Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۵۸ - فتح مند کلیسیا

    اٹھارہ سو صدیوں سے کچھ زیادہ ہی عرصہ گزر چُکا ہے جب سے رسُولوں نے اپنی مشقتوں سے آرام پایا ہے۔ مگر مسیح کی خاطر جو انہوں نے قربانیاں دیں اسکی تاریخ آج بھی بیش قیمت خزانہ کی طرح کلیسیا کے اندر موجود ہے۔ یہ تاریخ رُوح القدس کی ہدایت سے احاطہء تحریر میں اس لئے آئی تاکہ مسیح کے پیروکار ہر زمانہ میں مسیح کے مشن کے لیے جوش و جذبہ سے معمور ہو کر خدمت کرتے رہیں۔ IKDS 558.1

    وہ حُکم جو مسیح خُداوند نے اپنے شاگردوں کو دیا تھا اُنہوں نے اُس کی تعمیل و تکمیل کی۔ جونہی صلیب کے یہ پیامبر انجیل کی منادی کرنے کے لیے آگے بڑھے، تو اُنہیں خُدا کے جلال کا ایسا مکاشفہ عطا ہوا جو اس سے پہلے معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا۔ رُوحِ الہٰی کے تعاون سے رسولوں سے ایسے ایسے کام سر زد ہوئے جنہوں نے دُنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ IKDS 558.2

    ایک ہی پشت نے انجیل کی تشہیر تمام قوموں تک پہنچا دی چنانچہ اُنہوں نے مسیح کے زیرِ نگرانی خود کو اس عظیم کام کے لیےتیار کر لیا جو اُنہیں سونپا گیا تھا۔ اُن کے دلوں پر فضل اور سچائی کی حکمرانی تھی جو اُن کے ارادوں کو جلا بخشی اور ان کے اعمال کی نگرانی کرتی تھی۔ وہ خداوند میں مدغم ہو چکے تھے اور خود کو بُھلا کر قادرِ مُطلق کی محبت میں غوطہ زن ہو گئے تھے۔ بعض اُن میں اَن پڑھ تھے۔ مگر اُنہوں نے مسیح کی سر پرستی میں خدمت کرنا سیکھ لیا۔ IKDS 558.3

    شاگرد ایسے انسان تھے جو یہ جانتے تھے کہ کس طرح کلام اور پُر خلوص دُعا کرنا ہے۔ وہ ایسے انسان تھے جو اسرائیل کی قوت (خدا) کو تھامنا جانتےتھے۔ بڑی ہی چاہت سے وہ خُدا کی نزدیکی میں اس کے پہلو میں کھڑے رہے اور اس کے تخت سے ہی اپنی آبرو کو وابستہ رکھا! یہوواہ ہی اُن کا خداوند تھا۔ اسکی عزت و تکریم گویا ان کو اپنی عزت افزائی تھی۔ اسکی سچائی کو وہ اپنی سچائی خیال کرتے تھے۔ انجیل پر جو بھی حملہ ہوتا اسے شاگرد اپنی رُوح پر دھاوا تصور کرتے، اور مسیح کے مشن کی خاطر اپنی ہر قوا کو جنگ میں جھونک دیتے۔ وہ زندگی کے کلام کی تشہیر کرتے کیونکہ انہوں نے آسمانی کفارہ حاصل کر لیا تھا۔ چونکہ وہ زیادہ حاصل کرنے کی توقع کرتے تھے اس لئے خُداوند سے حاصل کرنے کے لیے انہوں نے بھی زیادہ محنت سے کام لیا۔ مسیح خداوند نے خود کو ان پر آشکارہ کیا تھا اور وہ بھی رہنمائی کے لیے اسی کی طرف رجوع ہوتے تھے۔ سچائی کے لیے سُوجھ بُوجھ اور مخالفت کا سامنا کرنے کے لیے انکی قوت خُدا کی مرضی کے ساتھ مطابقت رکھنے کی وجہ سے تھی۔ مسیح یسُوع جو خداوند کی حکمت اور قوت سے اُن کی ہر تقریر، خطبے اور گُفتگو کا موضوع ہوتا تھا۔ اُسی واحد نام کی جو آسمان تلے بخشا گیا اور جس کے وسیلہ لوگ نجات پا سکتے ہیں وہ بڑائی کرتے تھے اور جیسے ہی وہ مسیح یسُوع کی کاملیت، مردون میں سے جی اُٹھنے کی منادی کرتے وہ لوگوں کے دلوں پر اثر کرتی اور بہتیرے بہن بھائی انجیل کے لیے جیت لیے جاتے۔ وہ بھیڑ جو یسُوع نام پر دُشنام طرازی سے باز نہ آتی اور اسکی قوت و قدرت کی تحقیر کرتی تھی اب اُسی بھیڑ نے اُس کے شاگرد ہونے کا اعلانیہ اقرار کر لیا۔ IKDS 558.4

    اس سارے مشن کو رسولوں نے اپنی قوت میں نہیں بلکہ زندہ خُدا کی قوت میں انجام دیا۔ اُن کی خدمت کوئی آسان خدمت نہ تھی۔ خدمت کے شُروع شُروع میں مسیح کلیسیا کو بُہت سی مشکلات اور المناک رنج و الم کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی خدمت میں شاگردوں کو مسلسل افلاس و غربت اور بُہتان اور ظلم و ستم کا سامنا رہا۔ مگر انہوں نے اپنی جانوں کی فکر نہ کی، برعکس اس کے وہ اس بات پر خُوشی مناتے تھے کہ انہیں مسیح کی خاطر دُکھ اُٹھانے کے لیے بُلاہٹ ملی ہے۔ اُن کی زندگی ميں مساعي جميلہ ،عزم راسخ ،راست فيصلوں اورمقاصد کو حاصل کرنے پس و پيش اور نیم دلی کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ جو کچھ اُن کے پاس تھا اُسے خرچ کرنے پر راضی تھے بلکہ خود بھی خرچ ہونے سے دریغ نہ کرتے تھے۔ ذمہ داری کا احساس جو ان کے شانوں پر تھا اس نے ان کے تجربہ کو صاف شفاف اور گہرا اور پختہ کر دیا۔ اور جو فتوحات انہوں نے مسیح یسُوع کے لیے کیں ان میں خداوند کا فضل نمُودار ہوا۔ خداوند قادرِ مطلق نے ان کے ذریعہ سے انجیل کو فتوحات بخشیں۔ IKDS 559.1

    وہ بنیا د جو مسیح یسوع نے رکھی تھی اس پر رسولوں نے خُدا کی کلیسیا کو استوار کیا۔ پاک صحائف میں ہیکل کی تعمیر کو اکثر کلیسیا کی تعمیر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ زکریاہ یسُوع کو شاخ کہہ کر فرماتا ہے کہ وہ ہیکل تعمیر کرے گا۔ اور غیر قوموں کا ذکر کرتا ہے کہ وہ اس کام میں مدد کریں گی۔ “دیکھ وہ شخص جس کا نام شاخ ہے اس کے زیرِ سایہ خوشحالی ہو گی اور وہ خُداوند کی ہیکل کو تعمیر کرے گا اور جو دُور ہیں آکر خُدا وند کی ہیکل تعمیر کریں گے”۔ زکریاہ ۱۲:۶۔۱۵۔ اور یسعیاہ نبی یوں فرماتا ہے “اور بیگانوں کے بیٹے تیری دیواریں بنائیں گے”۔ یسعیاہ ۱۰:۶۰ IKDS 560.1

    ہیکل کی تعمیر کے بارے لکھتے ہوئے پطرس رسُول فرماتا ہے “آدمیوں کے رد کئے ہوئے پر خُدا کے چنے ہوئے اور قیمتی زندہ پتھر زندہ پتھر کے پاس آ کر تُم بھی زندہ پتھروں کی طرح رُوحانی گھر بنتے جاتے ہوتا کہ کاہنوں کا مقدس فرقہ بن کر ایسی رُوحانی قربانیاں چڑھاو جو یسُوع مسیح کے وسیلہ سے خُدا کے نزدیک مقبول ہوتی ہیں”۔ ۱پطرس ۴:۲۔۵ IKDS 560.2

    یہودیوں اور غیر قوموں کی کان میں سے رسُول پتھر نکال نکال کر بنیاد پر رکھتے وندگئے۔ افسس کی کلیسیا کے ایمانداروں کو خط لکھتے ہوئے پولس یوں رقمطراز ہے۔ “پس اب تُم پردیسی اور مسافر نہیں رہے بلکہ مقدسوں کے ہموطن اور خُدا کے گھرانے کے ہو گئے ہو۔ اور رسولوں اور بنیوں کی نیو پر جس کے کونےکے سِرے کا پتھر خود مسیح یسُوع ہے تعمیر کئے گئے ہو۔ اسی میں ہر ایک عمارت مل ملا کر خُدا وند میں ایک پاک مقدس بنتا جاتا ہے۔ اور تُم بھی اس میں باہم تعمیر کئے جاتے ہوتا کہ رُوح میں خُدا کا مسکن بنو”۔ افسیوں ۱۹:۲۔۲۲ IKDS 560.3

    اور کرنتھیوں کی کلیسیا کو رسُول نے یوں آگاہی دی “میں نے اُس توفیق کے موافق جو خُدا نے مجھے بخشی دانا معمار کی طرح نیو رکھ اور دوسرا اس پر عمارت اُٹھاتا ہے۔ کیوں کہ سوا اس نیو کے جو پڑی ہوئی ہے اور وہ یسُوع مسیح ہے کوئی شخص دوسری نہیں رکھ سکتا۔ اور اگر کوئی اس نیو پر سونا یا چاندی یا بیش قیمت پتھروں یا لکڑی یا گھاس یا بُھوسے کا ردار رکھے تو اس کا کام ظاہر ہو جائے گا۔ کیوں کہ جو دن آگ کے ساتھ ظاہر ہو گا وہ اس کام کو بتا دے گا اور وہ آگ خود ہر ایک کا کام آزمالے گی کہ کیسا ہے”۔ ۱۔کرنتھیوں ۱۰:۳۔۱۳ IKDS 561.1

    رسُول نے زمانوں کی اُسی چٹان پر جو یقینی اور حتمی نیو تھی تعمیر کیا۔ اسی نیو کے اُوپر اُنہوں نے پتھر رکھے جو وہ دُنیا کی کان سے نکال نکال کر لائے تھے۔ مشکلات کے بغیر معماروں نے تعمیر نہیں کیا۔ مسیح کے دشمنوں کی وجہ سے ان کا کام خاصہ مشکل تھا۔ انہیں تعصب، ہٹ دھرمی اور ان کی نفرت کا مقابلہ کرنا پڑا جو غلط نیو پر تعمیر کر رہے تھے۔ کلیسیا کے معماروں کو نحمیاہ کے زمانہ میں دیوار کے معماروں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ جن کے بارے کلام مقدس میں یوں مرقوم ہے “سو جو لوگ دیوار بناتے تھے اور جو بوجھ اُٹھاتے اور ڈھوتے تھے ہر ایک اپنے ایک ہاتھ سے کام کرتا تھا اور دوسرے میں اپنا ہتھیار لئے رہتا تھا”۔ نحمیاہ ۱۷:۴ IKDS 561.2

    شہزادوں، بادشاہوں ، حاکموں، کاہنوں اور سرداروں نے ہیکل کو مسمار کرنا چاہا۔ مگر خُدا کے وفادار کارندے نے قید و بند، عقُوبت اور موت کی پرواہ کئے بغیر کام کو آگے بڑھاتے گئے حتٰی کہ نہایت ہی خوبصورت اور سڈول ہیکل تعمیر ہو گئی۔ ایک وقت آیا جب کاریگروں کی آنکھیں تو ہم پرستی کی دُھند سے اندھی ہو گئیں جو ان کے آس پاس چھائی ہوئی تھی۔ ایک وہ وقت آیا جب ایسے معلوم ہوتا تھا کہ دشمن تشدد اور ظلم کے ذریعہ غلبہ پا لے گا۔ مگر وہ غیر متزلزل ایمان اور ہمت کے ساتھ کام کو آگے ہی آگے بڑھاتے گئے۔ IKDS 561.3

    وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے معمار یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ستفنس کو سنگسار کر دیا گیا۔ یعقوب کا سر تلوار مار کرتن سے جدا کر دیا گیا۔ پولس کا بھی سر قلم کر دیا گیا۔ پطرس مصلوب ہُوا اور یوحنا کو جلا وطن کر دیا گیا۔ اس کے باوجود کلیسیا برومند ہوتی گئی۔ نئے کار گزاروں نے اُن کی جگہ لے لی جو مسیح میں سو گئے۔ یوں پتھر کے اُوپر پتھر تعمیر ہوتا چلا گیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ خُدا وند کی ہیکل بلندیوں کو چُھونے لگی۔ IKDS 562.1

    صدیوں تک مسیحی کلیسیا کو ظُلم و ستم کا سامنا رہا۔ اس کے باوجود کبھی کوئی ایسا وقت نہ آیا جب ایسے آدمیوں کی کمی ہو جو خُدا وند کی ہیکل کی تعمیر سے اپنی جانوں کو زیادہ عزیز سمجھیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ “بعض ٹھٹھوں میں اُڑائے جانے اور کوڑے کھانے بلکہ زنجیروں میں باندھے جانے اور قید میں پڑنے سے آزمائے گئے۔ سنگسار کئے گئے۔ آرے سے چیرے گئے۔ آزمائش میں پڑے۔ تلوار سے مارے گئے۔ بھیڑوں اور بکریوں کی کھال اوڑھے ہوئے محتاجی میں مصیبت میں بد سلُوکی کی حالت میں مارے مارے پھرے۔ دُنیا اُن کے لائق نہ تھی وہ جنگلوں اور پہاڑوں اور غارون اور زمین کے گڑھوں میں آوارہ پھرا کئے”۔ عبرانیوں ۳۶:۱۱۔۳۸ IKDS 562.2

    راستبازی کے دشمنوں نے خُدا کے معماروں کے کام کو ختم کرنے کے لیے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ لیکن خُداوند نے “اپنے آپ کو بے گواہ نہ چھوڑا”۔ اعمال ۱۷:۱۴۔۔۔ چناچہ ایسے کارگزار پیدا ہو گئےجنہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے اُس ایمان کی دستگیری کی جو قدیم مقدسین کے سپُرد تھا۔ تاریخ میں ان آدمیوں کے استقلال، قوت برداشت اور بہادری کے کارنامے رہتی دُنیا تک زندہ و تابندہ رہیں گے۔ رسولوں کی طرح کئی خُدا وند میں سو گئے ہیکل کی تعمیر کاکام ثابت قدمی سے جاری رہا۔ کاریگر قتل کر دئیے گئے مگر کام پھر بھی نہ رُکا بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ ولڈن سیز، جان و یکلف، حس اور جیروم، مارٹن لوتھر اور زونگلی، کرینمر، یٹیمر، ناکس، ہوگو نوٹس، جان اور چارلس ویسلے ان کے علاوہ بڑا گروہ جو اس بنیاد پر مٹیریل (مواد۔ ضرورت کا عمارتی سامان ) لا کر رکھتا رہا جو ابدیت تک قائم رہے گا۔ اور بعد کے آنے ولاے سالوں میں وہ خادم جو کلام کی تشہیر کر رہے ہیں اور جنہوں نے بُت پرستوں کے درمیان آخری عظیم پیغام کے لیے راہ تیار کی ہے انہوں نے بھی ہیکل کی تعمیر و ساخت میں مدد کی ہے۔ IKDS 562.3

    رسُولوں کے زمانہ سے لے کر آج تک کسی بھی زمانہ میں ہیکل کی تعمیر کے کام میں تعطل پیدا نہیں ہوا۔ اگر ہم صدیوں پیچھے جھانکیں تو ہمیں وہ زندہ پتھر نظر آئیں گے جن پر یہ مشتمل ہے اور وہ ظُلمت، اوہام پرستی اور فرو گزاشتوں کے بیچ میں سے نور کے فوارے کی طرح ضیا پاشی کر رہے ہیں۔ یہ قیمتی ہیرے تا ابد بڑی آب و تاب سے چمکتے دمکتے رہیں گے اور خُدا کی صداقت کی قوت و قدرت کی گواہی دیتے رہیں گے۔ صیقل شُدہ ان پتھروں کی چمک تاریکی اور نُور میں سچائی کے کھرے سونے اور فروگزاشت کی کھوٹ میں نمایاں فرق ظاہر کرتی ہے۔ پولُس اور دوسرے رسُول اور دیگر باقی تمام راستبازوں نے جو ہو گُزرے ہیں ہیکل کی عمارت بنانے میں اپنا اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ مگر عمارت ابھی پایہء تکمیل کو نہیں پہنچی۔ ہم جو اس زمانہ میں رہ رہے ہیں ہمارے حصے میں بھی کام آتا ہے جو ہمیں انجام دینا ہے۔ ہمیں بھی اس بنیاد کے اُوپر عمارتی سامان لانا ہے جو آگ میں جلنے سے محفوظ رہے یعنی سونا، چاندی اور قیمتی پتھر “محل کے کونے کے لیے تراشے ہوئے پتھروں کی مانند” زبور ۱۲:۱۴۴۔۔۔۔ جنہیں خداوند کے لیے تعمیر کرنا ہے اُن کے لیے پولُس کا ہمت افزا کلام سُنیے۔۔۔۔ “جس کا کام اُس پر بنا ہُوا باقی رہے گا وہ اجر پائے گا اور جس کا کام جل جائے گا وہ نُقصان اٹھائے گا لیکن خود بچ جائے گا مگر جلتے جلتے”۔ وہ مسیحی جو وفادار سے زندگی کا کلام پیش کرتا ہے اور مردوخواتین کو پاکیزگی اطمینان کی طرف لے چلتا ہے وہ بنیاد پر ایسا مواد دلا رہا ہے جو قائم رہے گا اور خُدا کی بادشاہی میں اسے عقلمند معمار شمار جائے گا۔ل رسُولوں کے بارے لکھا گیا ہے” پھر انہوں نے نکل کر ہر جگہ منادی کی اور خُدا وند اُن کے ساتھ کام کرتا رہا اور کلام کو ان معجزوں کے وسیلہ سے جو ساتھ ساتھ ہوتےتھے ثابت کرتا رہا”۔ مرقس ۲۰:۱۶ IKDS 563.1

    جیسے یسُوع اُس وقت شاگردوں کو بھیجا کرتا تھا جب وہ اس دھرتی پر تھا اسی طرح آج کلیسیا کے ممبران کو بھیجتا ہے۔ وہی قوت جو رسولوں کے لیے تھی ان کے لیے بھی وہی قوت اور قدرت موجود ہے۔ اگر یہ خداوند کو اپنی قوت بنائنیگے تو وہ ان کے ساتھ مل کر کام کرے گا اور ان کی محنت اکارت نہ جائے گی۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جس کام میں یہ مصروف ہیں اس پر خُداوند کی مہر ثبت ہو چُکی ہے۔ خُداوند خُدا نے یرمیاہ کو فرمایا “یوں نہ کہہ کہ میں بچہ ہوں کیونکہ جس کسی کے پاس میں تجھے بھیجوں گا تُو جائے گا اور جو کچھ میں تجھے فرماوں گا تُو کہے گا۔ تو اُن کے چہرون کو دیکھ کر نہ در کیوں کہ میں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں۔ تب خداوند نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے منہ کو چُھوا اور فرمایا دیکھ میں نے اپنا کلام تیرے منہ میں ڈال دیا۔ “یرمیاہ ۷:۱۔۹ وہ ہمیں بھی فرماتا ہے کہ جاو اور اس کلام کی منادی کرو جو میں نے تمہیں دیا ہے۔ اس نے ہمارے بھی لبوں کو چُھوا ہے اُسے محسوس کر کے اس کلام کو پھیلائیں جو اُ س نے دیا ہے۔ IKDS 564.1

    خُداوند یسُوع مسیح نے کلیسیا کو ایک بہت ہی واجب عظیم اور مقدس حُکم دیا ہے۔ ہر ممبر کو خُدا وند کے لئے ایسا ذریعہ بننا چاہئے جس کے وسیلہ سے وہ دُنیا تک اپنے تایاب فضل کے خزانہ کو پہنچا سکے۔ نجات دہندہ کی اس سے بڑی اور کوئی خواہش نہیں کہ اس کے بچے دُنیا کے سامنے اُسکی رُوح اور سیرت کی نمائندگی کریں۔ دُنیا کو بھی مسیح یسُوع کی سی محبت کے اظہار کے سوا اور کسی چیز کی اتنی ضرورت نہیں۔ سارے کا سارا آسمان ایسے مردوں اور عورتوں کے انتظار میں ہے جن کے ذریعہ وہ مسیحیت کی قوت کو آشکارہ کر سکے۔ IKDS 564.2

    کلیسیا ہی سچائی کی منادی کرنے کے لیے خداوند کا چُنا ہُوا وسیلہ ہے۔ اور اُسے ہی خُداوند نے اپنی قُوت دے رکھی ہے تاکہ اس خاص کام کو انجام دے ۔ لہٰذا اگر یہ اس سے وفادار رہے، اس کے تمام احکام کو بجا لائے تو اس میں خداوند کا جلال ڈیرا اور بسیرا کرے گا۔ اگر وہ خداوند کے تابع رہے۔ اور اگر وہ اسرائیل کے خداوند کی بدل و جان تعظیم و تکریم کرے تو کوئی طاقت بھی اس کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتی۔ IKDS 565.1

    خُدا وند اور اُس کے کام کے جوش و جذبہ نے شاگردوں کو متحرک کیا کہ وہ بڑی قوت اور سرگرمی کے ساتھ انجیل کی گواہی دیں۔ کیا اسی ولولہ کی آگ ہمارے دلوں میں نہ بھڑکنی چاہئے تاکہ ہم بھی مسیح یسُوع اور اس کی محبت بھری نجات بخش کہانی بیان کریں؟ یہ تو ہر مسیح کا حق اور شرف ہے کہ نہ صرف وہ آمد ثانی کا انتظار کرے بلکہ اُسے قریب کرنے میں اپنا حصہ ادا کرے۔ IKDS 565.2

    اگر کلیسیا دُنیا کی ہر طرح کی حلف برادری سے دستبردار ہو کر مسیح کی راستبازی کے لبادہ کو اوڑھ لے تو اُس کے آگے صبح صادق اور جلالی دن ہو گا۔ اور خُدا وند کے وعدے اُس کے لیے تا ابد قائم رہیں گے۔ وہ اُسے ابدی سرفرازی عطا کرے گا اور وہ بہت سی قوموں کے لیے باعث مسرت ہو گی۔ سچائی کی بے شک تحقیر کی گئی تاہم فتح اُسی کو نصیب ہو گی۔ گو بعض اوقات اِسے پسپائی کا سامنا کرنا پڑا مگر اسکی ترقی اور نشوونما کبھی بھی نہ روکی جا سکی۔ جب خُدا کے کلام کی مخالفت کے ساتھ مٹھ بھیڑ ہوتی ہے تو وہ پیغام کی قوت کو بڑھا دیتا ہے تاکہ عام حالات کے مقابلہ میں اُسکی تاثیر بڑھ جائے۔ چنانچہ یہ ذات الہٰی سے قوت پاکر راستے کی ہر رکاوٹ کو ٹھوکر مار کر دُور کر دیتا ہے۔ IKDS 565.3

    خُدا کے بیٹے کو ظلم و ستم اور کفارہ دینے کے دوران کس بات سے تشفی تھی؟ اُس نے صعوبتوں اور اُن دکھوں کے نتائج کو دیکھا اور اپنی رُوح میں اطمینان پایا۔ ابدیت میں جھانکتے ہوئے اس نے اُن پر نگاہ کی جنہوں نے اسکی قربانی اور دکھوں کے سبب ابدی زندگی پائی چنانچہ اُس کے کانوں میں نجات یافتگاں کے نعرے گونج گئے۔ اُس نے نجات یافتہ راستبازوں کو موسیٰ اور برے کا گیت گاتے سُنا۔ IKDS 566.1

    ہمارے بھی سامنے مستقبل کی رویا ہے یعنی فردوس کی خوشیاں۔ کتاب مقدس میں جلالی مستقبل کی رویا ئیں ظاہر کی گئی ہیں۔ اور خُدا نے خود اپنے ہاتھ سے ان مناظر کی منظر کشی کی ہے جو کلیسیا کو بہت ہی عزیز ہیں۔ ایمان کے ذریعہ تصور کر سکتے ہیں کہ ہم ابدی شہر کی دہلیز پر ایستادہ ہیں۔ اور وہ سب خوش آمدید کی صدا سُن رہے ہیں جنہوں نے اس زندگی میں مسیح کے ساتھ تعاون کیا تھا اور اسکی خاطر دُکھ برداشت کیا تھا۔ جیسے کہ یہ آواز آتی ہے کہ میرے باپ کے مبارک لوگو آو تو وہ اپنے تاج اُتار کر نجات دہندہ کے قدموں میں یہ کہتے ہوئے رکھ دیتے ہیں “ذبح کیا ہوا برّہ ہی قدرت اور دولت اور حکمت اور طاقت اور عزت اور تمجید اور حمد کے لائق ہے جو تخت پر بیٹھا ہے”۔ مکاشفہ ۱۲:۵۔۱۳IKDS 566.2

    یہاں نجات یافتگان ان سے ملتے اور ان کو مبارک کہتے ہیں جنہوں نے ان کی مسیح تک آنے میں رہنمائی کی۔ پھر سب مل کر اسکی حمد کے لیے رطب اللسان ہو جاتے ہیں جس نے تمام نبی نوع انسان کی نجات کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ کشمکش تمام ہوئی۔ صعوبتیں اور تصادم موقوف ہو گئے۔ نجات یافتگان کے فتح اور خوشی کے نعروں سے آسمان گونج اُٹھا۔ ذبح کیا ہوا برّہ ہی عزت اور تمجید کے لائق ہے۔ فاتح سالار تا ابد زندہ رہے گا۔ IKDS 566.3

    “ان باتوں کے بعد جو میں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِ زبان کی ایک ایسی بڑی بھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا سفید جامے پہنے اور کھجور کی ڈالیاں اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے تخت اور برّہ کے آگے کھڑی اور بڑی آواز سے چلا چلا کر کہتی ہے کہ نجات ہمارے خُدا کی طرف سے ہے جو تخت پر بیٹھا اور برّہ کی طرف سے”۔ مکاشفہ ۹:۷۔۱۰ IKDS 566.4

    “میں نے اس سے کہا اے میرے خداوند!تُو ہی جانتا ہے۔ اُس نے مُجھ سے کہا یہ وہی ہیں جو اس بڑی مصیبت میں سے نکل کر آئے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے جامے برّہ کے خُون سے دھو کر سفید کئے ہوئے ہیں۔ اسی سبب سے یہ خُدا کے تخت کے سامنے ہیں۔ اور اس کے مقدس میں رات دن اسکی عبادت کرتے ہیں اور جو تخت پر بیٹھا ہے وہ اپنا خیمہ اُن کے اُوپر تانے گا، اس کے بعد نہ کبھی اُن کو بُھوک لگے گی نہ پیاس اور نہ کبھی اُن کو دُھوپ ستائے گی نہ گرمی۔ کیونکہ جو برّہ تخت کے بیچ میں ہے وہ اُن کی نگہبانی کرے گا۔ اور اُنہیں آب حیات کے چشموں کے پاس لے جائے گا اور خُدا اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا”۔ مکاشفہ ۱۴:۷۔۱۷ IKDS 567.1

    “اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا” اس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد ۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں”۔ مکاشفہ ۴:۲۱۔ IKDS 567.2

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents