Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۲۷ - افسس

    اعمال ۱:۱۹-۲۰

    جب اُپلوس کُرنتھس میں منادی کرنے میں مشغُول تھا، پولُس نے افسس میں واپس جانے کا اپنا وعدہ پُورا کیا۔ تھوڑی دیر یروشلیم میں قیام کرنے کے بعد اُس نے تھوڑا سا وقت انطاکیہ میں بھی گزارہ جہاں اس نے شُروع شُروع میں خدمت انجام دی تھی۔ پھر اس نے بر صغیر کے راستہ سفر کیا۔ “اور ترتیب وار گلتیہ کے علاقہ اور فروگیہ سے گزرتا ہُوا سب شاگردوں کو مضبوط کرتا گیا۔” یہ کلیسیائیں اُس نے خود قائم کی تھیں۔ IKDS 264.1

    رسُولوں کے زمانہ میں برصغیر ایشیا کا مغربی حصہ ایشیا کا رُومی صوبہ کہلاتا تھا۔ افسس اُس کا دارُالخلافہ ہونے کے علاوہ بڑا تجارتی مرکز بھی تھا۔ اس کی بندر بندرگاہ ہر وقت بحری جہازوں سے اور اس کے بازار تمام ملکوں کے باشندوں سے کھچا کھچ بھرے رہتے تھے۔ کُرنتھس کی طرح یہ بھی پھلدار مشنری فیلڈ ثابت ہُوا۔ IKDS 264.2

    یہودی اب تک تمام مہذب ممالک میں پھیل چکے تھے اور مسیح کی آمد کے متوقع تھے۔ جب یوحنا بپتسمہ دینے والا منادی کرتا تھا تو بہتیرے یہودی جو سالانہ عید منانے یروشلیم آیا کرتے تھے وہ یردن کے کنارے یوحنا کی منادی سُنتے۔ وہاں اُنہوں نے یوحنا کی زبانی سُنا تھا کہ یسُوع ناصری ہی مسیح موعود ہے اور وہ یہ خُوشخبری اپنے اپنے ملک میں لے گئے۔ یوں دُنیا کے تمام حصوں میں یوحنا کی منادی پہنچ گئی۔ اور اُس نے رسُولوں کے لئے راستہ تیار کر دیا”۔ IKDS 264.3

    افسس پہنچنے پر پولُس کو وہاں بارہ بھائی ملے جو اُپلوس کی طرح یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگرد رہے تھے۔ اور اُپلوس کی طرح اُنہوں نے بھی مسیح کے مشن کے بارے کچھ تعلیم پا رکھی تھی بے شک وہ اُپلوس کی سی خوبیوں کے حامل نہ تھے۔ مگر جو تعلیم اُنہوں نے پائی تھی اُسے اُپلوس کی طرح ہی تندہی سے پھیلانے میں مشغول تھے۔ مگر یہ بھائی رُوح القدس کے مشن سے بالکل واقف تھے۔ اور جب پولُس نے اُن سے پُوچھا کہ کیا تُم نے رُوح القدس پایا تو اُن کا جواب یہ تھا “ہم نے تو سُنابھی نہیں کہ رُوح القدس نازل ہُوا ہے” پس تُم نے کس کا بپتسمہ لیا پولُس نے پوچھا؟ اُنہوں نے کہا یوحنا کا بپتسمہ۔ IKDS 265.1

    پھر پولُس نے اُن کے سامنے عظیم سچائیاں رکھیں جو مسیحی اُمید کی بُنیاد ہیں۔ اُس نے مسیح کی زمینی زندگی کے بارے اُن کو بتایا، اور پھر اپس کی لعنتی موت کا ذکر کیا۔ اُس نے بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ زندگی کے مالک نے قبر کے بند کھول کر مسیح کو زندہ کیا اور موت کو مفتوح کیا۔ اُس نے مسیح کے اُس حُکم کو دُہرایا جو منجی عالم نے اپنے شاگردوں کودیا۔ “یسُوع نے پاس آکر اُن سے باتیں کیں اور کہا کہ آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ پس تُم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناو اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو”۔ متی ۱۸:۲۸-۱۹۔۔۔۔ ۔ پولُس نے اُن کو مسیح کا یہ وعدہ بھی بتایا کہ وہ مدد گار بھیجے گا جس کی قوت کے ذریعے بہت سے نشان اور عجیب کام وقوع میں آئیں گے۔ اور پھر پولُس نے اُنہیں بتایا کہ کس شان سے پتِکُست کے دن اس وعدے کی تکمیل ہوئی۔ IKDS 265.2

    بڑی خُوشی اور شُکر گزاری اور گہری دلچسپی سے بھائیوں نے پولُس کی باتیں سُنیں۔ ایمان سے اُنہوں نے مسیح کے کفارے کی قُربانی کی صداقت کو قبُول کیا اور مسیح یسُوع کو بطور اپنا نجات دہندہ تسلیم کیا۔ پھر اُنہوں نے مسیح کے نام کا بپتسمہ لیا اور جب پولُس نے اُن پر ہاتھ رکھے تو رُوح القدس اُن پر نازل ہُوا۔ یوں اُنہوں نے رُوح القدس کا بھی بپتسمہ لیا جس نے انہیں طرح طرح کی زبانیں بولنے اور نبوت کرنے کی توفیق دی۔ اب وہ افسس اور اس کے گرد ونواح اور برصغیر ایشیا میں مشنری خدمت کرنے کے قابل ہو گئے۔ IKDS 265.3

    فروتنی اور سیکھنے کی رُوح کو اپنانے سے ہی ان لوگوں نے وہ تجربہ حاصل کیا جس کی بدولت وہ خُداوند کے تاکستان میں خدمت کرنے کے قابل ہو سکے۔ اُن کا نمونہ مسیحیوں کے لئے بڑی قدر و منزلت کا حامل ہے۔ بہتیرے ایسے ہیں جو الہٰی اور رُوحانی زندگی میں بہت ہی کم ترقی کرتے ہیں کیونکہ وہ سیکھنے کی ضرُورت کو محسُوس ہی نہیں کرتے۔ وہ خُدا کے کلام کی سطحی تعلیم پر ہی قناعت کرتے ہیں۔ وہ اپنے عقیدے اور عادات میں کوئی تبدیلی لانا نہیں چاہتے بدیں وجہ وہ عظیم نُور کو حاصل کرنے کے لئَ کوئی کوشش بھی نہیں کرتے۔ IKDS 266.1

    اگر مسیح کے حواری حکمت کی دل و جان کوشش کرتے تو وہ سچائی کے بڑے بڑے خزانوں کو پاتے جن کو وہ ابھی تک جانتے بھی نہ تھے۔ وہ جو خُود کو پُورے طور پر خُدا وند کے سپُرد کر دے گا ذاتِ الہٰی ضرور اُس کا دست پناہ بنے گا اور اُس کی صحیح سمت میں رہبری فرمائے گا۔ بے شک وہ معمولی شخص ہی کیوں نہ ہو اور بڑی صفات کا بھی مالک نہ ہو، لیکن اگر وہ خُدا کی ہر ہدایت پر بڑی لگن اور محبت سے عمل کرے گا تو اس کی قوا پاکیزہ کی جائیں گی اور وہ سرفراز ہو گا۔ اس میں کام کرنے کی قوت بھر دی جائے گی اور اُس کی استعداد اور قابلیتیں بڑھا دی جائیں گی۔ اور جیسے ہی وہ الہٰی حکمت کے اسباق کا ذخیرہ کرتا جائے گا تو اُسے مقدس فریضہہ ادا کرنے کی بخشش ملتی جائے گی، اور وہ اپنی زندگی کو خُدا وند کی عزت و بزرگی اور دُنیا کے لئے باعث برکت بنا سکے گا۔ IKDS 266.2

    “تیری باتوں کی تشریح نور بخشتی ہے۔ وہ سادہ دلوں کو عقل مند بناتی ہے”۔ زبور ۱۳۰:۱۱۹ آج بھی دُنیا میں بہتیرے ایسے ایماندار ہیں جو افسس کے ایمانداروں کی طرح رُوح القدس کی خدمت سے بےبہرہ ہیں۔ مگر ہمیں یاد ہونا چاہئے کہ کلام مقدس میں اس سے زیادہ صفائی کے ساتھ کوئی اور سچائی سکھائی نہیں گئی۔ انبیاء اور رسُول اُسے ہی اپنی زندگی کا موضوع اور راگ بناتے رہے ہیں۔ مسیح یسُوع نے خود نباتات کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اسی طرح رُوحانی زندگی بھی قائم رہتی ہے۔۔۔ انگور کا رس جڑوں سے اُوپر تنے کی طرف جاتا اور شاخوں تک رسائی کرتا ہے اور درخت کے نشوونما پانے میں مدد دیتا اور پھر پھُول اور پھل لانے میں ممد ثابت ہوتا ہے۔ بعینہ رُوح القدس کی زندگی بخش قوت نجات دہندہ سے صادر ہوتی اور سرائیت کرتی جاتی ہے، ظاہری اخلاق اور قوت محرکہ کی تجدید کرتی اور تمام خیالات کو قید کرکے خُدا وند کے تابع کرتی ہے۔ یوں رُوح القدس حاصل کرنے والے کو اس قابل کرتی ہے کہ وہ نیکی و بھلائی کے مقدس کام کر سکے۔ IKDS 266.3

    اِس رُوحانی زندگی کا دینے والا غیر مرئی ہے۔ اور کس طرح یہ زندگی دی جاتی اور قائم رہتی ہے اس کے بارے صحیح صحیح بتانا انسانی قوت اور منطق سے بعید ہے۔ تاہم رُوح القدس کا عمل و تاثیر دونوں کلام مقدس سے مطابقت رکھتے ہیں۔ جیسے مادی اور فطری دُنیا میں ہے ویسے ہی رُوحانی دُنیا کا حال ہے۔ جسمانی زندگی لمحہ بہ لمحہ الہٰی قوت کی بدولت زندہ و جاوید رہتی ہے تاہم یہ براہِ راست معجزہ کی بدولت قائم نہیں بلکہ یہ ان برکات کے باعث ہے جو ہماری رسائی میں ہیں۔ پس روحانی زندگی کا انحصار بھی ان ذرائع پر منحصر ہے جو ذاتِ الہٰی نے مہیا کر رکھے ہیں۔ اگر مسیح خُداوند کے حواری کو “کامل بننا اورمسیح کے کامل قد کے اندازہ تک پہنچنا ہے” تو اسے زندگی کی روٹی اور نجات کا پانی پینا ہو گا، اسے جاگتے اور دُعا کرتے رہنا اور ان ہدایات پر عمل پیرا رہنا ہو گا جو خُداوند کے پاک کلام میں دی گئی ہیں۔ IKDS 267.1

    یہودی مسیحیوں کے تجربہ میں ہمارے لئے ایک اور سبق بھی ہے کہ جب اُنہوں نے یوحنا سے بپتسمہ لیا تو وہ پُوری طرح مسیح کے مشن سے واقف نہ تھے کہ وہ ہمارے گناہ اپنے اوپر اُٹھانے آیا۔ یہ اُن کی سخت خطا تھی تاہم صاف شفاف روشنی تلے اُنہوں نے مسیح یسُوع کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کر لیا اور اسی کے ساتھ اُن کی ذمہ داریوں میں تبدیلی واقع ہو گئی۔ جونہی اُنہوں نے پاک ترین ایمان پایا اسی کے مطابق ان کی زندگیوں میں تبدیلی واقع ہو گئی۔ اس تبدیلی کے بدلے اور ان کے ایمان کی بدولت انہیں یسُوع مسیح کے نام پر بپتسمہ دیا گیا۔ اپنے دستُور کے موافق پولُس افسس میں یہودیوں کے عبادت خانہ میں منادی کرنے لگا۔ تین ماہ تک وہ مسلسل وہاں خدمت انجام دیتا رہا۔ “پھر وہ عبادت خانہ میں جا کر تین مہینے تک دلیری سے بولتا اور خُدا کی بادشاہی کی بابت بحث کرتا اور لوگوں کو قائل کرتا رہا” شروع شروع میں تو اُسے مثبت جواب ملا اور اُس کی خدمت پھل لائی مگر جیسے دوسری جگہوں پر ہُوا یہاں بھی جلد مخالفت شُروع ہو گئی۔ “لیکن جب بعض سخت دل اور نافرمان ہو گئے بلکہ لوگوں کے سامنے اس طریق کو بُرا کہنے لگے” اور بڑی ہٹ دھرمی سے انجیل کی مخالفت کرنے لگے تو رسُول نے ہیکل میں منادی کرنا بند کر دیا۔ IKDS 267.2

    خدا وند کے رُوح نے سچائی کی تلاش میں تھے اُنہیں قائل کرنے کے لئے کافی شہادتیں موجود تھیں۔ مگر بہتیرے ایسے تھے جنہوں نے اپنے آپ کو تعصب اور کم اعتقادی کے حوالے کر دیا اور ان حتمی شہادتوں کی موجودگی میں بھی ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ اسی بات سے ڈرتے ہوئے کہ سچائی کے اِن مخالفوں کے ساتھ میل جول کے نتیجہ میں کہیں ایمانداروں کے ایمان کو ٹھیس نہ پہنچے، پولُس نے اُن سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ شاگردوں کو الگ کر کے پولُس اُنہیں ہر روز تُرنس کے مدرسہ میں ہدایات دیا کرتا تھا۔ اعمال ۹:۱۹ IKDS 268.1

    پولُس نے دیکھا “ایک وسیع اور کار آمد دروازہ کھلا ہے” بےشک وہاں مخالف بھی بہت سے تھے۔ ۱۔ کرنتھیوں ۹:۱۶ ۔۔۔۔ افسس صرف عالی شان شہر ہی نہ تھا وہاں ایشیا کے دوسرے شہروں کے مقابلہ میں بدکاری بھی حد سے زیادہ تھی۔ توہم پرستی، جنسی بے راہ روی، شہوت پرستی نے عوام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس کے مندروں کے زیرِ سایہ ہر طرح کا جرائم پیشہ پناہ لیتا کیونکہ وہ ہرطرح کی بدکاری کے اڈے بن چکے تھے۔ IKDS 268.2

    افسس دیوی ارتمس کی پوجا کا ہر دلعزیز مرکز تھا۔ ارتمس کے خوبصورت مندر کا چرچا تمام ایشیا بلکہ تمام دُنیا میں ہو تا تھا۔ اُس کی بے مثال شان و شوکت پر شہر ہی نہیں پُور قوم فخر کرتی تھی۔ روایت تھی کہ اس کا بُت آسمان سے اُترا ہے۔ اس پر علامات کے ذریعہ کچھ لکھا ہوا تھا جن کے بارے خیال کیا جاتا تھا کہ اُن میں بڑی بڑی قوت اور قدرت ہے، افسیوں نے ان نشانات کے بیان میں کتابیں لکھ رکھی تھیں اور یہ بھی کہ ان اشارات کوکیسے پڑھنا ہے۔ ان کتابوں کے جاننے والے زیادہ تر جادو گر تھے اور اُن اوہام پرست لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کرتے تھے جو ارتمس کے مندر میں پُوجا کے لئے آتے تھے۔ IKDS 269.1

    افسس میں خدمت کے دوران ذاتِ الہٰی نے پولُس پر خصوصی کرم کا ہاتھ رکھا۔ خُداوند کی قُدرت اس کی خدمت کے ساتھ منسلک تھی چنانچہ بہت سے مریضوں کو شفا ملی۔ “اور خُدا پولُس کے ہاتھوں سے خاص خاص معجزے دکھاتا تھا۔ یہاں تک کہ رومال اور پٹکے اس کے بدن چُھوا کر بیماروں پر ڈالے جاتے تھے اور ان کی بیماریاں جاتی رہتی تھیں۔ اور بُری رُوحیں اُن میں سے نکل جاتی تھیں” فوق الفطرت قوت کا اس قدر بڑا مظاہرہ اس سے پہلے افسس میں کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ اور نہ ہی افسس کے جادوگر، نجومی اور جھاڑ پھونک کرنے والے پولُس کی ہمسری کر سکے جب یہ معجزات یسُوع ناصری کے نام پر کئے جاتے تو افسس کے لوگوں کے سامنے یہ ثبوت تھا کہ آسمان کا خُدا وند دیوی ارتمس کے جادوگروں اور پجاریوں سے کہیں بڑھ کر طاقتور ہے۔ یوں خُداوند نے اپنے خادم کو ارتمس کے پجاریوں اور بُت پرستوں سے سربلند کیا۔ IKDS 269.2

    مگر وہ جس کے تابع سب بد رُوحیں ہیں اور جن پر اُس نے اپنے خادموں کو اختیار دے رکھا ہے وہ خُود اُن لوگوں پر مزید شرمندگی و ہزیمت اور شکست لانے کو تھا جو بے فائدہ اس کا مقدس نام لیتے ہیں۔ جادوگری موسیٰ کی شریعت کے مطابق ممنوع قرار دی گئی تھی اور جو اُس کا مرتکب ہوتا اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا تھا۔ اس کے باوجود بعض ملحد و برگشتہ یہودی چوری چُھپے گاہے بگاہے اس کا عمل کرتے۔ پولُس نے جب افسس میں منادی کی اُس وقت وہاں کچھ مرتد یہودی رہتے تھے۔ اُنہوں نے یہ اختیار کیا کہ جن میں بُری رُوحیں ہوں اُن پر خُدا وند یسُوع کا نام یہ کہہ کر پھونکیں کہ جس یسُوع کی پولُس منادی کرتا ہے میں تمہیں اس کی قسم دیتا ہوں۔ یہی کچھ سِکوا یہودی سردار کاہن کے سات بیٹوں نے کیا۔ جب اُنہیں کوئی آسیب زدہ ملا تو اُنہوں نے اپس بد روح کو یہی کہا۔۔۔ مگر بُری رُوح نے جواب میں اُن سے کہا کہ یسُوع کو تومیں جانتی ہوں اور پولُس سے بھی واقف ہوں مگر تُم کون ہو؟ اور وہ شخص جس پر بُری رُوح تھی کُود کر اُن پر جا پڑا اور دونوں پر غالب آ کر ایسی زیادتی کی کہ وہ ننگے اور زخمی ہو کر اُس گھر سے نکل بھاگے”۔ مسیح کے نام کی پاکیزگی کا یہ ایسا واضح اور ٹھوس ثبوت تھا جس میں کسی غلطی کا احتمال نہیں تھا۔ جو مسیح کے مشن میں بے سوچے سمجھے دخل اندازی کرے گا اُسے ایسے ہی شرمناک حالات سے دو چار ہونا ہو گا۔ “پاس سب پر خوف چھا گیا اور خُداوند یسُوع کے نام کی بزرگی ہوئی”۔ IKDS 270.1

    وہ حقائق جو پہلے مخفی رکھے گئے تھے اب اُن پر سے پردہ اُٹھ گیا۔ مسیحیت کو قبول کرتے وقت بعض ایک ایمانداروں نے تو پرستی کو پُوری طرح ترک نہ کیا تھا۔ کسی حد تک وہ ابھی بھی جادوگری کی مشق جاری رکھے ہوئے تھے اب اُنہوں نے اپنی غلطیوں کا اقرار اور اظہار کیا۔ اور بہت سے جادوگروں نے اپنی اپنی کتابیں اکٹھی کر کے سب لوگوں کے سامنے جلادیں۔ اور جب ان کی قیمت کا تخمینہ لگایا گیا تو پچاس ہزار روپے کی نکلیں۔ اسی طرح خُدا وند کلام زور پکڑتا، پھیلتا اور غالب ہوتا گیا۔ اپنی جادو کی کتابیں جلانے سے افسیوں کے ایمانداروں نے ثابت کیا کہ جن کتابوں پر وہ پہلے فخر کرتے تھے اب اُن سے کراہت کرتے ہیں۔ جادُو اور جادُو گری کے ذریعہ ہی اُنہوں نے خُدا وند کو خُداوند کو آزردہ اور اپنی روحوں کو زخمی کیا تھا۔ اور اب جادو کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کر کے اپنی حقیقی تبدیلی کا ثبوت فراہم کیا۔ IKDS 270.2

    جادو کی ان کتابوں میں بُری روحوں سے رابطہ کرنے کے اصُول و ضوابط مرتب تھے، نیز ابلیس کی پُوجا کرنے کے طریق درج تھے۔ اس کی مدد حاصل کرنے کے طرزِ عمل دیئے گئے تھے اور اس سے معلومات حاصل کرنے کے بھی طریقے رقم تھے۔ اگر شاگرد اُن کتابوں کو اپنے پاس رکھتے تو ان پر آزمائش غالت آسکتی تھی۔ اور اگر اُن کتابوں کو بیچتے تو دُوسروں کی راہ میں آزمائش کھڑی کر سکتے تھے۔ وہ تاریکی کی بادشاہت سے منحرف ہو گئے تھے اور اس کی قوت کو تہس نہس کرنے کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار تھے، یوں صداقت انسانوں کے تعصب اور دھن دولت پر غالب آگئی۔ IKDS 271.1

    مسیح کی اس قُدرت کے مظہر کے نتیجہ میں اوہام پرستی کے گڑھ میں مسیحیت بہت بڑی فتح سے ہمکنار ہوئی۔ بلکہ اس کا اثر اتنا دور دراز تک پہنچا کہ پولُس کو اس کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ افسس سے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر سُو پھیل گئی اور مسیح کا مشن بڑی تیزی سے ہر جگہ پھیل گیا۔ پولپس کے چلے جانے کے بعد بھی یہ سب کچھ لوگوں کی یاداشت میں محفوظ رہا اور انجیل کے لئے رُوحوں کو جیتنے کا سبب بنا رہا۔ IKDS 271.2

    خیال کیا جاتا ہے کہ بُت پرستوں کی توہمات کا بیسویں صدی کی تہذیب سے پہلے ہی خاتمہ ہو گیا۔ مگر خُداوند کاکلام فرماتا ہے اور ٹھوس حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے جادو کا عمل قدیم زمانہ میں ہوتا تھا موجودہ زمانہ میں بھی ہوتا ہے۔ قدیم زمانے کے جادُو کا طریقہ ء کار حقیقت میں آج بھی ویسا ہی ہے صرف نام بدل کر اسے اصالت رُوح یاسپر چولزم کا نام دے دیا گیا ہے۔ یہ عقیدہ کہ رُوح نہیں مرتی، مردہ عزیزوں کے بھیس میں ظاہر ہو کر ابلیس ہزاروں اذہان پر قبضہ جما چُکا ہے۔ جبکہ کلام مقدس یو ں فرماتا ہے ” کیوں کہ زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے پر مردے کچھ بھی نہیں جانتے۔ اب ان کی محبت اور عداوت اور حسد سب نیست ہو گئے”۔ واعظ ۵:۹- اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مردے کسی طرح بھی زندوں سے رابطہ نہیں کر سکتے۔ مگر ابلیس اسی حربہ کو استعمال کر کے لوگوں کے ذہن پر قبضہ جما لیتا ہے۔ IKDS 271.3

    لہٰذا سپر چولزم کے ذریعہ بہت سے بیمار، سوگوار، متجسس بد روحوں سے رابطہ کرتے ہیں جو کوئی بھی اس فعل کا مرتکب ہوتا ہے وہ ہولناک خطرے کی زد میں ہے۔ قدیم زمانہ میں جس بادشاہ نے جن کے آشنا سے رابطہ کیا خُدا نے اُسے سخت سزا سنائی “خُدا وند کے فرشتہ نے ایلیاہ نبی سے کہا اُٹھ اور شاہ سا مریہ کے قاصدوں سے ملنے کو جا اور اُن سے کہہ کیا اسرائیل میں خُدا نہیں جو تُم عقرون کے دیوتا بعل زبوب سے پُوچھنے چلے ہو۔ اس لئے اب خُداوند یوں فرماتا ہے کہ تُو اس پلنگ پر سے جس پر تُو چڑھا ہے اُترنے نہ پائے گا بلکہ تُو ضرور ہی مرے گا”۔ ۲۔ سلاطین ۳:۱-۴IKDS 272.1

    قدیم زمانہ کے بُت پرستوں کے جادو کی دُوسری صورت آج سپرچولزم، غیب دانی اور نجومی وغیر ہے۔ وہ عجیب و غریب آوازیں جو عین دور اور افسس میں سنائی دیں آج بھی اپنی غلط بیانی سے خُدا کے بچوں کو گُمراہ کر رہی ہیں۔ اگرہماری آنکھوں کے سامنے آیا ہوا پردہ اُٹھ جائے تو ہم بُری رُوحوں کو دیکھیں گے کہ وہ کس طرح ہر حربہ استعمال کر کے ہمیں برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ جہاں کہیں بھی خُدا کو بُھلانے کے لئے انسان پر ابلیس کا جادُوچلتا ہے، وہاں وہ اپنے سحر کی قوت ضرُور استعمال کرتا ہے۔ اور جب انسان اُس کے زیر اثر آجاتے ہیں اُنہیں معلُوم ہو جاتا ہے کہ اُن کاذہن حواس باختہ اور رُوح ناپاک ہو چُکی ہے۔ افسیوں کی کلیسیا کو رسُول انتباہ کرتا ہے۔ ” اور تاریکی کے بے پھل کاموں میں شریک نہ ہو بلکہ اُن پر ملامت ہی کیا کرو”۔ افسیوں ۱۱:۵۔ IKDS 272.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents