Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۵۰ - موت کی سزا

    پولُس کی نیرو کے سامنے آخری پیشی کے دوران شہنشاہ خُدا کے خادم کی باتوں سے اسقدر متاثر ہوا کہ نہ اُس نے اُس کے خلاف اور نہ ہی حق میں فیصلہ دیا۔ لیکن پھر جلد ہی بادشاہ کا سفلہ پن اور نفرت رسُول کی طرف پلٹ آئی۔ مسیحی مذہب کے اس طرح سرُعت سے بڑھنے کو روکنے کی نااہلی سے برانگیختہ ہو کر اور شاہی خاندان میں سے بھی بعض کو مسیحی مذہب قبول کرنے سے باز نہ رکھ سکنے پر اُس نے رسُول کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا فیصلہ کر لیا۔ لہٰذا نیرو نے پولُس کو موت کی سزا سنا دی۔ چونکہ رومی شہری کو اذیت دینا ممنوع تھا چنانچہ پولُس کا سر قلم کرنے کا حُکم دیا گیا۔ IKDS 477.1

    پولُس کو خفیہ طور پر مقتل گاہ میں پہنچایا گیا۔ اور وہاں بہت ہی کم تماشبین کو جانے کی اجازت دی گئی کیونکہ جلا دوں کو پہلے سے ہی پولُس کے اثر و رسوخ کے بارے بتا دیا گیا تھا اور اُنہیں ڈر تھا کہ کہیں اس منظر کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگ مسیحیت کے حلقہ بگوش نہ ہو جائیں۔ رسُول کو مقتل گاہ کی طرف پُر سکُون اور ہشاش بشاش جاتے ہوئے دیکھ کر سخت گیر اور ظالم سے ظالم سپاہی بھی اُس کے کلام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ جو اُس کی شہادت کے وقت وہاں موجود تھے جب اُنہوں نے دُشمنوں کے لئے اُس کی معاف کرنے والی رُوح اور مسیح میں غیر متزلزل ایمان کو دیکھا تو یہ سب کچھ اُن کی زندگی کے لئے قُوت فیصلہ ثابت ہوا۔ جن کو پولُس نے کلام سُنایا تھا اُن میں سے بہتیرے مسیح یسوع پر ایمان لائے اور اُس کے خون سے اپنے گُناہوں کو دھو ڈالا۔ اور بغیر خوف و خطر مسیح کے خون کی مہر اپنے ایمان پر ثبت کر لی۔ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک رسُول مسیحیوں کو اپنے کلام کی سچائی کی گواہی پیش کرتا رہا۔ IKDS 477.2

    “اسلئے کہ خُدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکاتا کہ خُدا کے جلال کی پہچان کا نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گر ہو لیکن ہمارے پاس یہ خزانہ مٹی کے برتنوں میں رکھا ہے تاکہ یہ حد سے زیادہ قُوت ہماری طرف سے نہیں بلکہ خُدا کی طرف سے معلوم ہو۔ ہم ہر طرف سے مصیبت تو اُٹھاتے ہیں لیکن لا چار نہیں ہوتے۔ حیران تو ہوتے ہیں لیکن نااُمید نہیں ہوتے۔ ستائے تو جاتے ہیں مگر اکیلے نہیں چھوڑے جاتے۔ گرائے تو جاتے ہیں لیکن ہلاک نہیں ہوتے۔ ہم ہر وقت اپنے بدن میں یسوع کی موت لئے پھرتے ہیں تاکہ یسوع کی زندگی بھی ہمارے فانی بدن میں ظاہر ہو”۔۲۔کرنتھیوں ۶:۴۔۱۰IKDS 478.1

    یہ ساری معموری اور بھر پوری بذات خُود اُس میں موجود نہ تھی بلکہ یہ سب کچھ اُسے اُسی رُوح کے ذریعہ نصیب ہوتا تھا جس کی بدولت وہ ہر خیال کو قید کرتے یسوع کی مرضی کے تابع کر دیتا تھا۔ چنانچہ نبی فرماتا ہے “جس کادل قائم ہے تُو اُسے سلامت رکھے گا کیونکہ اُس کا تو کل تجھ پر ہے” یسعیاہ ۳:۲۶۔ وہ سکون، وہ اطمینان جو رسُول کے چہرے سے عیاں تھا اُس کے باعث بہت سی روحیں کے لئے جیتی گئیں۔ IKDS 478.2

    رسُول بہشت کی سی فضا اپنے ساتھ لئے پھرتا تھا۔ اور جتنوں کو اُس کی رفاقت اور دوستی کا موقع ملا اُن سبھوں پر آشکارہ ہو گیا کہ یہ مسیح کے ساتھ مربوط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس کی زندگی اُسی سچائی کا نمونہ تھی جس کا وہ پرچار کرتا ہے، اسی بات نے اُس کی منادی کو پُر تاثیر بنا دیا۔ پاک اور مقدس زندگی کی لا شعوری تاثیر نہایت ہی اعلیٰ اور قائلیت سے معمور وعظ ہے، جو مسیحیت کے حق میں دیا جا سکتا ہے۔ بحث و مباحثے سے تو صرف تلخی اور مخالفت ہی بڑھتی ہے مگر خُدا پرستی اور خُدا ترسی کا نمونہ ایسی قُوت ہے جس کی مزاحمت ممکن نہیں۔ IKDS 478.3

    پولُس کو اُن دُکھوں کی پرواہ نہیں تھی جو اُسے سہنے تھے بلکہ اُسے اُن مسیحیوں کی فکر تھی جنہوں نے پولُس کے شہادت پانے کے بعد نفرت،تعصب اور ظلم و تشدد کا مقابلہ کرنا تھا۔ تھوڑے سے مسیحی جو اُس کے ساتھ مقتل گاہ تک گئے تھے اُن کو اُس نے اُن کے لئے جو راستبازی کی خاطر ستائے جاتے ہیں دیئے گئے وعدوں کو یاد دلا کر حوصلہ بخشا۔ اُس نے انہیں یقین دلایا کہ خُداوند کے وفادار بچے جو آزمائے جاتے ہیں خُداوند نے جو کچھ اُن کے حق میں فرمایا ہے وہ پُورا ہو گا۔ تھوڑی دیر کے لئے وہ پست ہمت اور مایوس ہو سکتے ہیں، شائد اُنہیں دُنیا کی آسائشیں بھی میسر نہ آئیں مگر وہ اپنے دلوں کو خُدا وند کی وفاداریاں یاد دلا کر یوں حوصلہ بخش سکتے ہیں۔ “جس کامیں نے یقین کیا ہے اُسے جانتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ میری امانت کی اُس دن تک حفاظت کر سکتا ہے”۔۲۔تیمتھیس ۱۲:۱۔۔۔ دُکھوں، مصیبتوں اور آزمائشوں کی رات ختم ہونے کو ہے اور اس کے بعد پُر سکُون اور کامل دن کی سہانی صبح نمودار ہونے کو ہے۔ IKDS 479.1

    رسُول غیر یقینی حالت اور خوف و ہراس سے کہیں دُور بہت دُور خُوشی و طرب، اور مبارک اُمید پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ جب وہ شہادت پانے کی جگہ پر کھڑا تھا تو اُس کی نظریں جلاد کی تلوار پر نہیں اور نہ ہی اُس دھرتی پر جمی تھیں جس پر بہت جلد اُس کا خون گرنے کو تھا۔ بلکہ اُس کی نظریں ابدی خُدا کے تخت پر جمی تھیں جو آسمان پر ہے۔ IKDS 479.2

    راسخ ایمان کے اس شخص نے یعقوب کی سیڑھی کو تھام لیا جو اُس نے رویا میں دیکھی تھی۔ اور مسیح یسوع اُس سیڑھی کی علامت ہے جس نے انسان کو خُدا کے ساتھ ملا دیا۔ اُس کے ایمان کو تقویت ملی جب اُس نے اُن نبیوں اور قدیم آبائی بزرگون کو یاد کیا جنہوں نے اسی خُدا کو تھا ما تھا جو رسُول کی مدد اور باعث تشفی تھا اور جس کی خاطر وہ جان دینے کو تھا ۔ یہ مقدس لوگ جنہوں نے صدیوں پہلے خُدا وند کے سچا اور عادل ہونے کی گواہی دی اس سے اُس کے ایمان کو بڑی تقویت ملی ۔ اُس نے اپنے ہم خدمت رسولوں کو ایمان کی آنکھ سے دیکھتا ہے جنہوں نے مسیح کی انجیل کی منادی کی اور مذہبی تعصب مخالفتوں، بُت پرستوں کی اوہام پرستی، ظلم و ستم اور تحقیر و تمسخر اور لعنت ملامت کا سامنا کیا اور اپنی زندگیوں کی پرواہ نہ کر کے ظلم اور ظلمات میں گھری ہوئی دُنیا کو صلیب کی روشنی سے بُقعہ نُور بنا دیا۔ اس سے اُس کے ایمان کو مزید تقویت ملی۔ اُنہوں نے خُدا کے بیٹے اپنے نجات دہندہ کی گواہی دُنیا کے سامنے بھرپور گواہی دی۔ شکنجوں، غارت خانوں، عقوبت خانوں، توپوں کے دھانوں، غاروں، شیروں کی ماندوں سے شہیدوں کے فتح کے نعروں کی آواز اُس کے کانوں میں پڑ رہی تھی۔ وہ اُن ثبت قدم روحوں کی گواہی سُنتا ہے۔ جنہوں نے محتاجی، بدحالی، بے نواہی اور پریشانی اور عذاب میں مبتلا ہونے کے باوجود بے خوف و خطر اپنے ایمان کی گواہی یہ کہتے ہوئے دی “جس کا میں نے یقین کیا ہے اُسے جانتا ہوں” اُنہوں نے ایمان کی خاطر اپنی جانیں یہ کہہ کر قربان کر دیں کہ جس میں اُنہوں نے اپنا بھروسہ رکھا ہے وہ اُنہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچانا جانتا ہے۔ IKDS 479.3

    مسیح یسوع کے فدیہ کے ذریعہ، اُس کے خون میں اپنے گناہوں کو دھو کر اور اُسی کی راستبازی سے ملبس ہو کر پولُس کی اپنی گواہی تھی کہ اس کی جان خُدا وند کی نظر میں بُہت قیمتی ہے۔ اس کی زندگی مسیح کے ساتھ خُدا وند میں پوشیدہ ہوگئی۔ اسے پُورا پُورا یقین ہو گیا کہ جس نے موت پر فتح پائی ہے وہ اس امانت کو بھی سنبھال کر رکھے گا جو میں اس کے سپُرد کروں گا۔ اُس وقت اسے مسیح کا وعدہ یاد آتا ہے “میں اسے آخری دن پھر زندہ کروں گا”۔ یوحنا ۴۰:۶۔۔۔۔ اب اس کی اُمید اور اس کے خیالات مسیح کی آمد ثانی پر مرکوز ہیں۔ اور جب جلاد کی تلوار شہید کی گردن کے قریب آتی ہے اور موت اور رسُول کا درمیانی فاصلہ ختم ہو جاتا ہے تو اس کے خیالات اس روز کی طرف چلے جاتے ہیں جس دن زندگی دینے والا مسیح خُدا وند اُسے زندہ کر کے مقدسین میں شامل ہونے کے لئے خُوش آمدید کہے گا۔ IKDS 480.1

    صدیاں بیت گئی ہیں جب بوڑھے پولُس نے خُدا کے کلام اور مسیح کی گواہی کے لئے اپنا خون بہایا۔ کسی بھی وفادار ہاتھ نے آنے والی نسلوں کے لئے اس مقدس شخص کی زندگی کے آخری منظر کو قلمبند نہیں کیا۔ مگر الہام سے اُس کی وصیّت ہمارے لئے محفوظ ہوگئی۔ نرسنگے کی آواز کی طرح ہر زمانہ میں اس کی آواز کی صدائے باز گشت سنائی دی جارہی ہے۔ “کیونکہ میں اب قُربان ہو رہا ہوں اور میرے کُوچ کا وقت آ پہنچا ہے۔ میں اچھی کُشتی لڑ چُکا۔ میں نے دوڑ کو ختم کر لیا۔ میں نے ایمان کو محفوظ رکھا۔ آئندہ کے لئے میرے واسطے راستبازی کا وہ تاج رکھا ہوا ہے جو عادل منصف یعنی خُداوند مجھے اُس دن دے گا اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ اُن سب کو بھی جو اس کے ظہُور کے آرزو مند ہوں۔ ” ۲۔تیمتھیس ۶:۴۔۸۔IKDS 481.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents