Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۲۰ - صلیب کی سربلندی

    اعمال ۳۶:۱۵-۴۲، ۱:۱۶-۶

    انطاکیہ میں کچھ دیر خدمت کرنے کے بعد پولُس رسُول نے اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اب کسی اور جگہ خدمت کے لیے روانہ ہوں “آو پھر چلیں” اس نے برنباس سے کہا۔ IKDS 188.1

    “کہ جن جن شہروں میں ہم نے خُدا کا کلام سُنایا تھا آو پھر اُن میں چل کر بھائیوں کو دیکھیں کہ کیسے ہیں؟”IKDS 188.2

    برنباس اور پولُس دونوں کے دلوں میں ان بھائیوں کے لیے بڑی محبت تھی جنہوں نے ان کی خدمت کے وسیلہ سے مسیح کو حال ہی میں قُبول کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ دیکھیں وہ کس حال میں ہیں۔ پولُس اس تفکر سے کبھی آزاد نہ ہوا حتٰی کہ جب وہ ان کلیسیاوں سے دُور ہوتا جن میں اس نے خدمت انجام دی تھی اُن کی فکر اپنے دل پر اُٹھائے رکھتا اور اُنہیں مسلسل وفادار رہنے کی ترغیب دیتا رہتا۔ “پس اے عزیزہ! چونکہ ہم سے ایسے وعدے کئے گئے آو ہم اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی اور رُوحانی آلودگی سے پاک کریں اور خُدا کے خوف کے ساتھ پاکیزگی کو کمال تک پہنچائیں۔ ” ۲ کرنتھیوں ۱:۷ وہ مسلسل اُنہیں پُر اعتماد، ترقی کرنے والے مسیحی، ایمان میں مضبوط، پُر جوش اور پُورے دل سے خُدا وند اور اسکی بادشاہت کو ترقی دینے کے لئے اُنہیں ترغیب دیتا رہتا تھا۔ IKDS 188.3

    برنباس پولُس کے ساتھ جانے کو راضی تھا مگر وہ مرقس کو بھی ساتھ لے جانے کا خواہاں تھا جس نے دوبارہ خُود کو خُداوند کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر پولُس کو اس پر اعتراض تھا “مگر پولُس نے یہ مناسب نہ جانا کہ جو شخص پمفیلیہ میں کنارہ کر کے اس کام کے لئے ان کے ساتھ نہ گیا تھا اس کو ہمراہ لے چلیں” جس نے پہلے مشنری سفر میں ضرُورت کے وقت اُنہیں چھوڑ دیا تھا پولُس نے اسے اب ساتھ لے جانا مناسب نہ جانا۔ چنانچہ پولس، مرقس کو اسکی اس کمزوری پر معاف کرنے پر مائل نہ تھا جس نے گھر کے آرام و آسائش کی خاطر اور خطروں کو بھانپتے ہوئے خُدا کے کام کو ترک کر دیا۔ اس نے تقاضا کیا کہ جس شخص میں اتنی جان ، سکت اور قوت برداشت نہیں وہ اس کام کے نااہل ہے جو صبر، خودانکاری، بہادری، دیندداری، ایمان، رضا مندی اور جان دینے تک کا تقاضہ کرتا ہے، بشرطیکہ ضرورت ہو۔”پس ان میں ایسی سخت تکرار ہوئی کہ ایک دُوسرے سے جُدا ہو گئے اور برنباس مرقس کو لے کر جہاز پر کپرس کو روانہ ہوا۔ مگر پولُس نے سیلاس کو پسند کیا اور بھائیوں کی طرف سے خُدا وند کے فضل کے سپُرد ہو کر روانہ ہوا”۔ IKDS 188.4

    شام اور کلکیہ کے راستہ سفر کرے ہوئے اور کلیسیا کو مضبوط کرتے ہوئے پولُس اور سیلاس دربے اور لُسترہ پہنچے جو لوکانیہ کا صوبہ ہے۔ لُسترہ میں ہی پولُس کو سنگسار کیا گیا تھا لیکن ہم اُسے دوبارہ خطرے والے مقام پر دیکھتے ہیں۔ وہ یہ دیکھنے کا بڑا متمنی تھا کہ وہ جو اس کی خدمت کے وسیلہ مسیح یسوع میں آئے آزمائش کا کیسے مقابلہ کر رہے ہیں؟ لُسترہ کے ایماندار ظلم و تشدد اور سخت مخالفت کے باوجود ثابت قدم رہے۔ IKDS 189.1

    یہاں پولُس دوبارہ تیمتھیس سے ملا اس لئے اُسے مایوسی نہ ہوئی کہ جو اُس کے سنگسار کئے جانے اور دوسرے دُکھوں کا گواہ تھا (جب پولُس پہلی بار لُسترہ کو چھوڑنے والا تھا) اور جس کے ذہن میں اس کا نقش وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہو گیا تھا۔ اور وہ قائل ہو چکا تھا کہ اُسے کُلی طور پر اپنی زندگی خدمت کے کام کے لئے وقف کر دینی چاہئے۔ اس کا دل پولُس کے دل کے ساتھ جڑ گیا اور وہ پولُس کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بے حد مشتاق تھا۔ IKDS 189.2

    سیلاس جو پولُس کے ساتھ خدمت کر رہا تھا وہ آزمودہ کار گزار تھا اور اُسے نبوت کی رُوح کی نعمت بھی بخشی گئی تھی۔ مگر کام اس قدر زیادہ تھا کہ مزید کارگزاروں کو خُدا وند کی خدمت کے لئے تربیت دینے کی ضرُورت تھی۔ پولُس نے تیمتھیس میں ایسے کار گزار کو دیکھا جس نے خادم کی پاکیزہ خدمت کو بہت سراہا ، اور جو دُکھوں اور ظلم و ستم سے نہیں گبھرایا اور جس میں سیکھنے کی رُوح تھی۔ اس کے باوجود پولُس اس نہ آزمودہ نوجوان کو انجیل کی خدمت کے لئے اس وقت تک تربیت دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا جب تک وہ پہلے اُسکی ماضی کی زندگی اور چال چلن کے بارے پوری طرح تسلی پذیر نہ ہو جائے۔ IKDS 190.1

    تیمتھیس کا باپ یونانی تھا جبکہ اس کی ماں یہودی تھی۔ تیمتھیس بچپن سے ہی الہٰی صحیفوں سے اچھی طرح واقف تھا۔ اس کے گھر میں پولُس نے پارسائی، سعادت مندی، اور پرہیزگاری کو دیکھا تو اُسے قابل قبول پایا۔ الہامی صحیفوں میں اس کی ماں اور نانی کا ایمان اسے مسلسل یاد دلاتا رہتا تھا کہ خُدا کی مرضی بجا لانے میں خُدا کی برکات ہیں۔ خُدا کا کلام ہی وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعہ سے ان دو خُدا ترس خواتین نے تیمتھیس کی رہبری کی۔ جو اسباق تیمتھیس نے ان دو خواتیں سے حاصل کئے اُن کی روحانی قوت نے اُسے پاکیزہ بول چال عطا کی اور اسے اُن تمام بدی کی تاثیروں سے محفوظ رکھا جو اُسے گھیرے ہوئے تھیں۔ یوں گھر کے ہدایت کاروں نے ہی اسے خُدا کے لئے بوجھ اٹھانے کے لئے تیار کر رکھا تھا۔ IKDS 190.2

    پولُس نے دیکھا کہ تیمتھیس وفادار، سچا اور ثابت قدم ہے اس لئے اُس نے اُسے اپنے ساتھ خدمت کرنے کے لئے چُن لیا اور سفر پر روانہ ہو گیا۔ وہ جنہوں نے بچپن میں تیمتھیس کو تعلیم دی تھی یہ دیکھ کر بڑی خُوش ہوئیں کہ جس بچے کی اُنہوں نے تربیت کی وہ ایک عظیم رسُول کے ساتھ خدمت کرنے کے لئے منسلک ہو گیا ہے۔ تیمتھیس تو اس وقت محض بچہ ہی تھا جب خُدا وند نے اُسے مُعلم ہونے کے لئے چُن لیا۔ مگر اسکی ابتدائی تعلیم میں ہی اس کے اصُولات اسقدر راسخ ہو چُکے تھے کہ وہ پولُس کا مددگار ہونے کے قابل تھا۔ اور گو وہ ابھی نوجوان ہی تھا اس کے باوجود اُس نے ذمہ داریوں کو بڑی حلیمی اور فروتنی سے نبھایا۔ IKDS 190.3

    غیر ضروری رکاوٹ کے تدارک کے پیشِ نظر پولُس نے تیمتھیس کو مشورہ دیا کہ وہ ختنہ کرالے۔ اس لئے نہیں کہ خُدا وند چاہتا ہے بلکہ اس لئے کہ یہودی تیمتھیس کی خدمت پر اعتراض نہ کریں۔ (تیمتھیس کی ماں بے شک یہودی تھی مگر باپ یونانی تھا) اپنی خدمت کے سلسلہ میں پولُس کو ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک جانا تھا، اور اکثر اُسے دوسری جگہوں کے علاوہ یہودی ہیکل میں مسیح کی منادی کرنے کا موقع ملنا تھا۔ اور اگر یہ معلوم ہو جاتا کہ پولُس کا ایک ساتھی نا مختون ہے تو اُس کے کام میں یہودیوں کے تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے بہت بڑی رکاوٹ پیدا ہو جاتی اور رسُول کو ہر جگہ سخت مخالفت اور ظُلم کا سامنا کرنا پڑتا۔ جب کہ پولُس انجیل کا علم یہودی بھائیوں اور غیر قوم دونوں کو دینا چاہتا تھا۔ اس لئے اُس نے چاہا کہ جہاں تک ممکن ہو ایمان کا سودا کئے بغیر ان تمام اعتراضات کو دُور کیا جائے جو باعث مخالفت ہو سکتے ہیں۔ بے شک اس نے یہودی تعصب کو جانتے ہوئے ایسا کیا، تاہم اس کا اپنا ایمان تھا اور یہی اس نے سکھایا کہ مختون اور نامختون تو کچھ بھی نہیں، مسیح کی انجیل ہی سب کچھ ہے۔ IKDS 191.1

    پولُس ایمان میں تیمتھیس کو اپنا بیٹا کہتا ہے ” تیمتھیس جو ایمان کے لحاظ سے میرا سچا فرزند ہے”۔ ۱ تیمتھیس ۲:۱ ۔۔۔۔ بُزرگ رسُول اکثر نوجوان شاگردوں کو بُلا کر اُن سے صحائف کی تاریخ کے بارے سوال جواب کرتا، اور جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے تو سفر کے دوران اُنہیں بڑی احتیاط کے ساتھ “کس طرح کامیاب خدمت انجام دی جا سکتی ہے” کے بارے سکھاتا، دونوں پولُس اور سیلاس جب تک تیمتھیس کے ساتھ رہے، انجیل کے خادم کے پاکیزہ اور سنجیدہ نقش کو اس کے ذہن میں مزید گہرا کرنے کی کوشش کرتے رہے جو پہلے ہی اس کے ذہن میں بن چُکا تھا۔ IKDS 191.2

    اپنے کام میں تیمتھیس نے مسلسل بزرگ رسُول سے صلاح مشورہ اور ہدایات طلب کیں۔ اس نے جذبات کو اپنے اُوپر حاوی ہونے نہ دیا بلکہ سوچ و بچار، پُر سکوں اور تسکین بخش خیال کو عمل میں لایا۔ اور ہر قدم پر پُوچھتا کیا خُدا وند کی راہ یہی ہے؟ رُوح القدّس نے تیمتھیس میں ایسی ہستی کو پایا جسے ذات الہٰی کے لئے بطور ہیکل ڈھالا اور تراشا جاسکتا ہے۔ IKDS 192.1

    جیسے کہ کتاب مقدس کے اسباق روزمرہ کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان کی ہمارے چالچلن پر گہری اور دیر پا تاثیر قائم رہتی ہے۔ تیمتھیس نے یہ اسباق سیکھے اور اُنہیں عملی جامہ پہنایا۔ اُس کے پاس کوئی خاص روشن و تاباں توڑے تو نہیں تھے مگر اس کا کام بڑی ہی قدرو قیمت کا حامل تھا کیوں کہ جو قابلیتیں خُدا نے اسے دے رکھی تھیں اپنے آقا کی خدمت کے لئے اس نے اُنہیں بھر پُور استعمال کیا۔ پرہیزگاری، تقویٰ اور سعادت مندی کے آزمودہ علم نے اسے دوسرے ایمانداروں سے نمایاں کیا اور اُس میں تاثیر پیدا کی۔ IKDS 192.2

    وہ اصحاب جو رُوحوں کے لئے خدمت کرتے ہیں اُنہیں خُدا وند کے بارے مکمل، واضح اور گہرا علم ہونا چاہئے۔ اُنہیں چاہئے کہ اپنی تمام قوا کو آقا کے کام کے لئے دے دیں۔ کیونکہ ان کی بلاہٹ بڑی عظیم اور مقدس ہے۔ اور اگر وہ اپنے مالک کے لئے رُوحوں کو جیتنے ہیں تو چاہئے کہ وہ خُدا وند جو اُن کا آقا ہے اسے مضبوطی اور ثابت قدمی سے تھا میں رہیں، اور روزانہ اُس سے فضل اور قوت پائیں جو تمام برکات کا سر چشمہ ہے۔ “کیوں کہ خُدا کا وہ فضل ظاہر ہوا ہے جو سب آدمیوں کی نجات کا باعث ہے۔ اور ہمیں تربیت دیتا ہے تاکہ بیدینی اور دنیوی خواہشون کا انکار کرکے اس موجودہ جہاں میں پرہیزگاری اور راستبازی اور دینداری کے ساتھ زندگی گزاریں۔ اور اس مُبارک اُمید یعنی اپنے بزرگ خُدا اور منجی یسُوع مسیح کے جلال کے ظاہر ہونے کے منتظر رہیں جس نے اپنے آپ کو ہمارے واسطے دے دیا تاکہ فدیہ ہو کر ہمیں ہر طرح کی بیدینی سے چھڑالے اور پاک کر کے اپنی خاص ملکیت کے لئے ایک ایسی اُمت بنائے جو نیک کاموں میں سر گرم ہو”۔ طِطُس ۱۱:۲-۱۴IKDS 192.3

    نئی جگہوں اور علاقوں میں جانے سے پہلے پولُس اور اس کے ساتھی ان کلیسیاوں میں گئے جو پسدیہ اور اس کے گردونواح میں قائم کی گئی تھیں۔ “اور وہ جن جن شہروں میں سے گزرتے تھے وہاں کے لوگوں کو وہ احکام عمل کرنے کے لئے پہنچاتے جاتے تھے جو یروشلم کے رسُولوں اور بزرگوں نے جاری کئے تھے۔ پس کلیسیائیں ایمان میں مضبوط اور شمار میں روز بروز زیادہ ہوتی گئیں”۔ IKDS 193.1

    پولُس رسُول نے دل کی گہرائیوں سے محسُوس کیا کہ جو اس کی خدمت کے وسیلہ مسیح پر ایمان لائے تھے اُن کی ذمہ داری اُسی پر ہے۔ ان سب باتون کے علاوہ رسُول چاہتا تھا کہ وہ وفادار رہیں۔ “تاکہ مسیح کے دن مجھے فخر ہو کہ نہ میری دوڑ دھوپ بیفائدہ ہوئی نہ میری محنت اکارت گئی” فلپیوں ۱۶:۲ وہ اپنی خدمت کے نتیجہ سے لرز گیا۔ اس نے محسُوس کیا کہ اگر اس نے رُوحوں کو بچانے کے کام میں اپنے فرض کو ایمانداری سے نہ نبھایا، اور اگر کلیسیا رُوحوں کو بچانے کے کام میں اس کے ساتھ تعاون کرنے میں ناکام رہی تو اس کی اپنی نجات بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کیونکہ اُسے یہ اچھی طرح علم تھا کہ اس کی تنہا منادی ایماندارون کو اتنا تعلیم یافتہ نہیں بنا سکتی کہ وہ دُوسروں کو زندگی کا کلام سکھا سکیں۔ رسُول کو یہ بھی علم تھا کہ “حُکم پر حُکم۔ حُکم پر حُکم۔ قانون پر قانون۔ قانون پر قانون ہے۔ تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں ” یسعیاہ ۱۰:۱۸۔ اس لئے رسُول محسُوس کرتا تھا کہ مسیح کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے اُنہیں سکھایا جانا چاہئے۔ IKDS 193.2

    یہ ایک عالمگیر اصُول ہے کہ جب کوئی خُدا داد قوتوں، قابلیتوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے گریز کرتا ہے تو وہ صلا حیتیں ناکارہ ہو کر برباد ہو جاتی ہیں۔ وہ سچائیاں جو متحرک نہیں، اور دوسروں تک پہنچائی نہیں جاتیں وہ اپنی زندگی بخش قوت کو کھو بیٹھتی ہیں، وہ اپنی شفا بخش خوبی سے محرُوم ہو جاتی ہیں۔ IKDS 194.1

    چنانچہ رسُول کو بھی یہ خدشہ تھا کہ وہ بھی ہر ایک شخص کو مسیح کے حضُور کامل پیش کرنے میں ناکام نہ ہو جائے۔ پولُس کی آسمان پر جانے کی اُمید مدھم پڑ جاتی جب وہ اپنی کسی ناکامی پر غور کرتا جس کے نتیجہ میں ذاتِ الہٰی کی بجائے خود انسان کلیسیا کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتے۔ IKDS 194.2

    اُسکا علم، جوش بیانی (خطابت، فصاحت) اُسکے معجزات، وہ ابدی نظارہ جب وہ تیسرے آسمان تک اُٹھا لیا گیا، یہ سب بے معنی اور بیکار ہوتے اگر بے وفائی کی خدمت کے باعث (جو رسُول نے دوسروں کے لئے کی ) رسُول خُدا کے فضل کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ لہٰذا رسُول نے زبانی اور اور خط لکھ کر ان ایمانداروں سے التماس کی جنہوں نے مسیح کو قبُول کر لیا تھا۔ “تم بے عبب اور بھولے ہو کر ٹیڑھے اور کجر و لوگوں میں خُدا کے بے نقص فرزند بنے رہو جن کے درمیان تُم دُنیا میں چراغوں کی طرح دکھائی دیتے ہو۔ تاکہ مسیح کے دن مجھے فخر ہو کہ نہ میری دوڑ دھوپ بے فائدہ ہوئی نہ میری محنت اکارت گئی”۔ فلپیوں ۱۵:۲-۱۶۔ IKDS 194.3

    ہر ایک خادم ان ایمانداروں کی روحانی ترقی کی بھاری ذمہ داری محسوس کرتا ہے جو خُداوند نے اس کی عملداری میں دے رکھی ہیں، اس کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ یہ بھی میرے ساتھ مل کر خُدا وند کے کھیت میں کام کریں۔ وہ صدقِ دل سے یہ تسلیم کرتا ہے کہ خُداوند کی طرف سے دئیے ہوئے کام کی وفاداری سے بجا آوری کا انحصار زیادہ تر کلیسیا کی بھلائی میں ہے۔ وہ بڑی خلوص نیتی اور جانفشانی سے اس تمنا کے ساتھ اُبھارنے میں مصروف رہتا ہے کہ وہ مسیح کے لئے رُوحوں کو یہ یاد کر کے جیتیں کہ ہر جیتی ہوئی رُوح نجات کی تجویز کو مشتہر کرنے میں ایک اور ذریعہ ثابت ہو۔ IKDS 194.4

    پسدیہ اور اس کے گردو نواح میں پائی جانے والی کلیسیاوں کی مُلاقات کے بعد پولُس اور سیلاس ، تیمتھیس کے ہمراہ “فروگیہ اور گلتیہ” کے علاقہ میں سے گزرے جہاں اُنہوں نے بڑی قوت کے ساتھ نجات کی خُوشخبری کی منادی کی۔ وہاں کے باشندے تو بُت پرست تھے، لیکن جونہی رسُولوں نے ان کو پیغام دیا تو وہ اس خُوش خبری سے بڑے شادمان ہوئے کہ اب وہ گناہ کی غلامی سے چُھوٹ جائیں گے ۔ پولُس اور اس کے ساتھیوں نے مسیح یسُوع کے کفارہ کے ذریعہ ایمان سے راستباز ٹھہرنے کی تعلیم پر خُوشخبری دی۔ اُنہوں نے مسیح یسوع کو اس طرح پیش کیا جو بے بس گنہگار نسلِ انسانی کی بے بسی کی حالت کو دیکھتے ہوئے تمام دنیا کے مردوزن کو مخلصی بخشنے کے لئے آیا۔ خُدا کی شریعت کے تابع رہ کر اس نے زندگی بسر کی۔ وہ اپنے باپ سے ہماری نافرمانی کی سزا کی مُعافی کے لئے ہر وقت شفاعت کرتا رہتا تھا۔ صلیب کی روشنی میں بہتیروں نے جو پہلے سچے اور زندہ خُدا کو نہیں جانتے تھے وہ خُدا کی عظمت اور اس کی محبت کو سمجھنے لگے۔ IKDS 195.1

    گلتیہ کے باشندوں کو “خدا باپ” اور “خداوند یسُوع مسیح” کے بارے بنیادہ سچائیوں کا درس دیا گیا جس نے ہمارے گناہوں کا فدیہ دیا، تاکہ وہ ہمیں خُدا کی مرضی کے مطابق اس موجودہ جہاں کی بدی سے مخلصی دے سکے۔ “اُسی نے ہمارے گناہوں کے لئے اپنے آپ کو دے دیا تاکہ ہمارے خُدا اور باپ کی مرضی کے مُوافق ہمیں اس موجودہ خراب جہاں سے خلاصی بخشے”۔ “کیونکہ تم سب اس ایمان کے وسیلہ سے جو مسیح یسُوع میں ہے خُدا کے فرزند ہو” گلتیوں ۳:۱-۴، ۲:۳-۲۶۔ IKDS 195.2

    گلتیوں کے درمیان رہتے ہوئے پولُس نے اپنی طرزِ زندگی کے بارے یُوں فرمایا “اے بھائیو! میں منت کرتا ہوں کہ میر مانند ہو جاو۔ کیونکہ میں بھی تُمہاری مانند ہوں۔ ” گلتیوں ۱۲:۴ اُسکے ہونٹ مذبح پر سے لئے ہوئے زندہ شعلے سے چُھوئے گئے تھے، اور وہ جسمانی کمزوریوں سے بالا تر ہو کر مسیح یسوع کو گنہگاروں کی واحد اُمید کے طور پر پیش کرنے کے قابل تھا، اور جتنوں نے اُسے کلام کرتے سُنا، اُنہیں علم تھا کہ وہ مسیح کے ساتھ رہا ہے۔ چونکہ وہ آسمانی قوت سے آراستہ تھا اس لئے وہ رُوحانی باتوں کو رُوحانی سے ہی پرکھتا اور ابلیس کے قلعوں کو مسمار کرتا تھا۔ اور جب وہ خُداوند کےاکلوتے بیٹے کی قُربانی کے بارے بیان کرتا تو سامعین کے دل ٹوٹ جاتے اور یہ پوچھے نہ رہتے۔ “میں کیا کروں کہ نجات پاوں؟” IKDS 196.1

    رسُول کا غیر قوموں کے درمیان انجیل کو پیش کرنے کی خدمت کا یہ امتیازی وصف عمر بھر قائم رہا۔ وہ ہمیشہ اُن کے سامنے کلوری کی صلیت رکھتا۔ آخری عمر کے تجربہ کی بنا پر اُس نے ایک موقع پر یوں فرمایا “کیونکہ ہم اپنی نہیں بلکہ مسیح یسوع کی منادی کرتے ہیں کہ وہ خُدا وند ہے اور اپنے حق میں یہ کہتے ہیں کہ یسوع کی خاطر تُمہارے غلام، ہمیشہ اس لئے خُدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے وہی ہمارے دلوں میں چمکاتا کہ خُدا کے جلال کی پہچان کا نُور یسوع مسیح کے چہرہ سے جلوہ گر ہو” ۲ کرنتھیوں ۵:۳-۶IKDS 196.2

    مسیحیت کے ابتدائی ایام میں جن مخصوص شدہ پیامبروں نے برباد ہوتی ہوئی دنیا کو نجات کی خُوشخبری سنائی، اُنہوں نے اپنی سرفرازی کے لئے کسی خیال کو اپنے ذہن میں نہ آنے دیا جس سے مسیح یسوع اور اسکی صلیب کے پیش کرنے میں بگاڑ پیدا ہو۔ نہ اُنہوں نے اختیار کی چاہت کی نہ اپنی عظمت کی۔ بلکہ خود کو نجات دہندہ میں چُھپا کر اُنہوں نے نجات کے عظیم منصوبہ، مسیح یسوع کی زندگی، جو نجات کی تجویز کا بانی اور کامل کرنے والا ہے اسے ہی سر بلند کیا۔ مسیح یسوع آج اور کل ابد تک یکساں ہے، یہی ان کا بوجھ تھا، یہی اُن کو فکر تھی۔ یہی اُن کی تعلیم تھی۔ IKDS 196.3

    آج بھی وہ حضرات جو خُدا کے کلام کی تعلیم دیتے ہیں اگر وہ مسیح کی صلیب کو بلند سے بلند تر کریں تو اُن کی خدمت بھی بار ور ہو گی۔ اگر گنہگاروں کی صلیب پر مُخلصانہ نگاہ ڈالنے کے لیے رہبری کی جائے، اور اگر وہ نجات دہندہ مسیح مصلُوب کا بھر پور نظارہ کر لیں تو وہ خُدا کی محبت کی گہرائی اور گناہ کی قباحت کو جان سکیں گے۔ IKDS 197.1

    مسیح یسوع کی موت انسان سے خُدا کی محبت کا عظیم ثبُوت ہے۔ یہ ہماری نجات کی ضمانت ہے۔ صلیب کو مسیحیت سے خارج کر دینا، سُورج کو آسمان سے ہٹانے کے مترادف ہے۔ صلیب ہمیں خُداوند کے قریب لا کر اس سے مصالحت کراتی ہے۔ باپ کی محبت کے رقیق جذبات کے ساتھ یہواہ اپنے بیٹے کے دُکھوں پر نگاہ کرتا ہے جو وہ آل آدم کو ابدی موت سے بچانے کے لئے سہہ رہا ہے۔ اور ہمیں اپنے بچے اور بچیاں ہونے کے لئے قُبول فرماتا ہے۔ IKDS 197.2

    صلیب کے بغیر انسان خُدا کے ساتھ میل ملاپ نہیں کر سکتا۔ ہماری ہر اُمید کا انحصار صلیب پر ہے۔ صلیب پر سے ہی مسیح کی محبت کا نُور جلوہ گر ہوتا ہے۔ اور جب صلیب کے دامن (قدموں) سے گنہگار اس پر نگاہ کرتا ہے جو اسے بچانے کے لئے قُربان ہو گیا تو وہ خُوشیاں منا سکتا ہے کیوں کہ اس کے گناہ معاف ہو گئے ہیں۔ ایمان سے صلیب تلے گھٹنے نشیں ہونے سے وہ ان بلند ترین مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں تک انسان کی رسائی ہے۔ IKDS 197.3

    صلیب کے ذریعہ ہی ہم سیکھتے اور جانتے ہیں کہ آسمانی باپ ہمیں بے حد محبت کرتا ہے۔ کیا یہ ہمیں عجیب لگتا ہے جب پولُس پُکار اٹھا “لیکن خُدا نہ کرے کہ میں کسی چیز پر فخر کروں سوا اپنے خُدا وند یسوع مسیح کی صلیب کے جس سے دنیا میرے اعتبار سے مصلُوب ہوئی اور میں دنیا کے اعتبار سے “۔ گلتیوں ۱۴:۶۔ آج ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم صلیب کی شان بڑھائیں اور اپنے آپ کو پوری طرح اس کو دے دیں جس نے خُود کو ہمارے لئے دے دیا ہے۔ تب وہ نُور جو کلوری سے تاباں ہوتا ہے ہمارے چہرے سے منعکس ہو گا۔ اور ہم اُس نُور کو اُن رُوحوں تک پہنچا سکیں گے جو ظُلمات میں بیٹھی ہیں۔ IKDS 197.4

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents