Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۳۰ - اعلیٰ معیار تک پہنچنے کا بُلاوا

    کرنتھیوں کے نام پولُس رسُول کا دُوسرا خط

    خود ضبطی، پرہیز گاری اور مسیح کی خدمت میں پُرتپاک جوش و جذبہ کی اہمیت کو کُر نتھس کے ایمانداروں کے اذہان پر واضح طور پر نقش کرنے کی اُمید میں پولُس نے اپنے خط میں مسیحی جنگ اور پیدل دوڑوں کے مقابلہ میں حصہ لینے والوں کے درمیان بڑا ہی دلپذیر موازنہ نہ کیا۔ کھیلوں میں حصہ لینے والوں کے لئے یہ جشن کُرنتھس کے قریب ہی منعقد کیا جاتا تھا۔ رومیوں اور یونانیوں میں جتنی بھی کھیلیں مروج تھیں ان سب میں دوڑیں سب سے قدیم اور بڑی معتبر خیال کی جاتی تھیں۔ ان دوڑوں کو دیکھنے کے لئے بادشہ، اُمرا، مدبر، سیاستدان اور کاروباری حضرات تشریف لاتے۔ ان دوڑوں میں مقابلہ کے لئے ہر فرقہ، طبقہ اور جماعت کے نوجوان حصہ لیتے اور انعام حاصل کرنے کے لئے کسی کوشش یا ضروری ڈسپلن (نظم و ضبط) سے جی نہ چُراتے۔ IKDS 290.1

    مقابلے بڑے سخت اصُول و ضوابط کے تحت وعمل میں لائے جاتے جن سے کوئی بھی پہلوتہی کرنے کا مجاز نہ تھا۔ وہ حضرات جو یہ چاہتے تھے کہ اُن کے نام انعام جیتنے والوں کی فہرست میں شامل کئے جائیں، انہیں پہلے تیاری کے لئے نہایت ہی سخت تربیت میں سے گزرنا پڑتا تھا۔ کوئی بھی نقصان دہ غذا جو ذہنی یا جسمانی قوت کو اپنے تابع کرلے سختی سے ممنوع قرار دی گئی تھی۔ جو کوئی بھی ان رفتار اور قوت کے امتحانوں میں کامیابی کی اُمید کرتا تھا لازم تھا کہ اس کے پٹھے مضبوط اور لچکدار ہوں، اُس کی ہر حرکت یقینی، ہر قدم تیز اور غیر متزلزل ہو۔ اور اُس کی جسمانی قوا بدرجہ غائت ہوں۔IKDS 290.2

    دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے والے جونہی منتظر ہجوم کے سامنے نمودار ہوتے تو اُن سبھوں کے نام پُکارے جاتے تھے اور دوڑ کے تمام ضوابط و قوانین بڑی وضاحت اور بڑی فصاحت کے ساتھ بتائے جاتے تھے۔ پھر سب مقابلہ میں حصہ لینے والے اکٹھے دوڑ شُروع کرتے اور تماشبین انہیں دوڑ جیتنے کے لئے اُبھارتے اور ترغیب دیتے تھے۔ مُنصفین گول کے قریب ہی بیٹھا کرتے تھے تاکہ وہ دوڑ کو شُروع اور اختتام پذیر ہوتا دیکھ کر جیتنے والے کو انعام دے سکیں۔ اگر کوئی شخص ناجائز طریقہ سے گول تک پہلے پہنچ جاتا تو اُسے انعام نہیں دیا جاتا تھا۔ IKDS 291.1

    ان مقابلوں میں بعض خطرات بھی مُضمر ہوتے تھے۔ بعض ایک تو عمر بھر کے لئے ہولناک جسمانی تناو کا شکار ہو جاتے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ دوڑ میں حصہ لینے والا ٹریک پر گر جاتا، اس کے ناک اور مُنہ سے خُون جاری ہو جاتا۔ اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جیتنے والا انعام پکڑتے وقت زمین پر دھڑام سے گرا اورمر گیا۔ عمر بھر کے لئے معذوری یا موت کے احتمال کو (انعام حاصل کرنے کے لئے) دوڑ میں کامیابی کے مقابلہ میں کوئی خطرہ خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ IKDS 291.2

    جونہی جیتنے والا گول کے قریب پہنچتا تھا تو تماشبین کے پُرزور تعریف و تحسین کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونج اُٹھتی اور اس کی صدائے بارگشت وادیوں اور پر بتوں کو بیدار کر دیتی۔ تماشبین کی موجودگی میں منصف جیتنے والے وِکٹری سٹینڈ پر لے جاتا اس کے ہاتھ میں کھجُور کی ٹہنیاں دی جاتیں اور اس کے سر پر لا رل کا تاج رکھا جاتا۔ (لارل پودا جس کی پتیاں چمک دار ہوتی ہیں اس کا تاج بڑے سُورماوں اور شاعروں کے سر پر رکھا جاتا ہے) اس کی تعریف میں ملک بھر میں گیت گائے جاتے۔ اس کے والدین کی آو بھگت ہوتی۔ بلکہ جس شہر کا وہ باشندہ ہوتا، ایسا عظیم کھلاڑی پیدا کرنے پر اُس کی بڑی عزت افزائی ہوتی۔ IKDS 291.3

    ان دوڑوں کو مسیحی جنگ کی نظیر بناتے ہوئے پولُس نے دوڑوں کے مقابلوں میں کامیابی حاصل کرنے والے کے لئے ضروری تیاری پر زور دیا۔ جس میں سب سے پہلے نظم و ضبط، پرہیزگاری (محتاط غذا) اور ایسی غذا سے اجتناب پر زور دیا جو ذہن اور بدن دونوں کے لئے نقصان دہ ہو۔ اس نے مزید کہا کہ جو شخص دوڑ میں جیتنا چاہتا ہے وہ سب طرح کا پرہیز کرتا ہے۔ دوڑنے والے ہر اُس چیز سے پرہیز کرتے ہیں جو اُن کی جسمانی قوت کو کمزور کر دے۔ نیز سخت اور مسلسل نظم و ضبط کے ساتھ پٹھوں کی قوت اور بُردباری کے لئے تربیت کرتے ہیں تاکہ جب مقابلہ کا وقت آئے تو وہ اپنی قوت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکیں۔ ایک مسیحی کو اس سے کتنا زیادہ نہ کرنا چاہئے جس کی ابدی دلچسپیاں خطرے میں ہوں؟ چنانچہ اُسے چاہئے کہ وہ اپنی رغبتوں، اشتہا اور جذبات کو خُدا کی مرضی کے تابع کرے۔ کبھی بھی وہ تن آسانی اور عیش و نشاط کو اجازت نہ دے کہ وہ اس کی توجہ مسیح کے مشن سے ہٹا دے۔ اُس کی تمام عادات و خصائل اور جذبات سخت نظم و ضبط کے تحت ہونے چاہئیں۔ شعور کو خُدا کے کلام کی تعلیم سے منور ہو کر اور اُس کی رُوح کی نگرانی میں ضبط کی لگام کو تھامنا چاہئے۔ IKDS 292.1

    اور جب یہ سب کچھ ہو جائے تو ایک مسیحی کو فتح حاصل کرنے کے لئے سخت مشقت کرنی چاہئے۔ کُرنتھس کی کھیلوں میں دوڑنے والوں کے لئے آخری چند ڈگ (قدم) بڑی ہی اذّیت کے حامل ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی رفتار میں کمی پیدا نہ ہونے دے۔ یہی حال ایک مسیحی کا ہے کہ جب وہ گول کے قریب ہوتا جاتا ہے تو اُسے مزید جوش و جذبہ اور تگ ودو کرنا ہے۔ IKDS 292.2

    پولپس رسُول دوڑ میں جیتنے والے کے مرجھا جانے والے سہرے کا موازنہ ابدی جلالی تاج سے کرتا ہے جو اُسے دیا جائے گا جو مسیحی دوڑ میں فتح پائے گا۔ IKDS 292.3

    رسُول نے فرمایا کہ “وہ لوگ تو مرجھانے والا سہرا پانے کے لئے کرتے ہیں مگر ہم اس سہرا کے لئے کرتے ہیں جو نہیں مرجھاتا۔ “مرجھانے اور خراب ہونے والے انعام کو جیتنے کے لئے یونانی دوڑوں میں دوڑنے والے ہر طرح کی مشقت اُٹھاتے اور نظم و ضبط اپناتے مگر ہماری کوشش تو اس انعام سے کہیں بہتر اور قیمتی انعام کے لئے ہے، یعنی ابدی زندگی کے تاج کے لئے ہے۔ اس لئے ہمیں تو اُن سے کہیں زیادہ مشقت کرنا، ان سے کہیں بڑھ کر قربانی دینا اور خود انکاری سے کام لینا ہو گا۔ IKDS 293.1

    عبرانیوں کے خط میں رسُول نے مسیحی کو ابدی زندگی حاصل کرنے کے لئے یک سوئی کی ضرُورت پر زور دیا ہے۔ “آو ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اس گناہ کو جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے دُور کرکے اس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔ اور ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں جس نے اُس خُوشی کے لئے جو اُس کی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پرواہ نہ کر کے صلیب کا دُکھ سہا اور خُدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔ ” عبرانیوں ۱:۱۲-۲۔ اگر ایک مسیحی ابدّیت کی دوڑ میں کامیابی حاصل کرنے کا خواہاں ہے تو پھر اُسے حسد، نفرت، بغض، بد گوئی، بدخواہی اور لالچ وغیرہ کے بوجھ کو دُور کرنا ہوگا۔ ہر ایک عادت یا عمل جو گناہ کی طرف راغب کرتی اور مسیح کے نام پر دھبہ ہے اُسے ترک کرنا ہے اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا۔ اس شخص پر آسمانی برکات نازل نہیں ہو سکتیں جو راستی کے ابدی اصُولوں کو عدولی کرتا ہے۔ کسی ایک گناہ کی رغبت سیرت کو تباہ اور دوسروں کو گُمراہ کر سکتی ہے۔ IKDS 293.2

    “اگر تیرا ہاتھ تجھے ٹھو کر کھلائے تو اُسے کاٹ ڈال۔ ٹنڈا ہو کر زندگی میں داخل ہونا تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ دو ہاتھ ہوتے جہنم کے بیچ اس آگ میں جائے جو کبھی بُجھنے کی نہیں اور اگر تیرا پاوں تجھے ٹھوکر کھلائے تو اسے کاٹ ڈال۔ لنگڑا ہو کر زندگی میں داخل ہونا تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ دو پاوں ہوتے جہنم میں ڈالا جائے”۔ متی ۴۳:۹-۴۵ ۔ اگر بدن کو موت سے بچانے کے لئے ہاتھ یا پاوں کاٹ دیا جاتا ہے یا آنکھ نکال دی جاتی ہے تو جو گناہ رُوح کے لئے باعث موت بنتا ہے اُسے ترک کرنا کتنا ضروری ہے؟IKDS 293.3

    قدیم کھیلوں میں حصہ لینے والے کو خود انکاری اور سخت ضبط کرنے کے باوجود جیتنے کا یقین نہیں ہوتا تھا”کیاتُم نہیں جانتے کہ دوڑ میں دوڑنے والے دوڑتے تو سب ہی ہیں مگر انعام ایک ہی لے جاتا ہے” سب دوڑنے والوں نے کتنے ذوق و شوق سے محنت کی ہو گی مگر انعام صرف ایک ہی شخص کو ملا۔ دوسروں نے بھی انعام حاص کرنے کے لئے جدوجہد کی ہوگی لیکن جب وہ اُس انعام کو حاصل کرنے کو تھے تو جلدی سے کسی دوسرے ہاتھ نے وہ قیمتی خزانہ دبوچ لیا۔ IKDS 294.1

    مسیحی جنگ میں ایسا نہیں ہے۔ جو بھی مطلوبہ شرائط پر پُورا اُترے گا اُسے دوڑ کے خاتمہ پر مایُوسی سے دو چار ہونا نہیں پڑے گا۔ کوئی بھی دیانتدار اور ثابت قدم ناکام نہیں ہو گا۔ یہ دوڑ تیز رفتاری کی نہیں، نہ یہ جنگ طاقتور کی ہے ۔ نحیف و نزار ور لحیم و شحیم دونوں مقدسین ابدی جلالی تاج پہن سکتے ہیں۔ وہ سبھی جیت سکتے ہیں جو الہٰی فضل کی قُدرت کے وسیلہ اپنی زندگیوں کو مسیح کی مرضی کے ہم آہنگ کر دیتے ہیں۔ وہ اصُول جو خُدا وند کے پاک کلام میں دئیے گئے ہیں ان کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانا بعض ایک کے نزدیک غیر اہم اور فضُول ہے ۔ مگر جو معاملہ خطرے میں ہے اُس کی مدد کے لئے یا اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والی کوئی بھی چیز معمولی نہیں۔ ہر ایک عمل ترازو پر اپنا وزن رکھتا ہے جس کے نتیجہ میں فتح یا شکست نصیب ہوتی ہے۔ اور جیتنے والوں کو انعام اسی نسبت سے دیا جائے گا جس نسبت سے اُنہوں نے قوت، ایمانداری اور خلوص دکھایا ہوگا۔ IKDS 294.2

    رسُول اپنے آپ کو اس آدمی کی نظیر قرار دیتا ہے جو دوڑ میں دوڑتا ہے اور انعام حاصل کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہیں کرتا۔ “پس میں بھی اسی طرح دوڑتا ہوں یعنی بے ٹھکانہ نہیں۔ میں اسی طرح مُکوں سے لڑتا ہوں یعنی اُس کی مانند نہیں جو ہوا کو مارتا ہے۔ بلکہ میں اپنے بدن کو مارتا کُوٹتا اور اُسے قابُو میں رکھتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اوروں میں منادی کرکے آپ نامقبول ٹھہروں۔” IKDS 294.3

    پولُس کو ڈر تھا کہ کہیں وہ دوسروں کو منادی کرکے تو بچا لے مگر آپ برباد ہو جائے۔ اس نے محسُوس کیا کہ اگر اس نے اپنی زندگی میں ان اصولات کو نہ اپنایا جن کو وہ مانتا اور جن کی منادی کرتا ہے تو وہ خدمت جو وہ دُوسروں کے لئے کرتا ہے اس سے اُسے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اس کی تبدیلی اس کا اثرورسوخ، خود انکاری سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا مذہب محض زبانی کلامی اقرار ہی نہیں بلکہ خُدا کی قُربت میں روزانہ زندگی بسر کرنے کا نام ہے۔ اُس نے ہمیشہ اپنے سامنے ایک نشانہ (گول) رکھا اور اس تک پہنچنے کے لئے اس نے ہمیشہ بڑی سخت مشقت کی۔”نہ اپنی راستبازی کے ساتھ جو شریعت کی طرف سے ہے بلکہ اس راستبازی کے ساتھ جو مسیح پر ایمان لانے کے سبب سے خُدا کی طرف سے ایمان پر ملتی ہے”۔ فلپیوں ۹:۳۔ IKDS 295.1

    پولُس رسُول کو یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ جب تک اُس کی زندگی ہے بدی کے ساتھ اس کی جنگ جاری رہے گی۔ اس نے ہمیشہ یہ محسُوس کیا کہ اُسے اپنے اُوپر سخت کنٹرول رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیاوی رغبتیں اس کے روحانی جوش و خروش پر غلبہ نہ پالیں۔ اس لئے وہ اپنی پُوری قُوت کے ساتھ جسمانی اور فطری رغبتوں کے خلاف جنگ آزما رہا۔ اس نے اپنے سامنے معیار رکھا جس تک پہنچنے کے لئے اس نے خُدا کی شریعت کے تابع رہ کر مسلسل جدوجہد کی۔ اس کا کلام اس کا عمل، رغبتیں اور جذبات سبھی خُدا کی رُوح کے تابع تھیں۔ IKDS 295.2

    پولُس کے سامنے ابدی زندگی کی دوڑ کو جیتنا ہی کُلی مقصد تھا اور وہ اس کا مظہر کُرنتھس کے ایمانداروں کی زندگیوں میں دیکھنے کا خواہشمند تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ مسیح کے معیار تک پہنچنے کے لئے انہیں سخُت جدوجہد کرنا ہو گی جس سے وہ کسی طرح بھی رُستگاری نہیں پا سکتے۔ اس نے ان کی منت کی کہ وہ روز بروز پرہیز گاری اور اخلاقی اور روحانی معیار کی بلندیوں کے متلاشی رہیں۔ اس نے ان سے التماس کی کہ ہر بوجھ کو ایک طرف رکھ کر مسیح میں کاملیت کے نشانے کی طرف دوڑتے جائیں۔ IKDS 295.3

    پولُس نے کرنتھیوں کو قدیم اسرائیلوں کے تجربہ سے آگاہ کیا کہ اُنہیں وفاداری کے عوض کیا کیا برکات نصیب ہوئیں اور جب وہ بیوفا ہو گئے تو ان پر کیا کیا مصیبتیں آئیں۔ اس نے ان کو بتایا کہ کس طرح مُعجزانہ طریقہ سے عبرانیوں کو ملک کو ملک مصر سے رہائی ملی ۔ دن کے وقت بادل ان کی رہبری کرتا تھا اور رات کے وقت آگ کا ستوں۔ یوں وہ بحفاظت بحر قلزم کے پار اتر گئے۔ لیکن جب مصریوں نے بحر قلزم کو پار کرنے کی کوشش کی تو وہ تمام کے تمام اس میں غرق ہو گئے۔ اس عمل سے خداوند نے بنی اسرائیل کو اپنی کلیسیا تسلیم کیا۔ “ان سب نے ایک ہی رُوحانی خوراک کھائی اور سب نے ایک ہی رُوحانی پانی پیا۔ کیونکہ وہ اس رُوحانی چٹان میں سے پانی پیتے تھے جو ان کے ساتھ ساتھ چلتی تھی اور چٹان مسیح تھا”۔ عبرانیوں کے تمام سفر میں یسوع ان کا حاوی تھا۔ مضروبہ چٹان مسیح کی علامت تھی جو آل آدم کی خطاوں کے سبب گھائل کیا گیا تاکہ سب کے لئے نجات کی ندی جاری ہو جائے۔ IKDS 296.1

    خُداوند کی اس حمایت کے باوجود عبرانی اُن رغبتوں اور عیش و طرب کو یاد کرنے لگے جو پیچھے مصر میں چھوڑ آئے تھے۔ اُن کے اس گناہ اور بغاوت کی وجہ سے خُدا وند کا غضب اُن پر نازل ہوا۔ پولُس نے کُرنتھس کے ایمانداروں کو ہدایت کی کہ عبرانیوں کے اس تجربہ سے سبق سیکھیں۔ “یہ باتیں ہمارے ہمارے واسطے عبرت ٹھہریں” پولُس نے فرمایا تاکہ ہم بُری چیزوں کی خواہش نہ کریں۔۔۔۔ اُس نے اُنہیں دکھایا کہ کس طرح تن آسانی اور عیش و طرب نے گناہ کی راہ تیار کی جس کے سبب خُدا کا غضب اُن پر بھڑکا۔ یہ اُس وقت ہوا جب لوگ کھانے پینے بیٹھے۔ پھر ناچنے کُودنے کو اُٹھے اُنہوں نے خُدا کے خوف بُھلا دیا جو اُنہوں نے شریعت لیتے وقت محسُوس کیا تھا۔ اُنہوں نے خُدا کی جگہ پرستش کے لئے بچھڑا بنا لیا اور اُس کی پرستش کی۔ اور ضیافت اڑانے کے بعد جو بعل فغور کے ساتھ منسلک تھی اُنہوں نے حرامکاری کی۔ چنانچہ خُداوند کا غضب ان پر بھڑکا اور اُسکے حکم سے ایک ہی دن میں تئیس (۲۳) ہزار مارے گئے۔ IKDS 296.2

    چنانچہ رسُول نے اُنہیں تاکیداً کہا کہ “پس جو کوئی اپنے آپ کو قائم سمجھتا ہے وہ خبر دار رہے کہ گر نہ پڑے” رسُول نے انہیں مزید کہا کہ اگر تُم خودی اور گھمنڈ سے بھر جاو، جاگتے اور ہوشیار نہ رہو۔ دُعا نہ مانگو تو تُم نہایت ہی گمراہ کُن گناہ میں گر جاو گے۔ اور خُدا کے غضب کو دعوت دو گے۔ تاہم پولُس نے انہیں پست ہمت نہ کیا بلکہ اُس نے اُن کو یقین دلایا”تم کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہواور خُدا سچا ہے وہ تُم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دے گا۔ بلکہ آزمائش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دے گا تاکہ تُم برداشت کر سکو”۔ IKDS 297.1

    پولُس نے اپنے بھائیوں کو ترغیب دی کہ وہ خود سے سوال کریں کہ انکے کلام اور کام کا دوسرون پر کیا اثر ہے؟ چنانچہ رسُول نے ہدیات فرماتے ہوئے انہیں لکھا۔ “پس تُم کھاو یا پیئو یا جو کچھ کرو سب خُدا کے جلال کے لئے کرو۔ تُم نہ یہودیوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بنو نہ یونانیوں کے لئے نہ خُدا کی کلیسیا کے لئے”۔ IKDS 297.2

    پولُس کے آگاہی کے کلام کا اطلاق ہر زمانہ پر ہوتا ہے، مگر یہ کلام خصوصاً ہمارے زمانے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ بُت پرستی سے اُس کی مراد صرف بُتوں کی پرستش نہیں بلکہ خود غرضی، تن آسانی اور اپنی رغبتوں اور چاہتوں کی تکمیل اور نفس پروری ہے۔ زبانی کلامی مسیح یسُوع میں ایمان، سچائی کو جاننے کی شیخی کسی کو مسیحی نہیں بنا دیتی۔ وہ مذہب جو اپنی آنکھوں کانوں اور زبان یا اپنی رغبتوں کی تسکین کرنے پر تُلا رہتا ہے وہ مسیح کا مذہب نہیں ہے۔ IKDS 297.3

    کلیسیا کا انسانی بدن کے ساتھ موازنہ کر کے مبنی بر حقیقت مثال پیش کی کہ جس طرح بدن کے تمام اعضا اکٹھے مل کر ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہیں ویسی ہی مطابقت اور یکسانیت مسیح کی کلیسیا کے ممبران کے بیچ میں ہونا لازم ہے۔ اس نے مزید فرمایا۔ “ایک ہی رُوح کے وسیلہ سے” ایک بدن ہونے کے لئے بپتسمہ لیا کیونکہ ہم سب نے خواہ یہودی ہوں خواہ یونانی، خواہ غلام ہو خواہ آزاد ایک ہی رُوح کے وسیلہ سے ایک بدن ہونے کے لئے بپتسمہ لیا اور ہم سب کو ایک ہی رُوح پلایا گیا۔ چنانچہ بدن میں ایک ہی عُضو نہیں بلکہ بہت سے ہیں۔ اگر پاون کہے کہ میں ہاتھ نہیں اس لئے بدن کا نہیں تو وہ اس سبب سے بدن سے خارج تو نہیں۔ اگر سارا بدن آنکھ ہی ہوتا تو سُننا کہاں ہوتا؟ اگر سُننا ہی سُننا ہوتا تو سُونگھنا کہاں ہوتا؟ مگر فی الواقع خُدا نے ہر ایک عضو کو بدن میں اپنی مرضی کے موافق رکھا ہے۔ اگر وہ سب ایک ہی عضو ہوتے تع بدن کہاں ہوتا؟ مگر اب اعضا تو بہت سے ہیں لیکن بدن ایک ہی ہے۔ پس آنکھ ہاتھ سے نہیں کہہ سکتی کہ میں تیری محتاج نہیں اور نہ سر پاوں سے کہہ سکتا ہے کہ میں تمہارا محتاج نہیں۔۔۔۔۔ مگر خُدا نے بدن کو اس طرح مرکب کیا ہے کہ جو عُضو محتاج ہے اُسی کو زیادہ عزت دی جائے۔ تاکہ بدن میں تفرقہ نہ پڑے بلکہ اعضا ایک دوسرے کی برابر فکر رکھیں۔ پس ایک عضو دُکھ پاتا ہے تو سب اعضا اس کے ساتھ دُکھ پاتے ہیں اور اگر ایک عضو عزت پاتا ہے تو سب اعضا اُس کے ساتھ خُوش ہوتے ہیں۔ اسی طرح تُم مل کر مسیح کابدن ہو اور فرداً فرداً اعضا ہو”۔ IKDS 298.1

    اس کے بعد رُوح کی ہدایت سے رسُول نے جو کلام کیا وہ اُس وقت سے لے کر آج تک ہر مردوزن کی مردہ رُوحوں میں جان پھونکنے اور ہمت بڑھانے کا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ “اگر میں آدمیوں اور فرشتوں کی زبانیں بولوں اور محبت نہ رکھوں تو میں ٹھنٹھناتا پیتل اور جھنجھناتی جھانجھ ہوں۔ اور اگر جھے نبوت ملے اور سب بھیدوں اور کل علم کی واقفیت ہو اور میرا ایمان یہاں تک کامل ہو کہ پہاڑوں کو ہٹا دوں اور محبت نہ رکھوں تو میں کچھ بھی نہیں۔ اور اگر اپنا سارا مال غریبوں کو کھلا دوں یا اپنا بدن جلانے کو دے دوں اور محبت نہ رکھوں تو مجھے کچھ بھی فائدہ نہیں۔ IKDS 299.1

    وہ شخص جس کے دل میں اپنے بھائی بندوں کے لئے محبت نہیں ہے وہ خواہ کتنا ہی مذہبی اور پارسا ہونے کا دعویٰ کیوں نہ کرے وہ مسیح کا حقیقی شاگرد نہیں کہلا سکتا۔ خواہ اُس کا ایمان کامل ہو اور اپس سے مُعجزات بھی صادر ہوتے ہوں لیکن اگر اس کے دل میں انسانوں کے لئے محبت نہیں تو یہ سب کچھ فضول ہے۔ خواہ وہ فیاض دلی کا مظاہرہ کرے اور غریبوں کو اپنا مال کھلا دے لیکن اگر اُس کے دل میں آ کر خُدا کے نام پر شہادت بھی پالے اور اس کا یہ عمل محبت سے مُتحرک نہ ہو تو خُدا کے نزدیک یہ جنون اور ریاکاری سے کچھ زیادہ نہیں۔ IKDS 299.2

    “محبت صابر ہے اور مہربان، محبت حسد نہیں کرتی۔ محبت شیخی نہیں مارتی اور پُھولتی نہیں”۔ پاکیزہ طرب و مسرت دل کی فروتنی سے چشمہ کی مانند پھوٹ نکلتی ہے۔ شریف و نجیب اور شائشہ چالچلن کی نیو صبر، محبت اور خُدا کی فرمانبرداری پر استوار ہوتی ہے۔ محبت “نازیبا کام نہیں کرتی۔ اپنی بہتری نہیں چاہتی۔ بدکاری سے خُوش نہیں ہوتی”۔ مسیح کی سی محبت، دوسروں کے کردار اور نیت وارادہ کو جائز مقام دیتی ہے۔ یہ اُن کے غیر ضروری عیّوب تلاش نہیں کرتی۔ اور نہ ہی ذوق و شوق سے بُری باتوں اور خبروں پر کان لگاتی ہے۔ بلکہ دوسروں کے بارے نیک رائے رکھتی ہے۔ محبت “بدکاری سے خُوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خُوش ہوتی ہے۔ سب کچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کچھ یقین کرتی ہے۔ سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔ محبت کو زوال نہیں۔ کیونکہ یہی خُدا کا بڑا وصف ہے اور اس کا مالک اس قیمتی خزانے کو خُدا کے شہر میں لے جا سکے گا۔ “غرض ایمان اُمید محبت یہ تینوں دائمی ہیں مگر افضل ان میں محبت ہے”۔ IKDS 299.3

    کُرنتھس کے ایماندار بھائی اخلاقی انحطاط کا اس قدر شکار ہو گئے کہ بعض ایک نے مسیحی ایمان کے چند عقائد کو ترک کر دیا۔ اور چند ایک تو اس حد تک پہنچ گئے کہ انہوں نے روز قیامت کو ماننے سے انکار کر دیا۔ جس کے بارے پولُس نے بڑی صفائی سے مسیے یسوع کا مردوں میں سے جی اٹھنے کا حوالہ دے کر اور ثبوت فراہم کر کے تدارک کر دیا۔ اس نے اعلانیہ بتایا کہ مسیح یسوع کتاب مقدس کے مُطابق تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھا، جسے پہلے کیفا اور بعد میں بارہ بھائیوں نے دیکھا۔ اور ایک بار پانچ سو سے زائد بھائیوں کو ایک ساتھ دیا جن میں سے اکثر اب تک موجودد ہیں اور بعض مسیح میں سو گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ یعقوب کو دکھائی دیا پھر سب رسُولوں کو۔ اور سب سے پیچھے مجھ کو”۔ چنانچہ لکھا ہے۔۔۔۔۔ IKDS 300.1

    “مسیح کتاب مقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے موا اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتاب مقدس کے مطابق جی اُٹھا۔ اور کیفا کو اور اس کے بعد ان بارہ کو دکھائی دیا پھر پانچ سو سے زیادہ بھائیوں کو ایک ساتھ دکھائی دیا۔ جن میں سے اکثر اب تک موجود ہیں اور بعض سو گئے۔ پھر یعقوب کو دکھائی دیا۔ پھر سب رسُولوں کو اور سب سے پیچھے مجھ کو”۔ اکرنتھیوں ۳:۱۵-۸۔ IKDS 300.2

    قائل کرنے والی قوت کے ساتھ رسُول نے قیامت کی سچائی کی منادی کی۔ اس نے کہا اگر “مردوں کی قیامت نہیں تو مسیح بھی نہیں جا اُٹھا۔ اور اگر مسیح نہیں جی اُٹھا تو ہماری منادی بھی بے فائدہ ہے اور تمہارا ایمان بھی بے فائدہ۔ بلکہ ہم خُدا کے جھوٹے گواہ ٹھہرے۔ کیونکہ ہم نے خُدا کی بابت یہ گواہی دی کہ اس نے مسیح کو جلایا۔ حالانکہ نہیں جلایا اگر بالفرض مردے جی نہیں اُٹھتے اور اگر مسیح نہیں جی اُٹھا تو ہمارا ایمان بے فائدہ تُم اب تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہو۔ بلکہ جو مسیح میں سو گئے ہیں وہ بھی ہلاک ہوئے۔ اگر ہم صرف اسی زندگی میں مسیح میں اُمید رکھتے ہیں تو سب آدمیوں نے زیادہ بد نصیب ہیں۔ لیکن فی الواقع مسیح مردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور جو سو گئے ہیں اُں میں پہلا پھل ہوا”۔ IKDS 300.3

    پولُس رسُول کُرنتھس نے بھائیوں کے اذہان کو اُس فتح مند اور مُبارک صبح کی طرف مبذول کر دیا جب تمام سونے والے مقدسین زندہ کئے جائیں گے تاکہ آئندہ تا ابد اپنے خُدا وند کے ساتھ رہ سکیں۔ رسُول نے کہا” دیکھو میں تُم سے بھید کی بات کہتا ہوں۔ ہم سب تو نہیں سوئیں گے مگر سب بدل جائیں گے۔ اور ایک دم ایک پل میں پچھلا نرسنگا پُھونکتے ہی ہو گا کیونکہ نرسنگا پھونکا جائے گا اور مردے غیر فانی حالت میں اُٹھینگے اور ہم بدل جائیں گے کیونکہ ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے اور یہ مرنے والا جسم حیات ابدی کا جامہ پہنے۔ اور جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جسم حیات ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پُور ہو گا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لقمہ ہو گئی۔ اے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت تیرا ڈنک کہاں رہا مگر خُدا کا شُکر ہے جو ہمارے خُدا وند یسُوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔ ”IKDS 301.1

    جو وفادار ہیں پُر شکوہ فتح اُن کی راہ دیکھ رہی ہے۔ پولُس نے اُن ممکنات کو محسُوس کر کے جو کُر نتھس کے ایمانداروں کے سامنے تھیں اُنہیں وہ کچھ دیا جو اُنہیں حرامکاری اور خود غرضی سے بالا تر کر دے اور زندگی کو بقا کی اُمید سے جلالی بنا دے۔ چنانچہ بڑی خلوص نیتی سے اُس نے اُنہین نصیحت کی کہ مسیح میں جو اُنہیں بلاہٹ ملی ہے اُس سے وفادار رہیں۔ “پس اے میرے عزیز بھائیو! ثابت قدم اور قائم رہو اور خُداوند کے کام میں ہمیشہ افزائش کرتے رہ کیوں کہ یہ جانتے ہو کہ تُمہاری محنت خُداوند میں بے فائد ہ نہیں ہے”۔ IKDS 301.2

    یوں رسُول نے حتمی اور موثر انداز میں ان کی ہمت افزائی کی کہ وہ جھوٹے اور خطرناک نظریات، دستُور اور اعمال کی درُستی کر لیں جو کُرنتھس کی کلیسیا پر غلبہ پا رہے ہیں۔ اُس نے بڑی دلجوئی اور محبت کی رُو سے کھر کھری سُنا دیں۔ اُس کی تنبیہ اور ملامت میں خُدا کے تخت سے اُن پر نُور چمک رہا تھا تاکہ اُن کے پوشیدہ گناہوں کو آشکارہ کرے جو اُن کی زندگیوں کو برباد کر رہے تھے۔ تاہم رسُول کو فکر دامنگیر ہوئی کہ نہ جانے اس خط کو پا کر اُن کا کیا ردِ عمل ہو گا؟IKDS 302.1

    خط ارسال کرنے کے بعد پولُس کے دل میں یہ خوف پیدا ہو گیا کہ کہیں اس خط سے بھائیوں کی دل آزاری نہ ہو جن کے فائدہ کے لئے اُس نے لکھا ہے۔ کبھی کبھی وہ اس بارے تلخ جان اور خوفزدہ ہو جاتا، اور چاہتا کہ اُن الفاظ کو یاد کرے جو اس نے لکھے تھے۔ وہ حضرات جو اپنی ذمہ داری کو رسُول کی طرح محسُوس کرتے ہیں یا اپنی کلیسیاوں اور اداروں کو رسُول کی طرح چاہتے ہیں وہ بیشک رسُول کی اس آزُردگی اور خُود الزامی کو سراہیں گے۔ خُداوند کے وہ خادم جو اُس کی خدمت کا بوجھ اپنے سینے پر لئے پھرتے ہیں وہ بھی پولُس کی خدمت کشمکش اور پریشانی کے تجربہ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ کلیسیا میں بٹوارے کے بوجھ تلے، اور جن کی طرف سے ہمدردی اور مدد کی توقع تھی اُن کی طرف سے بے وفائی اور دھوکا، کلیسیاوں کی طرف سے خطرے کا اندیشہ جو بدی کی آماجگاہ بن گئِ تھیں، رسُول اُن کو انتباہ کرنے پر مجبُور ہو گیا۔ تاہم اُسے خوف لاحق ہوا مبادہ اُس نے ان کے ساتھ زیادہ سختی برتی ہو اُس نے تشویش اور پریشانی کے عالم میں اپنے خط کے ردعمل کا شدت سے انتظار کیا۔ IKDS 302.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents