تھی اسلئے انکو توڑے اور دوسرے تمام ذرائع انکے خلاف استعمال ہو رہے تھے جو خوشی کے ساتھ آمد ثانی کی طرف دیکھ رہے تھے اور جو پاک زندگی بسر کرنے کی جدوجہد کرتے تھے اور دوسروں کو اسکی آمد ثانی کیلئے تیار کر رہے تھے-AK 326.4

    لوگوں کے اذہان کو مسیح یسوع کی آمد ثانی سے دور لے جانے کیلئے بھرپور کوششیں کی گئیں- اسے یوں پیش کیا گیا جیسے یہ گناہ ہو اور ان پیشینگوئیوں کا مطالعہ کرنا جو مسیح یسوع کی آمد ثانی اور دنیا کے خاتمہ کے بارے ہیں ایسی شے ہے جس سے انسانوں کو شرم آنی چاہئے- یوں ہردلعزیز منسٹری نے خدا کے کلام م میں ایمان کو خفیہ طور پر نقصان پہنچایا- انکی تعلیم نے انسانوں کو بے ایمان بنا دیا اور بیشتر نے اسکو اجازت نامہ سمجھا اور اپنی بدکار خواہش میں غلطاں ہو گئے- پھر بد کے موجد نے اسکا سارا الزام ایڈونٹسٹس کے سر تھوپ دیا-AK 327.1

    جب کبھی نامور ذہین فطین اور خداداد صلاحیتوں کے مالک سامعین کا اجتماع ہوتا تو مذہبی پریس شازونادر ہی ولیم ملر کا نام لیتی- اگر نام لے بھی لیتی تو وہ مذاق اور بدزبانی کے ساتھ ہوتا- مذہبی اساتذہ کے اس رویے سے غیر محتاط اور بے ایمان لوگوں کو گالی گلوچ کیلئے ابھارا جاتا- کیونکہ اس کافرانہ رویے سے انکا مقصد اس پر اور اسکے کام پر حقارت کے انبار لگانا ہوتا تھا- وہ عمر رسیدہ شخص جس نے اپنے گھر کے آرام کو خیر بعد کہہ دیا تھا اور اپنے اخراجات پر شہر شہر، قصبے قصبے کا سفر کر رہا تھا اور بڑی مشقت کر رہا تھا تاکہ دنیا کو جلد ہونے والے عدالت کے بارے آگاہی دے- اسے بڑی حقارت سے انتقام لینے کی غرض سے کبھی دیوانہ کہا گیا اور کبھی وہمی، کبھی دغا باز اور کبھی جھوٹی کہانیاں گھڑنے والا قرار دیا گیا-AK 327.2

    یہاں تک کہ سیکولر پریس نے بھی اسکی تضحیک کی- اسے بے ایمان اور جھوٹا کہا- اور یہ بھی کہ یہ شخص نفرت انگیز احتجاج کرنے والا ہے-AK 327.3

    “اتنے زبردست اور پرعظمت مضمون کے ساتھ اس طرح کا سلوک جس کے نہایت ہی ہیبتناک نتائج ہیں” بڑی لاابالی پن اور بے ادبی سے دنیوی اور مادہ پرست لوگوں کے منہ سے کہلوانا” یہ صرف اسکے حامیوں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والوں اور ان” کے جذبات نہیں- بلکہ یہ “روز عدالت کا مذاق اڑانا اور خود خداوند پر طنز کرنا ہے” Bliss, page 183AK 327.4

    تمام بدیوں کے ابھارنے والے تمام ایڈونٹ پیغام پر حملہ کر کے نہ صرف اثرانداز ہونا چاہا، بلکہ اسکے پیامبر کو بھی ہلاک کرنا چاہا- ملر نے پاک کلام کی صداقتوں کا علمی اطلاق سامعین کے دلوں پر کیا- انکے گناہوں پر قدغن لگی- اور انکی خود اطمینانی کو بیزار کیا- جبکہ اسکے بے لاگ اور صاف صاف کلام نے انکی عداوت کو جنم دیا- یہ مخالفت اسکے پیغام کی وجہ سے کلیسیائی ممبرز کی طرف سے سامنے آئی- جس نے بذات خود لوگوں کے طبقے کو ابھارا کہ وہ ملر کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے آزمائیں- اور دشمنوں نے منصوبہ بنایا کہ جب ملر میٹنگ کی جگہ سے باہر نکلے تو اسکا کام تمام کر دیا جائے گا- مگر انسانوں کے روپ میں پاک فرشتگان بھیڑ کے اندر موجود تھے اور ان میں سے ایک نے انثنائی روپ میں خدا کے خادم کا بازو پکڑا اور اسے غیض وغضب اور ہیجان خیز بھیڑ سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا اور اسکے کرائے کے قاتل اپنے مقصد کی ناکامی پر بڑے مایوس ہوۓ-AK 328.1

    مخالفت کے باوجود ایڈونٹسٹ تحریک میں مسلسل دلچسپی بڑھتی گئی، بیسیوں، سینکڑوں کی تعداد بلکہ ہزاروں تک پہنچ گئی- مختلف کلیسیاؤں میں بہت زیادہ تعداد میں اضافہ ہوا- مگر کچھ در کے بعد مخالفت کی روح ان تبدیل شدہ لوگوں کے خلاف ظاہر ہوئی اور چرچز ان اشخاص کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے لگے جنہوں نے ملر کے نظریات کو اپنا لیا تھا- اس کاروائی کے جواب میں ملر نے تمام کلیسیاؤں کے مسیحیوں کو لکھا کہ اگر اسکی تعلیم کلام مقدس کے منافی ہے تو خداوند کے پاک کلام کے حوالے سے اسے اسکی غلطی سے آگاہ کیا جائے-AK 328.2

    اس نے کہا کہ “ہم کیا مانتے ہیں” کیا ہم خدا کے مطابق اسکے کلام کو نہیں مانتے، جسے آپ خود بھی ضابطہ (Rule) حیات مانتے ہیں جبکہ صرف وہی ہمارے ایمان کا ضابطہ ہے جس پر ہم عمل کرتے ہیں؟ ہم نے کیا کیا ہے کہ آپ پلپٹ، پریس سے ایسی بدزبانی اور زہر آلود بیانات دے رہے ہیں- ہمیں اسکی وجہ بتائیں کہ کیوں ایڈونٹسٹس کو آپ اپنی کلیسیا اور اپنی رفاقت سے خارج کرنے پر تلے ہوۓ ہیں-AK 328.3

    “اگر ہم غلط ہیں- تو ہم درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں بتائیں کہ ہم میں کہاں غلطی پائی جاتی ہے- خدا کے پاک کلام سے بتائیں کہ ہماری تعلیمات کہاں پر غلط ہیں- ہمارا بہت ٹھٹھا مذاق اڑایا جا چکا ہے- آپکا ایسا عمل ہمیں بھی قائل نہیں کر سکتا کہ ہم غلطی پر ہیں- صرف خداوند کا پاک کلام ہی ہمارے نظریات تبدیل کر سکتا ہے- جو نتائج ہم نے اخذ کئے ہیں وہ ہماری آزاد مرضی اور دعاؤں کا نتیجہ ہے- اور یہ نتائج ان ثبوتوں کی بنا پر ہیں- جو ہم پاک صحائف میں پاتے ہیں”- Ibid.pp.250-252AK 328.4

    ہر زمانہ میں وہ آگاہیاں جو خداوند خدا نے اپنے بندوں کے ذریعہ دنیا کو دیں بے ایمانی اور کم اعتقادی سے قبول کی گئیں- جب نوح کے زمانہ کے لوگوں کی بدکاری بڑھ گئی اور خدا نے زمین پر پانی کا طوفان نازل کرنے کا سوچا- پہلے اس نے ان پر اپنا مقصد ظاہر کیا- تاکہ ان کے پاس وقت ہو اور شائد وہ اپنی بری راہوں کو ترک کر دیں-توبہ کرنے کی پکار 120برس تک اسکے کانوں میں گونجتی رہی- تاکہ خداوند انھیں بعض کرنے سے باز رہے- مگر یہ آگاہی انکے لئے ایک فضول من گھڑت کہانی معلوم ہوئی، اور انہوں نے اپنی بدکاری میں خدا کے پیامبر کا مذاق اڑایا- اسکی منت سماجت کو حقیر جانا- بلکہ اسے ایسے وہم وگمان پر سرزنش کی- کیسے ایک شخص دنیا کے بڑے بڑے لوگوں کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات کر سکتا ہے؟ نوح کا پیغام درست تھا تو پھر کیوں ساری دنیا نے نہ ہی اسے دیکھا اور نہ ہی مانا؟ ہزاروں لوگوں کی حکمت کے خلاف صرف ایک شخص کا بیان بالیقین! انہوں نے آگاہی کی کچھ پرواہ نہ کی اور نہ ہی کشتی میں پناہ لینا چاہی-AK 329.1

    ٹھٹھا مارنے والے فطرت کی چیزوں کی طرف اشارہ کرتے رہے- اور کہا کہ موسموں میں کبھی تبدیلی واقع نہیں ہوئی- نیلے آسمان نے کبھی بارش نہیں برسائی- ہرے بھرے کھیتوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ انہیں رات کی شبنم تروتازہ رکھتی ہے- اور وہ چلا کر کہنے لگے کہ کیا یہ تمثیلوں میں باتیں نہیں کرتا؟ اور راستبازی کے مناد کی توہین کرتے ہوۓ کہا کہ یہ تو کوئی جنگلی جنونی ہے- اور وہ مزید عیش وعشرت میں غرق ہو گئے- اور پہلے سے زیادہ بدی کی راہیں اختیار کر لیں- مگر انکی بے ایمانی پیشینگوئی کے واقعہ کو نہ روک سکی- خداوند خدا نے انکی بدکاری کی بہت دیر تک برداشت کی- توبہ کیلئے انھیں بہت وقت دیا گیا- مگر وقت مقررہ کے بعد اسکے رحم کو ترک کرنے والوں پر خداوند کا غضب نازل ہو گیا-AK 329.2

    مسیح یسوع نے کہا کہ میری آمد ثانی سے پہلے نوح کے زمانہ کے لوگوں کی سی بے ایمانی پائی جائے گی- “جب تک طوفان آ کر ان سب کو بہا نہ لے گیا انکو خبر نہ ہوئی- اسی طرح ابن آدم کا آنا ہو گا” متی 39:24 جب خدا کے ماننے والے لوگ دنی اکے ساتھ متحد ہو جاتے ہیں- اور اسی طرح زندگی بسر کرتے ہیں جیسے وہ کرتے ہیں تو وہ انکسے ساتھ ان عیش ونشاط میں شامل ہو جاتے ہیں جن سے باز رہنے کا حکم خدا نے دے رکھا ہے- جب دنیا کی نفس پرستی کلیسیا کی نفس پرستی بن جاتی ہے- تو جب شادی کی گھنٹیوں کی سریلی جھنکار سنی جا رہی ہو گی اور لوگ آنے والے کئی سالوں تک دنیاوی اقبال مندی کی توقع کرتے ہوں گے تب اچانک جیسے بجلی آسمان سے کوند کر آتی ہے انکے روشن خیالات اور مانوس کن امیدوں کے چراغ گل ہو جائینگے- AK 329.3

    جیسے کہ خداوند رب کریم نے اپنے بندوں کو بھیجا تاکہ وہ دنی اکو آنے والے طوفان کے بارے مطلع کریں- اسی طرح خداوند نے اپنے چنیدہ پیامبروں کو روز عدالت کی نزدیکی کی آگاہی دینے کیلئے بھیجا ہے- اور جیسے کہ نوح کے ہمعسر راستبازی کے مناد کی پیشینگوئی کا مذاق اڑاتے تھے، اسی طرح ملر کے دنوں میں بہتیرے، حتی کہ خدا کے اپنے لوگوں نے آگاہی کے کلام کا مذاق اڑایا-AK 330.1

    کیوں مسیح یسوع کی دوسری آمد ثانی کی تعلیم کو کلیسیائیں ویلکم نہیں کرتیں؟ اس لئے کہ بدکاروں کے لئے آمد ثانی بربادی اور دکھ لاتی ہے جبکہ راستبازوں کے لئے بھرپور خوشی اور امید لاتی ہے- یہ خدا کے وفادار بندوں کیلئے ہر زمانہ میں باعث تسکیں رہی ہے- آمد ثانی کیوں اپنے آقا کی طرح ” ٹھیس لگنے کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان “ ہے-AK 330.2

    آمد ثانی اس کے اپنے ایماندار لوگوں کیلئے کیا ہے؟ یہ ہمارا خود خداوند تھا جس نے اپنے شاگردوں سے یہ وعدۂ کیا- ”اور اگر میں جا کر تمھارے لئے جگہ تیار کروں تو پھر آ کر تمہیں اپنے ساتھ لے لوں گا- تاکہ جہاں میں ہوں تم بھی ہو“ یوحنا 3:14-AK 330.3

    اپنے شاگرودں کی تنہائی اور اداسی پر نجات دہندہ کو ترس آیا اور اس نے اپنے فرشتوں کو انہیں تسلی دینے کیلئے بھیجا کہ انہیں یقین دلائیں کہ جیسے وہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے اسی طرح پھر واپس آئے گا- جیسے کہ شاگرد اپنے عزیز آقا کی آخری جھلک دیکھنے کیلئے اوراوپر دیکھ رہے تھے تو اس کلام نے انکی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیا- ”اے گلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع جو تمھارے پاس سے آسمان پر اٹھایا گیا ہے اسی طرح پھر آئیگا جس طرح تم نے اسے آسمان پر جاتے دیکھا“ اعمال -11:1 فرشتوں کے پیغام سے انکی امید تازہ ہو گئی-AK 330.4

    ”اور وہ اس کو سجدہ کر کے بڑی خوشی سے یروشلیم کو لوٹ گئے- اور ہر وقت ہیکل میں حاضر ہو کر خدا کی حمد کیا کرتے تھے“ لوقا 53-52:24شاگرد اس کئے خوشی نہیں منا رہے تھے کہ مسیح یسوع ان سے جدا ہو گیا تھا اور انہیں اب اس دنیا کی آزمائشوں کے ساتھ تنہا جدوجہد کرنا تھا- بلکہ فرشتوں کی یقین دہانی پر کہ وہ پھر آ رہا ہے-AK 330.5

    مسیح یسوع کی آمد ثانی کی منادی ویسی ہی ہونی چاہیے جیسے فرشتوں نے بیت الحم کے چرواہوں کو بڑی خوشی کی خبر سنائی تھی- وہ جو حقیقت میں اپنے نجات دہندہ کو پیار کرتے ہیں وہ تو اس اعلان کو خوش آمدید کہیں گے جو خداوند کے پاک کلام میں پایا جاتا ہے- اور جس میں انکی امیدیں اور ابدی زندگی پائی جاتی ہے وہ دوبارہ آ رہا ہے- اب وہ بے عزت، حقیر اور رد کئے جانے کیلئے نہیں آ رہا جیسے پہلی آمد کے وقت ہوا تھا- بلکہ اب وہ اپنے لوگوں کو مخلصی دینے کے لئے قدرت اور جلال کیساتھ آ رہا ہے- اس سے بڑا کے ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس آسمان سے بھیجے ہوۓ پیغام نے جھلاہٹ اور طیش کو ابھارا ہے جسکی وجہ سے کلیسیائیں خداوند سے دور چلی گئی ہیں-AK 331.1

    اور جنہوں نے آمد ثانی کے پیغام کو قبول کر لیا ہے وہ خداوند کے حضور فروتنی اور توبہ کی حاجت کو محسوس کرتے ہیں- بہتیرے ایسے تھے جو دو دلے مسیح اور دنی اکے درمیان کھڑے تھے اب انہوں نے محسوس کیا ہے کہ کسی ایک طرف کھڑے ہو جانا چاہیے- “انہوں نے سوچا تھا کہ شاید ابدی چیزیں غیر حقیقی ہیں- مگر جب آسمان انکے قریب لایا گیا اور انہوں نے خود کو خداوند کے حضور قصوروار پایا”-AK 331.2

    Bliss page 146AK 331.3

    مسیحیوں میں نئی روحانی زندگی آ گئی- انہوں نے محسوس کیا کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے اور جو کچھ انہیں اپنے بھائیوں کیلئے کرنا تھا اب جلدی سے اسے انجام دیں- مادیت پسپا ہو گئی- اور انکے سامنے ابدیت کے دروازے کھلتے نظر آنے لگے- اور وہ روح جو اس دنیا کی خوشحالی کو غیر قانونی سمجھتی تھی اب اسکے سامنے یہ عارضی چیزیں بےنور دکھائی دینے لگیں- خداوند کا روح ان پر آ ٹھہرا اور انہیں اپنے بھائیوں اور گنہگاروں کو مخلص اپیل کرنے کی ہمت عطا فرمائی کہ وہ خدا کے دن کیلئے تیاری کریں- انکی خاموش گواہی ان کلیسیائی ممبرز کیلئے مسلسل انتباہ تھا جو نمائشی اور غیر وقف شدہ مسیحی تھے- وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی انکی عیش وعشرت کی راہ میں حائل ہو- وہ تو صرف سرمایہ بنانے اور دنیوی جاہ ومراتب کے دیوانے تھے- انکی دشمنی اور مخالفت ایڈونٹسٹ ایمان کی منادی کرنے والوں کے خلاف بھڑکی-AK 331.4

    جیسے کہ نبیانہ اوقات کے استدلال ناقابل تسخیر تھے- تو مخالفین نے یہ سکھا کر اس مضمون کی تحقیق کرنے کے لئے پست ہمت کرنے کی کوشش کی کہ پیشینگوئیوں پر مہر ہو چکی ہے- یوں پروٹسٹنٹس نے رومی مذہبی حکومت کی پیروی کی- جیسے کہ پوپ کی حکومت نے بائبل کو کلیسیا سے دور رکھا اسی طرح پروٹسٹنٹ کلیسیائیں اس مقدس بائبل کے حصے کے بارے کہتے ہیں جسکی سچائیوں کا اطلاق ہمارے زمانے پر ہوتا ہے کہ اسے سمجھا نہیں جا سکتا-AK 331.5

    خادم اور دوسرے لوگ اعلانیہ کہتے ہیں کہ دانی ایل اور مکاشفہ کی پیشینگوئیاں، سمجھ سے باہر ہیں اور وہ یہ ایک راز ہیں- مگر مسیح یسوع نے دانی ایل نبی کے کلام کی طرف اپنے شاگردوں کی توجہ ان واقعات کی طرف دلائی جو انکے زمانہ میں وقوع میں آنے کو تھے- ” پڑھنے وال اسمجہ لے “ متی -15:24AK 332.1

    اور یہ دعوی کہ مکاشفہ ایک بھید ہے جو سمجھا نہیں جا سکتا تو یہ کتاب کے عنوان کے متضاد ہے “یسوع مسیح کا مکشفہ جو اسے خدا کی طرف سے اس لئے ہوا کہ اپنے بندوں کو وہ باتیں دکھائے جنکا جلد ہونا ضرور ہے” مکاشفہ -11:1AK 332.2

    ”اس نبوت کی کتاب کا پڑھنے والا اور اسکے سننے والے اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اس پر عمل کرنے والے مبارک ہیں- کیونکہ وقت نزدیک ہے“ مکاشفہ -3:1AK 332.3

    نبی نے فرمایا ”پڑھنے والا مبارک“ کچھ ہیں جو اسے نہیں پڑھیں گے اسلئے انکے لئے برکات بھی نہیں ہیں ”اور جو سننے والے ہیں“ مبارک ہیں ایسے بھی لوگ ہیں جو پیشینگوئیوں کے متعلق کچھ بھی سننا پسند نہیں کرتے- اس فرقہ کیلئے برکات بھی نہیں ہیں-AK 332.4

    ”جو کچھ اس میں لکھا ہے اس پر عمل کرنے والے مبارک ہیں“ بہت سے ایسے ہیں جو مکاشفہ کی کتاب میں دی گئی ہدایات اور آگاہیوں پر غور وخوض کرنا نہیں چاہیے ان میں سے کسی کو بھی وعدہ کی ہوئی برکات نصیب نہ ہوں گی- وہ سب لوگ جو پیشینگوئی کا تمسخر اڑاتے اور اس مضمون کے متعلق جو نشنھیاں ہیں انکو ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں اور جو اپنی زندگیوں کی اصلاح نہیں کرتے تاکہ ابن آدم کی آمد ثانی کیلئے تیار ہوں، وہ نامراد ٹھہریں گے-AK 332.5

    الہام کی گواہی کے تناظر میں، کس طرح انسان یہ سکھانے کی جرات کر سکتا ہے کہ مکاشفہ ایک بھید ہے جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہے- یہ تو وہ بھید ہے جو جسے آشکارا کیا گیا ہے- یہ تو کھلی کتاب ہے- مکاشفہ کا مطالعہ، دانی ایل کی پیشینگوئیوں کی طرف ذہن کا رخ موڑتا ہے- اور یہ دونوں ہی وہ اہم ہدایات پیش کرتی ہیں جو خدا نے انسان کو ان واقعات کیلئے دے رکھی ہیں جو دنیا کی تاریخ کے خاتمہ پر وقوع پذیر ہوں گے- یوحنا عارف کو گہرے اور ہیجان خیز دلچسپ نظارے دکھائے گئے جو کلیسیا کے تجربہ میں آئیں گے- اس نے کلیسیا کی کیفیت، خطرات تصادم اور بالاخر خدا کی لوگوں کی مخلصی کو دیکھا اس نے اختتامیہ پیغامات درج کئے جو زمین کی فصل کی کٹائی کیلئے تیار کریں گے- یہ آسمانی گودام کیلئے گٹھے ہوں گے، یا آگ میں جلنے والا بھوسہ ہو گا- نہایت ہو اہمیت کے حامل مضامین اس پر آشکارا کئے گئے، اور خاص طو رپر آخری زمانہ کی کلیسیا کیلئے وہ غلط تعلیم سے منہ موڑ کر صداقت کی راہ اختیار کریں گے- انکے لئے ان میں ہدایات ہیں کہ انہیں مصیبتوں کا سامنا ہو سکتا ہے- زمین پر کیا پیش آنے کو ہے اس بارے کسی کو بھی تاریکی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے-AK 332.6

    تو پھر ایسا ہے کہ کیونکہ اہم اور م قدس اوراق کے متعلق اسقدر لاعلمی پائی جاتی ہے؟ کیوں عوام اسکی تعلیمات کی تحقیق وتفتیش سے کتراتی ہے؟ یہ تاریکی کے شہزادے کی مسلسل کوشش کا نتیجہ ہے کہ وہ ان تمام چیزوں کو چھپا دے جو اس کے مکر وفریب کو عیاں کرتی ہیں- اسکی بنا پر مکاشفہ دینے والے مسیح یسوع نے اس لڑائی فساد کو پیشتر دیکھ لیا تھا جو مکاشفہ کا مطالعہ کرنے والوں کے خلاف برپا ہو گا- اور اسی لئے اس نے نبوت کے کلام کے پڑھنے، سننے اور اس پر عمل کرنے والوں کو اپنی برکات بخشنے کا وعدہ کیا ہے.AK 333.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents