Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۴ - پنتِکسُت

    اعمال ۱:۲-۳۹

    جونہی شاگرد کوہِ زیتوں سے یروشلیم میں آئے تو لوگوں نے اُن کے چہروں پر نظر کی۔ وہ سوچتے تھے کہ اُن کے چہروں پر اُداسی چھائی ہو گی اور وہ پریشان اور شکست خوردہ دکھائی دیں گے۔ لیکن برعکس اس کے اُن کے چہروں سے شادمانی اور فتح نمودار تھی۔ اب شاگرد نااُمیدی پر نوحہ نہیں کر رہے تھے بلکہ بہت خوش تھے۔ کیوں کہ اب تو انہوں نے مرُدوں میں سے زندہ ہونے والے اپنے نجات دہندہ کو دیکھ لیا تھا اور وہ وعدہ اُن کے کانوں میں بار بار گونج رہا تھا جو اُس نے اُن سے جُدا ہوتے وقت کیا تھا۔ IKDS 26.1

    مسیح یسوع کے حکم کی تعمیل میں وہ یروشلیم میں ٹھہرے رہے تاکہ خدا وند ےکے وعدے کے مطابق وہ روح القدس پا سکیں اُس کے انتظار میں وہ بیکار بیٹھے نہ رہے بلکہ “ہر وقت ہیکل میں حاضر ہو کر خدا کی حمد کرتے تھے”۔ لوقا ۵۳:۲۴ وہ خدا کے حضور اپنی دُعائیں مسیح کے نام گزارنے کے لئے بھی جمع ہوتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کا نجات دہندہ آسمان میں ہے اور اُن کا حمایتی خدا کے تخت کے پاس۔ وہ اپنی دعاوں میں اس وعدے کو ہمیشہ دہراتے تھے۔ IKDS 26.2

    “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر باپ سے کچھ مانگو گے تو وہ میرے نام سے تم کو دے گا، اب تک تم نے میرے نام سے کچھ نہیں مانگا، مانگو تو پاو گے تاکہ تمہاری خوشی پوری ہو جائے”۔ یوحنا ۲۳:۱۶-۲۴ ایمان کے ساتھ ہاتھوں کو پھیلاتے ہوئے وہ بڑی دلیری سے اعلانیہ کہتے تھے کہ “مسیح یسوع وہ ہے جو مر گیا بلکہ مردوں میں سے جی بھی اُٹھا اور خدا کی دہنی طرف ہے اور ہماری شفاعت بھی کرتا ہے”۔ رومیوں ۳۴:۸ IKDS 26.3

    جُونہی شاگردون روح القدس کے وعدہ کی تکمیل کے منتظر تھے تو انہوں نے سچی توبہ کر کے اپنے دلوں کو فروتن کیا اور اپنی کم اعتقادی کا اقرار کیا۔ اور جب اُنہوں نے اس کلام کو یاد کیا جو یسوع نے اپنی موت سے پہلے ارشاد فرمایا تھا تو وہ اس کے معنی اچھی طرح سمجھنے لگے۔ وہ صداقتیں جو وہ بھُول چکے تھے دوبارہ اُن کے ذہن میں آنے لگیں اور وہ آپس میں اُن کا ذکر کرنے لگے اور مسیح کی باتوں کو غلط سمجھنے پر وہ خود کو کوسنے لگے۔ IKDS 27.1

    اب مسیح کی پوری زندگی اُن کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ جب اُنہوں نے مسیح کی پاکیزہ زندگی پر غور کیا تو اُنہوں نے محسوس کیا مسیح کی بے لوث زندگی اور سیرت کی گواہی دینے کے لئے کوئی بھی قربانی دینا مشکل نہیں۔ انہوں نے سوچا کہ اگر ہمیں ایک بار پھر مسیح کے ساتھ ساڑھے تین برس زندگی بسر کرنا پڑے تو اُن کا عمل پہلے سے بہت زیادہ متفرق ہو گا” اگر وہ اپنے آقاکو ایک بار پھر دیکھ لیں تو وہ اُس کو بتائیں کہ وہ اس کو کتنا پیار کرتے ہیں۔ اور اُنہیں اس بارے کتنا دُکھ ہے کہ انہوں نے کئی بار اپنی کم اعتقادی سے اُسے رنجیدہ کیا۔ تاہم اُنہیں مُعاف کر دیا گیا ہے یہ سوچ کر انہیں بڑی تسلی ملتی تھی۔ اب انہوں نے ارادہ کیا کہ جہاں تک ممکن ہو سکا وہ اپنی غلطیوں کا اور اپنی کم اعتقادی کا دنیا کے سامنے اقرار کرکے کفارہ دیں گے۔ IKDS 27.2

    شاگرد بڑی مستعدی اور نیک نیتی سے خدا وند مسیح سے مسلسل دُعا مانگتے رہے کہ اُنہیں اس لائق کر کہ وہ بنی نوع انسان سے ایسا کلام کریں جو گنہگاروں کو یسوع کے قدموں میں لے آئے۔ اُنہوں نے اپنے تمام تضاد دور کئے ، بڑا بننے کی خواہش کو ترک کیا اور مسیحی رفاقت میں وہ ایک دوسرے کے قریب ترین ہو گئے۔ جُونہی انہوں نے یہ سب کچھ کیا تو انہیں محسوس ہوا کہ مسیح کی قُربت اُن کے لئے کتنی رحمت کا باعث بنی۔ اور اُن کے دل یہ سوچ کر غم سے بھر جاتے کہ وہ اکثر اُس کی باتیں سمجھنے میں بڑے سُست تھے جس سے وہ رنجیدہ ہو جاتا تھا۔ اُنہیں یہ خیال کر کے بھی دُکھ ہوتا کہ وہ اسباق جو وہ اُن کی بھلائی کے لئے سکھاتا رہا سمجھنے میں ناکام رہے۔ IKDS 27.3

    تیاری کے یہ دن اپنے اپنے دلوں کو جانچنے کے دن تھے۔ شاگردوں نے روحانی ضرورت کو محسوس کیا اور خداوند سے روح القدس کے مسح کے لئے درخواست کی جو اُنہیں رُوحوں کو بچانے کے قابل کرے۔ اُنہوں نے صرف اپنے ہی لئے برکات نہ مانگیں بلکہ اُن کے دلوں پر رُوحوں کی نجات کا بوجھ تھا۔ اُنہیں یہ احساس ہوا کہ انجیل کو دُنیا کی حدوں تک پہنچانا ہے۔ اس لئے اُنہوں نے مسیح کی قوت اور قدرت کو مانگا جس کا اُس نے اُن سے وعدہ کر رکھا تھا۔ IKDS 28.1

    قدیم آبائی بُزرگوں کے زمانہ میں روح القدس کا ظہور خاص خاص موقع پر ہی ہوتا تھا، اور وہ بھی تھوڑا تھوڑا، مگر اس کا اب تک بھرپور مظاہرہ نہ ہوا تھا۔ اب مسیح خدا وند کے کلام کے تابع فرمان شاگردوں نے اس نعمت کے لئے خدا وند کے حضور مناجات گزرانیں اور شاگردوں کے حق میں مسیح خداوند نے آسمان میں اُن کی شفاعت کی اور یہ سب کچھ اُس کے عین وعدہ کے مطابق درخواست تھی۔ “جب عید پنتِکسُت کا دن آیا تو وہ سب ایک جگہ مجع تھے کہ یکایک آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اور اُس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا”۔ اعمال ۱:۲:۲IKDS 28.2

    رُوح القدس منتظر اور دُعا میں مشغول شاگردون پر بڑی بھر پوری کے ساتھ نازل ہوا۔ اور اُن میں سے ہر ایک کے دل تک پہنچ گیا۔ قادر مطلق خداوند نے خود کو اپنی کلیسیا پر بڑی قوت کے ساتھ ظاہر کیا۔ ایسے لگتا ہے کہ خالق خداوند نے روح القدس کی تاثیر کو عرصے سے روکے رکھا تھا اور اب روح القدس کے فضل کو کلیسیا پر نازل کر کے آسمان خوشیاں منا رہا تھا۔ اور روح القدس کے زیر اثر گناہوں کی معافی پر توجہ، اعتراف اور خدا وند کی تعریف کے گیت اور شُکر گزاری کا کلام نبوت ملی ۔ اور تما م کا تمام آسمان اس مببت کو دیکھنے اور خداوند کی تعریف کرنے کے لئے نیچے اتر آیا۔ چنانچہ شاگردوں نے حیرت میں گُم ہو کر یوں فرمایا “یہی وہ محبت ہے” چنانچہ شاگردوں نے نازل ہونے والی اس نعمت کو تھام لیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ رُوح کی شعلہ زن تلوار جو کم اعتقادی کے بند بند اور جوڑ جوڑ میں سے گزر جاتی ہے۔ سامعین کے ہڈی ہڈی اور گودے گودے میں سے گزر گئی۔ چنانچہ ایک ہی دن میں ہزاروں مسیح یسوع پر ایمان لے آئے۔ IKDS 28.3

    “لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیوں کہ اگر میں نہ جاوں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا۔ لیکن اگر جاوں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دونگا”۔ یوحنا ۷:۱۶ لیکن جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تُم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سُنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔ یوحنا ۱۳:۱۶IKDS 29.1

    مسیح یسوع کا آسمان پر جانا شاگردوں کے لئے ایک نشان تھا کہ اب وہ وعدہ کی ہوئی برکات پائیں گے۔ اس لئے اُن کو اپنی خدمت کو شروع کرنے سے پیشتر اس کا انتظار کرنا تھا۔ جب مسیح خداوند آسمانی پھاٹکوں سے گزرا تو فرشتوں نے اُسکی تا جپوشی کی تاکہ باپ کے دہنے ہاتھ تخت پر بیٹھے۔ جُونہی یہ رسم اختتام پذیر ہوئی روح القدس شاگردوں پر بڑے زور سے نازل ہوا۔ اور مسیح کو اس سے جلال ملا۔ بلکہ اُسے وہ جلال ملا جو دنیا کی پیدائش سے پیشتر مسیح اپنے باپ کے ساتھ رکھتا تھا”۔ (یوحنا ۵:۱۷) IKDS 29.2

    پنتِکسُت کے روز روح کا نزول اس بات کی گواہی تھی کہ مسیح کی تاجپوشی کی رسم آسمان کی طرف سے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ اور اپنے وعدہ کے مطابق اُس نے اپنے شاگردوں کے لئے روح القدس کو بھیج دیا ہے۔ اور بادشاہ اور کاہن ہونے کی حیثیت سے آسمان اور زمین کا کل اختیار اُسے سونپ دیا گیا ہے۔ “اور انہیں آگ کے شعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اور اُن میں سے ہر ایک پر آٹھہریں۔ اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے جس طرح روح نے اُنہیں بولنے کی طاقت بخشی”۔ اعمال ۳:۲-۴ روح القدس آگ کے شُعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبان کی طرح دکھائی دی اور جو جمع تھے اُن پر آ ٹھہری۔ یہ اس نعمت کی نشانی تھی جس کا وعدہ مسیح یسوع نے کر رکھا تھا اور اس نے شاگردوں کو وہ زبانیں بولنے کی توفیق دی جس سے وہ پہلے ہرگز واقف نہ تھے۔ آگ کا ظہور شاگردوں کے اس جوش و خروش کی علامت ہے جس سے انہیں خدمت انجام دینا تھی۔ IKDS 29.3

    “اور ہر قوم میں سے جو آسمان کے تلے ہے خدا ترس یہودی یروشلیم میں رہتے تھے”۔ اس پراگندگی کے دوران یہودی تقریباً دنیا کے ہر حصہ میں جہاں کہیں دنیا آباد تھی بکھر گئے (چلے گئے)۔ اپنی اس جلا وطنی کے دوران اُنہوں نے کئی زبانیں سیکھ لی تھیں۔ اُن یہودیوں میں سے کئی اس موقع پر یروشیلم میں موجود تھے۔ اور جو جو زبان بولی جاتی تھی اس کے بولنے والے اس مذہبی تہوار میں شامل تھے” مختلف بولی جانے والی زبانوں کا یہ تنوع انجیل کی منادی میں بڑی رکاوٹ کا سبب بن سکتا تھا۔ چنانچہ خدا وند نے معجزانہ طور پر رسولوں کی اس کمی کو پورا کر دیا۔ جو کچھ وہ عمر بھر نہ کر سکے روح القدس نے وہ سب کچھ، ان ان پڑھ، شاگردوں کے لئے انجام دے دیا۔ اب وہ ہر جگہ دُور و نزدیک انجیل کی صداقت کی گواہی دے سکتے تھے۔ اور جن روحوں کے لئے وہ کام کر رہے تھے اُن کی زبان فصاحت اور روانی کے ساتھ بول سکتے تھے۔ یہ مُعجزانہ نعمت دینا کے لئے ایک زبر دست ثبوت تھا کہ اُن کی خدمت آسمان کی طرف سے ہے۔ (انجیل کو پھیلانے کا یہ حکم انہیں خالق خدا وند کی طرف سے ملا ہے) اس وقت سے لے کر شاگردوں کی زبان سادہ پاک اور کامل ہو گئی۔ خواہ وہ اپنی زبان بولتے یا غیر زبان اُن سے زبان کی غلطی سر زد نہ ہوتی۔ IKDS 30.1

    “جب یہ آواز آئی تو بھیڑ لگ گئی اور لوگ دنگ ہو گئے۔ کیونکہ ہر ایک کو یہی سنائی دیتا تحا کہ یہ میری ہی بولی بول رہے ہیں۔ اور وہ سب حیران اور متعجب ہر کر کہنے لگے دیکھو! یہ بولنے والے کیا سب گلیلی نہیں؟ پھر کیوں کر ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے؟”۔ اعمال ۶:۲-۷ IKDS 31.1

    سردار کاہن اور حاکم اس شاندار ظہور پر بڑے سیخ پا ہوئے۔ لیکن لوگوں کے خوف سے وہ اپنے حسد اور بُغض کو ظاہر نہ کر سکے مُبادہ بلوا ہو جائے۔ انہوں نے یسوع ناصری کو مصلوب کا تھا۔ لکین اب یہاں اس کے خادم ہیں جو گلیل کے ان پڑھ باشندے ہونے کے باوجود ہر ایک کی زبان میں کلام کر کے سب کو مسیح یسوع کی زندگی اور خدمت کے بارے بتارہے تھے۔ چنانچہ کاہنوں نے اس عظیم، مُعجزانہ اور طاقتور واقعہ کو ایک اور رنگ دے کر لوگوں کو ورغلانے کی کوشش کی کہ یسوع کے شاگردوں نے وہ تازہ مے جو اس موقع کے لئے تیار کی تھی زیادہ مقدار میں پی لی ہے۔ چنانچہ یہ سب نشہ کے عالم میں ہیں۔ بعض گنواروں نے اُن کی اس بات کا یقین کر لیا۔ مگر سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ جانتے تھے کہ کاہن غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ کیونکہ اُن کے نزدیک ایسا ناممکن تھا۔ اور جو پڑھے لکھے اپنی زبان کے علاوہ دوسری زبانیں بھی جانتے تھے اُنہوں نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ جو جو زبان یہ بول رہے ہیں وہ ہر لحاظ سے دُرست ہیں۔ IKDS 31.2

    کاہنوں کے الزام کے جواب میں پطرس نے کہا کہ یہ جو کچھ ہوا ہے یوئیل نبی کی پیشنگوئی کی تکمیل کے سلسلہ میں ہوا ہے۔ بنی نے پہلے سے جتا دیا تھا کہ یہ قوت خاص کام کی تکمیل کے لئے لوگوں کو تیار کرے گی۔ لیکن پطرس اُن گیارہ کے ساتھ کھڑا ہوا اور اپنی آواز بلند کر کے لوگوں سے کہا “اے یہودیو اور یروشلیم کے سب رہنے والو! یہ جان لو اور کان لگا کر میری باتیں سُنو کہ جیسا تم سمجھتے ہو یہ نشہ میں نہیں۔ کیونکہ ابھی تو پہر ہی دن چڑھا ہے۔ بلکہ یہ وہ بات ہے جو یوئیل نبی کی معرفت کہی گئی ہے کہ خُدا وند فرماتا ہے کہ آخری دنوں میں ایسا ہو گا کہ میں اپنے رُوح میں سے ہر بشر پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور بیٹیاں نبوت کریں گی۔ اور تمہارے جوان رویا اور تمہارے بڈھے خواب دیکھیں گے۔ بلکہ میں اپنے بندوں اور بندیوں پر بھی اُن دنوں میں اپنے روح میں سے ڈالوں اور وہ نبوت کریں گے”۔ اعمال ۱۴:۲-۱۸ IKDS 31.3

    بڑی صفائی اور قوت کے ساتھ پطرس نے مسیح یسوع کی موت اور جی اُٹھنے کی گواہی دی۔ “اے اسرائیلیو! یہ باتیں سنو کہ یسوع ناصری ایک شخص تھا جس کا خُدا کی طرف سے ہونا تم پر اُن معجزوں اور عجیب کاموں اور نشانوں سے ثابت ہوا جو خدا نے اس کی معرفت تم میں دکھائے۔ چنانچہ تم آپ ہی جانتے ہو۔ جب وہ خُدا کے مقررہ انتظام اور علم سابق کے موافق پکڑوایا گیا تو تم نے بے شرع لوگوں کے ہاتھ سے اُسے مصلُوب کروا کر مار ڈالا۔ لیکن خُدا نےموت کے بند کھول کر اُسے جلایا کیونکہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس کے قبضہ میں رہتا”۔ اعمال ۲۲:۲-۲۴IKDS 32.1

    اپنے بیان کو صحیح ثابت کرنے کے لئے پطرس نے مسیح یسوع کی تعلیم کا حوالہ نہ دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسکے حاسد سامعین پر مسیح کی تعلیم کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ مسیح یسوع کی بجائے اُس نے اُن سے داود نبی کے بارے کلام کیا جس کو وہ اپنی قوم کا ایک بہت بڑا بزرگ مانتے تھے۔ IKDS 32.2

    “داود اُس کے حق میں کہتا ہے کہ میں خداوند کو ہمیشہ اپنے سامنے دیکھتا ہوں۔ کیونکہ وہ میری دہنی طرف ہے تاکہ مجھے جُنبش نہ ہو۔ اسی سبب سے میرا دل خوش ہوا اور میری زبان شاد۔ بلکہ میرا جسم بھی اُمید میں بسا رہے گا۔ اس لئے کہ تُو میری جان کو عالم ارواح میں نہ چھوڑے گا۔ اور نہ اپنے مقدس کے سڑنے کی نوبت پہنچنے دے گا”۔ اعمال ۲۵:۲-۲۷IKDS 32.3

    “اے بھائیو! میں قوم کے بزرگ داود کے حق میں تم سے دلیری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ موا اور دفن بھی ہوا اور اُس کی قبر آج تک ہم میں موجود ہے۔ میں نبی ہو کر اور یہ جان کر کہ خدا نے مجھ سے قسم کھائی ہے کہ تیری نسل سے ایک شخص کو تیرے تخت پر بٹھاوں گا۔ اس نے پیشنگوئی کے طور پر جسم کے جی اُٹھنے کا ذکر کیا کہ نہ وہ عالم ارواح میں چھوڑا گیا نہ اس کے جسم کے سڑنے کی نوبت پہنچی۔ یسوع کو خدا نے جلایا جس کے ہم سب گواہ ہیں”۔ اعمال ۲۹:۲-۳۲ IKDS 33.1

    منظر دلچسپی سے بھر پور ہے۔ تمام اطراف سے لوگ شاگردوں کی گواہی سننے کے لئے آئے ہیں۔ اور اُنہوں نے اُس سچائی کو سُنا ہے جو مسیح میں پائی جاتی ہے۔ لوگ بڑھتے ہی جاتے ہیں یہاں تک کہ ہیکل لوگوں سے کھچا کھچ بھر گئی۔ کاہن اور حاکم بھی وہاں موجود ہیں اُن کے چہروں سے غیض و غضب ٹپک رہا ہے اور ماتھوں کی تیوڑیاں بتا رہی ہیں کہ وہ حسد اور تعصب کی آگ میں جل رہے ہیں۔ اُن کے دلوں میں ابھی تک مسیح یسوع کے خلاف نفرت بھر ہوئی ہے۔ دُنیا کے نجات دہندہ کو مصلُوب کرنے اور اُس کا لہو بہانے سے اُن کے ہاتھ ناپاک تھے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ شاگردوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا گیا ہے اسکے سبب وہ خوفزدہ ہو چکے ہوں گے۔ مگر وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ شاگرد ہر طرح کے خوف سے بے نیاز اور رُوح القدس سے معمور ہیں۔ اور وہ یسوع ناصری کی الوہیّت کو بڑی قوت اور اختیار کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے شاگردوں کو بڑی دلیری کے ساتھ یہ بیان کرتے سنا کہ جسکی تم نے تذلیل کی اور مصلوب کیا وہی زندگی کا شہزادہ ہے۔ اور اب خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھا ہے۔ IKDS 33.2

    سامعین میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے مسیح یسوع کے خلاف جھوٹی گواہی دی تھی اور اُسے مصلُوب کیا تھا۔ بعض نے سازش کر کے کہا تھا کہ اُسے صلیب دو۔ اور جب پیلاطس کے دربار میں مسیح یسوع اور برابا کھڑے تھے اور پیلاطس نے پوچھا تھا کہ میں تمہاری خاطر کس کو چھوڑ دوں تو ان ہی لوگوں نے کہا تھا کہ برابا کو۔ “جب وہ اکٹھے ہوئے تو پیلاطس نے اُن سے کہا IKDS 33.3

    تُم کسے چاہتے ہو کہ میں تمہاری خاطر چھوڑ دوں؟ برابا کو یا یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے۔ اُنہوں نے کہا برابا کو۔ پیلاطس نے اُن سے کہا پھر یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے کیا کروں؟ سب نے کہا وہ مصلوب ہو” متی ۱۷:۲۷، یوحنا ۴۰:۱۸ جب پیلاطس نے یہ کہتے ہوئے یسوع کو اُن کے حوالہ کر دیا “کہ میں اس کا کچھ جرم نہیں پاتا” میں اس راستباز آدمی کے خون سے بری ہوں۔ سب لوگوں نے جواب میں کہا اس کا خُون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر”۔ متی ۲۴:۲۷-۲۷، یوحنا ۶:۱۹ IKDS 34.1

    اب اُنہوں نے شاگردوں کو اعلانیہ کہتےسُنا کہ جس کو تم نے مصلوب کیا تھا وہ خدا کا بیٹا تھا۔ کاہن اور حاکم کانپ اُٹھے۔ خوف سے اُن کی ٹانگیں لڑکھڑانے لگیں۔ قائلیت اور غم و اندوہ نے اُنہیں جکڑ لیا۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا۔ “جب اُنہوں نے یہ سنا تو انکے دلوں پر چوٹ لگی اور پطرس اور باقی رسولوں سے کہا کہ اے بھائیوں! ہم کیا کریں”۔ اعمال ۳۷:۲ جنہوں نے شاگردوں سے کلام سنا تھا اُن میں سے بعض خدا ترس، پارسا یہودی بھی تھے۔ واعظین کے کلام کے ساتھ جو قدرت کام کر رہی تھی اُس نے اُنہیں قائل کیا کہ یسوع ہی مسیح تھا۔ IKDS 34.2

    تب پطرس نے اُن سے کہا “توبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کی معافی کے لئے یسوع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے لو تم رُوح القّدس انعام میں پاو گے۔ اس لئے کہ یہ وعدہ تم اور تمہاری اولاد اور اُن سب دُور کے لوگوں سے بھی ہے جن کو خداوند ہمارا خدا اپنے پاس بلائے گا”۔ اعمال ۳۸:۲-۳۹IKDS 34.3

    تائب ہونے والے لوگوں کو پطرس نے بتا دیا کہ اُنہوں نے مسیح یسوع کو کاہنوں اور حاکموں کے ورغلانے کےے سبب رد کردیا تھا۔ اور اگر آپ اب بھی اُن کا مشورہ مانتے رہیں گے اور اس بات کے منتظر رہیں گے کہ وہ کب مسیح کو تسلیم کریں تو آپ کو یاد رہے کہ وہ کبھی بھی مسیح کو قبول نہیں کریں گے۔ بے شک وہ خُدا ترس ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر حقیقت میں یہ دنیاوی جاہ و حشمت اور دولت کے دلدادہ ہیں۔ یہ نُور کو حاصل کرنے کے لئے کبھی بھی مسیح یسوع کے قدموں میں نہیں آئیں گے۔ IKDS 34.4

    آسمانی مکاشفہ اور نور کے زیر اثر شاگردوں کے ذہن میں وہ صداقتیں راسخ ہو گئی تھیں جن کی مسیح یسوع نے اُن کے ساتھ رہ کر وضاحت کر دی تھی۔ وہ پردہ جو انہیں مستقبل میں جھانکنے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا ہٹا دیا گیا۔ اب وہ مسیح کے مشن اور مقصد کو بڑی صفائی سے دیکھ سکتے تھے۔ اب وہ اچھی طرح جان سکتے تھے کہ آسمانی بادشاہت کس طرح کی ہو گی۔ اب وہ بڑی قُدرت اور اختیار کے ساتھ نجات دہندہ کے بارے گواہی دے سکتے تھے۔ اور جب وہ سامعین کو نجات کی تجویز کے بارے بیان کرتے تو بہتیرے ایمان لے آتے۔ اس سے سامعین کے ذہن سے وہ روایات اور توہم پرستی جو کاہنوں نے پھیلا رکھی تھی ختم ہو گئی اور اُنہوں نے نجات دہندہ کی تعلیم کو صدقِ دل سے قبول کر لیا۔ “پس جن لوگوں نے اس کا کلام قبول کیا انہوں نے بپتسمہ لیا اور اسی روز تین ہزار آدمیوں کے قریب اُن میں مل گئے”۔ اعمال ۴۱:۲IKDS 35.1

    یہودی قیادت نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ مسیح کی موت کے ساتھ ہی مسیح کی خدمت تمام ہو جائے گی مگر اسکے برعکس وہ پِنتکُست کے بڑے واقعہ کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اُنہوں نے شاگردوں کو سُنا جو قوت اور جوش سے معمور تھے۔ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ یہ سادہ اور گنوار لوگ پہلے تو ایسے نہ تھے۔ مسیح یسوع کے بارے جو کچھ وہ کہہ رہے تھے وہ نشانوں اور الہامی صحیفوں سے ثابت ہوتا تھا۔ یروشلیم میں جو یہودیوں کا گڑھ تھا وہاں ہزاروں لوگوں نے اعلانیہ مسیح یسوع کو قبول کرنے کا عہد کیا۔ IKDS 35.2

    شاگرد بذات خود رُوحوں کی اسقدر فصل دیکھ کر خوش اور حیران تھے۔ مگر اُنہوں نے یہ ہرگز نہ کہا کہ رُوحوں کی اتنی بڑی فصل ہماری کوششوں کا نتیجہ ہے بلکہ انہوں نے محسوس کیا کہ یہ کسی دوسرے شخص کی محنت کا پھل ہے۔ آدم کے گناہ میں گرنے کے زمانہ سے ہی اس نے اپنے کلام کا بیج اُن کے حوالہ کیا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں خالق خُداون کے لئے وقف کر دی ہیں تاکہ وہ بنی نوع انسان کے دل میں یہ بیج بوئیں۔ جب یسوع اس دھرتی پر تھا اُس نےاپنی اس زمینی زندگی کے دوران سچائی کا بیج بویا اور اپنے خون سے اُسے سینچا تھا ۔ وہ فصل جو پنتِکُست کے دن کاٹی گئی۔ وہ اُسی بیج کا نتیجہ تھی جو یسوع مسیح نے بویا تھا۔ IKDS 35.3

    رسولوں کی خالی تکرار خواہ کتنی ہی واضح اور معقول ہوتی تو ہرگز دلوں سے تعصب کو دور نہ کر سکتی۔ رُوح القدس نے الہٰی قوت کے ساتھ اُن کے دلائل کو موثر بنادیا جو سامعین کے دلوں میں اُتر گئے۔ رسولوں کا کلام قادر مطلق کے تیز تیروں کی مانند تھا جس نے لوگوں کو اُن کے ہو لناک گناہوں کے بارے قائل کر لیا۔ اور وہ محسُوس کرنے لگے کہ اُنہوں نے جلالی خُدا وند کو ترک اور مصلُوب کیا۔ IKDS 36.1

    مسیح یسوع کے زیر تربیت شاگردوں نے رُوح القدس کی ضرورت کو بڑی شدت سے محسوس کیا۔ اور روح القدس کے زیر تربیت اُنہوں نے حتمی قابلیت حاصل کی اور اس خدمت کو انجام دینے کے لئے آگے بڑھے جس کے لئے اُنہوں نے خود کو وقف کر رکھا تھا۔ اب سے وہ ان پڑھ، جاہل، جھگڑالو، خود غرض اور گردن کش نہ رہے، دُنیاوی عظمت اور جاہ و حشمت پر لات مار دی اور انفرادی بزرگی حاصل کرنے کی اُمید کو دل سے نکال دیا اور سب بھائی ہر روز یک دل ہو کر ہیکل میں جمع ہوا کرتے اور گھروں میں روٹی توڑ کر خوشی اور سادہ دلی سے کھانا کھایا کرتے تھے”۔ اعمال ۴۶:۲، ۳۲:۴ خُدا یسوع مسیح اُن کے ذہنوں میں سما گیا۔ اب اُن کا کلی مقصد مسیح کی بادشاہی کو فروغ دینا تھا۔ کیونکہ اب اُن کی سیرت مسیح یسوع کی سیرت کی مانند اور اُن کا مزاج مسیح یسوع کی مانند ہو گیا تھا۔ جب اُنہوں نے پطرس اور یوحنا کی دلیری دیکھی اور معلوم کیا کہ یہ ان پڑھ اور ناواقف آدمی ہیں تو تعجب کیا۔ پھر انہیں پہچانا کہ یہ یسُوع کے ساتھ رہے ہیں”۔ اعمال ۱۳:۴IKDS 36.2

    پنتِکسُت ان کے لئے آسمانی مکاشفہ لے کر آیا۔ وہ صداقتیں اُن پر آشکارا ہو گئیں جن کو وہ اُس وقت نہ سمجھ پائے جب یسوع مسیح اُن کے ساتھ تھا۔ اُنہوں نے پاک کلام کی اُس تعلیم کو ایمان اور یقین کے ساتھ قبول کیا جسے وہ پہلے نہیں جاتنے تھے۔ اُن کے لئے یہ بات صرف ایمان کی ہی نہ رہ گئی تھی کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے بلکہ اُنہیں اب یقین ہو گیا تھا کہ اُس نے انسانی جامہ پہن رکھا تھا درحقیقت وہ نجات دہندہ تھا۔ اور اُنہوں نے دُنیا کو اپنا تجربہ بڑے وثوق سے بتایا جس سے دنیا جان گئی کہ خدا وند اُن کے ساتھ تھا۔ IKDS 37.1

    وہ پُورے اعتماد کے ساتھ یسوع نام بول سکتے تھے۔ کیونکہ وہ ان کا دوست اور بڑا بھائی تھا چونکہ اُنہیں مسیح کی رفاقت حاصل تھی اسلئے وہ اس کے ساتھ آسمانی مقاموں میں نشست رکھتے تھے۔ اُن کے دل مسیح کی گواہی دینے اور نیکی کرنے کے لئے ضرورت سے زیادہ مستعد تھے، اور اُنہیں مجبُور کرتے تھے کہ دُنیا کی حدوں تک اُس کے کلام کو لے جائیں۔ وہ اس کام کو جسے یسوع مسیح نے شروع کیا تھا دور و نزدیک ہر جگہ پہنچانے کے لئے تڑپتے تھے۔ اُنہیں احساس تھا کہ وہ خدا وند کے کتنے مقروض ہیں اور ان کا فرض کس قدر اہم ہے۔ روح القدس کی نعمت حاصل کر کے اور جوش و خروش سے لبریز ہو کر وہ صلیب کی فتح کی منادی کرنے کو چل پڑے۔ روح القدس نے اُن کی مدد کی اور اُن کے ذریعہ کلام کیا۔ مسیح کا اطمینان اُن کے چہروں سے عیاں ہوا۔ اُنہوں نے اپنی زندگیاں مسیح کی خدمت کے لئے مخصوص کر دیں۔ اور اُن کے طور و اطوار سے پتہ چلتا تھا کہ اُنہوں نے خُود کو مسیح کے تابع کر رکھا ہے۔ IKDS 37.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents